سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ کھانا، پینا اور نشست وبرخاست




کھانا، پینا اور نشست وبرخاست:

کھانے پینے کا ذوق بہت نفیس تھا، گوشت سے خاص رغبت تھی، زیادہ ترجیح دست، گردن اور پیٹھ کے گوشت کو دیتے، نیز پہلو کی ہڈی پسند تھی، ثرید (گوشت کے شوربہ میں روٹی کے ٹکڑے بھگو کر یہ مخصوص عربی کھانا تیار کیا جاتا تھا) تناول فرمانا مرغوب تھا، پسندیدہ چیزوں میں شہد، سرکہ، خربوزہ، ککڑی، لوکی، کھچڑی، مکھن وغیرہ اشیاء شامل تھیں، دودھ کے ساتھ کھجور (بہترین مکمل غذا بنتی ہے) کا استعمال بھی اچھا لگتا اور مکھن لگا کے کھجور کھانا بھی ذوق میں شامل تھا، کھرچن (تہ دیگی) سے بھی انس تھا، ککڑی نمک لگا کر اور خربوزہ شکر لگا کر بھی کھاتے، مریضوں کی پرہیزی غذا کے طور پر حریرا کو اچھا سمجھتے اور تجویز بھی فرماتے، میٹھا پکوان بھی مرغوب خاص تھا، اکثر جو کے ستو بھی استعمال فرماتے۔

ایک مرتبہ بادام کے ستو پیش کئے گئے تو یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ امراء کی غذا ہے، گھر میں شوربہ پکتا تو کہتے کہ ہمسایہ کے لئے ذرا زیادہ بنایا جائے، پینے کی چیزوں میں نمبر ایک میٹھا پانی تھا اور بطور خاص دو روز کی مسافت سے منگوایا جاتا، دودھ، پانی ملا دودھ (جسے کچی لسی کہا جاتا ہے) اور شہد کا شربت بھی رغبت سے نوش فرماتے، غیر نشہ دار نبیذ بھی قرین ذوق تھی، افراد کا الگ الگ بیٹھ کر کھانا ناپسند تھا، اکٹھے ہوکر کھانے کی تلقین فرمائی، سونے چاندی کے برتنوں کو بالکل حرام فرما دیا تھا، کانچ، مٹی، تانبہ اور لکڑی کے برتنوں کو استعمال میں لاتے رہے، دستر خوان پر ہاتھ دھونے کے بعد جوتا اتار کر بیٹھتے، سیدھے ہاتھ سے کھانا لیتے اور اپنے سامنے کی طرف سے لیتے، برتن کے وسط میں ہاتھ نہ ڈالتے، ٹیک لگا کر کھانا پینا بھی خلاف معمول تھا، دو زانو یا اکڑوں بیٹھتے، ہرلقمہ لینے پر بسم اللہ پڑھتے، ناپسندیدہ کھانا بغیر عیب نکالے خاموشی سے چھوڑ دیتے، زیادہ گرم کھانا نہ کھاتے، کھانا ہمیشہ تین انگلیوں سے لیتے اور ان کو لتھڑنے نہ دیتے، دعوت ضرور قبول فرماتے اور اگر اتفاقاً کوئی دوسرا آدمی (بات چیت کرتے ہوئے یا کسی اور سبب سے) ساتھ ہوتا تو اسے لیتے جاتے، مگر صاحب خانہ سے اس کے لئے اجازت لیتے، مہمان کو کھانا کھلاتے تو بار بار اصرار سے کہتے کہ اچھی طرح بے تکلفی سے کھاؤ، کھانے کی مجلس سے بہ تقاضائے مروت سب سے آخر میں اٹھتے، دوسرے لوگ اگر پہلے فارغ ہوجاتے تو ان کے ساتھ آپ ﷺ بھی اٹھ جاتے، فارغ ہوکر ہاتھ ضرور دھوتے، دعا کرتے جس میں خدا کی نعمتوں کےلئے ادائے شکر کے کلمات ہوتے، نیز طلب رزق فرماتے اور صاحب خانہ کے لئے برکت چاہتے۔

کھانے کی کوئی چیز آتی تو حاضر دوستوں کو باصرار شریک کرتے اور غیر حاضر دوستوں کا حصہ رکھ دیتے، پانی غٹ غٹ کی آواز نکالے بغیر پیتے اور بالعموم تین بار پیالہ منہ سے الگ کرکے سانس لیتے اور ہر بار آغاز" بسم اللہ" اور اختتام " الحمد للہ والشکرللہ" پر کرتے، عام طریقہ بیٹھ کر پانی پینے کا تھا، پینے کی چیز مجلس میں آتی تو بالعموم داہنی جانب سے دور چلاتے اور جہاں ایک دور ختم ہوتا دوسرا وہیں سے شروع کرتے، بڑی عمر کے لوگوں کو ترجیح دیتے مگر داہنے ہاتھ والوں کے مقررہ استحقاق کی بناء پر ان سے اجازت لےکر ہی ترتیب توڑتے، کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک مارنا یا ان کو سونگھنا نا پسندتھا، کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھانکنے کا حکم دیا ہے، کوئی نیا کھانا سامنے آتا تو کھانے سے پہلے اس کا نام معلوم فرماتے، زہر خورانی کے واقعہ کے بعد معمول ہوگیا تھا کہ اگر کوئی اجنبی شخص کھانا کھلاتا تو پہلے ایک آدھ لقمہ خود اسے کھلاتے۔

نشست وبرخاست:

کبھی اُکڑوں بیٹھتے، کبھی دونوں ہاتھ زانوؤں کے گرد حلقہ زن کرلیتے، کبھی ہاتھوں کے بجائے کپڑا (چادر وغیرہ) لپیٹ لیتے، بیٹھے ہوئے ٹیک لگاتے تو بالعموم الٹے ہاتھ پر، فکر یا سوچ کے وقت بیٹھے ہوئے زمین کو لکڑی سے کریدتے، سونے کے لئے سیدھی کروٹ سوتے اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر داہنا رخسار پر رکھ دیتے، کبھی چت بھی لیٹتے اور پاؤں پر پاؤں بھی رکھ لیتے، مگر ستر کا اہتمام رکھتے، پیٹ کے بل اور اوندھا لیٹنا سخت ناپسند تھا اور اس سے منع فرماتے تھے، ایسے تاریک گھر میں سونا پسند نہ تھا جس میں چراغ نہ جلایا گیا ہو، کھلی چھت پر جس کے پردے کی دیوار نہ ہو سونا اچھا نہ سمجھتے، وضو کرکے سونے کی عادت تھی اور سوتے وقت مختلف دعائیں پڑھنے کے علاوہ آخری تین سورتیں (سورۂ اخلاص اور معوذتین) پڑھ کر بدن پر دم کرلیتے، سوتے ہوئے ہلکی آواز سے خراٹے لیتے، رات میں قضائے حاجت کے لئے اٹھتے تو فارغ ہونے کے بعد ہاتھ منہ ضرور دھوتے، سونے کے لئے ایک تہ بند علیحدہ تھا، کرتا اتار کر ٹانگ دیتے۔



*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کھانا، پینا اور نشست وبرخاست: کھانے پینے کا ذوق بہت نفیس تھا، گوشت سے خاص رغبت تھی، زیادہ ترجیح دست، گردن اور پیٹھ کے گوشت کو دیتے، ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ میل جول کی زندگی




میل جول کی زندگی:

آپ ﷺ کا معمول تھا کہ راستہ میں ملنے والوں سے سلام کہتے اورسلام کہنے میں پہل کرتے، کسی کو پیغام بھجواتے تو ساتھ سلام ضرور کہلواتے، کسی کو سلام پہنچایا جاتا تو بھیجنے والے کو بھی اور لانے والے کو بھی جدا جدا سلام کہتے۔ ایک بار لڑکوں کی ٹولی کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا، عورتوں کی جماعت کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا، گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور گھر سے نکلتے ہوئے گھر کے لوگوں کو بھی سلام کہتے، احباب سے معانقہ بھی فرماتے اور مصافحہ بھی، مصافحہ سے ہاتھ اس وقت تک نہ کھینچتے جب تک دوسرا خود ہی اپنا ہاتھ الگ نہ کرتا، مجلس میں جاتے تو اس امر کو ناپسند کرتے کہ صحابہ تعظیم کے لئے کھڑے ہوں، مجلس کے کنارے ہی بیٹھ جاتے، کندھوں پر سے پھاند کر بیچ میں گھسنے سے احتراز فرماتے، فرمایا: " اجلس کما یجلس العبد" (اسی طرح اٹھتا بیٹھتا ہوں جس طرح خدا کا بندہ اٹھتا بیٹھتا ہے۔) (روایت عائشہؓ)

اپنے زانو ساتھیوں سے بڑھا کر نہ بیٹھتے، کوئی آتا تو اعزاز کے لئے اپنی چادر بچھاتے، آنے والا جب تک خود نہ اٹھتا آپ مجلس سے الگ نہ ہوتے، کسی کی ملاقات کو جاتے تو دروازہ کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوکر اطلاع دینے اور اجازت لینے کے لئے تین مرتبہ سلام کہتے، جواب نہ ملتا تو بغیر کسی احساس تکدر کے واپس آجاتے، رات کو کسی سے ملنے جاتے تو اتنی آواز میں سلام کہتے کہ اگر وہ جاگتا ہو تو سن لے اور سورہا ہو تو نیند میں خلل نہ آئے۔

بدسلوکی کا بدلہ برے سلوک سے نہ دیتے، بلکہ عفو ودرگزر سے کام لیتے، بیماروں کی عیادت کو پابندی سے جاتے، سرہانے بیٹھ کر پوچھتے، کیف تجدک (تمہاری طبیعت کیسی ہے؟) جس کسی شخص کی وفات ہوجاتی تو تشریف لے جاتے، میت کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار فرماتے، صبر کی نصیحت کرتے اور چلانے اور آہ وبکا کرنے سے روکتے، تجہیز وتکفین میں جلدی کراتے، جنازہ اٹھتا تو ساتھ ساتھ چلتے، تلقین فرماتے کہ میت کے گھر والوں کے لئے لوگ پکواکر بھجوائیں۔

کوئی مسافر سفر سے واپس آتا اور حاضری دیتا تو اسے معانقہ کرتے، بعض اوقات پیشانی چوم لیتے، کسی کو سفر کے لئے رخصت فرماتے تو کہتے کہ بھائی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا، بچوں سے بہت دلچسپی تھی، بچوں کے سرپر ہاتھ پھیرتے، پیار کرتے، دعا فرماتے، ننھے بچے لائے جاتے تو ان کو گود میں لیتے، ان کو بہلانے کے لئے عجیب کلمے فرماتے۔

بوڑھوں کا احترام فرماتے، فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ صدیق اپنے ضعیف العمر والد کو (جو بینائی سے بھی محروم ہوچکے تھے) بیعت اسلام کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں لائے، فرمایا: انہیں کیوں تکلیف دی میں خود ان کے پاس چلا جاتا۔

مروت کی انتہاء یہ تھی کہ مدینہ کی ایک عورت جس کی عقل میں کچھ فتور تھا آتی ہے اور کہتی ہے کہ مجھے کچھ کہنا ہے، آپ ﷺ اسے فرماتے ہیں کہ تم چلو، کسی کوچہ میں انتظار کرو، میں ابھی آتا ہوں، چنانچہ اس کی بات جاکر سنی اور اس کا کام کرکے دیا، میل جول کی زندگی میں آپ کے حسن کردار کی تصویر حضرت انسؓ نے خوب کھینچی ہے، وہ فرماتے ہیں:

" میں دس برس تک حضور ﷺ کی خدمت میں رہا اور آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہ کہی، کوئی کام جیسا بھی کیا نہیں کہا کہ یہ کیوں کیا اور کوئی کام نہ کیا تو نہیں کہا کہ کیوں نہیں کیا، یہی معاملہ آپ کے خادموں اور کنیزوں کے ساتھ رہا، آپ ﷺ نے ان میں سے کسی کو نہیں مارا



*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

میل جول کی زندگی: آپ ﷺ کا معمول تھا کہ راستہ میں ملنے والوں سے سلام کہتے اورسلام کہنے میں پہل کرتے، کسی کو پیغام بھجواتے تو ساتھ سلا...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ آپ ﷺ کا بولنا اور چلنا




آپ ﷺ کا بولنا اور چلنا:

حضورﷺ کی چال عظمت، وقار، شرافت اور احساس ذمہ داری کی ترجمان تھی، چلتے تو مضبوطی سے قدم جما کر چلتے، ڈھیلے ڈھالے طریقے سے قدم گھسیٹ کر نہیں، بدن سمٹا ہوا رہتا، دائیں بائیں دیکھے بغیر چلتے، قوت سے آگے کو قدم اٹھاتے، قامت میں آگے کی طرف قدرے جھکاؤ ہوتا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اونچائی سے نیچے کو اتررہے ہیں، ہند بن ابی ہالہ کے الفاظ میں گویا زمین آپ کی رفتار کے ساتھ ساتھ لپٹتی جارہی ہے، رفتار تیز ہوتی، قدم کھلے کھلے رہتے، آپ معمولی رفتار سے چلتے مگر بقول حضرت ابوہریرہؓ ہم مشکل سے ساتھ دے پاتے، حضورﷺ کی رفتار یہ پیغام بھی دیتی جاتی تھی کہ " زمین میں گھمنڈ کی چال نہ چلو" (سورہ لقمان)

آپ ﷺ کا طرزِ تکلم:

حضور ﷺ کی امتیازی شان یہ تھی کہ آپ" جوامع الکلم" تھے خود فرمایا کہ" اعطیت بجوامع الکلم" جوامع الکلم حضور ﷺ کے وہ مختصر ترین کلمے ہیں جو معنوی لحاظ سے بڑی وسعت رکھتے ہیں، کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معانی پیش کرنے میں سرورعالم ﷺ اپنی مثال آپ تھے اور اسے خصوصی عطیات رب میں شمار کیا۔
چند مثالیں درج ذیل ہیں:

۱۔" المرءمع من احب"
آدمی کا حشر اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہو۔

۲۔" اسلم تسلم"
تم اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤگے۔

۳۔" انما الاعمال بالنیات"
اعمال نیتوں پر منحصر ہیں۔

۴۔" لیس للعامل من عملہ الامانواہ"
کسی عمل کرنے والے کو اپنے عمل میں بجز اس کے کچھ نہیں ملتا ہے جو کچھ کہ اس نے نیت کی ہے۔

۵۔" الولد للفراش وللعاھر الحجر"
بیٹا اس کا جس کے بستر پر (گھر میں) ولادت پائے اور زانی کیلئے پتھر۔


ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ

آپ ﷺ کا بولنا اور چلنا: حضورﷺ کی چال عظمت، وقار، شرافت اور احساس ذمہ داری کی ترجمان تھی، چلتے تو مضبوطی سے قدم جما کر چلتے، ڈھیلے ڈھ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ وضع قطع اور لباس مبارک





وضع قطع اور لباس مبارک:

آنحضرتﷺ پشمینہ پہنتے تھے اور پہننے کی چیزوں میں قطعاً تکلف نہیں فرماتے تھے اورجس وقت نیا کپڑا استعمال فرماتے:
" اللھم لک الحمد کما البستہ واسلک خیرہ وخیر ماوضع لہ" پڑھتے تھے، آپﷺ سفید لباس بےحد پسند فرماتے، سوت اورکتان کا لباس بھی کبھی کبھی پہن لیتےتھے، جبہ، قمیص، قبا، ازار، عمامہ، ٹوپی، چادر، حلہ، موزہ یہ سب آپ نے پہنے ہیں، سبز رنگ کی یمنی چادر آپ کو بے حد پسند تھی جو برد یمانی کے نام سے مشہور تھی، ایک چادر سے دو کونے اپنے شانوں کے درمیان باندھ کر نماز ادا فرماتے تھے اور دستار مبارک کا ایک سرا جس کو شملہ کہتے ہیں دونوں شانوں کے درمیان چھوڑ کر فرق مبارک پر عمامہ باندھتے تھے، ٹوپی بھی پہنا کرتے تھے اوراسے عمامہ کے نیچے پہننے کی تاکید کرتے تھے۔

وضع قطع اور آرائش:

حضور ﷺ اپنے بال بہت سلیقہ سے رکھتے، ان میں کثرت سے تیل کا استعمال فرماتے، کنگھا کرتے، مانگ نکالتے، لبوں کے زائد بال تراشنے کا اہتمام تھا، داڑھی کو بھی طول وعرض میں قینچی سے ہموار کرتے، اس معاملہ میں رفقاء کو تربیت دیتے۔ مثلا: ایک صحابی کو پراگندہ مو دیکھا تو گرفت فرمائی، ایک صحابی کی داڑھی کے زائد بال بہ نفس نفیس تراشتے، فرمایا کہ جو شخص سر یاداڑھی کے بال رکھتا ہو اسے چاہیے کہ ان کو سلیقہ اورشائستگی سے رکھے، سفر اورحضر میں ہمیشہ سات چیزیں ساتھ رہتیں اور بستر کے قریب:

۱۔ تیل کی شیشی
۲۔ کنگھا (ہاتھی دانت کا بھی)
۳۔ سرمہ دانی (سیاہ رنگ کی)
۴۔ قینچی
۵۔ مسواک
۶۔ آئینہ
۷۔ لکڑی کی ایک پتلی کھپچی۔

سرمہ رات کو سوتے ہوئے (تاکہ زیادہ نمایاں نہ ہو) تین تین سلائی آنکھوں میں لگاتے، آخر رات میں حاجات سے فارغ ہوکر وضو کرتے، لباس طلب کرتے اور خوشبولگاتے، ریجان کی خوشبو پسند تھی، مہندی کے پھول بھی بھینی خوشبو کی وجہ سے مرغوب تھے، مشک اور عود کی خوشبو سب سے بڑھ کر پسندیدہ رہی، گھر میں خوشبو دار دھونی لیا کرتے، ایک عطر دان تھا جس میں بہترین خوشبو موجود رہتی اور استعمال میں آتی، مشہور بات یہ ہے کہ آپ جس کوچہ سے گزر جاتے تھے دیر تک اس میں مہک رہتی تھی، خوشبو ہدیہ کی جاتی تو ضرور قبول فرماتے اورکوئی اگر خوشبو کا ہدیہ لینے میں تامل کرتا تو ناپسند فرماتے، اسلامی ثقافت کے مخصوص ذوق کے تحت آپ نے مردوں کیلئے ایسی خوشبو پسند فرمائی تھی جس کا رنگ مخفی رہے اورمہک پھیلے اور عورتوں کیلئے وہ جس کا رنگ نمایاں ہو، مہک مخفی رہے۔


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

وضع قطع اور لباس مبارک: آنحضرتﷺ پشمینہ پہنتے تھے اور پہننے کی چیزوں میں قطعاً تکلف نہیں فرماتے تھے اورجس وقت نیا کپڑا استعمال فرما...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ شمائلِ نبویﷺ اور متعلقات




شمائلِ نبویﷺ اور متعلقات:

سیرت نبوی کے اس سلسلے میں ہم حضور ﷺ کی زندگی کے صرف اہم واقعات کا ہی تذکرہ کرسکے ہیں، سیرت کا وہ حصہ جو تعلیمات سیرت پر مشتمل ہے جس کا تذکرہ مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے چھ جلدوں میں کیا ہے اس کو پیش کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہوسکا، اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ اس کو کتابوں سے ٹائپ کرنے کے لیے افرادی قوت اور وسائل کا نا ہونا تھی، ہمارے قارئین اس حصے کو سیرت کی بڑی کتابوں سے ملاحظہ فرما سکتے ہیں، ہماری پھر بھی کوشش ہے کہ کم از کم حضور ﷺ کی عادات/ شمائل کا کچھ نا کچھ تذکرہ ضرور پیش کردیں۔

ایک جامع لفظی تصویر:

یوں تو حضورﷺ کے متعدد رفقاء نے حضورﷺ کی شخصیت کے مرقعے لفظوں میں پیش کئے ہیں؛ لیکن اُم معبد نے جو تصویر مرتب کی ہے اس کا جواب نہیں، وادیٔ ہجرت کا سفر طے کرتے ہوئے مسافر حق جب اپنی منزل اول (غارثور) سے چلے تو پہلے ہی روز قوم خزاعہ کی اس نیک نہاد بڑھیا کا خیمہ راہ میں پڑا، حضور ﷺ اورآپ کے ہمرا ہی پیاسے تھے، فیضان خاص تھا کہ مریل سی بھوکی بکری نے اس لمحہ وافر مقدار میں دودھ دیا، حضورﷺ نے بھی پیا، ہمراہیوں نے بھی اور کچھ بچ رہا، اُم معبد کے شوہر نے گھر آکر دودھ دیکھا تو اچنبھے سے پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا؟ اُم معبد نے سارا حال بیان کیا، وہ پوچھنے لگا کہ اس قریشی کا نقشہ تو بیان کرو، یہ وہی تو نہیں جس کی تمنا ہے، اس پر ام معبد نے حسین ترین الفاظ میں تصویر کھینچی،اُم معبد کو نہ تو کوئی تعارف تھا نہ کسی طرح کا تعصب، بلکہ جو کچھ دیکھا من وعن کہہ دیا، اصل عربی میں دیکھنے کی چیز ہے، اس کا جو ترجمہ مولف" رحمۃ للعالمین" نے کیا ہے وہ حسب ذیل ہے:

" پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، نہ پیٹ باہر کو نکلا ہوا، نہ سر کے بال گرے ہوئے، زیبا، صاحب جمال، آنکھیں سیاہ فراغ، بال لمبے اور گھنے، آواز میں بھاری پن، بلند گردن، روشن مرومک، سرمگیں چشم، باریک وپیوستہ ابرو، سیاہ گھنگھریالے بال، خاموش وقار کے ساتھ، گویا دل بستگی لئے ہوئے، دور سے دیکھنے میں زیبندہ ودلفریب، قریب سے نہایت شیریں وکمال حسین، شیریں کلام، واضح الفاظ، کلام کمی وبیشی الفاظ سے مبرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی، زیبند ہ نہال کی تازہ شاخ، زیبندہ منظر والا قد، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گردوپیش رہتے ہیں، جب وہ کچھ کہتا ہے تو چپ چاپ سنتے ہیں، جب حکم دیتا ہے توتعمیل کے لئے جھپٹتے ہیں، مخدوم ،مطاع، نہ کوتاہ سخن نہ فضول گو۔"


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

شمائلِ نبویﷺ اور متعلقات: سیرت نبوی کے اس سلسلے میں ہم حضور ﷺ کی زندگی کے صرف اہم واقعات کا ہی تذکرہ کرسکے ہیں، سیرت کا وہ حصہ جو ت...

مسئلہِ تین طلاق



مسئلہِ تین طلاق

(مرتبہ: یوسف ثانی، مدیر: پیغام قرآن و حدیث)


 دین اسلام میں شوہر اپنی بیوی کو "تین مرتبہ" طلاق دینے کا شرعی حق رکھتا ہے۔ اس "تین مرتبہ" طلاق کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے۔


ا۔ پہلا نکاح کرنا ۔۔۔ پھر پہلی مرتبہ طلاق دینا

۲۔ پہلی طلاق کی عدت (یعنی تین حیض) کے اندر "رجوع" کرنا یا بعد از عدت دوسرا نکاح کرنا ۔۔۔ پھر دوسری مرتبہ طلاق دینا۔

۳۔ دوسری طلاق کی عدت کے اندر رجوع کرنا یا بعد از عدت تیسرا نکاح کرنا ۔۔۔ پھر تیسری مرتبہ طلاق دینا 


تین مرتبہ طلاق کے لئے، تین مرتبہ نکاح (یا متبادل رجوع) کرنا لازمی ہے۔


 اس "تیسری مرتبہ طلاق" کے بعد اب نہ تو مرد "رجوع" کرسکتا ہے اور نہ ہی چوتھی مرتبہ اسی سے نکاح کرسکتا ہے۔ اب عورت تیسری مرتبہ طلاق کی عدت گزار کر کسی اور مرد سے شادی کرسکتی ہے۔ اب اگر یہ دوسرا شوہر خدا نخواستہ انتقال کرجائے یا یہ بھی طلاق دے دے (طلاق لینے کی نیت سے نکاح کرنا حرام ہے۔حدیث) تب اس طلاق کی عدت گزار کر اپنے پہلے والے شوہر سے بھی چوتھا نکاح کرسکتی ہے۔ اسے اسلامی اصطلاح میں "حلالہ" کہتے ہیں۔


فقہ حنفی میں ایک ہی وقت میں ایک ساتھ تین طلاق دینے کو تین مرتبہ طلاق نافذ کردیا جاتا ہے، جو سنت کے سراسر خلاف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ایسا نہیں ہوا کرتا تھا۔ دو احادیث پیش ہیں، جن کی رو سے ایک ساتھ دی گئی  مبینہ "تین طلاق"، ایک طلاق ہی شمار ہوتی ہے۔ اہل حدیث علمائے کرام اسی کے مطابق فتوی دیتے ہیں۔ 


حدیث۔1: ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم، دور حضرت ابوبکر صدیق اور دور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پہلے دو برسوں تک (ایک ساتھ دی گئی) تین طلاقیں ایک طلاق ہوتی تھی۔ (مسلم)


حدیث۔2: حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت ابوصہباء رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  کے پاس آئے اور کہا: اے ابن عباس! کیا آپ جانتے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  کے دور مبارک میں‘ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے ابتدائی دور میں‘ ایک طلاق سمجھی جاتی تھیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔(نسائی۔3435)


طلاق کے بعد (یعنی طلاق کی عدت کی مدت گزرنے کے بعد) سابقہ شوہر سے نکاح ثانی کی اجازت بلکہ ترغیب خود اللہ تبارک تعالٰی نے ان الفاظ میں دی ہے:


 اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو، پھر ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو (سابقہ) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔ اگر دستور کے موافق آپس میں رضا مندی ہو جائے۔ (البقرۃ۔ ۲۹۹)


اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے جملہ معاملات قرآن و سنت کے مطابق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

ا================ا


ایک ساتھ تین طلاق دینے کے ایک طلاق ہونے کی عقلی دلیل یہ ہے:


طلاق کوئی چیز جیسے گیند وغیرہ نہیں ہے کہ ایک ساتھ تین یا زائد بھی دے دی جائے۔ یہ ایک عمل یعنی فعل کا نام ہے جیسے باؤلنگ ایک فعل ہے۔ باؤلنگ جیسا کوئی بھی عمل باری باری ہی سر انجام دیا جاسکتا ہے۔ یعنی پہلی مرتبہ باؤلنگ کی۔ پھر دوسری مرتبہ باؤلنگ کی پھر تیسری مرتبہ باؤلنگ  کی وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح پہلی مرتبہ طلاق دی، پھر دوسری مرتبہ طلاق دی، پھر تیسری مرتبہ طلاق دی۔ 


یا جیسے دن بھر میں "پانچ مرتبہ" نماز ادا کرنا فرض ہے۔ اب اگر کوئی نمازی نماز فجر کے وقت ہی ایک ساتھ ظہر، عصر، مغرب، عشاء کی فرض رکعتیں بھی ادا کرلے، تب بھی "پانچوں وقت کی نمازیں" ادا نہیں ہوں گی۔ بلکہ یہ "ایک ہی نماز" یعنی فجر کی پہلی نماز ہی ادا ہوگی۔ اضافی پڑھی گئی رکعتوں کا کوئی شمار نہیں ہوگا۔


ویسے بھی یہ تو کامن سینس کی بات ہے کہ طلاق منکوحہ کو دی جاتی ہے، کسی غیر منکوحہ یا مطلقہ کو نہیں دی جاسکتی۔ چنانچہ جب پہلی مرتبہ بیوی کو طلاق دی گئی تو وہ منکوحہ سے مطلقہ بن گئی اور عدت میں بیٹھ گئی۔ اب اس عدت والی مطلقہ سے رجوع کرکے اسے واپس بیوی (منکوحہ) تو بنایا جاسکتا ہے، لیکن اس مطلقہ (غیر بیوی) کو مزید طلاق کیسے دی جاسکتی ہے؟ شوہر اپنی منکوحہ کو تین مرتبہ طلاق (تین طلاقیں ایک ساتھ) نہیں دے سکتا ہے۔ ترتیب صرف یہی ہوسکتی ہے۔


1۔ نکاح ۔ طلاق ؛

 2۔نکاح (یا رجوع)۔ طلاق

 3۔ نکاح (یا رجوع) ۔ طلاق۔


نوٹ: پچھلے دنوں بھائی کا ایک دوست اپنی بیوی کو "ایک ساتھ تین طلاق" دے کر پچھتاتا رہا تھا۔ پھر ہم نے اسے سمجھایا کہ دوبارہ نکاح کرسکتے ہو۔ دونوں طرف کی فیملیز مصر تھیں کہ اب تو حلالہ کے بغیر نکاح ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر ہم نے دارالعلوم جامعہ ابوبکر، گلشن اقبال (جہاں کے بہت سے اساتذہ مدینہ اسلامک یونیورسٹی کے فاضل ہیں) سے باقاعدہ فتوی لے کر دیا۔ تب ان کی فیملیز مطمئن ہوئیں۔ اور دونوں کا نکاح ثانی ہوگیا الحمدللہ۔ یوں ایک گھر مستقل ٹوٹنے سے اور بچے رلنے سے بچ گئے۔ ثم الحمدللہ


(مرتبہ: یوسف ثانی، مدیر: پیغام قرآن و حدیث)


 نوٹ ثانی:


آج کل طلاق کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ غصہ ختم ہوجائے تو پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔ پھر کم علمی کے سبب یا تو ایک گھر ٹوٹ جاتا ہے، بچے رل جاتے ہیں یا پھر بعض مولویوں کے کہنے پر "حرام حلالہ" کے ذریعہ عورت پر ظلم کرواتے ہیں۔ ہمارے ایک جاننے والی فیملی میں ایسا ہی ایک تازہ ترین طلاق کا واقعہ پیش آیا تو ہم نے دونوں گھرانوں کو اوپر والا مراسلہ بھیج دیا اس امید پر کہ انہیں عقل آجائے اور دو گھرانے اور دو معصوم بچے رلنے سے بچ جائیں۔ یہ مراسلہ اپنے پاس محفوظ رکھ لیجئے۔ خدانخواستہ کسی جاننے والی فیملی میں ایسا کوئی سانحہ ہوجائے تو اس سے ان کی علمی مدد کی جاسکتی ہے۔

السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ

مسئلہِ تین طلاق (مرتبہ: یوسف ثانی، مدیر: پیغام قرآن و حدیث)  دین اسلام میں شوہر اپنی بیوی کو " تین مرتبہ " طلاق دینے کا شرعی حق رک...