سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 37



سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 37 

عنفوانِ شباب اور حضرت خدیجہ ؓ سے شادی: 


لڑکپن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی معین کام نہ تھا، البتہ یہ خبر متواتر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بکریاں چراتے تھے، آپ نے بنی سعد کی بکریاں چرائیں اور مکہ میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے عوض چراتے تھے، جب جوان ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حصولِ معاش کی فکر ہوئی، مکہ وادیٔ غیر ذی زرع میں واقع تھا، وہاں زراعت کرنے کا تو سوال ہی نہ تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آباو اجداد کی طرح تجارت کا پیشہ اپنایا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے والد کے چھوڑے ہوئے سرمایہ کو تجارت میں لگایا اور ان میلوں میں شرکت کے لئے سفر بھی کئے، پیشۂ تجارت میں آپ نے ہمیشہ امانت داری اور دیانت کو پیش نظر رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ساتھی عبداللہ بن ابی الحمسأ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ سے ایک تجارتی معاہدہ کیا، لیکن بات پوری طے ہونے سے قبل مجھے ایک ضروری کام یاد آیا اور میں نے آپ سے کہا کہ آپ یہیں ٹھہریں، میں ابھی آتا ہوں، وہاں جا کر کام میں ایسا مشغول ہو گیا کہ مجھے آپ سے کیا ہوا عدہ یاد نہ آیا، اتفاقاً تین روز بعد میرا ادھر سے گزر ہوا تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہیں انتظار کر رہے ہیں، میں احساسِ شرمندگی کے ساتھ آپ کی طرف گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اتنا فرمایا کہ تم نے مجھے زحمت دی، اس لئے کہ میں تین دن سے اسی جگہ پر تمہارا منتظر ہوں۔

زمانہ جاہلیت میں قیس بن السائب مخزومی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک تجارت تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہتر ساتھی نہیں پایا، اگر ہم آپ کا سامان تجارت لے کر جاتے تو واپسی پر آپ ہمارا استقبال کرتے اور خیر و عافیت پوچھ کر چلے جاتے، برخلاف اس کے اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجارتی سفر سے لوٹتے تو جب تک پائی پائی بے باق نہ کرتے اپنے گھر کو نہ جاتے، تجارت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیانت داری اور معاملہ فہمی کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا قریش کی دولت مند بیوہ خاتون تھیں، جنہیں عرب کے کئی نامور رئیسوں نے نکاح کا پیام دیا تھا، ان کے والد خویلد بن اسد نے بہترین تجارتی کاروبار ورثہ میں چھوڑا تھا، اس لئے انھوں نے بھی تجارت جاری رکھی، اپنا مالِ تجارت اُجرت یا شراکت پر تاجروں کے ہمراہ روانہ کرتیں، ابتدائی عمر میں چچا زاد بھائی اور مشہور عیسائی عالم "ورقہ بن نوفل" سے منسوب تھیں، لیکن شادی نہ ہوسکی۔ 15 سال کی عمر میں ان کا پہلا نکاح ہند بن نباش سے ہوا جو ابوہالہ کے نام سے مشہور تھے، ان سے دو بچے پیدا ہوئے جو بعد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے، ابو ہالہ کے انتقال کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 21 سال کی تھیں، آپ کا دوسرا نکاح عتیق بن عاید مخزومی سے ہوا جن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جس نے بعد میں اسلام قبول کیا، عتیق بن عاید مخزومی بھی انتقال کرگئے، یکے بعد دیگرے دونوں شوہروں کے انتقال سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا دل برداشتہ ہو گئی تھیں، مالی دولت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں دولتِ حُسن سے بھی نوازا تھا، نہایت ذہین اور سلیقہ مند تھیں، انہی خصائص کی وجہ سے وہ "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔

جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راست گوئی، امانت اور مکارمِ اخلاق کا علم ہوا تو انہوں نے ایک پیغام کے ذریعے پیش کش کی کہ آپ ان کا مال لے کر تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے جائیں، وہ دوسرے تاجروں کو جو کچھ دیتی ہیں، اس سے بہتر اجرت آپ کو دیں گی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا سے مشورہ کرکے یہ پیش کش قبول کرلی اور ان کا مال لے کر ملک شام تشریف لے گئے، اس سفر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ایک غلام میسرہ بھی آپ کے ساتھ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و عادات دیکھ کر آپ کے گرویدہ ہوگئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر سے مکہ واپس تشریف لائے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مال میں ایسی امانت وبرکت دیکھی جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی، مال کی خرید و فروخت کا حساب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو دیا تو منافع دوگنے سے زیادہ تھا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی طے شدہ معاوضہ کا دوچند آپ کو دیا،  یعنی بجائے چار اونٹ کے آٹھ اونٹ معاوضہ میں دیئے۔

ادھر ان کے غلام مَیْسَرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شیریں اخلاق، بلند پایہ کردار، موزوں اندازِ فکر، راست گوئی اور امانت دارانہ طور طریق کے متعلق اپنے مشاہدات بیان کیے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اپنا گم گشتہ گوہرِ مطلوب دستیاب ہوگیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر اس وقت 25 سال ہوچکی تھی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ستودہ صفات سے متاثر ہوکر خود ہی اپنی سہیلی نفیسہ بنت منیہّ کے ذریعہ آپ کی خدمت میں نکاح کا پیغام بھیجا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رضا مندی ظاہر کی اور اپنے ہم عمر چچا اور دودھ شریک بھائی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا، جنہوں نے اہلِ خاندان سے مشورہ کرکے خود ہی جا کر پیام منظور کرلیا، چنانچہ آپ کا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا، جس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی جانب سے ان کے چچا عمرو بن اسد اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے حضرت ابو طالب، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سردارانِ قریش شریک تھے۔ مہر بہ اختلاف روایات 20 اونٹ، 400 دینار یا 500 درہم قرار پایا۔

بوقت شادی حضرت خدیجہ ؓ کے عمر کیا تھی؟ 

یہاں اس بات کی صراحت ضروری ہے کہ عام روایت کی بموجب نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیں سال بتائی جاتی ہے، لیکن بین الاقوامی شہرت کے حامل اسکالر اور سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اپنی کتاب "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی" میں محمد بن حبیب بغدادی مصنف کتاب "المحبّر" کے حوالہ سے 28 سال بتائی ہے۔

اٹھائیس سال کی مزید تائید الزرقانی کے بیان سے بھی ہوتی ہے، وہ القسطلانی کی کتاب المواھب کی مشہور شرح المغلطائی کے حوالہ سے لکھتے ہیں: "اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ 28 سال کی تھیں،  جیسا کہ المغلطائی اور دوسروں نے بیان کیا ہے۔" (الزرقانی، جلد 1)

سب سے زیادہ وقیع بات تو یہ ہے کہ ابن سعد (متوفی ۲۳۰ہجری) نے عبداللہ بن عباس کی سند سے روایت لکھی ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر جس دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے نکاح کیا، 28 سال تھی۔ (طبقات، جلد ۸، فی النساء)

نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند دن بنی ہاشم کے محلہ میں گزار کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں آگئے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی خدمت کے لئے ایک غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو پیش کیا، جو اس وقت پندرہ سال کے تھے اور جنہیں بچپن میں ڈاکوؤں نے عُکّاظ کے بازار میں حکیم بن حزام کے ہاتھ فروخت کردیا تھا اور بعد میں انہوں نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی نذر کیا تھا، کچھ عرصہ بعد زید رضی اللہ عنہ کے باپ کو معلوم ہوا کہ زید زندہ ہیں تو باپ اور چچا دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں ان کے حوالے کرنے کی درخواست کی جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تمہارے باپ اور چچا تمہیں لینے آئے ہیں، اب تمہیں اختیار ہے کہ چاہو تو ان کے ساتھ اپنے وطن لوٹ جاؤ، چاہو تو میرے ساتھ رہو، اس پر زید رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ اور چچا کے ساتھ جانے کے مقابلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔

اس کے بعد حسب دستور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زید رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر حرم کعبہ میں آئے اور حطیم کے پاس جا کر اعلان فرمایا: "لوگو! گواہ رہنا کہ زید آزاد ہے اور آج سے وہ میرا بیٹا ہے۔" یہ اعلان سُن کر اُن کے باپ اور چچا بہت خوش ہوئے اور اپنے وطن واپس لوٹ گئے، حضرت زید رضی اللہ عنہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ واحد صحابی ہیں، جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پہلی خاتون تھیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شادی کی اور ان کی وفات تک کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی، حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بقیہ تمام اوّلاد انہی کے بطن سے تھیں، سب سے پہلے قاسم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اور انہی کے نام پر آپ کی کنیت ابوالقاسم پڑی، پھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا، رقیہ رضی اللہ عنہا، اُم کلثوم رضی اللہ عنہا، فاطمہ رضی اللہ عنہا اور عبداللہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، عبداللہ رضی اللہ عنہ کا لقب طیب اور طاہر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب بچے بچپن ہی میں انتقال کر گئے، البتہ بچیوں میں سے ہر ایک نے اسلام کا زمانہ پایا، مسلمان ہوئیں اور ہجرت کے شرف سے مشرف ہوئیں، لیکن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوا باقی سب کا انتقال آپ کی زندگی ہی میں ہوگیا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھ ماہ بعد ہوئی۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں