*آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت
سرزمین عرب میں موجود باقی مذاہب اور ادیان کا مختصر سا جائزہ:*
سابقہ اقساط میں مشرکین حجاز و عرب کے عقائد اور بت پرستی کی تاریخ اور مذھب یہودیت و عیسائیت کا تذکرہ کیا گیا، اس قسط میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب میں موجود باقی مذاھب اور ادیان کا ایک مختصر جائزہ پیش کریں گے۔
*آتش پرست:*
ایران و عراق کی سرحد کے پاس آباد عرب قبائل ایرانیوں کے مذھب آتش پرستی سے بہت متاثر ہوئے، اہل ایران کی طرح یہ بھی نیکی اور بدی کے دو الگ الگ خداؤں کے قائل تھے اور اہل ایران کی طرح آگ کو خدا کا ظہور مانتے اور اس کی پوجا کرتے تھے۔
*صابی۔*
عرب جاہلیت میں ایسے لوگ بھی تھے جن میں ستارہ پرستی کا چرچا تھا اور یہ ستاروں کی پوجا کرتے تھے، غالباً ان کا مذہب وادی دجلہ و فرات کی قدیم تہذیبوں کی باقیات میں سے تھا، ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا مذہب الہامی مذہب ہے اور وہ حضرت شیث علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام کے پیروکار ہیں، ان کے ہاں سات وقت کی نماز اور ایک قمری مہینہ کے روزے بھی تھے، ان کو مشرک عرب معاشرہ صابی یعنی بے دین کہہ کر پکارتا تھا، یمن کا مشہور قبیلہ "حمیر" سورج کی پوجا کرتا تھا، قبیلہ اسد سیارہ عطارد کی اور قبیلہ لحم و جزام سیارہ مشتری کو دیوتا مان کر پوجتے تھے، بعض لوگ قطبی ستارہ کے پجاری تھے اور قطب شمالی کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے تھے، یہ لوگ خانہ کعبہ کی بھی بہت تکریم کرتے تھے۔
*دہریت:*
ان تمام مذاہب کے ساتھ ساتھ عرب میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے تھے جو سرے سے مذہب اور خدا پر یقین ہی نہ رکھتے تھے، یہ نہ بت پرست تھے اور نہ کسی الہامی مذہب کے قائل تھے، ان کے نزدیک خدا، حشر و نشر، جنت دوزخ اور جزا وسزا کا کوئی وجود نہ تھا، یہ دنیا کو ازلی و ابدی قرار دیتے تھے۔
*مسلک توحید کے علم بردار:*
عرب معاشرہ میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اپنی فطرت سلیم اور قلبی بصیرت کی بدولت توحید خالص تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے، یہ لوگ ایک خدا کے قائل تھے اور شرک و بت پرستی سے نفرت کرتے تھے، ان میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سگے چچا زید بن عمر بن نفیل اور عبیداللہ بن جحش مشہور ہیں، دین حق کی تلاش میں سرگرداں ان لوگوں میں سے ورقہ بن نوفل بلآخر عیسائی ہوگئے، یہ وہی ورقہ بن نوفل ہیں، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہونے پر آپ کی نبوت کی تصدیق کی تھی۔
عبیداللہ بن جحش اسلام کے بعد مسلمان ہوگئے، لیکن حبشہ ہجرت کی تو وہاں بدقسمتی سے مرتد ہوکر عیسائی ہوگئے، جبکہ ان میں زید بن عمر بن نفیل کو بہت اونچا مقام حاصل ہے، حالاں کہ ان کو اسلام نصیب نہیں ہوا، کیونکہ وہ پہلے ہی وفات پاگئے تھے، لیکن ان کی فضیلت کا اندازہ اس حدیث مبارکہ کے مفہوم سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب قیامت کے دن ہر امت اپنے نبی کی قیادت میں اٹھائے جائی گی تو زید بن عمر بن نفیل اکیلے ایک امت کے طور پر اٹھائے جائیں گے۔
زید بن عمر بن نفیل نے بت پرستی، مردار خوری، خون ریزی اور دیگر تمام معاشرتی خباثتوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اور جب ان سے ان کے مذہب کے متعلق پوچھا جاتا تو آپ جواب دیتے کہ:
" اعبد رب ابراھیم " میں ابراھیم کے رب کی پرستش کرتا ہوں۔
آپ بت پرستی سے سخت بیزار تھے اور خانہ کعبہ میں بیٹھ کر قریش کو کہتے کہ میرے سوا تم میں ایک بھی شخص دین ابراہیمی پر نہیں ہے، آپ قوم کو بت پرستی سے منع کرتے رہتے تھے، گو عرب میں ہر قسم کے دین موجود تھے، مگر ان کی اصلی صورت اتنی مسخ ہوچکی تھی کہ کفر و شرک اور دین میں امتیاز کرنا مشکل ہوچکا تھا، توحید جو ہر الہامی مذہب کا خاصہ تھا، اس کا کسی مذہب میں کہیں نام و نشان تک نہ تھا اور کفر و شرک و توہم پرستی کا اندھیرا صرف عرب ہی نہیں، تمام معلوم دنیا پر چھایا ہوا تھا، غرض تمام ہی دنیا ضلالت و گمراہی کی دلدل میں غرق ہوچکی تھی۔ تب خدائے بزرگ و برتر کو اہل زمیں کی اس پستی وزبوں حالی پر رحم آیا اور اس نے ان میں اپنا عظیم تر پیغمبر مبعوث فرمایا۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں