سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ محمد ﷺ کی تلوار



سیرت النبی کریم ﷺ 

محمد ﷺ کی تلوار


دنیا کے ہر براعظم میں قبولِ اسلام کا شور ہے، وہی ”اللہ اکبر“ کے نعرے جو کسی شخص کے پہلی بار ”اَشہد اَن لا الٰہ الا اللہ و اَن محمداً رسول اللہ“ کے الفاظ لب پہ لے آنے پر اول اول ’مکہ‘ نامی ایک بستی میں سنے جایا کرتے تھے، وہی نعرے یورپ، جنوبی امریکہ، شمالی امریکہ اور افریقہ تا آسٹریلیا ”اسلامی سنٹروں“ کے اندر اب روز گونجتے ہیں ۔۔۔

پیرانِ کلیسا اِس پر چپ ہی رہیں گے؟
"توحید“ کے سامنے ’تثلیث‘ کا نہ ٹھہر سکنا۔

اِس تاریخی واقعہ کی تفسیر انسانی ”عقل“ اور ” خرد“ اور ”منطق“ اور ”فطرت“ کی بجائے اور اسلام کی قوت و برہان کی بجائے ’اسلام کی تلوار‘ میں تلاش کرنا، وہ عذر لنگ ہے جو اب بے حد پرانا ہو گیا ہے۔

مستشرقوں نے آج سے کوئی صدی بھر پہلے اِس کو ایک ’مقولہ‘ بنا دینے کی کوشش کر دیکھی ہے، مگر انہیں اِس پر منہ کی کھانی پڑی جب ان کے جھٹلانے کو صرف ماضی کے دل آویز حقائق ہی نہیں، خود آج اِس دور میں بھی خدا نے ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اصل قوت کا ایک چھوٹا سا نظارا کروا ہی دیا۔

آج اِس دور سے بڑھ کر تو مسلمانوں پر ضعیفی کبھی نہ آئی ہوگی، ہر قوم ہی آج مسلمانوں پر شیر ہے تو آج کونسی تلوار ہے جو مغرب کے اندر لوگوں کو اسلام قبول کروا رہی ہے؟ سبحان اللہ! اِس دین کے معجزے دنیا اب بھی دیکھ رہی ہے۔

مسلم ضعیفی کے اِس دور میں بھی قبولِ اسلام کی ایک عالمی لہر مسلسل بلند ہو رہی ہے، ہمارے تعجب کے لئے ’جدید دنیا‘ کے اِس چشم کشا واقعہ کے سامنے مستشرق جہاں اب کھسیانے ہو رہے ہیں وہاں کلیسا کے منصب بردار اِس کو ’نہایت مؤثر طعنہ‘ سمجھ کر بآوازِ بلند دہرانے جا رہے ہیں!!!

کلیسا، جس کا نام لیتے ہی ہمیں خود بخود ’اندلس‘ یاد آجاتا ہے، ’قرونِ وسطیٰ‘ کا لفظ اور اس کے سوا ’اور بہت کچھ‘ بھی کلیسا کے حوالے سے تاریخ کی یادداشت کے ساتھ چپک کر رہ گیا ہے، یہ ’کلیسا‘ آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو طعنہ دینے جا رہا ہے۔

دلیل کی قوت‘ ہی تو اِس دین کا اصل امتیاز ہے، اسلام کی یہی خصوصیت تو ہے جس کے باعث ہمیشہ کی طرح آج بھی اللہ کے فضل سے لوگ ’تثلیث‘ چھوڑ چھوڑ کر ”توحید“ کا رخ کررہے ہیں!!! اسلام کی اِس اصل خصوصیت کو یہ لوگ یوں نظر انداز کر کے دکھاتے ہیں گویا واقعی انجان ہیں۔

اسلام کی تلوار کی رونمائی کے دوران اِن کے ہاں یہ بھی ضروری رہتا ہے کہ اُس تلوار پر دنیا کی نظر نہ جائے جو ’صلیب‘ کے نام پر طویل صدیاں چلائی جاتی رہی اور جوکہ درحقیقت آج بھی نیام میں نہیں چلی گئی ہے، صرف چولا بدل گئی ہے (آخر الذکر مسئلہ، جیسا کہ ہم کتاب کی ابتدا میں کہہ آئے ہیں، ہماری اِس حالیہ تحریر کا موضوع نہیں، یہاں بات صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کے حوالے سے ہوگی)۔

یہ خود جانتے ہیں شہنشاہِ قسطنطین کے قبولِ عیسائیت (312ء) کے ساتھ ہی ’دھونس‘ کس طرح میدان میں آئی تھی۔۔۔۔! اور یہ دھونس بھی بھلا کس لئے تھی؟

سینٹ پال کے دین کو مسیح بن مریم علیہ السلام کے دین پر برتری دلانے کے لئے، جس کے نتیجے میں ’مسیحیت‘ کے نام پر ”خدائے واحد“ کے بجائے ’اقانیمِ ثلاثہ‘ کی بزور پوجا کرائی جانے لگی تھی!!!

سبھی کو معلوم ہے Romans کی بے رحم قوت نے میدان میں آکر کیونکر پانسہ پلٹا اور عرصہء دراز سے عیسائی فرقوں کے مابین پائے جانے والے ”توحید بہ مقابلہ تثلیث“ کے اُس طویل معرکہ کو کس جبر اور تشدد کے ساتھ، تثلیث کے حق میں، اختتام پزیر کروایا۔ کسے معلوم نہیں، رومنز کے میدان میں آنے کے ساتھ ہی، یعنی رومنز کے عیسائیت میں پیر دھرتے ہی مسیح علیہ السلام کے سچے پیروکاروں کے ساتھ کیسا آہنی ہاتھ برتا جانے لگا، جب مسیح علیہ السلام کو خدا کا بندہ اور خدا کا نبی کہنے والوں پر (خصوصاً چوتھی صدی عیسوی کے ”اریوسی فرقہ“ پر جوکہ توحید پر قائم تھا) زمین تنگ کر دی گئی تھی، یہاں تک کہ چھٹی صدی عیسوی کے آواخر یعنی نبیِ آخر الزمان کے دورِ ولادت تک سب ’اریوسیوں‘ ’شمشاطیوں‘ اور ’ابیونیوں‘ (عیسائیوں میں پائے جانے والے بعض موحد فرقےکو معدوم کر کے رکھ دیا گیا تھا۔۔۔۔!

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ  محمد ﷺ کی تلوار دنیا کے ہر براعظم میں قبولِ اسلام کا شور ہے، وہی ” اللہ اکبر “ کے نعرے جو کسی شخص کے پہلی بار ”...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 26

 


تدبر سورۃ الرحمن

از استاد نعمان علی خان

پارٹ 26 آیت(48-49)


 ذَوَاتَـآ اَفْنَانٍ 

جن میں بہت سی شاخیں ہوں گی. 

جنت کے باغ میں بہت سے درخت ہیں جن کی شاخیں نہایت گھنی ہیں. کسی بھی علاقے کے گھنے سایہ دار درخت اس علاقے کی پراپرٹی کی مالیت، خوبصورتی اور پوش ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں. درخت کسی جگہ کو پراسرار بناتے ہیں. کیونکہ درخت منظر کو چھپا دیتے ہیں. 


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ

پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے


 تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے  جھٹلاؤ گے؟

جاری ہے ۔۔۔ 

  تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خان پارٹ 26 آیت(48-49)  ذَوَاتَـآ اَفْنَانٍ  جن میں بہت سی شاخیں ہوں گی.  جنت کے باغ میں بہت سے درخت ہ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ ایک اُسی نبی کا انکار کیوں؟ ، جس کی نبوت کے دلائل سب سے مضبوط ہیں



سیرت النبی کریم ﷺ 

ایک اُسی نبی کا انکار کیوں؟، جس کی نبوت کے دلائل سب سے مضبوط ہیں


بُغض کے بھرے عیسائی مبلغین لوگوں کے حضرت محمد ﷺ کی جانب بڑھنے کی راہیں مسدود کردینے کےلئے چند گھسی پٹی باتوں سے بڑھ کر کیا کہہ سکتے ہیں؟ '' قتال ''؟

وہ تو بائبل میں مذکور انبیاء کے ہاں بھی مذکور ہے، کیا پھر یہ موسیٰ اور سموئیل اور داود کو بھی ''تلوار'' کو ہاتھ لگ جانے کے باعث نبی ماننے سے انکار کردیں گے؟ سلیمان کو نبی نہ مانیں مگر ’اَمثال‘ تو ان کی بھی بائبل کا جزولاینفک ہیں، کیا ان سب نبیوں کو اور ان کے صحیفوں کو اور ان کے ذکر کو ’قتال‘ میں ملوث ہونے کے باعث بائبل کے عہد قدیم سے باہر کیا جاسکتا ہے؟ بلکہ عہد جدید کے بھی وہ حصے جن میں ’تلوار‘ کا ذکر ہے، کیا بائبل کے عہدِ جدید کی ان نصوص کی آسمانی نسبت بھی مشکوک ٹھہرا دی جائے گی؟

ایک سے زیادہ شادیاں کرلینے کے باعث محمد ﷺ کو بطور نبی نہیں دیکھا جاسکتا؟ تو پھر ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور داود کو بطور نبی دیکھنے پر بھی کیا یہ مبلغین اپنے چرچ میں پابندی عائد کردیں گے؟ ان انبیاء کی کئی کئی شادیوں کا ذکر اسی بائبل میں ہی تو ہے جس کی تقسیمِ عام پر صبح شام محنت ہورہی ہے۔

محمد ﷺ نے عہد شکنی کے مرتکب بنو قریظہ کے سرقلم کروادئیے تھے، بنوقریظہ کے جنگی جرائم تو تاریخ کے ریکارڈ میں ہیں، مگر موسیٰ اور داود نے اپنے قابو آنے والے دشمنوں کے ساتھ جو خوفناک برتاؤ کیا، اپنی ’کتابِ مقدس‘ میں کیا انہوں نے وہ بھی دیکھا ہے؟ بائبل جو ’دکھی انسانیت کی فلاح کےلئے‘ افریقہ کے جنگلوں اور آسٹریلیا کے صحرؤں تک آج مفت پہنچائی جا رہی ہے، خود ہی ان سب سوالوں کا جواب ہے۔

یا تو یہ کہہ دیں کہ خدا نے انسان کی ہدایت کے لئے آج تک کوئی نبی بھیجا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی کوئی کتاب اتاری ہے، پھر اس صورت میں بائبل کی ترسیل کے دیوہیکل منصوبے بھی لپیٹ کر رکھ دیں اور عہد قدیم کے انبیاء کی بھی اسی طرح ڈٹ کر مخالفت کریں جس طرح یہ محمد ﷺ کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھے ہوئے ہیں، بلکہ ’یسوع مسیح ‘ کو اور اس کے کلام کو بھی اسی صف میں کھڑا کریں اور سب پر ایمان کے لئے ایک سا ’علمی معیار‘ بنائیں اور اگر ان کے لئے ایسا ممکن نہیں تو پھر محمد ﷺ کی طرف جانے والے عقل اور دلیل کے ان سب راستوں میں یہ کیونکر اور کب تک جم کر بیٹھ سکتے ہیں؟

اِن کا مقصد یہ تاثر دینا اور ثابت کرنے کی کوشش کرنا ہے کہ محمد ﷺ اگر نبی ہوتے تو آپ کی بابت ایسی غلط غلط باتیں کہی ہی کیونکر جا سکتی تھیں؟ مستشرقین نے اسی لئے حضرت عائشہ اور حضرت زینب بنت جحش کی شادی وغیرہ ایسی باتوں پر بھی لامحدود اوراق سیاہ کئے ہیں تو گویا نبی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بابت کبھی کوئی غلط بات نہ کی گئی ہو اور اس کی کسی بات کو کبھی کوئی غلط رنگ نہ پہنایا گیا ہو!!! کیا اس بات کا اطلاق یہ ان نبیوں پر بھی کریں گے جن پر یہ خود بھی ایمان رکھتے ہیں۔۔۔۔!!؟

محمد ﷺ کی نبوت کا ’ثبوت‘ چاہیے تو پھر موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت کا بھی ’ثبوت‘ چاہیے اور عین انہی معیاروں پر جن کو ’تحقیق‘ کی بنیاد بنا کر تم محمد ﷺ کی نبوت پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرتے رہے ہو! اور پھر دیکھتے ہیں ’دلیل‘ کس کے پاس ہے!!!!!؟

وہ اعتراضات جو تم محمد ﷺ اور قرآن پر کرتے ہو، ’جدید انسان‘ کو ایسے ہی اعتراضات کرنے کا حق اپنے نبیوں اور اپنے صحیفوں پر بھی تو دو! تمہارے پاس تو کچھ بچے گا ہی نہیں!!! خود موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت کے ثبوت بھی خدا کے فضل سے آج ہم رکھتے ہیں نہ کہ تم!!!

انبیاء کا آنا اگر سچ ہے تو پھر ایک اُسی نبی کا ہی انکار کیوں جس کی نبوت کے دلائل سب سے مضبوط ہیں؟ جس کی زندگی کے حالات اور جس کی تعلیمات مستند ترین صورت میں آج کے انسان کو سب سے زیادہ اور سب سے وافر اور سب سے روشن صورت دستیاب ہیں؟ جس کا انسانی زندگی پر کسی بھی انسان سے بڑھ کر اثر انداز ہونا تاریخ کا ایک واضح معلوم محسوس واقعہ ہے؟؟؟

کسی مستشرق نے کیا سچ کہا ہے کہ: محمد (ﷺ) ہی ایک وہ نبی ہے جو تاریخ کے نصف النہار میں پیدا ہوا اور سورج کی روشنی میں دیکھا گیا، پچھلے نبیوں کے تو حالات ہی مستند طور پر آج دستیاب نہیں۔

شام کے ایک مصنف نے حال ہی میں مغرب کے کچھ اہم اہم نومسلم مفکروں کے قبول اسلام کے تجربات و محسوسات ایک کتاب میں قلم بند کئے ہیں جس کا عنوان بہت خوبصورت رکھا ہے:

ربحتُ محمداً (ﷺ) ولم اخسر المسیح

یعنی”میں نے محمد ﷺ کو پایا، مگر مسیح کو بھی نہ کھویا

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ  ایک اُسی نبی کا انکار کیوں؟، جس کی نبوت کے دلائل سب سے مضبوط ہیں بُغض کے بھرے عیسائی مبلغین لوگوں کے حضرت محمد ...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 25

 


تدبر سورۃ الرحمن

از استاد نعمان علی خان

پارٹ 25 آیت(46-47)


 وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّـتَانِ 

 اور اس کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے دو باغ ہوں گے.  

 اگر کوئی ڈرتا ہے اللہ سے، تو اس کے لیے دو باغ ہیں. اس سے پہلے اس سورۃ میں اللہ کا شکر ادا کرنے پہ زور دیا گیا تھا. اس آیت میں اللہ سے ڈرنے پر انعام کا ذکر ہے. اس میں اور پچھلی آیات میں کیا فرق ہے؟ پہلی چیز جو ایک اچھے انسان کو اللہ کا معبود بننے پر ابھار سکتی ہے وہ ہے اللہ کا فضل و کرم. لیکن ایک ضدی نافرمان شخص کو اللہ کی طرف خوف لے کر جاتا ہے. 

 یہ نیکی کی طرف اکسانے والی آیات ہیں ، آیات البر، اللہ تعالٰی نے ہمیں ہمارے اعمال کے نتائج بتا دیے ہیں. اولین وجہ جو اللہ کی بندگان اختیار کرنے کے لیے ہونی چاہیے وہ ہے اللہ کا فضل و کرم. اللہ اسی قابل ہے کہ اس کی عبادت کی جائے. نیک اعمال کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہونی چاہیے کہ آپ اللہ کے شکر گزار بندے ہیں. ہر کوئی اس مقام پہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر کسی پہ اللہ کا یہ احسان ہے. 

 اللہ تعالٰی کہتے ہیں کہ اللہ کی بندگی اختیار کرنے کی  اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جیسے کہ روزِ قیامت. جو دو اور  بڑی وجوہات ہیں اللہ کی بندگی اختیار کرنے کے لیے وہ ہیں جنت کی خواہش، اور جہنم کا خوف. یہ دونوں اللہ تعالٰی کی طرف جانے کے لیے انسان کو ابھارتی ہیں. اس سورۃ کا آغاز اللہ تعالٰی نے ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے کیا تھا. آپ کو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنی چاہیے اور یہ کافی ہے آپ کے لیے. بعد میں جب مجرموں کا ذکر کیا گیا تو بہتر یہی ہے کہ آپ اللہ سے ڈریں.  اللہ تعالٰی جانتے ہیں کہ اس دنیا میں مختلف قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں. 

 دو جنتوں کا وعدہ کیوں کیا گیا؟ عام خیال یہی ہے کہ ایک انسانوں کے لیے اور ایک جنت ان جنات کے لیے جنہوں نے اللہ کی خاطر اپنی خواہشات کو دبا ڈالا. دوسرے علماء کا خیال ہے کہ شاید دو جنتوں کا ذکر اس لیے کیا گیا کیونکہ دو چیزیں انسان کو کامیاب کراتی ہیں. اللہ کا شکر اور اللہ کا خوف. کچھ لوگ نیک کام کرتے ہیں اور کچھ لوگ برائی سے دور رہتے ہیں. کچھ لوگ نیک اعمال میں مصروف رہتے ہیں، اللہ کی عبادت کرتے ہیں لیکن برے کاموں سے دور نہیں رہ پاتے.  جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ ہیں جو زیادہ برے کام نہیں کرتے لیکن نیک اعمال کرنے میں سستی برتتے ہیں. 

 اگر آپ واقعی اللہ تعالٰی سے ڈرتے ہیں تو آپ کو دو چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے، نیک اعمال میں خود کو مصروف رکھیں اور برے کاموں سے خود کو دور رکھیں. کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے نیک اعمال ان کے برے کاموں کو ڈھانپ لیں گے لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے. آپ کو محنت کرنی  لازمی ہے. آپ کو مجرم نہیں بننا اور آپ کو ایک اچھا انسان بننا لازم ہے.( خود کو ان کاموں میں مصروف کرنا جن کا اللہ نے حکم دیا ہے. )

 فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ 

پھر( اے گرہ جن و انس ) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے.

 اس آیت میں کن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے؟ پچھلی کچھ آیات جہنمیوں کے متعلق تھیں. لیکن یہ آیت مختلف ہے. وہ انسان جو جنت میں داخل ہو گیا اس نے دین کو شاید ترجیح دی ہو لیکن جنت میں داخل ہونے کے بعد اسے یہی لگے گا کہ اس نے اللہ کی عبادت کا حق ٹھیک سے نہیں ادا کیا. اللہ کے دین کی خدمت، نیک اعمال، توبہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہمارے لیے مواقع تھے. جتنا کچھ انہیں جنت میں ملے گا وہ اس قدر ہی اس پر اللہ کا اتنا زیادہ شکر ادا کریں گے اس کے لیے بھی جو کچھ انہیں دنیا میں ملا. انہیں جنت میں کیا چیز لے گئی؟ ان کا دین، ان کے اساتذہ، وہ مسلمان جنہوں نے اس راہ میں ان کی مدد کی، جو ان کے لیے اللہ کا تحفہ تھے.

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

  تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خان پارٹ 25 آیت(46-47)  وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّـتَانِ   اور اس کے لیے جو اپنے رب کے سامنے...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ محسنِ انسانیت ﷺ



سیرت النبی کریم ﷺ 

محسنِ انسانیت ﷺ


موجودہ عالمگیر مادہ پرستانہ تہذیب کے ظاہر فریب پردوں کے پیچھے جھانک کر انسانیت کا جائزہ لیجیے، تو وہ حالتِ زار سامنے آتا ہے کہ روح کانپ جاتی ہے۔

پوری اولادِ آدم کو چند خواہشات نے اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اور ہر طرف دولت و اقتدار کے لیے ہاتھا پائی ہو رہی ہے، آدمیت کے اخلاقی شعور کی مشعل گُل ہے، جرائم تمدنی ترقی کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہے ہیں، نفسیاتی الجھنوں کا زور ہے اور ذہنی سکون یکسر غائب ہوچکا ہے، انسانی ذہن و کردار میں ایسا بنیادی فساد آگیا ہے کہ زندگی کا کوئی گوشہ اس کی منحوس پرچھائیں سے محفوظ نہیں رہا۔

فلسفہ و حکمت سے سچائی کی روح کھو گئی ہے، اعتقادات و نظریات میں توازن نہیں رہا، روحانی قدریں چوپٹ ہو چکی ہیں، قانون روحِ عدل سے خالی ہو رہا ہے، سیاست میں جذبۂ خدمت کی جگہ اغراض پرستی گھس گئی ہے، معیشت کے میدان میں ظالم اور مظلوم طبقے پیدا ہوگئے ہیں، فنون لطیفہ میں جمال کی ساری رنگ آمیزیاں جنسی جذبوں اور سفلی خواہشوں سے کی جانے لگی ہیں، تمدن کے سارے عوامل میں چپہ چپہ پر تضادات ابھر آئے ہیں جن کے درمیان تصادم برپا ہے اور پوری تاریخ ایک خوفناک ڈرامے میں بدل گئی ہے، عقل ترقی کرگئی ہے مگر اس کی حماقتیں ہمارے درپۓ آزار ہیں، علم کے سوتے ابل رہے ہیں، مگر اسی کی پروردہ جہالتوں کے ہاتھوں آدم زار کا ناک میں دم ہے، دولت کے خزانے ہر چہار طرف بکھرے پڑے ہیں، مگر خاکی مخلوق بھوک، ننگ اور محرومی کے عذاب میں گھری ہے، ہزار گونہ تنظیمیں اور سیاسی ہیئتیں، نظریاتی وحدیں اور معاہداتی رابطے نمودار ہیں، مگر انسان اور انسان کے درمیان بھائی بھائی کا سا تعلق نہیں، چیتے اور بھیڑیے کا سا معاملہ ہے۔ عقلی، سیاسی، اخلاقی اور تہذیبی شعور کی ترقی کے چرچے ہیں، مگر ظلم اور تشدد کے انتہائی ناپاک حربے آج بھی انسانیت کے خلاف کام میں لائے جا رہے ہیں۔

تاریخ ایک وسیع اکھاڑا ہے، جس میں کہیں امپیریلزم اور حریت پسندی کے درمیان، کہیں کمیونزم اور سرمایہ داری کے درمیان، کہیں جمہوریت اور آمریت کے درمیان اور کہیں فرد اور اجتماعیت کے درمیان اور کہیں مغربیت اور ایشیائیت کے درمیان ایک خونخوار آویزش جاری ہے۔

مصنوعی سیاروں اور میزائلوں کے اس دور میں سائنس الہ دین والے روایتی چراغ کے جن کی طرح مادی قوتوں کے نئے نئے خزانے انسان کے ایک ایک اشارے پر بہم پہنچا رہی ہے۔ قدرت کے سربستہ رازوں کے ازلی قفل حکمت کی کنجی سے کھل رہے ہیں، ہیبت ناک رفتار انسان کو زمان و مکان پر وسیع تصرف دلا رہی ہیں، جوہری توانائی نے تباہ دیووں کے لشکر انسان کے سامنے مسخّر کر کے کھڑے کر دیے ہیں جو بس ایک اشارۂ ابرو کے منتظر ہیں۔ دوسری طرف خود انسان کا اپنا یہ حال ہے کہ وہ شیطانی اور تخریبی قوتوں کے پنجے میں پہلے سے زیادہ بے بس دکھائی دیتا ہے جو بار بار اسے اپنے ہی خلاف محشر آرا کرتی رہی ہیں اور جنہوں نے ہر دور میں اس کے عظیم تعمیری کارناموں اور اس کے شاندار تمدنوں کو خود اسی کے ہاتھوں ملیامیٹ کرایا ہے۔

اضطراب کے اس لمحے میں جب چاروں طرف نگاہیں گھماتا ہوں تو تاریکی کا ایک سمندر شش جہت سے محاصرہ کیے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔
اس سمندر میں دور ۔۔۔
چودہ صدی کی دوری پر۔۔۔
ایک نقطہ نور دکھائی دیتا ہے۔
یہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی مشعل ہے!
وہی مشعل جس کی روشنی کو خود ہم نے ۔۔۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواؤں نے ۔۔۔ اپنے افکار پریشاں اور اپنے اعمال پراگندہ کے غبار میں گم کر رکھا ہے !!

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ  محسنِ انسانیت ﷺ موجودہ عالمگیر مادہ پرستانہ تہذیب کے ظاہر فریب پردوں کے پیچھے جھانک کر انسانیت کا جائزہ لیجیے، ...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 24



 تدبر سورۃ الرحمن


از استاد نعمان علی خان


پارٹ 24 آیات (45-43)


 هٰذِهٖ جَهَنَّـمُ الَّتِىْ يُكَذِّبُ بِـهَا الْمُجْرِمُوْنَ 

یہی وہ دوزخ ہے جسے مجرم جھٹلاتے تھے. 


 "جہنم" فارسی کا لفظ ہے جو عربی میں آیا اور اس کے معنی ہیں" عقوبت خانہ".  یہ ہے وہ عذاب جسے مجرمین جھٹلاتے تھے. اللہ تعالٰی کہتے ہیں کہ اللہ کی عنایات کو جھٹلانا، اپنے انجامِ کار کو جھٹلانے کے ہی برابر ہے. ان غافلوں نے کبھی یہ سوچا ہی نہ تھا کہ ان کا یہ انجام ہو گا. ہمارے دور میں لوگ اس سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں اور عذابِ الہی و جہنم کو مذاق سمجھ کے فلموں و ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے. 


 هٰذِهٖ اور تِلْكَ میں کیا فرق ہے؟  "هٰذِهٖ" استعمال ہوتا ہے ایسی چیز کے لیے جو قریب ہو، یہ سامنے کی چیز، جبکہ تِلْكَ یعنی وہ، کچھ ایسا جو دور ہو. اللہ تعالٰی نے یہاں "هٰذِهٖ" کا لفظ استعمال کیا تاکہ ہمیں اندازہ ہو جائے کہ قیامت دور نہیں، نزدیک ہی ہے. 


 يَطُوْفُوْنَ بَيْنَـهَا وَبَيْنَ حَـمِيْـمٍ اٰنٍ

گناہ گار جہنم میں اور کھولتے ہوئے پانی میں تڑپتے پھریں گے.


 اللہ تعالٰی یہ منظر بیان کرتے ہیں کہ دوزخ میں لوگ پانی کو دیکھیں گے.   طُوْف کہتے ہیں آگے پیچھے ہونے کو. وہ  پانی کو ابلتے ہوئے دیکھیں گے . اٰنٍ یعنی پانی ابل کر جل رہا ہو گا. تو وہ واپس آگ کی طرف دوڑیں گے کہ شاید یہ ٹھنڈی ہو اور پھر اسی طرح وہ آگ اور پانی کے درمیان مسلسل طواف کرتے دوڑتے پھریں گے. 


 فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ 

پھر(اے گروہ جن و انس) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے.

 

 یہ جہنمیوں کے لیے طنز بھی ہو سکتا ہے. کہ اگر تم یہ جہنم کا منظر  فرض کرو اور اس کے اثرات پہ غور کرو تو تم کیسے اللہ کی آیات سے انکار کر سکتے ہو؟


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

 تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خان پارٹ 24 آیات (45-43)  هٰذِهٖ جَهَنَّـمُ الَّتِىْ يُكَذِّبُ بِـهَا الْمُجْرِمُوْنَ  یہی وہ دوزخ ہے ج...

سیرت النبی کریم ﷺ دینِ محمدی ﷺ کا پھیلاؤ اور مادی وسائل



سیرت النبی کریم ﷺ 

دینِ محمدی ﷺ کا پھیلاؤ اور مادی وسائل


ننھے بچے کی تربیت و پرورش کے لئے محسوس قوتوں میں سب سے بڑی قوت وہ ہے جسے باپ کہتے ہیں، لیکن کیا تماشا ہے کہ وہ بزور توڑ دیا گیا اور پیدا ہونے سے پیشتر ہی توڑ دیا گیا، وہ آیا اور اس شان کے ساتھ آیا کہ جس کو لوگ پالنے والا کہتے ہیں، وہ مدینہ کے ایک میدان میں سویا ہوا تھا، سعد کے کنجے والو دوڑو اور اس بچے کو چھاتی سے لگاؤ، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی نہیں۔

جن کے پاس سب کچھ تھا انہیں دھکیل دیا گیا، جس کی اونٹنی کا تھن خشک ہو چکا تھا اور خود جس کے پاس دودھ کا ایک قطرہ نہ تھا، کچھ نہ تھا اسی نے اپنی گود میں اُٹھا لیا، جب واپس کرنے آئی تو تماشے کا یہ کیسا درد ناک حصہ تھا کہ ابواء کے ایک جھونپڑے میں اس بچہ کی تربیت و پرداخت کرنے والی دوسری قوت بھی ہمیشہ کے لئے گم ہو گئی۔

پیر مرد بوڑھا دادا اُٹھتا ہے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے، لیکن قدرت جس کے ساتھ کچھ نہیں رکھنا چاہتی وہ اُٹھتی ہے اور اس کے ہاتھ کو بھی جھٹک کر علیحدہ کر دیتی ہے، اب کوئی نہیں، اس بچہ کا کوئی نہیں، اس کے پاس کچھ نہیں، ہاں بہت سے چچا ہیں، لیکن جن کے پاس بہت کچھ تھا، انہوں نے آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا، ان میں جو سب سے نادار تھا اسی کے بچوں میں وہ بھی گھل مل گیا، چچا نے نہیں بلکہ بھتیجے نے بکریاں چرا کر اس کو کچھ دیا اور اسی میں سے کچھ خود بھی کھالیا، (خود آنحضرت ﷺ کا بیان ہے کہ ابو طالب کے بچے کھانے پر اس طرح ٹوٹتے تھے کہ میں بھوکا رہ جاتا تھا، آخر میں ابو طالب نے ضیق معاش سے تنگ آکر اپنے بچوں کو تقسیم کردیا تھا اور اسی تقسیم میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ حضور ﷺ کے حصہ میں آئے۔)

الغرض ایک بچہ پیدا ہوتا ہے (ﷺ) جس کے ساتھ نہ باپ کی قوت ہے، نہ ماں کی قوت ہے، نہ اقرباء و اعزہ کی قوت ہے، کوئی قوت نہیں ہے حتیٰ کہ وہ جس ملک میں پیدا ہوتا ہے، وہ بھی ہر قسم کی نباتی اور حیوانی قوتوں سے خالی ہے، میدان ہے اور چٹیل میدان ہے، اس کا نام بن کھیتی کا بیابان ہے، نہ اس کے آغوش میں ندیاں کھیلتی ہیں، نہ دریاؤں کا شیریں پانی اس کو سیراب کرتا ہے، نہ سبزہ زار مرغزار ہیں نہ نظر فریب گلزار ہیں، الغرض انسانی دل و دماغ کے سنوارنے اور ابھارنے میں جن قدرتی ذرائع کو دخل ہے ان میں سے بھی اس میدان میں کچھ نہیں ہے، وہ جس شہر میں پیدا ہوتا ہے، اس کے باشندوں کے پاس بھی کوئی قوت نہیں ہے، نہ ذہنی قوت نہ سیاسی طاقت، نہ علمی زور یعنی جن قوتوں پر قوموں کی عمارت کھڑی ہوتی ہے وہ ہر ایک سے خالی ہے، نہ وہ آئین رکھتے تھے نہ دستور، نہ ان کا کوئی بادشاہ تھا نہ ان کی جماعتی پراگندگیوں کا کوئی شیرازہ بند، نہ ان کے پاس مکاتب تھے نہ مدارس، نہ کارخانے نہ فیکٹریاں، کچھ نہیں، ان چیزوں میں سے ایک بھی نہیں جس میں داخل ہو کر کوئی بچہ پروان چڑھ سکتا ہو۔

ان کے پاس جو جسمانی طاقت تھی اس کا مصرف بھی بجز اپنی تعداد گھٹانے کے اور کچھ نہ تھا۔ اسی ملک میں، اسی شہر میں، اسی قوم میں اس بچے کا ظہور ہوا اور اس شان کے ساتھ ہوا کہ اس کے سر پر جو قوت بھی سایہ فگن ہوتی تھی یا ہو سکتی تھی، وہ ایک ایک کر کے مٹا دی جاتی تھی، یہاں تک کہ آخر میں یہ بھی ہوا کہ وطن پر جو اسے بھروسہ ہو سکتا تھا اس بھروسے کو بھی ہٹا دیا گیا، برادری والوں پر جو اعتماد ممکن تھا وہ بھی ناممکن کر دیا گیا، یعنی سارا وطن اور وطن والے، قبیلے والے، کنبے والے سب اس کی دشمنی پر متفق ہو کر آمادہ ہو گئے اور وہ جس کے پاس نہ باپ کی قوت تھی اور نہ ماں کی، نہ دادا کا زور تھا نہ اور کسی کا۔ نہ حکومت کی سرپرستی اسے حاصل تھی نہ مدرسوں کی تعلیم سے وہ فیض یاب ہو سکتا تھا، نہ اپنے ملک کے گرد و پیش کے خنک آمیز اثرات سے اپنے دماغ کی تازگی اور اس میں بالیدگی پیدا کر سکتا تھا، اب اس کے ساتھ یہ بھی کیا گیا کہ گھروالے، کنبے والے، قبیلے والے سب کے سب اس سے علیحدہ ہو گئے، مادہ ان سے علیحدہ کرلیا گیا اور اب جا کر یہ ارادہ پورا ہوا کہ دیکھو۔

ؔاس کے پاس کچھ نہیں ہے۔"

وہ ساری قوتیں جن کو لوگ قوت کہتے ہیں اور جن کا نام محسوس پرستوں کی اصطلاح میں ''قوت'' ہے ''زور'' ہے ایک ایک کر کے الگ کرلیا گیا، اس کے بعد دکھایا گیا، مشاہدہ کرایا گیا۔

''جس کے پاس کچھ نہیں ہے، دیکھو کہ اس کے پاس سب کچھ ہوگیا۔''

ایک منظر وہ تھا اور دوسرا منظر یہ ہے کہ زمین کے ایک بڑے قطعے کا مالک ہے۔ اس کے خادموں بلکہ خادموں سے نیچے اگر کوئی درجہ ہو سکتا ہے وہی قیصر کی ٹوپی اچھال رہے ہیں، کسریٰ کے جلال و جبروت کے پرزے اُڑا رہے ہیں، وہی جس کے پاس کچھ نہ تھا، کیا دنیا نے نہیں دیکھا یا نہیں دیکھ رہی ہے، یا نہیں دیکھے گی کہ یہی دنیا میں سب سے بڑا قرار پایا، قومیں اس کی تقدیس میں مصروف ہیں، نسلیں اس کے سراہنے میں منہمک ہیں، افغانستان کی پہاڑیوں میں، مراکو کی وادیوں میں، مصر کے ایوانوں میں، برصغیر کی بستیوں میں، چین کی آبادیوں میں، افریقہ میں، ایشیا میں، یورپ میں، امریکہ میں کون ہوا؟ اتنا بڑا کون ہوا؟ صرف ہمارے پاس نہیں، ہماری تاریخ میں نہیں، دوسروں کی تاریخ میں، کیا اس سے اونچا انسان نسلِ اول میں کوئی ظاہر ہوا، مامون و ہارون کو کس کی غلامی پر ناز تھا؟ صلاح الدین کس کے نام پر صلیب والوں کی بھیڑ میں لرزہ ڈالتا تھا؟ محمود کس کی جوتیوں کے صدقے میں مشرق کا اولوالعزم فاتح قرار پایا، شاہ جہان کس کے نام کی تسبیح پڑھتا تھا؟ عالمگیر کس کی نگاہِ کرم کے لئے دکن کے سنگستانوں میں سالہا سال تک ٹھوکریں کھاتا پھرتا تھا، یہ کس کی ہمنامی کی برکت تھی کہ اناطولیہ کا ترک قسطنطنیہ کی دیواروں کو پھاند گیا۔ یہ کیا تھا؟

اس نے دعویٰ کیا تھا اور یہی اس کی زندگی کا مقصد تھا کہ محسوس قوتوں کا انکار کرے اور جو قوت غیب میں چھپی ہوئی ہے، نظام کائنات کو اسی کے ساتھ وابستہ کرے۔ اس نے دعویٰ کیا اور نہایت بلند آہنگی سے دعویٰ کیا اور خود اس کی دلیل بن کر دنیا کے سامنے آیا، کیونکہ قیاسی حجتوں کا زمانہ نکل چکا تھا، مشاہدات اور تجربات کا وقت آرہا تھا، پس اس عہد کے جو پیغمبر تھے (ﷺ) ان کا دعویٰ بھی تخمینی مقدمات سے نکالے ہوئے نتائج پر مبنی نہ تھا بلکہ کھلا ہوا تجربہ، صاف اور واضح مشاہدہ پر اس کی بنیاد کھڑی کی گئی، دنیا نے دعویٰ کو سنا اور دلیل کو دیکھا، پھر ان میں کس کے ہوش قائم رہے، کلیسا میں تزلزل پیدا ہوا، لوتھر نے ایک ضربِ شدید سے یورپی تنظیم کی بنیادوں کو ہلا دیا، وہ خود بنایا نہیں، لیکن قصر تثلیث کے ایک اہم حصہ کو اس نے اپنے ہاتھوں برباد کر دیا، کیا کوئی اس کا منکر ہو سکتا ہے کہ تثلیث کی یہ جزئی شکست اسی دعویٰ اور دلیل کا نتیجہ تھی جس کی ابتدا عرب سے ہوئی اور کیا ان ہی میں جو یونٹی (Unity) پر آج خطبہ دے رہے ہیں وہ عالم کے اس سب سے بڑے انسان کے احسان سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔؟

شراب پر احتساب قائم کرنے والو دیکھو! حق سے آنکھیں بند نہ کرو۔ ترکستان میں کبیر کیوں پیدا ہوئے، نانک کس دباؤ سے بے چین ہوئے، رام موہن رائے کس کی گرفت سے مضطرب تھے اور آج ہندوستان کے طول و عرض میں وہ جو جماعت نظر آتی ہے جسے اسلام سے عداوت کا دعویٰ ہے، لیکن اسی کے ساتھ وہ بت شکنی میں بھی مصروف ہے، کیا اس عملی فرمانبردار ذہنی نافرمان فرقہ کو اس دعوے کے اثر سے آزاد کہہ سکتے ہیں؟ دیا نندیوں کو ذرا غور کرنا چاہئے۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ  دینِ محمدی ﷺ کا پھیلاؤ اور مادی وسائل ننھے بچے کی تربیت و پرورش کے لئے محسوس قوتوں میں سب سے بڑی قوت وہ ہے جسے ...

سورۃ الکہف میں چُھپے خزانے

 


👈سورۃ الکہف میں چُھپے خزانے 👉

تحریر : کامران الہی ظہیر


میں نے دو سال لگائے سورہ کہف کو سمجھنے میں اور بہت ساری تفاسیر کا مطالعہ کیا جن میں اردو اور عربی کی تفاسیر کا مطالعہ کیا اس کے علاوہ ایک فارسی تفسیر بھی تھی، ہم اس سورۃ کو صرف غار والوں کا واقعہ سمجھتے ہیں مگر اصل مدعا جو ہے اس کی طرف کسی کی نظر ہی نہیں گئی۔

تو اس سورۃ کا مقصود، لب لباب یا سینٹرل آئیڈیا کہہ لیں یہ ہے کہ اللہ اس دنیا میں لوگوں کو آٹھ طرح کے حالات سے آزماتے ہیں، عزت، ذلت، صحت، بیماری، نفع، نقصان، خوشی اور غمی۔ 

ہر بندہ ہر وقت ان میں سے کسی ایک حال میں ہوتا ہے، ان آٹھ کو اگر تقسیم کریں تو دو دو حالات میں تقسیم ہوں گے یا تو اچھے حالات ہوں گے یا برے یعنی یا تو بندہ عزت میں ہوگا یا ذلت میں، یا صحت ہو گی یا بیماری، تو اللہ دو حالات میں آزماتے ہیں یا تو اچھے یا برے کہ یہ بندہ اچھے حالات میں شکر کرتا ہے یا نہیں اور برے حالات میں صبر کرتا ہے یا نہیں۔ 

تو دو پیپر بنے ایک شکر کا پیپر اور دوسرا صبر کا پیپر، اب اگر بندے نے اچھے حالات میں شکر کیا تو اس نے پیپر کو پاس کیا اور اگر ناشکری کی تو اس پیپر کو فیل کیا اور اگر صبر کے پیپر میں صبر کیا تو پاس ہوا اور بے صبری کی تو فیل ہوگیا، یہ زندگی دار الامتحان ہے جہاں ہم نے دو پیپر دینے ہیں ایک صبر کا دوسر اشکر کا۔ 

اللہ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کو بھی ان دو پیپرز میں آزمایا پہلا شکر کا تھا جو کہ جنت کی نعمتیں تھیں، دوسرا درخت کا پھل تھا جو کھانے سے منع کیا گیا تھا تو یہ صبر کا پیپر تھا جس میں شیطان نے ان کو کامیاب نہ ہونے دیا، سورہ کہف میں پانچ واقعات ہیں۔ 

حضرت آدم علیہ اسلام کا واقعہ ہے جو کہ اس سورت کا قلب ہے، آیتیں تھوڑی ہیں اس لیے پڑھنے والوں کی توجہ ہی نہیں جاتی، آدم علیہ السلام کے واقعہ سے پہلے دو واقعات عام الناس کے ہیں جن میں سے ایک اصحاب کہف تھے، یہ عام نوجوان تھے اور انہوں نے صبر کا امتحان دیا اور اس پیپر میں پاس ہو کر مقبول بندوں میں شامل ہو گئے۔ 

دوسرا واقعہ دو باغوں والے شخص کا تھا، یہ بھی عام شخص تھا جس کو مال و دولت دی گئی تھی، اس کا پیپر شکر کا تھا کہ تم نے نعمتوں پر شکر کرنا ہے تو یہ فیل ہو گیا، اس کے بعد آدم علیہ السلام کا واقعہ اور پھر دو واقعات ہیں خواص کے، ایک موسٰی علیہ السلام کا کہ ان سے بھی صبر کا پیپر لیا گیا اور سکندر ذوالقرنین کا شکر کا پیپر تھا اور انہوں نے غرور و تکبر نہیں کیا اور شکر کا پیپر پاس کیا اسی طرح اللہ اولاد آدم سے بھی صبر اور شکر کے پیپر لیتے ہیں۔ 

کچھ نکات:
اللہ نے اس سورۃ کی شروعات میں اپنی الوہیت کا ذکر کیا اور ختم اپنی ربوبیت کے تذکرے پر کیا۔

شروع سورۃ میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت کا تذکرہ کیا اور اختتام ان کی بشریت پر کیا۔ 

انسان کے لیئے دنیا میں سب سے بڑی بلندی عبدیت ہے اسی لیئے انسان ذکر کرتا ہے تاکہ اللہ کی محبت اس کے دل میں آ جائے، اب صرف محبت کا آ جانا مقصود نہیں ہے، جب محبت آ جائے تو پھر محب ہمیشہ محبوب کو راضی کرنے کی فکر میں رہتا ہے اور رضا کیا ہے؟ اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا، اگر اللہ اچھے حالات بھیجے تو شکر کرنا اور برے حالات میں صبر کرنا، جب بندے کو یہ مقامِ رضا حاصل ہو جائے تو پھر اس کو مقام عبدیت حاصل ہو جاتا ہے۔ 

عبد کا لفظ اللہ نے اپنے حبیب کے لیے استعمال کیا، مفسرین کی نظر میں عبد وہ ہوتا ہے جس کو اپنے آقا کے سوا کچھ نظر نہ آئے، بعض کے نزدیک عبد وہ ہوتا ہے جو اپنے آقا سے کسی بات میں اختلاف نہیں کرتا، ہر حال میں راضی رہتا ہے، شکوہ نہیں کرتا۔

چونکہ اس سورہ کو دجال سے حفاظت کے لیے پڑھنے کا ذکر احادیث میں آتا ہے اس لیے کہ یہ ہمیں اس سے بچاتی ہے۔

پہلے دجال کے معنی کو سمجھیں کہ یہ دجل سے نکلا ہے، دجل فریب کو کہتے ہیں اور ملمع سازی کرنے کو کہتے ہیں جس طرح تانبے پر سونے کا پانی چڑھا دیا جائے تو وہ اوپر سے کچھ ہو گا اور اندر سے کچھ اسی طرح دجال بھی اندر سے کچھ اور ہوگا اور باہر سے کچھ اور، آج کے دور میں اسی طرح دجالی تہذیب ہے کہ اوپر سے تو خوش نما نظر آتی ہے مگر اندر سے کچھ اور ہے۔،آج کے دور میں ایمان اور مادیت کی ایک جنگ چل رہی ہے، اب اس دور میں اگر اپنا ایمان بچانا ہے تو ہمیں بھی کہف میں گھسنا ہونا ہوگا، جی ہاں کہف میں۔

آج کے زمانے میں جو کہف ہیں، اگر انسان ان میں داخل ہو جائے تو وہ دجال کے فتنے سے بچ سکتا ہے، جو قرآن کے ساتھ نتھی ہو جاتا ہے اس کو پڑھنا، سیکھنا، سمجھنا شروع کر دیتا ہے تو وہ بھی اپنا دین بچا لیتا ہے اور قرآن اس کے لئیے کہف بن جاتا ہے۔ 

احادیث کے مطابق جو بھی مکہ اور مدینہ میں داخل ہو جائے وہ بھی دجال سے محفوظ رہے گا، انسان اپنے ایمان کو بچا لیتا ہے اور دجال سے محفوظ ہو جاتا ہے، اس سورت کا ہر واقعہ ہمیں ایک سبق سکھاتا ہے کہ کس طرح ہم نے خود کو دجال سے بچانا ہے۔ 

اصحاب کہف کے قصے سے یہ سبق ملا کہ ہم کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے کسی نہ کسی کہف میں پناہ لینی ہے تاکہ ہم اپنا ایمان بچا لیں اور دجال سے محفوظ رہیں۔

صاحب جنتین کے قصے سے یہ سبق ملا کہ اللہ نے جو مال دیا اس کو اپنی طرف منسوب نہ کرے جیسا کہ اس باغ والے نے کیا اور پکڑ میں آ گیا اور اس نعمت سے محروم کر دیا گیا۔ 

حضرت آدم علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملا کہ یہ دنیا ہمارے لیئے دار اقامت ہے، ہمارا اصلی وطن جنت ہے، دنیا میں رہ کر دنیا کو اپنا اصلی وطن سمجھ لینا اور ساری محنتیں اور ساری امیدیں دنیا پر لگا دینا بے وقوفی کی بات ہے، شیطان بدبخت نے ہمیں جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اصلی وطن سے نکالا تھا، اب یہاں بھی یہ ہمارا دشمن ہے اور ہم سے گناہ کرواتا ہے تاکہ دوبارہ جنت میں جانے کے قابل نہ رہیں، اللہ شر سے بچائے اور ہمارے اصلی گھر جنت میں پہنچا دے، آمین۔

موسٰی علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم دنیا میں جتنا بھی علم حاصل کر لیں دنیا میں کوئی نا کوئی ہم سے بھی بڑھ کر جاننے والا ہوگا، انسان کبھی بھی اشیاء کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتا، جب ہم یہ سمجھیں گے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں تو پھر ہم دجال فتنے میں پھنس جائیں گے اس لیے اللہ نے موسی علیہ السلام کا واقعہ بیان کر دیا تاکہ ہم لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں سب پتا ہے بلکہ یہ کہیں کہ اللہ ہی حقیقت حال کو جانتے ہیں، علم اور بھی اس سے کہیں زیادہ ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے، اسی لیئے سورہ کہف انسان کو دجال کے فتنے سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کی ذہن سازی کرتی ہے اور ایسا ذہن بناتی ہے کہ بندے کا ذہن محفوظ ہو جاتا ہے۔ 

حضرت ذوالقرنین کے واقعے سے سبق ملا کہ حضرت ذوالقرنین جہاں گئے وہ ان کے کوئی دوست رشتے دار نہیں تھے یا کوئی جاننے والے نہیں تھے کیوں کہ وہ تو ان کی زبان تک نہیں جانتے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے ان لوگوں کی مدد کی کیوں کہ وہ اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے بندوں کو نفع پہنچاتے تھے، ان سے کوئی پیسہ وغیرہ نہیں مانگتے تھے بلکہ جب انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو اس کے لیے پیسے دیں گے تو انہوں نے انکار کر دیا، دوسرا یہ کہ وہ اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرتے تھے، جب ان کو اختیار دیا گیا کہ آپ اس قوم کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں مطلب چاہیں تو سزا دیں یا اچھا سلوک کریں تو انہوں نے اس قوم کو اللہ کی طرف بلایا تھا اور اپنے اختیار اور طاقت کو اللہ کے قانون کے نفاذ میں استعمال کیا۔

سورہ کہف میں پہلے پانچ واقعات بیان کر کے بندے کی ذہن سازی کی گئی اور اب آخری آیات میں اس ساری سورت کا نچوڑ بیان کیا جا رہا ہے جو کہ تین باتیں ہیں:

1- جو لوگ دنیا ہی کو بنانے میں لگے رہتے ہیں درحقیقت وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں، ہر وقت دنیا اور اس کی لذت کو پانے کی فکر میں رہنا ہے دجالی فتنہ ہے لہٰذا فقط دنیا ہی کی فکر میں نا رہیں بلکہ آخرت کی بھی سوچیں۔

2- اس کے بعد اللہ نے اپنی صفات کو بیان فرمایا کہ اگر تم اپنے رب کی تعریفوں کو بیان کرو اور سمندر سیاہی بن جائیں اور دوسرا سمندر بھی اس میں ڈال دیا جائے تو تم پھر بھی اپنے رب کی تعریف بیان نہ کر سکو گے۔

3- آخر میں بتایا کہ جو اپنے رب کا دیدار کرنا چاہے جو کہ سب سے بڑی اور سب سے بڑھ کر نعمت ہے، اس کا کیا طریقہ بتایا کہ وہ شخص جو کام کرے صرف اللہ کریم اور نبی کریم ﷺ کی خوشی کے لئے کرے اور جو ایسا کرے گا اللہ اس کو اپنا دیدار عطا کریں گے.....

التماسِ دعا:
اللّٰہُمَ صَلِ٘ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَّمَدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ عَلٰٓی اٰلِ اِبْرٰہِیْمَ اِنَّکَ حٓمِیٌدٌ م٘ٓجِیُد۔
اللّٰہُمَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَّمَدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ عَلٰٓی اٰلِ اِبْرٰہِیْمَ اِنَّکَ حٓمِیٌدٌ م٘ٓجِیُد۔

  👈سورۃ الکہف میں چُھپے خزانے 👉 تحریر : کامران الہی ظہیر میں نے دو سال لگائے سورہ کہف کو سمجھنے میں اور بہت ساری تفاسیر کا مطالعہ کیا جن م...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 23

 


تدبر سورۃ الرحمن


از استاد نعمان علی خان


پارٹ 23 آیات (39-42)


 فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُسْاَلُ عَنْ ذَنْبِهٓ ٖ اِنْـسٌ وَّلَا جَآنٌّ 

 پس اس دن اپنے گناہ کی بات نہ کوئی انسان اور نہ کوئی جن پوچھا جائے گا. 


 قرآن میں بہت سی جگہوں پر اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ روزِ قیامت لوگ اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہوں گے.  لیکن اس آیت میں کہا گیا کہ کسی سے کوئی سوال نہ کیا جائے گا. کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی کہ کون مجرم ہے کیونکہ یہ ان کے چہرے سے ظاہر ہو گا.  


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ

 پھر( اے گروہ جن و انس ) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے. 

 

 يُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِيْمَاهُـمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِىْ وَالْاَقْدَامِ 

 مجرم اپنے چہرے کے نشان سے پہچانے جائیں گے پس پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑے جائیں گے. 


 مجرموں کو ان کے سروں اور پاؤں سے پکڑ لیا جائے گا. اس دنیا میں جب جانور کو ذبح کرنا ہو تو اس کا سر اور پاؤں پکڑ لیے جاتے ہیں  تو روزِ سزا و جزا مجرموں کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک ہو گا. 


 کچھ علمائے کرام نے اس پر اور غور و فکر کیا ہے. کچھ کا خیال ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ سر، جسم کا وہ حصہ ہے جہاں آپ برے فیصلے لیتے ہیں جیسا کہ جھوٹ. جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو وہ یہ غلط فیصلہ کرنے کے بعد اپنے پیروں سے چل کر دوسروں کے پاس اپنا جھوٹ بولنے جاتا ہے. 


 فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ

پھر( اے گروہ جن و انس ) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے


تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے جھٹلاؤ گے؟


جاری ہے ۔۔۔۔

  تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خان پارٹ 23 آیات (39-42)  فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُسْاَلُ عَنْ ذَنْبِهٓ ٖ اِنْـسٌ وَّلَا جَآنٌّ   پس اس دن ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا



سیرت النبی کریم ﷺ 

کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا


عرب قوم جس کے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی، پلے، بڑھے اور جوان ہوئے، کیسی تھی مولانا الطاف حسین حالی نے اپنے مسدّس میں اس کو انتہائی حسین اور دلکش پیرایہ میں اس طرح بیان کیا ہے۔

وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بِنا کا
ازل میں مشیت نے تھا جس کو تاکا
کہ اس گھر سے اُبلے گا چشمہ ہُدیٰ کا
وہ تیرتھ تھا اک بت پرستوں کا گویا
جہاں نام حق کا نہ تھا کوئی جویا

قبیلے قبیلے کا بت اک جدا تھا
کسی کا ہبل تھا کسی کا صفا تھا
یہ عُزّا پہ وہ نائلے پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اک خدا تھا

نہاں ابر ظلمت میں تھا مہر انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

وہ تھے قتل وغارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
نہ ٹلتے تھے ہرگز جو اڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صدہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے

بلند ایک ہوتا تھا گر واں شرارا
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا
کہیں تھا مویشی چرانے پر جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

یوں ہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یوں ہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر
پھرے دیکھتی جب تھے شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جاکر
وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی

(مسدس حالی صفحہ ۲۵ تا ۲۷ مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ، دیوبند)

اولاد سے محبت کسے نہیں ہوتی مگر آہ ․․․․! بے رحمی اور سنگ دلی کی حد ہوگئی، اگر ماں کی ممتا اور شفقت کی وجہ سے یا کسی اور سبب بچپن میں لڑکیوں کو زندہ زیر زمین دفن نہ کرسکتے تو جب بھی موقع ہاتھ آتا انہیں اس میں کوئی عار محسوس نہ ہوتا، بولتی، ہنستی، مسکراتی اور کھیلتی ہوئی معصوم بچیوں کو کسی بہانے کنویں کے قریب لے جاتے اور انتہائی بے دردی سے انہیں منہ کے بل اس میں دھکیل دیتے، کچھ ہی دیر میں یہ کلیاں مرجھا جاتیں، ایک شخص نے اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نسل کشی اور لڑکیوں کو زندہ مار ڈالنے کا واقعہ بیان کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی دردناک آپ بیتی سن کر رو پڑے۔
(سیرة النبی جلد ۶ صفحہ ۲۳۶)

مگر قربان جائیے! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے اپنی محنت، جدوجہد، بے چین قلب، حکمت بالغہ، شیریں زبانی اور اخلاق کریمانہ کے ذریعہ توحید کا پرچم مکہ کی سنگلاخ زمین میں لہرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ۲۳/سال کے مختصر عرصہ میں عالم عرب کے بیشتر ممالک میں اسلام کے ترانے گائے جانے لگے، نفرتیں محبت میں تبدیل ہوگئیں، بت گر بت شکن ہوگئے، شراب گلیوں میں بہنے لگی، جھوٹ، غیبت، حسد اور جلن کا چلن ختم ہوگیا، زنا کاری کے تصور سے دل کانپنے لگا، عورت اب پھول کی طرح ہرگھر کی چہیتی بن گئی، اُجڈ قوم مہذب بن گئی، خوف خدا اور آخرت کے ڈرنے انہیں لاغر بنادیا، جہنم کے ڈراؤنے منظر اور عذاب قبر کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور اتنا روتے تھے کہ ہچکیاں بندھ جاتیں، جنت کی تڑپ اور طلب میں سارا مال خرچ کردینا ان کے لئے ایک معمولی بات تھی، حاصل یہ کہ سینکڑوں معبودوں کے بجائے اب تمام بندوں کا ایک خدا سے تعلق استوار ہوچکا تھا، یہ شہنشاہ مدینہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عالی صحبت، فیضان نظر اور اعجاز ہی تو تھا کہ شرک و بت پرستی کے عادی انسان خدا کا شیدائی بن گیا، مولانا الطاف حسین حالی نے اس سحر انگیزی کو بیان کرتے ہوئے کہا۔

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی
اک آواز میں سوتی بستی جگادی
پڑا ہرطرف غل یہ پیغام حق سے
کہ گونج اٹھے دشت وجبل نام حق سے
سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا
حقیقت کا گُر ان کو ایک ایک بتایا
زمانے کے بگڑے ہوؤں کو بنایا
بہت دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا
کھلے تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر
وہ دکھلا دئیے ایک پردہ اٹھا کر

(مسدس حالی صفحہ ۳۱)

وہ لوگ جو کسی حیثیت کے مالک نہ تھے، گمراہ اور بد چلن تھے، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کرم نے ان کو نہ صرف ہدایت کا راستہ دیا، بلکہ ساری کائنات کے لئے شمع ہدایت کا تمغہ عطا کیا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

''أصحابی کالنجوم فبأیہم اقتدیتم اھتدیتم'' (مشکوٰة صفحہ: ۵۵۴)

یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے تم جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاؤگے۔

صحابۂ کرام کا امتحان خدا نے لیا، ان کے ایمان، تقویٰ، عدالت و صداقت کو جانچا اور پرکھا، وہ اتنے کھرے نکلے کہ قرآن نے ہمیشہ کے لئے ان سے اللہ کی رضامندی کا اعلان کردیا، انہیں معیار حق بنایا بلکہ انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل اور بہترانسان قرار دیا، ارشاد باری ہے:

اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قلُوبَہُمْ للتقوٰی لہم مغفرة واَجْرٌ عَظِیمٌ (سورہ حجرات آیت ۳)

”یہی وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ نے تقویٰ کے لئے خالص کردیا ہے، ان لوگوں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔“

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تنبیہ کی کہ کوئی میرے بعد میرے صحابہ کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنائے، ان سے محبت کرو اس لئے کہ ان سے محبت مجھ سے محبت کرنا ہے اور ان سے بغض، حسد اور دشمنی گویا میری ذات سے دشمنی ہے۔ (ترمذی)

یہ کیسی نظر تھی کہ جو مشرک تھے موحد ہوگئے، سخت تھے نرم ہوگئے، ذلیل تھے دنیا کے امام بن گئے، حضرت ابوبکر صدیق کو صدیقیت کا مقام نہ ملتا اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت نصیب نہ ہوتی، حضرت عمر فاروق کو فاروق، حضرت عثمان غنی کو غنی اور ذونورین (دو روشنی والے) اور حضرت علی کو شیر خدا کا خطاب اور اعزاز رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور محبت کا اثر ہے، حضرت بلال حبشی اور حضرت سلمان فارسی عرب کے باہر سے تشریف لائے، کوئی تعارف اور شناسائی نہیں، پہلے غلام تھے لیکن اللہ اوراس کے رسول کی محبت نے انہیں وہ مقام عطا کیا کہ تمام مسلمان کے وہ چہیتے اور سردار بن گئے، بقول شاعر

خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ  کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا عرب قوم جس کے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی، پلے، ب...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 22



 تدبر سورۃ الرحمن


از استاد نعمان علی خان


پارٹ 22 آیات (35-38)


 يُـرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ وَّنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَان. 

 تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم بچ نہ سکو گے. 


جب جنات آسمان کے راستے سے بھاگنے کی کوشش کریں گے تو ان پر آگ کے شعلے پھینکے جائیں گے. یہ آگ کی برسات اوپر آسمان سے ہو گی. اور وہ اپنی کوئی مدد نہ کر پائیں گے. نہ ہی بچاؤ کی کوئی اور صورت ہو گی. 


 فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ

 پھر( اے گروہ جن و انس ) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے


تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے  جھٹلاؤ گے؟ 


 فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ

 پھر جب آسمان پھٹ جائے گا اور پھٹ کر گلابی تیل کی طرح سرخ ہو جائے گا.


َالدِّهَانِ دو چیزوں کو کہا جاتا ہے. 

١. جب کسی جانور کی کھال اتاری جائے تو اسے َالدِّهَانِ کہتے ہیں. 

٢. جب آپ ہانڈی پکاتے ہوئے کچھ بھونتے ہیں اور تیل کے سرخ قسم کے  چھینٹے اڑیں تو انہیں  َالدِّهَانِ  کہتے ہیں. 


تو آسمان گلابی تیل کی طرح سرخ رنگ کی مانند ہو جائے گا. اور  آسمان پھٹ جا گا اور اس کی کھال اتر جائے گی. 


 فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ 

پھر( اے گرہ جن و انس ) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے


تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے  جھٹلاؤ گے؟


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

  تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خان پارٹ 22 آیات (35-38)  يُـرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ وَّنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَان.   ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی انقلابی حکمتِ عملی


سیرت النبی کریم ﷺ

رسول اللہ ﷺ کی انقلابی حکمتِ عملی


فلسفے کا دائرہ ہمیشہ فکر کا دائرہ ہے، فلسفی کو عملی زندگی اور تاریخ کے مدّو جزر سے براہِ راست واسطہ نہیں ہوتا، وہ واقعات و احوال سے نتائج تو نکالتا ہے، لیکن واقعات و احوال کا رُخ بدلنے کے لیے کسی عملی جدوجہد میں حصہ نہیں لیتا، مذہب (مروجہ محدود معنوں میں) ذرا سا آگے بڑھتا ہے، وہ کچھ اعتقادات دینے کے ساتھ ساتھ فرد کو تمدّن سے الگ کر کے اسے ایک اخلاقی تعلیم بھی دیتا ہے، لیکن مذہب کا راستہ نظامِ اجتماعی سے باہر باہر ہوکے گزرتا ہے اور وہ نہ سیاسی ہیئت سے کوئی تعرض کرتا ہے، نہ معاشرے کے ادارات میں کوئی جامع تبدیلی چاہتا ہے، اور نہ وقت کی قیادت کو چیلنج کرتا ہے۔

مذہب کی دعوت ہمیشہ وعظ کے اسلوب پر ہوتی ہے، واعظ نے نرم و شیریں انداز سے کچھ نصیحتیں کیں اور اپنا رستہ لیا۔ اسے نہ اس کی فکر کہ اس کے مخاطب حالات کے کس قفس میں گرفتار ہیں، نہ اس کی پرواہ کہ کون سے طبقے اور عناصر کن اقدامات اور سرگرمیوں سے لوگوں کے ذہن و کردار کو کس رُخ پر لے جارہے ہیں، نہ اس طرف توجہ کہ روزمرہ حالات و واقعات کی رُو کیا اثرات چھوڑ رہی ہے، نہ یہی کاوش کہ میرے وعظ کے حق میں اور اس سے خلاف کیا کیا افکار ونظریات کس کس جانب سے کتنا اثر ڈال رہے ہیں، نہ یہ پیشِ نظر کہ میرے مذہبی سانچے میں ڈھلنے والے متقی ترین افراد کیسے نظامِ تمدن کے پُرزے بنے ہوئے ہیں، کوئی اجتماعی نصب العین نہیں ہوتا، تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا، کسی سیاسی اور قائدانہ بصیرت کی ضرورت نہیں ہوتی، زندگی کے ایک چھوٹے سے خانے میں جزوی نیکی پیدا کرنے کے لیے جو کچھ بن آیا کردیا اور بقیہ وسیع دائرے میں بدی اپنا جھنڈا اطمینان سے لہراتی رہے، کسی اللہ والے کو اس سے کیا مطلب!

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو ایک فلسفی تھے کہ محض چند اُونچے اور گہرے خیالات دے دیتے، اور واقعاتی احوال سے تعرض نہ کرتے، اور نہ ایک واعظ تھے جو اجتماعی فساد سے آنکھیں بند کر کے محض فرد کو مخاطب بناتے اور ٹھنڈے اور میٹھے وعظ سنایا کرتے اور نتائج پر سرے سے سوچا ہی نہ کرتے، انسانیت کے اس محسن نے پورے تمدنی شعور کے ساتھ حیاتِ انسانی کی کامل تبدیلی پیشِ نظر رکھی، ان قوتوں اور عناصر کو پہچانا جو نظامِ حیات پر حاوی تھیں، اس قیادت کو زیر نظر رکھا جو جاہلی تمدن کی گاڑی چلا رہی تھی، اسے دلائل کے ساتھ دعوت بھی دی، اس پر تنقید بھی کی اور اسے چیلنج بھی کیا، تاریخ کے دھارے پر نگاہ رکھی، حالات و واقعات کی ایک ایک لہر پر توجہ دی، ہر واقعے کو قائدانہ بصیرت اور سیاسی شعور کے ساتھ دیکھا کہ وہ کس پہلو سے اصلاح کی مہم کے لیے مفید ہے اور کس پہلو سے خلاف جاتا ہے، معاشرے کے جملہ عناصر پر توجہ رکھی کہ دعوت کے لیے کس موقع پر کس سے کیا اُمیدیں کی جاسکتی ہیں، اپنی قوت اور رفتار کو حریفوں کی قوت و رفتار کے مقابل میں ملحوظ رکھا، ہراقدام کے لیے صحیح ترین وقت کا انتظار صبر سے کیا اور جب موزوں گھڑی آگئی تو جرأت سے قدم اُٹھا دیا، رائے عامہ کے ہر مدّوجزر کا کامل فہم حاصل کیا اور مخالفین کے ہر پروپیگنڈے کا مقابلہ کرکے ان کے اثرات کو توڑا، شعر اور خطابت کے مخالفانہ محاذ قائم ہوئے تو ان کے جواب میں اپنے شعراء اور خطیبوں کو کھڑا کیا، اپنے اصولوں کی کڑی پابندی کی، مگر آنکھیں بند کرکے نہیں، بلکہ احوال و ظروف کو دیکھا، وقت کی مصلحتوں کو سمجھا اور حکیمانہ نقطۂ نگاہ اختیار کیا، جہاں قدم آگے بڑھانے کا موقع ملا آگے بڑھایا، آگے بڑھنا جب موزوں نہ دیکھا تو قدم روک لیا، دو بلائیں سامنے آگئیں تو ایک سے بچ کر دوسری کا مقابلہ کیا، جنگی کارروائی کی ضرورت پڑی تو دریغ نہیں کیا، مصالحت کی راہ ملی تو دستِ صلح بڑھا دیا اور پھر کمال یہ کہ اس ساری جدوجہد میں خدا پرستی کی روح اور اخلاقی اقدار کا نہ صرف تحفظ کیا، بلکہ ان کو مسلسل نشوونما دی، اس پورے نقشۂ کار اور اس پورے طریق کار کو اگر قرآن اور سیرتِ پاک کے اوراق سے اخذ کر کے سامنے رکھیے تو وہ فرق بیّن طور پر معلوم ہوجائے گا جو مذہب اور دین میں، وعظ اور انقلابی دعوت میں، انفرادی تزکیے اور تمدنی تحریک میں ہوتا ہے۔

حضور ﷺ نے چونکہ ایک مکمل دین کو برپا کرنے کے لیے تحریک برپا کی تھی، اس لیے آپؐ نے ایک ایک کرکے سلیم الفطرت افراد کو تلاش کیا، پھر جس کے سینے میں بھی کلمۂ حق کی شمع روشن ہوگئی اسے ایک تنظیم میں پرو دیا، اس کی تربیت کی، اسے اپنے ساتھ کش مکش کی بھٹی میں ڈالا اور پھر جس مرحلے میں جتنی منظم قوت حاصل تھی، اُسے اپنی قیادت کے تحت جاہلی نظام کے خلاف معرکہ آرا کیا، فکری میدان میں بھی، سیاسی میدان میں بھی اور بالآخر جنگ کے میدان میں بھی۔

جو لوگ حضور ﷺ کے گرد جمع ہوئے، ان کو آپؐ نے صوفی اور درویش نہیں بنایا، راہبوں اور جوگیوں کے نقشے پر نہیں ڈھالا، بدی سے بھاگنے اور غالب قوتوں سے خوف کھانے اور دولت و اقتدار سے مرعوب ہونے والی ذہنیت انہیں نہیں دی۔

وہ لوگ بھولے بھالے اور معذورانہ شان کے زہّاد نہیں تھے، وہ جری اور بے باک، باشعور اور بصیرت مند، خود دار اور غیور، ذہین اور زیرک، فعّال اور متحرک، پیش رُو اور تیزگام تھے، وہ پادریوں اور سادھوؤں کے سے انداز نہیں رکھتے تھے، بلکہ کارفرما بننے کی صلاحیتوں سے آراستہ تھے۔

بہترین فطرت کے لوگ بہترین تربیت پا کر، بہترین تنظیمی رشتے سے بندھ کر اور بہترین قیادت کے ہاتھوں میں جاکر ایک ناقابلِ شکست قوت بن گئے، یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے ایک چھوٹی سی اقلیت میں ہونے کے باوجود سارے عرب کی عظیم ترین اکثریت کو اپنے سایے میں لے لیا، جب مکّہ میں اسلامی جماعت کی تعداد ۴۰ تھی تو مکّہ اور اردگرد کی آبادیوں میں اس تعداد نے ایک ہمہ وقتی مدّوجزر پیدا کردیا اور پھر برسوں تک گھرگھر اور کوچہ کوچہ اگر کوئی موضوعِ گفتگو تھا تو وہ حضور ﷺ کی اسلامی دعوت تھی، مدینہ میں جاکر ابھی تحریکِ اسلامی کے علَم برداروں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی کہ غیرمسلم اکثریت کے علی الرغم اسلامی ریاست کی ِنیو ڈال دی گئی۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ رسول اللہ ﷺ کی انقلابی حکمتِ عملی فلسفے کا دائرہ ہمیشہ فکر کا دائرہ ہے، فلسفی کو عملی زندگی اور تاریخ کے مدّو جزر...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 21


 

تدبر سورۃ الرحمن


از استاد نعمان علی خآن


پارٹ 21 آیات(34-33)


 يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُـمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۚ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطَانٍ 

 اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ، تم بغیر زور کے نہ نکل سکو گے (اور وہ ہے نہیں)


 لوگ نہایت کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کسی طرح جزا و سزا کے دن سے بچ نکلیں. انسان زمین کے اندر چھپنے کی کوشش میں ہیں اور جنات آسمان کی سرحدوں سے نکل کر کہیں دور بھاگ جانا چاہتے ہیں.


  اللہ تعالٰی نے آسمانوں کا ذکر کیا. اور اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ سب سے نچلے  آسمان کو ستاروں سے سجایا گیا ہے. کائنات میں ہم جہاں تک  نظر دوڑاتے ہیں ہمیں ستارے ہی نظر آتے ہیں یعنی ہم ابھی تک  پہلے آسمان سے آگے جا ہی نہیں سکے. یہ گفتگو روزِ جزا و سزا کے متعلق ہے. 


 فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ  

 پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے 


 تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے  جھٹلاؤ گے؟


جاری ہے ۔۔۔۔۔

  تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خآن پارٹ 21 آیات(34-33)  يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُـمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ ا...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ احکامِ الہی اور حقوقِ انسانی کا جامع منشور- خطبہ حجۃ الوداع



سیرت النبی کریم ﷺ 

احکامِ الہی اور حقوقِ انسانی کا جامع منشور- خطبہ حجۃ الوداع


یہ عجیب بات ہے کہ جس کام کا آغاز آپ ﷺ نے مکہ کے کوہ صفا سے کیا تھا اور شدید مجبوری کی بنا پر اللہ کے حکم سے نقل مکانی کی تھی، اس کی تکمیل بھی وہیں آ کر ہوئی اور ٹھیک اسی مقام پر ہوئی، جسے میدان عرفات کہا جاتا ہے۔ یہیں آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنا تاریخ ساز خطبہ دیا، جسے ”حجة الوداع “ کہا جاتا ہے۔

خطبہ حجة الوداع کا تذکرہ ہوتے ہی عام طور سے ذہن میں اس کا وہ حصہ گردش کرنے لگتا ہے، جس میں چند بنیادی باتوں کے ساتھ انسانیت کا احترام اور اس کے حقوق کی حفاظت کا ذکر ملتا ہے، یہی حصہ بیشتر کتب متون اور سِیَر میں بھی ملتا ہے، حالانکہ یہ خطبہ اس سے بھی زیادہ طویل ہے، جس میں اساسیات اسلام، اجتماعات، دینیات، عبادات اور معاملات کی تعلیم مختصر اور جامع انداز میں دی گئی ہے، اس موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے تین خطبے ارشاد فرمائے تھے۔ پہلا ۹/ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں، دوسرا ۱۰/ ذی الحجہ کو منیٰ میں اور تیسرا بھی ۱۱/یا۱۲/ ذی الحجہ کو منیٰ میں دیا، لیکن ان تینوں میں عرفات کا خطبہ زیادہ اہم ہے، اس خطبہ نے انسانی دنیا پر جو اثرات ڈالے ہیں اور اس سے قوموں وملکوں کی حالت زار میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے، اس کا ذکر کرتے ہوئے اسی سیرت نگار نے یہ بھی تحریر کیا ہے:

”خطبہ حجة الوداع نہایت ہی خوبی سے اس حقیقت کو اجاگر کردیتا ہے کہ اب تک کے دو تین ہزار سالہ دور تاریخ میں حضور پیغمبر آخرالزماں صلى الله عليه وسلم وہ پہلی مبارک شخصیت ہیں جو ساری انسانیت کے لیے وسیع اور جامع پیغام لے کر آئے اور اس پیغام کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کیا، اس پر مبنی ریاست قائم کی اور اسے دنیا کی تمام اقوام تک پہنچانے کے لیے شُہداء علی الناس کی ایک جماعت قائم کردی۔“

(سید انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم، نعیم صدیقی،ص: ۲۰۸، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی،۱۹۹۷/)

خطبہ حجة الوداع:

حصہ الف (دیباچہ)

سب تعریف اللہ کے لیے، ہم اس کی حمد وثنا کرتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں، اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اسی کے دامن عفو میں اپنے نفس کی شرارتوں اور برے اعمال سے پناہ چاہتے ہیں، جس کو اللہ ہدایت عطا کرے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جس کو وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی سہیم وشریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلى الله عليه وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔امابعد:

الف: لوگو!
میری بات اچھی طرح سن لو، سمجھ لو، کیا خبر، شاید اس سال کے بعد اس جگہ میری تمہاری ملاقات کبھی نہ ہوسکے۔

ب: بندگان خدا!
آج کے بعد واللہ! مجھے نہیں معلوم شاید میں تم سے اس مقام پر کبھی نہ مل سکوں گا۔

ج: لوگو!
خاموش ہوجاؤ، تم لوگ اس سال کے بعد شاید مجھے نہ دیکھ سکو۔

د: لوگو!
سنو! میں تمہیں وضاحت کے ساتھ(سب کچھ)بتادینا چاہتا ہوں، کیوں کہ شاید اس سال کے بعد پھر کبھی تم سے نہ مل سکوں۔

ہ: لوگو!
حج کے مسئلے مسائل مجھ سے سیکھ لو، میں نہیں جانتا، شاید اس کے بعد مجھے دوسرے حج کی نوبت نہ آئے۔

و: اللہ اسے تروتازہ اور شاداب رکھے جس نے میری باتیں سنیں اور انہیں دوسروں تک پہنچایا، بعض اوقات سننے والا سمجھ دار نہیں ہوتا اور کبھی کبھی جس کو پہنچایا جائے، وہ اس سے زیادہ سمجھ دار نکلتا ہے۔

ز: لوگو!
تم لوگ شاید مجھ سے آئندہ اس حال میں نہ مل سکو جس حال میں اب مل رہے ہو۔

حصہ ب (اساسیات)

دفعہ:۱ لوگو!
۱۔ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے۔
۲۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو زیادہ تقویٰ شعار ہے، بے شک اللہ علیم وخبیر ہے۔
۳۔ دیکھو! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر اور کسی سرخ کو کسی کالے، سیاہ پر کوئی فضیلت وامتیاز نہیں، مگر ہاں تقویٰ کے سبب۔

دفعہ:۲ بندگان خدا!
میں تمہیں تقویٰ شعاری (اللہ سے ڈرنے) کی وصیت کرتا ہوں اور تمہیں اس کی اطاعت کا حکم دیتا ہوں (کیوں کہ تم اللہ کے سوا کسی اور کے بندے نہیں) اور اپنے خطبے کا آغاز نیک بات سے کرتا ہوں۔

دفعہ:۳ جان لو!
جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں تلے روندی گئی ہے، اب تمام آثار جاہلیت کالعدم اور ساقط ہوگئے ہیں۔
۱۔ خبردار! اہل جاہلیت کی ہر چیز میرے (ان دونوں) قدموں کے نیچے ہے۔
۲۔ سن لو! جاہلیت کا ہر خون (انتقام) مال (مغضوبہ) اور آثار جاہلیت (خاندانی، موروثی مفاخر) میرے قدموں تلے تاقیامت کالعدم ٹھہرائے جاتے ہیں۔
۳۔ اور جاہلیت کے تمام باعث فخر وغرور عہدے (مآثر ومفاخر) ختم کیے جاتے ہیں، صرف سدانہ (کعبہ کی نگرانی ونگہبانی) اور سقایہ (حاجیوں کو پانی پلانے) کے عہدے باقی رہیں گے، قتل عمد کا قصاص (بدلہ) لیا جائے گا، قتل عمد کے مشابہ وہ (قتل) ہے جو لاٹھی یا پتھر سے وقوع میں آئے اور اس کی (دیت) سو اونٹ مقرر ہے، اس سے زیادہ جو طلب کرے گا وہ اہل جاہلیت میں شمار ہوگا۔
۴۔ اور ہر قسم کا سود آج ممنوع قرار پاتا ہے، البتہ تمہیں اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے، جس میں نہ اوروں کا نقصان ہے اور نہ تمہارا نقصان، اللہ نے یہ بات طے کردی ہے کہ سود کی گنجائش نہیں ہے۔
۵۔ اور زمانہ جاہلیت کے تمام سود (سودی کاروبار) اب باطل ہیں۔ (اور جہاں تک کہ عباس بن عبد المطلب کے سود کا تعلق ہے تو وہ تمام کا تمام ساقط ہے۔)
۶۔ اور زمانہ جاہلیت کے تمام خون (کے بدلے، انتقام) اب کالعدم ہیں اور اپنے خاندان میں سے پہلا انتقام جسے میں معاف کرتا ہوں ربیعہ بن الحارث بن عبدالمطلب کے بچے کا ہے، جس کی رضاعت بنی لیث میں ہورہی تھی کہ بنو ہذیل نے اسے قتل کردیا تھا، پس میں پہل کرتے ہوئے انتقام ہائے جاہلیت میں سے خون کا بدلہ معاف کررہا ہوں۔

۷۔ لوگو!
الف: بے شک نسئی (مہینوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دینا) ازدیاد کفر کا ہی باعث ہے، اس سے کافر گمراہی میں پڑجاتے ہیں کہ ایک سال تو (اپنی نفسانی غرض سے) اسے حلال ٹھہراتے ہیں، پھر دوسرے سال (جب کوئی ذاتی غرض نہ ہو) اس کو حرام کردیتے ہیں، تاکہ اللہ نے جو گنتی (حرام مہینوں کی) مقرر کر رکھی ہے اسے پورا کرلیں، اس طرح وہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینے کو حلال اور اس کے حلال کیے ہوئے کو حرام کرلیتے ہیں۔

ب: دیکھو!
اور اب زمانہ گھوم پھر کر اسی جگہ آگیا ہے، جہاں سے کائنات کی پیدائش کا دن شروع ہوا تھا، مہینوں کی گنتی(تعداد) اللہ کے نزدیک سال میں بارہ ہے۔ ان میں سے چار محترم، حرام ہیں کہ تین (ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم) تو متواتر ہیں اور ایک الگ آتا ہے، یعنی رجب جو شَہر مضر کہلاتا ہے اور جو جمادی الثانی اور شعبان کے بیچ ہے اور مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے، تیس کا بھی۔

کہو! میں نے اپنی بات تم تک پہنچادی ہے نا؟ تو مجمع نے کہا: بے شک۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا!

ج: سن لو!
حج قیامت تک اب ذی الحجہ کے مہینے کے ساتھ مخصوص رہے گا۔

دفعہ:۴ لوگو!
تمہیں معلوم ہے کہ تم پر کون سا مہینہ سایہ فگن ہے؟ تم کس دن میں یہاں جمع ہو؟ کس شہر میں موجود ہو؟ سب نے کہا: محتر م شہر اور محترم مہینے میں! تب آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
بے شک تمہارا خون ایک دوسرے پر حرام ہے۔
دفعہ:۵ اور تمہارا مال وملکیت
دفعہ:۶ تمہاری عزت وآبرو
دفعہ:۷ تمہاری کھال (جلد، جسم، بدن) بھی ایک دوسرے کے لیے معزز و محترم ہے۔ (جس طرح حرمت تمہارے اس دن کو تمہارے اس مہینے کو، تمہارے اس شہر کو (حاصل ہے) یہاں تک کہ تم اللہ سے جاملو۔)
دفعہ:۸ میری بات سنو! زندگی پا جاؤٴگے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ
۱۔ خبردار! ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا۔
۲۔ دیکھو! ظلم وزیادتی نہ کرنا۔
۳۔ خوب سمجھ لو! ایک دوسرے پر باہم ظلم وستم نہ کرنا۔

حصہ ج (اجتماعات):

دفعہ:۹ اللہ کے بندو! میری بات سنو اور سمجھو!
بلاشبہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔
دفعہ :۱۰ خبردار! ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ومحترم ہے۔
دفعہ :۱۱ اور ہر مومن دوسرے مومن پر حرام ومحترم ہے، جس طرح آج کے دن کی حرمت ہے:
۱۔ اس کا گوشت اس پر حرام ہے۔
۲۔ کہ اسے کھائے، اس کی عدم موجودگی میں غیبت کرے۔
۳۔ اور اس کی عزت وآبرو اس پر حرام ہے کہ (اس کی چادر عزت) پھاڑ دے۔
۴۔ اس کا چہرہ اس پر حرام ہے کہ اس پر تمانچے لگائے جائیں۔
۵۔ اور تکلیف دہی بھی حرام کہ اسے تکلیف پہنچائی جائے۔
۶۔ اور یہ بھی حرام کہ تکلیف رسانی کے لیے اسے دھمکایا جائے۔
۷۔ اور کسی مسلمان کے لیے یہ بھی جائز نہیں سوائے اس کے کہ جو وہ اپنی خوشی سے دے۔
۸۔ مال مسلم بھی حلال وجائز نہیں سوائے اس کے کہ وہ اپنی خوشی سے دے۔
(اور میں تمہیں بتاؤں کہ مسلمان درحقیقت ہے کون؟)
دفعہ:۱۲ مسلمان وہی ہے جو اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگوں کو محفوظ رکھے۔
دفعہ:۱۳ اور مومن درحقیقت وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کا جان ومال امن وعافیت میں رہے۔
دفعہ:۱۴ اور مہاجر درحقیقت وہ ہے جو اپنے گناہوں اور خطاؤں سے کنارہ کشی کرلے۔
دفعہ:۱۵ اور مجاہد تو دراصل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کی خاطر اپنے نفس کا مقابلہ کرے۔
دفعہ:۱۶ خبردار! اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت واپس لوٹادے۔
دفعہ:۱۷ قرض واپس ادائیگی کا متقاضی ہے۔
دفعہ:۱۸ ادھار لی ہوئی چیز کو واپس کیا جانا چاہیے۔
دفعہ:۱۹ عطیہ لوٹا یا جائے۔
دفعہ:۲۰ ضامن ضمانت (تاوان) کا ذمہ دار ہوگا۔
دفعہ:۲۱ دیکھو! اب ایک مجرم اپنے جرم کا خود ہی ذمہ دار ہوگا۔
دفعہ:۲۲ جان لو! اب نہ باپ کے جرم کے بدلے بیٹا پکڑا جائیگا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائیگا۔
دفعہ:۲۳ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیوں کہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات (احکام) کے تحت ان کے ستر تمہارے لیے حلال ہوئے۔
دفعہ:۲۴ خبردار! تمہارے لیے عورتوں سے نیک سلوکی کی وصیت ہے، کیوں کہ وہ تمہاری پابند ہیں اور اس کے سوا تم کسی معاملے میں حق ملکیت نہیں رکھتے۔
دفعہ: ۲۵ لوگو! جس طرح عورتوں کے کچھ حقوق تمہارے ذمہ ہیں، اسی طرح ان پر بھی تمہارے کچھ حقوق واجب ہیں۔ (سنو! تمہاری عورتوں پر جس طرح کچھ حقوق تمہارے واجب ہیں، اسی طرح تمہاری عورتوں کا بھی تم پر کچھ حق ہے۔)
(جہاں تک تمہارے ان حقوق کا تعلق ہے جو تمہاری عورتوں پر واجب ہیں) تو وہ یہ ہیں:

۱۔ وہ کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں۔
۲۔ وہ تمہارا بستر کسی ایسے شخص سے پامال نہ کرائیں جسے تم پسند نہیں کرتے۔
۳۔ وہ تمہارے گھر میں کسی ایسے شخص کو داخل نہ ہونے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو، مگر یہ کہ تمہاری اجازت سے۔
۴۔ اگر وہ عورتیں (ان باتوں) کی خلاف ورزی کریں تو تمہارے لیے اجازت ہے کہ:
الف: تم انہیں بستر وں پر اکیلا، تنہا چھوڑ دو۔
ب: (ان پر سختی کرو) مگر شدید تکلیف والی چوٹ نہ مارو (اگر مارنا ہی چاہو۔)
دیکھو! کچھ حقوق ان کے بھی تمہارے اوپر عائد ہوتے ہیں۔ مثلا:
۵۔ یہ کہ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے (خوراک ولباس) کے بارے میں ان سے اچھا سلوک کرو (اگر وہ تمہاری نافرمانی سے بازآجائیں اور کہا مانیں تو (حسب حیثیت) ان کا کھانا کپڑا (خوراک، لباس، نان نفقہ) تمہارے ذمہ ہے۔
(اور عورتوں پر یہ بھی واجب ہے کہ)
۶۔ عورتیں معروفات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں۔
۷۔ اور اگر وہ فرماں برداری کریں تو ان پر (کسی قسم کی) زیادتی کا تمہیں کوئی حق نہیں۔
۸۔ کوئی عورت اپنے گھر میں اخراجات نہ کرے، مگر ہاں اپنے شوہر کی اجازت سے۔
۹۔ جان لو! لڑکا (اولاد) اس کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا۔ (بچہ شوہر کی اولاد متصور ہوگا۔)
اور جس پر حرام کاری ثابت ہو اس کی سزا سنگ ساری ہے (زنا کار کے لیے پتھر) اور ان کا حساب اللہ کے ذمے۔
۱۰۔ دیکھو! کسی عورت کےلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے۔
۱۱۔ خبردار! جس نے خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور سے منسوب کیا، یاکسی غلام نے (جان بوجھ کر) اپنے آقا کے سوا کسی آقا سے نسبت قائم کی تو اس پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہوگی اور قیامت کے دن اس سے کوئی بدلہ یا معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
دفعہ:۲۶
۱۔ اور ہاں غلام، تمہارے غلام! (ان سے حسنِ سلوک کرو)
الف: جو تم کھاتے ہو اس میں سے ان کو بھی کھلاؤ۔
ب: جو تم پہنتے ہو اس میں سے ان کو بھی پہناؤ۔
ج: اگر وہ کوئی ایسی خطا کریں جسے تم دیکھو کہ معاف نہیں کرسکتے تو اللہ کے بندو انہیں فروخت کردو۔ (مگر)
د: انہیں بھیانک سزا (عذاب) تو نہ دو۔
۲۔ اور ان کے بارے میں بھی تمہیں (حسن سلوک کی) وصیت کرتا ہوں، جو لونڈیاں (تمہارے زیر تصرف) ہیں، پس ان کو وہ کھلاؤ اور پہناؤ جو تم کھاتے پہنتے ہو۔

حصہ: د (دینیات، عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات)

دفعہ:۲۷ لوگو! بے شک مجھے حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ لاالٰہ الااللہ کے قائل ہوجائیں اور جب وہ اس کلمے کا اقرار کرلیں تو گویا انہوں نے اپنی جانوں اور مالوں کو بچالیا اور باقی حساب اللہ کے ذمے ہے۔
دفعہ:۲۸ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراوٴ۔
دفعہ:۲۹ اور نہ کسی کی ناحق جان لو۔ (نہ قتل کرو)
دفعہ:۳۰ نہ بدکاری (زنا) کرو۔
دفعہ:۳۱ اور نہ ہی چوری (سرقہ) کرو۔
دفعہ:۳۲ لوگو! (اچھی طرح سمجھ لو!) میرے بعد نہ کوئی پیغمبر (آنے والاہے اور نہ تمہارے بعد کوئی امت ہوگی۔

۱۔ اپنے خطاب کے دوران رسول صلى الله عليه وسلم نے مسیح الدجال کا ذکر فرمایا، پھر ذکر میں کافی طول پکڑا، پھر دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

۲۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا کہ جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔
(پس میں بھی) (میں بلاشبہ تمہیں اس سے ڈراتا ہوں)
۳۔ بے شک میری سب سے افضل دعاء بلکہ تمام انبیائے ما قبل کی یہی ہے:
لاالٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد بیدہ الخیر، یحی ویمیت وھو علیٰ کل شیء قدیر۔
دفعہ:۳۳ خوب سن لو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو، نماز پنج گانہ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اپنے رب کے گھر (خانہ کعبہ) کا حج کرو، اپنی زکوٰة خوشی خوشی دیا کرو، اپنے حکام کی اطاعت کرو (اس طرح ان امور کی انجام دہی کے بعد بطور اجر) اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔

دفعہ: ۳۴ اللہ سے ڈرو! (ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو) اور لوگوں کو ان کی چیزیں (ناپ تول میں) کم نہ دیا کرو اور ملک میں فساد کرتے نہ پھرو۔
دفعہ: ۳۵ خبردار! دین میں غلو (مبالغہ آمیزی) سے بچو، اس لیے کہ تم سے پہلے جو قومیں تھیں وہ دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک کردی گئیں۔

دفعہ:۳۶ لوگو!
دیکھو، شیطان اس بات سے تو بے شک بالکل مایوس ہوچکا ہے کہ تمہاری اس سرزمین پر کبھی اس کی پرستش کی جائے گی، مگر چوکنا رہو! وہ اس بات پر بھی راضی ہوگا کہ اس (پرستش) کے سوا چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس کے اشاروں کی تعمیل کی جائے، پس اپنے دین وایمان کی (حفاظت کی) خاطر اس سے بچے رہنا۔

دفعہ:۳۷ لوگو!
۱۔ اللہ نے میراث (ترکہ) میں ہر وارث کا (جداگانہ) حصہ مقرر کردیا ہے۔
۲۔ اس لیے وارث کے لیے (تمام مال میں) وصیت کرنا جائز نہیں۔
(چنانچہ) کسی کو ایک تہائی سے زائد (مال) کی وصیت کاحق نہیں۔
(بقول راوی پھر حضور صلى الله عليه وسلم نے ہمیں صدقے کا حکم دیا اور فرمایا:)
دفعہ: ۳۸ صدقہ دیا کرو! اس لیے میں نہیں جانتا، مگر شاید تم آج کے بعد مجھے پھر نہ دیکھ سکو۔
دفعہ: ۳۹ اللہ کے نام پر (جھوٹی) قسمیں نہ کھایا کرو، کیوں کہ جو اللہ کے نام پر (جھوٹی) قسم کھائے گا، اللہ اس کا جھوٹ ظاہر کردے گا۔

دفعہ: ۴۰ لوگو!
۱۔ علم (تعلیم، معلومات) میں سے جو کچھ حاصل کرسکتے ہو، لےلو۔ اس سے پہلے کہ وہ سمیٹ لیا جائے اور قبل اس کے کہ علم کو اٹھا لیاجائے۔
۲۔ خبردار! علم کے اٹھائے جانے (ختم ہوجانے) کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اس کے جاننے والے ختم ہوجائیں۔ ( آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔)

دفعہ:۴۱ دیکھو!
۱۔ تین باتیں ایسی ہیں جن میں (مومن کا) دل (دھوکہ فریب) کینے کا شکار نہیں ہوتا۔ یعنی:
الف: عمل میں اخلاص کہ صرف اللہ کے لیے۔
ب: (مسلمان) حاکموں کی خیرخواہی میں۔
ج: عام مسلمانوں (کی جماعت) سے وابستگی میں، کیوں کہ ان (مسلمانوں) کی دعائیں انہیں گھیرے رہتی ہیں (اس پر سایہ فگن رہتی ہیں۔)
۲۔ اللہ نے ایسی کوئی بیماری (دکھ، تکلیف) پیدا نہیں کی جس کی دوا نہ اتاری ہو، سوائے بڑھاپے کے۔

دفعہ: ۴۲ لوگومیری بات سمجھو!
کیوں کہ میں نے سب کچھ تم تک پہنچادیا ہے:
۱۔ میں نے تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑ دی ہے کہ تم کبھی گمراہ نہ ہوگے اگر مضبوطی سے تھامے رہے اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔
۲۔ اور میں نے تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ دی ہیں کہ اگر ان کو تھامے (پکڑے) رہے تو پھر کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے۔ صاف وروشن اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلى الله عليه وسلم کی سنت۔

دفعہ:۴۳ لوگو!
سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تمہارے اوپر کوئی نک کٹا حبشی غلام امیر بنادیا جائے جو تمہارے درمیان کتاب اللہ (کے احکام) کو قائم (نافذ) کرے۔

دفعہ:۴۴ جان لو!
۱۔ ہر نبی (پیغمبر) کی دعوت گزر چکی ہے، سوائے میری دعوت (دین و شریعت) کے کہ (وہ ہمیشہ کے لیے ہے) میں نے اس کو اپنے پروردگار کے پاس قیامت تک کے لیے ذخیرہ (جمع) کردیا ہے۔
۲۔ امابعد! انبیاء علیہم السلام قیامت کے دن کثرت تعداد پر فخر کریں گے، پس تم مجھے (اپنی بداعمالیوں کے سبب) رسوا نہ کردینا، میں حوض کوثر پر (تمہارے انتظار میں) رہوں گا۔
۳۔ خبردار! میں حوض کوثر پر تم سے پہلے پہنچوں گا اور دوسری امتوں پر تمہاری کثرت کے سبب فخر کروں گا تو کہیں میری رسوائی کا باعث نہ بن جانا۔
۴۔ سنو! میں بعض کو (شفاعت کرکے) چھڑالوں گا، مگر بعض لوگ مجھ سے چھڑالیے جائیں گے۔ پھر میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ تو میرے اصحاب (امتی) ہیں؟ اللہ فرمائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں کرڈالی تھیں۔
دفعہ:۴۵ خبردار! میرے بعد کہیں کافر نہ بن جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

دفعہ:۴۶ اور ہاں سنو!
۱۔ تم اپنے رب سے ملوگے تو اللہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں (ضرور) باز پرس کرے گا۔
۲۔ پس جو (دنیا میں رہتے ہوئے ہمہ وقت) آخرت کو ہی اپنے پیش نظر رکھے گا تو اللہ اسے دل جمعی عطا کرے گا اور اسے اس کی آنکھوں کے سامنے (دنیا میں ہی) بے نیازی وتونگری عطا کرے گا اور دنیا اس کے (قدموں میں) سرنگوں ہوکر خود آئے گی، لیکن جودنیا کو ہی محبوب ومقصود قرار دے گا تو اللہ اس کے معاملات کو منتشر ومتفرق کردے گا اور وہ (آدمی دنیا میں ہی) اپنی آنکھوں کے سامنے افلاس وتنگ دستی دیکھ لے گا اور دنیا میں سے تو اسے اتنا حصہ ملے گا جتنا کہ اس کے لیے (مقدر میں) لکھا جاچکا ہے۔

دفعہ: ۴۷ دیکھو!
اب تم نے مجھے (جی بھر کر) دیکھ بھی لیا ہے اور مجھ سے ان تمام باتوں کو سن بھی لیا ہے، تم سے عنقریب میرے بارے میں پوچھا جائے گا (تو سچ سچ بتانا) پس جس نے بھی مجھ پر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔

دفعہ:۴۸ دیکھو!
۱۔ جو یہاں موجود ہے وہ غیر حاضر تک (میری) یہ سب با تیں (ضرور) پہنچا دے۔
۲۔ شاید کہ بعض ایسے کہ جن تک (یہ باتیں) پہنچیں گی یہاں موجود بعض سننے والوں سے زیادہ سمجھ دار ثابت ہوں۔
۳۔ سن لو! تم میں سے جو یہاں قریب ہیں (ان کے لیے لازم ہے کہ) اپنے دور والوں (بعد میں آنے والے لوگوں) تک یہ باتیں پہنچادیں۔

حصہ: ر (اختتامیہ)

پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
اے اللہ! (دیکھ لے) میں نے (تیرا پیغام بھر پور طور پر) پہنچادیا ہے یا نہیں؟
پھر لوگوں سے فرمایا:
کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک اچھی طرح نہیں پہنچا دیا؟
سنو! کیا میں نے حق تبلیغ ادا نہیں کردیا؟
دیکھو! کیا میں نے تعلیم وتلقین دین کی انتہا نہیں کردی؟
(تو سب حاضرین، سامعین، مجمع والے بیک آواز اقرار واعتراف کرنے لگے۔) بے شک! بے شک! (تب رسول صلى الله عليه وسلم نے) فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا! (تیرے بندے کیسا صاف اقرار کررہے ہیں)، اے اللہ گواہ رہنا (یہاں موجود لوگ کیا کہہ رہے ہیں)، اے اللہ گواہ رہنا! (پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:) اور تم لوگوں سے (آخرت، قیامت میں اللہ کی طرف سے) میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم لوگ کیا کہوگے؟
تو سب نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ نے امانت الٰہی ہم تک پہنچادی اور حق رسالت ادا کردیا اور (امت کو) نصیحت کرنے کی انتہا فرمادی۔ (پس رسول صلى الله عليه وسلم نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور) پھر اسے لوگوں کی طرف جھکایا اور فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا! اے اللہ گواہ رہنا! اے اللہ گواہ رہنا! والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ  احکامِ الہی اور حقوقِ انسانی کا جامع منشور- خطبہ حجۃ الوداع یہ عجیب بات ہے کہ جس کام کا آغاز آپ ﷺ نے مکہ کے کوہ...