سیرت النبی کریم ﷺ
دینِ محمدی ﷺ کا پھیلاؤ اور مادی وسائل
ننھے بچے کی تربیت و پرورش کے لئے محسوس قوتوں میں سب سے بڑی قوت وہ ہے جسے باپ کہتے ہیں، لیکن کیا تماشا ہے کہ وہ بزور توڑ دیا گیا اور پیدا ہونے سے پیشتر ہی توڑ دیا گیا، وہ آیا اور اس شان کے ساتھ آیا کہ جس کو لوگ پالنے والا کہتے ہیں، وہ مدینہ کے ایک میدان میں سویا ہوا تھا، سعد کے کنجے والو دوڑو اور اس بچے کو چھاتی سے لگاؤ، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی نہیں۔
جن کے پاس سب کچھ تھا انہیں دھکیل دیا گیا، جس کی اونٹنی کا تھن خشک ہو چکا تھا اور خود جس کے پاس دودھ کا ایک قطرہ نہ تھا، کچھ نہ تھا اسی نے اپنی گود میں اُٹھا لیا، جب واپس کرنے آئی تو تماشے کا یہ کیسا درد ناک حصہ تھا کہ ابواء کے ایک جھونپڑے میں اس بچہ کی تربیت و پرداخت کرنے والی دوسری قوت بھی ہمیشہ کے لئے گم ہو گئی۔
پیر مرد بوڑھا دادا اُٹھتا ہے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے، لیکن قدرت جس کے ساتھ کچھ نہیں رکھنا چاہتی وہ اُٹھتی ہے اور اس کے ہاتھ کو بھی جھٹک کر علیحدہ کر دیتی ہے، اب کوئی نہیں، اس بچہ کا کوئی نہیں، اس کے پاس کچھ نہیں، ہاں بہت سے چچا ہیں، لیکن جن کے پاس بہت کچھ تھا، انہوں نے آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا، ان میں جو سب سے نادار تھا اسی کے بچوں میں وہ بھی گھل مل گیا، چچا نے نہیں بلکہ بھتیجے نے بکریاں چرا کر اس کو کچھ دیا اور اسی میں سے کچھ خود بھی کھالیا، (خود آنحضرت ﷺ کا بیان ہے کہ ابو طالب کے بچے کھانے پر اس طرح ٹوٹتے تھے کہ میں بھوکا رہ جاتا تھا، آخر میں ابو طالب نے ضیق معاش سے تنگ آکر اپنے بچوں کو تقسیم کردیا تھا اور اسی تقسیم میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ حضور ﷺ کے حصہ میں آئے۔)
الغرض ایک بچہ پیدا ہوتا ہے (ﷺ) جس کے ساتھ نہ باپ کی قوت ہے، نہ ماں کی قوت ہے، نہ اقرباء و اعزہ کی قوت ہے، کوئی قوت نہیں ہے حتیٰ کہ وہ جس ملک میں پیدا ہوتا ہے، وہ بھی ہر قسم کی نباتی اور حیوانی قوتوں سے خالی ہے، میدان ہے اور چٹیل میدان ہے، اس کا نام بن کھیتی کا بیابان ہے، نہ اس کے آغوش میں ندیاں کھیلتی ہیں، نہ دریاؤں کا شیریں پانی اس کو سیراب کرتا ہے، نہ سبزہ زار مرغزار ہیں نہ نظر فریب گلزار ہیں، الغرض انسانی دل و دماغ کے سنوارنے اور ابھارنے میں جن قدرتی ذرائع کو دخل ہے ان میں سے بھی اس میدان میں کچھ نہیں ہے، وہ جس شہر میں پیدا ہوتا ہے، اس کے باشندوں کے پاس بھی کوئی قوت نہیں ہے، نہ ذہنی قوت نہ سیاسی طاقت، نہ علمی زور یعنی جن قوتوں پر قوموں کی عمارت کھڑی ہوتی ہے وہ ہر ایک سے خالی ہے، نہ وہ آئین رکھتے تھے نہ دستور، نہ ان کا کوئی بادشاہ تھا نہ ان کی جماعتی پراگندگیوں کا کوئی شیرازہ بند، نہ ان کے پاس مکاتب تھے نہ مدارس، نہ کارخانے نہ فیکٹریاں، کچھ نہیں، ان چیزوں میں سے ایک بھی نہیں جس میں داخل ہو کر کوئی بچہ پروان چڑھ سکتا ہو۔
ان کے پاس جو جسمانی طاقت تھی اس کا مصرف بھی بجز اپنی تعداد گھٹانے کے اور کچھ نہ تھا۔ اسی ملک میں، اسی شہر میں، اسی قوم میں اس بچے کا ظہور ہوا اور اس شان کے ساتھ ہوا کہ اس کے سر پر جو قوت بھی سایہ فگن ہوتی تھی یا ہو سکتی تھی، وہ ایک ایک کر کے مٹا دی جاتی تھی، یہاں تک کہ آخر میں یہ بھی ہوا کہ وطن پر جو اسے بھروسہ ہو سکتا تھا اس بھروسے کو بھی ہٹا دیا گیا، برادری والوں پر جو اعتماد ممکن تھا وہ بھی ناممکن کر دیا گیا، یعنی سارا وطن اور وطن والے، قبیلے والے، کنبے والے سب اس کی دشمنی پر متفق ہو کر آمادہ ہو گئے اور وہ جس کے پاس نہ باپ کی قوت تھی اور نہ ماں کی، نہ دادا کا زور تھا نہ اور کسی کا۔ نہ حکومت کی سرپرستی اسے حاصل تھی نہ مدرسوں کی تعلیم سے وہ فیض یاب ہو سکتا تھا، نہ اپنے ملک کے گرد و پیش کے خنک آمیز اثرات سے اپنے دماغ کی تازگی اور اس میں بالیدگی پیدا کر سکتا تھا، اب اس کے ساتھ یہ بھی کیا گیا کہ گھروالے، کنبے والے، قبیلے والے سب کے سب اس سے علیحدہ ہو گئے، مادہ ان سے علیحدہ کرلیا گیا اور اب جا کر یہ ارادہ پورا ہوا کہ دیکھو۔
ؔاس کے پاس کچھ نہیں ہے۔"
وہ ساری قوتیں جن کو لوگ قوت کہتے ہیں اور جن کا نام محسوس پرستوں کی اصطلاح میں ''قوت'' ہے ''زور'' ہے ایک ایک کر کے الگ کرلیا گیا، اس کے بعد دکھایا گیا، مشاہدہ کرایا گیا۔
''جس کے پاس کچھ نہیں ہے، دیکھو کہ اس کے پاس سب کچھ ہوگیا۔''
ایک منظر وہ تھا اور دوسرا منظر یہ ہے کہ زمین کے ایک بڑے قطعے کا مالک ہے۔ اس کے خادموں بلکہ خادموں سے نیچے اگر کوئی درجہ ہو سکتا ہے وہی قیصر کی ٹوپی اچھال رہے ہیں، کسریٰ کے جلال و جبروت کے پرزے اُڑا رہے ہیں، وہی جس کے پاس کچھ نہ تھا، کیا دنیا نے نہیں دیکھا یا نہیں دیکھ رہی ہے، یا نہیں دیکھے گی کہ یہی دنیا میں سب سے بڑا قرار پایا، قومیں اس کی تقدیس میں مصروف ہیں، نسلیں اس کے سراہنے میں منہمک ہیں، افغانستان کی پہاڑیوں میں، مراکو کی وادیوں میں، مصر کے ایوانوں میں، برصغیر کی بستیوں میں، چین کی آبادیوں میں، افریقہ میں، ایشیا میں، یورپ میں، امریکہ میں کون ہوا؟ اتنا بڑا کون ہوا؟ صرف ہمارے پاس نہیں، ہماری تاریخ میں نہیں، دوسروں کی تاریخ میں، کیا اس سے اونچا انسان نسلِ اول میں کوئی ظاہر ہوا، مامون و ہارون کو کس کی غلامی پر ناز تھا؟ صلاح الدین کس کے نام پر صلیب والوں کی بھیڑ میں لرزہ ڈالتا تھا؟ محمود کس کی جوتیوں کے صدقے میں مشرق کا اولوالعزم فاتح قرار پایا، شاہ جہان کس کے نام کی تسبیح پڑھتا تھا؟ عالمگیر کس کی نگاہِ کرم کے لئے دکن کے سنگستانوں میں سالہا سال تک ٹھوکریں کھاتا پھرتا تھا، یہ کس کی ہمنامی کی برکت تھی کہ اناطولیہ کا ترک قسطنطنیہ کی دیواروں کو پھاند گیا۔ یہ کیا تھا؟
اس نے دعویٰ کیا تھا اور یہی اس کی زندگی کا مقصد تھا کہ محسوس قوتوں کا انکار کرے اور جو قوت غیب میں چھپی ہوئی ہے، نظام کائنات کو اسی کے ساتھ وابستہ کرے۔ اس نے دعویٰ کیا اور نہایت بلند آہنگی سے دعویٰ کیا اور خود اس کی دلیل بن کر دنیا کے سامنے آیا، کیونکہ قیاسی حجتوں کا زمانہ نکل چکا تھا، مشاہدات اور تجربات کا وقت آرہا تھا، پس اس عہد کے جو پیغمبر تھے (ﷺ) ان کا دعویٰ بھی تخمینی مقدمات سے نکالے ہوئے نتائج پر مبنی نہ تھا بلکہ کھلا ہوا تجربہ، صاف اور واضح مشاہدہ پر اس کی بنیاد کھڑی کی گئی، دنیا نے دعویٰ کو سنا اور دلیل کو دیکھا، پھر ان میں کس کے ہوش قائم رہے، کلیسا میں تزلزل پیدا ہوا، لوتھر نے ایک ضربِ شدید سے یورپی تنظیم کی بنیادوں کو ہلا دیا، وہ خود بنایا نہیں، لیکن قصر تثلیث کے ایک اہم حصہ کو اس نے اپنے ہاتھوں برباد کر دیا، کیا کوئی اس کا منکر ہو سکتا ہے کہ تثلیث کی یہ جزئی شکست اسی دعویٰ اور دلیل کا نتیجہ تھی جس کی ابتدا عرب سے ہوئی اور کیا ان ہی میں جو یونٹی (Unity) پر آج خطبہ دے رہے ہیں وہ عالم کے اس سب سے بڑے انسان کے احسان سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔؟
شراب پر احتساب قائم کرنے والو دیکھو! حق سے آنکھیں بند نہ کرو۔ ترکستان میں کبیر کیوں پیدا ہوئے، نانک کس دباؤ سے بے چین ہوئے، رام موہن رائے کس کی گرفت سے مضطرب تھے اور آج ہندوستان کے طول و عرض میں وہ جو جماعت نظر آتی ہے جسے اسلام سے عداوت کا دعویٰ ہے، لیکن اسی کے ساتھ وہ بت شکنی میں بھی مصروف ہے، کیا اس عملی فرمانبردار ذہنی نافرمان فرقہ کو اس دعوے کے اثر سے آزاد کہہ سکتے ہیں؟ دیا نندیوں کو ذرا غور کرنا چاہئے۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں