تدبر سورۃ الرحمن
از استاد نعمان علی خان
پارٹ 12 آیات(17-18)
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم
رَبُّ ٱلۡمَشۡرِقَيۡنِ وَرَبُّ ٱلۡمَغۡرِبَيۡن
فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَان
وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک (ہے).
پس اے جن و انس، تم اپنے رب کے کن کن عجائب قدرت کو جھٹلاؤ گے؟
قرآن میں تین اسلوب استعمال ہوئے ہیں
1)رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِب -
مشرق اور مغرب کا رب
2)فَلَ أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَـرِقِ وَالْمَغَـرِبِ
کئی مشرقوں اور کئی مغربوں کا رب
3)رَبُّ ٱلۡمَشۡرِقَيۡنِ وَرَبُّ ٱلۡمَغۡرِبَيۡنِ
دو مشرق اور دو مغرب کا رب
یہ تینوں الگ الگ باتیں ہیں۔
1- سب سے آسان تو یہی ہے رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِب - مشرق اور مغرب کا رب
یعنی سورج کے طلوع و غروب کے مقام کا رب ،دن اور رات کا ، جو کچھ دن میں کروگے اس کا بھی وہ رب ہے اور جو کچھ رات میں کروگے اس کا بھی وہ رب ہے ۔ ۔
2- رَبِّ الْمَشَـرِقِ وَالْمَغَـرِب
کئی مشرقوں اور کئی مغربوں کا رب
اصل میں مشرق اور مغرب سے سمتوں کے نام ہے۔ آپ جہاں کھڑے ہوں آپ کا مشرق اور مغرب الگ ہے،
میں جہاں کھڑی ہوں ، میرا مشرق و مغرب الگ ہے ، ہم سب مختلف جگہ کھڑے ہوں تو ہم سب کا مشرق و مغرب الگ ہو گا۔
وہ کئی مشرقوں اور کئی مغربوں کا رب ہے یعنی اللہ تمام نقطہ نظر کو دیکھ رہا ہے اور یعنی نکتہ نظر یہ زاویے سے میں بات کر رہی ہوں اللہ اس کو بھی دیکھ رہا ہے اور جسم تو نظر یہ زاویے سے آپ بات کریں ہیں اس کو بھی اللہ دیکھ رہا ہے یعنی اللہ کو تمام نقطہ نظر سے بات سمجھ آ رہی ہے اور ان سب نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اپنا کلام ہمیں دے رہا ہے ۔
یہ ہے رَبِّ الْمَشَـرِقِ وَالْمَغَـرِب۔
3- رَبُّ ٱلۡمَشۡرِقَيۡنِ وَرَبُّ ٱلۡمَغۡرِبَيۡنِ
دو مشرق اور دو مغرب کا رب
جو لوگ زمین میں کھیتی باڑی کرتے ہیں ،ان کو اس کا بہت اچھی طرح علم ہے کہ سال میں سورج کے طلوع ہونے کی جگہ چھ مہینے ایک مقام سے ہلکی سی شفٹ ہو کر دوسرے مقام تک چلی جاتی ہے ۔
اگر کسی کی کھڑکی سے سورج طلوع ہوتے ہوئے نظر آتا ہے، تو اس کو اندازہ ہوگا کہ چھ ماہ کے دوران سورج کے کھڑکی سے دوسری کھڑکی کی طرف چلا جاتا ہے اور اگلے چھ ماہ میں وہ واپس پہلی کھڑکی کی طرف آجاتا ہے ۔
اگر ایک کھڑکی سے دوسری کھڑکی کی طرف شفٹ ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے دو مشرق بنے ہیں اور اسی طرح دو مغرب بھی بنے ہیں۔
یعنی اشارہ کس کی طرف ہے؟
موسموں کی طرف ۔ ۔ !
موسم کی طرف اشارہ کرنے کی کیا وجہ ہے ؟
اس آیت سے پہلے انسانوں کی تخلیق اور پھلوں کھیتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ان سب میں کونسی بات ایک جیسی ہے؟
"موسم''
انسانوں پر بھی مختلف موسم آتے ہیں بچپن کا، جوانی کا اور بڑھاپے کا موسم۔
اور کچھ موسم واپس کیا جاتے ہیں جیسے بڑھاپے میں بچوں والی حرکتیں کرنے لگتے ہیں ، اللہ بتا رہے ہیں کہ تم جتنا بھی بھگ لو ، سارے موسم کا تو میں ہی مالک ہوں ۔
فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
اب کہ جب تم نے جان لیا ہے کہ تم وقت سے نہیں بھاگ سکتے تم نے اپنے رب کی طرف بڑھتے ہی جانا ہے، ہم اللّه کی طرف مسلسل بڑھ رہے ہیں ،
پھر بھی تمہیں احساس نہیں ہے کہ تم اللہ کی قدرتوں کا انکار کر رہے ہو، وہ وقت کا محتاج نہیں ہے ۔
ہمیں کیا لگتا ہے کہ ہمیشہ ہم جوان ہی رہیں گے؟ ہمیشہ ہمارے پاس یہ طاقت اور قوت ہی رہیں گی؟ کیا ہم نے کبھی بوڑھا نہیں ہونا؟
اللہ کی کون کون سی قدرتوں / طاقتوں / نعمتوں کا انکار کرو گے ؟
وقت ایک ایسی چیز ہے جس کو ہم کبھی خرید نہیں سکتے ہم ایک سال یا ایک مہینہ کبھی خرید نہیں سکتے۔
ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم ایک سیکنڈ خرید لیں اور پھر اس کو بعد میں استعمال کرلیں وہ ہمیں خرچ کرنا ہی کر رہا ہے کیونکہ وہ ہمارا ہے ہی نہیں ۔
ہمارا جو وقت گزر رہا ہے ، وہ واپس کبھی نہیں آئے گا۔
وَٱلۡعَصۡرِ🔅 إِنَّ ٱلۡإِنسَٰنَ لَفِى خُسۡرٍ
زمانے کی قسم انسان نقصان میں ہے ،ایک نقصان تو ہم سب کا ہو رہا ہے وہ وقت کا نقصان ہے، ہم چاہیں یا نہ چاہیں وقت نے گزرنا ہے، موسموں نے بدلنا ہے ،بوڑھے ہم نے ہونا ہی ہے،
یہ قوت اللہ کے ہاتھ میں ہے ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اب کس کس قوت / قدرت کا انکار کرو گے؟
پہلے اللہ نے وقت/ زمانے کی بات کی اور اب فاصلوں کی بات کر رہے ہیں یعنی یہ طاقت کے مختلف پہلو ہیں اور ایسی ایسی طاقتیں ہیں، جن کا انسان کبھی اندازہ بھی نہیں کرسکتا۔
اگلی آیت میں اللہ کی ایک اور عظیم قدرت کا ذکر ہے ۔
جاری ہے...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں