قرآن فہمی سیریز ۔۔۔ 07



 قرآن فہمی سیریز


از ڈاکٹر فرحت ہاشمی


علم کی فضیلت


سورہ البقرہ کی آیت ۳۱-۳۳ میں اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں: 


وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ 

اور اس نے آدم کو سب (چیزوں کے) نام سکھائے پھر انھیں فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے ناموں کی خبر دو۔ 


اللہ سبحانہ و تعالی نے  آدم علیہ السلام  پر اپنا فضل اور اکرام فرمایا اور ان کو دنیا کی تمام اشیاء کے نام، ان کی صفات اور ان کے افعال سکھائے۔

آدم علیہ السلام کے علم سیکھنے کی وجہ سے اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کے درجات کو بلند فرمایا۔ 

پھر اللہ سبحانہ و تعالی نے فرشتوں سے امتحان لیا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے تمام اشیاء کے نام بتاؤ۔ 


قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ۔ 

انھوں نے کہا پاک ہے تو نہیں ہے کوئی علم ہمارے لیے مگر جو سکھایا تو نے ہمیں بیشک تو تو ہی ہے بہت علم والا بہت حکمت والا۔ 


اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کے تمام اشیاء کے نام پوچھے جانے پر  فرشتوں کو فورا اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انھوں نے اپنی عاجزی اور کم علمی کا اظہار اللہ سبحانہ و تعالی کی تسبیح کے ساتھ کیا کہ پاک ہیں آپ ہم بس اتنا علم رکھتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھایا۔ 


قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ١ۙ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۙ وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ۔ 


‎پھر اللہ نے آدم سے کہا ”تم اِنہیں اِن چیزوں کے ناموں کی خبر دو۔“ پھر جب اُس نے ان کو خبر دی ،تو اللہ نے فرمایا ”میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں،جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ، وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھُپاتے ہو، اُسے بھی میں جانتا ہوں۔


اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ پھر اللہ سبحانہ و تعالی نے آدم علیہ السلام

کو فرشتوں کے سامنے تمام ناموں کے بتانے کا حکم دیا۔ ۔ اس پر آدم علیہ السلام نے بغیر کسی غلطی کے تمام نام بتادیے۔ جس پر فرشتے آدم علیہ السلام کے علم کے قائل ہوگئے۔ 


ان تینوں آیات میں ہمارے لیے کئی اسباق ہیں۔ 

۱- علم کا منبع اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات ہے۔ 

۲- اللہ سبحانہ و تعالی کا اپنے بندوں کو علم سکھانا اس کے فضل اور احسان میں سے ہے۔ 

۳- اللہ سبحانہ و تعالی نے علم سکھانے کے لیے انبیاء کو بھیجا۔ 

۴- علم درجات کی بلندی اور فضیلت کا باعث ہے۔ آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر فضیلت علم کے بنا پر تھی۔ 

۵- دنیاوی علوم بھی درست نیت کے ساتھ سیکھے جاسکتے ہیں۔ 

۶- علم کو سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ 

۷- عمل سے پہلے علم سیکھنا ضروری ہے۔ 

۸- علم سے اللہ سبحانہ و تعالی کی خشیت آتی ہے۔ 

۹- علم ہمیشہ سیکھنے سے آتا ہے۔ کوئی بھی اپنی ماں کی کوکھ سے سیکھ کر نہیں آتا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کو مندرجہ ذیل کام کرے۔

- علم سیکھنے کے لیے آگے قدم بڑھائے اور اپنی پوری کوشش کرے۔ 

- علم کے حصول کے لیے گھر سے نکلے۔ 

- علم والوں سے رجوع کرے۔ 

- علم والوں کے سامنے عاجزی اختیار کرے۔ 

- علم کی جستجو میں لگا رہے۔ 

- علم میں اضافے کی دعا مانگے۔ 

- علم حاصل کر کے امتحان اور اس میں پاس یا فیل ہونے سے نہ گھبرائے۔ کیونکہ علم کےحصول میں اصل چیز محنت ہے۔ اس کا اجر انسان کے اعمال نامہ میں لکھا جائے گا۔ 

۱۰ ۔ فرشتوں کے پاس صرف اتنا علم ہے جتنا اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کو سکھایا۔ ہر فرشتہ اپنی فیلڈ کا ماہر ہے۔ بارش کرنے والا فرشتہ صرف اسی کا علم رکھتا ہے۔ 

۱۱- فرشتے غیب کا علم نہیں رکھتے۔ 

۱۲- فرشتوں کے اندر عاجزی اور انکساری ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے علم کو اندازہ لگاکے ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انسان کو بھی چاہیے کہ: 

- جس چیز کا علم اس کے پاس نہ ہو اس کا جواب بغیر علم کے نہ دے ۔ صرف اسی وقت جواب دے جب معلوم ہو۔ 

- دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا ایک ہی اصول رکھے کہ جب بھی بات کرے علم کے ساتھ کرے۔ 

- جس چیز کا علم نہیں اس کا اعتراف کرنے میں عار محسوس نہ ہو۔

۱۳- اللہ سبحانہ و تعالی کا علم وسیع ہے۔ 

۱۴- اللہ سبحانہ و تعالی کا علم مکمل ہے جس کا احاطہ کوئی نہیں کرسکتا۔ 

۱۵- اللہ سبحانہ و تعالی زمین اور آسمان کی ہر چیز جانتا ہے۔ 

۱۶- اللہ سبحانہ و تعالی بندوں کے ظاہر و باطن کو جانتا ہے۔ 

۱۷-  اللہ سبحانہ و تعالی کی کونی، قدری اور شرعی تمام آیات میں حکمتیں ہیں۔ 

۱۹- آدم علیہ السلام نے اللہ سبحانہ و تعالی کا حکم سنتے ہی تعمیل کرلی۔ 

۲۰-  اللہ سبحانہ و تعالی کا حکم آئے تو بغیر وجہ پوچھے فورا اطاعت کرلیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں