سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی انقلابی حکمتِ عملی


سیرت النبی کریم ﷺ

رسول اللہ ﷺ کی انقلابی حکمتِ عملی


فلسفے کا دائرہ ہمیشہ فکر کا دائرہ ہے، فلسفی کو عملی زندگی اور تاریخ کے مدّو جزر سے براہِ راست واسطہ نہیں ہوتا، وہ واقعات و احوال سے نتائج تو نکالتا ہے، لیکن واقعات و احوال کا رُخ بدلنے کے لیے کسی عملی جدوجہد میں حصہ نہیں لیتا، مذہب (مروجہ محدود معنوں میں) ذرا سا آگے بڑھتا ہے، وہ کچھ اعتقادات دینے کے ساتھ ساتھ فرد کو تمدّن سے الگ کر کے اسے ایک اخلاقی تعلیم بھی دیتا ہے، لیکن مذہب کا راستہ نظامِ اجتماعی سے باہر باہر ہوکے گزرتا ہے اور وہ نہ سیاسی ہیئت سے کوئی تعرض کرتا ہے، نہ معاشرے کے ادارات میں کوئی جامع تبدیلی چاہتا ہے، اور نہ وقت کی قیادت کو چیلنج کرتا ہے۔

مذہب کی دعوت ہمیشہ وعظ کے اسلوب پر ہوتی ہے، واعظ نے نرم و شیریں انداز سے کچھ نصیحتیں کیں اور اپنا رستہ لیا۔ اسے نہ اس کی فکر کہ اس کے مخاطب حالات کے کس قفس میں گرفتار ہیں، نہ اس کی پرواہ کہ کون سے طبقے اور عناصر کن اقدامات اور سرگرمیوں سے لوگوں کے ذہن و کردار کو کس رُخ پر لے جارہے ہیں، نہ اس طرف توجہ کہ روزمرہ حالات و واقعات کی رُو کیا اثرات چھوڑ رہی ہے، نہ یہی کاوش کہ میرے وعظ کے حق میں اور اس سے خلاف کیا کیا افکار ونظریات کس کس جانب سے کتنا اثر ڈال رہے ہیں، نہ یہ پیشِ نظر کہ میرے مذہبی سانچے میں ڈھلنے والے متقی ترین افراد کیسے نظامِ تمدن کے پُرزے بنے ہوئے ہیں، کوئی اجتماعی نصب العین نہیں ہوتا، تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا، کسی سیاسی اور قائدانہ بصیرت کی ضرورت نہیں ہوتی، زندگی کے ایک چھوٹے سے خانے میں جزوی نیکی پیدا کرنے کے لیے جو کچھ بن آیا کردیا اور بقیہ وسیع دائرے میں بدی اپنا جھنڈا اطمینان سے لہراتی رہے، کسی اللہ والے کو اس سے کیا مطلب!

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو ایک فلسفی تھے کہ محض چند اُونچے اور گہرے خیالات دے دیتے، اور واقعاتی احوال سے تعرض نہ کرتے، اور نہ ایک واعظ تھے جو اجتماعی فساد سے آنکھیں بند کر کے محض فرد کو مخاطب بناتے اور ٹھنڈے اور میٹھے وعظ سنایا کرتے اور نتائج پر سرے سے سوچا ہی نہ کرتے، انسانیت کے اس محسن نے پورے تمدنی شعور کے ساتھ حیاتِ انسانی کی کامل تبدیلی پیشِ نظر رکھی، ان قوتوں اور عناصر کو پہچانا جو نظامِ حیات پر حاوی تھیں، اس قیادت کو زیر نظر رکھا جو جاہلی تمدن کی گاڑی چلا رہی تھی، اسے دلائل کے ساتھ دعوت بھی دی، اس پر تنقید بھی کی اور اسے چیلنج بھی کیا، تاریخ کے دھارے پر نگاہ رکھی، حالات و واقعات کی ایک ایک لہر پر توجہ دی، ہر واقعے کو قائدانہ بصیرت اور سیاسی شعور کے ساتھ دیکھا کہ وہ کس پہلو سے اصلاح کی مہم کے لیے مفید ہے اور کس پہلو سے خلاف جاتا ہے، معاشرے کے جملہ عناصر پر توجہ رکھی کہ دعوت کے لیے کس موقع پر کس سے کیا اُمیدیں کی جاسکتی ہیں، اپنی قوت اور رفتار کو حریفوں کی قوت و رفتار کے مقابل میں ملحوظ رکھا، ہراقدام کے لیے صحیح ترین وقت کا انتظار صبر سے کیا اور جب موزوں گھڑی آگئی تو جرأت سے قدم اُٹھا دیا، رائے عامہ کے ہر مدّوجزر کا کامل فہم حاصل کیا اور مخالفین کے ہر پروپیگنڈے کا مقابلہ کرکے ان کے اثرات کو توڑا، شعر اور خطابت کے مخالفانہ محاذ قائم ہوئے تو ان کے جواب میں اپنے شعراء اور خطیبوں کو کھڑا کیا، اپنے اصولوں کی کڑی پابندی کی، مگر آنکھیں بند کرکے نہیں، بلکہ احوال و ظروف کو دیکھا، وقت کی مصلحتوں کو سمجھا اور حکیمانہ نقطۂ نگاہ اختیار کیا، جہاں قدم آگے بڑھانے کا موقع ملا آگے بڑھایا، آگے بڑھنا جب موزوں نہ دیکھا تو قدم روک لیا، دو بلائیں سامنے آگئیں تو ایک سے بچ کر دوسری کا مقابلہ کیا، جنگی کارروائی کی ضرورت پڑی تو دریغ نہیں کیا، مصالحت کی راہ ملی تو دستِ صلح بڑھا دیا اور پھر کمال یہ کہ اس ساری جدوجہد میں خدا پرستی کی روح اور اخلاقی اقدار کا نہ صرف تحفظ کیا، بلکہ ان کو مسلسل نشوونما دی، اس پورے نقشۂ کار اور اس پورے طریق کار کو اگر قرآن اور سیرتِ پاک کے اوراق سے اخذ کر کے سامنے رکھیے تو وہ فرق بیّن طور پر معلوم ہوجائے گا جو مذہب اور دین میں، وعظ اور انقلابی دعوت میں، انفرادی تزکیے اور تمدنی تحریک میں ہوتا ہے۔

حضور ﷺ نے چونکہ ایک مکمل دین کو برپا کرنے کے لیے تحریک برپا کی تھی، اس لیے آپؐ نے ایک ایک کرکے سلیم الفطرت افراد کو تلاش کیا، پھر جس کے سینے میں بھی کلمۂ حق کی شمع روشن ہوگئی اسے ایک تنظیم میں پرو دیا، اس کی تربیت کی، اسے اپنے ساتھ کش مکش کی بھٹی میں ڈالا اور پھر جس مرحلے میں جتنی منظم قوت حاصل تھی، اُسے اپنی قیادت کے تحت جاہلی نظام کے خلاف معرکہ آرا کیا، فکری میدان میں بھی، سیاسی میدان میں بھی اور بالآخر جنگ کے میدان میں بھی۔

جو لوگ حضور ﷺ کے گرد جمع ہوئے، ان کو آپؐ نے صوفی اور درویش نہیں بنایا، راہبوں اور جوگیوں کے نقشے پر نہیں ڈھالا، بدی سے بھاگنے اور غالب قوتوں سے خوف کھانے اور دولت و اقتدار سے مرعوب ہونے والی ذہنیت انہیں نہیں دی۔

وہ لوگ بھولے بھالے اور معذورانہ شان کے زہّاد نہیں تھے، وہ جری اور بے باک، باشعور اور بصیرت مند، خود دار اور غیور، ذہین اور زیرک، فعّال اور متحرک، پیش رُو اور تیزگام تھے، وہ پادریوں اور سادھوؤں کے سے انداز نہیں رکھتے تھے، بلکہ کارفرما بننے کی صلاحیتوں سے آراستہ تھے۔

بہترین فطرت کے لوگ بہترین تربیت پا کر، بہترین تنظیمی رشتے سے بندھ کر اور بہترین قیادت کے ہاتھوں میں جاکر ایک ناقابلِ شکست قوت بن گئے، یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے ایک چھوٹی سی اقلیت میں ہونے کے باوجود سارے عرب کی عظیم ترین اکثریت کو اپنے سایے میں لے لیا، جب مکّہ میں اسلامی جماعت کی تعداد ۴۰ تھی تو مکّہ اور اردگرد کی آبادیوں میں اس تعداد نے ایک ہمہ وقتی مدّوجزر پیدا کردیا اور پھر برسوں تک گھرگھر اور کوچہ کوچہ اگر کوئی موضوعِ گفتگو تھا تو وہ حضور ﷺ کی اسلامی دعوت تھی، مدینہ میں جاکر ابھی تحریکِ اسلامی کے علَم برداروں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی کہ غیرمسلم اکثریت کے علی الرغم اسلامی ریاست کی ِنیو ڈال دی گئی۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں