سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 36


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 36 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صادق اور امین کا خطاب: 


پچھلی قسط میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نوجوانی کے زمانہ کے دو مشہور واقعات کا تذکرہ کیا گیا، اس قسط میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور شباب کے مزید حالات بیان کیے جائیں گے۔

اللہ نے اپنے تمام انبیاء کو ساری زندگی شرک و گمراہی اور رسوم جاہلیت سے محفوظ رکھا، چنانچہ تمام ہی انبیاء کرام اپنی نبوت و رسالت سے پہلے بھی اپنے خاندان و قبیلہ اور قوم کے صالح ترین انسان قرار پائے، جیسے حضرت ابراھیم علیہ السلام یا حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات سے ظاہر ہے۔

اسی طرح نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھی اپنی نبوت و رسالت سے پہلے اپنے لڑکپن اور دور جوانی میں شرک و بت پرستی اور تمام مراسم شرک سے بلکل پاک اور منزہ رہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیکی، خوش اطواری، دیانت، امانت اور راست بازی کی اس قدر شہرت ہوگئی تھی کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نام لے کر نہیں بلکہ "الصادق یا الامین" کہہ کر پکارتے تھے، جیسا کہ ابن ھشام کی روایت میں ہے کہ: 

"پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں جوان ہوئے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور نگرانی فرماتے تھے اور جاہلیت کی تمام گندگیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پاک اور محفوظ رکھتے تھے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہوچکا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت و رسالت اور ہر قسم کی عزت و کرامت سے سرفراز فرمائے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرد کامل ہوگئے اور مروت و حسن خلق، حسب و نسب، حلم و بردباری و راست بازی اور صداقت و امانت میں سب سے بڑھ گئے اور فحش و اخلاق رذیلہ (بری عادات و خصلت) سے انتہا درجہ دور ہوگئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم "(الصادق) الامین" کے نام سے مشہور ہوگئے۔"

حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جب مشرکین مکہ بیت اللہ کا طواف کرتے تو "اساف و نائلہ" (دو بتوں کے نام) کو چھوتے تھے، ایک بار میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا، جب ان بتوں کے پاس سے گزرا تو ان بتوں کو چھوا،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو (ان بتوں کو چھونے سے) منع کیا۔

میں نے اپنے دل میں کہا کہ دیکھوں تو سہی کہ چھونے سے ہوتا کیا ہے، اس لیے دوبارہ ان کو چھوا،  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ذرا سختی سے منع کرتے ہوۓ فرمایا: "کیا تم کو منع نہیں کیا تھا۔"

حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، " اللہ کی قسم! اس کے بعد کبھی کسی بت کو ہاتھ نہیں لگایا،  یہاں تک کہ اللہ تعالی' نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا کلام اتارا۔"

(مستدرک حاکم.. جلد 3 صفحہ 216)

ایک مرتبہ (ایک دعوت میں) قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھانا لا کر رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو کھانے سے انکار کیا، وجہ یہ تھی کہ قریش جانوروں کو غیراللہ کے نام پر ذبح کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتوں کے چڑھاوے کھانے سے اپنی پاکیزہ طبیعت کی وجہ سے نفرت تھی۔

خلاصہ یہ کہ تمام انبیاء کرام کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ابتداء سے ہی نہایت صالح طبیعت والے اور کفروشرک اور ہر قسم کے فحشاء و منکر سے پاک اور منزہ تھے۔

"مسز اینی بیسنٹ" ہندوستان میں تھیو سوفیکل سوسائٹی کی پیشوا اور بڑی مشہور انگریز عورت ہے، وہ لکھتی ہے: 

"پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جس بات نے میرے دل میں اُن کی عظمت وبزرگی قائم کی ہے، وہ اُن کی وہ صفت ہے جس نے اُن کے ہم وطنوں سے "الامین" (بڑا دیانت دار) کا خطاب دلوایا،  کوئی صفت اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی اور کوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لئے قابلِ اتباع نہیں، ایک ذات جو مجسم صدق ہو، اُس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے، ایسا ہی شخص اس قابل ہے کہ پیغامِ حق کا حامل ہو۔" 

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 36  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صادق اور امین کا خطاب:  پچھلی قسط میں آ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 35


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 35 

جنگ فجار اور معاہدہ حلف الفضول:


مستند روایات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لڑکپن اور زمانہ شباب دور جاہلیت کے تمام اکل و شرب، لہو و لعب اور دوسری تمام ناپسندیدہ اقدار سے پاک رہا، باوجود اس کے کہ عرب معاشرہ سر تا پا بدکاری اور بےحیائی میں ڈوبا ہوا تھا اور ایسے تمام بداعمال عرب معاشرہ میں نہایت ہی پسند کیے جاتے تھے، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کو ان سے محفوظ رکھا، اس کھلی بدکاری کے ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم عمر نوجوان جب جوانی کی خرمستیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے عین الٹ طریق پر اپنی راست بازی اور پاکیزگی میں مکہ کے صالح ترین انسان کے طور پر سامنے آئے۔

دوسری طرف ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شرک و گمراہی کے کسی فعل میں شریک ہوئے ہوں، خانہ کعبہ کے طواف کے دوران جب مشرکین طرح طرح کے شیطانی اعمال و شرکیہ رسومات میں مبتلا ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سب سے الگ تھلگ اپنا طواف جاری رکھتے، اس دوران نہ صرف خود ایسی بداعمالیوں اور شرک و بت پرستی سے دور رہتے، بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم قریش کے اس دین پر کبھی نہیں چلے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم نے دین ابراھیمی ترک کرکے اپنا لیا تھا، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبل بعثت ہر قسم کی بےحیائی و بدکاری سے پاک صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ ارتکاب شرک و گمراہی سے بھی محفوظ رکھا۔

"جنگ فجار" میں شرکت: 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر بیس سال تھی، جب قبیلہ قریش اور قبیلہ "قیس عیلان" کے درمیان ایک بہت ہی زبردست جنگ ہوئی، یہ جنگ "حرب الفجار" کے نام سے مشہور ہے۔ "بنی کنانہ" بھی اس جنگ میں قریش کے اتحادی تھے، یہ جنگ چونکہ ان مقدس مہینوں میں لڑی گئی جن میں قتل و غارت کرنا، فسق و فجور ناجائز اور حرام تھا، اس لیے اس جنگ کو "حرب الفجار" کا نام دیا گیا۔

قبیلہ قریش کے تمام ذیلی قبائل نے اس معرکہ میں اپنی الگ الگ فوجیں قائم کی تھیں، بنو ھاشم کے علمبردار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا جناب زبیر بن عبدالمطلب تھے، جبکہ ان تمام قریشی فوجوں کی مشترکہ کمان حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے والد اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دادا "حرب بن امیہ" کے ہاتھ میں تھی جو رئیس قریش اور نامور جنگجو تھے۔

ابن ھشام کے مطابق بازار عکاظ میں ہونے والا ایک قتل اس جنگ کی وجہ بنا، دونوں ہی فریقوں نے ایک دوسرے کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا، بڑھتے بڑھتے یہ تنازعہ اتنا بڑھا کہ ان میں جنگ کی نوبت آگئی۔

چونکہ اس تنازعہ میں قریش خود کو برسرحق سمجھتے تھے اور پھر خاندان کے ننگ و نام کا معاملہ بھی تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے چچاؤں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوئے،  لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوران جنگ کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا، بلکہ صرف اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا اٹھا کر دیتے رہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ جنگ ان مقدس مہینوں میں ہوئی جن میں جنگ کرنا حرام تھا، دوسری طرف ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں ہی فریق مشرک تھے، اس لیے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بےمقصد قتل و غارتگری سے محفوظ رکھا، کیونکہ مومن کو قتال اور جہاد و جنگ و جدل کا حکم فقط اس لیے دیا گیا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اور اسی کا بول بالا ہو، جبکہ یہ جنگ محض نسلی و قبائلی نام و نمود کے لیے لڑی گئی۔

جنگ شروع ہوئی تو اول اول قبیلہ قیس عیلان کا پلہ بھاری رہا، لیکن دوپہر کے بعد قریش بتدریج غالب ہوتے گئے اور بلآخر قریش ہی فتح یاب ہوئے، تاہم دونوں طرف کے بزرگوں کی کوشش سے دونوں قبائل میں صلح کی آواز اٹھی اور یہ تجویز آئی کہ فریقین کے مقتولین گن لیے جائیں، جدھر زیادہ ہوں ان کو زائد کی دیت دے دی جائے، چنانچہ اسی پر صلح ہوگئی اور یوں قتل و غارتگری کا یہ سلسلہ تھم گیا۔

معاھدہ "حلف الفضول" میں شرکت: 

معمولی معمولی باتوں پر لڑائیوں کا سلسلہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا، جس نے سینکڑوں گھرانے برباد کردیئے تھے اور قتل و سفاکی موروثی اخلاق بن گئے تھے، حرب الفجار کے بعد بعض صالح طبیعتوں میں اس بےمعنی جنگ و جدل سے بیزاری پیدا ہوئی اور یہ خیال پیدا ہوا کہ جس طرح زمانہ سابق میں قتل و غارتگری اور ظلم و ستم کے انسداد کے لیے " فضل بن فضالہ، فضل بن وداعہ اور فضل بن حارث" نے ایک معاہدہ مرتب کیا تھا، جو انہی کے نام پر "حلف الفضول" کے نام سے مشہور ہوا، اسی طرح اب دوبارہ اس کی تجدید کی جائے، (چونکہ ان سب کے نام میں فضل کا لفظ شامل تھا، اس لئے معاہدہ کو حلف الفضول کہتے ہیں)۔ 

جنگ فجار سے جب لوگ واپس مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور خاندان بنو ھاشم کے سردار جناب زبیر بن عبدالمطلب نے سب کے سامنے یہ تجویز پیش کی، چنانچہ خاندان بنو ھاشم، بنو زھرہ اور بنو تیم "عبداللہ بن جدعان تیمی" کے گھر میں جمع ہوئے، وہ سن وشرف میں ممتاز تھا، وہاں یہ معاہدہ طے پایا کہ ہم میں سے ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور کوئی ظالم مکہ میں نہ رہنے پائے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ "اس معاہدہ کے وقت میں بھی عبداللہ بن جدعان کے گھر حاضر تھا، اس معاہدہ کے مقابلہ میں اگر مجھ کو سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو ہرگز پسند نہ کرتا اور اگر اب زمانہ اسلام میں بھی اس قسم کے معاہدہ کی طرف بلایا جاؤں تو بھی اس کی شرکت کو ضرور قبول کروں گا۔"

اس معاہدے کا سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور "عاص بن وائل" نے اس سے سامان خریدا، لیکن اس کا حق روک لیا، اس نے حلیف قبائل عبد الدار، مخزوم،  جمح، سہم اور عَدِی سے مدد کی درخواست کی، لیکن کسی نے توجہ نہ دی، اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے، جن میں اپنی داستانِ مظلومیت بیان کی تھی،  اس پر جناب زبیر بن عبد المطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار ومدد گار کیوں ہے؟  ان کی کوشش سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل جمع ہوگئے، پہلے معاہدہ طے کیا اور پھر عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا۔

"حلف الفضول" کا یہ واقعہ حرب الفجار کے 4 ماہ بعد اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے 20 سال پہلے پیش آیا، جسے قتل و غارت گری اور ظلم و ستم کی روک تھام میں ایک سنگ میل کا درجہ حاصل ہوا، اس لیے اس معاہدہ کو زمانہ جاہلیت کے بہترین معاہدہ کی حیثیت سے یاد رکھا گیا ہے۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 35  جنگ فجار اور معاہدہ حلف الفضول: مستند روایات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علی...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 34



سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 34

ملک شام کا پہلا سفر اور بُحیرہ راہب سے ملاقات:


روایات کے مطابق جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر بارہ برس اور تفصیلی قول کے مطابق بارہ برس دومہینے دس دن کی ہوگئی تو ابوطالب آپ کو ساتھ لے کر تجارت کے لیے ملک شام کے سفر پر نکلے، حضرت ابوطالب کا تجارتی قافلہ سرزمین شام میں بصریٰ شہر کی اہم تجارتی منڈی کے قریب پہنچا تو وہاں پڑاؤ ڈال دیا، بصریٰ ملک شام کا ایک مقام اور حوران کا مرکزی شہر ہے، اس وقت یہ جزیرۃ العرب کے رومی مقبوضات کا دار الحکومت تھا۔

وہیں قریب ہی ایک صومعہ (گرجا) تھا، جس میں "جرجیس" نامی ایک عیسائی عبادت گزار راھب رہتا تھا جو " بحیرہ راھب " کے نام سے مشھور تھا، اہل تحقیق کے نزدیک بحیرا راھب موحد تھا،  مشرک یا بت پرست نہ تھا، وہ تمام آسمانی کتابوں کا عالم اور نبی آخرالزماں کی جو علامات آسمانی کتابوں میں مذکور تھیں، ان سے بخوبی واقف تھا۔

اس سے پہلے بھی بارہا اس کے صومعہ (گرجا) کے پاس سے تجارتی قافلے گزرتے رہے تھے، مگر بحیرا کبھی کسی کی طرف ملتفت نہ ہوا تھا، لیکن جب اس بار حضرت ابوطالب کا کاروان تجارت اس کے گرجا کے پاس اترا تو اس راہب نے اپنی خانقاہ میں سے دیکھا کہ قافلہ والوں میں سے ایک نوجوان پر ابر سایہ کئے ہوئے ہے، بحیرا راہب اپنی بصیرت سے پہچان گیا کہ یہ نوجوان خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

بحیرا راھب خلاف معمول اپنی عبادت گاہ سے باہر نکل آیا اور متجسسانہ نظروں سے ایک ایک کو دیکھنے لگا، پھر جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو دیکھتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور پکار اٹھا: 

"یہی ہے سردار دو جہانوں کا، یہی ہے رسول پروردگار عالم کا جس کو اللہ جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گا۔" 

حضرت ابوطالب نے کہا: "آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟"

بحیرا راھب نے بتایا: "جب آپ سب لوگ پہاڑ کی گھاٹی سے نکلے تو اس وقت میں اپنی عبادت گاہ سے آپ سب کی طرف دیکھ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ اس نوجوان پر ابر سایہ کئے ہوئے ہے، پھر میں نے دیکھا کہ کوئی شجر وحجر ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو اور شجر و حجر نبی کے علاوہ کسی اور انسان کو سجدہ (تعظیم) نہیں کرتے ہیں، اس کے علاوہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مہرنبوت کی وجہ سے بھی پہچان چکا ہوں جو آپ کے کندھے کے نیچے کری (نرم ہڈی) کے پاس ہے اور ہم انہیں اپنی کتابوں میں بھی پاتے ہیں۔"

راھب یہ کہہ کر واپس ہوگیا اور بصد اشتیاق تمام قافلہ کے لیے کھانا تیار کرایا، جب کھانا تیار ہوا تو سب کھانے کے لیے حاضر ہوئے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود نہ تھے، راھب کے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اونٹ چرانے آس پاس نکل گئے ہیں، ایک آدمی بھیج کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلایا گیا، سب لوگ جس درخت کے نیچے بیٹھے ہوۓ تھے،  وہاں کوئی سایہ دار جگہ آپ کے لیے بچی ہوئی نہ تھی، سایہ دار جگہ نہ ملنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دھوپ میں ہی بیٹھ گئے تو درخت کی شاخیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک گئیں، بحیرہ ان سارے معاملات کو بڑی گہری نظر سے دیکھ رہا تھا۔

اس نے حضرت ابوطالب سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے، لیکن راہب نے کہا کہ اس کے علم کے مطابق اس لڑکے کا باپ زندہ نہیں ہے، حضرت ابو طالب نے کہا کہ حقیقت میں ان کے باپ زندہ نہیں ہیں۔

اس کے بعد بحیرا راہب نے حضرت ابوطالب سے کہا: "آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وہ تمام نشانیاں موجود ہیں جو آسمانی کتابوں میں اللہ کے آخری نبی کے متعلق بتائی گئی ہیں، اگر شام کے یہود ونصاری' نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہ نشانیاں پہچان لیں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کو نقصان نہ پہنچا دیں۔"

چنانچہ بحیرہ کے مشورہ پر حضرت ابوطالب نے بعض غلاموں کی معیت میں آپ کو مکہ واپس بھیج دیا، اس کے بعد حضرت ابوطالب پھر کبھی شام کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ نہیں لے گئے، مبادا کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچے، اسی سال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 34 ملک شام کا پہلا سفر اور بُحیرہ راہب سے ملاقات: روایات کے مطابق جب آپ صلی اللہ عل...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 33



سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 33 
====================


روئے مبارک کے وسیلے سے فیضانِ باراں کی طلب: 

ابن عساکر نے جلہمہ بن عرفطہ سے روایت کی ہے کہ میں مکہ آیا، لوگ قحط سے دوچار تھے، قریش نے کہا: ابو طالب! وادی قحط کا شکار ہے، بال بچے کال کی زد میں ہیں، چلیے! (کعبہ چل کر) بارش کی دعا کیجیے۔

حضرت ابو طالب ایک بچہ ساتھ لے کر برآمد ہوئے، بچہ ابر آلود سورج معلوم ہوتا تھا، جس سے گھنا بادل ابھی ابھی چھٹا ہو، اس کے ارد گرد اور بھی بچے تھے، حضرت ابو طالب نے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے ٹیک دی، بچے نے ان کی انگلی پکڑ رکھی تھی، اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا نہ تھا، لیکن (دیکھتے ہی دیکھتے ) اِدھر اُدھر سے بادل کی آمد شروع ہوگئی اور ایسی دھواں دھار بارش ہوئی کہ وادی میں سیلاب آگیا اور شہر وبیاباں شاداب ہوگئے، بعد میں حضرت ابوطالب نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں کہا تھا: 

وأبیض یستسقی الغمام بوجہہ 
ثمال الیتامی عصمۃ للأرامل 

"وہ ایسے روشن و منور ہیں کہ ان کے چہرے کی برکت سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے ماویٰ اور بیواؤں کے محافظ ہیں"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم گانے بجانے کی محفل سے محفوظ:

حضرت ابو طالب کے مکان میں قیام کے دوران دو اہم واقعات پیش آئے۔ ایک یہ کہ ایک مرتبہ گرمی کے موسم میں مکہ میں ایک جگہ گانے بجانے کی محفل منعقد ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس محفل میں شرکت کی خاطر بکریوں کو ایک ساتھی چرواہے کے حوالے کیا اور محفل کے مقام تک پہنچے جو چراگاہ سے دُور تھی، گرمی میں دور تک چل کر آنے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت تھک گئے تھے اور محفل ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت کے سایہ تلے لیٹ گئے تو آنکھ لگ گئی، جب بیدار ہوئے تو محفل ختم ہو چکی تھی، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس محفل سرود میں شریک نہ ہو سکے اور آئندہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح کے لہو و لعب میں شرکت کرنے کا خیال تک نہ آیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم بت پرستی سے محفوظ:

دوسرا واقعہ یہ کہ ایک مقام پر کھجور کے دو مقدس درخت تھے، جہاں بوانہ نامی بت نصب تھا،  لوگ وہاں جا کر بت پر جانور بھینٹ چڑھاتے، سر منڈاتے اور دیگر مشرکانہ رسوم ادا کرتے تھے،  حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر سال اس تقریب میں شرکت کے لئے کہا جاتا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکار فرماتے۔ ایک مرتبہ چچاؤں اور پھوپھیوں کے اصرار پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں گئے، لیکن بہت دیر تک نظروں سے اوجھل رہے، جب دکھائی دئیے تو چہرے پر خوف کے آثار تھے، پھوپھیوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب بھی اُس بُت کے قریب جانا چاہتا تو ایک سفید رنگ اور دراز قد شخص میرے قریب آتا اور کہتا کہ "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! پیچھے ہٹ جائیے اور بت کو ہاتھ مت لگائیے" اس واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی ایسی تقریب میں نہیں گئے، جہاں بتوں پر بھینٹ چڑھائی جاتی تھی۔

ایک بار قبیلہ لہب کا ماہر قیافہ شناس مکہ آیا، سب لوگ اپنے بچوں کو اس کے پاس لے گئے، حضرت ابو طالب بھی اپنے بچوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کے پاس لے گئے، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور پھر کسی کام میں مشغول ہو گیا، تھوڑی دیر بعد اس نے آپ کو اپنے سامنے لانے کو کہا، لیکن حضرت ابو طالب نے اس کا تجسس دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر بھیج دیا، اس نے کہا کہ اس بچہ کو میرے پاس لاؤ، خدا کی قسم! وہ بہت بڑا آدمی بننے والا ہے۔

شام کا تجارتی سفر:

حضرت ابوطالب کا پیشہ بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح تجارت تھا، وہ سال میں ایک بار تجارت کی غرض سے ملک شام کو جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر تقریباً بارہ برس تھی کہ حضرت ابوطالب نے حسب دستور شام کے تجارتی سفر کا ارادہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کے ساتھ چلنے کی خواہش کا اظہار کیا، حضرت ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کم عمری، دوران سفر مشکلات اور تکلیفوں یا کسی اور وجہ سے آپ کو ساتھ نہ لے جانا چاہا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے شفیق چچا سے اتنی محبت تھی کہ جب حضرت ابوطالب چلنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے لپٹ گئے، اب حضرت ابوطالب کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود سے جدا کرنا ممکن نہ رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ساتھ لے لیا۔

مؤرخین کے مطابق اسی سفر شام کے دوران ایک عیسائی راہب "بحیرہ" کا مشہور واقعہ پیش آیا،  جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں، اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پالیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے، چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کردیا اور واپس مکہ آ گئے۔

اس واقعہ کو ان شاء اللہ اگلی قسط میں تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 33  ==================== روئے مبارک کے وسیلے سے فیضانِ باراں کی طلب:  ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 32



سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 32
=====================================

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجرت پر لوگوں کی بکریاں چَرانا: 


حضرت عبدالمطلب کی وفات کا واقعہ ایک اور لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، قصی بن کلاب نے جملہ امور ریاست آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد "عبد مناف" کے حوالے کیے تھے جو کہ بعدازاں ان کے بیٹے اور آپ کے پردادا حضرت ھاشم کے حصہ میں آئے، دوسری طرف حضرت ھاشم کے ہی دور میں خانہ کعبہ کی تولیت کے زیادہ تر حقوق بھی حضرت ھاشم نے حاصل کرلیے اور ان سے یہ تمام اختیارات حضرت عبدالمطلب کو بھی وراثتاً حاصل ہوئے، ان کی حیثیت اپنے والد حضرت ھاشم کی طرح مکہ کے سردار کی تھی، لیکن ان کی وفات نے دفعتاً بنو ھاشم کے اس رتبہ امتیاز کو گھٹا دیا اور کئی دھائیوں بعد یہ پہلا موقع تھا کہ دنیاوی اعتبار سے خاندان بنوامیہ خاندان بنو ھاشم پر غالب آگیا اور مکہ کی مسند ریاست پر "حرب" متمکن ہوا جو "امیہ" کا نامور فرزند تھا،  حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ انہی حرب بن امیہ کے بیٹے تھے اور حرب کے بعد مکہ کے سردار اور سپہ سالار بنے، حرب بن امیہ نے ریاست اور تولیت خانہ کعبہ کے جملہ اختیارات اپنے قبضہ میں کرلیے اور صرف "سقایہ" یعنی حاجیوں کو پانی پلانے کی سعادت ہی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس باقی رہی جو حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔

حضرت عبدالمطلب کے مختلف ازواج سے دس بیٹے تھے، جن میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے والد حضرت عبداللہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد جناب ابو طالب ماں کی طرف سے سگے بھائی تھے، اس لیے حضرت عبدالمطلب نے آپ کو حضرت ابوطالب کے ہی آغوش تربیت میں دے دیا، اس کے علاوہ حضرت عبدالمطلب نے اپنی وفات کے وقت اپنی بیٹیوں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پھوپھیوں ارویٰ،  امیمہ، برہ، صفیہ، عاتکہ اور ام حکیم البیضاء کو بلا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش اور خیال رکھنے کی وصیت کی۔

حضرت ابو طالب اپنے والد کی وصیت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر لے آئے، ان کی بیوی حضرت فاطمہ بنت اسد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت محبت کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش میں انہوں نے بڑی دلجمعی سے حصہ لیا، حضرت ابوطالب بھی آپ سے بہت محبت کرتے تھے اور مرتے دم تک آپ کے سر پر کسی مضبوط سائبان کی طرح سایہ کیے رکھا، ان کی محبت اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ آپ کے مقابلہ میں اپنی سگی اولاد کی بھی پرواہ نہ کرتے اور حضرت عبدالمطلب کی طرح ہر وقت آپ کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتے۔

حضرت ابو طالب کثیر العیال تھے، اس لئے بڑی عُسرت اور تنگ دستی سے گزر بسر ہوتی تھی، باوجود کم سِنی کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کے گھر کی یہ حالت دیکھی تو کام کاج کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کیا، لوگوں کی بکریوں کو اُجرت پر چراتے اور بکریوں کو مکہ کی ایک پہاڑی "اجیاد" کے قریب "اریقط" نامی مقام پر لے جایا کرتے اور اس سے جو کچھ اجرت ملتی وہ اپنے چچا کو دیتے، عرب میں بکریاں چرانا کوئی معیوب کام نہ تھا، بڑے بڑے شرفاء اور امراء کے بچے بکریاں چرایا کرتے تھے اور یہ ان بچوں کے لیے کوئی کام نہیں، بلکہ ایک مشغلہ کی حیثیت رکھتا تھا اور عرب طرز معاشرت کا جائزہ لیا جائے تو اسے باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔

زمانہ رسالت میں آپ اس سادہ اور پرلطف مشغلہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ صحابہ کرام کے ساتھ اسی جنگل میں تشریف لے گئے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ اراک (پیلو کے درخت) کے پھل چُن رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جو سیاہ ہو گیا وہ لے لو کہ وہی سب سے اچھا ہوتا ہے۔" اس پر صحابہ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا آپ بھی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے؟ " فرمایا: "ہاں! کوئی پیغمبر ایسا نہیں گزرا جس نے بھیڑ بکریاں نہ چرائی ہوں۔"

دس بارہ سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ مشغلہ جاری رہا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 32 ===================================== آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجرت پ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 31



سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 31
=======================


ایام طفولیت اور سانحات:

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے شق صدر کے واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چار یا پانچ سال کی عمر میں آپ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ کے حوالے کر دیا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے لئے "اُم ایمن" (رضی اللہ عنہا) کو مامور کیا جو آپ کے والد کی کنیز تھیں، ان کا اصلی نام برکہ تھا۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ حضرت آمنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر اپنے مرحوم شوہرحضرت عبداللہ کی قبر کی زیارت کے لئے یثرب روانہ ہوئیں، دو اونٹوں پر مشتمل اس مختصر سے قافلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنیز حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا بھی ہمراہ تھیں، وہ "دارالنابغہ" میں اتریں جہاں حضرت عبداللہ مدفون تھے اور ایک مہینہ وہاں قیام کیا۔

وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی نجار کے تالابوں میں تیرنا سیکھا اور گڑھی کے سامنے ننھیالی لڑکوں کے ساتھ کھیلا کرتے، حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ یثرب کے یہود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑے غور سے دیکھتے، میں نے سنا کہ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا کہ یہ اس اُمت کے نبی ہیں اور یہی ان کا دارالحجرت ہے، میں نے اُن کی یہ بات ذہن میں محفوظ کرلی، واپسی میں بدر کے قریب "ابواء" کے مقام پر حضرت آمنہ بیمار ہوئیں جس کی وجہ سے اس قافلہ نے وہاں قیام کیا، حضرت آمنہ نے وہیں وفات پائی، وقتِ آخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے سرہانے بیٹھے تھے، ماں نے اپنے جلیل القدر بیٹے کو جی بھر کے دیکھا اور چند شعر پڑھے،  جن کا متن "مواہب لدنیہ" میں محفوظ ہے، بوقت وفات حضرت آمنہ کی عمر تقریباً ۲۸ سال تھی اور وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے بعد چھ سال تین مہینے تک زندہ رہیں۔

حضرت آمنہ کو اسی جگہ دفن کیا گیا اور حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا آپ کو لےکر مکہ واپس حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچیں، یوں شکم مادر میں ہی یتیم ہونے والے "ننھے حضور" اپنی والدہ کے ساتھ بھی زیادہ دن نہ گزار سکے۔

حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا نے ایک ماں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگرانی کی، ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ یہ خاتون میری والدہ کے بعد میری ماں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نبی بنائے گئے تو حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا اولین تصدیق کرنے والوں میں سے ہو گئیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں آزاد کردیا، ان کا پہلا نکاح بنی حارث کے عبید بن زید بن عمرو سے ہوا جن سے ایمن پیدا ہوئے، جن کے نام پر ان کی کنیت اُمّ ایمن تھی، پہلے شوہر کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کروایا جن سے اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔

والدہ ماجدہ کی وفات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے اپنی کفالت میں لے لیا، حضرت عبدالمطلب کو آپ سے بہت محبت تھی اور آپ کو سب اولادوں سے بڑھ کر محبوب جانتے تھے، روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عبدالمطلب کو یقین تھا کہ ان کا پوتا بڑا نام پانے والا ہے، چنانچہ جب بنی مدلج کی ایک جماعت اُن سے ملنے آئی تو ان میں بہت سے قیافہ شناس تھے، انہوں نے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نقشِ کف پا دیکھا تو اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقشِ کفِ پا (جو مصلیٰ ابراہیم کہلاتا ہے) کے مشابہ پایا، اس لئے انہوں نے حضرت عبدالمطلب سے کہا کہ اس بچے کی بطور خاص حفاظت اور نگرانی کریں، چنانچہ حضرت عبدالمطلب حطیم میں اپنی نشست پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے قریب بٹھا کر پشت پر ہاتھ پھیرا کرتے اور کہتے کہ اس کی تو بہت بڑی شان ہے، دادا اپنے پوتے کو ہمیشہ ساتھ رکھتے اور اپنے ساتھ ہی کھانا کھلاتے، اسی سال حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی۔

حضرت عبدالمطلب کے زیرسایہ آپ کا بچپن بہت آرام سے گزر رہا تھا، صرف حضرت عبدالمطلب ہی نہیں بلکہ آپ سے آپ کے تمام چچا اور پھوپھیاں بھی بےحد محبت کرتی تھیں، لیکن اللہ کی مشیت کچھ اور تھی اور ابھی آپ اٹھ سال کے تھے کہ حضرت عبدالمطلب کا بھی انتقال ہوگیا، آپ کو اپنے دادا سے بہت انس و محبت تھی، جب حضرت عبدالمطلب کا جنازہ اٹھا تو آپ بھی جنازہ کے ساتھ تھے اور شدت غم سے روتے جاتے تھے، اس وقت حضرت عبدالمطلب کی عمر بیاسی سال تھی۔

آٹھ سال کا ایک معصوم بچہ جس کے ماں باپ بھی وفات پا چکے اور اب شفیق دادا بھی، نہ کوئی بہن، نہ کوئی بھائی، تن تنہا ۔۔۔ لیکن کون جانتا تھا کہ بظاہر یہ بےآسرا، معصوم بچہ کچھ ہی عرصہ بعد ہزاروں لاکھوں کا آسرا بننے والا ہے، بلا شک و شبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے لمحہ لمحہ میں ہمارے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 31 ======================= ایام طفولیت اور سانحات: حضرت حلیمہ سعدیہ ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 30



سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 30
=======================

واقعہ شق صدر:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بہت سے محیر العقل واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ واقعات آپ کی پیدائش سے پہلے بچپن میں اور نبوت کے بعد بھی رونما ہوئے، ایسے تمام حیران کن واقعات جو کسی نبی کو نبوت ملنے سے پہلے درپیش آئیں "ارھاصات" کہلاتے ہیں۔

ایسا ہی ایک عجیب واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر ولادت کے چوتھے یا پانچویں سال پیش آیا، جب اُن کا سینہ فرشتوں نے چاک کر کے اُن کا دل دھویا تھا، اسے شَقِّ صَدر (سینہ مبارک چاک کیے جانے) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جس کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مجلس میں کیا تھا جب کہ قبیلہ بنی عامر کے ایک بوڑھے شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی ابتدائی زندگی کے حالات سنانے کی خواہش کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 

"میرا شِیر خواری اور بچپن کا ابتدائی زمانہ بنی سعد بن بکر میں گزرا، ایک دن میں اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ سفید پوش آدمیوں (فرشتوں) کی ایک ٹولی نے جن کے ہاتھوں میں سونے کی تھالی میں (زم زم کی) برف بھری تھی، مجھے پکڑ لیا، میرے ساتھی ڈر کر بھاگ گئے، انھوں نے مجھے زمین پر لٹایا اور (میرے سینے یا پیٹ کے) اندرونی اجزأ نکال کر (زم زم کی) برف (کے پانی سے) سے اچھی طرح دھویا اور پھر اپنی جگہ رکھ دیا، یہ منظر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا،  دوسرے نے میرے سینے میں ہاتھ ڈالا اور دل کو نکالا اور اس سے ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا: "یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے" پھر دل کو (سونے کی) طشت میں زم زم (کی برف) کے پانی سے دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو فضا میں بلند کیا تو اچانک ایک نور کی مہر اس کے ہاتھوں میں آگئی، اس نے مہر دل پر لگائی تو وہ نور سے بھر گیا، پھر دل کو جوڑ کر اپنے مقام پر رکھ دیا۔

اب تیسرے نے سینہ سے ناف تک ہاتھ پھیرا تو زخم مندمل ہو گیا، میں اٹھ کھڑا ہوا تو تینوں نے باری باری مجھے سینے سے لگایا اور میری پیشانی پر بوسہ دیا۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دودھ شریک بھائی نے یہ منظر دیکھا تو دوڑ کر اپنے والدین کو اطلاع دی کہ کچھ سفید پوش آدمیوں نے میرے قریشی بھائی کا پیٹ چاک کر دیا ہے، یہ سنتے ہی وہ فوراً وہاں گئے اور دیکھا کہ بچہ کے چہرہ کا رنگ فق ہے، اس واقعے سے حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کو خطرہ محسوس ہوا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی والدہ کے پاس پہنچانے کے لئے مکہ روانہ ہوگئے اور حضرت آمنہ سے سارا حال بیان کیا۔

یہ سن کر حضرت آمنہ نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، خدا کی قسم! اس پر آسیب کا کوئی اثر نہ ہو گا، بلکہ یہ بچہ تو بڑی شان والا ہے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 30 ======================= واقعہ شق صدر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 29


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 29
=========================

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا: 

حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کا عظیم مقام ہے، وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعی والدہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا سے بےحد محبت تھی، مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ بہت عرصہ بعد عہد نبوت میں ایک بوڑھی عورت آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں، غربت و افلاس سے ان کا حال دگرگوں تھا، آپ نے فوراً پہچان لیا اور وفور شوق و محبت سے اپنی نشست سے اٹھے اور "میری ماں، میری ماں" کہہ کر ان سے لپٹ گئے، پھر آپ نے چادر بچھا کر عزت و تکریم سے ان کو اس پر بٹھایا، یہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا تھیں۔

سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ روایت بھی تاریخ میں منقول ہے کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور جوانی میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں مکے حاضر ہوئی تھیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کی خدمت میں کئی اونٹ اور اونٹنیاں پیش کی تھیں۔ مدینہ منورہ میں حاضری کے وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بکریوں کا ایک ریوڑ اور سازو سامان سے لدی ایک ناقہ ان کی خدمت میں پیش کی، وہ ان تحائف سے زیادہ اس بات پر شاداں و فرحاں تھیں کہ ان کے رضاعی بیٹے کو اللہ نے اس سے بھی بلند مقام عطا فرمایا تھا جس کی دعائیں اور تمنائیں وہ کرتی تھیں۔

اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رضاعی بہن سیدہ شیما رضی اللہ عنہا سے بہت انسیت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شِیرخوارگی کا زمانہ میں وہی آپ کو کھلایا کرتی تھیں۔

سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے دو سال تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑی محبت سے دودھ پلایا اور آپ کی پرورش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نشو ونما دوسرے بچوں سے بہت اچھی تھی، اس لئے جسمانی اعتبار سے دو سال کی عمر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چار برس کے دکھائی دیتے تھے، دو سال کی عمر تک حلیمہ سعدیہؓ آپ کو سال میں دو بار والدہ ماجدہ حضرت آمنہ سے ملانے لے جاتیں اور پھر واپس لاتیں، دوسال بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس مکہ لے جانے کا وقت آیا تو یہ امر حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے لئے بہت تکلیف کا باعث بن گیا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کو بےانتہا محبت تھی، جس کی وجہ سے آپ کی جدائی برداشت کرنا ان کے لیے کوئی آسان کام نہ تھا، حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: 

"جب دوسال گزر جانے پر میں آپ کو لے کر حضرت آمنہ کے پاس مکہ پہنچی تو آپ کی جدائی کے غم میں میری آنکھوں سے بےتحاشہ آنسو بہہ رہے تھے، یہ دیکھ کر حضرت آمنہ بولیں: "کیا تم اسے اپنے پاس کچھ اور رکھنا چاہتی ہو؟"

ان کی زبان سے یہ سن کر میں خوشی سے بےحال ہوکر بولی: "اگر آپ چند مہینے اسے میرے پاس اور رہنے دیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔" میری اس درخواست پر حضرت آمنہ نے بخوشی مجھے اس کی اجازت دے دی۔

حضرت آمنہ کے اس فیصلے کی ایک بڑی اور غالباً اصل وجہ یہ تھی کہ ان دنوں میں مکہ میں وبا پھیلی ہوئی تھی، حضرت آمنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ میں ٹھہرانا مناسب نہ سمجھا اور واپس حضرت حلیمہ کے ساتھ گاؤں بھجوادیا۔

تاہم چند ماہ کا یہ فیصلہ بوجوہ کئی سالوں پر محیط ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حلیمہ کے پاس مزید چار سال رہے اور چھ سال کی عمر میں ہی واپس مکہ اپنی والدہ ماجدہ کے پاس آسکے، چھ سال کا یہ عرصہ حضرت حلیمہ اور ان کے گھر کے لیے بے پناہ خیرو برکت کا سبب بنا رہا اور ان کا گھر سارے قبیلے کے لیے رشک کا باعث بن گیا۔

حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے جس محبت اور اپنائیت سے محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پالا پوسا، وہ یاد گار اور تاریخی حقیقت ہے، یہ بھی ایک مسلّمہ امر ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود ِمسعود سے اس خاندان کی قسمت یی بدل گئی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام بنی سعد کے دوران پورے علاقے اور قبیلے میں اس سعادت مند بچے کا تذکرہ زبان زد عام ہو گیا، کیونکہ برکات و انعامات کی بارش نے سبھی کو نہال کر دیا تھا، آپ کے اپنے خاندان میں واپس چلے جانے کے بعد بھی قبیلے اور بالخصوص حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں آپ کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 29 ========================= حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا:  حضرت حلیمہ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 28


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 28
==============================

حلیمہؓ کی پرورش میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آنے والے واقعات:

پچھلی قسط میں ہم نے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے مکہ آنے اور "ننھے حضور" کو اپنے ساتھ دودھ پلانے کی خاطر گاؤں لے جانے کے واقعات بیان کیے، اب آگے کے حالات کا ذکر کیا جائے گا۔

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں کل چھ افراد رہا کرتے تھے، شوہر حارث، شیر خوار عبداللہ، بیٹیاں انیسہ، حذیفہ اور جدامہ (رضی اللہ عنہا) ( ان ہی کا لقب شیما تھا) عبداللہ (رضی اللہ عنہ) کی قسمت کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دودھ شریک بھائی کا شرف حاصل ہوا۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذرا بڑے ہوئے اور پاؤں پاؤں چلنے لگے تو شیما (رضی اللہ عنہا) ہی زیادہ تر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھیلا کرتیں، اس کھیل کے دوران ایک مرتبہ شیما (رضی اللہ عنہا) نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت تنگ کیا تو غصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کندھے پر اس زور سے کاٹا کہ دانتوں کے نشان بیٹھ گئے، یہ نشان ان کے لئے اُس وقت باعث رحمت بن گئے جب کہ غزوۂ حنین کے بعد شیما مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئیں تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضاعی بہن ہوں۔

جب مسلمانوں نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے بچپن کا واقعہ یاد دلاتے ہوئے اپنے کندھے پر دانتوں کے نشان دکھائے، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا واقعہ یاد آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بڑے احترام سے اپنی چادر بچھا کر بٹھایا اور فرمایا کہ اگر میرے پاس رہنا چاہو تو بہن کی طرح رہ سکتی ہو، لیکن انہوں نے عرض کیا کہ وہ اپنے وطن لوٹ جانا چاہتی ہیں، انہوں نے اسلام قبول کرلیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں جو عطایا دئیے، ان میں تین غلام، باندیاں، کچھ اونٹ اور بکریاں شامل تھیں۔

ان چاروں میں سے جناب عبداللہ رضی اللہ عنہ اور شیما رضی اللہ عنہا کا اسلام لانا تو ثابت ہے، لیکن باقی دو کا حال معلوم نہیں، جبکہ جناب حارث رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد مکہ آئے تو تب اسلام قبول کرلیا تھا۔

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جو غیر معمولی واقعات مکہ سے واپسی پر شروع ہوئے وہ ان کے گھر پہنچنے پر بھی جاری رہے، مریل اور بوڑھی اونٹنی کے تھنوں میں دودھ بھر آیا، حالانکہ اس سے قبل بڑی مشکل سے گزارے کے لئے دودھ آتا تھا، حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے سبب خیر و برکت سے ہمارے گھرانے کو نوازتا رہا، خود حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے دودھ کم اترتا تھا اور خود عبداللہ کے لیے بھی مشکل سے پورا پڑتا تھا، لیکن یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مبارکہ کی برکتیں ہی تھیں کہ آپ کے آتے ہی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی چھاتیوں میں اتنا دودھ اتر آیا کہ جس کا انہوں نے اس سے پہلے سوچا بھی نہ تھا، لیکن اس زمانے میں بھی "ننھے حضور" کی منصف مزاجی اور عدل پسندی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے کبھی ایسا نہ کیا کہ ایک پستان کا دودھ پی کر دوسرے سے بھی پی لیں، بلکہ دوسری پستان کا دودھ اپنے دودھ شریک بھائی عبداللہ رضی اللہ عنہ کے لیے چھوڑ دیتے، اس کے علاوہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جب تک آپ کو دودھ پلاتی رہیں ایسا کبھی نہ ہوا کہ ان کا کوئی بستر یا کوئی دوسرا کپڑا آپ کے بول و براز سے خراب ہوا ہو۔

آپ کے دم سے ظہور پزیر برکتیں صرف حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا تک محدود نہ تھیں، بلکہ اس کا دائرہ ان کے گھر سے وسیع ہوکر اڑوس پڑوس کے گھروں تک بھی پہنچنے لگا، قحط اور خشک سالی کی بدولت بنو سعد کے گھرانے کی تمام زمینیں بنجر ہو گئی تھیں اور جانوروں کے تھن دودھ سے محروم ہو گئے تھے، بستی والے چرواہوں سے کہا کرتے کہ تم بھی اپنی بکریاں وہاں لے جاؤ جہاں حلیمہ سعدیہ (رضی اللہ عنہا) کے جانور چرتے ہیں۔

ایک مرتبہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عکاظ کے میلہ میں لے گئیں،  وہاں ایک کاہن کی نظر آپ پر پڑی تو پکار پکار کر کہنے لگا کہ اے عکاظ والو! اس بچہ کو جان سے مار ڈالو ورنہ یہ بڑا ہو کر تم سب کو مٹا دے گا، حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر فوراً وہاں سے چلی گئیں۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 28 ============================== حلیمہؓ کی پرورش میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔۔ قسط 27



سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 27

حلیمہ رضی اللہ عنہا کی گود میں: 

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اپنی چند ہم قبیلہ عورتوں کے ساتھ مکہ وارد ہوئیں، وہ کیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچیں، اس قسط میں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی زبانی وہ سب دلچسپ واقعات بیان کیے جائیں گے۔
ابن اسحق، جہم بن ابی جہم کی روایت سے حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی باتیں بیان کرتے ہیں کہ انہیں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے خود یہ سارا واقعہ سنایا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: 

"جب قبیلہ بنی سعد (بنو ھوازن اسی بڑے قبیلہ کا ایک ذیلی قبیلہ تھا جس سے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کا تعلق تھا) میں کسی سال مکہ میں کئی بچوں کی پیدائش کی خبر پہنچتی تھی تو بنی سعد کی عورتیں ان بچوں کو اجرت پر دودھ پلانے کے لیے مکہ کی طرف لپکنے لگتی تھیں، پھر ایک سال ایسا ہی ہوا کہ مکہ کے معزز اور شریف خاندانوں میں کئی بچوں کی پیدائش کی خبر ملی تو بنی سعد کی دس عورتیں جن میں مَیں بھی شامل تھی، اپنے شوہر حارث بن عبدالعزّیٰ اور اپنے ایک شِیرخوار بچے کے ساتھ مکہ کی طرف چلیں، یہ قحط سالی کے دن تھے اور قحط نے کچھ باقی نہ چھوڑا تھا، میں اپنی ایک سفید گدھی پر سوار تھی اور ہمارے پاس ایک اونٹنی بھی تھی، لیکن واللہ! اس سے ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا تھا، اِدھر بھُوک سے بچہ اس قدر بِلکتا تھا کہ ہم رات بھر سو نہیں سکتے تھے، نہ میرے سینے میں بچہ کے لیے کچھ تھا اور نہ اونٹنی اس کی خوراک دے سکتی تھی، بس ہم بارش اور خوشحالی کی آس لگائے بیٹھے تھے، میں اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلی تو وہ کمزوری اور دُبلے پن کے سبب اتنی سست رفتار نکلی کہ پورا قافلہ تنگ آگیا۔

خیر ہم کسی نہ کسی طرح دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ پہنچ گئے، پھر ہم میں سے کوئی عورت ایسی نہیں تھی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش نہ کیا گیا ہو، مگر جب اسے بتایا جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لینے سے انکار کر دیتی، کیونکہ ہم بچے کے والد سے داد ودہش کی امید رکھتے تھے، ہم کہتے کہ یہ تو یتیم ہے، بھلا اس کی بیوہ ماں اور اس کے دادا کیا دے سکتے ہیں؟ بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لینا نہیں چاہتے تھے۔

ادھر جتنی عورتیں میرے ہمراہ آئی تھیں سب کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیا، صرف مجھ ہی کو نہ مل سکا، جب واپسی کی باری آئی تو مجھے خالی ہاتھ جانا اچھا نہ لگا، میں نے اپنے شوہر سے کہا: "اللہ کی قسم! مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری ساری سہیلیاں تو بچے لے کر جائیں اور تنہا میں کوئی بچہ لیے بغیر واپس جاؤں، میں جاکر اسی یتیم بچے کو لے لیتی ہوں، شوہر نے کہا: "کوئی حرج نہیں، ممکن ہے کہ اللہ اسی میں ہمارے لیے برکت دے۔" یہ فیصلہ کرکے جہاں میری ساتھی عورتوں نے رات بھر کے لیے پڑاؤ ڈالا تھا، میں بھی رات گزارنے کے لیے وہیں ان کے ساتھ پڑگئی۔

وہ ساری رات میری آنکھوں میں کٹ گئی، کیونکہ نہ تو میرے یا میرے شوہر کے کھانے کے لیے کچھ تھا اور نہ ہی میری گدھی اور اونٹنی کے لیے چارا تھا، میرا شِیرخوار بچہ عبداللہ ساری رات میرے پستان چچوڑتا رہا، لیکن چونکہ میں خود اس رات فاقہ سے تھی تو میری چھاتیوں سے دودھ کہاں سے اترتا، خیر وہ رات تو میں نے جیسے تیسے جاگ جاگ کاٹ لی اور صبح ہوتے ہی وہی یتیم بچہ لینے چل دی، یہ بھی خیال تھا کہ اس بچے کی ماں سے اتنا تو پیشگی مل ہی جائے گا کہ جس سے میں اپنے اور اپنے شوہر کے لیے کھانے پینے کی کوئی چیز اور اپنے گدھی اور اونٹنی کے لیے چارا لے سکوں گی۔

جب میں اس بچے کو لینے اس کی ماں کے پاس پہنچی تو وہ مجھ سے بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئیں اور اپنا بچہ مجھے دیتے ہوۓ اس کی دودھ پلائی کی جو رقم مجھے دی وہ بھی میری توقع سے زیادہ تھی، اس کے علاوہ وہ بچہ جسے میں یتیم سمجھ کر مجبوراً لینے آئی تھی، اتنا خوبصورت تھا کہ میں نے اپنی ساری زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت بچہ کبھی نہ دیکھا تھا، وہ جب ہمک کر میری گود میں آیا اور پھر میرے سینے سے لگا تو مجھے اتنا سکون ملا کہ جس کا بیان کرنا مشکل ہے۔

جب میں بچے کو لے کر اپنے ڈیرے پر واپس آئی اور اسے اپنی آغوش میں رکھا تو دونوں سینے دودھ کے ساتھ اس پر اُمنڈ پڑے، اس نے جس قدر چاہا شکم سیر ہوکر پیا، اس کے ساتھ اس کے بھائی نے بھی شکم سیر ہوکر پیا، پھر دونوں سوگئے حالانکہ اس سے پہلے ہم اپنے بچے کے ساتھ سو نہیں سکتے تھے، ادھر میرے شوہر اونٹنی دوہنے گئے تو دیکھا کہ اس کا تھن دودھ سے لبریز ہے، انھوں نے اتنا دودھ دوہا کہ ہم دونوں نے نہایت آسودہ ہو کر پیا اور بڑے آرام سے رات گزاری، صبح ہوئی تو میرے شوہر نے کہا: "حلیمہ! اللہ کی قسم! تم نے ایک بابرکت روح حاصل کی ہے۔" میں نے کہا: "مجھے بھی یہی توقع ہے۔"

اس کے بعد ہمارا قافلہ روانہ ہوا، میں اپنی اسی خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لیا، لیکن اب وہی گدھی اللہ کی قسم! پورے قافلے کو کاٹ کر اس طرح آگے نکل گئی کہ کوئی گدھا اس کا ساتھ نہ پکڑ سکا، یہاں تک کہ میری سہیلیاں مجھ سے کہنے لگیں: "او ابو ذویب کی بیٹی! ارے یہ کیا ہے؟ آخر یہ تیری وہی گدھی تو ہے جس پر تُو سوار ہو کر آئی تھی؟ (لیکن اب اتنی تیز رفتار کیسے)" میں کہتی: "ہاں ہاں! اللہ کی قسم یہ وہی ہے" وہ کہتیں: "اس کا یقیناً کوئی خاص معاملہ ہے۔"

================== جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 27 حلیمہ رضی اللہ عنہا کی گود میں:  حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اپنی چند ہ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 26


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 26 

ولادت کے ساتویں دن رسمِ عقیقہ اور نامِ مبارک رکھا گیا:


ولادت مبارکہ کے ساتویں دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیقہ کی رسم ادا کی گئی، اس موقع پر حضرت عبدالمطلب نے قریش مکہ کو دعوت دے کر شریک کیا، دوران مجلس قریش مکہ میں سے کسی نے دریافت کیا: "اے عبدالمطلب! کیا آپ نے اپنے پوتے کا کوئی نام بھی رکھا ہے؟"
حضرت عبدالمطلب نے فرمایا: "ہاں میں نے اس کا نام "محمد" (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکھا ہے۔"

یہ نام سن کر قریش مکہ نے بہت تعجب کا اظہار کیا کہ یہ کیسا نام ہے، کیونکہ عرب کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی کسی کا نام "محمد" نہ رکھا گیا تھا، اس لیے قریش مکہ کی حیرت بجا تھی۔

اس زمانہ میں دستور تھا کہ شہر کے رؤساء اور شرفاء اپنے شِیرخوار بچوں کو اطراف کے دیہات اور قصبات میں بھیج دیتے تھے، یہ رواج اس غرض سے تھا کہ بچے شہری ماحول سے دور ان دیہات اور قصبوں کے خالص بدوی ماحول میں پرورش پاکر نہ صرف خالص عربی زبان سیکھ سکیں اور اپنے اندر فصاحت و بلاغت کا جوہر پیدا کرسکیں بلکہ وہاں چند سال رہ کر عربوں کی خالص خصوصیات بھی اپنے لاشعور میں سمو سکیں۔

شرفاء عرب نے مدتوں اس رسم کو محفوظ رکھا، یہاں تک کہ بنو امیہ نے دمشق میں پایہ تخت قائم کیا اور شاہانہ شان و شوکت میں کسری' وقیصر کی ہمسری کی، تاہم ان کے بچے حسب معمول صحراؤں میں بدوؤں کے گھر ہی پرورش پاتے رہے، لیکن خلیفہ "ولید بن عبدالملک" جب کچھ خاص اسباب کی وجہ سے وہاں نہ جا سکا اور حرم شاہی میں ہی پلا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ عربی کی فصاحت و بلاغت سے محروم ہوگیا اور بنوامیہ میں وہ واحد خلیفہ تھا جسے فصیح و بلیغ عربی صحیح طرح سے بولنا نہیں آتی تھی۔

غرض اس دستور مذکورہ کی خاطر اطراف کے دیہات و قصبات سے عورتیں سال میں دو مرتبہ شہروں کا رخ کرتی تھیں جہاں شہر کے شرفاء اور رؤساء اپنے بچے ان کے حوالے کردیتے اور ساتھ میں معاوضہ کے طور پر ان عورتوں کو اتنا کچھ روپیہ پیسہ مل جاتا کہ ان کی زندگی بھی آرام سے گزرتی۔

اسی دستور کے موافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش مبارکہ کے چند روز بعد قبیلہ بنو ہوازن کی چند عورتیں شیرخوار بچوں کی تلاش میں مکہ آئیں، ان میں سے ایک حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، اتفاق سے باقی سب عورتیں تو بچے حاصل کرنے میں کامیاب رہیں،  مگر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بوجوہ بچہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔

اب وہ کیوں ناکام رہیں اور پھر کیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچیں، اس کے متعلق کتب تاریخ میں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی زبانی بیان کیے گئے نہایت ہی دلچسپ واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، چونکہ یہ واقعات تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ہے اور یہاں قسط کی غیرضروری طوالت کا خطرہ ہے تو ان شاء اللہ یہ سب دلچسپ واقعات اور پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں پیش آنے والے عجیب و غریب معجزات کا ذکر آئندہ قسط میں کیا جائے گا۔

================== جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 26  ولادت کے ساتویں دن رسمِ عقیقہ اور نامِ مبارک رکھا گیا: ولادت مبارکہ کے...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 25


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 25

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے بعد کے واقعات:

روایات کے مطابق جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے تو فوراً حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو اس خوشخبری کی اطلاع حضرت عبدالمطلب کو دینے کے لیے بھیجا گیا، حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا حضرت عبداللہ کی کنیز تھیں، ان کا اصل نام برکہ تھا، ان کی شادی بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کردی تھی جن سے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔

حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا خوشی کے مارے دوڑتی ہوئی حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچیں اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری دی، حضرت عبدالمطلب جو اس وقت حرم کعبہ میں موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا سن کر وہ بےحد مسرور ہوئے اور حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ فوراً گھر پہنچے۔ وہاں "ننھے حضور" صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو دیکھ کر ششدر رہ گئے اور پھر اپنے جذبات کا اظہار چند اشعار میں بیان کیا، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو "غلمان" کے حسن و جمال سے برتر بتایا، پھر خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے آپ کو حضرت عبداللہ کا نعم البدل عطا فرمایا۔

(یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ، دادا حضرت عبدالمطلب اور پردادا حضرت ہاشم تینوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح نہایت خوبصورت اور مردانہ وجاہت کا پیکر تھے)

بیہقی مختلف حوالوں سے جن میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختون یعنی ختنہ شدہ پیدا ہوئے تھے جس پر حضرت عبدالمطلب نے بہت مسرت آمیز حیرت کا اظہار فرمایا۔

بیہقی نے ہی مختلف حوالوں سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے بعد حضرت عبدالمطلب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر کی عورتوں کے سپرد کردیا، وہ ہر صبح کو حضرت عبدالمطلب کو بتاتیں کہ انہوں نے ایسا بچہ کبھی نہیں دیکھا، وہ بتاتیں کہ نومولود یعنی ننھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کو ہمیشہ بیدار ہی نظر آتے ہیں اور آنکھیں کھولے ٹکٹکی باندھے آسمان کو تکتے رہتے ہیں، اس پر حضرت عبدالمطلب خوشی کا اظہار فرماتے کہ انہیں امید ہے کہ ان کا پوتا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑی شان والا ہوگا۔

شروع کے چند دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے دودھ پلایا،  دو تین دن بعد آپ کو دودھ پلانے کا شرف حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا کو نصیب ہوا، حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا "ابو لہب" کی کنیز تھیں، ابو لہب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں انھیں آزاد کر دیا، حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم عمر چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی دودھ پلایا تھا، ان کے علاوہ چند اور عورتوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا۔

افسوس کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش پر خوشیاں منانے والا ابو لہب بعدازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بدترین مخالف بن کر سامنے آیا اور وہ اور اس کی بیوی "ام جمیل" ساری زندگی اسلام مخالف سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

ابولہب شروع اسلام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شاید سب سے بڑا مخالف تھا، غالباً یہی وہ شخص ہے جس نے تب قریش مکہ کو بدراہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بربادی کی بدعائیں دیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ صفا پر اپنی ساری قوم کو اکٹھا کرکے توحید کی دعوت دی، اس کی بیوی ام جمیل کی سیاہ کاریوں میں ایک یہ سیاہ عمل بھی شامل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن راستوں سے گزرنے والے ہوتے یہ ان راستوں پر کانٹے بچھا دیتی، ان دونوں کی مذمت میں ایک پوری سورہ نازل ہوئی جس کا نام اسی بدبخت کے نام پر سورہ ابی لہب ہے، اس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 25 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے بعد کے واقعات: روایات کے مطابق جب آپ ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 24


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 24

کفر و شرک کے ایوان لرز اٹھے:

سابقہ قسط میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت پیش آنے والے چند غیر معمولی واقعات بیان کیے گئے.. اس قسط میں ایسا ہی ایک غیر معمولی واقعہ جو شہنشاہ ایران کے محل میں پیش آیا , بیان کیا جائے گا..

حافظ ابوبکر محمد بن جعفر بن سہل الخرائطی اپنی کتاب "ھواتف الجان" میں مختلف حوالوں سے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت ایران کے مشھور بادشاہ "نوشیرواں" کے ایوان میں سخت زلزلہ آیا اور اس کے ایوان کے چودہ کنگرے (گنبد) ٹوٹ کر گرپڑے..

اگر بات یہاں تک ہی محدود رہتی تو اسے ایک حادثہ سمجھ کر توجہ کے قابل نہ سمجھا جاتا مگر اس زلزلہ کے ساتھ چند اور بہت ہی غیر معمولی اور چونکا دینے والی باتیں بھی ظہور پذیر ہوئیں جن میں ایک یہ تھی کہ شاہی آتش کدے میں پچھلے ہزار سال سے روشن آگ بھی بنا کسی وجہ کے ٹھنڈی پڑگئی..ایک ہزار سال میں ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ اس مقدس آتش کدے کی آگ بجھی ہو.. دوسری طرف بحیرہ ساوہ بھی حیران کن طور پر جوش (کھا کر ابلنے) والا ہوگیا..

نوشیرواں یہ تمام واقعات دیکھ کر چونک گیا.. اس نے اپنے مشیر "موبذان" کو بلا کر یہ سب واقعات سنائے اور اس کی رائے طلب کی..

موبذان نے نوشیرواں کو بتایا کہ کل رات اس نے بھی ایک عجیب خواب دیکھا ہے کہ عرب کی طرف سے انسانوں کے غول کے غول اونٹوں پر سوار فارس (ایران) کی طرف امڈے آرہے ہیں اور انہوں نے دریائے دجلہ کو بھی عبور کرلیا ہے..

نوشیرواں جو پہلے ہی ان واقعات کی وجہ سے گہری سوچ میں تھا , یہ خواب سن کر پریشان ہوگیا.. اس نے موبذان سے اس خواب کی تعبیر پوچھی..

موبذان نے جواب میں کہا کہ چونکہ یہ سارے واقعات اور پھر یہ خواب معمولی نہیں ہیں تو بہتر ھے کہ ان کی ٹھیک ٹھیک تعبیر جاننے کے لیے کسی عالم سے رابطہ کرلینا چاہئیے.. چنانچہ نوشیرواں نے موبذان کے مشورہ پر ایک خط لکھ کر یمن میں اپنے نائب السلطنت حاکم "نعمان بن منذر" کو بھیجا اور اسے حکم دیا کہ وہ فوراً اس کی خدمت میں حاضر ہو اور اپنے ساتھ کسی ایسے شخص کو لائے جو بڑا عالم ہو اور نوشیرواں کے تمام سوالوں کے جواب دے سکے..

کسریٰ ایران (ایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوتا تھا جیسے روم کے حکمران "قیصر" اور مصر کے حکمران "فرعون" کہلاتے تھے) کا یہ شاہی فرمان ملتے ہی نممان بن منذر فوراً نوشیرواں کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور کسریٰ کے حسب الحکم ایک بہت بڑے عیسائی عالم شخص "عبدالمسیح بن عمرو بن حیان بن نفیلہ غسانی" کو بھی ساتھ لے آیا..

نوشیرواں نے عبدالمسیح بن عمرو کو تمام واقعات اور موبذان کا خواب سنایا اور پھر انکی تعبیر پوچھی.. عبد المسیح بن عمرو نے جواب دیا کہ اگر حضور چاہیں تو ان واقعات اور خواب کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کرسکتا ہوں لیکن میری گزارش ہے کہ اس کے بارے میں میرے ماموں "سطیح" سے جو شام میں قیصر روم کی طرف سے نائب السلطنت ہیں , دریافت کیا جئے کیونکہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ علم والے ہیں اور کہانت کے فن میں بھی طاق ہیں اور اس بارے میں مجھ سے بہتر بتاسکتے ہیں..

نوشیرواں کو عبدالمسیح کی بات پسند آئی اور اس نے اپنے کچھ آدمی اس کے ساتھ کرکے اسے اس کے ماموں سطیح کے پاس شام بھیج دیا..

عبدالمسیح بن عمرو شام کے دارالحکومت دمشق اپنے ماموں سطیح کے دربار میں پہنچا جہاں وہ اپنی ذرۤیں مسند پر بڑی تمکنت سے بیٹھا تھا.. عبدالمسیح نے اسے سارے واقعات اور خواب سنا کر کہا کہ وہ شہنشاہ فارس نوشیرواں کی طرف سے آیا ہے اور نوشیرواں کی خواہش پر ان کی تعبیر جاننا چاہتا ہے..

عبدالمسیح کی باتیں سن کر سطیح چپ ہو گیا اور کسی نہایت گہری سوچ میں ڈوب گیا.. عبدالمسیح نے جب کوئی جواب نہ پایا تو یہ سمجھ کر کہ سطیح نے اس کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے شکایتاً چند اشعار پڑھے جن میں سطیح کے عدم التفات کا گلہ کیا..

سطیح اشعار سن کر اپنے استغراق سے باہر آیا اور کہا.. "جو واقعات تم نے بیان کیے ہیں اگر وہ صحیح ہیں اور جو خواب موبذان نے دیکھا ہے وہ اس نے صحیح طور پر بیان کیا ہے تو سمجھ لو کہ ایک دن نہ صرف کسریٰ ایران کے ہاتھ سے سلطنت چھن جائے گی بلکہ یہ شام جس پر میں آج کل قیصرروم کی طرف سے حاکم بنا بیٹھا ہوں یہ بھی انہی عرب ناقہ (اونٹ) سواروں کے قبضے میں چلا جائے گا جنہیں موبذان نے خواب میں دریائے دجلہ عبور کرتے دیکھا ہے.."

جب عبدالمسیح نے اپنے ماموں سطیح کا جواب نوشیرواں کو فارس واپس آ کر سنایا تو نوشیرواں نے کہا کہ ابھی تو میری اولاد میں کئی پشتوں تک حکمرانی چلے گی اس کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گا..

بہرکیف تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ عرصہ بعد سطیح کی پیشگوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ کے آخری آیام سے فارس و روم کے خلاف جو فوج کشی شروع ہوئی وہ بالآخر تیسرے خلیفہ راشد امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی' عنہ کے عہد میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور نہ صرف ایران کی تین ہزار ایک سو چونسٹھ سال سے جاری شہنشائیت کو مجاہدین اسلام نے اپنے گھوڑوں کی سموں تلے روند دیا بلکہ سرزمین شام پر بھی اسلامی علم لہرا دیا گیا..

---------------->جاری ھے.

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 24 کفر و شرک کے ایوان لرز اٹھے: سابقہ قسط میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ک...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 23


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 23


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت یہودی مذہبی پیشواؤں کی پیشگوئیاں: 

حافظ ابو نعیم اپنی کتاب "دلائل النبوۃ" میں عبدالرحمان بن ابی سعید کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ایک روز عبدالرحمان ابی سعید بنی اشہل میں ٹھہرے ہوۓ تھے، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی کوئی خبر نہ تھی، مگر اگلے روز جب وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ قبیلہ حرب میں مقام ھدنہ پہنچے تو انہوں نے یوشع نام کے ایک یہودی عالم کو کہتے سنا.. "میں دیکھ رہا ہوں کہ "احمد" نام کا ایک نبی مکہ میں پیدا ہونے والا ہے۔"

یہ سن کر بنی اشہل کے ایک شخص خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے یوشع سے کہا.. "تو مذاق تو نہیں کر رہا؟ اچھا بتا کہ اس نبی کے اوصاف کیا ہوں گے؟"

یوشع بولا: "اس کا ظہور حرم کی طرف سے ہوگا، اس کا قد نہ چھوٹا ہوگا نہ بہت طویل۔ اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ہوں گے، لباس کے ساتھ اس کے سر پر عمامہ ہوگا۔"

جب خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے اپنے قبیلے میں واپس جاکر یوشع یہودی کی زبان سے سنی ہوئی یہ باتیں سنائیں تو اس کے قبیلے والے یک زبان ہوکر بولے.. "تم ایک یوشع کی بات کرتے ہو.. کل سے یثرب (مدینہ) کے تمام یہودی یہی باتیں کررہے ہیں۔"

اس کے علاوہ مالک بن سنان بتاتے ہیں کہ وہ اس روز اپنے گھر سے اتفاقاً قبیلہ بنو قریظہ (یہودی قبیلہ) میں چلے گئے، انہوں نے وہاں دیکھا کہ بہت سے لوگ اکٹھے ہیں اور ان کا ایک عالم " زبیر بن باطا" کہہ رہا ہے: 

"آسمان پر ایک سرخ ستارہ نمودار ہوا ہے اور ایسا ستارہ صرف اس وقت نمودار ہوتا ہے جب کہیں کوئی نبی پیدا ہوتا ہے، آج جو نبی پیدا ہوا ہے اس کا نام احمد ہے جو آخری نبی کا نام ہے اور وہ ہجرت کرکے یہیں آئے گا۔"

یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق تمام مذاہب کی مذہبی کتابوں میں پیش گوئیاں موجود ہیں، جن کے مطابق آپ کا نام مبارک تورات و انجیل میں "احمد" آیا ہے۔

جب مدت بعد کسی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زبیر بن باطا کی یہ باتیں بیان کیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اگر زبیر بن باطا اپنی زندگی میں مسلمان ہوجاتا تو اس کی ساری قوم ایمان لے آتی، کیونکہ وہ بھی اس کا اتباع کرتی۔"

ابو نعیم چند دوسرے ثقہ راویوں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے یہودیوں کا کہنا تھا کہ سرخ ستارہ صرف دنیا کے آخری نبی کی ولادت پر طلوع ہوگا، اس کا نام احمد ہوگا اور وہ ہجرت کرکے یثرب (مدینہ) آئے گا، ہمارے لیے اس کی اطاعت لازم ہے۔

مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو وہی یہودی جو اپنی مذہبی کتابوں کی پیشگوئیوں پر کہ ان کا نجات دہندہ نبی عرب میں ظہور پزیر ہوگا اور وہ فلسطین سے اسی انتظار میں یہاں مدینہ آباد ہوگئے تھے، صرف اس حسد کی بنا پر کہ نبی آخرالزماں ان کی قوم بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل میں کیوں پیدا ہوا‌، نہ صرف اپنے قول سے پھر گئے،  بلکہ جانتے بوجھتے اپنے کفر پر بھی قائم رہے۔

ان واقعات کے علاوہ چند اور عجیب ترین واقعات ولادت مبارکہ کے وقت شہنشاہ ایران "کسریٰ" کے محل میں پیش آئے جب وہاں زلزلہ آیا اور نہ صرف محل کے چودہ کنگرے گرگئے، بلکہ ایک ہزار سال سے روشن شاہی آتش کدے کی آگ بھی یکدم بجھ گئی، جبکہ بحیرہ ساوہ جوش کھا کر خشک ہوگیا.. یہ تمام واقعات اگلی قسط میں بیان کیے جائیں گے..


==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 23 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت یہودی مذہبی پیشواؤں کی پیشگوئیاں:  ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 22


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 22


آفتاب ہدایت کی شعاعیں ہرطرف پھیل گئیں: 

یہاں ان چند محیر العقول واقعات (جن کی اسنادی حیثیت کمزور ہے) کا ذکر ضروری ہے جو آپ کی ولادت مبارکہ سے کچھ پہلے اور وقت ولادت پیش آئے، اس ضمن میں ایک وہ واقعہ ہے جب نیم بیداری کے عالم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے کچھ پہلے حضرت آمنہ درد زہ میں مبتلا تھیں۔ 

آپ فرماتی ہیں کہ ان کے جسم سے ایک نور نکلا جس نے تمام مشرق و مغرب کو روشن کردیا، اس کے ساتھ ہی انہیں وضع حمل کی تکلیف سے نجات مل گئی، اس کے بعد وہ نور سمٹ کر ان کے قریب آیا اور انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے اس مجسم نور نے زمین سے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ان کی طرف بڑھائی جو حضرت آمنہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس کے بعد اس نور نے اپنا رخ آسمان کی طرف کرلیا۔

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فرماتی ہیں کہ حضرت آمنہ کے وضع حمل کے وقت وہ وہاں موجود تھیں اور انہوں نے وہاں سوائے نور کے کچھ اور نہ دیکھا اور باہر ستارے زمین کے اس قدر نزدیک آ گئے تھے کہ گویا زمین پر گرنے والے ہوں۔

حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت قابلہ (دائی) کی خدمات سرانجام دے رہی تھیں، ان کا بیان ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے بطن سے ان کے ہاتھ میں آئے تو نومولود کے جسم سے ایسا نور طلوع ہوا کہ جس سے سارا حجرہ اور اس کے درو دیوار چمک اٹھے۔

اس ضمن میں ایک یہودی کا واقعہ عجیب و غریب ہے۔ ہشام بن عروہ اپنے والد اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی مکہ میں رہ کر تجارت کرتا تھا، جس روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ہوئی اس روز اس نے ایک مجلس میں قریش سے پوچھا: "کیا تمہیں معلوم ہے کہ کل رات تمہاری قوم میں ایک عظیم الشان بچہ پیدا ہوا ہے۔؟"

وہ بولے: "نہیں تو" دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت آمنہ بنت وہب کے بطن سے حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے، اس یہودی نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ تم مجھے وہاں چل کر وہ بچہ دکھاؤ۔

یہودی کی اس درخواست پر وہ لوگ اسے حضرت عبدالمطلب کے مکان تک لے گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس یہودی کے سامنے لایا گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے مبارک چاند سے زیادہ روشن ہے، یہ نور نبوت تھا جس کے آثار اس نور کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے اور پیشانی سے ظاہر ہورہے تھے۔ دوسری طرف جب یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت کھول کر دیکھی اور اس کی نظر جب شانوں کے درمیان ایک مسّہ (مہر نبوت جس میں گھوڑے کے ایال کی طرح چند بالوں کی ایک قطار تھی) پر پڑی تو بے ہوش ہوکر گرگیا۔ جب اسے ہوش آیا تو قریش کے لوگوں نے اس سے پوچھا: "ارے تجھے کیا ہوا ؟"

وہ یہودی رو رو کر کہنے لگا: "آج ہم بنی اسرائیل سے نبوت کا سلسلہ تمھاری قوم میں منتقل ہوگیا.."

پھر جب اس کی طبیعت سنبھلی تو اس نے قریش کو اس نعمت کی مبارک دی اور کہا کہ تمھاری سطوت کی اب یہ خبر مشرق تا مغرب پھیل جائے گی۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 22 آفتاب ہدایت کی شعاعیں ہرطرف پھیل گئیں:  یہاں ان چند محیر العقول واقعات...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 21


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 21


*طلوع سحر:*

حضرت عبداللہ کی شادی کے وقت عمر تقریباً سترہ (17) یا بائیس (22) برس تھی، عرب میں دستور تھا کہ دولہا شادی کے بعد تین ماہ تک اپنے سسرال میں رہائش پذیر رہتا، چنانچہ حضرت عبداللہ بھی تین ماہ اپنے سسرال میں مقیم رہے، بعد ازاں حضرت آمنہ کو لےکر مکہ اپنے گھر واپس آگئے۔

اسلام سے پہلے دور جہالت میں باقاعدہ نکاح کا کوئی عام رواج نہ تھا، صرف خال خال ہی طبقہ اشرافیہ میں باقاعدہ نکاح کیا جاتا، ورنہ عام طور پر مرد و زن کے ازدواجی تعلقات زنا کی ہی صورت تھے، اسلام کے بعد جن کے باقاعدہ طریقے سے نکاح ہوئے تھے ان کی شادیوں کو جائز اور صحیح سمجھا گیا اور ایسے جوڑوں کے اسلام لانے کے بعد ان کے قبل اسلام نکاحوں کو شریعت اسلامی کے مطابق درست قرار دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں سمجھی تھی، ایسا ہی ایک صحیح اور باقاعدہ نکاح حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کا ہوا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ "میری ولادت باقاعدہ نکاح سے ہوئی، نہ کہ (نعوذباللہ) زنا یا بدکاری سے۔"

پہلے کی اقساط میں ذکر کیا جاچکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردادا حضرت ہاشم کے دور سے قریش مکہ کے تجارتی قافلے ایران و شام اور یمن و ہند تک جایا کرتے تھے تو ایسا ہی ایک تجارتی قافلہ لےکر حضرت عبداللہ بھی شام کی طرف گئے، وہاں سے واپس مکہ کی طرف لوٹتے ہوئے راستہ میں یثرب (مدینہ) کے قریب وہ شدید بیمار پڑگئے، چنانچہ وہ مدینہ میں ہی اپنے ننھیال اپنے ماموؤں کے پاس ٹھہر گئے، جبکہ ان کے ہمسفر مکہ واپس آگئے۔

جب حضرت عبدالمطلب نے ان کے ساتھ اپنے چہیتے بیٹے کو نہ دیکھا تو ان سے حضرت عبداللہ کے بارے میں پوچھا، انہوں نے جب حضرت عبدالمطلب کو حضرت عبداللہ کی بیماری کا بتایا تو حضرت عبدالمطلب بےحد پریشان ہوگئے، فوراً اپنے سب سے بڑے بیٹے "حارث" کو یثرب حضرت عبداللہ کی خیریت معلوم کرنے بھیجا، لیکن جب جناب حارث یثرب پہنچے تو ان کو یہ اندوہناک خبر ملی کہ حضرت عبداللہ بیماری کی تاب نہ لاکر وفات پا چکے ہیں اور ان کو "دارالغابغہ" میں دفن بھی کیا جاچکا ہے۔

جناب حارث جب یہ المناک خبر لےکر مکہ واپس آئے تو حضرت عبدالمطلب اپنے جان سے پیارے بیٹے کی جواں موت کا سن کر شدت غم سے بےہوش ہوگئے، حضرت آمنہ پر اپنے محبوب شوہر کی موت کا سن کر سکتہ طاری ہوگیا، دوسری طرف سب بہن بھائی اپنی اپنی جگہ اس دکھ کے ہاتھوں بے حال تھے، خاندان بنو ہاشم پر ایک مجموعی سوگ کا عالم چھا گیا، کیونکہ حضرت عبداللہ اپنے حسن و جمال، لیاقت، کردار اور نابغۂ روزگار شخصیت کی وجہ سے سارے خاندان کی آنکھ کا تارہ تھے، مگر یہ روشن ستارہ محض پچیس سال کی عمر میں ہی ڈوب گیا اور یوں تمام جہانوں کے لیے رحمت بننے والے اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ یتیم ہوگئے۔

جواں سال اور چہیتے بیٹے کی وفات کا غم حضرت عبدالمطلب کے لیے اگر سوہان روح تھا تو دوسری طرف محبوب شوہر کی موت کا دکھ حضرت آمنہ کے لیے لمحہ لمحہ کرب و اذیت کا باعث تھا، لیکن اللہ نے ان دونوں کو زیادہ عرصہ غمزدہ نہ رہنے دیا اور حضرت عبداللہ کی وفات سے چند ماہ بعد بروز سوموار 9 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571 ء کو حضرت آمنہ کے ہاں اللہ کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے۔

ایک کنیز کو فوراً حضرت عبدالمطلب کی طرف بھیجا گیا جو خوشی کے مارے دوڑتی ہوئی حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچی جو اس وقت (غالباً) حرم شریف میں موجود تھے، اتنی بڑی خوش خبری کو سن کر حضرت عبدالمطلب فوراً گھر پہنچے اور جب انہوں نے "ننھے حضور" کو دیکھا تو اپنی جگہ کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور پھر اپنے جذبات کا اظہار چند اشعار میں بیان کیا، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو "غلمان" کے حسن و جمال سے برتر بتایا، پھر خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے آپ کو حضرت عبداللہ کا نعم البدل عطا فرمایا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 21 *طلوع سحر:* حضرت عبداللہ کی شادی کے وقت عمر تقریباً سترہ (17) یا بائی...

سیرت النبی کریم ﷺ......قسط 20


*سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 20*


*جناب عبداللہ اور حضرت آمنہ کی شادی*

حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب 545ء میں پیدا ہوئے، آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت عمرو تھا، آپ دینِ حنیف (دینِ ابراہیمی) پر قائم تھے اور ان کی بت پرستی اور کسی اخلاقی برائی (جو ان دنوں عرب میں عام تھیں) کی کوئی ایک روایت بھی نہیں ملتی، حضرت عبدالمطلب نے منت مانی تھی کہ اگر ان کے دس بیٹے پیدا ہوۓ اور سب کے سب نوجوانی کی عمر کو پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے، اس واقعہ کی تفصیل بھی پچھلی اقساط میں گزر چکی ہے، لہذا اس سے آگے کے واقعات کی طرف چلتے ہیں۔

حضرت عبداللہ جب قربانی سے بچ نکلے تو حضرت عبدالمطلب نے ان کی شادی کا سوچا، حضرت عبداللہ اپنے والد اور دادا کی طرح نہایت ہی حسین وجمیل اور وجیہہ انسان تھے، مکہ کی کئی شریف زادیاں ان سے شادی کی خواہش مند تھیں، مگر پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ بننے کی سعادت حضرت آمنہ بنت وہب کی قسمت میں لکھی تھی۔

ان شریف زادیوں کی اس خواہش کے پیچھے صرف حضرت عبداللہ کی ظاہری شخصیت ہی وجہ نہ تھی، بلکہ اس کی اصل وجہ وہ نور نبوت تھا جو ان کی پیشانی میں چاند کی طرح چمکتا تھا، ان عورتوں میں ایک عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی چچا کی بیٹی اور مشہور "ورقہ بن نوفل" کی بہن "ام قتال" تھیں، ان کے بھائی ورقہ بن نوفل انجیل و سابقہ صحائف آسمانی کے علوم کے ماہر تھے اور ان کی وجہ سے ام قتال جانتی تھیں کہ حضرت عبداللہ کی پیشانی میں چمکنے والا نور، نور نبوت ہے اور اسی لیے ان کی خواہش تھی کہ یہ نور ان کے بطن سے جنم لے۔

دوسری عورت ایک کاہنہ "فاطمہ بنت مرالخثعمیہ" تھیں، جنہوں نے اپنی روحانی استعداد سے جان لیا تھا کہ حضرت عبداللہ کی پیشانی میں جو نور دمکتا ہے وہ نور نبوت ہے، اس لیے یہ بھی حضرت عبداللہ سے شادی کی خواہشمند تھیں، تاہم حضرت عبدالمطلب کی نظر انتخاب حضرت آمنہ پر جاکر رکی جو قبیلہ زہرہ کے سردار "وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب" کی بیٹی تھیں اور قریش کے تمام خاندانوں میں اپنی پاکیزگی اور نیک فطرت کے لحاظ سے ممتاز تھیں، اس وقت وہ اپنے چچا "وہیب بن عبدمناف بن زہرہ" کے پاس مقیم تھیں۔

حضرت عبدالمطلب وہیب کے پاس گئے اور حضرت عبداللہ کے لیے حضرت آمنہ کا رشتہ مانگا جسے قبول کرلیا گیا اور یوں حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے، اس موقع پر خود حضرت عبدالمطلب نے بھی ایک کاہن کی کہنے پر وہیب بن عبدمناف کی بیٹی "ہالہ" سے شادی کرلی جن سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جیسے جری شیر پیدا ہوئے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ہونے کے ساتھ ساتھ ماں کے رشتے سے خالہ زاد بھائی بھی تھے، کیونکہ جناب ہالہ اور حضرت آمنہ آپس میں چچازاد بہنیں بھی تھیں۔

دوسری طرف جب اس شادی کا علم ام قتال اور فاطمہ بنت مرالخثعمیہ کو ہوا تو وہ بےحد رنجیدہ ہوئیں اور اس سعادت کو حاصل کرنے میں ناکامی پر رو پڑیں۔

ان کا رونا واقعی میں حق بجانب تھا کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ہونے کا اعزاز ساری دنیا کی قیمت سے بڑھ کر تھا اور یہ اعزاز اللہ نے حضرت آمنہ کے نصیب میں لکھ دیا تھا۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

*سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 20* *جناب عبداللہ اور حضرت آمنہ کی شادی* حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب 545ء می...