سیرت النبی کریم ﷺ
احکامِ الہی اور حقوقِ انسانی کا جامع منشور- خطبہ حجۃ الوداع
یہ عجیب بات ہے کہ جس کام کا آغاز آپ ﷺ نے مکہ کے کوہ صفا سے کیا تھا اور شدید مجبوری کی بنا پر اللہ کے حکم سے نقل مکانی کی تھی، اس کی تکمیل بھی وہیں آ کر ہوئی اور ٹھیک اسی مقام پر ہوئی، جسے میدان عرفات کہا جاتا ہے۔ یہیں آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنا تاریخ ساز خطبہ دیا، جسے ”حجة الوداع “ کہا جاتا ہے۔
خطبہ حجة الوداع کا تذکرہ ہوتے ہی عام طور سے ذہن میں اس کا وہ حصہ گردش کرنے لگتا ہے، جس میں چند بنیادی باتوں کے ساتھ انسانیت کا احترام اور اس کے حقوق کی حفاظت کا ذکر ملتا ہے، یہی حصہ بیشتر کتب متون اور سِیَر میں بھی ملتا ہے، حالانکہ یہ خطبہ اس سے بھی زیادہ طویل ہے، جس میں اساسیات اسلام، اجتماعات، دینیات، عبادات اور معاملات کی تعلیم مختصر اور جامع انداز میں دی گئی ہے، اس موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے تین خطبے ارشاد فرمائے تھے۔ پہلا ۹/ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں، دوسرا ۱۰/ ذی الحجہ کو منیٰ میں اور تیسرا بھی ۱۱/یا۱۲/ ذی الحجہ کو منیٰ میں دیا، لیکن ان تینوں میں عرفات کا خطبہ زیادہ اہم ہے، اس خطبہ نے انسانی دنیا پر جو اثرات ڈالے ہیں اور اس سے قوموں وملکوں کی حالت زار میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے، اس کا ذکر کرتے ہوئے اسی سیرت نگار نے یہ بھی تحریر کیا ہے:
”خطبہ حجة الوداع نہایت ہی خوبی سے اس حقیقت کو اجاگر کردیتا ہے کہ اب تک کے دو تین ہزار سالہ دور تاریخ میں حضور پیغمبر آخرالزماں صلى الله عليه وسلم وہ پہلی مبارک شخصیت ہیں جو ساری انسانیت کے لیے وسیع اور جامع پیغام لے کر آئے اور اس پیغام کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کیا، اس پر مبنی ریاست قائم کی اور اسے دنیا کی تمام اقوام تک پہنچانے کے لیے شُہداء علی الناس کی ایک جماعت قائم کردی۔“
(سید انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم، نعیم صدیقی،ص: ۲۰۸، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی،۱۹۹۷/)
خطبہ حجة الوداع:
حصہ الف (دیباچہ)
سب تعریف اللہ کے لیے، ہم اس کی حمد وثنا کرتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں، اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اسی کے دامن عفو میں اپنے نفس کی شرارتوں اور برے اعمال سے پناہ چاہتے ہیں، جس کو اللہ ہدایت عطا کرے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جس کو وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی سہیم وشریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلى الله عليه وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔امابعد:
الف: لوگو!
میری بات اچھی طرح سن لو، سمجھ لو، کیا خبر، شاید اس سال کے بعد اس جگہ میری تمہاری ملاقات کبھی نہ ہوسکے۔
ب: بندگان خدا!
آج کے بعد واللہ! مجھے نہیں معلوم شاید میں تم سے اس مقام پر کبھی نہ مل سکوں گا۔
ج: لوگو!
خاموش ہوجاؤ، تم لوگ اس سال کے بعد شاید مجھے نہ دیکھ سکو۔
د: لوگو!
سنو! میں تمہیں وضاحت کے ساتھ(سب کچھ)بتادینا چاہتا ہوں، کیوں کہ شاید اس سال کے بعد پھر کبھی تم سے نہ مل سکوں۔
ہ: لوگو!
حج کے مسئلے مسائل مجھ سے سیکھ لو، میں نہیں جانتا، شاید اس کے بعد مجھے دوسرے حج کی نوبت نہ آئے۔
و: اللہ اسے تروتازہ اور شاداب رکھے جس نے میری باتیں سنیں اور انہیں دوسروں تک پہنچایا، بعض اوقات سننے والا سمجھ دار نہیں ہوتا اور کبھی کبھی جس کو پہنچایا جائے، وہ اس سے زیادہ سمجھ دار نکلتا ہے۔
ز: لوگو!
تم لوگ شاید مجھ سے آئندہ اس حال میں نہ مل سکو جس حال میں اب مل رہے ہو۔
حصہ ب (اساسیات)
دفعہ:۱ لوگو!
۱۔ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے۔
۲۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو زیادہ تقویٰ شعار ہے، بے شک اللہ علیم وخبیر ہے۔
۳۔ دیکھو! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر اور کسی سرخ کو کسی کالے، سیاہ پر کوئی فضیلت وامتیاز نہیں، مگر ہاں تقویٰ کے سبب۔
دفعہ:۲ بندگان خدا!
میں تمہیں تقویٰ شعاری (اللہ سے ڈرنے) کی وصیت کرتا ہوں اور تمہیں اس کی اطاعت کا حکم دیتا ہوں (کیوں کہ تم اللہ کے سوا کسی اور کے بندے نہیں) اور اپنے خطبے کا آغاز نیک بات سے کرتا ہوں۔
دفعہ:۳ جان لو!
جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں تلے روندی گئی ہے، اب تمام آثار جاہلیت کالعدم اور ساقط ہوگئے ہیں۔
۱۔ خبردار! اہل جاہلیت کی ہر چیز میرے (ان دونوں) قدموں کے نیچے ہے۔
۲۔ سن لو! جاہلیت کا ہر خون (انتقام) مال (مغضوبہ) اور آثار جاہلیت (خاندانی، موروثی مفاخر) میرے قدموں تلے تاقیامت کالعدم ٹھہرائے جاتے ہیں۔
۳۔ اور جاہلیت کے تمام باعث فخر وغرور عہدے (مآثر ومفاخر) ختم کیے جاتے ہیں، صرف سدانہ (کعبہ کی نگرانی ونگہبانی) اور سقایہ (حاجیوں کو پانی پلانے) کے عہدے باقی رہیں گے، قتل عمد کا قصاص (بدلہ) لیا جائے گا، قتل عمد کے مشابہ وہ (قتل) ہے جو لاٹھی یا پتھر سے وقوع میں آئے اور اس کی (دیت) سو اونٹ مقرر ہے، اس سے زیادہ جو طلب کرے گا وہ اہل جاہلیت میں شمار ہوگا۔
۴۔ اور ہر قسم کا سود آج ممنوع قرار پاتا ہے، البتہ تمہیں اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے، جس میں نہ اوروں کا نقصان ہے اور نہ تمہارا نقصان، اللہ نے یہ بات طے کردی ہے کہ سود کی گنجائش نہیں ہے۔
۵۔ اور زمانہ جاہلیت کے تمام سود (سودی کاروبار) اب باطل ہیں۔ (اور جہاں تک کہ عباس بن عبد المطلب کے سود کا تعلق ہے تو وہ تمام کا تمام ساقط ہے۔)
۶۔ اور زمانہ جاہلیت کے تمام خون (کے بدلے، انتقام) اب کالعدم ہیں اور اپنے خاندان میں سے پہلا انتقام جسے میں معاف کرتا ہوں ربیعہ بن الحارث بن عبدالمطلب کے بچے کا ہے، جس کی رضاعت بنی لیث میں ہورہی تھی کہ بنو ہذیل نے اسے قتل کردیا تھا، پس میں پہل کرتے ہوئے انتقام ہائے جاہلیت میں سے خون کا بدلہ معاف کررہا ہوں۔
۷۔ لوگو!
الف: بے شک نسئی (مہینوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دینا) ازدیاد کفر کا ہی باعث ہے، اس سے کافر گمراہی میں پڑجاتے ہیں کہ ایک سال تو (اپنی نفسانی غرض سے) اسے حلال ٹھہراتے ہیں، پھر دوسرے سال (جب کوئی ذاتی غرض نہ ہو) اس کو حرام کردیتے ہیں، تاکہ اللہ نے جو گنتی (حرام مہینوں کی) مقرر کر رکھی ہے اسے پورا کرلیں، اس طرح وہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینے کو حلال اور اس کے حلال کیے ہوئے کو حرام کرلیتے ہیں۔
ب: دیکھو!
اور اب زمانہ گھوم پھر کر اسی جگہ آگیا ہے، جہاں سے کائنات کی پیدائش کا دن شروع ہوا تھا، مہینوں کی گنتی(تعداد) اللہ کے نزدیک سال میں بارہ ہے۔ ان میں سے چار محترم، حرام ہیں کہ تین (ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم) تو متواتر ہیں اور ایک الگ آتا ہے، یعنی رجب جو شَہر مضر کہلاتا ہے اور جو جمادی الثانی اور شعبان کے بیچ ہے اور مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے، تیس کا بھی۔
کہو! میں نے اپنی بات تم تک پہنچادی ہے نا؟ تو مجمع نے کہا: بے شک۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا!
ج: سن لو!
حج قیامت تک اب ذی الحجہ کے مہینے کے ساتھ مخصوص رہے گا۔
دفعہ:۴ لوگو!
تمہیں معلوم ہے کہ تم پر کون سا مہینہ سایہ فگن ہے؟ تم کس دن میں یہاں جمع ہو؟ کس شہر میں موجود ہو؟ سب نے کہا: محتر م شہر اور محترم مہینے میں! تب آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
بے شک تمہارا خون ایک دوسرے پر حرام ہے۔
دفعہ:۵ اور تمہارا مال وملکیت
دفعہ:۶ تمہاری عزت وآبرو
دفعہ:۷ تمہاری کھال (جلد، جسم، بدن) بھی ایک دوسرے کے لیے معزز و محترم ہے۔ (جس طرح حرمت تمہارے اس دن کو تمہارے اس مہینے کو، تمہارے اس شہر کو (حاصل ہے) یہاں تک کہ تم اللہ سے جاملو۔)
دفعہ:۸ میری بات سنو! زندگی پا جاؤٴگے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ
۱۔ خبردار! ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا۔
۲۔ دیکھو! ظلم وزیادتی نہ کرنا۔
۳۔ خوب سمجھ لو! ایک دوسرے پر باہم ظلم وستم نہ کرنا۔
حصہ ج (اجتماعات):
دفعہ:۹ اللہ کے بندو! میری بات سنو اور سمجھو!
بلاشبہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔
دفعہ :۱۰ خبردار! ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ومحترم ہے۔
دفعہ :۱۱ اور ہر مومن دوسرے مومن پر حرام ومحترم ہے، جس طرح آج کے دن کی حرمت ہے:
۱۔ اس کا گوشت اس پر حرام ہے۔
۲۔ کہ اسے کھائے، اس کی عدم موجودگی میں غیبت کرے۔
۳۔ اور اس کی عزت وآبرو اس پر حرام ہے کہ (اس کی چادر عزت) پھاڑ دے۔
۴۔ اس کا چہرہ اس پر حرام ہے کہ اس پر تمانچے لگائے جائیں۔
۵۔ اور تکلیف دہی بھی حرام کہ اسے تکلیف پہنچائی جائے۔
۶۔ اور یہ بھی حرام کہ تکلیف رسانی کے لیے اسے دھمکایا جائے۔
۷۔ اور کسی مسلمان کے لیے یہ بھی جائز نہیں سوائے اس کے کہ جو وہ اپنی خوشی سے دے۔
۸۔ مال مسلم بھی حلال وجائز نہیں سوائے اس کے کہ وہ اپنی خوشی سے دے۔
(اور میں تمہیں بتاؤں کہ مسلمان درحقیقت ہے کون؟)
دفعہ:۱۲ مسلمان وہی ہے جو اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگوں کو محفوظ رکھے۔
دفعہ:۱۳ اور مومن درحقیقت وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کا جان ومال امن وعافیت میں رہے۔
دفعہ:۱۴ اور مہاجر درحقیقت وہ ہے جو اپنے گناہوں اور خطاؤں سے کنارہ کشی کرلے۔
دفعہ:۱۵ اور مجاہد تو دراصل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کی خاطر اپنے نفس کا مقابلہ کرے۔
دفعہ:۱۶ خبردار! اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت واپس لوٹادے۔
دفعہ:۱۷ قرض واپس ادائیگی کا متقاضی ہے۔
دفعہ:۱۸ ادھار لی ہوئی چیز کو واپس کیا جانا چاہیے۔
دفعہ:۱۹ عطیہ لوٹا یا جائے۔
دفعہ:۲۰ ضامن ضمانت (تاوان) کا ذمہ دار ہوگا۔
دفعہ:۲۱ دیکھو! اب ایک مجرم اپنے جرم کا خود ہی ذمہ دار ہوگا۔
دفعہ:۲۲ جان لو! اب نہ باپ کے جرم کے بدلے بیٹا پکڑا جائیگا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائیگا۔
دفعہ:۲۳ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیوں کہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات (احکام) کے تحت ان کے ستر تمہارے لیے حلال ہوئے۔
دفعہ:۲۴ خبردار! تمہارے لیے عورتوں سے نیک سلوکی کی وصیت ہے، کیوں کہ وہ تمہاری پابند ہیں اور اس کے سوا تم کسی معاملے میں حق ملکیت نہیں رکھتے۔
دفعہ: ۲۵ لوگو! جس طرح عورتوں کے کچھ حقوق تمہارے ذمہ ہیں، اسی طرح ان پر بھی تمہارے کچھ حقوق واجب ہیں۔ (سنو! تمہاری عورتوں پر جس طرح کچھ حقوق تمہارے واجب ہیں، اسی طرح تمہاری عورتوں کا بھی تم پر کچھ حق ہے۔)
(جہاں تک تمہارے ان حقوق کا تعلق ہے جو تمہاری عورتوں پر واجب ہیں) تو وہ یہ ہیں:
۱۔ وہ کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں۔
۲۔ وہ تمہارا بستر کسی ایسے شخص سے پامال نہ کرائیں جسے تم پسند نہیں کرتے۔
۳۔ وہ تمہارے گھر میں کسی ایسے شخص کو داخل نہ ہونے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو، مگر یہ کہ تمہاری اجازت سے۔
۴۔ اگر وہ عورتیں (ان باتوں) کی خلاف ورزی کریں تو تمہارے لیے اجازت ہے کہ:
الف: تم انہیں بستر وں پر اکیلا، تنہا چھوڑ دو۔
ب: (ان پر سختی کرو) مگر شدید تکلیف والی چوٹ نہ مارو (اگر مارنا ہی چاہو۔)
دیکھو! کچھ حقوق ان کے بھی تمہارے اوپر عائد ہوتے ہیں۔ مثلا:
۵۔ یہ کہ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے (خوراک ولباس) کے بارے میں ان سے اچھا سلوک کرو (اگر وہ تمہاری نافرمانی سے بازآجائیں اور کہا مانیں تو (حسب حیثیت) ان کا کھانا کپڑا (خوراک، لباس، نان نفقہ) تمہارے ذمہ ہے۔
(اور عورتوں پر یہ بھی واجب ہے کہ)
۶۔ عورتیں معروفات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں۔
۷۔ اور اگر وہ فرماں برداری کریں تو ان پر (کسی قسم کی) زیادتی کا تمہیں کوئی حق نہیں۔
۸۔ کوئی عورت اپنے گھر میں اخراجات نہ کرے، مگر ہاں اپنے شوہر کی اجازت سے۔
۹۔ جان لو! لڑکا (اولاد) اس کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا۔ (بچہ شوہر کی اولاد متصور ہوگا۔)
اور جس پر حرام کاری ثابت ہو اس کی سزا سنگ ساری ہے (زنا کار کے لیے پتھر) اور ان کا حساب اللہ کے ذمے۔
۱۰۔ دیکھو! کسی عورت کےلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے۔
۱۱۔ خبردار! جس نے خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور سے منسوب کیا، یاکسی غلام نے (جان بوجھ کر) اپنے آقا کے سوا کسی آقا سے نسبت قائم کی تو اس پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہوگی اور قیامت کے دن اس سے کوئی بدلہ یا معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
دفعہ:۲۶
۱۔ اور ہاں غلام، تمہارے غلام! (ان سے حسنِ سلوک کرو)
الف: جو تم کھاتے ہو اس میں سے ان کو بھی کھلاؤ۔
ب: جو تم پہنتے ہو اس میں سے ان کو بھی پہناؤ۔
ج: اگر وہ کوئی ایسی خطا کریں جسے تم دیکھو کہ معاف نہیں کرسکتے تو اللہ کے بندو انہیں فروخت کردو۔ (مگر)
د: انہیں بھیانک سزا (عذاب) تو نہ دو۔
۲۔ اور ان کے بارے میں بھی تمہیں (حسن سلوک کی) وصیت کرتا ہوں، جو لونڈیاں (تمہارے زیر تصرف) ہیں، پس ان کو وہ کھلاؤ اور پہناؤ جو تم کھاتے پہنتے ہو۔
حصہ: د (دینیات، عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات)
دفعہ:۲۷ لوگو! بے شک مجھے حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ لاالٰہ الااللہ کے قائل ہوجائیں اور جب وہ اس کلمے کا اقرار کرلیں تو گویا انہوں نے اپنی جانوں اور مالوں کو بچالیا اور باقی حساب اللہ کے ذمے ہے۔
دفعہ:۲۸ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراوٴ۔
دفعہ:۲۹ اور نہ کسی کی ناحق جان لو۔ (نہ قتل کرو)
دفعہ:۳۰ نہ بدکاری (زنا) کرو۔
دفعہ:۳۱ اور نہ ہی چوری (سرقہ) کرو۔
دفعہ:۳۲ لوگو! (اچھی طرح سمجھ لو!) میرے بعد نہ کوئی پیغمبر (آنے والاہے اور نہ تمہارے بعد کوئی امت ہوگی۔
۱۔ اپنے خطاب کے دوران رسول صلى الله عليه وسلم نے مسیح الدجال کا ذکر فرمایا، پھر ذکر میں کافی طول پکڑا، پھر دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
۲۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا کہ جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔
(پس میں بھی) (میں بلاشبہ تمہیں اس سے ڈراتا ہوں)
۳۔ بے شک میری سب سے افضل دعاء بلکہ تمام انبیائے ما قبل کی یہی ہے:
لاالٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد بیدہ الخیر، یحی ویمیت وھو علیٰ کل شیء قدیر۔
دفعہ:۳۳ خوب سن لو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو، نماز پنج گانہ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اپنے رب کے گھر (خانہ کعبہ) کا حج کرو، اپنی زکوٰة خوشی خوشی دیا کرو، اپنے حکام کی اطاعت کرو (اس طرح ان امور کی انجام دہی کے بعد بطور اجر) اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔
دفعہ: ۳۴ اللہ سے ڈرو! (ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو) اور لوگوں کو ان کی چیزیں (ناپ تول میں) کم نہ دیا کرو اور ملک میں فساد کرتے نہ پھرو۔
دفعہ: ۳۵ خبردار! دین میں غلو (مبالغہ آمیزی) سے بچو، اس لیے کہ تم سے پہلے جو قومیں تھیں وہ دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک کردی گئیں۔
دفعہ:۳۶ لوگو!
دیکھو، شیطان اس بات سے تو بے شک بالکل مایوس ہوچکا ہے کہ تمہاری اس سرزمین پر کبھی اس کی پرستش کی جائے گی، مگر چوکنا رہو! وہ اس بات پر بھی راضی ہوگا کہ اس (پرستش) کے سوا چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس کے اشاروں کی تعمیل کی جائے، پس اپنے دین وایمان کی (حفاظت کی) خاطر اس سے بچے رہنا۔
دفعہ:۳۷ لوگو!
۱۔ اللہ نے میراث (ترکہ) میں ہر وارث کا (جداگانہ) حصہ مقرر کردیا ہے۔
۲۔ اس لیے وارث کے لیے (تمام مال میں) وصیت کرنا جائز نہیں۔
(چنانچہ) کسی کو ایک تہائی سے زائد (مال) کی وصیت کاحق نہیں۔
(بقول راوی پھر حضور صلى الله عليه وسلم نے ہمیں صدقے کا حکم دیا اور فرمایا:)
دفعہ: ۳۸ صدقہ دیا کرو! اس لیے میں نہیں جانتا، مگر شاید تم آج کے بعد مجھے پھر نہ دیکھ سکو۔
دفعہ: ۳۹ اللہ کے نام پر (جھوٹی) قسمیں نہ کھایا کرو، کیوں کہ جو اللہ کے نام پر (جھوٹی) قسم کھائے گا، اللہ اس کا جھوٹ ظاہر کردے گا۔
دفعہ: ۴۰ لوگو!
۱۔ علم (تعلیم، معلومات) میں سے جو کچھ حاصل کرسکتے ہو، لےلو۔ اس سے پہلے کہ وہ سمیٹ لیا جائے اور قبل اس کے کہ علم کو اٹھا لیاجائے۔
۲۔ خبردار! علم کے اٹھائے جانے (ختم ہوجانے) کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اس کے جاننے والے ختم ہوجائیں۔ ( آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔)
دفعہ:۴۱ دیکھو!
۱۔ تین باتیں ایسی ہیں جن میں (مومن کا) دل (دھوکہ فریب) کینے کا شکار نہیں ہوتا۔ یعنی:
الف: عمل میں اخلاص کہ صرف اللہ کے لیے۔
ب: (مسلمان) حاکموں کی خیرخواہی میں۔
ج: عام مسلمانوں (کی جماعت) سے وابستگی میں، کیوں کہ ان (مسلمانوں) کی دعائیں انہیں گھیرے رہتی ہیں (اس پر سایہ فگن رہتی ہیں۔)
۲۔ اللہ نے ایسی کوئی بیماری (دکھ، تکلیف) پیدا نہیں کی جس کی دوا نہ اتاری ہو، سوائے بڑھاپے کے۔
دفعہ: ۴۲ لوگومیری بات سمجھو!
کیوں کہ میں نے سب کچھ تم تک پہنچادیا ہے:
۱۔ میں نے تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑ دی ہے کہ تم کبھی گمراہ نہ ہوگے اگر مضبوطی سے تھامے رہے اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔
۲۔ اور میں نے تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ دی ہیں کہ اگر ان کو تھامے (پکڑے) رہے تو پھر کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے۔ صاف وروشن اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلى الله عليه وسلم کی سنت۔
دفعہ:۴۳ لوگو!
سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تمہارے اوپر کوئی نک کٹا حبشی غلام امیر بنادیا جائے جو تمہارے درمیان کتاب اللہ (کے احکام) کو قائم (نافذ) کرے۔
دفعہ:۴۴ جان لو!
۱۔ ہر نبی (پیغمبر) کی دعوت گزر چکی ہے، سوائے میری دعوت (دین و شریعت) کے کہ (وہ ہمیشہ کے لیے ہے) میں نے اس کو اپنے پروردگار کے پاس قیامت تک کے لیے ذخیرہ (جمع) کردیا ہے۔
۲۔ امابعد! انبیاء علیہم السلام قیامت کے دن کثرت تعداد پر فخر کریں گے، پس تم مجھے (اپنی بداعمالیوں کے سبب) رسوا نہ کردینا، میں حوض کوثر پر (تمہارے انتظار میں) رہوں گا۔
۳۔ خبردار! میں حوض کوثر پر تم سے پہلے پہنچوں گا اور دوسری امتوں پر تمہاری کثرت کے سبب فخر کروں گا تو کہیں میری رسوائی کا باعث نہ بن جانا۔
۴۔ سنو! میں بعض کو (شفاعت کرکے) چھڑالوں گا، مگر بعض لوگ مجھ سے چھڑالیے جائیں گے۔ پھر میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ تو میرے اصحاب (امتی) ہیں؟ اللہ فرمائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں کرڈالی تھیں۔
دفعہ:۴۵ خبردار! میرے بعد کہیں کافر نہ بن جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔
دفعہ:۴۶ اور ہاں سنو!
۱۔ تم اپنے رب سے ملوگے تو اللہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں (ضرور) باز پرس کرے گا۔
۲۔ پس جو (دنیا میں رہتے ہوئے ہمہ وقت) آخرت کو ہی اپنے پیش نظر رکھے گا تو اللہ اسے دل جمعی عطا کرے گا اور اسے اس کی آنکھوں کے سامنے (دنیا میں ہی) بے نیازی وتونگری عطا کرے گا اور دنیا اس کے (قدموں میں) سرنگوں ہوکر خود آئے گی، لیکن جودنیا کو ہی محبوب ومقصود قرار دے گا تو اللہ اس کے معاملات کو منتشر ومتفرق کردے گا اور وہ (آدمی دنیا میں ہی) اپنی آنکھوں کے سامنے افلاس وتنگ دستی دیکھ لے گا اور دنیا میں سے تو اسے اتنا حصہ ملے گا جتنا کہ اس کے لیے (مقدر میں) لکھا جاچکا ہے۔
دفعہ: ۴۷ دیکھو!
اب تم نے مجھے (جی بھر کر) دیکھ بھی لیا ہے اور مجھ سے ان تمام باتوں کو سن بھی لیا ہے، تم سے عنقریب میرے بارے میں پوچھا جائے گا (تو سچ سچ بتانا) پس جس نے بھی مجھ پر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔
دفعہ:۴۸ دیکھو!
۱۔ جو یہاں موجود ہے وہ غیر حاضر تک (میری) یہ سب با تیں (ضرور) پہنچا دے۔
۲۔ شاید کہ بعض ایسے کہ جن تک (یہ باتیں) پہنچیں گی یہاں موجود بعض سننے والوں سے زیادہ سمجھ دار ثابت ہوں۔
۳۔ سن لو! تم میں سے جو یہاں قریب ہیں (ان کے لیے لازم ہے کہ) اپنے دور والوں (بعد میں آنے والے لوگوں) تک یہ باتیں پہنچادیں۔
حصہ: ر (اختتامیہ)
پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
اے اللہ! (دیکھ لے) میں نے (تیرا پیغام بھر پور طور پر) پہنچادیا ہے یا نہیں؟
پھر لوگوں سے فرمایا:
کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک اچھی طرح نہیں پہنچا دیا؟
سنو! کیا میں نے حق تبلیغ ادا نہیں کردیا؟
دیکھو! کیا میں نے تعلیم وتلقین دین کی انتہا نہیں کردی؟
(تو سب حاضرین، سامعین، مجمع والے بیک آواز اقرار واعتراف کرنے لگے۔) بے شک! بے شک! (تب رسول صلى الله عليه وسلم نے) فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا! (تیرے بندے کیسا صاف اقرار کررہے ہیں)، اے اللہ گواہ رہنا (یہاں موجود لوگ کیا کہہ رہے ہیں)، اے اللہ گواہ رہنا! (پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:) اور تم لوگوں سے (آخرت، قیامت میں اللہ کی طرف سے) میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم لوگ کیا کہوگے؟
تو سب نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ نے امانت الٰہی ہم تک پہنچادی اور حق رسالت ادا کردیا اور (امت کو) نصیحت کرنے کی انتہا فرمادی۔ (پس رسول صلى الله عليه وسلم نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور) پھر اسے لوگوں کی طرف جھکایا اور فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا! اے اللہ گواہ رہنا! اے اللہ گواہ رہنا! والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں