سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 173


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 173

غزوۂ احزاب (جنگ خندق):

اس غزوہ کو غزوہ ٔخندق اس لئے کہتے ہیں کہ اس موقع پر خندق کھود کر مدینہ کی حفاظت کی گئی تھی، غزوۂ احزاب اس لئے کہتے ہیں کہ کفار، یہودی اور ان کے حلیف کئی حزب (گروہ) مسلمانوں کے خلاف جتھا بنا کر ایک ہو گئے تھے، حزب کی جمع احزاب ہے۔

پس منظر:

ایک سال سے زیادہ عرصے کی پیہم فوجی مہمات اور کارروائیوں کے بعد جزیزۃ العرب پر سکون چھا گیا تھا اور ہر طرف امن وامان اور آشتی وسلامتی کا دور دورہ ہوگیا تھا، مگر یہود کو جو اپنی خباثتوں، سازشوں اور دسیسہ کاریوں کے نتیجے میں طرح طرح کی ذلت ورسوائی کا مزہ چکھ چکے تھے، اب بھی ہوش نہیں آیا تھا اور انہوں نے غَدْر وخیانت اور مکرو سازش کے مکروہ نتائج سے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔

چنانچہ خیبر منتقل ہونے کے بعد پہلے تو انہوں نے یہ انتظار کیا کہ دیکھیں مسلمان اور بُت پرستوں کے درمیان جو فوجی کشاکش چل رہی ہے اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، لیکن جب دیکھا کہ حالات مسلمانوں کے لیے سازگار ہوگئے ہیں، گردشِ لیل ونہار نے ان کے نفوذ کو مزید وسعت دے دی ہے اور دور دور تک ان کی حکمرانی کا سکہ بیٹھ گیا ہے تو انہیں سخت جلن ہوئی، انہوں نے نئے سرے سے سازش شروع کی اور مسلمانوں پر ایک ایسی آخری کاری ضرب لگانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے جس کے نتیجے میں ان کا چراغِ حیات ہی گل ہوجائے، لیکن چونکہ انہیں براہ راست مسلمانوں سے ٹکر انے کی جرأت نہ تھی، اس لیے اس مقصد کی خاطر ایک نہایت خوفناک پلان تیار کیا۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنو نضیر کے بیس سردار اور رہنما مکے میں قریش کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف آمادۂ جنگ کرتے ہوئے اپنی مدد کا یقین دلایا، قریش نے ان کی بات مان لی، چونکہ وہ احد کے روز میدانِ بدر میں مسلمانوں سے صف آرائی کا عہد وپیمان کرکے اس کی خلاف ورزی کرچکے تھے، اس لیے ان کا خیال تھا کہ اب اس مجوزہ جنگی اقدام کے ذریعے وہ اپنی شہرت بھی بحال کرلیں گے اور اپنی کہی ہوئی بات بھی پوری کردیں گے۔

اس کے بعد یہود کا یہ وفد بنو غَطفان کے پاس گیا اور قریش ہی کی طرح انہیں بھی آمادۂ جنگ کیا، وہ بھی تیار ہوگئے، پھر اس وَفد نے بقیہ قبائل عرب میں گھوم گھوم کر لوگوں کو جنگ کی ترغیب دی اور ان قبائل کے بھی بہت سے افراد تیار ہوگئے، غرض اس طرح یہودی سیاست کاروں نے پوری کامیابی کے ساتھ کفر کے تمام بڑے بڑے گروہوں اور جتھوں کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی دعوت اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر جنگ کے لیے تیار کرلیا۔

اس کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق جنوب سے قریش، کنانہ اور تہامہ میں آباد دوسرے حلیف قبائل نے مدینے کی جانب کوچ کیا، ان سب کا سپہ سالارِ اعلیٰ ابوسفیان تھا اور ان کی تعداد چار ہزار تھی، یہ لشکر مَرّالظہران پہنچا تو بنو سلیم بھی اس میں آ شامل ہوئے، ادھر اسی وقت مشرق کی طرف سے غطفانی قبائل فزارہ، مرہ اور اَشجع نے کوچ کیا، فزارہ کا سپہ سالار عُیینہ بن حصن تھا، بنو مرہ کا حارث بن عوف اور بنو اشجع کا مسعر بن رخیلہ، انہیں کے ضمن میں بنو اسد اور دیگر قبائل کے بہت سے افراد بھی آئے تھے۔

ان سارے قبائل نے ایک مقررہ وقت اور مقررہ پروگرام کے مطابق مدینے کا رخ کیا تھا، اس لیے چند دن کے اندر اندر مدینے کے پاس دس ہزار سپاہ کا ایک زبردست لشکر جمع ہوگیا، یہ اتنا بڑا لشکر تھا کہ غالباً مدینے کی پوری آبادی (عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو ملا کر بھی) اس کے برابر نہ تھی، اس میں تین سو گھوڑے اور ایک ہزار پانچ سو اونٹ تھے، یہ لشکر تین مستقل فوجوں میں تقسیم تھا، غطفان کی فوجیں عینیہ بن حصن فزاری کی کمان میں تھیں جو عرب کا مشہور سردار تھا، بنو اسد طلیحہ کی افسری میں تھے اور ابوسفیان بن حرب سپہ سالار کل تھا۔

اگر حملہ آوروں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر مدینے کی چہار دیواری تک اچانک پہنچ جاتا تو مسلمانوں کے لیے سخت خطرناک ثابت ہوتا، کچھ عجب نہیں کہ ان کی جڑ کٹ جاتی اور ان کا مکمل صفایا ہوجاتا، لیکن مدینے کی قیادت نہایت بیدار مغزاور چوکس قیادت تھی، اس کی انگلیاں ہمیشہ حالات کے نبض پر رہتی تھیں اور وہ حالات کا تجزیہ کرکے آنے والے واقعات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ بھی لگاتی تھی اور ان سے نمٹنے کے لیے مناسب ترین قدم بھی اٹھاتی تھی، چنانچہ کفار کا لشکر عظیم جوں ہی اپنی جگہ سے حرکت میں آیا، مدینے کے مخبرین نے اپنی قیادت کو اس کی اطلاع فراہم کردی۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 173 غزوۂ احزاب (جنگ خندق): اس غزوہ کو غزوہ ٔخندق اس لئے کہتے ہیں کہ اس موقع پر خندق کھود کر مدی...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 172


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 172

غزوہ دومۃ الجندل:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر سے واپس ہوئے تو ہر طرف امن وامان قائم ہوچکا تھا اور پورے اسلامی قلم رو میں اطمینان کی باد بہاری چل رہی تھی، اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب کی آخری حدود تک توجہ فرمانے کے لیے فارغ ہوچکے تھے اور اس کی ضرورت بھی تھی، تاکہ حالات پر مسلمانوں کا غلبہ اور کنٹرول رہے اور دوست و دشمن سبھی اس کو محسوس اور تسلیم کریں۔

چنانچہ بدر صغریٰ کے بعد چھ ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطمینان سے مدینے میں قیام فرمایا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاعات ملیں کہ شام کے قریب دُوْمۃ الجندل کے گرد آباد قبائل آنے والے قافلوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں اور وہاں سے گزرنے والی اشیاء لوٹ لیتے ہیں، یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے مدینے پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑی جمعیت فراہم کرلی ہے۔

ان اطلاعات کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر فرما کر ایک ہزار مسلمانوں کی نفری کے ساتھ کوچ فرمایا، یہ 25 ربیع الاول 5 ھ کا واقعہ ہے، راستہ بتانے کے لیے بنو عذرہ کا ایک آدمی رکھ لیا گیا تھا جس کا نام مذکور تھا۔

دُوْمۃ سرحد شام میں ایک شہر ہے، یہاں سے دمشق کا فاصلہ پانچ رات اور مدینے کا پندرہ رات ہے، قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ باہر نکل گئے ہیں، جہاں تک دومۃ الجندل کے باشندوں کا تعلق ہے تو جس کا جدھر سینگ سمایا بھاگ نکلا، جب مسلمان دومہ کے میدان میں اترے تو کوئی نہ ملا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند دن قیام فرما کر ادھر اُدھر متعدد دستے روانہ کیے، لیکن کوئی بھی ہاتھ نہ آیا، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پلٹ آئے، اس غزوے میں عُیَینہ بن حصن سے مصالحت بھی ہوئی۔

ان اچانک اور فیصلہ کن اقدامات اور حکیمانہ حزم وتدبر پر مبنی منصوبوں کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قلم رو اسلام میں امن وامان بحال کرنے اور صورت حال پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی اور وقت کی رفتار کا رُخ مسلمانوں کے حق میں موڑ لیا اور اُن اندرونی اور بیرونی مشکلاتِ پیہم کی شدت کم کی جو ہر جانب سے انہیں گھیرے ہوئے تھیں۔

چنانچہ منافقین خاموش اور مایوس ہو کر بیٹھ گئے، یہود کا ایک قبیلہ جلاوطن کردیا گیا، دوسرے قبائل نے حق ہمسائیگی اور عہد وپیمان کے ایفاء کا مظاہرہ کیا، بدو اور اعراب ڈھیلے پڑگئے اور قریش نے مسلمانوں کے ساتھ ٹکرانے سے گریز کیا اور مسلمانوں کو اسلام پھیلانے اور رب العالمین کے پیغام کی تبلیغ کرنے کے مواقع میسر آئے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 172 غزوہ دومۃ الجندل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر سے واپس ہوئے تو ہر طرف امن وامان قائم...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 171


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 171

غزوہ بدر دوئم:

غزوۂ بنی نضیر میں کسی قربانی کے بغیر مسلمانوں کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی، اس سے مدینے میں قائم مسلمانوں کا اقتدار مضبوط ہوگیا اور منافقین پر بددلی چھا گئی، اب انہیں کھل کر کچھ کرنے کی جرأت نہیں ہو رہی تھی، اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان بدوؤں کی خبر لینے کے لیے یکسو ہوگئے جنہوں نے اُحد کے بعد ہی سے مسلمانوں کو سخت مشکلات میں الجھا رکھا تھا اور نہایت ظالمانہ طریقے سے داعیانِ اسلام پر حملے کر کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار چکے تھے اور اب ان کی جرأت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ مدینے پر چڑھائی کی سوچ رہے تھے۔

چنانچہ غزوۂ بنونضیر سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی ان بدعہدوں کی تادیب کے لیے اٹھے بھی نہ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع ملی کہ بنی غَطْفَان کے دو قبیلے بنو محارب اور بنو ثعلبہ لڑائی کے لیے بدوؤں اور اعرابیوں کی نفری فراہم کر رہے ہیں، اس خبر کے ملتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجد پر یلغار کا فیصلہ کیا اور صحرائے نجد میں دور تک گھُستے چلے گئے، جس کا مقصد یہ تھا کہ ان سنگ دل بدوؤں پر خوف طاری ہوجائے اور وہ دوبارہ مسلمانوں کے خلاف پہلے جیسی سنگین کارروائیوں کے اعادے کی جرأت نہ کریں۔

ادھر سرکش بدو جو لوٹ مار کی تیاریاں کر رہے تھے، مسلمانوں کی اس اچانک یلغار کی خبر سنتے ہی خوف زدہ ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے اور پہاڑوں کی چوٹیوں میں جا دبکے، مسلمانوں نے لٹیرے قبائل پر اپنا رعب ودبدبہ قائم کرنے کے بعد امن وامان کے ساتھ واپس مدینے کی راہ لی۔

ابوسفیان نے غزوۂ احد سے واپسی کے وقت آئندہ سال میدان بدر میں جس غزوے کے لیے للکارا تھا اور جسے مسلمانوں نے منظور کر لیا تھا، اب اس کا وقت قریب آرہا تھا اور جنگی نقطۂ نظر سے یہ بات کسی طرح مناسب نہ تھی کہ بدوؤں اور اعراب کو ان کی سرکشی اور تمرد پر قائم چھوڑ کر بدر جیسی زور دار جنگ میں جانے کے لیے مدینہ خالی کردیا جائے، بلکہ ضروری تھا کہ میدانِ بدر میں جس ہولناک جنگ کی توقع تھی اس کے لیے نکلنے سے پہلے ان بدوؤں کی شوکت پر ایسی ضرب لگائی جائے کہ انہیں مدینے کا رُخ کرنے کی جرأت نہ ہو۔

اعراب کی شوکت توڑ دینے اور بدوؤں کے شر سے مطمئن ہو جانے کے بعد مسلمانوں نے اپنے بڑے دشمن قریش سے جنگ کی تیاری شروع کردی، کیونکہ سال تیزی سے ختم ہورہا تھا اور احد کے موقع پر طے کیا ہوا وقت قریب آتا جا رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فرض تھا کہ میدان کار زار میں ابوسفیان اور اس کی قوم سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے نکلیں اور جنگ کی چکی اس حکمت کے ساتھ چلائیں کہ جو فریق زیادہ ہدایت یافتہ اور پائیدار بقاء کا مستحق ہو، حالات کا رُخ پوری طرح اس کے حق میں ہوجائے۔

چنانچہ شعبان 4 ھ جنوری 626 ء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے کا انتظام حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو سونپ کر اس طے شدہ جنگ کے لیے بدر کا رُخ فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ڈیڑھ ہزار کی جمعیت اور دس گھوڑے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوج کا عَلَم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیا اور بدر پہنچ کر مشرکین کے انتظار میں خیمہ زن ہوگئے۔

دوسری طرف ابوسفیان بھی پچاس سوار سمیت دو ہزارمشرکین کی جمعیت لے کر روانہ ہوا اور مکے سے ایک مرحلہ دور وادی مَرالظَّہران پہنچ کر مجنہ نام کے مشہور چشمے پر خیمہ زن ہوا، لیکن وہ مکہ ہی سے بوجھل اور بددل تھا، بار بار مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی جنگ کا انجام سوچتا تھا اور رعب وہیبت سے لرز اٹھتا تھا۔

مَرالظَّہران پہنچ کر اس کی ہمت جواب دے گئی اور بالآخر اپنے ساتھیوں سے کہا: "قریش کے لوگو! جنگ اس وقت موزوں ہوتی ہے جب شادابی اور ہریالی ہو کہ جانور بھی چر سکیں اور تم بھی دودھ پی سکو، اس وقت خشک سالی ہے لہٰذا میں واپس جارہا ہوں، تم بھی واپس چلے چلو۔"

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے ہی لشکر کے اعصاب پر خوف وہیبت سوار تھی، کیونکہ ابوسفیان کے اس مشورہ پر کسی قسم کی مخالفت کے بغیر سب نے واپسی کی راہ لی اور کسی نے بھی سفر جاری رکھنے اور مسلمانوں سے جنگ لڑنے کی رائے نہ دی۔

ادھر مسلمانوں نے بدر میں آٹھ روز تک ٹھہر کر دشمن کا انتظار کیا، اس کے بعد اس شان سے مدینہ واپس آئے کہ جنگ میں اقدام کی باگ ان کے ہاتھ آچکی تھی، دلوں پر ان کی دھاک بیٹھ چکی تھی اور ماحول پر ان کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی، یہ غزوۂ بدر موعد، بدر ثانیہ، بدر آخرہ اور بدر صغریٰ کے ناموں سے معروف ہے۔ (ابن ہشام ۲/۲۰۹، ۲۱۰ ، زادا لمعاد۲/۱۱۲)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 171 غزوہ بدر دوئم: غزوۂ بنی نضیر میں کسی قربانی کے بغیر مسلمانوں کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی، اس...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 170


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 170

غزوہ بنو نضیر:

اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے لحاظ سے یہ صورت حال نازک تھی، کیونکہ ان کے لیے اپنی تاریخ کے اس نازک اور پیچیدہ موڑ پر دشمنوں سے ٹکراؤ کچھ زیادہ قابل اطمینان نہ تھا، انجام خطرناک ہوسکتا تھا، سارا عرب مسلمانوں کے خلاف تھا اور مسلمانوں کے دو تبلیغی وفود نہایت بے دردی سے تہ تیغ کیے جا چکے تھے، پھر بنی نضیر کے یہود اتنے طاقتور تھے کہ ان کا ہتھیار ڈالنا آسان نہ تھا اور ان سے جنگ مول لینے میں طرح طرح کے خدشات تھے۔

مگر بئر معونہ کے المیے سے پہلے اور اس کے بعد حالات نے جو نئی کروٹ لی تھی اس کی وجہ سے مسلمان قتل اور بدعہدی جیسے جرائم کے سلسلے میں زیادہ حساس ہوگئے تھے اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کا جذبہ انتقام فزوں تر ہوگیا تھا، لہٰذا انہوں نے طے کرلیا کہ چونکہ بنو نضیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کا پروگرام بنایا تھا، اس لیے ان سے بہرحال لڑنا ہے، خواہ اس کے نتائج جو بھی ہوں۔

چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حیی بن اخطب کا جوابی پیغام ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لڑائی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت ابن اُمِ مکتوم کو مدینہ کا انتظام سونپ کر بنونضیرکے علاقے کی طرف روانہ ہوگئے، حضرت علی بن ابی طالب کے ہاتھ میں عَلَم تھا، بنو نضیرکے علاقے میں پہنچ کر ان کا محاصر ہ کرلیا گیا۔

ادھر بنونضیر نے اپنے قلعوں اور گڑھیوں میں پناہ لی اور قلعہ بند رہ کر فصیل سے تیر اور پتھر برساتے رہے، چونکہ کھجور کے باغات ان کے لیے سپر کا کام دے رہے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ان درختوں کو کاٹ کر جلا دیا جائے۔

بہرحال جب ان کا محاصرہ کیا گیا تو بنو قُریظہ ان سے الگ تھلگ رہے، عبداللہ بن اُبی نے بھی خیانت کی اور ان کے حلیف غَطفان بھی مدد کو نہ آئے، غرض کوئی بھی انہیں مدد دینے یا ان کی مصیبت ٹالنے پر آمادہ نہ ہوا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے واقعے کی مثال یوں بیان فرمائی:

''جیسے شیطان انسان سے کہتا ہے کفر کرو اورجب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو شیطان کہتا ہے میں تم سے بری ہوں۔" (۵۹:۱۶)

محاصرے نے کچھ زیادہ طول نہیں پکڑا، بلکہ صرف چھ رات یا بقول بعض پندرہ رات جاری رہا کہ اس دوران اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، ان کے حوصلے ٹوٹ گئے، وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہلوا بھیجا کہ ہم مدینے سے نکلنے کو تیار ہیں، آپ نے ان کی جلاوطنی کی پیش کش منظور فرمائی اور یہ بھی منظور فرما لیا کہ وہ ہتھیار کے علاوہ باقی جتنا سازوسامان اونٹوں پر لاد سکتے ہوں، سب لے کر بال بچوں سمیت چلے جائیں۔

بنو نضیر نے اس منظوری کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور اپنے ہاتھوں اپنے مکانات اجاڑ ڈالے، تاکہ دروازے اور کھڑکیاں بھی لاد لے جائیں، بلکہ بعض بعض نے تو چھت کی کڑیاں اور دیواروں کی کھونٹیاں بھی لاد لیں، پھر عورتوں اور بچوں کو سوار کیا اور چھ سو اونٹوں پر لد لدا کر روانہ ہوگئے، بیشتر یہود اور ان کے اکابر مثلاً حُیی بن اخطب اور سلام بن ابی الحُقَیق نے خیبر کا رُخ کیا، ایک جماعت ملک شام روانہ ہوئی، صرف دو آدمیوں یعنی یامین بن عمرو اور ابو سعید بن وہب نے اسلام قبول کیا، لہٰذا ان کے مال کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔

غزوہ بنی نضیر ربیع الاول 4 ھ (اگست 625ء) میں پیش آیا اور اللہ تعالیٰ نے اس تعلق سے پوری سورۂ حشر نازل فرمائی، جس میں یہود کی جلاوطنی کا نقشہ کھینچتے ہوئے منافقین کے طرزِ عمل کا پردہ فاش کیا گیا ہے اور مالِ فَیْ کے احکام بیان فرماتے ہوئے مہاجرین وانصار کی مدح وستائش کی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگی مصالح کے پیش نظر دشمن کے درخت کاٹے جا سکتے ہیں اور ان میں آگ لگائی جاسکتی ہے، ایسا کرنا فساد فی الارض نہیں ہے، پھر اہلِ ایمان کو تقویٰ کے التزام اور آخرت کی تیاری کی تاکید کی گئی ہے، ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی حمد وثنا فرماتے ہوئے اور اپنے اسماء وصفات کوبیان کرتے ہوئے سورۃ ختم فرمادی ہے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 170 غزوہ بنو نضیر: اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے لحاظ سے یہ صورت حال نازک تھی، کیونکہ ان کے لیے ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 169


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 169

یہودی قبیلہ بنو نضیر کی بدعہدی:

ہم بتا چکے ہیں کہ یہود اسلام اور مسلمانوں سے جلتے بھُنتے تھے، مگر چونکہ وہ مردِ میدان نہ تھے، سازشی اور دسیسہ کار تھے، اس لیے جنگ کے بجائے کینے اور عداوت کا مظاہرہ کرتے تھے اور مسلمانوں کو عہد وپیمان کے باوجود اذیت دینے کے لیے طرح طرح کے حیلے اور تدبیریں کرتے تھے۔

بنو قَینُقاع کی جلاوطنی اور کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ پیش آیا تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے اور انہوں نے خوفزدہ ہو کر خاموشی اور سکون اختیار کر لیا، لیکن غزوۂ احد کے بعد ان کی جرأت پھر پلٹ آئی، انہوں نے کھلم کھلا عداوت وبدعہدی کی، مدینہ کے منافقین اور مکے کے مشرکین سے پس پردہ ساٹ گانٹھ کی اور مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی حمایت میں کام کیا۔ (سنن ابی داؤد مع شرح عون المعبود , ۳/۱۱۶،۱۱۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کچھ جانتے ہوئے صبر سے کام لیا، لیکن رجیع اور معونہ کے حادثات کے بعد ان کی جرأت وجسارت حد سے بڑھ گئی اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی شہادت کا پروگرام بنالیا۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ہمراہ یہود کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے بنو کلاب کے ان دونوں مقتولین کی دیت میں اعانت کے لیے بات چیت کی جنہیں حضرت عَمرو بن اُمیہ ضَمری رضی اللہ عنہ نے غلطی سے قتل کردیا تھا، ان پر معاہدہ کی رُو سے یہ اعانت واجب تھی، انہوں نے کہا: "ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ہم ایسا ہی کریں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں تشریف رکھئے، ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ضرورت پوری کیے دیتے ہیں۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور ان کے وعدے کی تکمیل کا انتظار کرنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بھی تشریف فرما تھی۔

ادھر یہود تنہائی میں جمع ہوئے تو ان پر شیطان سوار ہوگیا اور جو بدبختیاں ان کا نوشتہ تقدیر بن چکی تھی اسے شیطان نے خوشنما بنا کر پیش کیا، یعنی ان یہود نے باہم مشورہ کیا کہ کیوں نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو قتل کردیا جائے، چنانچہ انہوں نے کہا: "کون ہے جو اس چکی کو لے کر اوپر جائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر پر گرا کر آپ کو کچل دے۔"

اس پر ایک بدبخت یہودی عَمرو بن جحاش نے کہا: "میں" ان لوگوں سے سلام بن مشکم نے کہا بھی کہ ایسا نہ کرو، کیونکہ اللہ کی قسم! انہیں تمہارے ارادوں کی خبر دے دی جائے گی اور پھر ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد وپیمان ہے یہ اس کی خلاف ورزی بھی ہے، لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور اپنے منصوبے کو روبہ عمل لانے کے عزم پر برقرار رہے۔

ادھر رب العالمین کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہود کے ارادے سے باخبر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیزی سے اُٹھے اور مدینے کے لیے چل پڑے، بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آن ملے اور کہنے لگے: "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ آئے اور ہم سمجھ نہ سکے۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتلایا کہ یہود کا ارادہ کیا تھا، مدینہ واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً ہی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بنی نضیر کے پاس روانہ فرمایا اور انہیں یہ نوٹس دیا کہ تم لوگ مدینے سے نکل جاؤ! اب یہاں میرے ساتھ نہیں رہ سکتے، تمہیں دس دن کی مہلت دی جاتی ہے، اس کے بعد جو شخص پایا جائے گا اس کی گردن مار دی جائے گی۔

اس نوٹس کے بعد یہود کو جلاوطنی کے سوا کوئی چارہ کار سمجھ میں نہیں آیا، چنانچہ وہ چند دن تک سفر کی تیاریاں کرتے رہے، لیکن اسی دوران عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین نے کہلا بھیجا کہ اپنی جگہ برقرار رہو، ڈٹ جاؤ اور گھر بار نہ چھوڑو، میرے پاس دو ہزار مردانِ جنگی ہیں جو تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہو کر تمہاری حفاظت میں جان دے دیں گے اور اگر تمہیں نکالا ہی گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے اور تمہارے بارے میں کسی سے ہرگز نہیں دبیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور بنو قریظہ اور غَظْفَان جو تمہارے حلیف ہیں، وہ بھی تمہاری مدد کریں گے۔

یہ پیغام سن کر یہود کی خود اعتمادی پلٹ آئی اور انہوں نے طے کرلیا کہ جلاوطن ہونے کے بجائے ٹکر لی جائے گی، ان کے سردار حُیی بن اخطب کو توقع تھی کہ رئیس المنافقین نے جو کچھ کہا ہے وہ پورا کرے گا، اس لیے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جوابی پیغام بھیج دیا کہ "ہم اپنے دیار سے نہیں نکلتے، آپ کو جو کرنا ہو کرلیں۔"

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 169 یہودی قبیلہ بنو نضیر کی بدعہدی: ہم بتا چکے ہیں کہ یہود اسلام اور مسلمانوں سے جلتے بھُنتے تھے،...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 168


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 168

بئرِ معونہ کا المیہ:

جس مہینے رجیع کا حادثہ پیش آیا، ٹھیک اسی مہینے بئرمعونہ کا المیہ بھی پیش آیا جو رجیع کے حادثہ سے کہیں زیادہ سنگین تھا۔

اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو براء عامر بن مالک جو مُلاعِب ُالاسُنّہ (نیزوں سے کھیلنے والا) کے لقب سے مشہور تھا، مدینہ خدمت نبوی میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی، اس نے اسلام تو قبول نہیں کیا لیکن دُوری بھی اختیار نہیں کی، اس نے کہا: "اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اگر آپ اپنے اصحاب کو دعوتِ دین کے لیے اہلِ نجد کے پاس بھیجیں تو مجھے امید ہے کہ وہ لوگ آپ کی دعوت قبول کرلیں گے۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "مجھے اپنے صحابہ کے متعلق اہلِ نجد سے خطرہ ہے۔"
ابو براء نے کہا: "وہ میری پناہ میں ہوں گے۔" اس پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ستر آدمیوں کو بھیج دیا اور منذر بن عَمرو رضی اللہ عنہ کو جو بنو ساعدہ سے تعلق رکھتے تھے اور ''معتق للموت'' (موت کے لیے آزاد کردہ) کے لقب سے مشہور تھے، ان کا امیر بنا دیا۔

یہ لوگ فضلاء، قراء اور سادات و اخیارِ صحابہ تھے، دن میں لکڑیاں کاٹ کر اس کے عوض اہل صُفّہ کے لیے غلہ خریدتے اور قرآن پڑھتے پڑھاتے تھے اور رات میں اللہ کے حضور مناجات ونماز کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے، اس طرح چلتے چلاتے معونہ کے کنوئیں پر جا پہنچے، یہ کنواں بنو عامر اور حرہ بنی سلیم کے درمیان ایک زمین میں واقع ہے، وہاں پڑاؤ ڈالنے کے بعد ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اُمِ سُلیم کے بھائی حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط دے کر اللہ کے دشمن عامر بن طفیل کے پاس روانہ کیا، لیکن اس نے خط کو دیکھا تک نہیں اور ایک آدمی کو اشارہ کر دیا جس نے حضرت حرام رضی اللہ عنہ کو پیچھے سے اس زور کا نیزہ مارا کہ وہ نیزہ آر پار ہوگیا، خون دیکھ کر حضرت حرام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اللہ اکبر! ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔"

اس کے بعد فوراً ہی اس اللہ کے دشمن عامر نے باقی صحابہ پر حملہ کرنے کے لیے اپنے قبیلہ بنی عامر کو آواز دی، مگر انہوں نے ابو براء کی پناہ کے پیش نظر اس کی آواز پر کان نہ دھرے۔

ادھر سے مایوس ہو کر اس شخص نے بنو سلیم کو آواز دی، بنو سلیم کے تین قبیلوں عصیہ، رعل اور ذکوان نے اس پر لبیک کہا اور جھٹ آ کر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا محاصرہ کرلیا، جواباً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی لڑائی کی مگر سب کے سب شہید ہوگئے، صرف حضرت کعب بن زید بن نجار رضی اللہ عنہ زندہ بچے، انہیں شہداء کے درمیان سے زخمی حالت میں اٹھا لایا گیا اور وہ جنگ خندق تک حیات رہے۔

ان کے علاوہ مزید دو صحابہ حضرت عَمرو بن امیہ ضمری اور حضرت مُنذر بن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما اونٹ چرا رہے تھے، انہوں نے جائے واردات پر چڑیوں کو منڈلاتے دیکھا تو سیدھے جائے واردات پر پہنچے، پھر حضرت منذر رضی اللہ عنہ تو اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر مشرکین سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے اور حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری رضی اللہ عنہ کو قید کرلیا گیا، لیکن جب بتایا گیا کہ ان کا تعلق قبیلہ ٔ مُضَر سے ہے تو عامر نے ان کی پیشانی کے بال کٹوا کر اپنی ماں کی طرف سے جس پر ایک گردن آزاد کرنے کی نذر تھی، آزاد کردیا۔

حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری رضی اللہ عنہ اس دردناک المیے کی خبر لے کر مدینہ پہنچے، اس المیے نے جنگ اُحد کا چرکہ تازہ کر دیا اور وہ بھی اس فرق کے ساتھ کہ شہداء احد تو ایک کھُلی ہوئی اور دو بدو جنگ میں مارے گئے تھے، مگر یہ بیچارے ایک شرمناک غداری کی نذر ہوگئے۔ (صحیح بخاری ۲/۵۸۴ ، ۵۸۶)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معونہ اور رجیع کے ان المناک واقعات سے جو چند ہی دن آگے پیچھے پیش آئے تھے، اس قدر رنج پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر غمگین ودل فگار ہوئے کہ جن قوموں اور قبیلوں نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ غدر وقتل کا یہ سلوک کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر ایک مہینے تک بددعا فرمائی۔

چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو بئر معونہ پر شہید کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر تیس روز تک بددعا کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر میں رعل، ذکوان لحیان اور عُصَیَّہ پر بددعا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی معصیت کی۔ (صحیح بخاری ۲/۵۸۶، ۵۸۷، ۵۸۸)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 168 بئرِ معونہ کا المیہ: جس مہینے رجیع کا حادثہ پیش آیا، ٹھیک اسی مہینے بئرمعونہ کا المیہ بھی پیش...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 167


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 167

رجیع کا حادثہ اور حضرت خبیبؓ کی شہادت:

اسی سال 4 ھ کے ماہ صفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس عضل اور قارہ کے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور ذکر کیا کہ ان کے اندر اسلام کا کچھ چرچا ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہمراہ کچھ لوگوں کو دین سکھانے اور قرآن پڑھانے کے لیے روانہ فرما دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحیح بخاری کی روایت کے مطابق دس افراد کو روانہ فرمایا اور عاصم بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نانا حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر مقرر فرمایا۔

جب یہ لوگ رابغ اور جدہ کے درمیان قبیلہ ہُذیل کے رجیع نامی ایک چشمے پر پہنچے تو ان پر عضل اور قارہ کے مذکورہ افراد نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو چڑھادیا اور بنو لحیان کے کوئی ایک سو تیرانداز ان کے پیچھے لگ گئے اور نشانات قدم دیکھ دیکھ کر انہیں جالیا۔

یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک ٹیلے پر پناہ گیر ہوگئے، بنو لحیان نے انہیں گھیر لیا اور کہا: "تمہارے لیے عہد وپیمان ہے کہ اگر ہمارے پاس اتر آؤ تو ہم تمہارے کسی آدمی کو قتل نہیں کریں گے۔"

حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے اترنے سے انکار کردیا اور اپنے رفقاء سمیت ان سے جنگ شروع کردی، بالآخر تیروں کی بوجھاڑ سے سات افراد شہید ہوگئے اور صرف تین آدمی حضرت خبیب رضی اللہ عنہ، زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ اور ایک اور صحابی باقی بچے، اب پھر بنو لحیان نے اپنا عہد وپیمان دہرایا اور اس پر یہ تینوں صحابی ان کے پاس اتر آئے، لیکن انہوں نے قابو پاتے ہی بدعہدی کی اور انہیں اپنی کمانوں کی تانت سے باندھ لیا، اس پر تیسرے صحابی نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ پہلی بدعہدی ہے، ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا، انہوں نے کھینچ گھسیٹ کر ساتھ لے جانے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوئے تو انہیں قتل کردیا اور حضرت خبیب اور زید رضی اللہ عنہما کو مکہ لے جا کر بیچ دیا، ان دونوں صحابہ نے بدر کے روز اہلِ مکہ کے سرداروں کو قتل کیا تھا۔

حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ اہل مکہ کی قید میں رہے، پھر مکے والوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا اور انہیں حرم سے باہر تنعیم لے گئے۔

جب سولی پر چڑھانا چاہا تو انہوں نے فرمایا: "مجھے چھوڑ دو، ذرا دو رکعت نماز پڑھ لوں۔" مشرکین نے چھوڑ دیا اور آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، جب سلام پھیر چکے تو فرمایا: "واللہ! اگر تم لوگ یہ نہ کہتے کہ میں جو کچھ کررہا ہوں گھبراہٹ کی وجہ سے کررہا ہوں تو میں کچھ اور طول دیتا۔" اس کے بعد فرمایا: "اے اللہ! انہیں ایک ایک کرکے گن لے، پھر بکھیر کر مارنا اور ان میں سے کسی ایک کو باقی نہ چھوڑنا۔" پھر اشعار کہے، جن کا ترجمہ ہے:

''لوگ میرے گرد گروہ در گروہ جمع ہوگئے ہیں، اپنے قبائل کو چڑھا لائے ہیں اور سارا مجمع جمع کرلیا ہے، اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بھی قریب لے آئے ہیں اور مجھے ایک لمبے مضبوط تنے کے قریب کردیا گیا ہے، میں اپنی بے وطنی وبےکسی کا شکوہ اور اپنی قتل گاہ کے پاس گروہوں کی جمع کردہ آفات کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں، اے عرش والے! میرے خلاف دشمنوں کے جو ارادے ہیں، اس پر مجھے صبر دے، انہوں نے مجھے بوٹی بوٹی کردیا ہے اور میری خوراک بُری ہوگئی ہے، انہوں نے مجھے کفر کا اختیار دیا ہے حالانکہ موت اس سے کمتر اور آسان ہے، میری آنکھیں آنسو کے بغیر امنڈ آئیں، میں مسلمان مارا جاؤں تو مجھے پروا نہیں کہ اللہ کی راہ میں کس پہلو پر قتل ہوں گا، یہ تو اللہ کی ذات کے لیے ہے اور وہ چاہے تو بوٹی بوٹی کیے ہوئے اعضاء کے جوڑ جوڑ میں برکت دے۔"

اس کے بعد ابوسفیان نے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ سے کہا: "کیا تمہیں یہ بات پسند آئے گی کہ تمہارے بدلے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس ہوتے؟ ہم ان کی گردن مارتے اور تم اپنے اہل وعیال میں رہتے۔؟

انہوں نے کہا: "نہیں واللہ! مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ میں اپنے اہل وعیال میں رہوں اور (اس کے بدلے) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، وہیں رہتے ہوئے کانٹا چبھ جائے اور وہ آپ کو تکلیف دے۔"

اس کے بعد مشرکین نے انہیں سولی پر لٹکا دیا اور ان کی لاش کی نگرانی کے لیے آدمی مقرر کردیے لیکن حضرت عَمرو بن اُمیہ ضمری رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور رات میں جھانسہ دے کر لاش اٹھا لے گئے اور اسے دفن کردیا۔

حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کا قاتل عُقبہ بن حارث تھا، صحیح بخاری میں مروی ہے کہ حضرت خُبیب رضی اللہ عنہ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے قتل کے موقع پر دو رکعت نماز پڑھنے کا طریقہ مشروع کیا اور انہیں قید میں دیکھا گیا کہ وہ انگور کے گچھے کھا رہے تھے حالانکہ ان دنوں مکے میں کھجور بھی نہیں ملتی تھی۔

دوسرے صحابی جو اس واقعے میں گرفتار ہوئے تھے یعنی حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ انہیں صفوان بن اُمیہ نے خرید کر اپنے باپ کے بدلے قتل کردیا۔

قریش نے اس مقصد کے لیے بھی آدمی بھیجے کہ حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کے جسم کا کوئی ٹکڑا لائیں جس سے انہیں پہچانا جا سکے، کیونکہ انہوں نے جنگِ بدر میں قریش کے کسی عظیم آدمی کو قتل کیا تھا، لیکن اللہ نے ان پر بھِڑوں کا جھُنڈ بھیج دیا جس نے قریش کے آدمیوں سے ان کی لاش کی حفاظت کی اور یہ لوگ ان کا کوئی حصہ حاصل کرنے پر قدرت نہ پا سکے۔

درحقیقت حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے اللہ سے یہ عہد وپیمان کررکھا تھا کہ نہ انہیں کوئی مشرک چھوئے گا نہ وہ کسی مشرک کو چھوئیں گے، بعد میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس واقعے کی خبر ہوئی تو فرمایا کرتے تھے کہ "اللہ مومن بندے کی حفاظت اس کی وفات کے بعد بھی کرتا ہے، جیسے اس کی زندگی میں کرتا ہے.." (صحیح بخاری ۲/۵۶۸،۵۶۹،۵۸۵)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 167 رجیع کا حادثہ اور حضرت خبیبؓ کی شہادت: اسی سال 4 ھ کے ماہ صفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 166


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 166

غزوہ احد کے بعد فوجی مہمات:

مسلمانوں کی شہرت اور ساکھ پر احد کی ناکامی کا بہت برا اثر پڑا، ان کی ہوا اکھڑ گئی اور مخالفین کے دلوں سے ان کی ہیبت جاتی رہی، اس کے نتیجے میں اہلِ ایمان کی داخلی اور خارجی مشکلات میں اضافہ ہوگیا، مدینے پر ہرجانب سے خطرات منڈلانے لگے، یہود، منافقین اور بدّوؤں نے کھُل کر عداوت کا مظاہرہ کیا اور ہر گروہ نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش کی، بلکہ یہ توقع باندھ لی کہ وہ مسلمانوں کا کام تمام کرسکتا ہے اور انہیں بیخ وبن سے اکھاڑ سکتا ہے۔

چنانچہ اس غزوے پر ابھی دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ بنو اَسَد نے مدینے پر چھاپہ مارنے کی تیاری کی، پھر صفر 4 ھ میں عضل اور قارہ کے قبائل نے ایک ایسی مکارانہ چال چلی کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جامِ شہادت نوش کرنا پڑا، ٹھیک اسی مہینے میں رئیس بنوعامر نے اسی طرح کی ایک دغابازی کے ذریعے ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہادت سے ہمکنار کرایا، یہ حادثہ بئر معونہ کے نام سے معروف ہے، اس دوران بنو نَضِیر بھی کھُلی عداوت کا مظاہرہ شروع کر چکے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے ربیع الاول 4 ھ میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی کوشش کی، ادھر بنو غطفان کی جرأت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے جمادی الاولیٰ 4 ھ میں مدینے پر حملہ کا پروگرام بنایا، غرض مسلمانوں کی جو ساکھ غزوہ احد میں اُکھڑ گئی تھی، اس کے نتیجے میں مسلمان ایک مدت تک پیہم خطرات سے دوچار رہے۔

لیکن وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت بالغہ تھی، جس نے سارے خطرات کا رُخ پھیر کر مسلمانوں کی ہیبت رفتہ واپس دلادی اور انہیں دوبارہ مجد وعزت کے مقامِ بلند تک پہنچا دیا، اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے پہلا قدم حمراء الاسد تک مشرکین کے تعاقب کا تھا، اس کارروائی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکر کی آبرو بڑی حد تک برقرار رہ گئی، کیونکہ یہ ایسا پر وقار اور شجاعت پر مبنی جنگی اقدام تھا کہ مخالفین خصوصاً منافقین اور یہود کا منہ حیرت سے کھُلے کا کھلا رہ گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلسل ایسی جنگی کارروائیاں کیں کہ ان سے مسلمانوں کی صرف سابقہ ہیبت ہی بحال نہیں ہوئی، بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی ہو گیا، آگے انہی کا کچھ تذکرہ کیا جارہا ہے۔

1: سریۂ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ

جنگ اُحد کے بعد مسلمانوں کے خلاف سب سے پہلے بنو اسد بن خزیمہ کا قبیلہ اٹھا، اس کے متعلق مدینے میں یہ اطلاع پہنچی کہ خُویلِد کے دو بیٹے طلحہ اور سلمہ اپنی قوم اور اپنے اطاعت شعاروں کو لے کر بنو اسد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملے کی دعوت دیتے پھر رہے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھٹ ڈیڑھ سو انصار ومہاجرین کا ایک دستہ تیار فرمایا اور حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو اس کا عَلَم دے کر اور سپہ سالار بنا کر روانہ فرمادیا، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بنو اسد کے حرکت میں آنے سے پہلے ہی ان پر اس قدر اچانک حملہ کیا کہ وہ بھاگ کر اِدھر اُدھر بکھر گئے، مسلمانوں نے ان کے اونٹ اور بکریوں پر قبضہ کرلیا اور سالم وغانم مدینہ واپس آگئے، انہیں دو بُدو جنگ بھی نہیں لڑنی پڑی۔

یہ سریہ محرم 4 ھ کا چاند نمودار ہونے پر روانہ کیا گیا تھا، واپسی کے بعد حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا ایک زخم جو انہیں اُحد میں لگا تھا، پھُوٹ پڑا اور اس کی وجہ سے وہ جلد ہی وفات پاگئے۔ (زادا لمعاد ۲/۱۰۸)

2: عبد اللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ کی مہم

اسی ماہ محرم 4 ھ کی 5 تاریخ کو یہ خبر ملی کہ خالد بن سفیان ہُذلی مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے فوج جمع کر رہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے خلاف کارروائی کے لیے عبداللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا، عبداللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ مدینہ سے 18 روز باہر رہ کر 23 محرم کو واپس تشریف لائے، وہ خالد کو قتل کرکے اس کا سر بھی ہمراہ لائے تھے، جب خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر انہوں نے یہ سر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو آپ نے انہیں ایک عصا مرحمت فرمایا اور فرمایا کہ یہ میرے اور تمہارے درمیان قیامت کے روز نشانی رہے گا، چنانچہ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ یہ عصا بھی ان کے ساتھ ان کے کفن میں لپیٹ دیا جائے۔ ( زادالمعاد ۲/۱۰۹ , ابن ہشام ۲/۶۱۹ ، ۶۲۰)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 166 غزوہ احد کے بعد فوجی مہمات: مسلمانوں کی شہرت اور ساکھ پر احد کی ناکامی کا بہت برا اثر پڑا، ان...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 165


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 165

غزوۂ احد پر قرآن کا تبصرہ:

اس غزوہ کے انجام کے بارے میں بڑی طول طویل بحثیں کی گئی ہیں کہ آیا اسے مسلمانوں کی شکست سے تعبیر کیا جائے یا نہیں..؟ جہاں تک حقائق کا تعلق ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ جنگ کے دوسرے راؤنڈ میں مشرکین کو بالاتری حاصل تھی اور میدان جنگ انہیں کے ہاتھ تھا، جانی نقصان بھی مسلمانوں ہی کا زیادہ ہوا اور زیادہ خوفناک شکل میں ہوا اور مسلمانوں کا کم از کم ایک گروہ یقیناً شکست کھا کر بھاگا اور جنگ کی رفتار مکی لشکر کے حق میں رہی، لیکن ان سب کے باوجود بعض امور ایسے ہیں جن کی بنا پر ہم اسے مشرکین کی فتح سے تعبیر نہیں کرسکتے۔

ایک تو یہی بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ مکی لشکر مسلمانوں کے کیمپ پر قابض نہیں ہوسکا تھا اور مدنی لشکر کے بڑے حصے نے سخت اتھل پتھل اور بد نظمی کے باوجود فرار نہیں اختیار کیا تھا، بلکہ انتہائی دلیری سے لڑتے ہوئے اپنے سپہ سالار کے پاس جمع ہوگیا تھا، نیز مسلمانوں کا پلہ اس حد تک ہلکا نہیں ہوا تھا کہ مکی لشکر ان کا تعاقب کرتا، علاوہ ازیں کوئی ایک بھی مسلمان کافروں کی قید میں نہیں گیا، نہ کفار نے کوئی مال غنیمت حاصل کیا، پھر کفار جنگ کے تیسرے راونڈ کے لیے تیار نہیں ہوئے، حالانکہ اسلامی لشکر ابھی کیمپ ہی میں تھا، علاوہ ازیں کُفار نے میدان جنگ میں ایک یا دو دن یا تین دن قیام نہیں کیا، حالانکہ اس زمانے میں فاتحین کا یہی دستور تھا اور فتح کی یہ ایک نہایت ضروری علامت تھی، مگر کفار نے بالکل جھٹ پٹ واپسی اختیار کی اور مسلمانوں سے پہلے ہی میدان جنگ خالی کردیا، نیز انہیں ذریت اور مال لوٹنے کے لیے مدینے میں داخل ہونے کی جرأت نہ ہوئی، حالانکہ یہ شہر چند ہی قدم کے فاصلے پر تھا اور فوج سے مکمل طور پر خالی اور ایک دم کھُلا پڑا تھا، راستے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔

ان ساری باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ قریش کو زیادہ سے زیادہ صرف یہ حاصل ہوا کہ انہوں نے ایک وقتی موقعے سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو ذرا سخت قسم کی زک پہنچادی، ورنہ اسلامی لشکر کو نرغے میں لینے کے بعد اسے کلی طور پر قتل یا قید کرلینے کا جو فائدہ انہیں جنگی نقطۂ نظر سے لازما ًحاصل ہونا چاہیے تھا، اس میں وہ ناکام رہے اور اسلامی لشکر قدرے بڑے خسارے کے باوجود نرغہ توڑ کر نکل گیا اور اس طرح کا خسارہ تو بہت سی دفعہ خود فاتحین کو برداشت کرنا پڑ تا ہے، اس لیے اس معاملے کو مشرکین کی فتح سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا، بلکہ واپسی کے لیے ابو سفیان کی عجلت اس بات کی غماز ہے کہ اسے خطرہ تھا کہ اگر جنگ کا تیسرا دور شروع ہوگیا تو اس کا لشکر سخت تباہی اور شکست سے دوچار ہوجائے گا، اس بات کی مزید تائید ابو سفیان کے اس موقف سے ہوتی ہے جو اس نے غزوہ حمراء الاسد کے تئیں اختیار کیا تھا۔

ایسی صورت میں ہم اس غزوے کو کسی ایک فریق کی فتح اور دوسرے کی شکست سے تعبیر کرنے کے بجائے غیر منفصل جنگ کہہ سکتے ہیں، جس میں ہر فریق نے کامیابی اور خسارے سے اپنا اپنا حصہ حاصل کیا، پھر میدان جنگ سے بھاگے بغیر اور اپنے کیمپ کو دشمن کے قبضہ کے لیے چھوڑے بغیر لڑائی سے دامن کشی اختیار کرلی اور غیر منفصل جنگ کہتے ہی اسی کو ہیں، اسی جانب اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی اشارہ نکلتا ہے۔

''قوم (مشرکین ) کے تعاقب میں ڈھیلے نہ پڑو، اگر تم اَلم محسوس کررہے ہو تو تمہاری ہی طرح وہ بھی اَلم محسوس کررہے ہیں اور تم لوگ اللہ سے اس چیز کی امید رکھتے ہو جس کی وہ امید نہیں رکھتے..'' (۴: ۱۰۴)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ضرر پہنچانے اور ضرر محسوس کرنے میں ایک لشکر کو دوسرے لشکر سے تشبیہ دی ہے، جس کا مفاد یہ ہے کہ دونوں فریق کے موقف متماثل تھے اور دونوں فریق اس حالت میں واپس ہوئے تھے کہ کوئی بھی غالب نہ تھا۔

بعد میں قرآن مجید میں اس معرکے کے ایک ایک مرحلے پر روشنی ڈالی گئی اور تبصرہ کرتے ہوئے ان اسباب کی نشاندہی کی گئی جن کے نتیجے میں مسلمانوں کو اس عظیم خسارے سے دوچار ہونا پڑا تھا اور بتلایا گیا کہ اس طرح کے فیصلہ کن مواقع پر اہل ایمان اور یہ امت (جسے دوسروں کے مقابل خیرِ اُمت ہونے کا امتیاز حاصل ہے) جن اونچے اور اہم مقاصد کے حصول کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، ان کے لحاظ سے ابھی اہل ایمان کے مختلف گروہوں میں کیا کیا کمزوریاں رہ گئی ہیں۔

اسی طرح قرآن مجید نے منافقین کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے ان کی حقیقت بے نقاب کی، ان کے سینوں میں اللہ اور رسول کے خلاف چھپی ہوئی عداوت کا پردہ فاش کیا اور سادہ لوح مسلمانوں میں ان منافقین اور ان کے بھائی یہود نے جو وسوسے پھیلارکھے تھے ان کا ازالہ فرمایا اور ان قابل ستائش حکمتوں اور مقاصد کی طرف اشارہ فرمایا جو اس معرکے کا حاصل تھیں۔

اس معرکے کے متعلق سورۂ آل عمران کی ساٹھ آیتیں نازل ہوئیں، سب سے پہلے معرکے کے ابتدائی مرحلے کا ذکر کیا گیا۔ ارشاد ہوا:

''یاد کرو جب تم اپنے گھر سے نکل کر (میدان احد میں گئے اور وہاں ) مومنین کو قتال کے لیے جابجا مقرر کررہے تھے۔'' (۳: ۱۲۱)

پھر اخیر میں اس معرکے کے نتائج اور حکمت پر ایک جامع روشنی ڈالی گئی، ارشاد ہوا:

''ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ مومنین کو اسی حالت پر چھوڑ دے جس پر تم لوگ ہو، یہاں تک کہ خبیث کو پاکیزہ سے الگ کردے اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تمہیں غیب پر مطلع کرے، لیکن وہ اپنے پیغمبروں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے، پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا تو تمہارے لیے بڑا اجر ہے۔'' (۳:۱۷۹)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 165 غزوۂ احد پر قرآن کا تبصرہ: اس غزوہ کے انجام کے بارے میں بڑی طول طویل بحثیں کی گئی ہیں کہ آی...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 164


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 164

کفار کے حوصلے پست:

ابھی پڑاؤ چھوڑ کر ابوسفیان اور اس کے فوجی ہلے بھی نہ تھے کہ معبد بن ابی معبد خزاعی رضی اللہ عنہ پہنچ گئے، ابوسفیان کو معلوم نہ تھا کہ یہ مسلمان ہوگئے ہیں، اس نے پوچھا: "معبد! پیچھے کی کیا خبر ہے۔؟"

معبد رضی اللہ عنہ نے کہا: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو لے کر تمہارے تعاقب میں نکل چکے ہیں، ان کی جمعیت اتنی بڑی ہے کہ میں نے ویسی جمعیت کبھی دیکھی ہی نہیں، سارے لوگ تمہارے خلاف غصے سے کباب ہوئے جارہے ہیں، اُحد میں پیچھے رہ جانے والے بھی آگئے ہیں، وہ جو کچھ ضائع کر چکے ہیں اس پر سخت نادم ہیں اور تمہارے خلاف اس قدر بھڑکے ہوئے ہیں کہ میں نے اس کی مثال دیکھی ہی نہیں۔"

ابوسفیان نے کہا: "ارے بھائی یہ کیا کہہ رہے ہو۔؟"

معبد رضی اللہ عنہ نے کہا: "واللہ! میرا خیال ہے کہ تم کوچ کرنے سے پہلے پہلے گھوڑوں کی پیشانیاں دیکھ لو گے یا لشکر کا ہراول دستہ اس ٹیلے کے پیچھے نمودار ہوجائے گا۔"
ابوسفیان نے کہا: "واللہ! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر پلٹ کر پھر حملہ کریں اور ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیں۔" معبد رضی اللہ عنہ نے کہا: "ایسا نہ کرنا، میں تمہاری خیر خواہی کی بات کر رہا ہوں۔"

یہ باتیں سن کر مکی لشکر کے حوصلے ٹوٹ گئے، ان پر گھبراہٹ اور رعب طاری ہوگیا اور انہیں اسی میں عافیت نظر آئی کہ مکے کی جانب اپنی واپسی جاری رکھیں، البتہ ابوسفیان نے اسلامی لشکر کو تعاقب سے باز رکھنے اور اس طرح دوبارہ مسلح ٹکراؤ سے بچنے کے لیے پروپیگنڈے کا ایک جوابی اعصابی حملہ کیا، جس کی صورت یہ ہوئی کہ ابوسفیان کے پاس سے قبیلہ عبدالقیس کا ایک قافلہ گزرا، ابوسفیان نے کہا: "کیا آپ لوگ میرا ایک پیغام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچادیں گے؟" میرا وعدہ ہے کہ اس کے بدلے جب آپ لوگ مکہ آئیں گے تو عُکاظ کے بازار میں آپ لوگوں کو اتنی کشمش دوں گا جتنی آپ کی یہ اونٹنی اٹھا سکے گی۔"

ان لوگوں نے کہا: "جی ہاں! "
ابوسفیان نے کہا: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچادیں کہ ہم نے ان کی اور ان کے رفقاء کی جڑ ختم کردینے کے لیے دوبارہ پلٹ کر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔"

اس کے بعد جب یہ قافلہ حَمراءالاسد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس سے گزرا تو ان سے ابوسفیان کا پیغام کہہ سنایا اور کہا کہ لوگ تمہارے خلاف جمع ہیں، ان سے ڈرو!

مگر ان کی باتیں سن کر مسلمانوں کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا اور انہوں نے کہا: "حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتوار کے دن حمراء الاسد تشریف لے گئے تھے، دوشنبہ، منگل اور بدھ یعنی ۹/۱۰/۱۱/شوال ۳ھ کو وہیں مقیم رہے، اس کے بعد مدینہ واپس آئے۔

مکے کا ایک جاسوس معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص تھا اور یہ پکڑا گیا، یہ شخص اس طرح زد میں آیا کہ جب احد کے روز مشرکین واپس چلے گئے تو یہ اپنے چچیرے بھائی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملنے آیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امان طلب کی، آپ نے اس شرط پر امان دے دی کہ اگر وہ تین روز کے بعد پایا گیا تو قتل کردیا جائے گا۔

لیکن جب مدینہ اسلامی لشکر سے خالی ہو گیا تو یہ شخص قریش کی جاسوسی کے لیے تین دن سے زیادہ ٹھہر گیا اور جب لشکر واپس آیا تو بھاگنے کی کوشش کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کوحکم دیا اور انہوں نے اس شخص کا تعاقب کرکے اسے تہ تیغ کردیا۔

غزوہ احد اور غزوہ حمراء الاسد کی تفصیلات ابن ہشام ۲/۶۰ تا ۱۲۹ ، زاد المعاد ۲/۹۱ تا ۱۰۸ فتح الباری مع صحیح البخاری ۷/۳۴۵ تا ۳۷۷ مختصر السیرۃ للشیخ عبداللہ ص ۲۴۲ تا ۲۵۷ سے جمع کی گئی ہیں اور دوسرے مصادر کے حوالے متعلقہ مقامات ہی پر دے دیے گئے ہیں۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 164 کفار کے حوصلے پست: ابھی پڑاؤ چھوڑ کر ابوسفیان اور اس کے فوجی ہلے بھی نہ تھے کہ معبد بن ابی...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 163


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 163

غزوہ حمراءُ الاسد:

شنبہ 7/شوال 3 ھ کو سرِ شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچے، مسلمانوں نے معرکۂ اُحد سے واپس آکر (8 /شوال 3 ھ شنبہ ویک شنبہ کی درمیانی) رات ہنگامی حالت میں گزاری، جنگ نے انہیں چُور چُور کر رکھا تھا، اس کے باوجود وہ رات بھر مدینے کے راستوں اور گزرگاہوں پر پہرہ دیتے رہے اور اپنے سپہ سالارِ اعظم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی حفاظت پر تعینات رہے، کیونکہ انہیں ہر طرف سے خدشات لاحق تھے۔

ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری رات جنگ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرتے ہوئے گزاری، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اندیشہ تھا کہ اگر مشرکین نے سوچا کہ میدانِ جنگ میں اپنا پلہ بھاری رہتے ہوئے بھی ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو انہیں یقینا ندامت ہوگی اور وہ راستے سے پلٹ کر مدینے پر دوبارہ حملہ کریں گے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ بہرحال مکی لشکر کا تعاقب کیا جانا چاہیے۔

چنانچہ اہلِ سیر کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معرکہ احد کے دوسرے دن یعنی یک شنبہ 8 /شوال 3 ھ کو علی الصباح اعلان فرمایا کہ دشمن کے مقابلے کے لیے چلنا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی آدمی چل سکتا ہے جو معرکۂ احد میں موجود تھا، عبداللہ بن اُبی نے اجازت چاہی کہ آپ کا ہم رکاب ہو، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت نہ دی، ادھر جتنے مسلمان تھے اگرچہ زخموں سے چور، غم سے نڈھال اور اندیشہ وخوف سے دوچار تھے، لیکن سب نے بلا تردد سرِ اطاعت خم کردیا۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی اجازت چاہی جو جنگ اُحد میں شریک نہ تھے، حاضر خدمت ہوکر عرض پرداز ہوئے: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کسی جنگ میں تشریف لے جائیں، میں بھی حاضر خدمت رہوں اور چونکہ (اس جنگ میں ) میرے والد نے مجھے اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر روک دیا تھا، لہٰذا آپ مجھے اجازت دے دیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں۔" اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔

پروگرام کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے اور مدینے سے آٹھ میل دور "حمراء الاسد" پہنچ کر خیمہ زن ہوئے۔

اثناء قیام میں معبد بن ابی معبد خزاعی (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوا، کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شرک ہی پر قائم تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیر خواہ تھا، کیونکہ خزاعہ اور بنو ہاشم کے درمیان حلف (یعنی دوستی وتعاون کا عہد) تھا، بہرکیف اس نے کہا: "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! آپ کو اور آپ کے رفقاء کو جو زک پہنچی ہے وہ واللہ ہم پر سخت گراں گزری ہے، ہماری آرزو تھی کہ اللہ آپ کو بعافیت رکھتا۔" اس اظہارِ ہمدردی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ ابو سفیان کے پاس جائے اور اس کی حوصلہ شکنی کرے۔

ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اندیشہ محسوس کیا تھا کہ مشرکین مدینے کی طرف پلٹنے کی بات سوچیں گے وہ بالکل برحق تھا، چنانچہ مشرکین نے مدینے سے 34 میل دور مقام " رَوحاء " پر پہنچ کر جب پڑاؤ ڈالا تو آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کی، کہنے لگے: "تم لوگوں نے کچھ نہیں کیا، ان کی شوکت وقوت توڑ کر انہیں یوں ہی چھوڑ دیا، حالانکہ ابھی ان کے اتنے سر باقی ہیں کہ وہ تمہارے لیے پھر دردِ سر بن سکتے ہیں، لہٰذا واپس چلو اور انہیں جڑ سے صاف کردو۔"

لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سطحی رائے تھی جو ان لوگوں کی طرف سے پیش کی گئی تھی، جنہیں فریقین کی قوت اور ان کے حوصلوں کا صحیح اندازہ نہ تھا، اسی لیے ایک ذمہ دار افسر صفوان بن امیہ نے اس رائے کی مخالفت کی اور کہا: "لوگو! ایسا نہ کرو، مجھے خطرہ ہے کہ جو (مسلمان غزوۂ احد میں) نہیں آئے تھے، وہ بھی اب تمہارے خلاف جمع ہوجائیں گے، لہٰذا اس حالت میں واپس چلے چلو کہ فتح تمہاری ہے، ورنہ مجھے خطرہ ہے کہ مدینے پر پھر چڑھائی کرو گے تو گردش میں پڑجاؤ گے۔"

لیکن بھاری اکثریت نے یہ رائے قبول نہ کی اور فیصلہ کیا کہ مدینے واپس چلیں گے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 163 غزوہ حمراءُ الاسد: شنبہ 7/شوال 3 ھ کو سرِ شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچے، ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 162


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 162

محبت وجانثاری کے نادر واقعات:

شہداء کی تدفین اور اللہ عزوجل کی ثناء و دعا سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے کا رخ فرمایا، جس طرح دورانِ کارزار اہلِ ایمان صحابہ سے محبت وجاں سپاری کے نادر واقعات کا ظہور ہوا تھا، اسی طرح اثناء راہ میں اہلِ ایمان صحابیات سے صدق وجاں سپاری کے عجیب عجیب واقعات ظہور میں آئے۔

چنانچہ راستے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت حَمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوئی، انہیں ان کے بھائی عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی گئی، انہوں نے انا للہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی، پھر ان کے ماموں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی گئی، انہوں نے پھر انا للہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی، اس کے بعد ان کے شوہر حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی گئی تو تڑپ کر چیخ اٹھیں اور دھاڑ مار کر رونے لگیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "عورت کا شوہر اس کے یہاں ایک خصوصی درجہ رکھتا ہے۔" (ابن ہشام ۲/۹۸)

اسی طرح آپ کا گزر بنو دینار کی ایک خاتون کے پاس سے ہوا جس کے شوہر، بھائی اور والد تینوں خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوچکے تھے، جب انہیں ان لوگوں کی شہادت کی خبردی گئی تو کہنے لگیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا ہوا؟" لوگوں نے کہا: "ام فلاں! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بخیر ہیں اور بحمد للہ جیسا تم چاہتی ویسے ہی ہیں۔" خاتون نے کہا: "ذرا مجھے دکھلادو! میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود مبارک دیکھ لوں۔" لوگوں نے انہیں اشارے سے بتلایا، جب ان کی نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی تو بے ساختہ پکار اٹھیں: "کل مصیبۃ بعدک جلل۔ آپ کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے۔" (ایضا ۲/۹۹)

اثناء راہ ہی میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی والدہ آپ کے پاس دوڑتی ہوئی آئیں، اس وقت حضرت سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے تھے، کہنے لگے: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میری والدہ ہیں۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے استقبال کے لیے رک گئے، جب وہ قریب آگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے صاحبزادے عمرو بن معاذ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر کلماتِ تعزیت کہتے ہوئے انہیں تسلی دی اور صبر کی تلقین فرمائی، کہنے لگیں: "جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ سلامت دیکھ لیا تو میرے لیے ہر مصیبت ہیچ ہے۔"

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہداء اُحد کے لیے دعا فرمائی اور فرمایا: "اے اُمِ سعد! تم خوش ہوجاؤ اور شہداء کے گھروالوں کو خوش خبری سنادو کہ ان کے شہداء سب کے سب ایک ساتھ جنت میں ہیں اور اپنے گھروالوں کے بارے میں ان سب کی شفاعت قبول کرلی گئی ہے۔" کہنے لگیں: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ان کے پسماندگان کے لیے بھی دعا فرما دیجیے:" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! ان کے دلوں کا غم دور کر، ان کی مصیبت کا بدل عطا فرما اور باقی ماندگان کی بہترین دیکھ بھال فرما۔" (السیرۃ الحلبیہ ۲/ ۴۷)

بیشتر روایتیں متفق ہیں کہ مسلمان شہداء کی تعداد ستر تھی، جن میں بھاری اکثریت انصار کی تھی، یعنی ان کے 65 آدمی شہید ہوئے تھے، 41 خزرج سے اور 24 اوس سے، ایک آدمی یہود سے قتل ہوا تھا اور مہاجرین شہداء کی تعداد 4 تھی۔

باقی رہے قریش کے مقتولین تو ابن اسحاق کے بیان کے مطابق ان کی تعداد 22 تھی، لیکن اصحاب مغازی اور اہلِ سِیَر نے اس معرکے کی جو تفصیلات ذکر کی ہیں اور جن میں ضمناً جنگ کے مختلف مرحلوں میں قتل ہونے والے مشرکین کا تذکرہ آیا ہے، ان پر گہری نظر رکھتے ہوئے دقت پسندی کے ساتھ حساب لگایا جائے تو یہ تعداد 22 نہیں، بلکہ 38 ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (ابن ہشام ۲/۱۲۲تا ۱۲۹ فتح الباری ۷/۳۵۱ اور غزوہ ٔ احد تصنیف محمد احمد باشمیل ص ۲۷۸، ۲۷۹،۲۸۰)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 162 محبت وجانثاری کے نادر واقعات: شہداء کی تدفین اور اللہ عزوجل کی ثناء و دعا سے فارغ ہو کر رسول ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 161


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 161

شہداء کی جمع وتدفین:

اس موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی شہداء کا معائنہ فرمایا اور فرمایا کہ ''میں ان لوگوں کے حق میں گواہ رہوں گا، حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں زخمی کیا جاتا ہے، اسے اللہ قیامت کے روز اس حالت میں اٹھائے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا، رنگ تو خون ہی کا ہوگا، لیکن خوشبو مشک کی خوشبو ہوگی۔ (ابن ہشام ۲/۹۸)

کچھ صحابہ نے اپنے شہداء کو مدینہ منتقل کرلیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اپنے شہیدوں کو واپس لاکر ان کی شہادت گاہوں میں دفن کریں، نیز شہداء کے ہتھیار اور پوستین کے لباس اتار لیے جائیں، پھر انہیں غسل دیے بغیر جس حالت میں ہوں اسی حالت میں دفن کردیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو دو تین تین شہیدوں کو ایک ہی قبر میں دفن فرمارہے تھے اور دو دو آدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں اکٹھا لپیٹ دیتے تھے اور دریافت فرماتے تھے کہ ان میں سے کس کو قرآن زیادہ یاد ہے؟ لوگ جس کی طرف اشارہ کرتے، اسے لحد میں آگے کرتے اور فرماتے کہ میں قیامت کے روز ان لوگوں کے بارے میں گواہی دوں گا۔'' (صحیح بخاری مع فتح الباری ۳/۲۴۸ حدیث نمبر ۱۳۴۳، ۱۳۴۶، ۱۳۴۷، ۱۳۴۸، ۱۳۵۳، ۴۰۷۹)

عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ اور عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ ایک ہی قبر میں دفن کیے گئے، کیونکہ ان دونوں میں دوستی تھی۔ ( صحیح بخاری ۲/۵۸۴ زاد المعاد ۲/۹۸ 3 زاد المعاد ۲/۹۴)

حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کی لاش غائب تھی، تلاش کے بعد ایک جگہ اس حالت میں ملی کہ اس سے پانی ٹپک رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتلایا کہ فرشتے انہیں غسل دے رہے ہیں، پھر فرمایا: "ان کی بیوی سے پوچھو کیا معاملہ ہے۔؟" ان کی بیوی سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے واقعہ بتلایا، یہیں سے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا نام "غَسیل الملائکہ" (فرشتوں کے غسل دیے ہوئے) پڑگیا۔ ( یہ ابن شاذان کی روایت ہے، دیکھئے: مختصر السیرۃ للشیخ عبداللہ ص ۲۵۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا حال دیکھا تو سخت غمگین ہوئے، آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں، وہ بھی اپنے بھائی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھنا چاہتی تھیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے صاحبزادے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ انہیں واپس لے جائیں، وہ اپنے بھائی کا حال دیکھ نہ لیں۔

مگر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "آخر ایسا کیوں؟ مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ میرے بھائی کا مثلہ کیا گیا ہے، لیکن یہ اللہ کی راہ میں ہے، اس لیے جو کچھ ہوا ہم اس پر پوری طرح راضی ہیں، میں ثواب سمجھتے ہوئے ان شاء اللہ ضرور صبر کروں گی۔" اس کے بعد وہ حضرت حمزہ کے پاس آئیں، انہیں دیکھا، ان کے لیے دعا کی، إنا للہ پڑھی اور اللہ سے مغفرت مانگی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے ساتھ دفن کردیا جائے، وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے بھانجے تھے۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ پر جس طرح روئے، اس سے بڑھ کر روتے ہوئے ہم نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قبلے کی طرف رکھا، پھر ان کے جنازے پر کھڑے ہوئے اور اس طرح روئے کہ آواز بلند ہوگئی۔

درحقیقت شہداء کا منظر تھا ہی بڑا دلدوز اور زہرہ گزار، چنانچہ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے لیے ایک سیاہ دھاریوں والی چادر کے سوا کوئی کفن نہ مل سکا، یہ چادر سر پر ڈالی جاتی تو پاؤں کھُل جاتے اور پاؤں پر ڈالی جاتی تو سر کھُل جاتا، بالآخر چادر سے سر ڈھک دیا گیا اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دی گئی، (یہ بالکل موج کے ہم شکل ایک خوشبودار گھاس ہوتی ہے، بہت سے مقامات پر چائے میں ڈال کر پکائی جاتی ہے، عرب میں اس کا پودا ہاتھ ڈیڑھ ہاتھ سے لمبا نہیں ہوتا، جبکہ ہندوستان میں ایک میٹر سے بھی لمبا ہوتا ہے۔) (مسند احمد ، مشکوٰۃ ۱/۱۴۰)

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مُصعب بن عُمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت واقع ہوئی اور وہ مجھ سے بہتر تھے، انہیں ایک چادر کے اندر کفنایا گیا، حالت یہ تھی کہ اگر ان کا سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھانکے جاتے تو سر کھل جاتا تھا، ان کی یہی کیفیت حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے بھی بیان کی ہے اور اتنا مزید اضافہ فرمایا ہے کہ (اس کیفیت کو دیکھ کر) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ چادر سے ان کا سر ڈھانک دو اور پاؤں پر اِذخر ڈال دو۔ (صحیح بخاری ۲/۵۷۹،۵۸۴ مع فتح الباری ۳/۱۷۰ حدیث نمبر ۱۲۷۶ ، ۳۸۹۷ ، ۳۹۱۳، ۳۹۱۴ ، ۴۰۴۷ ، ۴۰۸۲ ، ۶۴۳۲، ۶۴۴۸)

امام احمد کی روایت ہے کہ احد کے روز جب مشرکین واپس چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: "برابر ہوجاؤ! ذرا میں اپنے رب عزوجل کی ثناء کروں۔" اس حکم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صفیں باندھ لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں فرمایا:

''اے اللہ! تیرے ہی لیے ساری حمد ہے، اے اللہ! جس چیز کو تو کشادہ کردے، اسے کوئی تنگ نہیں کرسکتا اور جس چیز کو تو تنگ کردے، اسے کوئی کشادہ نہیں کرسکتا، جس شخص کو تو گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور جس شخص کو تو ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، جس چیز کو تو روک دے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جو چیز تو دے دے اسے کوئی روک نہیں سکتا، جس چیز کو تو دور کردے اسے کوئی قریب نہیں کرسکتا اورجس چیز کو تو قریب کردے اسے کوئی دور نہیں کرسکتا۔

اے اللہ! ہمارے اوپر اپنی برکتیں، رحمتیں اور فضل ورزق پھیلا دے۔
اے اللہ! میں تجھ سے برقرار رہنے والی نعمت کا سوال کرتا ہوں، جو نہ ٹلے اور نہ ختم ہو۔
اے اللہ! میں تجھ سے فقر کے دن مدد کا اور خوف کے دن امن کا سوال کرتا ہوں۔
اے اللہ! جو کچھ تونے ہمیں دیا ہے، اس کے شر سے اور جو کچھ نہیں دیا ہے، اس کے بھی شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
اے اللہ! ہمارے نزدیک ایمان کو محبوب کردے اور اسے ہمارے دلوں میں خوشنما بنا دے اور کفر، فسق اور نافرمانی کو ناگوار بنادے اور ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں کردے۔
اے اللہ! ہمیں مسلمان رکھتے ہوئے وفات دے اور مسلمان ہی رکھتے ہوئے زندہ رکھ اور رسوائی اور فتنے سے دوچار کیے بغیر صالحین میں شامل فرما۔
اے اللہ! تو ان کا فروں کو مار اور ان پر سختی اور عذاب کر جو تیرے پیغمبروں کو جھٹلاتے اور تیری راہ سے روکتے ہیں۔
اے اللہ! ان کافروں کو بھی مار، جنہیں کتاب دی گئی۔ یا الٰہ الحق! ''

(بخاری ، الادب المفرد ، مسند احمد ۳/۳۲۴)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 161 شہداء کی جمع وتدفین: اس موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی شہداء کا معائنہ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 160


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 160

شہیدوں اور زخمیوں کی خبرگیری:

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ان مسلمانوں میں تھا جو گھاٹی سے باہر آئے تھے، میں نے دیکھا کہ مشرکین کے ہاتھوں مسلمان شہداء کا مُثلہ کیا جارہا ہے تو رک گیا، پھر آگے بڑھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مشرک جو بھاری بھرکم زِرہ میں ملبوس تھا، شہیدوں کے درمیان سے گزر رہا ہے اور کہتا جا رہا ہے کہ "کٹی ہوئی بکریوں کی طرح ڈھیر ہوگئے"، دیکھا کہ ایک مسلمان اس کی راہ تک رہا ہے، وہ بھی زِرہ پہنے ہوئے، میں چند قدم اور بڑھ کر اس کے پیچھے ہولیا، پھر کھڑے ہو کر آنکھوں ہی آنکھوں میں مسلم اور کافر کو تولنے لگا، محسوس ہوا کہ کافر اپنے ڈیل ڈول اور سازوسامان دونوں لحاظ سے بہتر ہے، اب میں دونوں کا انتظار کرنے لگا، بالآخر دونوں میں ٹکر ہوگئی اور مسلمان نے کافر کو ایسی تلوار ماری کہ وہ پاؤں تک کاٹتی چلی گئی، مشرک دوٹکڑے ہو کر گرا، پھر مسلمان نے اپنا چہرا کھولا اور کہا: "او کعب! کیسی رہی۔؟ میں ابو دجانہ (رضی اللہ عنہ) ہوں۔" ( البدایۃ والنہایۃ ۴/۱۷)

خاتمۂ جنگ پر کچھ مومن عورتیں میدانِ جہاد میں پہنچیں، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور امِ سُلیم رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ پیٹھ پر مشک لاد لاد کر لارہی تھیں اور قوم کے منہ میں انڈیل رہی تھیں۔ (صحیح بخاری ۱/۴۰۳ ، ۵۸۱)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ احد کے روز حضرت اُم سلیط رضی اللہ عنہا ہمارے لیے مشک بھر بھر کر لارہی تھیں۔ (ایضاً ۱/۴۰۳)

حضرت سَہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "مجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زخم کس نے دھویا، پانی کس نے بہایا اور علاج کس چیز سے کیا گیا۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لختِ جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زخم دھو رہی تھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ڈھال سے پانی بہا رہے تھے، جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ پانی کے سبب خون بڑھتا ہی جارہا ہے تو چٹائی کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے جلا کر چپکا دیا، جس سے خون رک گیا۔" ( صحیح بخاری ۲/۵۸۴)

ادھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ شیریں اور خوش ذائقہ پانی لائے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا اور دعائے خیر دی۔ (السیرۃ الحلبیہ ۲/۳۰)

زخم کے اثر سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی نماز بیٹھے بیٹھے پڑھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھ ہی کر نماز ادا کی۔ (ابن ہشام ۲/۸۷)

قریش کی واپسی کے بعد مسلمان اپنے شہیدوں اور زخمیوں کی کھوج خبر لینے کے لیے فارغ ہوگئے، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ احد کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بھیجا کہ میں سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کو تلاش کروں اور فرمایا کہ "اگر وہ دکھائی پڑجائیں تو انہیں میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دریافت کررہے ہیں کہ تم اپنے آپ کو کیسا پارہے ہو۔؟"

حضرت زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مقتولین کے درمیان چکر لگاتے ہوئے ان کے پاس پہنچا تو ان کی آخری سانس آ جا رہی تھی، انہیں نیزے، تلوار اور تیر کے ستر سے زیادہ زخم آئے تھے، میں نے کہا: "اے سعد! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو سلام کہتے ہیں اور دریافت فرمارہے ہیں کہ مجھے بتاؤ اپنے آپ کو کیسا پارہے ہو۔؟"

انہوں نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام۔ آپ سے عرض کرو کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! جنت کی خوشبو پا رہا ہوں اور میری قوم انصار سے کہو کہ اگر تم میں سے ایک آنکھ بھی ہلتی رہی اور دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ گیا تو تمہارے لیے اللہ کے نزدیک کوئی عذر نہ ہوگا۔" اور اسی وقت ان کی روح پرواز کر گئی۔ (زاد المعاد ۲/۹۶)

لوگوں نے زخمیوں میں "اُصیرم" کو بھی پایا جن کا نام عمرو بن ثابت تھا، ان میں تھوڑی سی رمق باقی تھی، اس سے قبل انہیں اسلام کی دعوت دی جاتی تھی مگر وہ قبول نہیں کرتے تھے، اس لیے لوگوں نے (حیرت سے ) کہا: "یہ اصیرم کیسے آیا ہے۔؟ اسے تو ہم نے اس حالت میں چھوڑا تھا کہ وہ اس دین کا انکاری تھا۔" چنانچہ ان سے پوچھا گیا کہ تمہیں یہاں کیا چیز لے آئی؟ قوم کی حمایت کا جوش یا اسلام کی رغبت۔؟"

انہوں نے کہا: "اسلام کی رغبت۔ درحقیقت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آیا اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت میں شریک جنگ ہوا، یہاں تک کہ اب اس حالت سے دوچار ہوں جو آپ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔" اور اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا، لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "وہ جنتیوں میں سے ہے۔" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حالانکہ اس نے اللہ کے لیے ایک وقت کی بھی نماز نہیں پڑھی تھی (کیونکہ اسلام لانے کے بعد ابھی کسی نماز کا وقت آیا ہی نہ تھا کہ شہید ہوگئے) (ایضا ۲/۹۴، ابن ہشام ۲/۹۰)

ان ہی زخمیوں میں "قُزمان" بھی ملا، اس نے جنگ میں خوب خوب داد شجاعت دی تھی اور تنہا سات یا آٹھ مشرکین کو تہ تیغ کیا تھا، وہ جب ملا تو زخموں سے چور تھا، لوگ اسے اٹھا کر بنو ظفر کے محلے میں لے گئے اور مسلمانوں نے خوشخبری سنائی، کہنے لگا: "واللہ! میری جنگ تو محض اپنی قوم کے ناموس کے لیے تھی اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں لڑائی ہی نہ کرتا۔" اس کے بعد جب اس کے زخموں نے شدت اختیار کی تو اس نے اپنے آپ کو ذبح کرکے خودکشی کرلی۔" ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا جب بھی ذکر کیا جاتا تھا تو فرماتے تھے کہ وہ جہنمی ہے۔ (زادالمعاد ۲/۹۷ ، ۹۸۔ ابن ہشام ۲/۸۸)

اور اس واقعے نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئی پر مہر تصدیق ثبت کردی، حقیقت یہ ہے کہ اِعلاء کلمۃُ اللہ کے بجائے وطنیت یا کسی بھی دوسری راہ میں لڑنے والوں کا انجام یہی ہے، چاہے وہ اسلام کے جھنڈے تلے بلکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے لشکر ہی میں شریک ہوکر کیوں نہ لڑرہے ہوں۔

اس کے بالکل برعکس مقتولین میں بنو ثعلبہ کا ایک یہودی تھا، اس نے اس وقت جبکہ جنگ کے بادل منڈلارہے تھے، اپنی قوم سے کہا: "اے جماعت یہود! اللہ کی قسم! تم جانتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد تم پر فرض ہے۔" یہود نے کہا: "مگر آج سَبت (سنیچر) کا دن ہے۔" اس نے کہا: "تمہارے لیے کوئی سبت نہیں۔" پھر اس نے اپنی تلوار لی، ساز وسامان اٹھایا اور بولا: "اگر میں مارا جاؤں تو میرا مال محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے، وہ اس میں جو چاہیں گے کریں گے۔" اس کے بعد میدانِ جنگ میں گیا اور لڑتے بھِڑتے مارا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "مُخیریق بہترین یہودی تھا۔" (ابن ہشام ۲/۸۸، ۸۹)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 160 شہیدوں اور زخمیوں کی خبرگیری: حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ان مسلمانوں میں...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 159


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 159

ابوسفیان کی شماتت اور حضرت عمرؓ کا جواب:

ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھاٹی میں تشریف لاچکے تو اُبی بن خلف یہ کہتا ہوا آیا کہ "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہاں ہے؟ یاتو میں رہوں گا یا وہ رہے گا۔"

صحابہ نے کہا: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم میں سے کوئی اس پر حملہ کرے۔؟"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اسے آنے دو۔" جب قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لیا اور اس کے مدمقابل پہنچے، اس کی خود اور زِرہ کے درمیان حلق کے پاس تھوڑی سی جگہ کھُلی دکھائی پڑی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی پر ٹکا کر ایسا نیزہ مارا کہ وہ گھوڑے سے لڑھک گیا۔

جب قریش کے پاس گیا، درآں حالیکہ گردن میں کوئی بڑی خراش نہ تھی، البتہ خون بند تھا اور بہتا نہ تھا توکہنے لگا: "مجھے واللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتل کردیا۔" لوگوں نے کہا: "اللہ کی قسم! تمہارا دل چلا گیا ہے، ورنہ تمہیں کوئی خاص چوٹ نہیں ہے۔" اس نے کہا: "وہ مکے میں مجھ سے کہہ چکا تھا کہ میں تمہیں قتل کروں گا۔"

(اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ ہے کہ جب مکے میں ابی بن خلف کی ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتی تو وہ آپ سے کہتا: "اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس عود نامی ایک گھوڑا ہے، میں اسے روزانہ تین صاع (ساڑھے سات کلو) دانہ کھلاتا ہوں، اسی پر بیٹھ کر تمہیں قتل کروں گا، جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: "بلکہ ان شاء اللہ میں تمہیں قتل کروں گا۔) اس لیے اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ پر تھوک دیتا تو بھی میری جان چلی جاتی، بالآخر اللہ کا یہ دشمن مکہ واپس ہوتے ہوئے مقام سرف پہنچ کر مر گیا۔ (ابن ہشام ۲/۸۴۔ زاد المعاد ۲/۹۷)

ابو الاسود نے حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ یہ بیل کی طرح آواز نکالتا تھا اور کہتا تھا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو تکلیف مجھے ہے اگر وہ ذی المجاز کے سارے باشندوں کو ہوتی تو وہ سب کے سب مرجاتے۔" (مستدرک حاکم ۲/۳۲۷)

پہاڑ کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی کے دوران ایک چٹان پڑگئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر چڑھنے کی کوشش کی مگر چڑھ نہ سکے، کیونکہ ایک تو آپ کا بدن بھاری ہوچکا تھا، دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوہری زِرہ پہن رکھی تھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت چوٹیں بھی آئی تھیں، لہٰذا حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نیچے بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سوار کرکے کھڑے ہوگئے، اس طرح آپ چٹان پر پہنچ گئے۔ (ابن ہشام ۲/۸۶، ترمذی حدیث نمبر ۱۶۹۲)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھاٹی کے اندر اپنی قیادت گاہ میں پہنچ گئے تو مشرکین نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی آخری کوشش کی، ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اس اثناء میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھاٹی کے اندر تشریف فرما تھے، ابو سفیان اور خالد بن ولید کی قیادت میں مشرکین کا ایک دستہ چڑھ آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا فرمائی کہ اے اللہ! یہ ہم سے اوپر نہ جانے پائیں، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور مہاجرین کی ایک جماعت نے لڑ کر انہیں پہاڑ سے نیچے اتار دیا۔ (ابن ہشام ۲/۸۶)

یہ آخری حملہ تھا جو مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کیا تھا، چونکہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انجام کا صحیح علم نہ تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کا تقریباً یقین تھا، اس لیے انہوں نے اپنے کیمپ کی طرف پلٹ کر مکہ واپسی کی تیاری شروع کردی، کچھ مشرکین مرد اور عورتیں مسلمان شہداء کے مثلہ میں مشغول ہوگئے، یعنی شہیدوں کی شرمگاہیں اور کان، ناک وغیرہ کاٹ لیے، پیٹ چیر دیے۔ (ابن ہشام ۲/۹۰)

مشرکین نے واپسی کی تیاری مکمل کرلی تو ابو سفیان جبل اُحد پر نمودار ہوا اور بآواز بلند بولا: "کیا تم میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں؟" لوگوں نے کوئی جواب نہیں دیا، اس نے پھر کہا: "کیا تم میں ابو قحافہ کے بیٹے (ابوبکر رضی اللہ عنہ) ہیں؟" لوگوں نے کوئی جواب نہ دیا، اس نے پھر سوال کیا: "کیا تم میں عمر بن خطاب ہیں؟" لوگوں نے اب کی مرتبہ بھی جواب نہ دیا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا جواب دینے سے منع فرما دیا تھا، ابو سفیان نے ان تین کے سوا کسی اور کے بارے میں نہ پوچھا، کیونکہ اسے اور اس کی قوم کو معلوم تھا کہ اسلام کا قیام ان ہی تینوں کے ذریعے ہے۔

بہرحال جب کوئی جواب نہ ملا تو اس نے کہا: "چلو ان تینوں سے فرصت ہوئی۔" یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بےقابو ہوگئے اور بولے: "او اللہ کے دشمن! جن کا تونے نام لیا ہے، وہ سب زندہ ہیں اور ابھی اللہ نے تیری رسوائی کا سامان باقی رکھا ہے۔"

اس کے بعد ابوسفیان نے کہا: "تمہارے مقتولین کا مُثلہ ہوا ہے، لیکن میں نے نہ اس کا حکم دیا تھا اور نہ اس کا برا ہی منایا ہے۔" پھر نعرہ لگایا: "اُعلُ ھُبَل۔ ھبل بلند ہو۔"

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو فرمایا کہ تم جواب دو! "اللہ أعلیٰ وأجل۔ اللہ اعلیٰ اور برتر ہے۔"

پھر ابو سفیان نے نعرہ لگایا: "لنا عُزیٰ ولا عٰزیٰ لکم __ ہمارے لیے عُزیٰ ہے اور تمہارے لیے عُزیٰ نہیں۔"
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر صحابہ کو فرمایا کہ تم جواب دو "اللہ مولانا ولا مولیٰ لکم _ اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں۔"

اس کے بعد ابو سفیان نے کہا: "کتنا اچھا کارنامہ رہا، آج کا دن جنگ بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی ڈول ہے (یعنی کبھی ایک فریق غالب آتا ہے اور کبھی دوسرا، جیسے ڈول کبھی کوئی کھینچتا ہے کبھی کوئی)"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا: "برابر نہیں، ہمارے مقتولین جنت میں ہیں اور تمہارے مقتولین جہنم میں۔"

اس کے بعد ابوسفیان نے کہا: "عمر! میرے قریب آؤ۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ! دیکھو کیا کہتا ہے۔؟"
وہ قریب آئے تو ابوسفیان نے کہا: "عمر! میں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردیا ہے۔؟"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "واللہ! نہیں، بلکہ اس وقت وہ تمہاری باتیں سن رہے ہیں۔"
ابوسفیان نے کہا: "تم میرے نزدیک ابن قمئہ (جس نے قتل کی ہوائی اڑائی تھی) سے زیادہ سچے اور راست باز ہو۔" (ابن ہشام ۲/۹۳، ۹۴ زاد المعاد ۲/۹۴ صحیح بخاری ۲/۵۷۹)

ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ابوسفیان اور اس کے رُفقاء واپس ہونے لگے تو ابوسفیان نے کہا: "آئندہ سال بدر میں پھر لڑنے کا وعدہ ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا: "کہہ دو ٹھیک ہے، اب یہ بات ہمارے اور تمہارے درمیان طے رہی۔" ( ابن ہشام ۲/۹۴)

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا اور فرمایا: "قوم (مشرکین ) کے پیچھے پیچھے جاؤ اور دیکھو وہ کیا کررہے ہیں اور ان کا ارادہ کیا ہے۔؟ اگر انہوں نے گھوڑے پہلو میں رکھے ہوں اور اونٹوں پر سوارہوں تو ان کا ارادہ مکہ کا ہے اور اگر گھوڑوں پر سوار ہوں اور اونٹ ہانک کر لے جائیں تو مدینے کا ارادہ ہے۔" پھر فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر انہوں نے مدینے کا ارادہ کیا تو میں مدینے جا کر ان سے دو دو ہاتھ کروں گا۔"

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں ان کے پیچھے نکلا تو دیکھا کہ انہوں نے گھوڑے پہلو میں کررکھے ہیں، اونٹوں پر سوار ہیں اور مکے کا رُخ ہے۔(ابن ہشام ۲/۹۴) حافظ ابن حجر نے فتح الباری (۷/۳۴۷) میں لکھا ہے کہ مشرکین کے عزائم کا پتہ لگانے کے لیے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے تھے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری.۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 159 ابوسفیان کی شماتت اور حضرت عمرؓ کا جواب: ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و...