قرآن فہمی سیریز --- 06


 قرآن فہمی سیریز


از ڈاکٹر فرحت ہاشمی


فاسق اور اس کی صفات 


سورہ البقرہ کی آیت ۲۶ میں اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں: 


۔۔۔۔وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَۙ۔ 

۔۔ اور نہیں گمراہ کرتا اس سے مگر نافرمان


الْفٰسِقِیْنَۙ کا لفظ فسق سے مأخوذ ہے۔ جس کے لغوی معنی باہر نکل جانے کے ہیں۔ اور اس سے مراد گناہ اور نافرمانی کے کام کر کے اللہ سبحانہ و تعالی کی اطاعت سے باہر نکل جانا ہے۔ 


یعنی فاسق اللہ سبحانہ و تعالی کی بنائی گئی حدود کی احتیاط نہیں کرتا اور بغیر حدود کے تعین کے جو اس کا دل کرتا ہے وہ کرتا چلا جاتا ہے۔ 


فسق کی ۲ اقسام ہیں۔ 

فسق اکبر: اس سے مراد ایسا عمل کرنا جس کی وجہ سے آدمی اسلام کے دائرے سے خارج ہو جاتا ہے۔ 

فسق اصغر: اس سے مراد اسلام کے دائرے میں رہ کر کوئی نافرمانی کرنا ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات نہ ماننا۔ 


پھر ایسا شخص جو عمل نہیں کرنا چاہتا ہو اور ایسے طریقے ڈھونڈتا رہے جس سے اس کو عمل نہ کرنا پڑے تو پھر اللہ سبحانہ و تعالی اس کو بھٹکا دیتا ہے۔ 


اس طرح کے کردار کی صفات کو اللہ سبحانہ و تعالی سورہ البقرہ کی آیت ۲۷ میں بیان فرمارہے ہیں۔ 


الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ١۪ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۔ 

وہ جو توڑتے ہیں عہد اللہ کا بعد اس کے مضبوط کرنے کے، اور وہ کاٹتے ہیں جو حکم دیا ہو اللہ نے اس کا کہ وہ جوڑا جائے اور وہ فساد کرتے ہیں زمین میں، یہی لوگ ہیں وہ جو خسارہ پانے والے ہیں۔ 


اس آیت میں فاسقین کے ۳ اوصاف بتائے گئے ہیں۔ 

۱- اللہ سبحانہ و تعالی سے کیے گئے عہد کو توڑنا  

۲- اللہ سبحانہ و تعالی نے جس چیز کو جوڑنے کا حکم دیا ہے اس کو کاٹنا۔ 

۳- زمین میں فساد کرنا 


۱- اللہ سبحانہ و تعالی سے کیے گئے عہد کو توڑنا: 

فاسقین اللہ سبحانہ و تعالی کے ساتھ کیے گئے عہد کو مضبوط کرنے کے بعد توڑدیتے ہیں۔ یہاں پر عہد سے مراد ہر طرح کا معاہدہ ہے۔ جیسے:

▪️اللہ اور بندے کے درمیان کیا گیا عہد الست 

▪️اللہ کی اطاعت کا عہد

▪️نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا عہد جو ہر نبی نے اپنی قوم سے لیا تھا 

▪️انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ کیا گیا عہد 


ہمارے دین میں عہد توڑنے کی ممانعت ہے۔

وَلَا دِینَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَہ“(سنن بیھقی-۱۲۶۹۰)

جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔ 


عہد کے توڑنے کو منافقین کا وصف کہا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

۳ خصلتیں جس میں ہوں وہ منافق ہے خواہ نماز پڑھتا ہو ، روزہ رکھتا ہو ، اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔ ان میں سے ایک خصلت عہد کی پاسداری نہ کرنا ہے۔ [صحیح مسلم]


عہد شکنی کی مثالیں: 

کاروبار میں ڈیلیوری کے اوقات کا عہد کر کے تاخیر کرنا

کسی کام کو کرنے کا عہد کر کے اس کو ٹال مٹول کرنا

ملاقات کا وقت مقرر کرکے اس وقت سے دیر سے آنا


جب کوئی شخص عہد شکنی کرتا ہے تو اس کے اندر نفاق کا بیج پڑجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو قیامت کے دن شرمندگی اٹھانا ہوگی۔ 


۲- اللہ سبحانہ و تعالی نے جس چیز کو جوڑنے کا حکم دیا ہے اس کو کاٹنا۔ 

فاسق کی دوسری صفت میں اللہ سبحانہ و تعالی نے جس چیز کو جوڑنے کا حکم دیا ہے اس کو کاٹنا شامل ہے۔


اللہ نے کن چیزوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے؟ 

۱- اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنا

۲- قرآن کے ساتھ تعلق جوڑنا

۳-نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق جوڑنا

۴- رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا 


کن رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنی ہے؟ 

رشتہ داروں سے تعلق جوڑنے (یعنی صلہ رحمی) میں وہ تمام رشتے شامل ہیں جو نسب سے ماں یا باپ کی طرف سے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشتے چوتھے باب تک ہیں۔ 


ماں باپ، بہن اور اس کی اولاد،  بھائی اور اس کی اولاد

دادا دادی، چاچا اور اس کی اولاد، پھوپھو اور اس کی اولاد

نانا نانی، خالہ اور اس کی اولاد، ماموں اور اس کی اولاد 

پر دادا پر دادی اور ان کی اولاد 

پر نانا اور پر نانی اور ان کی اولاد 


ان تمام رشتوں کے ساتھ صلہ رحمی لازمی ہے۔ 


ابو ذر غفاری سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں صلہ رحمی کروں اگرچہ وہ (رشتہ دار) مجھ سے منہ پھیر لیں۔ 


سیدنا سوید بن عامر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صلہ رحمی کو تروتازہ رکھو، اگرچہ سلام کے ذریعہ ہی ہو۔ (سلسلہ صحیحہ ۲۳۷۵)


جسے یہ بات خوشگوار لگے کہ اس کے رزق میں اضافہ ھو اور اس کی عمر دراز ہو ، اسے صلہ رحمی کرنی چاہئیے " ۔ ( بخاری و مسلم ) 


 قطع رحمی ملعون فعل ہے۔ 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔''

(جامع ترمذی ۱۹۰۹)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے بھائی سے تین دن  سے زیادہ ترک تعلق رکھے، پس جس نے تین روز سے زیادہ ترک تعلق رکھا (اسی دوران) اسے موت آگئی تو وہ آگ میں داخل ہوگا۔ (البخاري ومسلم)


ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بنی آدم کے اعمال جمعرات کی شام اور جمعہ کی رات کو اللہ تعالیٰ کے پاس پیش کئے جاتے ہیں تو آپ قطع رحمی کرنے والے کے عمل کو قبول نہیں کرتے۔ (مسند احمد:9883)


یاد رہے کہ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چُکائے، بلکہ جوڑنے والا وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے جوڑ دے۔ 


فاسقین کی تیسری صفت زمین میں فساد پھیلانا ہے۔ یہ فساد حسی اور معنوی دونوں طرح ہوسکتا ہے۔ اس کے مثالیں مندرجہ ذیل ہیں: 


🔺مکانوں کو ڈھانا 

🔺درخت کاٹنا 

🔺اللہ کی نافرمانی کرنا۔ 

🔺ایمان نہ لانا  

🔺خون بہانا 

🔺عیبوں کی ٹوہ لگانا 

🔺چغلی کرنا

🔺 ناپ تول میں کمی


ہمارے کرنے کے کام: 

☘️ایسی باتوں کو چھوڑدیں جس میں اللہ سبحانہ و تعالی پر الزام لگائے جائیں کہ وہ ہمیں ہدایت نہیں دینا چاہتا۔ 

☘️فسق سے بچنے کے لیے تقوی اختیار کریں جو سچائی کے ساتھ احتیاط والی زندگی بسر کرنا ہے۔ 

☘️فاسقین کی صفات سے بچنے کی منصوبہ بندی کریں۔ 

☘️اپنے معاہدوں کو اہمیت دیں اور ان کو پورا کریں۔ 

☘️ اپنے رشتے داروں کی فہرست بنائیں اور ان کو ترو تازہ رکھنے کا سلسلہ شروع کریں۔ 

☘️ایسے کاموں سے بچیں جن سے زمین میں فساد پھیلے۔

  قرآن فہمی سیریز از ڈاکٹر فرحت ہاشمی فاسق اور اس کی صفات  سورہ البقرہ کی آیت ۲۶ میں اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:  ۔۔۔۔وَ مَا یُضِلُّ بِه...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 15

 


تدبر سورۃ الرحمن 


از استاد نعمان علی خان 


پارٹ 15 آیات(24-25)


 وَلَـهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَاٰتُ فِى الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ 

 اور سمندر میں پہا ڑوں جیسے کھڑے ہوئے جہاز اسی کے ہیں. 

 

 بڑے بڑے بحری جہاز سمندر کی سطح پر تیرتے ہیں، اور ایک چھوٹا سا موتی سمندر کی تہہ میں ڈوبا ہوا رہتا ہے. جسے تم سوچتے ہو کہ وہ تیر سکے گا وہ ڈوب جاتا ہے  اور جس کے بارے میں تم خیال کرتے ہو کہ وہ ڈوب جائے گا اسے اللہ سمندر کی سطح پر رکھتا ہے اور ڈوبنے نہیں دیتا. 


 َالْاَعْلَامِ کا مطلب جہاز اور پہاڑ دونوں ہو سکتے ہیں. جب آپ بڑے بڑے بحری جہازوں کو ساحلِ سمندر پر لنگر انداز ہوتے دیکھیں تو آپ کو اللہ کی بڑائی بیان کرنی چاہیے. 

  

 فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ 

 پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے


 تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے  جھٹلاؤ گے؟


جاری ہے۔۔۔۔۔

  تدبر سورۃ الرحمن  از استاد نعمان علی خان  پارٹ 15 آیات(24-25)  وَلَـهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَاٰتُ فِى الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ   اور سمندر م...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 14

 


تدبر سورۃ الرحمن


از استاد نعمان علی خان 


پارٹ 14 آیات(22-23)


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم


 يَخۡرُجُ مِنۡهُمَا اللُّـؤۡلُـؤُ وَالۡمَرۡجَانُ‌ۚ‏ ﴿۲۲﴾ 

 فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿۲۳﴾ 


دونوں دریاؤں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں ﴿۲۲﴾

تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ ﴿۲۳﴾


 اللہ نے پہلے بات کی کہ کیسے دو سمندر ٹکرا رہے ہیں۔ اور دونوں اللہ کے حکم سے ایک دوسرے پر چڑھائی نہیں کر رہے۔


 مَرَجَ الۡبَحۡرَيۡنِ يَلۡتَقِيٰنِۙ‏ ﴿۱۹﴾

اسی نے دو دریا رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں ﴿۱۹﴾


 اس میں جو لفظ ہے يَلۡتَقِيٰنِۙ‏۔ اس کا روٹ ورڈ ہے التقاء۔

 یہ لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوتا ہے ''جب دو فوجیں آپس میں ٹکرا رہی ہوتی ہیں ''۔

یعنی بہت بڑی بڑی طاقتیں ہیں جو آپس میں ٹکرا رہی ہیں۔ ایک جنگ کا سماں کھینچا گیا ہے یعنی دو پانیوں کے درمیان ایک جنگ ہو رہی ہے وہ ایک دوسرے پر غالب نہیں آ سکتے کیونکہ اللہ نے دونوں کو روکا ہوا ہے۔


 اب اس کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ اب اللہ پاک آیت نمبر 22 میں کہتے ہیں کہ اگر دونوں سمندروں میں پانی کی گہرائی میں اترو تو موتی اور مرجان نکلتے ہیں۔یہ نازک سی شے بالکل گہرائی کے اندر ڈوبی ہوئی ہے ۔


 پھر اس کے بعد کہا کہ تمہیں اندازہ ہے کہ کوئی بہت عظیم طاقت ہو اور اس میں تباہ وبرباد کرنے کی قوت ہو۔ بڑے سے بڑے قلعے اور عمارتیں پانی کی طاقت کے آگے کچھ بھی نہیں ہیں ۔اسی طاقتور پانی میں اللہ نے اتنی نازک سی شے کو برقرار رکھا ہوا ہے اور وہ بھی دونوں سمندروں کے اندر..!


 دو سمندروں کے درمیان ایک بہت بڑی جنگ ہو رہی ہے لیکن لُّـؤۡلُـؤُ اور مرجان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ،بالکل محفوظ ہیں۔

سبحان اللہ 


 وہ نازک سے سمندر کی تہہ میں بڑھ رہے ہیں ۔ان کو نقصان نہیں پہنچ رہا یہ اللہ پاک کی'' طاقت کا بیلنس'' ہے ۔ وہ جہاں تک چاہتا ہے اپنی قوت استعمال کرتا ہے اور جہاں تک چاہتا ہے اس کو روک لیتا ہے ۔ باریکی اور لطافت سے کام لیتا ہے۔


 اللہ کہہ رہے ہیں کہ اے انسانو تمہاری کیا حیثیت ہے ؟ تمہاری حیثیت ان موتیوں سے زیادہ نہیں ہے۔ میں تم سے نرمی سے پیش آرہا ہوں ،نرمی کا فائدہ نہ اٹھاؤ۔

 اللہ کے ہاتھ میں بڑی بڑی طاقتیں ہیں وہ چاہتا تو تم بچ نہیں سکتے ۔ اس سے کچھ سیکھو اس کی طاقت اور رعب سے ڈرو۔


تم اللہ کی کون کون سی طاقتوں اور قدرتوں اور عجائب کا انکار کرو گے۔


جاری ہے...

  تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خان  پارٹ 14 آیات(22-23) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم   يَخۡرُجُ مِنۡهُمَا اللُّـؤۡلُـؤُ وَ...

قرآن فہمی سیریز ۔۔۔ 05

 


قرآن فہمی سیریز


از ڈاکٹر فرحت ہاشمی


ہماری زندگی کا اعلی ترین مقصد اپنے رب کی عبادت کرنا ہے 


سورہ البقرہ کی آیت ۲۱ میں اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:


یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ. 

اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم بچ جاؤ۔ 


اس آیت میں تمام لوگوں کو پکار کر ان کے پیدا کیے جانے کے مقصد کی طرف بلایا گیا ہے۔ جو ہے "اپنے رب کی عبادت کرنا"


اعْبُدُوْا کے معنی کیا ہیں؟

ابن عباس کہتے ہیں کہ اعْبُدُوْا کا مطلب ہے کہ اپنے رب کو ایک ماننا۔ 


اعْبُدُوْا کا لفظ عبادت سے ہے۔ عبادت ہر اس چیز کا جامع نام ہے جس کو اللہ سبحانہ و تعالی پسند کرتے ہیں اور جس سے وہ راضی ہوتے ہیں۔ خواہ وہ ظاہری ہو یا باطنی ہو۔ اقوال میں سے ہو یا افعال میں سے ہو۔ 


عبادت کے ۳ ارکان ہوتے ہیں۔ 


۱- کمال درجے کی محبت ہونا

۔۔۔۔۔وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ۔۔۔۔ (البقرہ ۲۵)

اللہ سبحانہ و تعالی کے بندے دنیا میں جن چیزوں سے محبت کرتے ہیں ان میں سے سب سے زیادہ اللہ سبحانہ و تعالی سے محبت کرتے ہیں۔ 


۲- کمال درجے کی امید ہونا 

۔۔۔۔۔۔۔۔وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ۔۔۔۔(الاسراء ۵۷)

اللہ سبحانہ و تعالی کے بندے صرف اسی سے رحمت کی امید رکھتے ہیں۔ 


۳- کمال درجے کا خوف ہونا 

 وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ۔۔۔۔۔ (الاسراء ۵۷)

اللہ سبحانہ و تعالی کے بندے صرف اسی کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ 


اللہ سبحانہ و تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عبادت کا حکم دیا۔ 

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ (الحجر 99)


نبی ﷺ نے اپنے رب کے حکم کو اپنی موت کی سکرات کے وقت بھی مختلف عبادات کرکے پورا کیا۔ جیسا کہ:


۱- مرض الموت میں نماز پڑھنا اور پڑھانا

نبی  ﷺ مرض الموت میں بھی سر پر پٹی باندھ کر مسجد کی طرف نکلے اور دو لوگوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر  پاؤں گھسیٹ گھسیٹ کر چل رہے تھے۔ ایسی حالت میں کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھا سکتے تھے تو بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ اور اپنے فرض کو آخری دم تک پورا کیا۔ کیونکہ نماز عبادات میں سے سب سے پہلی عبادت ہے۔ توحید کے بعد سب سے پہلا کرنے کا کام نماز کی ادائیگی ہے۔ 


۲- موت کی سکرات میں مسواک کرنا اور زندگی کے آخری لمحوں میں نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا 


نبی  ﷺ موت کی سکرات میں بھی مسواک کرکے اپنے رب کی عبادت کر رہے تھے کیونکہ مسواک کرنے سے رب کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ اور جب نبی  ﷺ دنیا سے رخصت ہونے والے تھے اس وقت نصیحت بھی فرمارہے تھے۔ 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں میں نے کبھی بھی آپ  ﷺ کو اس دن جیسی اچھی مسواک کرتے نہیں دیکھا اور نبی  ﷺ  موت کی سکرات میں نیکی کا حکم دے رہے تھے اور برائی سے روک رہے تھے۔ آپ ﷺ فرمارہے تھے "نماز، نماز اور تمھارے لونڈی غلام۔"


۳- موت کی سختیوں کے وقت مسلسل ذکر الہی کرنا اور دعا مانگنا

رسول اللہ  ﷺ موت کی حالت میں کثرت سے ذکر الہی کر رہے تھے اور دعا مانگ رہے تھے کیونکہ دعا عبادت ہے۔ بخاری کی حدیث میں آتا ہے کہ : 

  آپ ﷺ کے سامنے پانی کا ایک برتن رکھا ہوا تھا اس پانی میں آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ ڈالتے اور اپنے چہرہ مبارک پر پھیر لیتے تھے اور فرماتے لاالہ الا اللہ، موت کے وقت سختیاں ہیں پھر آپ ﷺ نے  ہاتھ اٹھا کر یہ کہنا شروع کیا (اے اللہ مجھ کو رفیق اعلی میں شامل فرما!) یہاں تک کہ روح پرواز کرگئی اور آپ ﷺ کے دست مبارک نیچے گرپڑے۔ 


عبادات کی مثالیں 

- رب کی رضا کا ہر کام عبادت ہے۔ 

- مثلا مخصوص عبادات میں نماز،   

     روزہ، حج ادا کرنا 

- مالی عبادات میں زکاۃ، صدقات،       

    فی سبیل اللہ خرچ کرنا ، رشتے      

     داروں کو دینا 

- ہر ایک کو خیر و بھلائی پہنچانا 

- سلام کو عام کرنا

- کھانا کھلانا


عبادت کی مثال میں ہر وہ کام شامل ہے جو جب بھی کیا جائے اور جہاں بھی کیا جائے وہ رب کی پسند کے مطابق ہو۔ اور جس چیز میں شک ہونے لگے کہ یہ رب کی پسند کا نہیں اس کو چھوڑدیا جائے۔ 


عبادت کے فائدے

عبادت سے انسان کو  دنیا اور آخرت کے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ

🔹جسم کا صحت مند رہنا

🔹اطمینان قلب، سکون اور راحت کا نصیب ہونا 

🔹علم کے حصول سے زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھنا 

🔹برائی اور بے حیائی سے رک جانا 

🔹خیر و برکت کے دروازے کھلنا 

🔹اللہ کی حفاظت ملنا

🔹شہروں اور بندوں میں اللہ کی رحمتیں اور برکتیں آنا

🔹انسان کے چہرے پر نور آنا 

🔹رزق میں فراخی ہونا 

🔹جنت کے دروازے کھلنا 


ہماری عبادت کے بارے میں قبر میں بھی سوال ہوگا۔ 

حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ بیشک مومن کو اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے تو فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں "ما کنت تعبد" تم کس کی عبادت کرتے تھے۔ پس اللہ نے اگر اسے ہدایت دی ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے "کنت اعبد اللہ" میں اللہ کی عبادت کرتا تھا۔ 


ہم عبادت گزار کیسے بنیں؟ 

اگر ہم عبادت گزار بننا چاہتے ہیں تو ہمیں مندرجہ ذیل کام کرنے ہیں :

☘️ ہمیں اپنی زندگی کا جائزہ لینا ہے کہ ہماری زندگی میں کون سے کام  ہمارے رب کو پسند ہیں اور کون سے ہمارے رب کو ناپسند ہیں۔ پھر ان کاموں کو چھوڑدینا ہے جو رب کو ناپسند ہیں۔  

☘️  اپنی زندگی میں آپ ﷺ کی اتباع کرنی ہے کیونکہ وہ ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہیں۔ 

☘️ ہمیں ہر وقت اپنے رب کا بندہ بن کر رہنا ہے ایسا نہ ہو کہ کبھی رب کے بن جائیں اور کبھی شیطان کے بندے بن جائیں۔ یہاں تک کہ اپنی موت کے آخری لمحوں تک اس بات کو نہیں بھولنا کہ ہم رب کے بندے ہیں۔ ہم رب کی عبادت کے لیے بھیجے گئے ہیں اور ہمارا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو۔

☘️ ایسی عبادت والی زندگی کے حصول کے لیے ہمیں اپنی زندگی کو منظم کرنا ہے اور اپنے دنوں کی منصوبہ بندی نمازوں کے اوقات کے گرد کرنی ہے۔ اور ہر چیز کا  وقت مقرر رکھنا ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں: 

اے ابن آدم! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جاؤ میں تیراسینہ غنیٰ سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کو تجھ سے دور رکھوں گا۔

اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تیرے دونوں ہاتھوں کو اشغال سے بھردوں گا۔ اور تیرا فقر دور نہیں کروں گا۔ [جامع ترمزی 2466]

  قرآن فہمی سیریز از ڈاکٹر فرحت ہاشمی ہماری زندگی کا اعلی ترین مقصد اپنے رب کی عبادت کرنا ہے  سورہ البقرہ کی آیت ۲۱ میں اللہ سبحانہ و تعالی ...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 13

 


تدبر سورۃ الرحمن 


از استاد نعمان علی خان


پارٹ 13 آیات(21-19)


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم

          

  مَرَجَ ٱلْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَان ِ 

دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں


    بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ 

پھر بھی اُن کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے


پہلے اللہ نے بات کی زمانوں کی، وقت کی، اب بات کی ہے، فاصلوں کی۔یعنی یہ طاقت کے مختلف پہلو ہیں اور ایسی ایسی طاقتیں ہیں ، جس کا انسان کبھی اندازہ بھی نہیں کرسکتا ہے۔۔


اس آیت میں اللہ نے اپنی قوت کا ذکر کیا ہے کہ؛

 اُس نے دو بڑے سمندروں کو آپس میں ملا دیا اور اُن کے درمیان دیوار کھڑی کردی۔


"برزخ" علیحدگی کو کہتے ہیں ۔یعنی ایسی رکاوٹ "جس کو وہ دو بڑے سمندر پار نہیں کر سکتے "۔۔


ایک عجیب منظر ہے, Cape town south Africa میں ۔ وہاں ؛( Pacific or Atlantic Oceans ) آپس میں ملتے ہیں اور جب یہ دونوں ملتے ہیں دونوں کا رنگ مختلف ہے، مچھلیوں کی اقسام الگ ہے، پانی کی سمت الگ ہے۔

  پانی کے  درجہ حرارت میں 10 سے 12 ڈگری کا فرق ہے ۔

Atlanic Ocean Has Cold Water ..! Pacific Ocean Has Hot Water..!

دور تک دونوں سمندروں کے درمیان ایک لمبی سی لکیر نظر آتی ہے۔۔ نیچے کوئی زمین بھی نہیں ہے۔۔

دو "بحر" آپس میں ملے ہوئے ہیں لیکن مکس (Mix) نہیں ہوتے ، دونوں میں علیحدگی ہے، رکاوٹ ہے ۔ 


" کون سی ایسی طاقت ہے جس نے دو سمندروں کو ملنے سے روکا ہوا ہے؟؟ "


اور پانی کے بارے میں ایک بات سمجھ لیں۔ جس طاقت کو دنیا کی کوئی فوج نہیں گرا سکتی تھی۔

"فرعون کو" ،اُس طاقت کو پانی نے گرا دیا۔ 


پانی ایسی طاقت  ہے جس کے آگے کوئی عمارت، کوئی فوج، کوئی طاقت کچھ کر سکتی، وہ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے، جب سونامی آتا ہے، وہ سارے گھر اور عمارتیں سب تباہ کردیتا ہے۔


پانی عظیم طاقت اور وہ بھی بے انتہا مقدار میں، دو بڑے سمندر ہوں ،

وہ آپس میں ٹکرا رہے ہیں اور اللہ نے دونوں کو قابو کیا ہوا ہے، ایک بحر دوسرے سے مل نہیں سکتا، درمیان میں ایک حد مقرر ہے ۔


اللہ کی طاقت کا اندازہ کریں ،جس نے دو بحروں کو ملنے سے روکا ہوا ہے ،وہ اس کے کنٹرول میں ہیں ،

 اللہ ہم سب سے کہہ رہا ہے کہ تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہیں کنٹرول نہیں کر سکتا؟؟

 

 تمہارے اندر بہت طاقت ہے کہ تم میری مقرر کی ہوئی حدیں پار کر لوگے؟

میں "دو سمندروں کو کنٹرول" کرسکتا ہوں اب تمہیں کونسی قدرت کا انکار ہے؟ 

     

  فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 

پس اے جن و انس، تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلاؤ گے؟


دیکھیں بات کس طرح کی جارہی ہے۔۔ کیسے انسان کو اپنی اوقات دکھائی جا رہی ہے۔۔


ہم اللہ کی نافرمانی کیسے کر سکتے ہیں؟

 کیا ہمیں اس کی طاقت اور قدرت کا انداز نہیں ہے؟ 

ہم اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کو کیسے پار  کرسکتے ہیں؟


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

  تدبر سورۃ الرحمن  از استاد نعمان علی خان پارٹ 13 آیات(21-19) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم              مَرَجَ ٱلْبَحْرَيْنِ يَل...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 12

 تدبر سورۃ الرحمن


از استاد نعمان علی خان


پارٹ 12 آیات(17-18)


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم

   

  رَبُّ ٱلۡمَشۡرِقَيۡنِ وَرَبُّ ٱلۡمَغۡرِبَيۡن 

    فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَان 


وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک (ہے).

 پس اے جن و انس، تم اپنے رب کے کن کن عجائب قدرت کو جھٹلاؤ گے؟


قرآن میں تین اسلوب استعمال ہوئے ہیں 


1)رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِب -

 مشرق اور مغرب کا رب 


2)فَلَ أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَـرِقِ وَالْمَغَـرِبِ

کئی مشرقوں اور کئی مغربوں کا رب 


3)رَبُّ ٱلۡمَشۡرِقَيۡنِ وَرَبُّ ٱلۡمَغۡرِبَيۡنِ 

دو مشرق اور دو مغرب کا رب 


یہ تینوں الگ الگ باتیں ہیں۔

 1- سب سے آسان تو یہی ہے رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِب - مشرق اور مغرب کا رب 

یعنی  سورج کے طلوع و غروب کے مقام کا رب ،دن اور رات کا ، جو کچھ دن میں کروگے اس کا بھی وہ رب ہے اور جو کچھ رات میں کروگے اس کا بھی وہ رب  ہے ۔ ۔


2-  رَبِّ الْمَشَـرِقِ وَالْمَغَـرِب

کئی مشرقوں اور کئی مغربوں کا رب 

 اصل میں مشرق اور مغرب سے سمتوں  کے نام ہے۔ آپ جہاں کھڑے ہوں آپ کا مشرق اور مغرب الگ ہے،

میں جہاں کھڑی ہوں ، میرا مشرق و مغرب الگ ہے ،  ہم سب مختلف جگہ کھڑے ہوں  تو ہم سب کا مشرق و مغرب الگ ہو گا۔


وہ کئی مشرقوں اور کئی مغربوں کا رب ہے یعنی اللہ تمام نقطہ نظر کو دیکھ رہا ہے اور یعنی نکتہ نظر یہ زاویے سے میں بات کر رہی ہوں اللہ اس کو بھی دیکھ رہا ہے اور جسم تو نظر یہ زاویے سے آپ بات کریں ہیں اس کو بھی اللہ دیکھ رہا ہے یعنی اللہ کو تمام نقطہ نظر سے بات سمجھ آ رہی ہے اور ان سب نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اپنا کلام ہمیں دے رہا ہے ۔

یہ ہے رَبِّ الْمَشَـرِقِ وَالْمَغَـرِب۔


3-  رَبُّ ٱلۡمَشۡرِقَيۡنِ وَرَبُّ ٱلۡمَغۡرِبَيۡنِ 

دو مشرق اور دو مغرب کا رب


جو لوگ زمین میں کھیتی باڑی کرتے ہیں ،ان کو اس کا بہت اچھی طرح علم ہے کہ سال میں سورج کے طلوع ہونے کی جگہ چھ مہینے ایک مقام سے ہلکی سی شفٹ ہو کر دوسرے مقام تک چلی جاتی ہے ۔


اگر کسی کی کھڑکی سے سورج طلوع ہوتے  ہوئے نظر آتا ہے، تو اس کو اندازہ ہوگا کہ چھ ماہ کے دوران سورج کے کھڑکی سے دوسری کھڑکی کی طرف چلا جاتا ہے اور اگلے چھ ماہ میں  وہ واپس پہلی کھڑکی کی طرف آجاتا ہے ۔


اگر ایک کھڑکی سے  دوسری کھڑکی کی طرف شفٹ ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے دو مشرق بنے ہیں اور اسی طرح دو مغرب بھی بنے ہیں۔


یعنی اشارہ کس کی طرف ہے؟

 موسموں کی طرف ۔ ۔ !

موسم کی طرف اشارہ کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ 


اس آیت سے پہلے انسانوں کی تخلیق اور  پھلوں کھیتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ان سب میں کونسی بات ایک جیسی ہے؟

"موسم''


انسانوں پر بھی مختلف موسم آتے ہیں بچپن کا، جوانی کا اور بڑھاپے کا موسم۔

اور کچھ موسم واپس کیا جاتے ہیں جیسے بڑھاپے میں بچوں والی حرکتیں کرنے لگتے ہیں ، اللہ  بتا رہے ہیں کہ تم جتنا بھی بھگ لو ، سارے موسم کا تو میں ہی مالک ہوں ۔


 فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


اب کہ جب تم نے جان لیا ہے کہ تم وقت سے نہیں بھاگ سکتے تم نے اپنے رب کی طرف بڑھتے ہی جانا ہے، ہم اللّه کی طرف  مسلسل بڑھ رہے ہیں ،

پھر بھی تمہیں احساس نہیں ہے کہ تم اللہ کی قدرتوں کا انکار کر رہے ہو، وہ وقت کا محتاج نہیں ہے ۔


ہمیں کیا لگتا ہے کہ ہمیشہ ہم جوان ہی رہیں گے؟ ہمیشہ ہمارے پاس یہ طاقت اور قوت ہی رہیں گی؟ کیا ہم نے کبھی بوڑھا نہیں ہونا؟

اللہ کی کون کون سی قدرتوں / طاقتوں / نعمتوں کا انکار کرو گے ؟


وقت  ایک ایسی چیز ہے جس کو ہم کبھی خرید نہیں سکتے ہم ایک سال یا ایک مہینہ کبھی خرید نہیں سکتے۔

ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم ایک سیکنڈ خرید لیں اور پھر اس کو بعد میں استعمال کرلیں وہ ہمیں خرچ کرنا ہی کر رہا ہے کیونکہ وہ ہمارا ہے ہی نہیں ۔ 

ہمارا جو وقت گزر رہا ہے ، وہ واپس کبھی نہیں آئے گا۔


 وَٱلۡعَصۡرِ🔅 إِنَّ ٱلۡإِنسَٰنَ لَفِى خُسۡرٍ

زمانے کی قسم انسان نقصان میں ہے ،ایک نقصان تو ہم سب کا ہو رہا ہے وہ وقت کا  نقصان ہے، ہم چاہیں یا نہ چاہیں وقت نے  گزرنا ہے، موسموں نے بدلنا ہے ،بوڑھے ہم نے ہونا ہی ہے،


 یہ قوت اللہ کے ہاتھ میں ہے ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اب کس کس قوت / قدرت کا انکار کرو گے؟


پہلے اللہ نے وقت/ زمانے کی بات کی اور اب فاصلوں کی بات کر رہے ہیں یعنی یہ طاقت کے مختلف پہلو ہیں اور ایسی ایسی طاقتیں ہیں، جن کا انسان کبھی اندازہ بھی نہیں کرسکتا۔


اگلی آیت میں اللہ کی ایک اور عظیم قدرت کا ذکر ہے ۔


جاری ہے...

  تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خان پارٹ 12 آیات(17-18) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم       رَبُّ ٱلۡمَشۡرِقَيۡنِ وَرَبُّ ٱ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ غزواتِ نبوی ﷺ اور اسیرانِ جنگ



سیرت النبی کریم ﷺ 

غزواتِ نبوی ﷺ اور اسیرانِ جنگ:


تاریخ کے اوراق اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ اسلام سے قبل قیدیوں کے ساتھ سلوک کی صورت حال یہ تھی کہ قیدیوں کو کسی اندھے کنویں میں ڈال کے کنویں کے منہ پر سِل پتھر کی لا کر ڈال دیتے تھے:

الطاف حسین حالی نے اشعار میں منظر کشی کی کہ:

پہلے دست و بازو توڑ دیتے تھے،
زمیں میں گاڑ کر پھر ان پہ کُتے چھوڑ دیتے تھے،
کبھی زندوں کے تن سے بوٹیاں نچوائی جاتی تھیں،
سلاخیں گرم کر کے جس پر برسائی جاتی تھیں،
کبھی پٹوایا جاتا تھا انہیں پُرخار کوڑوں سے،
کبھی رُندوایا جاتا تھا اونٹوں اور گھوڑوں سے۔

انتقام کا جذبہ یوں دلوں میں ٹھاٹھیں مارتا تھا کہ زندہ تو زندہ، مُردوں کے بھی ہاتھ، پاؤں، ناک، کان وغیرہ کاٹ لیے جاتے، مقتول کا کلیجہ نکال کر چبانا کوئی مشکل بات نہ تھی۔

رسولِ عربی ﷺ نے جنگ کی حقیقت میں جو انقلابِ عظیم برپا کیا، اس میں سب سے نمایاں کارنامہ جنگ کے مقصد کو متعین کرنا اور اسے محض خون آشامی و غارت گری کے دائرے سے نکال کر ایک اعلیٰ اخلاقی اور مدنی نصب العین کی سطح تک لانا ہے، آپ ﷺ سے قبل جنگ کسی نیک مقصد کے لئے نہیں لڑی جاتی تھی، عرب میں جنگ کے لئے جو الفاظ، محاورے، ترکیبیں اور استعارے استعمال ہوتے تھے وہ سب کے سب صرف ایک وحشیانہ جنگ کا تصور پیش کرتے تھے، لیکن اسلام نے تمام رائج الوقت الفاظ و اصطلاحات کو موقوف کر کے ''جھاد فی سبیل اللّٰہ'' کی اصطلاح وضع کی، یہ جنگ تو وہ جنگ ہے جو اللہ کے احکام کے اندر رہ کر خالص اللہ کے لئے لڑی گئی ہو۔

غزوات نبوی کی تو ایک طویل فہرست ہے، لیکن جنگی قیدیوں کے حوالہ سے یہاں صرف دو غزوے ہی کا تذکرہ کیا جائے گا جو اس سلسلے میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ غزوۂ بدر اور فتح مکہ۔ اس لیے کہ یہ قیدی ہی نہیں بلکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حضور ﷺ اور اُن کے ساتھیوں کو پل بناکر تیرہ چودہ سال کی طویل مدت تک ظلم و تعدی کے تمام سرحدوں کو پار کرکے وطن سے بے وطن کردیا، جب یہ پردیسی اجنبی شہر میں اطمینان کی سانس لینے لگے تو اس کو بھی قریش قوم ہضم نہ کرسکی اور مدینہ پر بھی کاٹ کھانے کے لیے مار کھانے کے لیے چڑھ آئی، لیکن رب برحق نے انہیں اوندھے منہ گراکر انتہائی شرمناک شکست سے دوچار کیا اور ستھر قید ہوکر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔

غزوۂ بدر:
لیکن قربان جائیے اس محسنِ انسانیت ﷺ پر جس نے ان کی دوہری دشمنی کے باوجود ان کے ساتھ اچھے سلوک کی تلقین کرکے اپنے مختلف ساتھیوں میں تقسیم کردیا، تاریخ شاہد ہے کہ نبی ﷺ کے ان دیوانوں نے مہمانوں کی طرح ان قیدیوں کی دیکھ بھال کی، خود کھجور پر اکتفا کرکے انہیں روٹی کھلائی، ایک قیدی ”ابوعزیز“ کا بیان طبری نقل کرتے ہیں کہ:

"میں جن انصاریوں کے پاس قید تھا جب وہ لوگ صبح و شام میرے سامنے کھانا لاتے تو روٹی میرے سامنے رکھ دیتے، خود کھجوریں اٹھالیتے مجھ کو شرم آتی اور میں روٹی ان کے ہاتھ میں دے دیتا لیکن وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھ کو واپس کردیتے۔"

ایک قیدی سہیل بن عمرو نہایت فصیح و بلیغ شخص تھا، حضور ﷺ کے خلاف ہمہ وقت زہر افشانی کرتا رہتا، حضرت عمرنے ان کے دانت اکھڑوا دینے کا مشورہ دیا، حضور ﷺ نے سختی سے منع فرمایا، ان قیدیوں کے گندے کپڑوں کے بدلنے کا حکم دیا، جب ان اسیروں کے متعلق مشورہ ہوا تو حضرت عمرؓ نے تمام کو تہہ تیغ اور عبداللہ بن رواحہؓ نے نذرآتش کر دینے کا مشورہ دیا اور حضرت صدیقؓ نے فدیہ لے کر رہا کر دینے کی رائے دی، محسنِ انسانیت ﷺ نے آخری مشورہ پر فیصلہ فرمایا، لیکن رحم وکرم کی بارش یہیں ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ اس سراپا رحمت نے فدیہ میں بھی ان قیدیوں کی حیثیتوں کا مکمل لحاظ رکھا، چنانچہ جو صاحب ثروت تھے ان کا فدیہ مال طے ہوا، جو صاحب علم وفن تھے ان کی رہائی کا معاوضہ لکھانے پڑھانے کا کام سپرد ہوا اور جو اس قابل بھی نہ تھے اور بالکل تہی دست تھے، ان کو عفو و درگزر کا تحفہ دے کر ویسے ہی رہا کردیا۔

فتح مکہ:
فتح مکہ انسانی اقدار کی حقیقی تاریخ کو ظاہر کرتا ہے، یہ دن تو انتقام کی پیاس بجھانے کا دن تھا، لیکن اس معلم کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانشینوں کی ایسی تربیت کی تھی کہ انہوں نے نقشۂ عالم پر آپ کی رحمت عالم ہونے کا ایسا اثر چھوڑا کہ چشم فلک نے دیکھ لیا کہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن کے ایوان حق و انصاف میں انتقام پر انسانیت کا غلبہ ہے، جبکہ اس موقع پر اس عظیم فاتح کے ساتھ عظیم لشکر ہے، اسلحے ہیں، مکمل طاقت ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے سامنے ماضی کے دلخراش واقعات بھی ہیں، ''شعب ابی طالب'' کی تین سالہ قید وبند، آہ و بکا، بھوک و پیاس، اضطراب و بے چینی اور بے پناہ مصائب و آلام کی درد انگیز روداد بھی، تپتی ہوئی چٹانیں، شعلے اگلتے سنگریزے، کھجور کے کھردرے تنے، تانت کی رسیاں، راہ کے کانٹے، کوڑے کرکٹ، اونٹ کی اوجھ، گلے کے پھندے، چٹائیوں کے رول اور دھوئیں سب کے سب آج ایذارسانوں کے خلاف انتقام کے شرارے کو ہوا دے رہے تھے، انتقام انتقام!! کی صدائے باز گشت سے پوری فضا گونج رہی تھی، گردوپیش بھی اپنے زبان حال سے ہم نوائی کررہے تھے، دشمنوں کو ہست سے نیست کرنے کا اس سے شاندار و خوشگوار کون سا موقع ہوسکتا تھا کہ دشمنوں کو خود اپنی تباہی کا یقین ہوگیا تھا، اُس کے باوجود محسنِ انسانیت اور مُردوں کے مسیح صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر بقائے انسانی کے اجزائے ترکیبی (امن ومساوات اور آزادی) کا اس طرح اعلان کرتے ہیں کہ:

"انسانو! مکہ ہمیشہ سے دارالامان ہے، کسی باخدا انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ آج کے بعد اس سرزمین میں خون بہائے اور اُس کی سرسبزی و شادابی کو نقصان پہنچائے، آج جاہلیت کے خاندانی اور نسلی غرور کا خاتمہ کردیا گیا ہے، تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں، جاؤ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاؤ، اب تم سب کے سب آزاد ہو!!!"

غزوات نبوی اور موجودہ جنگی صورتِ حال:

دورِ حاضر کے تناظر میں غزوۂ نبوی اور غیرفطری جنگ کا تجزیہ کریں۔ اسلامی جنگوں کے اخلاقی دنیا پر کیا اثرات پڑے، اُس کے برخلاف دوسری جنگوں میں انسانی دنیا کی اخلاقی، مادی اور جانی اقدار میں کتنا بڑا بھونچال آیا۔

مثال کے طور پر پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں انسانیت سوزی کی دل دوز تاریخ اور ۱۱/ستمبر ۲۰۰۱/ کے بعد افغانستان اور عراق میں انسانی قدروں کی زبردست پامالی اور اُن کی کھوپڑیوں سے تیسری جنگ عظیم کے اُٹھتے شعلے۔

درحقیقت یہ جنگ نہیں بلکہ ظلم وعدوان اور انسانیت سوزی کی آخری شکل ہے، جس کی مختصر روداد یہ ہے کہ دونوں عظیم جنگوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق چار کروڑ انسانی جانیں تلف ہوئیں، اسلام کے خلاف دہشت گردی کے عنوان سے امن و مساوات اور انسانی قدروں کی دھجیاں اڑانے والوں نے افغانستان کے لاکھوں بے گناہ بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو بم و بارود کے نذر کردیا اور ایک خوشگوار اور امن وامان کا گہوارہ ملک کو راکھ کی ڈھیر میں تبدیل کردیا، اُس کے بعد بھی جب پیاس نہ بجھی تو انسان نما بھیڑیوں کی للچاتی نگاہیں عراق کی طرف اُٹھیں اور وہاں کے تقریباً ۷/لاکھ بے قصور انسانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائی۔

ان درندوں نے ”ابوغریب“ جیل میں انسانی قدروں کا جس طرح مذاق اُڑایا اور اُڑا رہے ہیں کہ اُسے حیوانیت، سفاکیت اور شیطنت کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے؟ ان کے سیاہ کرتوت کی تعبیر کے لیے لغات کے ذخائر میں کوئی لفظ بھی نہیں، ان نفس پرستوں نے عین تہوار کے دن ایک ملک کے صدر کو اُسی کی زمین پر اذیت ناک موت کا ایسا تحفہ دیاکہ انسانی اقدار کے چیتھڑے اُڑگئے، ہوس کی پجاری قوم نے ایک شخص، ایک ملک یا ایک مذہب پر تیشہ زنی نہیں کی بلکہ پوری اخلاقی دُنیا پر بزدلانہ حملہ کیا۔

اُس کے برعکس غزواتِ نبوی کا بھی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک فطری جنگ ہے اور اُس کے اندر ظلم وزیادتی سے پاک غیرجانبدارانہ حصول اور عدل و مساوات کی جو سچی تصویریں ملتی ہیں جن سے نہ صرف یہ کہ گزشتہ قوم کی جنگی بے راہ روی ختم ہوئی بلکہ انسانی قدروں کو ایک نئی روح اور دائمی زندگی مل گئی۔

چناں چہ ایک تحقیق کے مطابق عہدِ نبوی کے تمام غزوات میں کل 6564 قیدی اور 759 لوگ مقتول ہوئے اور مسلمانوں میں 259 لوگ شہید اور ایک بزرگ قید ہوئے اور تاریخ گواہ ہے کہ دشمنوں کے ان قیدیوں میں سے 6348 قیدیوں کو اس نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ حنین کے بعد بغیر کسی شرط کے رہا کردیا، صرف ایک شخص قصاصاً قتل ہوا، پھر 215 قیدیوں میں 70 کو بدر میں فدیہ لے کر رہا کردیا گیا، اُس کے بعد جبالِ تنعیم پر مسلمانوں پر حملہ کرتے ہوئے 80 لوگ قید ہوئے اُن کو بھی اسی طرح رہائی ملی۔

واقعات وقرائن اور آپ ﷺ کی ذات سے یقین ہے کہ بقیہ قیدی بھی رہا اور آزاد ہوگئے ہوں گے، کیا اُس وقت کے کسی قوم کے جنگی اُصولوں میں قیدیوں کی سزا کا غلامی اور قتل کے سوا کوئی تیسرا رُخ تھا؟ جہاں تک غلام اور لونڈی بنانے کی بات ہے تو اُس کے رموزو اسرار کو بھی اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ پہلے قیدیوں کے تبادلہ کا کوئی تصور نہ تھا، اس لیے اضطراراً اسلام نے غلامی کا حکم نہیں بلکہ اُس کی اجازت دی اور اسلام میں چونکہ عورتوں سے قتال جائز نہیں اور جنگوں میں بسا اوقات مرد سب کے سب مقتول ہوجاتے تھے اور اُن کی عورتیں بے سہارا اور بے یار ومددگار ہوجاتی تھیں، اس لئے اُن کے حق میں اس سے زیادہ مناسب کوئی طریقہ نہ تھا کہ امیر اُن عورتوں کو لشکر کے ذمہ لگا دے جو اُن کی کفالت کرسکے۔

اگر اسلام کا یہی نظریہ ہوتا تو پھر جگہ جگہ غلام لونڈی کی آزادی و رہائی پر بے شمار فضائل کی خوشخبری اور اجرعظیم کا وعدہ نہ کیا جاتا اورنہ ہی اُن سے حسن سلوک کی تاکید اور غلطیوں کے نظر انداز کا حکم دیا جاتا، لیکن اسلام نے مختلف حربوں سے ان کی آزادی کا سامان مہیا کیا اور معاشرہ میں اُن کو ایک مقام عطا کیا، یہ وہ اسباب و عوامل ہیں جن سے پوری طرح یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ تعلیم نبوی نے غلامی کا تصور نہیں بلکہ درحقیقت اُس کو ختم کیا، لیکن یکبارگی نہیں بلکہ اپنے مزاج کے مطابق بتدریج یہ کام کیا، ایسے اشخاص کی ایک طویل فہرست ہے جو آزاد ہوکر بعد میں بڑے بڑے مناصب پر فائز ہوئے اور ایک دُنیا اُن سے سیراب ہوئی۔

اس قدر ٹھوس اور مکمل قوتِ نافذہ رکھنے والا اس دنیا کا کوئی قانون ہوسکتا ہے؟ اسلام کے علاوہ دوسرے ایوانوں میں عمل و مساوات اور انسانی اقدار کے اُوجھل نقوش ملتے بھی ہیں تو وہ حیاتِ محمدی ہی سے مستعار لئے گئے ہیں، لیکن عملی میدان میں پھر بھی وہ اپاہج ہی ہیں اور اُن کے تنفیذی قوت کی سوئی صفر پر ․․․․ سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ وہ روشن حقائق ہیں جو متعصب قوم اور امن و مساوات کے نام پر سفاکیت کے علمبرداروں کو دعوت فکر دیتے ہیں۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ  غزواتِ نبوی ﷺ اور اسیرانِ جنگ: تاریخ کے اوراق اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ اسلام سے قبل قیدیوں کے ساتھ سلوک کی صور...

قرآن فہمی سیریز ۔۔۔ 04

 


قرآن فہمی سیریز


از ڈاکٹر فرحت ہاشمی


نفاق کی علامات


منافقت کی وجہ سے انسان کے اندر چند علامات جنم لیتی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ 


سورہ البقرہ آیت ۹ اور ۱۰ میں اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں: 


یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ۔ (۹)

وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔


فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۱۰)

ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اس کی پاداش میں ان کے لیے درد ناک سزا ہے


منافقین اللہ سبحانہ و تعالی کو، اس کے رسول کو، اور ایمان والوں کو دھوکا دینے والے ہوتے ہیں۔ دھوکا دینا کہتے ہیں دل میں اپنے چور مقصد کو چھپا کر سامنے والے کے آگے اس کے فائدے کی بات پیش کرنا۔ 


منافقین اس دھوکے دینے میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کو دھوکا دینے کے بجائے صرف خود کو ہی بےوقوف بناتے ہیں۔ 


منافقین جب دھوکا دیتے ہیں تو اس کے پیچھے  وجہ اللہ سبحانہ و تعالی کی معرفت کا نہ ہونا ہے ۔ وہ اللہ کی عظمت، اللہ کے اسماء و صفات کو نہیں پہچانتے۔ کیونکہ ان کے دلوں میں بیماری چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ 


قرآن مجید سے ہمیں دل کی دو قسم کی بیماریاں ملتی ہیں۔ 

مرض شبہ

مرض شہوہ


مرض شبہ: شک و شبہ کی بیماری 

منافقین میں شک و شبہ کی ایسی بیماری ہے جس میں ان کو دین اسلام پر یقین نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ان کا عمل دین کے مطابق نہیں ہوتا۔ بس  آخرت کے بارے میں معلوم ہے لیکن اس پر یقین نہیں ہوتا کہ واقعی ویسا ہوگا جیسا بتایا گیا ہے۔ 


مرض شہوہ: شہوات کی بیماری

اس بیماری میں انسان کو زنا، فواحش اور گناہوں سے محبت ہوتی۔ 


 منافقین دل کی بیماری کی وجہ سے دنیا کی رنگینی سے خوش ہوتے ہیں۔ اس کی  محبت میں اتنے گرفتار ہیں کہ آخرت کی نہ کوئی فکر ہے، نہ اس کی طرف توجہ ہے اور نہ ہی اس کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ 


جب منافقین دنیا سے اتنی محبت کرتے ہوں کہ ہر وقت ان کو دنیا کی فکر ہو تو وہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو دنیا کا فائدہ ہوگا۔ اسی لیے ایسے لوگ اسلام بھی اسی لیے قبول کرتے ہیں تا کہ دنیا کا فائدہ مل جائے۔ 


پھر جب منافقین  اپنے مرض کا علاج ایمان سے نہیں کرتے تو اللہ سبحانہ و تعالی ان کے مرض میں اضافہ کردیتے ہیں یعنی ان کو دنیا میں اس طرح مشغول کردیتے ہیں کہ دنیا کے کام اتنے زیادہ ہوجاتے ہیں  جس کی وجہ سے دین کے لیے وقت نکالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اور وہ دنیا کو دین پر ترجیح دینے لگتے ہیں۔ 


اگر ہم ایسی بیماری سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ایمان کو روزانہ صالح اعمال سے تر و تازہ کرنا ہوگا اور مندرجہ ذیل اعمال سے بچنا ہوگا جن سے دل بیمار ہوتے ہیں۔ 


🔺ایمان لا کر کفر کی حالت میں پلٹ جانا

🔺اللہ کی بات سن کر سنی سنی کردینا

🔺غفلت میں پڑے رہنا

🔺اللہ کے ذکر سے روگردانی کرنا

🔺جھوٹ بولنا

🔺دنیا کی محبت کو ترجیح دینا

🔺برا اخلاق اختیار کرنا 

🔺لوگوں میں بہت زیادہ گھل مل کر رہنا

🔺خواہش پرستی کرنا یعنی جو دل چاہے صرف وہ کرنا  اور جو صحیح ہے وہ نہیں کرنا

🔺اللہ سبحانہ و تعالی کے علاوہ کسی دوسرے سے اتنی محبت کرنا جتنی اللہ سے کی جائے 

🔺زیادہ کھانا 

🔺زیادہ سونا 


سورہ البقرہ کی آیت ۱۷ میں منافقین کے لیے مثال بیان کی گئی ہے۔ اگر ہم منافقت اور اس کے اندھیروں سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں مندرجہ ذیل کام کرنے ہیں: 


☘️ اپنے دل کی حالت کا مسلسل جائزہ لینا ہے کہ ہمارے دل کے اندر ایمان کی حلاوت بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہے ہے۔ 

☘️ہمیں شکوک و شبہات اور خواہشات  سے بچنا ہے جو ہمیں منافقت کی طرف لے جائے۔ 

☘️ہمیں قرآن کی مثالوں کو  سمجھنا ہے۔ 

☘️ہمیں اپنا ایمان و تقوی کو بڑھانا ہے۔ 

☘️ہمیں ایسے کام کرنے ہیں جن سے ایمان اور اس کا نور بڑھتا جائے۔ مثلا

۱- اچھی طرح وضو کرنا 

۲- پابندی سے پانچ وقت کی نماز  پڑھنا 

۳- قرآن کا پڑھنا 

۴- مسلسل علم حاصل کرنا 

۵- ہر جمعہ سورہ الکہف کی تلاوت کرنا 

۶- انصاف سے کام کرنا

۷- صبر کرنا

۸- صدقہ کرنا

۹- اللہ کے راستے میں بوڑھا ہوجانا 

۱۰- اللہ سبحانہ و تعالی سے نور بڑھانے کی دعا مانگنا 

اللَّہُمَّ اجْعَلْ فِى قَلْبِى نُورًا وَفِى بَصَرِى نُورًا وَفِى سَمْعِى نُورًا وَعَنْ يَمِينِى نُورًا وَعَنْ يَسَارِى نُورًا وَفَوْقِى نُورًا وَتَحْتِى نُورًا وَأَمَامِى نُورًا وَخَلْفِى نُورًا وَعَظِّمْ لِى نُورًا

رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

۱۱- اللہ سبحانہ و تعالی سے اندھیروں سے بچنے کی دعائیں مانگنا


اللَّهُمَ حَبَّبْ إِلَيْنَا الْإِيمَانَ وَزَيِّنْهُ فِي قُلُوبِنَا

یا اللہ ہمارے دلوں میں ایمان کو مزین کردیں۔ آمین

  قرآن فہمی سیریز از ڈاکٹر فرحت ہاشمی نفاق کی علامات منافقت کی وجہ سے انسان کے اندر چند علامات جنم لیتی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔  سورہ البقرہ ...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 11

 


تدبر سورۃ الرحمن


از استاد نعمان علی خان


پارٹ 11 آیت(15-16)


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم


     وَخَلَقَ ٱلْجَآنَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ 

        فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 


اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔ پس اے جن و انس، تم اپنے رب کے کن کن عجائب قدرت کو جھٹلاؤ گے؟


اور اس نے جن کو "مارج"  سے بنایا۔


"مارج" -آگ کا وہ حصہ ہوتا ہے ،جو نظر نہیں آتا، جب آپ آگ جلاتے  ہیں، تو اس میں سب سے اوپر پیلا  حصہ ہوتا ہے، اس کے نیچے نیلا اور سب سے نیچے Invisible حصہ ہوتا ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا ۔


جنات کو اللہ نے آگ کے اس حصّے سے بنایا جو نظر نہیں آتا، اس لیے جن ہمیں نظر نہیں آتے ۔


لیکن یہاں جنوں کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟

کیونکہ پچھلی آیات میں آیا تھا ۔

فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 

 تم "دونوں" اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں قدرتوں کا انکار کرو گے؟ 


 وہ دو لوگ کون ہے؟

  انسان اور جنات۔ ۔

  

  لیکن اللہ نے " تم دونوں" کا ذکر پہلے کیا اور ہمیں بعد میں بتایا کہ تم دونوں سے مراد تھا ؛ انسان اور جنات ۔ ۔ ایسا کیوں؟

   

کچھ مفسرین نے کہا ہے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ کچھ جنات بھی اس وقت سن رہے ہیں۔ اس لئے ان کو غیر متوقع طور پر پکارا۔ 


اس بات کا پس منظر سمجھتے ہیں، جب غیر مسلم پیغمبروں کے خلاف دشمنی پر اتر آتے ہیں، تو چنوں کی ایک فوج آ کر ان غیر مسلموں کی مدد کرتی ہے، ان کو بھڑکاتی ہے ۔تاکہ وہ اس دشمنی کو مزید ہوا دیں ۔ 

پھر پیغمبروں کے خلاف دو طرح کے دشمنوں کی فوج اکھٹی ہوجاتی ہے، ایک تو انسان دشمن اور دوسرے جنات دشمن ۔

دونوں ایک ساتھ پیغمبروں کے خلاف ان کو روکنے کے لئے کام کرتے ہیں ۔


اس کا ذکر سورہ انعام میں بھی کیا گیا ہے کہ جب اللہ پیغمبروں کے امتحان کے لئے دشمنوں کو قائم کرتا ہے تو جنات آکر دشمنوں کی مدد کرتے ہیں ۔


اس لئے اللہ نے جنوں اور انسانوں دونوں کو مخاطب کیا اور کہا کہ تم دونوں کا مسئلہ یہی ہے کہ تم  ایک ناشکری مخلوق ہو۔


     خَلَقَ ٱلۡإِنسَٰنَ مِن صَلۡصَٰلٍ كَٱلۡفَخَّارِ

     وَخَلَقَ ٱلۡجَآنَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ 

     فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 


پس اے جن و انس، تم اپنے رب کے کن کن عجائب قدرت کو جھٹلاؤ گے؟


پہلے کہا انسان کو مٹی سے بنایا اور جن کو نہ دیکھنے والی آگ سے۔ جنوں کو بھی اندازہ ہوگیا کہ ہم بھی اللہ کے نوٹس میں ہیں ، اس کی نظر میں ہیں،  ان کو بھی خبر مل گئی ،


 اللہ نے دونوں کو دھمکی دی ہے اس آیت میں؛

 فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 

  تم دونوں رب کی کون کون سی نعمتوں / قدرتوں/ طاقتوں کا انکار کرو گے؟؟


جاری ہے ۔۔۔۔۔

  تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خان پارٹ 11 آیت(15-16) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم      وَخَلَقَ ٱلْجَآنَّ مِن مَّارِجٍ م...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 10


تدبر سورۃ الرحمن 


از استاد نعمان علی خان


پارٹ 10 آیت(13-14)


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ


  خَلَقَ ٱلْإِنسَٰنَ مِن صَلْصَٰلٍ كَٱلْفَخَّارِ 


انسان کو اُس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایا..


آخری آیت میں ہم نے پڑھا کے اللہ ہم سے کہہ رہا ہے کہ؛


فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

  تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں /قدرتوں کو جھٹلاؤ گے؟


ہم نے اس آیت نے یہ جانا کہ انسان بہت ناشکرا ہے, اللہ اس کو کئی موقعے دیتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کو دیکھے اور اس کو احساس ہو کہ اللہ نے ہمیں کتنی نعمتیں دی ہیں۔


لیکن وہ پھر بھی اُس کو نظر انداز کردیتا ہے جیسے وہ تحفے  ہیں ہی نہیں  ۔ ۔ 

 

 اصل میں جب انسان شکر گزار نہیں ہوتا تو اس کی بھی ایک اصل وجہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھتا ہے یعنی اس کی خدمت کی جائے۔

 

 اس کے پاس سماجی معاشرتی تعلیمی معاشی لحاظ سے کوئی مقام ہوتا ہے اور کبھی کبھی  نسل، خاندان، پیسے ،شہرت کی بنیاد پر خود کو بڑی چیز سمجھنے لگتا ہے ،غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

 اور کِبر یا تکبر کے لئے ہمیں امیر یا مشہور ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ چھوٹے سے چھوٹے پروفیشن میں بھی آجاتا ہے ۔


یہاں اللہ ہمیں اپنی اصل سمجھا رہے ہیں تا کہ آئندہ اگر ہم کہنے لگے کہ تمہیں پتہ ہے کہ کس سے بات کر رہے ہو ہم اپنی" اصل" کو یاد رکھیں ۔


 خَلَقَ ٱلْإِنسَٰنَ مِن صَلْصَٰلٍ كَٱلْفَخَّارِ

انسان کو اُس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایا


صلصال کہتے ہیں کھنکھناتی مٹی کو۔


 جب کسی صحرا میں ریت پر بہت زیادہ بارش پڑتی ہو اور پھر اس کے بعد شدید گرمی پڑے تو وہ خشک اور سخت ہوجاتی ہے۔ اتنی سخت کہ اس میں دراڑیں پڑجاتی ہیں۔


 اور اگر اسے ہاتھ میں اٹھائیں تو پلیٹ کی طرح اٹھ جاتی ہے اور پھر اگر ہم اسے ہلکا سا بھی دبائے تو ہاتھ میں چورا چورا ہوجاتی ہے۔ یہ صلصال ہے۔ ۔ ۔ !

 

 اور وہ ایسی ریت ہوتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس پر نہ کچھ ہوتا ہے اور نہ وہ کسی اور کام آتی ہے ، بالکل بے کار ہوتی ہے، اس کا صرف اور صرف ایک فائدہ ہوتا ہے۔


"فخار - مٹکے یعنی ایسی مٹی جو مٹکے بنانے کے لئے استعمال ہو"۔  


اور ریت سے بنے مٹکے عموماً امیروں میں استعمال ہوتے ہیں یا غریبوں میں؟

عموماً غریب استعمال کرتے ہیں یعنی ہماری اصل ایسی مٹی ہے ، جو مٹکے بنانے کے کام آتی ہے۔

اور ہماری اوقات مٹکے کی سی ہے اور مٹکا اگر ٹوٹ جائے تو کسی کام کا نہیں رہتا  ۔ ۔ !


اللہ کہہ رہا ہے کہ برتن ہو تم ۔

برتن بھی وہ،  جو سب سے نچلے درجے کا ہے  ۔ 

تم سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو ؟ 

اللہ انسانوں سے کہہ رہا ہے کہ یہ کبھی مت سمجھنا کہ تم کسی چیز کے حقدار ہو تم بے   کار مٹی سے بنے ہوں۔


اور سب امیر اور سب غریب ایک ہی طرح کی مٹی سے بنے ہیں یہ ہماری حقیقت ہے شکرگزاری اور تکبر ساتھ ساتھ ہوتے ہیں


جتنا شکر زیادہ ہو گا ،اتنا تکبر کم ہو گا۔

جتنا شکر کم ہو گا، اتنا تکبر زیادہ ہو گا۔


پچھلی آیت میں اللہ نے کہا تم شکر گزار کیوں نہیں بنتے یعنی تمہارے تکبر کو توڑنا پڑے گا تاکہ تمہارے اندر عاجزی آ جائے ۔


ہم جتنے عاجز ہونگے ، اتنے اللہ کے قریب ہونگے ۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔ 

تدبر سورۃ الرحمن  از استاد نعمان علی خان پارٹ 10 آیت(13-14) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ   خَلَقَ ٱلْإِنسَٰنَ مِن صَلْصَٰلٍ كَٱل...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ میدان جنگ میں



سیرت النبی کریم ﷺ 

رسول اللہ ﷺ میدان جنگ میں:


عہد نبوی سے قبل فطرت کے خلاف ہونے والی جنگوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، عرب کی غیر متمدن قوم کی جنگ، روم و ایران کی متمدن قوموں کی جنگ۔

غیر متمدن قوم کا طرز جنگ:

اس قوم کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قدر واہمیت نہ تھی، اور جنگ ان کا قومی پیشہ بن گیا تھا، ادنیٰ ادنیٰ بات پر شمشیریں بے نیام ہوجاتیں، ایک پشت سے دوسری پشت کی طرف یہ جنگیں منتقل ہوتی رہتی تھیں، انتقامی جذبہ کی تسکین اور حرص وہوس کی تکمیل کے لیے تمام غیر انسانی سلوک روا رکھے جاتے، بدعہدی، لاشوں کی بے حرمتی، ناک، کان کاٹ کر اس کا ہار پہننا، دشمنوں کی کھوپڑیوں میں شراب پینے کی نذر ماننا، ان کو نذر آتش کردینا، قیدیوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرنا اور قتل کرا دینا، بلکہ انسانیت کے تمام حدود کو پار کرکے سنگدلی و درندگی کے اس چوراہے پر پہنچ گئے تھے کہ انسانی کلیجے چبا ڈالتے تھے اور اس سب پر طرہ یہ کہ اس کو فخر وشجاعت کا ذریعہ سمجھتے۔ اس طرح کی خونی داستان سے دور جاہلیت کی پوری شاعری بھری پڑی ہے جو اہل عرب کے نزدیک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔

متمدن قوم کا نظریۂ جنگ:

اس طرح کی صورت حال تو عرب جیسے اجڈ اور ان پڑھ قوم کی تھی، لیکن جو قوم مہذب ومتمدن کہلاتی تھی، اس کا جنگی رویہ بھی ان سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا، ان کے شب و روز بھی ظلم و بربریت کی خونی داستان سے رنگین تھے، جنگ کے حوالہ سے کوئی اصول وقانون نہ تھا، زمین کے جس حصہ پر وہ چڑھ آئے وہاں قیامت صغریٰ برپا کردیتے، ان کے سپہ سالار کی حیثیت حضرت اسرافیل کی سی ہوتی اور اس کا حکم ”صور“ ہوتا، جنگ کا بگل بجتے ہی یکساں طور پر بوڑھوں، بچوں، عورتوں، بیماروں، معذوروں، راہب و گوشہ نشینوں کو، فصلوں، باغات اور آبادیوں کو تہس نہس اور تہہ وبالا کردیا جاتا، ان کے اندر مذہبی عناد بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، متبرک مقامات کی بے حرمتی بھی جنگ کا ایک حصہ تھا، عیسائی، یہودی اور مجوسی میں سے جب بھی کوئی ایک دوسرے پر غالب آتا تو اس کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکتا، ہزاروں لاکھوں جانیں ضائع ہوجاتیں، سفراء کو بھی نہیں بخشا جاتا، بدعہدی بھی ایک عام چیز تھی، بلکہ نوشیرواں بادشاہ جس کی عدالت مشہور تھی اس کا دامن بھی انسانی خون سے رنگین ہوئے بغیر نہ رہا۔ چنانچہ 640 میں اس نے شام کے دارالحکومت پر قبضہ کیا تو شہریوں کے قتل عام اور عمارتوں کے مسمار کرنے کا حکم دیا اور پوری آبادی کو قید کرکے خاکستر کردیا۔

اس مہذب قوم کے وحشیانہ کھیل اور خون تفریح کا سامان جنگی قیدی ہوا کرتے تھے، پہلے تو ان قیدیوں کو زنجیروں میں جکڑ دیتے، پھر اذیت ناک سلوک کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا، یہی وجہ ہے کہ 611 میں جب ہرقل کی بیوی کے جنازے میں جاتے ہوئے ایک لونڈی نے زمین پر تھوک دیا تو اسے اس ناقابل معافی گستاخی میں اپنی جان دے کر اس کی قیمت چکانی پڑی، اسی طرح جب قیصر روم شکست کھاکر ایران کا قیدی بنا تو اس کی پوری زندگی غلامی میں گزری اور مرنے کے بعد اس کی کھال کھینچوا کر بھس بھروا دیا گیا۔ (اخلاق رسول۲/۸۲)۔ اور لطیفہ کی بات تو یہ ہے کہ یہ سارا ڈرامہ کسی اہم مقصد کے تحت اسٹیج نہیں دیا جاتا، بلکہ صرف شہرت و ناموری کے حصول اور شاہانہ ہیبت و جلال کے اظہار کے لیے ہوتا تھا۔

اسلامی جنگ کے اصول وضوابط:

جنگ کے سلسلے میں حضور ﷺ نے اولاً گزشتہ جنگی طریقوں کی اصلاح کی، اس کے بعد اس کے لیے ایسے پاکیزہ اصول طے کیے کہ یہی جنگ جس کا نام سنتے ہی روح کانپ اٹھتی تھی اور مفتوح قوم کھلی آنکھوں موت کا مشاہدہ کرنے لگتی تھی، انسانیت کی بے راہ روی اور اخلاقی، جانی اور مادی تحفظ کا ذریعہ بن گئی، اولاً صلح وامن سے کام لینے کی تاکید کی گئی اور انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں سخت شرائط کے ساتھ تلوار اٹھانے کی اجازت دی گئی، یہی وجہ ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی مسلسل تیرہ سال ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے اور بغیر کسی جرم وخطا کے ان کو ان کے گھروں سے نکال کر جلاوطن کردیا گیا، لیکن جلاوطنی کے بعد بھی تعاقب جاری رہا تو انہیں جنگ کی اجازت دی گئی، لیکن اجازت اس طرح کہ امیر جیش کے حکم کے بغیر صف سے نکلنا بھی گوارہ نہ تھا، ناحق خون بہانے کی قطعاً اجازت نہیں دی گئی، بلکہ جو بالمقابل ہے اسی سے لڑو، لاشوں کو مثلہ نہ کرو، شب خون نہ مارو، اذیت دے کر قتل نہ کرو، راہبوں، گوشہ نشینوں، معذوروں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو نہ چھیڑو، عمارت نہ ڈھاؤ، پھلدار درخت نہ کاٹو، جو لوگ تمہارے قیدی بن جائیں ان سے حسن سلوک کا معاملہ کرو، ان کو کھانا کھلاؤ اور لباس کا خیال رکھو۔ قرآن نے قیدیوں کے کھانا کھلانے کو بہترین عمل قرار دیا ہے۔ پھر ارشاد ہوا، آبادی کو نہ اجاڑو، یہاں تک کہ فخر و غرور سے پُر نعرے بازی سے بھی حضور ﷺ نے منع فرمایا۔

ان اصول اور طریقہ کار کو آپ ﷺ اور آپ کے جاں نثار ساتھیوں نے عملی جامہ پہنا کر غیرمسلم قوم کے ظالمانہ جنگی طریقوں کی تمام راہیں مسدود کردیں، ان اصول و ضوابط سے انسانی جان کی غیر معمولی قدر واہمیت اور اس کے احترام کا پتہ چلتا ہے۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ  رسول اللہ ﷺ میدان جنگ میں: عہد نبوی سے قبل فطرت کے خلاف ہونے والی جنگوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، عرب...

قرآن فہمی سیریز ۔۔۔ 03

 


قرآن فہمی سیریز


از ڈاکٹر فرحت ہاشمی


نفاق کی نشاندہی کیسے کریں؟ 


سورہ البقرہ آیت ۸ میں اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں


وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ

اور لوگوں میں سے کوئی ہے جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخری دن پر اور نہیں وہ ایمان لانے والے۔ 


 اللہ اور یوم آخر پر ایمان لانے سے مراد دل سے تصدیق کرنا، زبان سے اقرار  کرنا اور اعضاء سے عمل کرکے دکھانا ہے۔ اگر ان تینوں میں کوئی ایک بھی حصہ غائب ہوجائے تو  انسان نفاق کی طرف نکل جاتا ہے۔ 


یعنی:

اگر کوئی انسان دل سے یقین کرے لیکن زبان سے اقرار نہ کرے۔ 

یا کوئی انسان اپنی زبان سے اقرار کرے لیکن دل سے تصدیق نہ کرے۔  

یا کوئی انسان دل سے یقین کرے اور زبان سے اقرار کریں لیکن عمل دل کی تصدیق اور زبان کے اظہار کے مطابق نہیں۔ 


نفاق کی دو اقسام

۱- اعتقادی نفاق

۲- عملی نفاق


۱- اعتقادی نفاق: یہ نفاقِ اکبر ہے۔ نفاق کی اس قسم میں انسان کفر اور عقیدے کے بگاڑ کو دل میں چھپا رہا ہوتا ہے۔ اس قسم کی منافقت کا انجام کفر سے بھی زیادہ خطر ناک ہے۔ 


اس اعتقادی نفاق کی مندرجہ ذیل علامات ہیں:

(۱) رسول اللہﷺ کی تکذیب کرنا۔

(۲) رسول اللہﷺ کی بعض تعلیمات کا انکار کرنا۔

(۳) رسول اللہﷺ سے بغض و عداوت رکھنا۔

(۴) رسول اللہﷺ کی بعض تعلیمات سے بغض و عداوت رکھنا۔

(۵) رسول اللہﷺ کے دین  کی پستی اور اس کی زوال پذیری پر خوشی محسوس کرنا۔

(۶)  رسول اللہﷺ کے دین کی نشر و اشاعت اور اسلام کی عروج و بالا دستی پر کڑھنا۔


۲- عملی نفاق: اس سے مراد دل میں ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ منافقین والا کوئی عمل سرانجام دینا ہے۔ اس کی وجہ سے آدمی ملت سے خارج تو نہیں ہوتا لیکن یہ عمل اس کا ایک ذریعہ ہے۔ ایسے آدمی میں ایمان و نفاق دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔


رسول اللہﷺ نے صحیح البخاری کی حدیث 34  میں فرمایا ہے کہ:

”چار چیزیں جس بھی آدمی میں ہوں گی وہ پکا منافق ہو گا، جس میں ان چار میں سے ایک چیز ہو گی اس میں نفاق کی ایک عادت ہو گی یہاں تک کہ اسے چھوڑ نہ دے۔ وہ چار یہ ہیں:

 ۱- جب بھی اس کے پاس امانت رکھی جائے اس میں خیانت کرے۔

 ۲۔ جب بھی بات کرے جھوٹ بولے۔

۳۔ جب بھی عہد و پیمان کرے اسے پورا نہ کرے

۳- اور جب بھی لڑائی جھگڑا کرے گالی گلوچ کرے۔“


اگر ہم اوپر بیان کردہ کسی ایک بھی کیٹگری میں آتے ہیں تو ہم منافقت کا شکار ہیں۔ 


منافقت ہمیں دو چہرے والا بنادیتی ہے یعنی ہمارے دل میں عقیدہ کچھ ہوتا ہے اور ہم زبان سے اقرار کسی اور چیز کا کررہے ہیں اور جیسے ہمیں دین پر چلنے میں کسی قسم خطرہ لاحق ہوتا ہے تو ہم دوسرے دروازے سے نکل کر راستہ بدل لیتے ہیں۔ 


ہمیں منافقت سے بچنے کے دعا مانگنی چاہیے۔ 

اللَّهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِيَ مِنَ النِّفَاقِ، وَعمَلِيَ مِنَ الرِّيَاءِ، وَلِسَانِيَ مِنَ الْكَذِبِ، وَعَيْنِيَ مِنَ الْخِيَانَةِ، إِنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ۔

  قرآن فہمی سیریز از ڈاکٹر فرحت ہاشمی نفاق کی نشاندہی کیسے کریں؟  سورہ البقرہ آیت ۸ میں اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ- 9

 


تدبر سورۃ الرحمن

از استاد نعمان علی خان

پارٹ 9 آیت 14


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ


  فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 

پس اے جن و انس، تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟


 اللہ نے اب اُس آیت  کا ذکر کیا ہے جس کا بار بار ذکر آرہا ہے ۔

 بات اگر ایک ہو اور الفاظ بھی ایک ہی ہوں ، لیکن  وہ بات کب کی جارہی ہے، اس سے بات کے معنی بدل جاتے ہیں،

 

اس آیت کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے معنی اور اثر  میں فرق پڑتا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ الفاظ ایک ہی ہیں اور ہمیں عربی کا اتنا علم نہیں ہے تو  جب ہم سنتے ہیں؛

 فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 


 ہم سمجھتے ہیں کہ ایک ہی بات ہو رہی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے اس کے معنی بدل رہے ہیں، یہاں پہلی بار یہ آیت آئی ہے۔


Understand Meanings of Word  آلاء:


آلاء - مفسرین کے نزدیک اس کے معنی "نعمتیں" ہیں ۔ 


تم دونوں کے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟(عام ترجمہ)

یہاں دونوں کون ہیں؟ یہ بعد  میں بات ہوگی۔ 


"آلاء" نعمتوں کے لئے بہت کم استعمال ہوا ہے ، "عام عربی اسلوب" میں اس کے دو معنی ہیں؛


1- کوئی بہت حیران کُن چیز جو ہمیں حیرت میں ڈال دے ۔

2-  کوئی ایسی چیز جس سے کسی کی قوت و طاقت کا مظاہرہ ہو ۔


   فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 

 یعنی اللہ کی کون کون سی "قدرتوں" کو تم جھٹلاؤ گے؟


 یعنی اللہ کی کون کون سی" طاقتوں" کو تم جھٹلاؤ گے؟

 

 یعنی اللہ کی کون کون سی "حیرت انگیز چیزوں"/ "تحفوں" کو تم جھٹلاؤ گے؟

  

صرف نعمتوں سے صحیح بات سمجھ نہیں آتی ...


یعنی تمہارے اردگرد ایسی بہت سی چیزیں ہیں ،جس سے تم حیران ہو جانا چاہیے، لیکن تمہیں کوئی احساس ہی نہیں ہے ۔


 یہ اس سورت کا اصل پیغام ہے ؛

     "انسان کی ناشکری


یوں لگتا ہے کہ جیسے اس نے قرآن کا انکار کیا ہے کیونکہ شروع میں آیا تھا (علم القرآن) انسان کو قرآن اور بیان سکھایا ،اس کو قرآن کو ماننا چاہیے تھا ۔


اب یہ نہیں کہا کہ قرآن کو کیوں جھٹلاتے  ہو؟ قرآن کو کیوں نہیں مانتے؟


 بلکہ اب کہا کہ اللہ کی "قدرتوں" کو کیوں نہیں مانتے؟


 یعنی قرآن کا انکار تو ہے ، لیکن اصل مسئلہ "قرآن کا نہ ماننا" نہیں ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تمھارے اندر "شکرگزاری کا جذبہ نہیں ہے"۔ ۔ ۔

 

 انسانوں کی یہ خصلت ہے کہ جب اس کو بار بار کوئی چیز دی جائے تو اس میں یہ کمزوری ہے کہ وہ اس کا فائدہ اٹھانے لگ جاتا ہے ، اس کی عادت پڑجاتی ہے، جبکہ وہ یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اس کا مستحق نہیں ہے لیکن پھر بھی ۔

 

 مثال کے طور پر ایک ملازم ہے اور اس کا کوئی باس ہے، اس نے ملازم سے کہا ہے کہ 9 بجے آفس آ جانا اور پانچ بجے چھٹی ہوگی ۔


 اب ملازم کبھی 9:30 آفس آرہا ہے کبھی دس یا گیارہ بجے ۔ باس  اس کو  کچھ نہیں کہتا ہے اور اب ایک دو ماہ گزر جاتے ہیں اور وہ مسلسل لیٹ جاتا رہتا ہے۔

 

 کیونکہ اس کا خیال ہے کہ باس اس سے کچھ کہتا ہی نہیں ہے ۔ اب نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ جب باس نے ایک دن کہا کہ 9 بجے آ جانا تو ملازم کہتا ہے کہ میں بزی ہوں میں نہیں آسکتا ۔


پھر باس کہتا ہے دیکھو میں تمہیں آرام سے کہہ رہا ہوں اگر پھر بھی تم وقت پر نہ آئے تو مجھے تمہاری جاب لینی پڑے گی۔ ۔ ۔

 

پھر ملازم کو ہوش آتا ہے کہ دیکھو ذرا کتنا برا باس ہے ، جاب  سے نکالنے کی دھمکی دے رہا ہے ۔


جب ہمارے ساتھ بہت زیادہ نرمی کی جاتی ہے تو پھر ہمیں اس نرمی کی عادت پڑجاتی ہے، اب سوچیں اللہ نے ہمیں کتنا نوازا ہے ہر طرح کی آسائشیں اور نعمتیں دی ہیں۔ 


 پھر اگر کوئی ہماری خواہش ہوتی کہ میں وہ فلاں امتحان پاس کرلوں لیکن وہ امتحان پاس نہیں ہوتا۔ پھر ہم سوچتے ہیں کہ پتا نہیں اللہ ہماری کوئی دعا کیوں نہیں سنتا ۔


 پتہ نہیں ہم  نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے جس کی سزا ہمیں مل رہی ہے ۔ ہم فورا شکایتیں شروع کردیتے ہیں۔

 

بالکل ۔ ۔ ! اللہ نے تو واقعی ہمارے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔

 نہ وہ ہماری دھڑکن کا خیال رکھتا ہے۔ نہ ہماری حفاظت کررہا ہوتا ہے جب ہم سو رہے ہوتے ہیں اور نہ ہی جب ہم گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں، تو ہماری حفاظت کے لئے  فرشتے بھیجتا ہے ۔

واقعی!! اس نے کیا کیا ہے ہمارے لئے؟

  اتنی جلدی ہم ناشکرے بن جاتے ہیں۔ ہمیں صرف ایک پرابلم آتی ہے اور ہم کہتے ہیں ؛ 

  

رَبِّىٓ أَهَٰنَنِ 

میرے رب نے میری بےعزتی کردی۔


یہ سوال کیا گیا ہے انسان سےکہ تم کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے؟


انسان کو شکر گزار ہونے کی بہت ضرورت ہے ہمارے پاس جب نعمتیں ہوتی  چلی جاتی ہیں تو ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے ہم اس کے مستحق ہیں ۔


میں اس بات کا مستحق ہوں کہ میرے اردگرد کا جو ماحول ہے وہ میرے مطابق اور مجھے خوشی دینے والا ہو، میں اس کا مستحق ہوں کہ موسم خوشگوار ہی رہے ،ہوا ٹھنڈی چلے ، ذرا سی گرمی ہوتی ہے تو میرا منہ بگڑ جاتا ہے کہ کیا مصیبت ہے ۔ ۔ ۔ !


ہمارا یہ رویہ ہو گیا ہے کہ ہر چیز بس "ہماری مرضی" کے مطابق ہو ۔


 فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 

تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟

تمہاری خدمت میں ہر مخلوق کو لگایا ہوا ہے۔ تمہارے کھانے پینے کا احتمام کیا ہوا ہے۔ کن کن کا انکار کرو گے؟


اگر تم میں شکر گزاری ہے تو تمہیں اس قرآن کی مٹھاس سمجھ میں آئے گی ۔ اگر تم میں شکرگزاری نہیں ہے تو تمہیں کچھ سمجھ نہیں آئے گا !


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خان پارٹ 9 آیت 14 بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ   فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَا...