سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔مدینہ کی شہری ریاست




سیرت النبی کریم ﷺ 

مدینہ کی شہری ریاست


موجودہ دو رمیں شہری حکومت کے مقاصد کچھ اس طرح ہوتے ہیں:

۱- شہر کی گلیوں اور شاہراہوں کا بندوبست، مارکیٹوں کی تعمیر، رہائشی انتظامات۔
۲- پینے کے پانی کی فراہمی اور تقسیم۔
۳- گندے پانی کی نکاسی، کوڑے کرکٹ کے پھینکوانے کا بندوبست۔
۴- تعلیم، علاج، دیگر فلاحی ادارں، کھیل کے میدانوں کا قیام۔
۵- چمن بندی اور شہر کی خوبصورتی اور تفریح گاہوں کا انتظام۔
۶- ان کاموں کے لیے مالی وسائل اور کاموں کا احتساب۔

حضور پاک صلى الله عليه وسلم کی احادیث سے ہمیں بلدیاتی نظام کے بہت سے اصول ملتے ہیں، جہاں تک محکمۂ احتساب کا تعلق ہے، فارابی، ماوردی اور طوسی اسی کی موافقت میں ہیں، ماوردی نے محکمۂ احتساب کی خصوصیات کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ محکمۂ انصاف اور محکمۂ پولیس کے درمیان ایک محکمہ ہے، محتسب کا فریضہ یہ ہے کہ اچھے کام جاری کرے اور برے کاموں کو روکے۔

بلدیاتی نظام میں سب سے اہم سڑکوں، پلوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کے علاوہ نئی شاہراہوں کی تعمیر اور آئندہ کے لیے ان کی منصوبہ بندی کا کام ہوتا ہے، بعض لوگ ذاتی اغراض کے لیے سڑکوں کو گھیر لیتے ہیں، بعض مستقل طور پر دیواریں کھڑ ی کر لیتے ہیں، فقہِ اسلامی میں اس کے بارے میں واضح احکام ملتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنه کہتے ہیں کہ: ”اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جب تم راستے میں اختلاف کرو تو اس کی چوڑائی سات ہاتھ ہوگی، اس سے کم گلی بھی نہیں ہوسکتی۔“ (صحیح مسلم)

حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے سڑکوں پر گندگی ڈالنے سے روکا ہے، آپ صلى الله عليه وسلم نے سڑکوں پر سے رکاوٹ کی چھوٹی موٹی چیز کو ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیا ہے، سڑکوں پر سایہ دار درخت لگانے کا حکم ہے۔ ابواللیث سمر قندی رحمة الله عليه اپنے ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ ”کسی سمجھ دار آدمی کے لیے یہ بات زیبا نہیں کہ وہ راستہ پر تھوکے یا ناک صاف کرے، یاکوئی ایسا کام کرے، جس سے سڑک پر پیدل چلنے والے کے پاؤں خراب ہوجائیں، اسلام کا قانون حق آسائش اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ سڑک پر کوئی عمارت بنائی جائے۔

سڑکوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور راستہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے آپ صلى الله عليه وسلم نے منع کیا ہے، آپ صلى الله عليه وسلم نے جانوروں تک کے لیے راستہ کی آزادی برقرار رکھی ہے، قبل از اسلام مدینہ کی گلیوں میں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ تھا، بیت الخلاء کا اس زمانہ میں رواج نہ تھا، لیکن مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے جب شہروں کی آبادی بڑھنے لگی تو پھر ان مسائل کا حل تلاش کیا گیا، شہر میں پینے کے پانی کی بہم رسائی کا سرکاری طورپر انتظام کیا گیا، مدینہ میں پینے کے لیے میٹھے پانی کے کنوئیں اور چشمے بمشکل دستیاب ہوئے، حضرت عثمان رضى الله عنه نے جو خود بھی مدینہ کی نو آبادی میں رہتے تھے، آنحضور صلى الله عليه وسلم کے حکم کے مطابق اہلِ مدینہ کے لیے یہودیوں سے میٹھے پانی کا کنواں بئرِ روما خرید کر وقف کردیا۔ (صحیح بخاری باب فضائل )

اسلام جسم و جان کی پاکیزگی اور ظاہر و باطن کی صفائی پر بہت زیادہ زور دیتاہے، وضو، طہارت، غسل کے احکامات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے مسجدیں بناکر وہاں طہارت خانہ تعمیر کرنے کی ہدایت جاری کی، اسلام کے عمومی مزاج اور آپ صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان کے بعد گھر گھر غسل خانے بن گئے، ہر مسجد کے ساتھ طہارت خانہ تعمیر کیے گئے۔ (ابن ماجہ)

ہجرت سے قبل مدینہ میں ناجائز تصرفات عام تھے، رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے اسے سختی سے منع فرمادیا، گلی یا کوچہ کی کم سے کم چوڑائی جھگڑا ہوجانے کی صورت میں سات ہاتھ ”ذراع“ مقرر کی گئی۔ (صحیح مسلم ) جوفِ مدینہ کی آبادیوں میں گلیاں عام طور پر تنگ ہوتی تھیں، اس لیے مدینہ میں بھی کوچہ تنگ، مگر سیدھے تھے، باوجود یہ کہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مکانات مختصر تھے، مگرعام طور پر آپ صلى الله عليه وسلم نے کشادہ مکانات کو پسند کیا اور فرمایا: ”خوش بخت ہے وہ شخص جس کی جائے رہائش وسیع اور پڑوسی نیک ہوں۔“ (امام بخاری ۔ باب ادب المفرد)

حفظانِ صحت کا خیال رکھنا اسلامی زندگی کا بنیادی نظریہ ہے، صفائی اور پاکیزگی کو اسلام نے نصف ایمان کا درجہ دیاہے، گھر، گھر کے باہر کا ہر مقام، اپنے جسم، اپنے کپڑوں کی پاکی کا حکم بار بار آیا ہے، مسجدوں کو پاکیزگی کے نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے، سرکاری عمارتوں کو پاک صاف رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ بعض بدوی مسجد نبوی کی دیواروں پر تھوک دیتے تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم اپنے ہاتھوں سے اس جگہ کو صاف کرتے تھے، وضو اور غسل کا نظام، غلاظت سے صفائی کے احکام، چوپال، کھلیانوں کی جگہ، دریاؤں کے کنارے اور تفریح کے مقامات کو پاک صاف رکھنا حفظانِ صحت کے اصول کے مطابق بھی ہے اور اس میں شائستگی کا اظہار بھی ہے۔

حفظانِ صحت ہی کے اصول کے تحت بلدیاتی نظام میں کھانے پینے کی چیزوں کے خالص بونے پر زور دیا گیا ہے، ملاوٹ کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں اور عذاب کی وعید ہے، پینے کے پانی کو صاف رکھنے اور گندے پانی کی نکاسی کے احکام بھی اسی عنوان کے تحت آتے ہیں، اسی عنوان سے متعلق بیماریوں کے علاج کی سہولتیں بھی ہیں، ان میں وباؤں کے خلاف حفاظتی تدابیر اور ہر وقت ان کے انسداد کی ذمہ داری شہری حکومت پر ہے۔

سایہ، چمن بندی، عوامی تفریح گاہوں کا انتظام بھی عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے، مثلاً سورۂ عبس میں ارشاد ربانی ہے کہ” ہم نے زمین سے اناج اگایا اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھنے باغ اور میوے اور چارا، یہ سب کچھ تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے لیے بنایا ہے “ (سورۂ عبس آیت : ۳۲۔۲۷)

ہجرت کے وقت مدینہ باغوں کی سرزمین کہلاتا تھا اور یہاں کے لوگ باغات کے بہت شوقین تھے، رسول صلى الله عليه وسلم نے شہر اور مسجد کی تعمیر کے وقت یہ کوشش کی کہ وہاں موجود کھجور کے درختوں کو کم سے کم نقصان پہنچے، مسجد النبی صلى الله عليه وسلم کے دروازہ کے قریب کھجور کے درختوں کا ذکر کتب احادیث میں ملتا ہے، جہاں غسل خانہ اور طہارت خانہ بھی تھا اور کنواں بھی اسی جگہ تھا، مسجد النبی صلى الله عليه وسلم کے بڑے دروازہ کے بالمقابل حضرت ابو طلحہ انصاری رضى الله عنه کا وسیع و شاداب باغ بیرحاء تھا، جہاں حضور پاک صلى الله عليه وسلم اکثر تشریف لے جاتے۔ ( صحیح بخاری، نسائی، ابن ماجہ )

مدینہ میں نکاسیِ آب کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا، کیوں کہ شہر اونچی ڈھلوانی جگہ پر تھا، اکثر کہیں سے کوئی پہاڑ ی ندی، نالہ گزرتا تھا تو وہاں باندھ کے ذریعہ عمارات اور تعمیرات کو محفوظ بنادیا گیا تھا۔

ہجرت کے بعد مدینہ میں خرید و فروخت کی سہولت کے لیے علیحدہ منڈی یا بازار بنادیا گیا، خیال یہ ہے کہ یہ منڈی بنو قینقاع کے اخراج (۳ھ)کے بعد قائم ہوئی ہوگی، کیونکہ اس سے پیشتر عبد الرحمن بن عوف رضى الله عنه اور دوسرے تجارت پیشہ مسلمان اپنا کاروبار قینقاع کے بازار میں کرتے تھے۔ (صحیح مسلم )

مدینے کا بازار مسجد النبی صلى الله عليه وسلم سے کچھ زیادہ فاصلہ پر نہ تھا، بازار خاصا وسیع و عریض تھا اور آخر عہد نبوی میں نہایت بارونق اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا، تجارت کے فروغ کے لیے جناب رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے زبردست کوششیں کی، جن میں سب سے اہم آپ صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان تھا۔ ”مدینہ کی منڈی میں کوئی خراج نہیں ہے۔ “ (فتوح البلدان، بلاذری )

زمانۂ جاہلیت میں خفارہ کا نظام اور قدم قدم پر محصول چنگی کی وجہ سے تجات میں بڑ ی رکاوٹیں تھیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے مختلف سیاسی اور عسکری مصالح کے پیش نظر یہ حکم صادر فرمایا جو دور رس نتائج کا سبب تھا اور دراصل اس طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے چنگی کی لعنت ہی ختم نہ کی، بلکہ جزیرة العرب کی تسخیر کے بعد تمام ملک میں، مدینہ کی طرح آزادانہ درآمدات اور برآمدات کی اجازت دے کر بین الاقوامی آزاد تجارت کی داغ بیل ڈالی اور جدید تحقیقات نے اس بات کا نا قابل تردید ثبوت فراہم کردیا ہے کہ آزاد بین الاقوامی تجارت نہ صر ف اقوام و ملل کے لیے، بلکہ پوری نوعِ بشر کی مادی ترقی کے لیے ضروری ہے، جس کے ذریعہ بین الاقوامی طور پر اشیاء کی قیمتیں متوازن رکھ کر عوام کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے، اس طرح اقوام خوشحال بن سکتی ہیں۔

مدینة النبی صلى الله عليه وسلم میں یہ کام اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم خود انجام دیتے تھے، حضور سرورِ کائنات صلى الله عليه وسلم مدینہ کے بازاروں میں نکلتے تو جگہ جگہ رک کر، ناپ تول کر، پیمانہ دیکھتے، چیزوں میں ملاوٹ کا پتہ لگاتے، عیب دار مال کی چھان بین کرتے، گراں فروشی سے روکتے، استعمال کی چیزوں کی مصنوعی قلت کا انسداد کرتے، اس ضمن میں سید نا حضرت عمر رضى الله عنه، حضر ت عبیدہ بن رفاعہ رضى الله عنه، حضرت ابو سعید خدری رضى الله عنه، حضرت عبداللہ بن عباس رضى الله عنه، حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه، حضرت انس رضى الله عنه، حضرت ابو امامہ رضى الله عنه، حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله عنه، حضرت عائشہ صدیقہ رضى الله عنها، حضرت علی رضى الله عنه اور دیگر صحابہ کرام رضى الله عنه کی بیان کردہ حدیثیں اصولوں کی تعین کرتی ہیں۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں