تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ- 9

 


تدبر سورۃ الرحمن

از استاد نعمان علی خان

پارٹ 9 آیت 14


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ


  فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 

پس اے جن و انس، تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟


 اللہ نے اب اُس آیت  کا ذکر کیا ہے جس کا بار بار ذکر آرہا ہے ۔

 بات اگر ایک ہو اور الفاظ بھی ایک ہی ہوں ، لیکن  وہ بات کب کی جارہی ہے، اس سے بات کے معنی بدل جاتے ہیں،

 

اس آیت کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے معنی اور اثر  میں فرق پڑتا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ الفاظ ایک ہی ہیں اور ہمیں عربی کا اتنا علم نہیں ہے تو  جب ہم سنتے ہیں؛

 فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 


 ہم سمجھتے ہیں کہ ایک ہی بات ہو رہی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے اس کے معنی بدل رہے ہیں، یہاں پہلی بار یہ آیت آئی ہے۔


Understand Meanings of Word  آلاء:


آلاء - مفسرین کے نزدیک اس کے معنی "نعمتیں" ہیں ۔ 


تم دونوں کے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟(عام ترجمہ)

یہاں دونوں کون ہیں؟ یہ بعد  میں بات ہوگی۔ 


"آلاء" نعمتوں کے لئے بہت کم استعمال ہوا ہے ، "عام عربی اسلوب" میں اس کے دو معنی ہیں؛


1- کوئی بہت حیران کُن چیز جو ہمیں حیرت میں ڈال دے ۔

2-  کوئی ایسی چیز جس سے کسی کی قوت و طاقت کا مظاہرہ ہو ۔


   فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 

 یعنی اللہ کی کون کون سی "قدرتوں" کو تم جھٹلاؤ گے؟


 یعنی اللہ کی کون کون سی" طاقتوں" کو تم جھٹلاؤ گے؟

 

 یعنی اللہ کی کون کون سی "حیرت انگیز چیزوں"/ "تحفوں" کو تم جھٹلاؤ گے؟

  

صرف نعمتوں سے صحیح بات سمجھ نہیں آتی ...


یعنی تمہارے اردگرد ایسی بہت سی چیزیں ہیں ،جس سے تم حیران ہو جانا چاہیے، لیکن تمہیں کوئی احساس ہی نہیں ہے ۔


 یہ اس سورت کا اصل پیغام ہے ؛

     "انسان کی ناشکری


یوں لگتا ہے کہ جیسے اس نے قرآن کا انکار کیا ہے کیونکہ شروع میں آیا تھا (علم القرآن) انسان کو قرآن اور بیان سکھایا ،اس کو قرآن کو ماننا چاہیے تھا ۔


اب یہ نہیں کہا کہ قرآن کو کیوں جھٹلاتے  ہو؟ قرآن کو کیوں نہیں مانتے؟


 بلکہ اب کہا کہ اللہ کی "قدرتوں" کو کیوں نہیں مانتے؟


 یعنی قرآن کا انکار تو ہے ، لیکن اصل مسئلہ "قرآن کا نہ ماننا" نہیں ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تمھارے اندر "شکرگزاری کا جذبہ نہیں ہے"۔ ۔ ۔

 

 انسانوں کی یہ خصلت ہے کہ جب اس کو بار بار کوئی چیز دی جائے تو اس میں یہ کمزوری ہے کہ وہ اس کا فائدہ اٹھانے لگ جاتا ہے ، اس کی عادت پڑجاتی ہے، جبکہ وہ یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اس کا مستحق نہیں ہے لیکن پھر بھی ۔

 

 مثال کے طور پر ایک ملازم ہے اور اس کا کوئی باس ہے، اس نے ملازم سے کہا ہے کہ 9 بجے آفس آ جانا اور پانچ بجے چھٹی ہوگی ۔


 اب ملازم کبھی 9:30 آفس آرہا ہے کبھی دس یا گیارہ بجے ۔ باس  اس کو  کچھ نہیں کہتا ہے اور اب ایک دو ماہ گزر جاتے ہیں اور وہ مسلسل لیٹ جاتا رہتا ہے۔

 

 کیونکہ اس کا خیال ہے کہ باس اس سے کچھ کہتا ہی نہیں ہے ۔ اب نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ جب باس نے ایک دن کہا کہ 9 بجے آ جانا تو ملازم کہتا ہے کہ میں بزی ہوں میں نہیں آسکتا ۔


پھر باس کہتا ہے دیکھو میں تمہیں آرام سے کہہ رہا ہوں اگر پھر بھی تم وقت پر نہ آئے تو مجھے تمہاری جاب لینی پڑے گی۔ ۔ ۔

 

پھر ملازم کو ہوش آتا ہے کہ دیکھو ذرا کتنا برا باس ہے ، جاب  سے نکالنے کی دھمکی دے رہا ہے ۔


جب ہمارے ساتھ بہت زیادہ نرمی کی جاتی ہے تو پھر ہمیں اس نرمی کی عادت پڑجاتی ہے، اب سوچیں اللہ نے ہمیں کتنا نوازا ہے ہر طرح کی آسائشیں اور نعمتیں دی ہیں۔ 


 پھر اگر کوئی ہماری خواہش ہوتی کہ میں وہ فلاں امتحان پاس کرلوں لیکن وہ امتحان پاس نہیں ہوتا۔ پھر ہم سوچتے ہیں کہ پتا نہیں اللہ ہماری کوئی دعا کیوں نہیں سنتا ۔


 پتہ نہیں ہم  نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے جس کی سزا ہمیں مل رہی ہے ۔ ہم فورا شکایتیں شروع کردیتے ہیں۔

 

بالکل ۔ ۔ ! اللہ نے تو واقعی ہمارے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔

 نہ وہ ہماری دھڑکن کا خیال رکھتا ہے۔ نہ ہماری حفاظت کررہا ہوتا ہے جب ہم سو رہے ہوتے ہیں اور نہ ہی جب ہم گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں، تو ہماری حفاظت کے لئے  فرشتے بھیجتا ہے ۔

واقعی!! اس نے کیا کیا ہے ہمارے لئے؟

  اتنی جلدی ہم ناشکرے بن جاتے ہیں۔ ہمیں صرف ایک پرابلم آتی ہے اور ہم کہتے ہیں ؛ 

  

رَبِّىٓ أَهَٰنَنِ 

میرے رب نے میری بےعزتی کردی۔


یہ سوال کیا گیا ہے انسان سےکہ تم کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے؟


انسان کو شکر گزار ہونے کی بہت ضرورت ہے ہمارے پاس جب نعمتیں ہوتی  چلی جاتی ہیں تو ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے ہم اس کے مستحق ہیں ۔


میں اس بات کا مستحق ہوں کہ میرے اردگرد کا جو ماحول ہے وہ میرے مطابق اور مجھے خوشی دینے والا ہو، میں اس کا مستحق ہوں کہ موسم خوشگوار ہی رہے ،ہوا ٹھنڈی چلے ، ذرا سی گرمی ہوتی ہے تو میرا منہ بگڑ جاتا ہے کہ کیا مصیبت ہے ۔ ۔ ۔ !


ہمارا یہ رویہ ہو گیا ہے کہ ہر چیز بس "ہماری مرضی" کے مطابق ہو ۔


 فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 

تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟

تمہاری خدمت میں ہر مخلوق کو لگایا ہوا ہے۔ تمہارے کھانے پینے کا احتمام کیا ہوا ہے۔ کن کن کا انکار کرو گے؟


اگر تم میں شکر گزاری ہے تو تمہیں اس قرآن کی مٹھاس سمجھ میں آئے گی ۔ اگر تم میں شکرگزاری نہیں ہے تو تمہیں کچھ سمجھ نہیں آئے گا !


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں