قرآن فہمی سیریز۔۔۔ 09


 قرآن فہمی سیریز


از ڈاکٹر فرحت ہاشمی


اللہ سبحانہ و تعالی سے اس کا فضل مانگنا 


سورہ البقرہ آیت ۴۷ میں اللہ سبحانہ و تعالی فرمارہے ہیں: 


یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ۔ 

اے بنی اسرائیل یاد کرو میری نعمت وہ جو میں نے تم پر انعام کی اور بے شک میں نے فضیلت دی تمھیں تمام جہانوں پر۔ 


اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالی بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر ان کو ان پر کیے گئے بے شمار دینی اور دنیاوی احسانات یاد دلا رہے ہیں۔ 

دینی اعتبار سے بنی اسرائیل میں بے شمار انبیاء آئے جو کسی اور قوم میں نہیں آئے۔ جس کا ذکر سورہ المائدہ آیت ۲۰ میں آتا ہے۔ 

قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ۔۔۔۔۔۔


دنیاوی اعتبار سے بنی اسرائیل میں ایسے پیغمبر آئے جو پیغمبر ہونے کے ساتھ بادشاہ بھی تھے۔ اور ان کی بادشاہت صرف انسانوں تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ جنات، حشرات، چرند پرند پر بھی تھی۔ ان کے لیے لوہے کو مسخر کیا گیا اور پیتل کے چشمے بہادیے گئے۔


ان نعمتوں کو یاد کروانے کا مقصد بنی اسرائیل کو شکر گزاری کی طرف متوجہ کرنا ہے تا کہ وہ ایسے شکر گزار بن جائیں جس میں دل، زبان اور جوارح سے شکر شامل ہو۔ اور وہ اپنے اعمال کی اصلاح کرسکیں۔ 


اللہ سبحانہ و تعالی نے بنی اسرائیل کو اپنے دور میں تمام لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ یہ فضیلت ان کو ہدایت اور رہنمائی کے منصب کے ساتھ عطا کی گئی تھی۔ یعنی وہ خود بھی اللہ سبحانہ و تعالی کی عبادت کریں اور دوسرے لوگوں کو بھی رہنمائی دیں۔  لیکن جب انھوں نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی تو اللہ سبحانہ و تعالی نے ان سے یہ ذمہ داری لے کر امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو  سونپ دی۔ سورہ آل عمران ۱۱۰ میں ارشاد ہے: 

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ) (آل عمران :110) 

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ہم قیامت کے دن کامل ستر امتوں کی شکل میں ہوں گے ، اور ہم ان سب سے آخری اور بہتر امت ہوں گے “ (سنن ابن ماجہ 4287)


اس آیت سے جو باتیں ہمیں معلوم ہوتیں ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

▪️ نعمت اللہ دیتا ہے۔ 

▪️ فضیلت اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ 

▪️ فضیلت علم کی بنا پر ملتی ہے۔ عزت اور شرف انسان کو ذمہ داری کے ساتھ ملتی ہے۔ انسان اگر اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے تو اس کے عزت و شرف میں اضافہ ہوتاہے اور اگر وہ ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو وہ ذمہ داری ذلت و رسوائی کا باعث بنتی ہے۔ 

▪️ فضل اللہ کی طرف سے آتا ہے۔ فضل کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں: 

▫️ ہدایت کا ملنا

▫️ قرآن کا ملنا

▫️ کتاب کا وارث بنایا جانا 

▫️ نیکیوں میں آگے بڑھنا 

▫️ دنیاوی نعمتیں 

▫️ رزق کا ملنا


 اللہ سبحانہ و تعالی سے اس کا فضل مانگنے میں انسان کے لیے کیا چیز رکاوٹ بنتی ہے؟ 

ہم انسان خود دلوں کے چھوٹے ہیں اس لیے ہم کسی کو کچھ دینا نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ذرہ سا بھی کس پر شبہ ہو کہ وہ ہم سے مانگ لے گا تو ہم اس سے کنارہ کشی کرلیتے ہیں۔ اسی پر ہم دوسروں کو قیاس کرلیتے ہیں کہ سارے انسان ایسے ہونگے۔ 


پھر نعوذ باللہ انسانوں پر کیے گئے قیاس اللہ سبحانہ و تعالی پر کرلیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ: 

> اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں نہیں دے گا۔ 

> یا ہم اس کی اہلیت نہیں رکھتے۔ 

>  ہمیں مانگنا نہیں آتا۔ 


حالانکہ اللہ سبحانہ و تعالی کا فضل وسیع ہے۔ جسے چاہے دے اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ اس لیے جب ہم فضل مانگنے سے رک جائیں تو اس وقت ہمیں خود سے سوالات کرنے چاہیں: 


کیا اللہ کے خزانوں میں کمی آئے گی؟  نہیں

کیا اللہ ہمیں مانگنے پر شرمندہ  کرے گا؟  نہیں

اللہ نعوذ باللہ بخیل ہے؟ نہیں

کیا اللہ کے خزانوں کا کوئی اور مالک ہے؟ نہیں


نہیں! اللہ سبحانہ و تعالی ایسا نہیں ہے لہذا ہمیں چاہیے  کہ کسی بھی معاملے میں مشکل نظر آرہی ہو تو ہم اللہ سبحانہ و تعالی سے اس کا فضل خوب خوب مانگیں۔


ہمارے کرنے کے کام:

☘️ اللہ سبحانہ و تعالی سے اس کا فضل مانگتے رہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں