سیرت النبی کریم ﷺ
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا
عرب قوم جس کے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی، پلے، بڑھے اور جوان ہوئے، کیسی تھی مولانا الطاف حسین حالی نے اپنے مسدّس میں اس کو انتہائی حسین اور دلکش پیرایہ میں اس طرح بیان کیا ہے۔
وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بِنا کا
ازل میں مشیت نے تھا جس کو تاکا
کہ اس گھر سے اُبلے گا چشمہ ہُدیٰ کا
وہ تیرتھ تھا اک بت پرستوں کا گویا
جہاں نام حق کا نہ تھا کوئی جویا
قبیلے قبیلے کا بت اک جدا تھا
کسی کا ہبل تھا کسی کا صفا تھا
یہ عُزّا پہ وہ نائلے پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اک خدا تھا
نہاں ابر ظلمت میں تھا مہر انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ
وہ تھے قتل وغارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
نہ ٹلتے تھے ہرگز جو اڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صدہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے
بلند ایک ہوتا تھا گر واں شرارا
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا
کہیں تھا مویشی چرانے پر جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یوں ہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یوں ہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر
پھرے دیکھتی جب تھے شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جاکر
وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی
(مسدس حالی صفحہ ۲۵ تا ۲۷ مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ، دیوبند)
اولاد سے محبت کسے نہیں ہوتی مگر آہ ․․․․! بے رحمی اور سنگ دلی کی حد ہوگئی، اگر ماں کی ممتا اور شفقت کی وجہ سے یا کسی اور سبب بچپن میں لڑکیوں کو زندہ زیر زمین دفن نہ کرسکتے تو جب بھی موقع ہاتھ آتا انہیں اس میں کوئی عار محسوس نہ ہوتا، بولتی، ہنستی، مسکراتی اور کھیلتی ہوئی معصوم بچیوں کو کسی بہانے کنویں کے قریب لے جاتے اور انتہائی بے دردی سے انہیں منہ کے بل اس میں دھکیل دیتے، کچھ ہی دیر میں یہ کلیاں مرجھا جاتیں، ایک شخص نے اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نسل کشی اور لڑکیوں کو زندہ مار ڈالنے کا واقعہ بیان کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی دردناک آپ بیتی سن کر رو پڑے۔
(سیرة النبی جلد ۶ صفحہ ۲۳۶)
مگر قربان جائیے! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے اپنی محنت، جدوجہد، بے چین قلب، حکمت بالغہ، شیریں زبانی اور اخلاق کریمانہ کے ذریعہ توحید کا پرچم مکہ کی سنگلاخ زمین میں لہرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ۲۳/سال کے مختصر عرصہ میں عالم عرب کے بیشتر ممالک میں اسلام کے ترانے گائے جانے لگے، نفرتیں محبت میں تبدیل ہوگئیں، بت گر بت شکن ہوگئے، شراب گلیوں میں بہنے لگی، جھوٹ، غیبت، حسد اور جلن کا چلن ختم ہوگیا، زنا کاری کے تصور سے دل کانپنے لگا، عورت اب پھول کی طرح ہرگھر کی چہیتی بن گئی، اُجڈ قوم مہذب بن گئی، خوف خدا اور آخرت کے ڈرنے انہیں لاغر بنادیا، جہنم کے ڈراؤنے منظر اور عذاب قبر کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور اتنا روتے تھے کہ ہچکیاں بندھ جاتیں، جنت کی تڑپ اور طلب میں سارا مال خرچ کردینا ان کے لئے ایک معمولی بات تھی، حاصل یہ کہ سینکڑوں معبودوں کے بجائے اب تمام بندوں کا ایک خدا سے تعلق استوار ہوچکا تھا، یہ شہنشاہ مدینہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عالی صحبت، فیضان نظر اور اعجاز ہی تو تھا کہ شرک و بت پرستی کے عادی انسان خدا کا شیدائی بن گیا، مولانا الطاف حسین حالی نے اس سحر انگیزی کو بیان کرتے ہوئے کہا۔
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی
اک آواز میں سوتی بستی جگادی
پڑا ہرطرف غل یہ پیغام حق سے
کہ گونج اٹھے دشت وجبل نام حق سے
سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا
حقیقت کا گُر ان کو ایک ایک بتایا
زمانے کے بگڑے ہوؤں کو بنایا
بہت دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا
کھلے تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر
وہ دکھلا دئیے ایک پردہ اٹھا کر
(مسدس حالی صفحہ ۳۱)
وہ لوگ جو کسی حیثیت کے مالک نہ تھے، گمراہ اور بد چلن تھے، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کرم نے ان کو نہ صرف ہدایت کا راستہ دیا، بلکہ ساری کائنات کے لئے شمع ہدایت کا تمغہ عطا کیا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''أصحابی کالنجوم فبأیہم اقتدیتم اھتدیتم'' (مشکوٰة صفحہ: ۵۵۴)
یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے تم جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاؤگے۔
صحابۂ کرام کا امتحان خدا نے لیا، ان کے ایمان، تقویٰ، عدالت و صداقت کو جانچا اور پرکھا، وہ اتنے کھرے نکلے کہ قرآن نے ہمیشہ کے لئے ان سے اللہ کی رضامندی کا اعلان کردیا، انہیں معیار حق بنایا بلکہ انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل اور بہترانسان قرار دیا، ارشاد باری ہے:
اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قلُوبَہُمْ للتقوٰی لہم مغفرة واَجْرٌ عَظِیمٌ (سورہ حجرات آیت ۳)
”یہی وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ نے تقویٰ کے لئے خالص کردیا ہے، ان لوگوں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔“
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تنبیہ کی کہ کوئی میرے بعد میرے صحابہ کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنائے، ان سے محبت کرو اس لئے کہ ان سے محبت مجھ سے محبت کرنا ہے اور ان سے بغض، حسد اور دشمنی گویا میری ذات سے دشمنی ہے۔ (ترمذی)
یہ کیسی نظر تھی کہ جو مشرک تھے موحد ہوگئے، سخت تھے نرم ہوگئے، ذلیل تھے دنیا کے امام بن گئے، حضرت ابوبکر صدیق کو صدیقیت کا مقام نہ ملتا اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت نصیب نہ ہوتی، حضرت عمر فاروق کو فاروق، حضرت عثمان غنی کو غنی اور ذونورین (دو روشنی والے) اور حضرت علی کو شیر خدا کا خطاب اور اعزاز رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور محبت کا اثر ہے، حضرت بلال حبشی اور حضرت سلمان فارسی عرب کے باہر سے تشریف لائے، کوئی تعارف اور شناسائی نہیں، پہلے غلام تھے لیکن اللہ اوراس کے رسول کی محبت نے انہیں وہ مقام عطا کیا کہ تمام مسلمان کے وہ چہیتے اور سردار بن گئے، بقول شاعر
خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں