تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 18


 تدبر سورۃ الرحمن 


از استاد نعمان علی خان


پارٹ 18 آیات(28-29)


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم

  

   يَسۡـَٔلُهُ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ ۚ 

        كُلَّ يَوۡمٍ هُوَ فِى شَأۡنٍ 

       فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ


 آسمان اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب اسی سے مانگتے ہیں۔ وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے.

تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی قدرتوں / طاقتوں / نعمتوں کا انکار کرو گے ؟


اس سے  پچھلی آیت ہم نے پڑھا تھا کہ جب دنیا کی ہر چیز فنا ہو جائے گی ،صرف اللہ کی ذات ہی باقی رہے گی تو اس کا مطلب ہے کہ انسان کو مان لینا چاہیے کہ وہ کچھ نہیں ہے ،وہ اللہ کا محتاج ہے، اس میں انا  کے بجائے عاجزی آجانی چاہیے، کہ وہ صرف اور صرف اللہ کا ہی محتاج ہے ،

اگلی آیت میں اللہ نے فرمایا 

"جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اسی سے مانگتا رہتا ہے  اور وہ ہر وقت کسی ایسے کام میں مشغول ہے جو صرف وہی کرسکتا ہے ۔"


"شآن" کا مطلب ہے کوئی ایسا کام جو صرف آپ ہی کرسکتے ہیں اور کوئی نہیں کر سکتا۔


اب اس بات کا کیا مفہوم ہے؟ پہلی بات تو یہ کہ ہر کوئی تو اللہ سے نہیں مانگ رہا ہوتا۔ کافر تو نہیں مانگتا ،ہندو اپنے بتوں سے مانگتے ہیں، عیسائی کسی اور سے مانگتے ہیں ، ملحد تو کسی سے بھی نہیں مانگتا ، فرعون نے کس سے مانگا تھا؟

جب اللہ کہہ رہا ہے کہ جو کچھ بھی آسمان اور زمین میں ہے سب "اسی" سے مانگ رہا ہے ، تو اس سے دو باتیں نکلتی ہیں ۔۔


عربی میں لفظ "سائل" سوال کرنے والے کو ہی نہیں بلکہ "محتاج "کو بھی کہتے ہیں یعنی یہاں کہا گیا ہے کہ جو کچھ بھی آسمان اور زمین میں ہے وہ سب اللہ کے محتاج ہیں۔


 ہمارا دل اللہ سے اگلی دھڑکن کی بھیک مانگ رہا ہے ہماری آنکھوں کو دیکھنے کے لیے ہر لمحہ اللہ کی مدد کی ضرورت ہے ۔

 

كُلَّ يَوۡمٍ هُوَ فِى شَأۡنٍ 


ہر لمحے اللہ ہی وہ سب کچھ کر رہا ہے جِسے وہی کرسکتا ہے اگر ہمارے پاس دولت، پیسہ، شہرت، رتبہ ہو لیکن صحت نہ ہو تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟

ہماری بولنے دیکھنے چلنے کی صلاحیت کو واپس لے جائے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔؟ ہماری آنکھ کان بازو ٹانگ  واپس لے جائے تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟

 ہمارا ذہنی توازن نہ رہے گا ہم کس کام کے رہ جائیں گے؟ ہمارا دماغ اتنا ملائم ہے کہ اگر  اسے ٹرک کی ٹکر لگے اور معاملہ ختم ۔

سیڑھیوں سے گر جائیں دماغ کو چوٹ لگ جائے سارے انا ساری طاقت سارا مقام ایک بار میں ختم۔


یہ اصل میں کہا جا رہا ہے کہ تم کتنے محتاج ہو اور  جیسا خیال  اللّه  تمہارا رکھتا ہے اور کوئی نہیں رکھ سکتا۔ یہ اس کی رحمت ہے اور ماں کی محبت سے تھوڑا سا مقابلہ ہے  اسکی محبّت کا۔


کچھ بچے ماں کا اتنا دل دکھاتے ہیں کہ ماں کہتی ہے کہ میں اپنے بیٹے کو دیکھنا ہی نہیں چاہتی میں ہے اور اس سے ملنا نہیں چاہتی۔

 لیکن اللہ کا بندہ اس کو بھولتا ہے؟ اس کی نافرمانی ناشکری ناقدری کرتا ہے ۔ کبھی کبھار اس کو کوستا بھی ہے لیکن اللہ پھر بھی اپنے بندے کو نہیں چھوڑتا ۔جب تک سانسیں باقی ہیں واپس آنے کا موقع دیا ہوا ہے جتنے بھی دور نکل جاؤ واپس آنے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔

 

ہمیں جب کوئی ایک بار دکھ دے تو اس کو معاف کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اللہ ہمیں بار بار موقع دیتا ہے اللہ تو ان لوگوں کو بھی سانس دیتا ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کررہے تھے ۔۔ جو جنگ میں رسول اللہ ؐ کے مخالف کھڑے ہیں ۔ان کے قتل کی سازشیں کر رہے ہیں۔


 ان لوگوں کی بھی ضروریات اللہ پوری کر رہا ہے ، ان کو بھی کھانا کھلا رہا ہے ،ایک نوالے میں ان کو ہارٹ اٹیک کو سکتا ہے پھر بھی ان کو سانس دے رہا ہے ان سب باتوں کو اگر ہم الرحمان کے سائے میں نہیں سمجھیں گے تو کیسے سمجھیں گے؟

 

 الرحمٰن (o) كُلَّ يَوۡمٍ هُوَ فِى شَأۡنٍ 


یہ رحمان ہی تو ہے جو بار بار موقع دیا جا رہا ہے اب تم اس کس بات کا انکار کرو گے کس طاقت، معجزے ، قدرت کا انکار کرو گے؟

 کہ تم کہاں اور تمہارا رب کہاں ہے تم کیا حرکتیں کر رہے ہو اور تمہارا رب تمہارے ساتھ کیا سلوک کررہا ہے۔


 کچھ مفسرین اس آیت کے زمرے میں ایک مثال دی ہے 


 ایک کتا ہے وہ اپنے مالک کے خلاف باغی ہو جاتا ہے وہ مالک پر بھونکتا اور کاٹتا ہے، مالک اس کتے کو باہر سورج میں باندھ دیتا ہے، دو دن گزرتے ہیں نہ اس کو پانی ملتا ہے، نہ کھانا ملتا ہے، پہلے مالک جب گھر سے نکلتا ہے ،تو کتا دانت نکلتا ہے اور کاٹنے کو آتا ہے۔

 جب وہ کتا بالکل پیار سا اور بھوکا مرنے لگتا ہے تو اس کی حالت کیا ہو جاتی ھے؟ پاؤں آگے کو نکل آتے ہیں اور سر زمین پر جھک جاتا ہے پھر اگر مالک اپنے ہاتھ سے پانی پلائے تو چپ چاپ  پانی پینے لگتا ہے۔ کوئی بغاوت کوئی غصہ ،کوئی اکڑ،   نہیں کرتا، چپ چاپ پی رہا ہے یہ کیسے ہوا؟

جب کوئی باغی "محتاج" بن جائے تو اس کی ساری بغاوت نکل جاتی ہے اللہ بھی کہہ رہا ہے کہ تمہاری ساری ضروریات  "میں" پوری کر رہا ہوں۔


 اگر میں چاہتا کہ تمہیں تمہاری اوقات دکھا دو تو میں کیا کرتا؟

تھوڑی دیر کے لئے تمہاری ضرورتیں روک دیتا۔ اگر میں چاہتا تو تمہارا پانی زمین میں خشک  کر دیتا پھر کون تمہیں پانی لگا دیتا میں آسمان سے بادل  برسانا بند کر دو تو تم کیا کرو گے؟

اللہ بتا رہا ہے کہ اس کے ہاتھ میں ہمارے یہ سارے Resources  ہیں جن کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے لیکن وہ ہم سے یہ چیزیں نہیں چھینتا۔


 وہ اور طریقے سے ہمیں سیدھا کرنا چاہتا ہے .اس طریقے سے جانور کو سیدھا کیا جاتا ہے ہم انسان ہیں ، ہمیں  الفاظ کے ذریعے سیدھا کرنا ہے، تمہیں قرآن کے ذریعے سیدھا کرنا ہے، اللہ کہہ رہا ہے کہ دیکھو آرام سے سمجھا رہا ہوں سمجھ جاؤ انسان بن جاؤ یعنی شکر گزار بن جاؤ ۔ !!


اس ساری سورت کا Main Theme یہی ہے کہ ہم "شکر گزار" بن جایں۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں