سیرت النبی کریم ﷺ
غزواتِ نبوی ﷺ اور اسیرانِ جنگ:
تاریخ کے اوراق اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ اسلام سے قبل قیدیوں کے ساتھ سلوک کی صورت حال یہ تھی کہ قیدیوں کو کسی اندھے کنویں میں ڈال کے کنویں کے منہ پر سِل پتھر کی لا کر ڈال دیتے تھے:
الطاف حسین حالی نے اشعار میں منظر کشی کی کہ:
پہلے دست و بازو توڑ دیتے تھے،
زمیں میں گاڑ کر پھر ان پہ کُتے چھوڑ دیتے تھے،
کبھی زندوں کے تن سے بوٹیاں نچوائی جاتی تھیں،
سلاخیں گرم کر کے جس پر برسائی جاتی تھیں،
کبھی پٹوایا جاتا تھا انہیں پُرخار کوڑوں سے،
کبھی رُندوایا جاتا تھا اونٹوں اور گھوڑوں سے۔
انتقام کا جذبہ یوں دلوں میں ٹھاٹھیں مارتا تھا کہ زندہ تو زندہ، مُردوں کے بھی ہاتھ، پاؤں، ناک، کان وغیرہ کاٹ لیے جاتے، مقتول کا کلیجہ نکال کر چبانا کوئی مشکل بات نہ تھی۔
رسولِ عربی ﷺ نے جنگ کی حقیقت میں جو انقلابِ عظیم برپا کیا، اس میں سب سے نمایاں کارنامہ جنگ کے مقصد کو متعین کرنا اور اسے محض خون آشامی و غارت گری کے دائرے سے نکال کر ایک اعلیٰ اخلاقی اور مدنی نصب العین کی سطح تک لانا ہے، آپ ﷺ سے قبل جنگ کسی نیک مقصد کے لئے نہیں لڑی جاتی تھی، عرب میں جنگ کے لئے جو الفاظ، محاورے، ترکیبیں اور استعارے استعمال ہوتے تھے وہ سب کے سب صرف ایک وحشیانہ جنگ کا تصور پیش کرتے تھے، لیکن اسلام نے تمام رائج الوقت الفاظ و اصطلاحات کو موقوف کر کے ''جھاد فی سبیل اللّٰہ'' کی اصطلاح وضع کی، یہ جنگ تو وہ جنگ ہے جو اللہ کے احکام کے اندر رہ کر خالص اللہ کے لئے لڑی گئی ہو۔
غزوات نبوی کی تو ایک طویل فہرست ہے، لیکن جنگی قیدیوں کے حوالہ سے یہاں صرف دو غزوے ہی کا تذکرہ کیا جائے گا جو اس سلسلے میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ غزوۂ بدر اور فتح مکہ۔ اس لیے کہ یہ قیدی ہی نہیں بلکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حضور ﷺ اور اُن کے ساتھیوں کو پل بناکر تیرہ چودہ سال کی طویل مدت تک ظلم و تعدی کے تمام سرحدوں کو پار کرکے وطن سے بے وطن کردیا، جب یہ پردیسی اجنبی شہر میں اطمینان کی سانس لینے لگے تو اس کو بھی قریش قوم ہضم نہ کرسکی اور مدینہ پر بھی کاٹ کھانے کے لیے مار کھانے کے لیے چڑھ آئی، لیکن رب برحق نے انہیں اوندھے منہ گراکر انتہائی شرمناک شکست سے دوچار کیا اور ستھر قید ہوکر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
غزوۂ بدر:
لیکن قربان جائیے اس محسنِ انسانیت ﷺ پر جس نے ان کی دوہری دشمنی کے باوجود ان کے ساتھ اچھے سلوک کی تلقین کرکے اپنے مختلف ساتھیوں میں تقسیم کردیا، تاریخ شاہد ہے کہ نبی ﷺ کے ان دیوانوں نے مہمانوں کی طرح ان قیدیوں کی دیکھ بھال کی، خود کھجور پر اکتفا کرکے انہیں روٹی کھلائی، ایک قیدی ”ابوعزیز“ کا بیان طبری نقل کرتے ہیں کہ:
"میں جن انصاریوں کے پاس قید تھا جب وہ لوگ صبح و شام میرے سامنے کھانا لاتے تو روٹی میرے سامنے رکھ دیتے، خود کھجوریں اٹھالیتے مجھ کو شرم آتی اور میں روٹی ان کے ہاتھ میں دے دیتا لیکن وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھ کو واپس کردیتے۔"
ایک قیدی سہیل بن عمرو نہایت فصیح و بلیغ شخص تھا، حضور ﷺ کے خلاف ہمہ وقت زہر افشانی کرتا رہتا، حضرت عمرنے ان کے دانت اکھڑوا دینے کا مشورہ دیا، حضور ﷺ نے سختی سے منع فرمایا، ان قیدیوں کے گندے کپڑوں کے بدلنے کا حکم دیا، جب ان اسیروں کے متعلق مشورہ ہوا تو حضرت عمرؓ نے تمام کو تہہ تیغ اور عبداللہ بن رواحہؓ نے نذرآتش کر دینے کا مشورہ دیا اور حضرت صدیقؓ نے فدیہ لے کر رہا کر دینے کی رائے دی، محسنِ انسانیت ﷺ نے آخری مشورہ پر فیصلہ فرمایا، لیکن رحم وکرم کی بارش یہیں ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ اس سراپا رحمت نے فدیہ میں بھی ان قیدیوں کی حیثیتوں کا مکمل لحاظ رکھا، چنانچہ جو صاحب ثروت تھے ان کا فدیہ مال طے ہوا، جو صاحب علم وفن تھے ان کی رہائی کا معاوضہ لکھانے پڑھانے کا کام سپرد ہوا اور جو اس قابل بھی نہ تھے اور بالکل تہی دست تھے، ان کو عفو و درگزر کا تحفہ دے کر ویسے ہی رہا کردیا۔
فتح مکہ:
فتح مکہ انسانی اقدار کی حقیقی تاریخ کو ظاہر کرتا ہے، یہ دن تو انتقام کی پیاس بجھانے کا دن تھا، لیکن اس معلم کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانشینوں کی ایسی تربیت کی تھی کہ انہوں نے نقشۂ عالم پر آپ کی رحمت عالم ہونے کا ایسا اثر چھوڑا کہ چشم فلک نے دیکھ لیا کہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن کے ایوان حق و انصاف میں انتقام پر انسانیت کا غلبہ ہے، جبکہ اس موقع پر اس عظیم فاتح کے ساتھ عظیم لشکر ہے، اسلحے ہیں، مکمل طاقت ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے سامنے ماضی کے دلخراش واقعات بھی ہیں، ''شعب ابی طالب'' کی تین سالہ قید وبند، آہ و بکا، بھوک و پیاس، اضطراب و بے چینی اور بے پناہ مصائب و آلام کی درد انگیز روداد بھی، تپتی ہوئی چٹانیں، شعلے اگلتے سنگریزے، کھجور کے کھردرے تنے، تانت کی رسیاں، راہ کے کانٹے، کوڑے کرکٹ، اونٹ کی اوجھ، گلے کے پھندے، چٹائیوں کے رول اور دھوئیں سب کے سب آج ایذارسانوں کے خلاف انتقام کے شرارے کو ہوا دے رہے تھے، انتقام انتقام!! کی صدائے باز گشت سے پوری فضا گونج رہی تھی، گردوپیش بھی اپنے زبان حال سے ہم نوائی کررہے تھے، دشمنوں کو ہست سے نیست کرنے کا اس سے شاندار و خوشگوار کون سا موقع ہوسکتا تھا کہ دشمنوں کو خود اپنی تباہی کا یقین ہوگیا تھا، اُس کے باوجود محسنِ انسانیت اور مُردوں کے مسیح صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر بقائے انسانی کے اجزائے ترکیبی (امن ومساوات اور آزادی) کا اس طرح اعلان کرتے ہیں کہ:
"انسانو! مکہ ہمیشہ سے دارالامان ہے، کسی باخدا انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ آج کے بعد اس سرزمین میں خون بہائے اور اُس کی سرسبزی و شادابی کو نقصان پہنچائے، آج جاہلیت کے خاندانی اور نسلی غرور کا خاتمہ کردیا گیا ہے، تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں، جاؤ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاؤ، اب تم سب کے سب آزاد ہو!!!"
غزوات نبوی اور موجودہ جنگی صورتِ حال:
دورِ حاضر کے تناظر میں غزوۂ نبوی اور غیرفطری جنگ کا تجزیہ کریں۔ اسلامی جنگوں کے اخلاقی دنیا پر کیا اثرات پڑے، اُس کے برخلاف دوسری جنگوں میں انسانی دنیا کی اخلاقی، مادی اور جانی اقدار میں کتنا بڑا بھونچال آیا۔
مثال کے طور پر پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں انسانیت سوزی کی دل دوز تاریخ اور ۱۱/ستمبر ۲۰۰۱/ کے بعد افغانستان اور عراق میں انسانی قدروں کی زبردست پامالی اور اُن کی کھوپڑیوں سے تیسری جنگ عظیم کے اُٹھتے شعلے۔
درحقیقت یہ جنگ نہیں بلکہ ظلم وعدوان اور انسانیت سوزی کی آخری شکل ہے، جس کی مختصر روداد یہ ہے کہ دونوں عظیم جنگوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق چار کروڑ انسانی جانیں تلف ہوئیں، اسلام کے خلاف دہشت گردی کے عنوان سے امن و مساوات اور انسانی قدروں کی دھجیاں اڑانے والوں نے افغانستان کے لاکھوں بے گناہ بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو بم و بارود کے نذر کردیا اور ایک خوشگوار اور امن وامان کا گہوارہ ملک کو راکھ کی ڈھیر میں تبدیل کردیا، اُس کے بعد بھی جب پیاس نہ بجھی تو انسان نما بھیڑیوں کی للچاتی نگاہیں عراق کی طرف اُٹھیں اور وہاں کے تقریباً ۷/لاکھ بے قصور انسانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائی۔
ان درندوں نے ”ابوغریب“ جیل میں انسانی قدروں کا جس طرح مذاق اُڑایا اور اُڑا رہے ہیں کہ اُسے حیوانیت، سفاکیت اور شیطنت کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے؟ ان کے سیاہ کرتوت کی تعبیر کے لیے لغات کے ذخائر میں کوئی لفظ بھی نہیں، ان نفس پرستوں نے عین تہوار کے دن ایک ملک کے صدر کو اُسی کی زمین پر اذیت ناک موت کا ایسا تحفہ دیاکہ انسانی اقدار کے چیتھڑے اُڑگئے، ہوس کی پجاری قوم نے ایک شخص، ایک ملک یا ایک مذہب پر تیشہ زنی نہیں کی بلکہ پوری اخلاقی دُنیا پر بزدلانہ حملہ کیا۔
اُس کے برعکس غزواتِ نبوی کا بھی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک فطری جنگ ہے اور اُس کے اندر ظلم وزیادتی سے پاک غیرجانبدارانہ حصول اور عدل و مساوات کی جو سچی تصویریں ملتی ہیں جن سے نہ صرف یہ کہ گزشتہ قوم کی جنگی بے راہ روی ختم ہوئی بلکہ انسانی قدروں کو ایک نئی روح اور دائمی زندگی مل گئی۔
چناں چہ ایک تحقیق کے مطابق عہدِ نبوی کے تمام غزوات میں کل 6564 قیدی اور 759 لوگ مقتول ہوئے اور مسلمانوں میں 259 لوگ شہید اور ایک بزرگ قید ہوئے اور تاریخ گواہ ہے کہ دشمنوں کے ان قیدیوں میں سے 6348 قیدیوں کو اس نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ حنین کے بعد بغیر کسی شرط کے رہا کردیا، صرف ایک شخص قصاصاً قتل ہوا، پھر 215 قیدیوں میں 70 کو بدر میں فدیہ لے کر رہا کردیا گیا، اُس کے بعد جبالِ تنعیم پر مسلمانوں پر حملہ کرتے ہوئے 80 لوگ قید ہوئے اُن کو بھی اسی طرح رہائی ملی۔
واقعات وقرائن اور آپ ﷺ کی ذات سے یقین ہے کہ بقیہ قیدی بھی رہا اور آزاد ہوگئے ہوں گے، کیا اُس وقت کے کسی قوم کے جنگی اُصولوں میں قیدیوں کی سزا کا غلامی اور قتل کے سوا کوئی تیسرا رُخ تھا؟ جہاں تک غلام اور لونڈی بنانے کی بات ہے تو اُس کے رموزو اسرار کو بھی اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ پہلے قیدیوں کے تبادلہ کا کوئی تصور نہ تھا، اس لیے اضطراراً اسلام نے غلامی کا حکم نہیں بلکہ اُس کی اجازت دی اور اسلام میں چونکہ عورتوں سے قتال جائز نہیں اور جنگوں میں بسا اوقات مرد سب کے سب مقتول ہوجاتے تھے اور اُن کی عورتیں بے سہارا اور بے یار ومددگار ہوجاتی تھیں، اس لئے اُن کے حق میں اس سے زیادہ مناسب کوئی طریقہ نہ تھا کہ امیر اُن عورتوں کو لشکر کے ذمہ لگا دے جو اُن کی کفالت کرسکے۔
اگر اسلام کا یہی نظریہ ہوتا تو پھر جگہ جگہ غلام لونڈی کی آزادی و رہائی پر بے شمار فضائل کی خوشخبری اور اجرعظیم کا وعدہ نہ کیا جاتا اورنہ ہی اُن سے حسن سلوک کی تاکید اور غلطیوں کے نظر انداز کا حکم دیا جاتا، لیکن اسلام نے مختلف حربوں سے ان کی آزادی کا سامان مہیا کیا اور معاشرہ میں اُن کو ایک مقام عطا کیا، یہ وہ اسباب و عوامل ہیں جن سے پوری طرح یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ تعلیم نبوی نے غلامی کا تصور نہیں بلکہ درحقیقت اُس کو ختم کیا، لیکن یکبارگی نہیں بلکہ اپنے مزاج کے مطابق بتدریج یہ کام کیا، ایسے اشخاص کی ایک طویل فہرست ہے جو آزاد ہوکر بعد میں بڑے بڑے مناصب پر فائز ہوئے اور ایک دُنیا اُن سے سیراب ہوئی۔
اس قدر ٹھوس اور مکمل قوتِ نافذہ رکھنے والا اس دنیا کا کوئی قانون ہوسکتا ہے؟ اسلام کے علاوہ دوسرے ایوانوں میں عمل و مساوات اور انسانی اقدار کے اُوجھل نقوش ملتے بھی ہیں تو وہ حیاتِ محمدی ہی سے مستعار لئے گئے ہیں، لیکن عملی میدان میں پھر بھی وہ اپاہج ہی ہیں اور اُن کے تنفیذی قوت کی سوئی صفر پر ․․․․ سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ وہ روشن حقائق ہیں جو متعصب قوم اور امن و مساوات کے نام پر سفاکیت کے علمبرداروں کو دعوت فکر دیتے ہیں۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں