قرآن فہمی سیریز --- 08


 قرآن فہمی سیریز


از ڈاکٹر فرحت ہاشمی


دوسروں کو حکم دینا اور خود کو بھول جانا 


سورہ البقرہ آیت ۴۴ میں اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں۔ 


اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ 

کیا تم حکم دیتے ہو لوگوں کو نیکی کا اور اپنے نفسوں کو بھول جاتے ہو۔ حالانہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔ کیا بھلا نہیں تم عقل رکھتے۔ 


اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالی بنی اسرائیل سے مخاطب ہیں کہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ یعنی جو باتیں دوسروں کو کرنے کا حکم دیتے ہو اس پر خود عمل نہیں کرتے۔ حالانکہ تورات پڑھتے ہو۔ 


یہاں بالخصوص بنی اسرائیل کے علماء سے خطاب ہے اور بالعموم تمام لوگوں سے خطاب ہے۔ اور یہ حکم صرف بنی اسرائیل کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ہمارے لیے بھی سبق ہے۔ مثلا:

اگر ہم بچوں کو نماز پڑھنے کا کہیں اور خود ٹی-وی کے آگے بیٹھے رہیں تو ہم بچوں کے سامنے انتہائی غلط مثال پیش کرتے ہیں کہ ہم جو دوسروں کو کہہ رہے ہیں وہ خود ہی نہیں کر رہے۔

ہمارے گھروں میں ویسے قرآن کھلتا نہیں لیکن بچوں کے لیے ناظرہ پر زور ہوتا ہے۔ 

ہم بچوں سے کہتے ہیں چیخو نہیں اور خود ہم ان پر ہی چیخ رہے ہوتے ہیں۔

ہم بچوں سے کہتے ہیں اپنے بہن بھائیوں کو مارو نہیں جبکہ ہم خود بچوں کو مار رہے ہوتے ہیں۔


ابن عباس کہتے ہیں مدینہ کے یہود میں ایک شخص اپنے داماد اور رشتہ داروں میں سے جس کسی کا مسلمانوں سے تعلق ہوتا وہ اس کو کہتا کہ جس دین پر قائم ہو ثابت قدمی سے قائم رہو۔ اس سے مراد یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حق پر ہیں لیکن وہ خود مسلمان نہیں ہوتا تھا۔ 


اسی طرح دوسرا واقعہ یہودی بچے کا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا۔ وہ بچہ بہت بیمار ہوگیا۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اسلام کی دعوت دی۔ بچے نے اپنے والد کی طرف دیکھا۔ والد نے کہا کہ مان لو جو کہہ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو کلمہ پڑھوادیا اور وہ مسلمان ہوگیا اور پھر فوت ہوگیا لیکن اس کے والد نے اسلام قبول نہیں کیا۔ 


اس لیے کسی بھی صاحب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ جو دوسروں کو کہے اس پر وہ خود بھی عمل کرے۔ کیونکہ اس آیت میں ایسے لوگوں کی مذمت بیان کی گئی ہے جو دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ 


ایسے لوگ عقل والے نہیں ہوتے۔  علم ہونے کے باوجود عمل نہ کرنے والے جاہل سے بھی بد تر ہیں۔ 


جو لوگ نیکی کا حکم دیں اور خود اس پر عمل نہ کریں اس کی سزا مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو کہا گیا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب اور واعظ اور عالم ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے تھے مگر خود عمل نہیں کرتے تھے اور علم کے باوجود سمجھتے نہیں تھے۔ 


اسی طرح قیامت کے دن پانچ سوالوں میں سے ایک سوال علم کے بارے میں ہوگا کہ ہم نے علم  پر کتنا عمل کیا۔ 


سوال: اگر کوئی شخص کچھ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو کیا وہ دوسروں کو کہہ سکتا ہے۔؟

مثلا ایک شخص بیمار ہے خود تہجد نہیں پڑھ سکتا لیکن کیا وہ دوسروں کو بتا سکتا ہے؟ 

کسی کے پاس مال نہیں ہے کیا وہ دوسروں کو زکاۃ کے بارے میں بتاسکتا ہے؟

جواب: جی بتایا جاسکتا ہے کیونکہ پہلی مثال میں وہ شخص خود کمزور ہے۔ اور دوسری مثال میں اس کے خود کے پاس مال نہیں ہے۔ 


سوال: اگر کوئی شخص کسی گناہ کو چھوڑنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے لیکن وہ دیکھتا ہے کہ اس کا بچہ بھی اس کا عادی ہورہا ہے تو کیا وہ اپنے بچے کو روک سکتا ہے؟

جواب: جی روک سکتا ہے کیونکہ وہ  اس گناہ کو چھوڑنے کے لیے اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہا ہے۔ 


سوال: کیا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی کو کچھ بھی نہ کہیں کیونکہ ہم خود عمل نہیں کرتے؟

جواب: اگر ہم نے کسی کو کسی چیز سے کرنے سے نہ روکا تو ہمارے لیے دگنا گناہ ہے۔ پہلا خود عمل نہ کرنے کا اور دوسرا دوسرے کو نہ بتانے کا۔ 


ہمیں یہ بات رکھنی ہے کہ  ہمارے اوپر دونوں فریضے ہیں۔ پہلا یہ کہ جب ہم کوئی حکم سنیں تو خود اس پر عمل کریں۔ اور دوسرا دوسروں کو بھی بتائیں۔ 

یعنی ہم جب خود عمل کریں گے تو پچاس فیصد کام کریں گے اور جب ہم عمل کرنے کے ساتھ دوسروں کو بھی بتائیں گے تو سو فیصد کام  کریں گے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم سو فیصد کام کریں۔ 


ہمارے کرنے کا کام:

جب بھی کوئی حکم سنیں تو اس پر خود عمل کریں اور دوسروں کو بھی بتائیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں