سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 95


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 95

قباء میں تشریف آوری:

8 ربیع الاول 14 نبوت یعنی 1 ہجری مطابق 23 ستمبر 622ء بروز دوشنبہ یہ مقدس قافلہ قبا پہنچا، مکہ سے قبا تک کا سفر آٹھ روز میں طے ہوا، اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بغیر کسی کمی بیشی کے ٹھیک ترپن (53) سال ہوئی تھی اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا آغاز 9 ربیع الاول 41 عام الفیل سے مانتے ہیں، ان کے قول کے مطابق آپ کی نبوت پر ٹھیک تیرہ سال پورے ہوئے تھے، البتہ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا آغاز رمضان 41 عام الفیل سے مانتے ہیں، ان کے قول کے مطابق بارہ سال پانچ مہینہ اٹھارہ دن یا بائیس دن ہوئے تھے۔

قبا کی بستی مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے، جہاں قبیلہ اوس کے خاندان آباد تھے، ان میں سب سے ممتاز عمرو بن عوف کا خاندان تھا، جس کے سردار اس وقت حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ تھے۔

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مسلمانانِ مدینہ نے مکہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی خبرسن لی تھی، اس لیے لوگ روزانہ صبح ہی صبح نکل جاتے تھے اور شام تک ایک سیاہ چٹان پر جسے "حرّہ العصبہ" کہتے ہیں، آ کر بیٹھ جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ تکتے رہتے، جب دوپہر کو دھوپ سخت ہوجاتی تو واپس پلٹ آتے۔

ایک روز طویل انتظار کے بعد واپس پلٹ کر لوگ اپنے اپنے گھروں کو پہنچ چکے تھے کہ ایک یہودی اپنے کسی ٹیلے پر کچھ دیکھنے کے لیے چڑھا، کیا دیکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء سفید کپڑوں میں ملبوس جن سے چاندنی چھٹک رہی تھی، تشریف لارہے ہیں، اس نے بیخود ہوکر نہایت بلند آواز سے کہا: "عرب کے لوگو! یہ رہا تمہارا نصیب، جس کا تم انتظار کررہے تھے۔"

یہ سنتے ہی مسلمان ہتھیاروں کی طرف دوڑ پڑے اور ہتھیار سے سج دھج کر استقبال کے لیے امنڈ پڑے اور حرہ کی پشت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا۔ (صحیح بخاری ۱/۵۵۵)

ابن قیم کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی بنی عمرو بن عوف میں شور بلند ہوا اور تکبیر سنی گئی، انصار ہر طرف سے جوق در جوق آتے اور نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے جوش عقیدت کے ساتھ سلام عرض کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر تحیۂ نبوت پیش کیا اور گردوپیش پروانوں کی طرح جمع ہوگئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سکینت چھائی ہوئی تھی اور یہ وحی نازل ہورہی تھی :

*فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِ‌يلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ‌ (۶۶: ۴)*

*''اللہ آپ کا مولیٰ ہے اور جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد فرشتے آپ کے مدد گار ہیں۔''*

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ لوگوں سے ملنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ داہنے جانب مڑے اور بنی عمرو بن عوف میں تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قباء میں حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام فرمایا، یہ دوشنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا، حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے مکان میں حضرت ابو عبیدہ، حضرت مقداد، حضرت خبّاب، حضرت سہیل، حضرت صفوان، حضرت عیاض، حضرت وہب بن سعد، حضرت معمر بن ابی برح، حضرت عمیر بن عوف رضی اللہ عنہم پہلے سے مقیم تھے، ابن کثیر کا بیان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے قبل ہی حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ مسلمان ہوچکے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں آنے کے بعد مسلمانوں میں سب سے پہلے حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے۔

لوگوں سے ملاقات حضرت سعد بن خشیمہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر ہوتی، یہ مکان "منزل العزآب" (کنواروں کا گھر) کے نام سے مشہور تھا، اس لئے کہ وہ غیر شادی شدہ تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آنے والوں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چپ چاپ بیٹھے تھے، انصار کے جو لوگ آتے تھے، جنہوں نے رسول اللہ کو دیکھا نہ تھا، وہ سیدھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سلام کرتے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ آگئی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چادر تان کر آپ پر سایہ کیا، تب لوگوں نے پہچانا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال اور دیدار کے لیے سارا مدینہ امنڈ پڑا تھا، یہ ایک تاریخی دن تھا، جس کی نظیر سرزمین مدینہ نے کبھی نہ دیکھی تھی، آج یہود نے بھی "حبقوق نبی" کی اس بشارت کا مطلب دیکھ لیا تھا کہ:

*"اللہ جنوب سے اور وہ جو قدوس ہے، کوہ فاران سے آیا۔"*
(زاد المعاد ۲/۵۴ صحیح بخاری ۱/۵۵۵ کتاب بائبل , صحیفہ حبقوق ۳/۳)

ادھر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مکہ میں تین روز ٹھہر کر اور لوگوں کی جو امانتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں، انہیں ادا کرکے پیدل ہی مدینہ کا رخ کیا اور قباء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملے اور حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے یہاں قیام فرمایا۔

مسجد قبا کی تعمیر:

صحیح بخاری کے بموجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام قبا میں چودہ روز رہا، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا کام مسجد کا تعمیر کرانا تھا، حضرت کلثوم رضی اللہ عنہ کی ایک افتادہ زمین تھی جہاں کھجوریں سکھائی جاتی تھیں، یہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے مسجد قبا کی بنیاد ڈالی اور اس میں نماز بھی پڑھی۔

مسجد قبا اسلام کی پہلی مسجد ہے جس کا سنگ بنیاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے رکھا تھا، سب مسلمانوں نے جوش وخروش کے ساتھ اس کی تعمیر میں حصہ لیا، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی عادت کے مطابق عام مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو گئے اور پتھروں کو اٹھانے اور ردّے جمانے میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے، یہی وہ مسجد ہے جس کی شان میں قرآن مجید کی سورۂ توبہ کی ۱۰۸ ویں آیت میں فرمایا گیا:

"(اے پیغمبر) تم اس (نام نہاد) مسجد (ضرار) میں کبھی (نماز کے لئے) کھڑے نہ ہونا، البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، وہ واقعی اس لائق ہے کہ تم اس میں (نماز کے لئے) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک صاف رہنے کو پسند کرتے ہیں اور ﷲ پاک صاف رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (سورۂ توبہ : ۱۰۸)

اس شرف کی بناء پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے ہر ہفتہ کو قباء تشریف لایا کرتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہفتہ میں دو دن تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس کے خس و خاشاک دور کرکے اور جاروب کشی کرکے برکت اندوزی فرماتے تھے۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفیٰ مولانا محمد ادریس کاندہلوی
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں