تدبر سورۃ الرحمن
از استاد نعمان علی خان
پارٹ 19 آیات(30-29)
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم
يَسۡـَٔلُهُ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِۚ
كُلَّ يَوۡمٍ هُوَ فِى شَأۡنٍ
فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
يَسۡـَٔلُهُ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ
اللہ نے ہمیں وجود عطا کیا ہے ،وجود پہلے نہیں تھا ہم ہر چیز کے لئے اللہ کے محتاج ہیں ہم اپنے وجود اور بقا کے لئے بھی اسی کے محتاج ہے اس لیے اگر کوئی شعوری طور پر اللہ سے نہ بھی مانگ رہا وہ اپنے وجود کے لئے اللہ کا سوالی ہے
اللہ کہتا ہے ؛
سورہ فاطر آیت نمبر 15
۞ يَـٰٓأَيُّہَا ٱلنَّاسُ أَنتُمُ ٱلۡفُقَرَآءُ إِلَى ٱللَّهِ ۖ وَٱللَّهُ هُوَ ٱلۡغَنِىُّ ٱلۡحَمِيدُ
لوگو، تم ہی اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو غنی و حمید ہے-
اب چاہے ہم اس کی نعمتوں کا احسان مان رہے ہیں یا نہیں ہم اللہ کے آگے فقیر ہیں ،
چاہے کوئی فرعون ہو یا قارون ہو، ہر صاحب وجود جس کو بھی اللہ نے وجود عطا کیا ہے وہ اللہ کے آگے فقیر ہے اس کا محتاج ہر وقت ۔۔
ہم اپنی حماقت یا نادانی میں دوسروں کے آگے سوال کرنے لگ جاتے ہیں ہم یہ نہیں سوچتے کہ جس سے ہم سوال کریں وہ تو خود اللہ کا محتاج ہے _
ہماری کوئی ہماری ضرورت کو پوری نہیں کرسکتا سوائے اللہ کے ۔۔
اور حال یہ ہے کہ کوئی قبر کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں یا کوئی جنات سے مدد مانگ رہا ہے اللہ کہہ رہا ہے کہ زمین اور آسمان میں جتنی مخلوق ہے وہ سب اللہ کے آگے سوالی ہیں_
یہاں تک کہ اللہ کے مقرب ہستیاں انبیاء کرام علیہ السلام فرشتے ہر کوئی اللہ کا محتاج ہے تو تم کس سے مانگے رہے ہو وہ تو خود اللہ کے محتاج ہے ۔
كُلَّ يَوۡمٍ هُوَ فِى شَأۡنٍ
وہ ہر روز کسی شان میں ہوتا ہے
"شان" کا معنی ہے کسی کی کیفیت, حالت, مصروفیت, مشغولیت, کسی چیز کی طرف متوجہ ہونا, یہ ساری کیفیات مل کے شان کا معنی دیتی ہیں -
فلآسفی اور سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ ساری کائنات اللہ نے تخلیق کر دی ہے اور تخلیق کرنے کے بعد اس کا مخلوق سے کوئی تعلق نہیں ہے ،
اس کو کیا پتہ بحر میں کیا ہو رہا ہے کون سی کشتی ڈوب رہی ہے اسے ان چیزوں سے دلچسپی نہیں ہے اس نے ایک بار بنا دیا ہے اور وہ بنا کر چھوڑ دیا ہے اب کائنات از خود قوانین طبیعہ کے مطابق چل رہی ہے
ہمارے شعور میں بھی خدا کا یہی تصور ہے کہ وہ خالق ہے اس نے ہمیں پیدا کیا ہے لیکن اب قوانین طبیعہ ہیں ؛ ازخود سارے کام ہو رہے ہیں، خود بخود یہ کائنات رواں دواں ہے
اس میں ہر لمحہ اللہ کی مشیت یا اس کا فیصلہ یا اس کا اذن یا اس کی منشا۔۔ ہر شے کا اس کے علم میں ہونا ، یہ درحقیقت ہمارے تصور میں عموما موجود نہیں ہے۔
قران کا تصور پیش کرتا ہے ہمارے سامنے؟
۞ وَعِندَهُ ۥ مَفَاتِحُ ٱلۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمُهَآ إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعۡلَمُ مَا فِى ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِ ۚ وَمَا تَسۡقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعۡلَمُهَا
اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں، (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ اور وه تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وه اس کو بھی جانتا ہے 6:59
یعنی کوئی پتا بھی نہیں گرتا مگر اس کے علم میں ہے
ہر آن ہر لمحہ ہر شے کے بارے میں اس کو علم ہے ،
ہر آن ہر لمحہ اس کا "اذن" کارفرما ہے _
ہر معاملے میں اللہ کی رضا اور معیشت شامل ہوتی ہے
اس بات کا تصور کرنا ہم انسانوں کے لیے آسان نہیں ہے کہ کیسے اس کو ہر ایک ایک معاملے کی خبر ہے, ایک ایک چیز کو باریک بینی سے دیکھ رہا ہے، وہ ہر معاملے میں انوالو ہے ۔
كُلَّ يَوۡمٍ هُوَ فِى شَأۡنٍ
ہر لمحہ اس کی ایک شان ہے اس کی ایک کیفیت ہے اور وہ مشغول اور مصروف ہے
وہ ہر وقت اس کائنات کے انتظام و اہتمام میں لگا ہوا ہے یہاں کوئی کام اس کےعلم اور اذن کے بغیر نہیں ہورہی کوئی پتہ نہیں گرتا جب مگر اس کے علم میں ہوتا ہے اس کی رضا سے گرتا ہے اس کی اجازت سے گرتا ہے
اگر یہ بات ہماری سمجھ میں آجائے گی اللہ کی مرضی سے ہر کام ہو رہے ہیں تو ہماری کیفیت ہی بدل جائے گی
اب "یوم" کا معنی کیا ہے یوم کا مطلب یہ نہیں جو ہمارا 24 گھنٹے کا دن ہے قرآن میں اللہ کے دن کے لئے ہزار سال یا پچاس ہزار سال بھی آیا ہے یہ ایام کا مطلب ہے "ہر دور "
اللہ نے اس کائنات کی تخلیق "ادوار" میں کی ہے، ہر دور کی کیفیات اس نے پہلے سے ہی متعین کی ہوئی ہے کہ اس دور میں وہی کچھ ہوگا ،
اللہ نے ایک ترتیب رکھی ہے جس دور کا معاملہ ہے وہ اُسی دور کے مطابق ہوگا ،اللہ نے اپنا فعل اور عمل "اُس دور" کے حساب سے طے کیا ہوا ہے ۔اللہ ہر دور کے مطابق انتظام و اہتمام کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں