سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 123


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 123

کفار مکہ کو اطلاع:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منزل مقصود مقام بدر تھا، کیونکہ ابوسفیان کا قافلہ جس کاروانی شاہراہ سے آرہا تھا وہ مقام بدر سے گزرتی تھی اور دستور تھا کہ قافلے یہاں پہنچ کر پڑاؤ ڈالتے تھے، یہ مقام بدر کوئی ایک میل لمبا اور اس سے کچھ کم چوڑا ایک میدان ہے جو ہر طرف بلند وبالا اور ناقابل عبور پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، آنے جانے کے لیے ان پہاڑوں کے درمیان صرف تین یا چار راستے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پلان غالباً یہ تھا کہ قافلہ یہاں اترپڑے، اس کے بعد ان راستوں کو بند کرکے اسے گھیر لیا جائے، اس صورت میں کوئی آدمی یا کوئی اونٹ بچ کر جا نہیں سکتا تھا، غالباً اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دھیمی رفتار سے اور بدر کے رخ سے قدرے ہٹ کر جارہے تھے۔

دوسری طرف قافلے کی صورت حال یہ تھی کہ ابو سفیان، (سردار قریش اور تاحال کافر تھے) جو اس کے نگہبان تھے، حددرجہ محتاط تھے، انہیں معلوم تھا کہ مکے کا راستہ خطروں سے پُر ہے، اس لیے وہ حالات کا مسلسل پتا لگاتے رہتے تھے اور جن قافلوں سے ملاقات ہوتی تھی ان سے کیفیت دریافت کرتے رہتے تھے، چنانچہ ان کا جلد ہی یہ اندیشہ قوی ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو قافلے پر حملے کی دعوت دے دی ہے، لہٰذا ابو سفیان نے فوراً ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر مکے بھیجا کہ وہاں جاکر قافلے کی حفاظت کے لیے قریش میں نفیر عام کی صدا لگائے۔

ضمضم نہایت تیز رفتاری سے مکہ آیا اور عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیڑی، کجاوہ الٹا، کرتا پھاڑا اور وادی مکہ میں اسی اونٹ پر کھڑے ہو کر آواز لگائی:

"اے جماعت قریش! قافلہ، قافلہ تمہارا مال جو ابوسفیان کے ہمراہ ہے، اس پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھی دھاوا بولنے جارہے ہیں، مجھے یقین نہیں کہ تم اسے پاسکو گے، مدد! مدد! ''

یہ آواز سن کر لوگ ہر طرف سے دوڑ پڑے، کہنے لگے: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ یہ قافلہ بھی ابن حضرمی کے قافلے جیسا ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں! اللہ کی قسم! انہیں پتا چل جائے گا کہ ہمارا معاملہ کچھ اور ہے۔"

چنانچہ سارے مکے میں دو ہی طرح کے لوگ تھے، یا تو آدمی خود جنگ کے لیے نکل رہا تھا یا اپنی جگہ کسی اور کو بھیج رہا تھا اور اس طرح گویا سبھی نکل پڑے، خصوصاً معززین مکہ میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہا، صرف ابولہب نے اپنی جگہ ایک قرض دار کو بھیجا، گردوپیش کے قبائل عرب کو بھی قریش نے بھرتی کیا اور خود قریشی قبائل میں سے سوائے بنوعدی کے کوئی بھی پیچھے نہ رہا، البتہ بنو عدی کے کسی بھی آدمی نے اس جنگ میں شرکت نہ کی۔

ابتدا میں قریش کے لشکر کی تعداد تیرہ سو تھی، جن کے پاس ایک سو گھوڑے اور چھ سو زرہیں تھیں، اونٹ کثرت سے تھے، جن کی ٹھیک ٹھیک تعداد معلوم نہ ہوسکی، لشکر کا سپہ سالار ابوجہل بن ہشام تھا، قریش کے نو معزز آدمی اس کی رسد کے ذمے دار تھے، ایک دن نو اور ایک دن دس اونٹ ذبح کیے جاتے تھے، بہرحال یہ لوگ نہایت تیز رفتاری سے شمال کے رخ پر بدر کی جانب چلے جارہے تھے کہ وادی عسفان اور قدید سے گزر کر جحفہ پہنچے تو ابوسفیان کا ایک نیا پیغام موصول ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ آپ لوگ اپنے قافلے، اپنے آدمیوں اور اپنے اموال کی حفاظت کی غرض سے نکلے ہیں اور چونکہ خدا نے ان سب کو بچا لیا ہے، لہٰذا اب واپس چلے جائیے۔

ابو سفیان کے بچ نکلنے کی تفصیل یہ ہے کہ وہ شام سے کاروانی شاہراہ پر چلے تو آرہے تھے، لیکن مسلسل چوکنا اور بیدار تھے، انہوں نے اپنی فراہمی اطلاعات کی کوشش بھی دوچند کر رکھی تھیں، جب وہ بدر کے قریب پہنچے تو خود قافلے سے آگے جاکر مجدی بن عمرو سے ملاقات کی اور اس سے لشکر مدینہ کی بابت دریافت کیا، مجدی نے کہا: "میں نے کوئی خلافِ معمول آدمی تو نہیں دیکھا، البتہ دو سوار دیکھے جنہوں نے ٹیلے کے پاس اپنے جانور بٹھائے، پھر اپنے مشکیز ے میں پانی بھر کر چلے گئے۔''

ابوسفیان لپک کر وہاں پہنچے اور ان کے اونٹ کی مینگنیاں اُٹھا کر توڑیں تو اس میں کھجور کی گٹھلی برآمد ہوئی، ابو سفیان نے کہا: "اللہ کی قسم! یہ یثرب کا چارہ ہے۔" اس کے بعد وہ تیزی سے قافلے کی طرف پلٹے اور اسے مغرب کی طرف موڑ کر اس کا رخ ساحل کی طرف کردیا اور بدر سے گزرنے والی کاروانی شاہراہ کو بائیں ہاتھ چھوڑدیا، اس طرح قافلے کو مدنی لشکر کے قبضے میں جانے سے بچالیا اور فوراْ ہی مکی لشکر کو اپنے بچ نکلے کی اطلاع دیتے ہوئے اسے واپس جانے کا پیغام دیا جو اسے جحفہ میں موصول ہوا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 123 کفار مکہ کو اطلاع: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منزل مقصود مقام بدر تھا، کیونکہ ابوسف...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 122


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 122

قریش کا تجارتی قافلہ اور مسلمانوں کی بدر روانگی:

سریّہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ بعض اعتبارات سے بڑی اہمیت کے حامل ہے، اس لئے کہ ان کے دوران مسلمانوں کی جانب سے پہلا قتل ہوا، پہلے قیدی ملے، پہلی غنیمت ملی، امیر لشکر کو پہلی بار امیر المؤمنین کا خطاب ملا اور انہوں نے اپنی طرف سے پہلا اجتہاد کیا، بعد میں خلفائے راشدین میں سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ امیرالمؤمنین کے لقب سے پکارے گئے۔ (مصباح الدین شکیل، سیرت احمد مجتبیٰ)

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ غزوۂ بدر اور دوسری تمام لڑائیاں جو قریش کے ساتھ ہوئیں، ان سب کا سبب یہی عمرو بن الحضرمی کا قتل تھا جو عبداللہ حضرمی کا بیٹا تھا، گرفتار ہونے والے بھی بااثر لوگ تھے، طبری کے بیان کے مطابق جنگ بدر اور دوسری لڑائیاں جو مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہوئیں، ان سب کا سبب عمرو بن عبداللہ الحضرمی کا قتل تھا۔

یہ چند سرایاء اور غزوات جو غزوہ بدر سے پہلے ہوئے، ان میں سے کسی میں بھی لوٹ مار اور قتل و غارت گری کی نوبت نہیں آئی جب تک کہ مشرکین نے کرز بن جابر فہری کی قیادت میں لوٹ مار نہیں کی، اب تک مسلمانوں نے جو مہمیں روانہ کیں ان کا مقصد حفاظت خود اختیاری تھا، لیکن لوٹ مار کی ابتداء مشرکین نے اپنے طرف سے کی۔

قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ پرحملہ کی تیاریاں شروع کر دی تھیں، عبداللہ بن اُبی کو خط لکھ بھیجا کہ یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کر دو، یا ہم آکر ان کے ساتھ تمہارا بھی فیصلہ کر دیتے ہیں، قریش کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں مدینہ کی طرف گشت لگاتی رہتی تھیں، کرز بن جابر فہری مدینہ کی چراگاہوں تک آکر غارت گری کر گیا تھا، حضرت ذر رضی اللہ عنہ (حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے) کو شہید کر دیا گیا تھا۔

حملہ کے لئے سب سے ضروری چیز مصارف جنگ کا بندوست تھا، اس لئے اب کے موسم میں قریش کا جو کاروان تجارت شام کو روانہ ہوا، اس سروسامان سے روانہ ہوا کہ مکہ کی تمام آبادی نے جس کے پاس جو رقم تھی، کل کی کل دے دی، نہ صرف مرد بلکہ عورتیں جو کاروبارتجارت میں بہت کم حصہ لیتی تھیں، ان کا بھی ایک ایک فرد اس میں شریک تھا، قافلہ ابھی شام کے لئے روانہ نہیں ہوا تھا کہ عمرو بن عبداللہ الحضرمی کے قتل کا واقعہ پیش آ گیا جس نے قریش کی آتش غضب کو اور بھڑکا دیا، اسی اثنا میں یہ غلط خبر مکہ معظمہ میں پھیل گئی کہ مسلمان قافلہ لوٹنے کے لئے آ رہے ہیں، قریش کے غیظ و غضب کا بادل بڑے زور و شور سے اٹھا اور تمام عرب پر چھا گیا۔

غزوۂ عشیرہ کے ذکر میں آ چکا کہ قریش کا ایک قافلہ مکے سے شام جاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گرفت سے بچ نکلا تھا، یہی قافلہ جب شام سے پلٹ کر مکہ واپس آنے والا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طلحہ بن عبیداللہ اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما کو اس کے حالات کا پتا لگا نے کے لیے شمال کی جانب روانہ فرمایا، یہ دونوں صحابی مقامِ حوراء تک تشریف لے گئے اور وہیں ٹھہرے رہے، جب ابوسفیان قافلہ لے کر وہاں سے گزرا تو یہ نہایت تیز رفتاری سے مدینہ پلٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی اطلاع دی۔

اس قافلے میں اہل مکہ کی بڑی دولت تھی، یعنی ایک ہزار اونٹ تھے جن پر کم ازکم پچاس ہزار دینار (دوسو ساڑھے باسٹھ کلو سونے) مالیت کا سازوسامان بار کیا ہو ا تھا، درآں حالیکہ اس کی حفاظت کے لیے صرف چالیس آدمی تھے۔

اہل مدینہ کے لیے یہ بڑا زرّین موقع تھا، جبکہ اہل مکہ کے لیے اس مالِ فراواں سے محرومی بڑی زبردست فوجی، سیاسی اور اقتصادی مار کی حیثیت رکھتی تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے اندر اعلان فرمایا کہ یہ قریش کا قافلہ مال ودولت لیے چلا آرہا ہے، اس کے لیے نکل پڑو۔

لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی پر روانگی ضروری نہیں قرار دی، بلکہ اسے محض لوگوں کی رغبت پر چھوڑ دیا، کیونکہ اس اعلان کے وقت یہ توقع نہیں تھی کہ قافلے کے بجائے لشکر قریش کے ساتھ میدانِ بدر میں ایک نہایت پُر زور ٹکر ہوجائے گی اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینے ہی میں رہ گئے، ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ سفر آپ کی گزشتہ عام فوجی مہمات کی طرح ہی ہوگا اور اسی لیے اس غزوے میں شریک نہ ہونے والوں سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روانگی کے لیے تیار ہوئے تو آپ کے ہمراہ کچھ اُوپر تین سو افراد تھے (یعنی 313 یا 314 یا 317 ) جن میں سے 82 یا 83 یا 84 مہاجر تھے اور بقیہ انصار، پھر انصار میں سے 61 قبیلہ اَوس سے تھے اور 170 قبیلہ خزرج سے، اس لشکر نے غزوے کا نہ کوئی خاص اہتمام کیا تھا نہ مکمل تیاری، چنانچہ پورے لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے، (ایک حضرت زُبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا اور دوسرا حضرت مقداد بن اسود کندی رضی اللہ عنہ کا) اور ستر اونٹ جن میں سے ہر اونٹ پر دو یا تین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے، ایک اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت مرثدبن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کے حصے میں آیا تھا، جن پر تینوں حضرات باری باری سوار ہوتے تھے۔

مدینہ کا انتظام اور نماز کی امامت پہلے پہل حضرت ابنِ اُمِّ مکتوم رضی اللہ عنہ کو سونپی گئی، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام رَوْحاء تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا منتظم بنا کر واپس بھیج دیا۔

لشکر کی تنظیم اس طرح کی گئی کہ ایک جیش مہاجرین کا بنایا گیا اور ایک انصار کا، مہاجرین کا علَم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیا گیا اور انصار کا علَم حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اور جنرل کمان کا پرچم جس کا رنگ سفید تھا، حضرت مصعب بن عمیر عبدری رضی اللہ عنہ کو دیا گیا، میمنہ کے افسر حضرت زُبیر بن عوام رضی اللہ عنہ مقرر کیے گئے اور مَیْسَرہ کے افسر حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ اور جیسا کہ ہم بتاچکے ہیں پورے لشکر میں صرف یہی دونوں بزرگ شہسوار تھے، ساقہ کی کمان حضرت قیس بن ابی صَعْصَعہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کی گئی اور سپہ سالارِ اعلیٰ کی حیثیت سے جنرل کمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود سنبھالی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نامکمل لشکر کو لے کر روانہ ہوئے تو مدینے کے دہانے سے نکل کر مکہ جانے والی شاہراہ عام پر چلتے ہوئے بئر روحاء تک تشریف لے گئے، پھر وہاں سے آگے بڑھے تو مکے کا راستہ بائیں جانب چھوڑ دیا اور داہنے جانب کترا کر چلتے ہوئے نازیہ پہنچے، (منزل مقصود بدر تھی ) پھر نازیہ کے ایک گوشے سے گزر کر وادی رحقان پار کی، یہ نازیہ اور درۂ صفراء کے درمیان ایک وادی ہے، اس وادی کے درۂ صفراء سے گزرے، پھر درہ سے اتر کر وادی صفراء کے قریب جا پہنچے اور وہاں سے قبیلہ جہینہ کے دو آدمیوں یعنی بسیس بن عمر اور عدی بن ابی الزغباء کو قافلے کے حالات کا پتا لگانے کے لیے بدر روانہ فرمایا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 122 قریش کا تجارتی قافلہ اور مسلمانوں کی بدر روانگی: سریّہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ بعض اعتب...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 121


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 121

غزوۂ بدرکُبریٰ ۔۔۔ اسلام کا پہلا فیصلہ کن معرکہ:

غزوۂ بدر کا پس منظر:

سَریہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے واقعات کے بعد مشرکین کا خوف حقیقت بن گیا اور ان کے سامنے ایک واقعی خطرۂ مجسم ہوکر آگیا، انہیں جس پھندے میں پھنسنے کا اندیشہ تھا اس میں اب وہ واقعی پھنس چکے تھے، انہیں معلوم ہوگیا کہ مدینے کی قیادت انتہائی بیدار مغز ہے اور ان کی ایک ایک تجارتی نقل وحرکت پر نظر رکھتی ہے، مسلمان چاہیں تو تین سو میل کا راستہ طے کرکے ان کے علاقے کے اندر انہیں مار کاٹ سکتے ہیں، قید کرسکتے ہیں، مال لُوٹ سکتے ہیں اور ان سب کے بعد صحیح سالم واپس بھی جا سکتے ہیں۔

مشرکین کی سمجھ میں آگیا کہ ان کی شامی تجارت اب مستقل خطرے کی زد میں ہے، لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنی حماقت سے باز نہ آنے اور جُہَینہ اور بنو ضمرہ کی طرح صلح وصفائی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے اپنے جذبۂ غیظ وغضب اور جوشِ بغض وعداوت میں کچھ اور آگے بڑھ گئے اور ان کے صنادید واکابر نے اپنی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرلیا کہ مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر ان کا صفایا کردیا جائے گا، چنانچہ یہی طیش تھا جو انہیں میدانِ بدر تک لے آیا۔

باقی رہے مسلمان تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے سریہ کے بعد شعبان 2 ھ میں ان پر جنگ فرض قرار دے دی اور اس سلسلے میں کئی واضح آیات نازل فرمائیں، ارشاد ہوا:

''اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور حد سے آگے نہ بڑھو، یقینا اللہ حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور انہیں جہاں پاؤ قتل کرو اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے وہاں سے تم بھی انہیں نکال دو اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے اور ان سے مسجد حرام کے پاس قتال نہ کرو، یہاں تک کہ وہ تم سے مسجد حرام میں قتال کریں، پس اگر وہ (وہاں) قتال کریں تو تم (وہاں بھی) انہیں قتل کرو، کافروں کی جزا ایسی ہی ہے، پس اگر وہ باز آجائیں تو بے شک اللہ غفور رحیم ہے، اور ان سے لڑائی کرو، یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے، پس اگر وہ باز آجائیں تو کوئی تَعدّی نہیں ہے، مگر ظالموں ہی پر۔'' (۲: ۱۹۰تا ۱۹۳)

اس کے جلد ہی بعد دوسری نوع کی آیات نازل ہوئیں، جن میں جنگ کا طریقہ بتایا گیا اور اس کی ترغیب دی گئی ہے اور بعض احکامات بھی بیان کیے گئے ہیں، چنانچہ ارشاد ہے:

''پس جب تم لوگ کفر کرنے والوں سے ٹکراؤ تو گردنیں مارو، یہاں تک کہ جب انہیں اچھی طرح کچل لو تو جکڑ کر باندھو، اس کے بعد یا تو احسان کرو یا فدیہ لو، یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے، یہ ہے (تمہارا کام ) اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے انتقام لے لیتا، لیکن (وہ چاہتاہے کہ ) تم میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں، اللہ ان کے اعمال کو ہرگز رائیگاں نہ کرے گا، اللہ ان کی رہنمائی کرے گا اور ان کا حال درست کرے گا اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جس سے ان کو واقف کرچکا ہے، اے اہل ایمان! اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم ثابت رکھے گا۔'' (۴۷: ۴- ۷ )

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی جن کے دل جنگ کا حکم سن کر کانپنے اور دھڑکنے لگے تھے، فرمایا:

''تو جب کوئی محکم سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر ہوتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے، وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہورہی ہو۔'' (۴۷: ۲۰)

حقیقت یہ ہے کہ جنگ کی فرضیت وترغیب اور اس کی تیاری کا حکم حالات کے تقاضے کے عین مطابق تھا، حتی کہ اگر حالات پر گہری نظر رکھنے والا کوئی کمانڈر ہوتا تو وہ بھی اپنی فوج کو ہر طرح کے ہنگامی حالات کا فوری مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیتا، لہٰذا وہ پروردگارِ برتر کیوں نہ ایسا حکم دیتا جو ہر کھلی اور ڈھکی بات سے واقف ہے، حقیقت یہ ہے کہ حالات حق وباطل کے درمیان ایک خون ریز اور فیصلہ کن معرکے کا تقاضا کررہے تھے، خصوصاً سریہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے بعد جو کہ مشرکین کی غیرت وحمیت پر ایک سنگین ضرب تھی اور جس نے انہیں کبابِ سیخ بنا رکھا تھا۔

احکامِ جنگ کی آیات کے سیاق وسباق سے اندازہ ہوتا ہے کہ خون ریز معرکے کا وقت قریب ہی ہے اور اس میں آخری فتح ونصرت مسلمانوں ہی کو نصیب ہوگی، آپ اس بات پر نظر ڈالیے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جہاں سے مشرکین نے تمہیں نکالا ہے، اب تم بھی وہاں سے انہیں نکال دو، پھر کس طرح اس نے قیدیوں کے باندھنے اور مخالفین کو کچل کر سلسلہ ٔ جنگ کو خاتمے تک پہنچانے کی ہدایت دی ہے جو ایک غالب اور فاتح فوج سے تعلق رکھتی ہے، یہ اشارہ تھا کہ آخری غلبہ مسلمانوں ہی کو نصیب ہوگا، لیکن یہ بات پردوں اور اشاروں میں بتائی گئی تاکہ جو شخص جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جتنی گرمجوشی رکھتا ہے، اس کا عملی مظاہرہ بھی کرسکے۔

پھر انہی دنوں شعبان 2 ھ فروری 624 ء میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ قبلہ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو بنایا جائے اور نماز میں اسی طرف رخ پھیرا جائے، اس کا فائدہ ہوا کہ کمزور اور منافق یہود جو مسلمانوں کی صف میں محض اضطراب وانتشار پھیلانے کے لیے داخل ہوگئے تھے، کھل کر سامنے آگئے اور مسلمانوں سے علیحدہ ہو کر اپنی اصل حالت پر واپس چلے گئے اور اس طرح مسلمانوں کی صفیں بہت سے غداروں اور خیانت کوشوں سے پاک ہوگئیں۔

تحویل قبلہ میں اس طرف بھی ایک لطیف اشارہ تھا کہ اب ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے جو اس قبلے پر مسلمانوں کے قبضے سے پہلے ختم نہ ہوگا، کیونکہ یہ بڑی عجیب بات ہوگی کہ کسی قوم کا قبلہ اس کے دشمنوں کے قبضے میں ہو اور اگر ہے تو پھر ضروری ہے کہ کسی نہ کسی دن اسے آزاد کرایا جائے۔

ان احکام اور اشاروں کے بعد مسلمانوں کی نشاط میں مزید اضافہ ہوگیا اور ان کے جہاد فی سبیل اللہ کے جذبات اور دشمن سے فیصلہ کن ٹکر لینے کی آرزو کچھ اور بڑھ گئی۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 121 غزوۂ بدرکُبریٰ ۔۔۔ اسلام کا پہلا فیصلہ کن معرکہ: غزوۂ بدر کا پس منظر: سَریہ عبداللہ ب...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 120


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 120

زکوٰۃ کی فرضیت:

چوتھا اہم واقعہ زکو'ۃ کی فرضیت کا ہے:
زکو'ة اسلام کے معاشی نظام کا ایک اہم حصہ ہے، جس سے مملکت کی بڑی تعداد اور انسانیت کا بڑا طبقہ مستفید ہوتا ہے، غرباء ومساکین کی خبرگیری صاحب حیثیت مسلمانوں پر فرض قرار دینا اسلام کی ایک خصوصیت ہے۔

فرضیتِ زکوٰۃ کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے، عام خیال یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد فرض ہوئی، بعض مؤرخ لکھتے ہیں کہ 8 ھ میں فتح مکہ کے بعد فرض ہوئی، ارکان اسلام میں کلمۂ شہادت اور صلوٰۃ کے بعد زکوٰۃ دین کا تیسرا اہم رکن ہے، قرآن مجید میں صلوٰۃ اور زکواۃ کا تذکرہ ساتھ ساتھ ہے۔

فقہی اصطلاح میں زکوٰۃ اس مالی امداد کو کہتے ہیں جو ہر صاحب نصاب مسلمان اپنی دولت پر سال میں صرف ایک دفعہ مخصوص مقدار میں ادا کرتا ہے، زکوٰۃ کی شرح اور قواعد و ضوابط عین عدل وانصاف پر مبنی ہیں کہ محتاجوں اور ضرورت مندوں کو دی جاتی ہے، جس سے امت میں طبقہ وارانہ منافرت پیدا نہیں ہوتی۔

زکوٰۃ مالی ایثار ہے اور اس کے ذریعہ سے اصلاح باطن اور معاشرہ کی مادی فلاح و بہبود مقصود ہے، قرآن مجید سورہ توبہ میں زکوٰۃ کی تقسیم کے لئے آٹھ مدات بیان کئے گئے ہیں۔

"صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اورمسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کی دلجوئی کرنی ہو اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور راہرو مسافروں کے لئے فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے-" (سورۂ توبہ : 60)

ان مدات کی تشریح درج ذیل ہے :

(۱) فقیر: یعنی وہ لوگ جن کے پاس کچھ نہ ہو۔
(۲) مسکین: یعنی وہ جن کے پاس ضرورت کے لائق نہ ہو۔
(۳) عامل: وہ لوگ جو حکو مت کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے مقرر ہوں۔
(۴) مؤلفۃ القلوب: وہ لوگ جن کے اسلام قبول کرنے کی اُمید ہو یا جو اسلام میں کمزور ہوں۔
(۵) رقاب: یعنی غلام یا قیدی کو مال دےکر آزاد کرایا جائے۔
(۶) غارم: یعنی قرض دار کا قرض ادا کیا جائے۔
(۷) فی سبیل اللہ: یعنی جہاد وغیرہ میں کام کرنے والوں کی مدد کی جائے۔
(۸) ابن السبیل: یعنی مسافر اگر محتاج ہو تو اس کی بھی مدد کی جائے۔

قرآن کے مقرر کردہ یہ آٹھ مدات بڑی اہمیت کے حامل ہیں، ان کے اندر انسانی زندگی کی بہت سی انفرادی اور اجتماعی ضروریات آگئی ہیں، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان مدات کی معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ان مدات میں بنیادی طور پر دو باتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

(۱) ایک یہ کہ مسلمانوں کی ضروریات کی تکمیل۔
(۲) اسلام کی نصرت و تقویت۔

فقراء ومساکین، عاملین زکوٰة، غلامی یا قرض میں مبتلا شخص یا مسافر کی امداد میں عام مسلمانوں کی ضرورت کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور مجاہدین اور مؤلفة القلوب کی مالی اعانت میں اسلام کی نصرت و استحکام کا پہلو پیش نظر ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ، ج : 25 ، ص : 40)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے مدات زکوٰة کی معنویت کا تجزیہ اس طرح کیا ہے:

 مملکت اور انسانی زندگی کی ضروریات اور مسائل تو بےشمار ہیں، مگر بنیادی طور پر انسان کو اسلامی حکومت میں رہتے ہوئے تین قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

(۱) شخصی ضروریات: فقراء ومساکین، مسافر اور مقروض میں انہی ضروریات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
(۲) مسلمانوں کی اجتماعی حفاظت کا مسئلہ: اس ذیل میں مجاہدین اور عاملین آتے ہیں۔
(۳) حقیقی یا امکانی شرور وفتن کے دفاع کا مسئلہ: اس ذیل میں مؤلفة القلوب اور جرمانہ کی بعض شکلیں آتی ہیں۔ (حجة اللہ البالغہ , 2/45 , مطبوعہ رشیدیہ , دہلی)

ان چند ضمنی، لیکن اہم واقعات کا تذکرہ مکمل ہوا۔ ان شاء اللہ اگلی قسط سے غزوہ بدر کا تفصیلی بیان ہوگا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 120 زکوٰۃ کی فرضیت: چوتھا اہم واقعہ زکو'ۃ کی فرضیت کا ہے: زکو'ة اسلام کے معاشی نظام کا ...

ظالم فرعون پر اللہ کا عذاب اورعبرت ونصیحت​


ظالم فرعون پر اللہ کا عذاب اورعبرت ونصیحت​

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ) سعودی عرب

ظلم اندھیرا ہے ، فساد فی الارض ہے اور کرہ ارض پردنیا کا سب سے بڑا گناہ ہے ۔ اللہ تعالی شرک کے علاوہ اپنے نفسوں پراور اللہ کےحق میں ہوئے ظلم وزیادتی کو چاہے تو معاف کرسکتا ہے مگربندوں کے حق میں ظلم وزیادتی کرنے والوں کوہرگز معاف نہیں کرے گا ۔ بھلے دنیا کی عدالتوں میں ایسے ظالموں کے لئے کوئی سزا نہیں مگرخالق کائنات کی عدالت سے دنیا کی سزامقرر ہوتی ہے اور ضرور اسے مل کررہتی ہے ، آخرت میں تو الگ سے سزا مقرر ہےہی ۔انسانی تاریخ ظالموں کی عبرتناک سزاؤں سے بھری پڑی ہے ، میں یہاں قرآن مقدس کے حوالے سے دنیا کے ظالم ترین انسان فرعون کے ظلم واستبداد اور اس پر اللہ کے قہر وعذاب کا ذکرکرنا چاہتا ہوں جس میں دنیا والوں کے لئے عبرت ونصیحت ہے مگر کم ہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں ،
 اللہ کا فرمان ہے : فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ (یونس:92)
ترجمہ: سوآج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لئے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔

بنی اسرائیل جس کی طرف موسی علیہ السلام بھیجے گئے ، دراصل یعقوب علیہ السلام کی بارہ اولاد سے چلنے والی بارہ قبائلی نسلیں ہیں جو مصر میں تھیں ۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا تھا ، ان کو پوری دنیا پر برتری اور حکومت عطا فرمائی تھی ،
 اللہ تعالی کا فرمان ہے :يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (البقرة:47)
ترجمہ: اے اولاد یعقوب میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی ۔

مصرمیں قبطیوں کی بھی قوم تھی جس سے فرعون یعنی بادشاہ ہوا کرتا تھا، جب بنی اسرائیل نے اللہ کے احکام کی نافرمانی کی ، حد سے تجاوز کیا تو اللہ نے ان پر چارصدیوں تک ظالم فراعنہ کو مسلط کردیا۔ فرعون نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنارکھا تھااور ان میں سے کوئی یہاں سے بھاگ بھی نہیں سکتا تھا۔ دوبارہ اللہ نے نبی اسرائیل پر مہربانی کی اور موسی علیہ السلام کو ان کی طرف نبی بناکر بھیجا اور آپ کی بدولت فرعون کے ظلم سے نجات دی ۔

موسی علیہ السلام اور فرعون کا قصہ بڑا طویل ہے ۔ سورہ قصص، سورہ شعراء اور دیگر متعدد مقامات پر اس کی تفاصیل مذکور ہیں ، میں قرآن اور تفاسیرکے حوالے سے مختصر طورپر یہاں موسی علیہ السلام کا قصہ اور بنی اسرائیل کا فرعون کے ظلم سے نجات بیان کردیتا ہوں ۔ موسی علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے نجومیوں اور کاہنوں نے فرعون کو خبردی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیداہونے والا ہے جو اس کی حکومت وسلطنت کا خاتمہ کرنے والا ہے ۔ اس وجہ سے فرعون بنی اسرائیل کا ہرلڑکا قتل کروانا شروع کردیا، قتل کی وجہ جب خدمت گزار نبی اسرائیلیوں کی کمی ہونےلگی تو پھرایک سال لڑکوں کو قتل کروانا شروع کیا اور ایک سال چھوڑ دیا کرتا تھا۔ موسی کےبڑے بھائی ہارون کی پیدائش قتل والے سال سے پہلے اور موسی علیہ السلام کی پیدائش قتل والے سال ہوئی ۔ اللہ نے موسی علیہ السلام کی ماں کی طرف وحی کی کہ اسے تابوت میں رکھ کر دریا میں بہادواور کوئی غم نہ کرو، ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا کہ اس بچے کو اس کے پاس دوبارہ لوٹائے گا اور اسے پیغمبر بھی بنائے گا۔ ماں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی اور بیٹی کو لوگوں کی نظروں سے دورہوکراسے دیکھتے رہنے کی تاکید کی ۔ قدرت کا کرشمہ کہ اس تابوت پہ فرعون کے حواریوں کی نظر پڑتی ہے وہ اسے دربار میں لے آتے ہیں ، لڑکا دیکھ کرفرعون نے قتل کا حکم دیا مگر فرعون کی بیوی نے یہ کہہ کر بچا لیا کہ شاید یہ ہمارے کسی کام آئے یا اسے ہم اپنا بیٹا بنالیں ۔قدرت نے بچے کو ماں کا ہی دودھ پلایا کیونکہ اس نے کسی کا دودھ پیا ہی نہیں۔ فرعون جسے اپنے ہلاک کرنے والے کی تلاش تھی ، اس کے قتل کے درپے تھا اور اس کام کے لئے سیکڑوں لڑکوں کا قتل کرواچکا تھا اس وقت وہ اپنے محل میں اسی کی پرورش کر رہا تھا۔ یہ بھی قدرت کا عظیم کرشمہ ہے۔ جوانی تک وہاں پلے بڑھے ، ایک روز انہوں نے ایک قبطی کو بنی اسرائیل پر ظلم کرتے دیکھا ، پہلے اسے منع کیا،باز نہ آنے پر ایک مکا رسید کردیا اور قبطی اسی وقت مرگیا ۔ اس ڈرسے کہ کہیں فرعون قبطی کو قتل کرنے کے جرم میں ہمیں نہ قتل کروادے وہ مدین چلے گئے ۔ وہاں ایک کنواں پر لوگوں کو جانور سیراب کرتے دیکھا، ان میں دولڑکیاں بھی تھیں جو کافی دیر سے انتظار کرہی تھیں ،موسی علیہ السلام نے وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم سب سے آخر میں اپنے جانور کو پلائیں گے ۔ موسی علیہ السلام نے پانی پلانے پر ان کی بغیراجرت مددکی، لڑکیاں گھر جاکر اپنے والد کو آپ کے بارے میں بتایا اور امانتدار وقوی ہونے کی صفت بتاکراپنے یہاں کام پر رکھنے کی صلاح دی۔ باپ نے موسی علیہ السلام کو طلب کیا اور آٹھ سال خدمت کرنے پر اپنی ایک بیٹی سے نکاح کا وعدہ کیا ،اگر دس سال پورے کریں تو یہ احسان ہوگا۔ موسی علیہ السلام راضی ہوگئے ۔ جب خدمت کرتے کرتے مدت پوری ہوگئی تو بوڑھے باپ نے آپ سے ایک بیٹی کا نکاح کردیا۔ اب موسی علیہ السلام اپنے اہل و مال کے ساتھ واپس لوٹ رہے تھے کہ راستے میں آگ کی تلاش میں ایک جگہ ٹھہر گئے ۔ بیوی کو انتظار کرنے کہا اور خوداس جگہ آگ لینے چلے گئے جہاں سے روشنی نظر آرہی تھی ۔ وہاں پہنچنے پر اللہ نے موسی علیہ السلام سے کلام کیا اور آپ کو نبوت سے سرفرازفرماکر فرعون کی طرف جاکر اسے نرمی سے تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔ اللہ نے آپ کو بطور معجزہ نو نشانیاں عطا فرمائی ۔ موسی علیہ السلام کے اندر ایک خوف تو یہ تھا کہ انہوں نے قبطی کومار دیا تھا اور دوسرا خوف یہ تھا کہ فرعون بڑا ظالم تھا،وہ رب ہونے کا دعویدار ہےساتھ ہی آپ کی زبان میں لکنت بھی تھی اس لئے اللہ سے چارباتوں کی دعا کی،اللہ فرماتا ہے:
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي، وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي، يَفْقَهُوا قَوْلِي، وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي، هَارُونَ أَخِي، اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي، وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي(طہ:25-32)
ترجمہ: موسی نے کہا اے میرے پروردگار!(1)میرا سینہ میرے لئے کھول دے (2)اور میرے کام کو مجھ پر آسان کردے (3)اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں (4)اور میرا وزیر میرے کنبہ میں سے کردے یعنی میرے بھائی ہارون کو، تو اس سے میری کمر کس دے اور اسے میرا شریک کار کردے۔ 

دونوں بھائی موسی اور ہارون علیھما السلام نے فرعون کو ر ب العالمین کا پیغام سنایااور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف بلایا مگر اس نے سرکشی کی اور نبوت کی نشانیاں طلب کی ۔ موسی علیہ السلام نے اپنے نبی ہونے کا معجزہ پیش کیا، لاٹھی کا سانپ بن جانا، بغل میں ہاتھ لگانے سے اس میں چمک پیدا ہونا۔ فرعون نے جادوگری کہہ کراس کا بھی انکار کیا ۔ پھر فرعون نے اپنے ماہر جاگردوں سے موسی علیہ السلام کا مقابلہ کروایا ، مقابلے میں پہلے فرعون کے جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں زمین پر پھیکی اور آخر میں موسی علیہ السلام نے اپنی لاٹھی پھینکیں جو اژدھا بن کر جادوگروں کے تمام آلات نگل گیا ، یہ منظر دیکھ سارے جادوگر موسی اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے ۔فرعون اب بھی ایمان نہ لایا اور خود کو ہی معبود کہلواتا رہا۔ لوگوں سے کہتا "اناربکم الاعلی( یعنی میں تم سب کا سب سے بڑا معبود ہوں )۔ یہ فرعون کا سب سے بڑا گناہ تھا۔ اس کےعلاوہ قرآن نے فرعون کوسرکشی کرنے والا، بنی اسرائیل پر ظلم وستم ڈھانے والا، ان کا قتل کرنے والا اور فساد مچانے والا کہا ہے ، اللہ فرماتا ہے :
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (القصص:4)
ترجمہ:یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کررکھا تھا اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا بیشک و شبہ وہ تھا ہی مفسدوں میں سے ۔

اس کے علاوہ رسول کی تکذیب کرنے والے فرعون اور اس کے لشکر کو قرآن نے کہیں ظالم قوم کہا، کہیں فاسق قوم کہا، کہیں قاہر تو کہیں سرکش وباغی اور کہیں متکبرکہا۔ ایک طرف فرعوں اپنے ان مظالم کی وجہ سے اللہ کی عدالت سے دردناک عذاب کا مستحق تھا ہی ،دوسری طرف موسی علیہ السلام نے اس کی ہلاکت کی اللہ سے دعا بھی مانگ لی ، اللہ فرماتاہے:
وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَن سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (یونس:88)
ترجمہ:اور موسیٰ نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیئے اے ہمارے رب! ( اسی واسطے دیئے ہیں کہ ) وہ تیری راہ سے گمراہ کریں ۔ اے ہمارے رب! انکے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں ۔

پھر کیا تھا، دنیا میں ہی فرعون اور اس کے لشکروں پر اللہ کی طرف سے قسم قسم کا عذاب آنا شروع ہوگیا۔ قحط سالی، پھلوں کی کمی،طوفان،ٹڈیاں،گھن کا کیڑا ، مینڈک اور خون کا عذاب آیاحتی کے ان کے ساختہ پرداختہ کارخانے اور اونچی اونچی عمارتوں کو بھی درہم برہم کردیاگیا، فرعون موسی علیہ السلام سے عذاب ہٹانے کے بدلے بنی اسرائیل کی آزادی کا وعدہ کرتا مگر کبھی نبھاتا نہیں ۔

فرعون اور اس کے لشکروں پر دنیا کا سب سے بڑا عذاب یہ آیا کہ جب موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو لیکر ایک دن اچانک بھاگ نکلے اور فرعون مع لشکر ان کا پیچھا کیا ، دریا کے پاس پہنچ کر موسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے پانی پر لاٹھی ماری اور بارہ راستے بن گئے ، اس طرح موسی علیہ السلام اور ان کی قوم ان راستوں سے پار نکل کرہمیشہ کے لئے فرعونی ظلم وستم سے نجات پاگئے اور جب فرعون اور اس کا لشکر دریا عبور کرنے لگے تو اللہ نے پانی کو آپس میں ملاکر ڈبودیا اور سب کو ایک آن میں موت کی نیند سلا دیا۔ اللہ کا فرمان ہے :
 وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ(البقرة:50)
ترجمہ: اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا چیر دیا اور تمہیں اس سے پار کرا دیا اور فرعونیوں کو تمہاری نظروں کے سامنے اس میں ڈبو دیا۔
ترمذی(3108) کی صحیح حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو جبرائیل علیہ السلام فرعون کے منہ میں مٹی ٹھونسنے لگے، اس ڈر سے کہ وہ کہیں «لا إلٰہ إلا اللہ» نہ کہہ دے تو اللہ کو اس پر رحم آ جائے۔

فرعون کو اس کے ظلم کے بدلے دنیا میں مختلف قسم کی سزا ملی ، دردناک طریقے سے غرق آب بھی کیا گیا،مرتے وقت فرشتےاس کے منہ میں دریا کی مٹی ٹھونس رہے تھے، مظلوم کے سامنے ظالم فرعون کوکیفرکردار تک پہنچایا گیا یعنی اس کو ڈبوکرمارا گیا، مرکربھی قیامت تک(عالم برزخ میں) فرعون اور اس کی آل کو عذاب ملتا رہے گااور قیامت میں بھی سخت ترین عذاب دیا جائے گا، اللہ کا فرمان ہے :
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (غافر:46)
ترجمہ: آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو ۔

اس پورے واقعہ سے ایک اہم نصیحت ملتی ہے کہ اللہ نے موسی علیہ السلام اور آپ پر ایمان لانے والوں دنیا کے سب سے ظالم حکمران سے نجات دی حتی کہ فرعون کی بیوی آسیہ بھی ایمان لے آتی ہے ، فرعون سے نجات اور جنت میں گھر کے لئے اللہ سے دعا کرتی ہے۔

ظالم فرعون کی ہلاکت وتباہی کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ دیکھو ظالم کیا انجام ہوا؟
فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ (القصص:40)
ترجمہ: بالآخر ہم نے اسے اوراس کے لشکروں کو پکڑ لیا اور دریا برد کر دیا اب دیکھ لے کہ ان گنہگاروں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟
ایک دوسری جگہ اللہ نے کہا کہ دیکھو فساد پھیلانے والے کا انجام کیا ہوا؟
ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (الاعراف:103)
ترجمہ: پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنے دلائل دے کر فرعون اور اس کے امرا کے پاس بھیجا ، مگر ان لوگوں نے ان کا بالکل حق ادا نہ کیا ۔ سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔

نصیحت سے متعلق ایک آخری بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ نے فرعون کی لاش محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ بعد والوں کے لئے نصیحت رہے ، فرمان الہی ہے :
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ (یونس:92)
ترجمہ: سوآج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لئے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔

اس آیت کے تناظر میں مصر کے میوزیم میں موجود ممی کی ہوئی لاش کو اکثرلوگ فرعون موسی کہتے ہیں ، واضح رہے کہ یہ محض ایک سائنسی تحقیق ہے اس لئے اس لاش کو حتمی طور پر فرعون کی لاش نہیں کہا سکتا ۔

ظالم فرعون پر اللہ کا عذاب اورعبرت ونصیحت​ تحریر: مقبول احمد سلفی اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ) سعودی عرب ظلم اندھیرا ہے...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 119


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 119

رمضان کے روزوں کی فرضیت:

تیسرا اہم واقعہ روزوں کی فرضیت کا ہے:
ماہ شعبان 2 ہجری کے آخری عشرہ میں سورۂ بقرہ کی آیت 183 نازل ہوئی جس کے ذریعہ رمضان کے روزے فرض کئے گئے۔

"اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے، تاکہ تم متقی بن جاؤ-" (سورہ بقرہ : 183)

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ روزے صرف اُمتِ مسلمہ (اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے لئے فرض نہیں کئے گئے تھے، بلکہ ہر نبی کی اُمت نے روزے رکھے تھے۔

حضرت آدم علیہ السلام ہر مہینہ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھا کرتے تھے، حضرت نوح علیہ السلام طوفان ختم ہونے کے بعد کشتی سے اترے اور قربانی کرنے کے بعد ماہ رمضان کے روزے رکھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام صابی قوم میں مبعوث ہوئے تو آپ نے پورے تیس روزے رکھے اور فرمایا کہ روزے اللہ کے لئے ہیں۔

حضرت داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے، حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصریوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے بعد جب کوہ طور پر تشریف لے گئے تو ایک مہینہ تک روزہ رکھے اور پھر اس مدت میں مزید دس دن بڑھا کر چلہ پورا کیا، جس کے بعد آپ کو تورات عطا ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اُمت بھی چالیس دن تک روزہ رکھتی تھی، لیکن بعد میں انہوں نے یہ پابندی اٹھالی اور اس کے بجائے چوبیس گھنٹے کا روزہ رکھنا شروع کر دیا، یہودیوں کے روزہ رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ افطار کے وقت جو کچھ کھا لیں، سو کھا لیں پھر کچھ نہیں کھاتے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور دو دن کھاتے پیتے، عیسائی لوگ چھ ہفتوں تک مسلسل روزے رکھتے تھے، لیکن اتوار کو ناغہ کرتے، آغاز ایک بدھ سے ہوتا اور اختتام اتوار پر، اسی طرح 34 دن روزے رکھتے تھے، عیسائی مذہب کے ماننے والے روزہ میں بھوک پیاس کی پابندی کے قائل نہیں ہیں، پوپ نے انہیں کھانے پینے کی اجازت دے کر حکم دیا ہے کہ روزہ صرف خیالات کی حد تک رکھا جائے۔

ابتدا میں مسلمان افطار کے وقت کھانا کھائے بغیر اگر سو جاتے تو پھر دوسرے دن افطار کے وقت ہی دوبارہ کھاتے تھے، سونے کے ساتھ ہی روزہ بند ہو جاتا تھا، پھر اللہ تعالی نے سحری کا حکم دیا اور روزے کا وقت متعین کر دیا اور اس کے ساتھ سحری وافطاری کرنے کا وقت بھی بتا دیا گیا اور امت پر سے مشقت کو ختم کر دیا گیا-

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 119 رمضان کے روزوں کی فرضیت: تیسرا اہم واقعہ روزوں کی فرضیت کا ہے: ماہ شعبان 2 ہجری کے آخری عشر...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 118


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 118

اذان کی ابتداء:

دوسرا اہم واقعہ اذان کی ابتداء کا ہے:

اسلام کی تمام عبادات کا اصلی مرکز وحدت واجتماع ہے، شروع میں کسی خاص علامت کے نہ ہونے کی وجہ سے نماز باجماعت کے لئے مسلمانوں کو بلانے میں دشواری تھی، لوگ وقت کا اندازہ کرکے آتے تھے اور نماز پڑھتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ پسند نہ تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیال کیا کہ کچھ لوگ مقرر کردئیے جائیں جو وقت پر لوگوں کو گھروں سے بلا لائیں، لیکن اس میں زحمت تھی، صحابہ کو بلا کر مشورہ کیا، لوگوں نے مختلف رائے دیں، کسی نے کہا کہ نماز کے وقت مسجد میں ایک علم کھڑا کردیا جائے جسے دیکھ کر لوگ آتے جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ طریقہ ناپسند فرمایا۔

عیسائیوں اور یہودیوں کے یہاں اعلان نماز کے جو طریقے ہیں، وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کئے گئے، یہودی ایک بگل بجا کر لوگوں کو اپنی نماز کی طرف بلاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا طریقہ کرنے کو پسند نہیں کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے عرض کیا گیا کہ ناقوس بجا کر مسلمانوں کو نماز کی اطلاع دی جائے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حال میں فکر مند تھے کہ عبدﷲ بن زید بن ثعلبہ بن عبدربہ خزرجی انصاری رضی اللہ عنہ نے اذان کا خواب دیکھا۔

انہوں نے عرض کیا: "یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! رات کو میرے پاس خواب میں کوئی آیا جو سبز لباس پہنے ہاتھ میں ناقوس لئے ہوا تھا، میں نے کہا یا عبدﷲ! کیا یہ ناقوس فروخت کروگے؟ اس نے پوچھا: "کیا کروگے؟" میں نے بتایا کہ ہم اس کے ذریعہ مسلمانوں کو نماز کی طرف بلائیں گے، اس نے کہا: "کیا میں تمھیں اس سے بہتر بات نہ بتاؤں؟" پوچھا: "وہ کیا ہے؟" اس نے بتایا کہ تم (نماز کے لئے اس طرح اذان) کہو:

ﷲ اکبر (چاربار) اشھد ان لاالہ الا ﷲ (دوبار) اشھد ان محمد رسول ﷲ (دوبار) حی علی الصلوۃ (دوبار) حی علی الفلاح (دوبار) ﷲ اکبر (دوبار) لا الہ الا ﷲ (ایک بار)"

جب عبدﷲ بن زید رضی اللہ عنہ نے یہ خواب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوش گزار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "ان شاء ﷲ یہ خواب سچا ہے، پس بلال (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ ان کلمات سے اذان کہیں، اس لئے کہ وہ بلند آواز ہیں۔"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان اپنے گھر میں سنی تو جلدی سے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: "یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا ہے، میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "فللّہ الحمد۔ ﷲ کا ہی شکر ہے۔" اس دن سے اذان کا یہ طریقہ شروع ہوا۔ (سیرت النبی , علامہ ابن کثیر)

جب مؤذن اذان دے تو سننے والوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ: "جب اذان سنے تو مؤذن کے مثل اسے دُہراتے رہو اور جب مؤذن حی علی الصلٰوۃ اور حی علی الفلاح کہے تو اس کے جواب میں'' لاحو ل ولا قوۃ الا با للہ'' پڑھا کرو اور اذان کے بعد خاص دعا پڑھا کرو۔"

مسجد نبوی کے دو مؤذن تھے، ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور دوسرے نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ تھے، نماز فجر کی اذان حضرت بلال رضی اللہ عنہ تہجد کے وقت دیا کرتے تھے، صبح صادق ہوتے ہی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اذان دیا کرتے، بعد میں بھی مدینہ میں فجر کی دو اذانوں کا معمول رہا، نماز جمعہ کی فرضیت کے بعد اس کی اذان اس وقت شروع ہوئی جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دینے کے لئے آکر مسجد میں بیٹھ جاتے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں جمعہ کے دن پہلی اذان دینے کا حکم دیا، تا کہ لوگ مسجد میں آنے میں جلدی کریں۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 118 اذان کی ابتداء: دوسرا اہم واقعہ اذان کی ابتداء کا ہے: اسلام کی تمام عبادات کا اصلی مرکز وح...

پیغام حدیث: اہل ذکر اور ذکر کی مجالس


پیغام حدیث: اہل ذکر اور ذکر کی مجالس

ابو ہریرہ‌ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: اللہ کے کچھ فرشتے زمین میں گھومتے پھرتے ہیں ۔لوگوں کا حساب لکھنے والوں کے علاوہ (اور اہل ذکر کو تلاش کرتےہیں) جب وہ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو اللہ کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکارتے ہیں :آؤ اپنے مطلوب کی طرف ،وہ ان کے پاس آتے ہیں اور انہیں آسمان دنیا تک ڈھانپ لیتے ہیں (پھر اختتام ؟؟؟ پر واپس جاتے ہیں تو) 
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟
وہ فرشتے کہتے ہیں :ہم نے انہیں تیری تحمید، تمجید اور ذکر کرتے ہوئے چھوڑا ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟
فرشتے کہتے ہیں: نہیں۔ 
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (اگر وہ مجھے دیکھ لیں) تو ان کی کیفیت کس طرح ہوگی؟ 
وہ کہتے ہیں: اگر وہ آپ کو دیکھ لیں تو اور بھی زیادہ تحمید، تمجید اور ذکر کریں۔
 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وہ کون سی چیز مانگ رہے تھے؟
وہ کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگ رہے تھے۔
 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا انہوں نے اسے دیکھا ہے؟
وہ کہتے ہیں: نہیں۔ 
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہو؟
فرشتے کہتے ہیں: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو اس کی اور زیادہ حرص کریں، اور اسے اور زیادہ شدت سے طلب کریں۔
 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وہ کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے؟
وہ کہتے ہیں: آگ سے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا انہوں نے آگ (جہنم) کو دیکھا ہے ؟
 فرشتے کہتے ہیں نہیں۔ 
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر وہ آگ کو دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہوگی؟
 فرشتے کہتے ہیں: اگر وہ آگ دیکھ لیں تو اس سے بھی زیادہ بچنے کی کوشش کریں اور اس سے بھی زیادہ خوف کھائیں۔
 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا۔ 
فرشتے کہتے ہیں: ان میں فلاں گناہ گار بھی بیٹھا ہوا تھا ،جو ویسے ہی وہاں موجود تھا، اور اپنے کسی کام سے آیا تھا؟ 
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔

صحیح حدیث
السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر # 2825


پیغام حدیث: اہل ذکر اور ذکر کی مجالس ابو ہریرہ‌ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: اللہ کے کچھ فرشتے ز...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 117


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 117

تحویل قبلہ:

سابقہ اقساط میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش اب جنگ کے میدان تک پہنچ چکی تھی اور کوئی بڑا جنگی معرکہ وقوع پذیر ہوا چاہتا تھا اور ایسا ہوا بھی اور کفر واسلام بدر کے میدان میں پہلی بار ٹکرا گئے، لیکن اس سے پہلے کہ ہم غزوہ بدر کی تفصیلات بیان کریں، کچھ ضمنی لیکن اہم واقعات کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے، ان کے ذکر کے بعد ان شاء اللہ غزوہ بدر کا تفصیلی بیان ہوگا۔

پہلا اہم واقعہ قبلہ کی تبدیلی کا ہے:

مکہ میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اور کعبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوتا تھا، جیسا کہ امام احمد نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، جب ہجرت کے بعد مدینہ چلے آئے تو دونوں (بیت ﷲ اور بیت المقدس) کی طرف منہ کرنا ناممکن تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 16 یا 17 ماہ بیت ﷲ کی طرف پشت کرکے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ (ابن کثیر)

مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو ضرورتیں ایک ساتھ پیش تھیں، ملت ابراہیمی کی تأسیس و تجدید کے لحاظ سے کعبہ کی طرف رخ کرنے کی ضرورت تھی، لیکن مشکل یہ تھی کہ قبلہ کی جو اصلی غرض ہے یعنی امتیاز اور اختصاص، وہ نہیں حاصل ہوتی تھی، کیونکہ مشرکین اور کفار بھی کعبہ ہی کو اپنا قبلہ سمجھتے تھے، اس بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام ابراہیم کے سامنے نماز ادا کرتے تھے جس کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا، اس طرح دونوں قبلے سامنے آجاتے تھے۔

مدینہ میں دو گروہ آباد تھے، مشرکین جن کا قبلہ کعبہ تھا اور اہل کتاب جو بیت المقدس کی جانب نماز ادا کرتے تھے، شرک کے مقابلہ میں یہودیت اور نصرانیت دونوں کو ترجیح تھی، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقریباً 16 مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کی، مزید مکہ میں اسلام لانے والے اکثر و بیشتر چونکہ مشرکین مکہ میں سے تھے، اس لیے فی الحقیقت ان کا اس بات میں بڑا کڑا امتحان تھا کہ وہ اسلام لانے کے بعد کس قدر اتشال امر الہی اور اتباع سنت رسول کا فراخدلانہ مظاہرہ کرتے ہیں، اپنا آبائی قبلہ بیت اللہ چھوڑ کر بیت المقدس کو اپنا قبلہ بناتے ہیں یا پھر اسی آبائی قبلہ پر اڑے رہتے ہیں، سورہ بقرہ کی آیت نمبر 143 میں اللہ نے اسی آزمائش کی طرف اشارہ فرمایا:

"اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی، مگر جن کو اللہ نے ہدایت بخشی (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے، اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحبِ رحمت ہے"۔(سورہ بقرہ , آیت 143)

ہجرت کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہینچے تو صورت حال اب بالکل ہی بدل چکی تھی، مسلمانوں کی ایک آزاد چھوٹی سی اسلامی ریاست معرض وجود میں آچکی تھی، اب بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھنا گویا یہود کی قیادت و سیادت قبول کر لینے کے مترادف تھا، اس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ محسوس فرمایا کہ یہودی کسی قیمت پر بھی اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ مسلمان قبلہ کے معاملہ میں ہماری موافقت کرتے ہیں اور دین میں مخالفت جو عجیب قسم کا تضاد ہے، یہود کی یہ باتیں سن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل چاہتا تھا کہ کعبہ ہی ہمارا قبلہ ہو جائے، اسی لیے بار بار بارگاہ الہی میں التجا کرتے تھے کہ تمام امم سابقہ کے قبلہ "خانہ کعبہ" ہی کو امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ کے لیے مستقل قبلہ قرار دے دیا جائے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ حضرت بشر بن برا بن معرور رضی اللہ عنہ کے پاس دعوت میں تشریف لے گئے تھے، ظہر کا وقت آیا تو محلہ بنوسلمہ کی مسجد میں نماز پڑھانے کھڑے ہوئے، ایک روایت کے مطابق دو رکعتیں پڑھا چکے تھے اور دوسری روایت کے مطابق دوسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ تحویل قبلہ کا حکم سورۂ بقرہ کی آیت 144 کے ذریعہ نازل ہوا۔

"ہم آپ کے چہرہ کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں، آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیرا کریں اور آپ جہاں کہیں بھی ہوں، اس طرف پھیرا کریں۔" (سورہ بقرہ , 144)

اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کے دوران ہی فی الفور کعبہ کی طرف رُخ موڑ لیا، جماعت میں موجود صحابہ کرام نے بھی اپنا رُخ کعبہ کی طرف کر لیا، اُس دن سے اس مسجد کا نام "مسجد قبلتین" پڑ گیا، قبلہ کی تبدیلی کی تاریخ اور مہینہ کے بارے میں اختلاف ہے، ابن جوزی نے "الوفا" میں منگل 15 شعبان 2 ہجری لکھی ہے، لیکن مؤرخین اور محدثین کا زیادہ رحجان ماہ رجب کی طرف ہے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 117 تحویل قبلہ: سابقہ اقساط میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش اب جنگ ...

کفار کے تہوار اور مسلمان (اسلام سوال و جواب)


کفار کے تہواراور مسلمان
ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد
سوال: آپ برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو کرسمس کے دن یا اس سے کچھ روز بعد کرسمس کی مناسبت سے اپنے مسلم اہل خانہ کy لئے تقریبِ عشائیہ منعقد کرتے ہیں، عشائیہ کے کھانے میں ترکی چکن روسٹ، اور کرسمس کے مخصوص دیگر کھانے تیار کیے جاتے ہیں، یہ لوگ اپنے گھروں کوغباروں، کاغذ کے پھولوں سے سجاتے ہیں، اور اس تقریب میں شرکت کیلئے ہر شخص دیگر شرکاء میں سے کسی ایک کیلئے "سانتا کا خفیہ تحفہ" بھی تیار کرتا ہے، اور لوگ ان تحائف کو مطلوبہ افراد تک پہنچانے کیلئے تقریب میں لیکر آتے ہیں، لیکن کسی کو اپنے بارے میں نہیں بتلاتے، ("سانتا کا خفیہ تحفہ" کرسمس منانے والے غیر مسلموں میں پذیرائی حاصل کرنے والی ایک نئی رسم ہے، جو کہ Santa Claus [کرسمس کا بابا] کے افسانوی کردار سے متعلق نظریات سے منسلک ہے) تو کیا ایسا کرنا جائز ہے یا حرام؟ واضح رہے کہ اس تقریب صرف مسلمان برادری ہی شرکت کرسکتی ہے۔

مذکورہ تقریبات کے حرام ہونے کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کی عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ کوئی عید نہیں ہے، اور ہفت روزہ عید جمعہ کا دن ہے، چنانچہ ان کے علاوہ کوئی بھی جشن ، تہوار اسلام میں  منع ہے،اور  یہ اضافی جشن و تہوار  دو حال سے خالی نہیں ہیں:

1-  بدعت: یہ اس صورت میں ہوگا کہ اس جشن اور تہوار کو قربِ الہی کے لئے منایا جائے، مثلاً: عید میلاد النبی۔

2- کفار سے مشابہت: جب اس جشن یا تہوار کو رسم و رواج کے طور پر منایا جائے عبادت کے طور پر مت منایا جائے؛  چونکہ خود ساختہ تہوار منانا اہل کتاب کا شیوہ ہے، اور ہمیں ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے، پھر جب عام تہوارات منانا ان سے مشابہت ہے تو اہل کتاب کے ساتھ مختص تہوارمنانا اور ان میں شرکت کرنا کیسا ہوگا!!

کرسمس کے وقت گھروں کو غباروں سے مزین کرنا  کفار کی عید میں کھلم کھلا شرکت کا اظہار ہے۔

اور ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ ان ایام کو جشن، زیب و زینت، اور کھانے پینے کے لئے مختص مت کرے، وگرنہ وہ بھی کفار کے تہوار میں شریک تصور ہوگا، اور یہ کام حرام ہے، جس  کی حرمت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسی طرح مسلمانوں پر  کرسمس کی مناسبت سے تقاریب کرنا، تحائف کا تبادلہ ، مٹھائیوں کی تقسیم ، کھانوں کی تیاری، اور تعطیل عام کرتے ہوئے کفار  کے ساتھ مشابہت اپنانا  حرام ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے کہ : (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب (اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ أصحاب الجحیم)میں کہا ہے کہ: کفار کے کچھ تہواروں میں شرکت سے انہیں اپنے باطل نظریات پر قائم رہنے کی خوشی محسوس ہوتی ہے، اور بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ  کچھ لوگ ایسے مواقع کا غلط فائدہ اٹھا کر کمزور ایمان لوگوں کو بہکا دیں" ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی گفتگو مکمل ہوئی۔

ایسا کام کرنے والا شخص گناہگار ہے، اور اس میں کسی کا دل رکھنے کے لئے ، یا  دلی چاہت کی بنا پر یا کسی سے حیا کرتے ہوئے شرکت کرنے والے سب لوگ گناہ گار ہونگے، کیونکہ یہ عمل دینِ الہی کے باری میں ناقابل برداشت سستی ہے، اور کفار کے لئے اپنے گمراہ عقائد پر مضبوط ہونے کی دلیل ہے، وہ مسلمانوں کی شرکت سے اپنے دین پر فخر محسوس کرینگے" انتہی
"فتاوى ابن عثیمین" (3/ 44)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا اس مسئلہ کے بارے میں تفصیلی جواب ہے، جس [کے ] متن [کا ترجمہ یہ ] ہے:
آپ سے  کچھ مسلمانوں کی طرف سے نوروز کے دن عیسائیوں کے لئے کھانا بنانا، رسمِ "غطاس" [عیسائیوں کے ہاں مقدس جگہ پر نہانے کی رسم] "جمعرات کی دال" [مخصوص جمعرات کو تیار کیا جانے والا اناج کا کھانا] "مقدس ہفتے کا دن" [عید الفصح کے بعد عیسائیوں کے ہاں ہفتے کا مقدس دن] وغیرہ منانا اور ان  تہواروں کے لئے معاون اشیاء کی خرید و فروخت کرنے کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا یہ کام کرنےمسلمانوں کے لئے جائز ہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"الحمد للہ:
کسی بھی مسلمان کے لئے عیسائیوں کے مخصوص  اعمال میں ان کی  مشابہت  کرنا جائز نہیں ہے، مثلا ان جیسے کھانے بنانا، لباس پہننا، نہانا، آگ جلانا، شمعیں روشن کرنا، عام تعطیل کرنا وغیرہ سب منع ہیں، کھانے کی دعوت کرنا، تحائف دینا، اور ان تہواروں کے لئے معاون بننے والی اشیاء فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے، بلکہ بچوں کو ان کی عید کے دنوں میں [انہی جیسے]کھیل کود کی اجازت دینا، اور زیب و زینت اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لئے عیسائیوں کے کسی بھی تہوار اور شعار کو اپنانا جائز نہیں ہے، بلکہ  انکی عید کے دن مسلمانوں کے ہاں عام دنوں کی طرح گزارے جائیں، مسلمان ان کے امتیازی  امور نہیں اپنا سکتے۔۔۔، گزشتہ امور کو مسلمانوں کی طرف سے اپنانے کے بارے میں حرمت کا حکم تمام علمائے  کرام کا متفقہ ہے۔

بلکہ کچھ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ ان کاموں کے کرنے سے انسان کافر بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ ان کاموں کی وجہ سے کفریہ شعائر کی تعظیم ہوتی ہے، اور کچھ علماء کا کہنا ہے کہ : جو شخص ان کی عید کے دن جانور ذبح کرے گویا کہ اس نے خنزیر ذبح  کیا۔

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: جو شخص عجمیوں کے پیچھے لگ کر نوروز، اور مہرجان کا دن مناتا ہے، اور مرتے دم تک ان کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو وہ قیامت  کے  د ن انہی کےساتھ اٹھایا جائے گا۔

سنن ابو داود میں  ثابت بن ضحاک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں ایک شخص نے "بوانہ" جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی،  وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا  اور عرض کیا: "میں نے "بوانہ" جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے استفسار فرمایا: (کیا وہاں پر  جاہلیت کے دور میں کسی بت کی پوچا تو نہیں ہوتی تھی؟) اس نے کہا: "نہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے استفسار فرمایا: (کیا وہاں پر کوئی ان کا تہوار تو نہیں لگتا تھا؟) اس نے کہا: "نہیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (جاؤ اپنی نذر پوری کرو ، اور ایسی کوئی نذر پوری نہیں کی جاتی جس میں اللہ کی نافرمانی ہو، اور ایسی چیز کی نذر بھی پوری نہیں کی جاسکتی جو ابن آدم کی ملکیت میں نہ ہو)

حالانکہ نذر پوری کرنا واجب ہے لیکن اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس آدمی کو اس وقت تک نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دی جب تک اس نے یہ نہیں بتلا دیا کہ وہاں پر کفار کا کوئی تہوار منعقد نہیں ہوتا تھا، اور آپ نے یہ بھی بتلا دیا کہ : (ایسی کوئی نذر پوری نہیں کی جاتی جس میں اللہ کی نافرمانی ہو)، چنانچہ ان کے تہوار والی جگہ پر اللہ کے لئے ذبح کرنا معصیت ہے تو انکے تہوار میں بنفسِ نفیس شرکت کتنا بڑا گناہ ہوگا؟

بلکہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ساتھ دیگر تمام مسلم حکمرانوں کی طرف سے غیرمسلموں پر لازمی تھا کہ اپنے تہوار مسلمانوں کے درمیان اعلانیہ نہیں منائیں گے، بلکہ اپنے گھروں میں محصور ہو کر  اپنے مذہبی تہوار منائیں گے، اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کا یہ حال ہونا چاہئے تھا  لیکن  اگر خود مسلمان ایسا کرنے لگ جائیں تو پھر کیا حال ہوگا؟

اور امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہاں تک فرمایا: "عجمیوں کی زبان مت سیکھو، اور مشرکوں کے معبد خانوں میں ان کے تہوار کے دن مت جاؤ، کیونکہ ان پر اللہ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے" اگر مشرکوں کے معبد خانوں میں سیر و سیاحت یا کسی اور غرض سے جانا منع ہے کہ وہاں اللہ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے، تو اس شخص کا کیا حال ہو گا جو خود کفار کے شعائر میں سے اللہ کی ناراضگی کا باعث بننے والا عمل سر انجام دیتا ہے؟!

بہت سے سلف صالحین نے قرآن مجید کی آیت (والذين لا يشهدون الزور) [آیت کا مفہوم: مؤمن وہ ہیں جو غلط محفلوں میں شرکت نہیں کرتے]کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہاں "زُور" سے مراد کفار کے تہوار ہیں،  اگر کفار  کی محفلوں میں کوئی عمل سر انجام نہ دینا ہو،  صرف حاضری پر یہ بات ہے، تو کفار کے مخصوص اعمال کرنے پر کتنا بڑی بات ہوگی؟!
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے مسند اور سنن [ابو داود] میں ہے کہ آپ نے فرمایا: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے) اور ایک حدیث میں الفاظ یوں ہیں: (وہ ہم میں سے نہیں جو دوسروں [غیر مسلموں] کی مشابہت اختیار کرے) یہ حدیث جید ہے؛ چنانچہ کفار کے ساتھ عادات میں مشابہت اختیار کرنے میں  اتنی بڑی وعید ہے ، تو اس سے بڑھ کر عبادات میں مشابہت اختیار کرنے میں  کتنی بڑی وعید ہوگی؟!۔۔۔" انتہی
"الفتاوى الكبرى" (2/ 487)، مجموع الفتاوى (25/ 329)

واللہ اعلم

سوال: کفارکو انکے تہواروں میں مبارکباد دینے کا کیا حکم ہے؟ 

سب علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کرسمس یا کفار کے دیگر مذہبی تہواروں پر مبارکباد دینا حرام ہے، جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب " أحكام أهل الذمة " میں نقل کیا ہے، آپ کہتے ہیں:

"کفریہ شعائر پر تہنیت دینا حرام ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے، مثال کے طور پر انکے تہواروں اور روزوں کے بارے میں مبارکباد دیتے ہوئے کہنا: "آپ کو عید مبارک ہو" یا کہنا "اس عید پر آپ خوش رہیں" وغیرہ، اس طرح کی مبارکباد دینے سے کہنے والا کفر سے تو بچ جاتا ہے لیکن یہ کام حرام ضرور ہے، بالکل اسی طرح حرام ہے جیسے صلیب کو سجدہ کرنے پر اُسے مبارکباد دی جائے، بلکہ یہ اللہ کے ہاں شراب نوشی ، قتل اور زنا وغیرہ سے بھی بڑا گناہ ہے، بہت سے ایسے لوگ جن کے ہاں دین کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے ان کے ہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنا برا کام کر رہا ہے، چنانچہ جس شخص نے بھی کسی کو گناہ، بدعت، یا کفریہ کام پر مبارکباد دی وہ یقینا اللہ کی ناراضگی مول لے رہا ہے" ابن قیم رحمہ اللہ کی گفتگو مکمل ہوئی۔

چنانچہ کفار کو انکے مذہبی تہواروں میں مبارکبا د دینا حرام ہے، اور حرمت کی شدت ابن قیم رحمہ اللہ نے ذکر کردی ہے، -حرام اس لئے ہے کہ- اس میں انکے کفریہ اعمال کا اقرار شامل ہے، اور کفار کے لئے اس عمل پر اظہار رضامندی بھی ، اگرچہ مبارکباد دینے والا اس کفریہ کام کو اپنے لئے جائز نہیں سمجھتا ، لیکن پھر بھی ایک مسلمان کے لئے حرام ہے کہ وہ کفریہ شعائر پر اظہار رضامندی کرے یا کسی کو ان کاموں پر مبارکباد دے، کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے اس عمل کو قطعی طور پر پسند نہیں کیا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

 إن تكفروا فإن الله غني عنكم ولا يرضى لعباده الكفر وإن تشكروا يرضه لكم 

ترجمہ:اگر تم کفر کرو تو بے شک اللہ تعالی تمہارا محتاج نہیں، اور (حقیقت یہ ہے کہ) وہ اپنے بندوں کے لئے کفر پسند نہیں کرتا، اور اگر تم اس کا شکر ادا کرو تو یہ تمہارے لئے اس کے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔

اسی طرح فرمایا:

 اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام ديناً 

ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا ، اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کردیں، اور تمہارئے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا۔

لہذا کفار کو مبارکباد دینا حرام ہے، چاہے کوئی آپکا ملازمت کا ساتھی ہو یا کوئی اور ۔

اور اگر وہ ہمیں اپنے تہواروں پر مبارکباد دیں تو ہم اس کا جواب نہیں دیں گے، کیونکہ یہ ہمارے تہوار نہیں ہیں، اور اس لئے بھی کہ ان تہواروں کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا، کیونکہ یا تو یہ تہوار ان کے مذہب میں خود ساختہ ہیں یا پھر ان کے دین میں تو شامل ہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ساری مخلوق کے لئے نازل ہونے والے اسلام نے ان کی حیثیت کو منسوخ کردیا ہے، اور اسی بارے میں فرمایا:

 ومن يبتغ غير الإسلام ديناً فلن يقبل منه وهو في الآخرة من الخاسرين 

ترجمہ:اور جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کریگا ؛ اسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔

چنانچہ ایک مسلمان کے لئے اس قسم کی تقاریب پر ان کی دعوت قبول کرنا حرام ہے، کیونکہ انکی تقریب میں شامل ہونا اُنہیں مبارکباد دینے سے بھی بڑا گناہ ہے۔

اسی طرح مسلمانوں کے لئے یہ بھی حرام ہے کہ وہ ان تہواروں پر کفار سے مشابہت کرتے ہوئے تقاریب کا اہتمام کریں، یا تحائف کا تبادلہ کریں، یا مٹھائیاں تقسیم کریں، یا کھانے کی ڈشیں بنائیں، یا عام تعطیل کا اہتمام کریں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کریگا وہ اُنہی میں سے ہے)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب( اقتضاء الصراط المستقيم، مخالفة أصحاب الجحيم ) میں کہتے ہیں:

"کفار کے چند ایک تہواروں میں ہی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے اُن کے باطل پر ہوتے ہوئے بھی دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے، اور بسا اوقات ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے ان کے دل میں فرصت سے فائدہ اٹھانے اور کمزور ایمان لوگوں کو پھسلانے کا موقع مل جائے" انتہی

مذکورہ بالا کاموں میں سے جس نے بھی کوئی کام کیا وہ گناہ گار ہے، چاہے اس نے مجاملت کرتے ہوئے، یا دلی محبت کی وجہ سے ، یا حیاء کرتے ہوئے یا کسی بھی سبب سے کیا ہو، اس کے گناہ گار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے دین الہی کے بارے میں بلاوجہ نرمی سے کام لیا ہے، جو کہ کفار کے لئے نفسیاتی قوت اور دینی فخر کا باعث بنا ہے۔

اور اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مسلمانوں کی اپنے دین کی وجہ سے عزت افزائی فرمائے، اور انہیں اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے، اور انہیں اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے، بیشک وہ طاقتور اور غالب ہے۔

( مجموع فتاوى ورسائل شيخ ابن عثيمين 3/369 ) .

واللہ اعلم.


کفار کے تہواراور مسلمان ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد اسلام سوال و جواب سوال: آپ برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کے بارے میں کیا کہ...

پیغام حدیث: انسان کی شہرت، مقبولیت ، اور سچے اور جھوٹے ہونے کا معاملہ


انسان کی شہرت، مقبولیت ، اور سچے اور جھوٹے ہونے کا معاملہ اہل زمین سے پہلے اہل آسمان کے ہاں

1 ۔ ​سلسله احاديث صحيحه
توبہ، نصیحت اور نرمی کے ابواب
1517. ہر آدمی کی اچھی یا بری شہرت کا آغاز آسمان پر ہوتا ہے
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 2275
-" ما من عبد إلا وله صيت في السماء، فإذا كان صيته في السماء حسنا وضع في الارض حسنا، وإذا كان صيته في السماء سيئا وضع في الارض سيئا".
سیدنا جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر آدمی کی آسمان میں مخصوص شہرت ہوتی ہے، اگر وہ شہرت اچھی ہو تو زمین میں بھی اچھی ہوتی ہے اور اگر آسمان والی شہرت ہی بری ہو تو زمین میں بھی بری ہوتی ہے۔

2 ۔ صحيح مسلم
حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
48. باب: جب اللہ کریم کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بھی اس سے محبت رکھنے کا حکم کرتے ہیں اور آسمان کے فرشتے بھی اس سے محبت کر تے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2637
عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله إذا احب عبدا دعا جبريل، فقال: إني احب فلانا فاحبه، قال: فيحبه جبريل، ثم ينادي في السماء، فيقول: إن الله يحب فلانا فاحبوه فيحبه اهل السماء، قال: ثم يوضع له القبول في الارض، وإذا ابغض عبدا دعا جبريل، فيقول: إني ابغض فلانا فابغضه، قال: فيبغضه جبريل، ثم ينادي في اهل السماء إن الله يبغض فلانا فابغضوه، قال: فيبغضونه ثم توضع له البغضاء في الارض ".

‏‏‏‏ سیدنا جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے! میں محبت کرتا ہوں فلاں بندے سے تو بھی اس سے محبت کر، پھر جبرئیل علیہ السلام محبت کرتے ہیں اس سے اور آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے فلاں سے تم بھی محبت کرو اس سے، پھر آسمان والے فرشتے اس سے محبت کرتے ہیں۔ بعد اس کے زمین والوں کے دلوں میں وہ مقبول ہو جاتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ دشمنی رکھتا ہے کسی بندے سے تو جبرئیل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے: میں فلاں کا دشمن ہوں تو بھی اس کا دشمن ہو، پھر وہ بھی اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، پھر منادی کر دیتے ہیں آسمان والوں میں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے دشمنی رکھتا ہے تم بھی اس سے دشمنی رکھو وہ بھی اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، بعد اس کے زمین والوں کے دلوں میں اس کی دشمنی جم جاتی ہے۔
(یعنی زمین میں بھی جو اللہ کے نیک بندے یا فرشتے ہیں وہ اس کے دشمن رہتے ہیں سچ ہے۔ از خدا گشتی ہمہ چیز از تو گشت)

3 ۔ ​صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
69. باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ الحجرات میں ارشاد فرمانا ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہو۔“ اور جھوٹ بولنے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 6094
عن عبد الله رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الصدق يهدي إلى البر وإن البر يهدي إلى الجنة، وإن الرجل ليصدق حتى يكون صديقا، وإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار، وإن الرجل ليكذب حتى يكتب عند الله كذابا".

سیدنا جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور بلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔

انسان کی شہرت، مقبولیت ، اور سچے اور جھوٹے ہونے کا معاملہ اہل زمین سے پہلے اہل آسمان کے ہاں 1 ۔ ​سلسله احاديث صحيحه توبہ، ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 116


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 116

سرایا اور غزوات (حصہ: ۲)

6.. غزوہ سفوان ربیع الاول 2 ھ بمطابق ستمبر 623ء:

اس غزوہ کی وجہ یہ تھی کہ کرز بن جابر فہری نے مشرکین کی ایک مختصر سی فوج کے ساتھ مدینے کی چراگاہ پر چھاپہ مارا اور کچھ مویشی لوٹ لیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ستر صحابہ کے ہمراہ اس کا تعاقب کیا اور بدر کے اطراف میں واقع وادیٔ سفوان تک تشریف لے گئے اور کسی ٹکراؤ کے بغیر واپس آگئے، اس غزوہ کو بعض لوگ غزوہ ٔ بدر اولیٰ بھی کہتے ہیں۔

اِس غزوہ کے دوران مدینے کی امارت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو سونپی گئی تھی، عَلَم سفید تھا اور علمبردار حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔

7.. غزوہ ذی العشیرہ جمادی الاولی و جمادی الآخرہ 2 ھ بمطابق نومبر ، دسمبر 623ء:

اس مہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ڈیڑھ یا دو سو مہاجرین تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو روانگی پر مجبور نہیں کیا تھا، سواری کے لیے صرف تیس اونٹ تھے، اس لیے لوگ باری باری سوار ہوتے تھے، مقصود قریش کا ایک قافلہ تھا جو ملک شام جارہا تھا اور معلوم ہوا تھا کہ یہ مکے سے چل چکا ہے، اس قافلے میں خاصا مال تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذوالعُشَیْرہ (ینبوع کے اطراف میں ایک مقام کا نام) تک پہنچے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہنچنے سے کئی دن پہلے ہی قافلہ جاچکا تھا۔

یہ وہی قافلہ ہے جسے شام سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گرفتار کرنا چاہا تو یہ قافلہ تو بچ نکلا، لیکن جنگِ بدر پیش آگئی، اس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو مدلج اور ان کے حلیف بنو ضمرہ سے عدمِ جنگ کا معاہدہ کیا، ایام سفر میں مدینہ کی سربراہی کا کام حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد مخزومی رضی اللہ عنہ نے انجام دیا، اس دفعہ بھی پرچم سفید تھا اور علمبردار حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے۔

8.. سریۂ نخلہ رجب 2 ھ بمطابق جنوری 624ء:

اس مہم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں بارہ مہاجرین کا ایک دستہ روانہ فرمایا، ہر دو آدمیوں کے لیے ایک اونٹ تھا جس پر باری باری دونوں سوار ہوتے تھے، دستے کے امیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تحریر لکھ کر دی تھی اور ہدایت فرمائی تھی کہ دو دن سفر کر لینے کے بعد ہی اسے دیکھیں، چنانچہ دو دن کے بعد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے تحریر دیکھی تو اس میں درج تھا:

"جب تم میری یہ تحریر دیکھو تو آگے بڑھتے جاؤ، یہاں تک کہ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں اُترو اور وہاں قریش کے ایک قافلے کی گھات میں لگ جاؤ اور ہمارے لیے اس کی خبروں کا پتا لگاؤ۔''

انہوں نے سمع وطاعت کہا اور اپنے رفقاء کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا کہ میں کسی پر جبر نہیں کرتا، جسے شہادت محبوب ہو وہ اٹھ کھڑا ہو اور جسے موت ناگوار ہو وہ واپس چلا جائے، باقی رہا مَیں تو مَیں بہرحال آگے جاؤں گا، اس پر سارے ہی رُفقاء اٹھ کھڑے ہوئے اور منزل مقصود کے لیے چل پڑے، البتہ راستے میں سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہما کا اونٹ غائب ہوگیا، جس پر یہ دونوں بزرگ باری باری سفر کررہے تھے، اس لیے یہ دونوں پیچھے رہ گئے۔

حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے طویل مسافت طے کرکے نخلہ میں نزول فرمایا، وہاں سے قریش کا ایک قافلہ گزرا جو کشمش، چمڑے اور سامانِ تجارت لیے ہوئے تھا، قافلے میں عبداللہ بن مغیرہ کے دو بیٹے عثمان اور نوفل اور عمرو بن حضرمی اور حکیم بن کیسان مولیٰ مغیرہ تھے۔

مسلمانوں نے باہم مشورہ کیا کہ آخر کیا کریں، آج حرام مہینے رجب کا آخری دن ہے، اگر ہم لڑائی کرتے ہیں تو اس حرام مہینے کی بے حرمتی ہوتی ہے اور رات بھر رک جاتے ہیں تو یہ لوگ حدودِ حرم میں داخل ہو جائیں گے، اس کے بعد سب ہی کی یہی رائے ہوئی کہ حملہ کردینا چاہیے، چنانچہ ایک شخص نے عمرو بن حضرمی کو تیر مارا اور اس کا کام تمام کردیا، باقی لوگوں نے عثمان اور حکیم کو گرفتار کرلیا، البتہ نوفل بھاگ نکلا، اس کے بعد یہ لوگ دونوں قیدیوں اور سامانِ قافلہ کو لیے ہوئے مدینہ پہنچے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس حرکت پر باز پرس کی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حرام مہینے میں جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور سامان قافلہ اور قیدیوں کے سلسلے میں کسی بھی طرح کے تصرف سے ہاتھ روک لیا، ادھراس حادثے سے مشرکین کو اس پروپیگنڈے کا موقع مل گیا کہ مسلمانوں نے اللہ کے حرام کیے مہینے کو حلال کرلیا، چنانچہ بڑی چہ میگوئیاں ہوئیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس پروپیگنڈہ کی قلعی کھولی اور بتلایا کہ مشرکین جو کچھ کررہے ہیں وہ مسلمانوں کی حرکت سے بدرجہا زیادہ بڑا جرم ہے، ارشاد ہوا:

''لوگ تم سے حرام مہینے میں قتال کے متعلق دریافت کرتے ہیں، کہہ دو! اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اللہ کے ساتھ کفر کرنا، مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا، یہ سب اللہ کے نزدیک اور زیادہ بڑا جرم ہے اور فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے۔" (۲: ۲۱۷ )

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں قیدیوں کو آزاد کردیا اور مقتول کے اولیاء کو اس کا خون بہا ادا کیا۔

یہ ہیں جنگِ بدر سے پہلے کے سریے اور غزوے، ان میں سے کسی میں بھی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کی نوبت نہیں آئی، جب تک کہ مشرکین نے کرز بن جابر فہری کی قیادت میں ایسا نہیں کیا، اس لیے اس کی ابتدا بھی مشرکین ہی کی جانب سے ہوئی، جب کہ اس سے پہلے بھی وہ طرح طرح کی ستم رانیوں کا ارتکاب کرچکے تھے، ان سرایا اور غزوات کی تفصیل ذیل سے لی گئی ہے۔

( زاد المعاد ۲/۸۳-۸۵ ابن ہشام ۱/۵۹۱ - ۶۰۵ رحمۃ للعالمین ۱ / ۱۱۵، ۱۱۶، ۲/۲۱۵ ، ۲۱۶ ، ۴۶۸ - ۴۷۰)

ان مآخذ میں ان سرایا وغزوات کی ترتیب اور ان میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے، ہم نے علامہ ابن قیم اور علامہ منصور پوری کی تحقیق پر اعتماد کیا ہے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 116 سرایا اور غزوات (حصہ: ۲) 6.. غزوہ سفوان ربیع الاول 2 ھ بمطابق ستمبر 623ء: اس غزوہ کی وج...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 115


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 115
سرایا اور غزوات:

اہل سیر کی اصطلاح میں "غزوہ" اس فوجی مہم کو کہتے ہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس تشریف لے گئے ہوں، خواہ جنگ ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اور "سریہ" وہ فوجی مہم جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود تشریف نہ لے گئے ہوں، سرایا اسی سریہ کی جمع ہے۔

جنگ کی اجازت نازل ہونے کے بعد مسلمانوں کی عسکری مہمات کا سلسلہ عملاً شروع ہوگیا، طلایہ گردی کی شکل میں فوجی دستے گشت کرنے لگے، اس کا مقصود وہی تھا جس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے کہ مدینہ کے گرد وپیش کے راستوں پر عموماً اور مکے کے راستے پر خصوصاً نظر رکھی جائے اور اس کے احوال کا پتا لگایا جاتا رہے اور ساتھ ہی ان راستوں پر واقع قبائل سے معاہدے کیے جائیں اور یثرب کے مشرکین ویہود اور آس پاس کے بدؤوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ مسلمان طاقتور ہیں اور اب انہیں کمزور نہیں سمجھا جانا چاہیے، نیز قریش کو ان کے بے جا طیش اور تیور کے خطرناک نتیجے سے ڈرایا جائے، تاکہ جس حماقت کی دلدل میں وہ اب تک دھنستے چلے جارہے ہیں اس سے نکل کر ہوش کے ناخن لیں اور اپنے اقتصاد اور اسبابِ معیشت کو خطرے میں دیکھ کر صلح کی طرف مائل ہو جائیں اور مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر ان کے خاتمے کے جو عزائم رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں جو رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں اور مکے کے کمزور مسلمانوں پر جو ظلم وستم ڈھارہے ہیں، ان سب سے باز آجائیں اور مسلمان جزیرۃ العرب میں اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے آزاد ہو جائیں۔

ان سَرَایا اور غزوات کے مختصر احوال پیش کیا جارہا ہے :

1.. سریہ سیف البحر (ساحل سمندر) رمضان 1ھ بمطابق مارچ 623ء:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو اس سَریہ کا امیر بنایا اور تیس مہاجرین کو ان کے زیر کمان شام سے آنے والے ایک قریشی قافلے کا پتا لگانے کے لیے روانہ فرمایا، اس قافلے میں تین سو آدمی تھے جن میں ابوجہل بھی تھا، مسلمان عِیْص (بحر احمر کے اطراف میں ینبع اور مَرْوَہ کے درمیان ایک مقام) کے اطراف میں ساحل سمندر کے پاس پہنچے تو قافلے کا سامنا ہوگیا اور فریقین جنگ کے لیے صف آراء ہوگئے، لیکن قبیلہ جہینہ کے سردار مجدی بن عَمرو نے جو فریقین کا حلیف تھا، دوڑ دھوپ کرکے جنگ نہ ہونے دی۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا یہ جھنڈا پہلا جھنڈا تھا، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے باندھا تھا، اس کا رنگ سفید تھا اور اس کے علمبردار حضرت ابومرثد کناز بن حصین غنوی رضی اللہ عنہ تھے۔

2.. سریہ رابغ شوال 1ھ بمطابق اپریل 623ء:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو مہاجرین کے ساٹھ سواروں کا رسالہ دے کر روانہ فرمایا، رابغ کی وادی میں ابوسفیان (رضی اللہ عنہ) سے سامنا ہوا، اس کے ساتھ دو سو آدمی تھے، فریقین نے ایک دوسرے پر تیر چلائے، لیکن اس سے آگے کوئی جنگ نہ ہوئی۔

اس سریے میں مکی لشکر کے دو آدمی مسلمانوں سے آ ملے، ایک حضرت مقداد بن عمرو البہرانی اور دوسرے عتیبہ بن غزوان المازنی رضی اللہ عنہما، یہ دونوں مسلمان تھے اور کفار کے ساتھ نکلے ہی اس مقصد سے تھے کہ اس طرح مسلمانوں سے جا ملیں گے۔

حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا عَلَم سفید تھا اور علمبردار حضرت مسطح بن اثاثہ بن مطلب بن عبدمناف رضی اللہ عنہ تھے۔

3.. سریہ خرار ذی قعدہ 1ھ بمطابق مئی 623ء:

خرار (خ پر زبر اور ر پر تشدید) جحفہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سَرِیہ کا امیر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا اور انہیں بیس آدمیوں کی کمان دے کر قریش کے ایک قافلے کا پتا لگانے کے لیے روانہ فرمایا اور یہ تاکید فرمادی کہ خرار سے آگے نہ بڑھیں، یہ لوگ پیدل روانہ ہوئے، رات کو سفر کرتے اور دن میں چھپے رہتے تھے۔ پانچویں روز صبح خرار پہنچے تو معلوم ہوا کہ قافلہ ایک دن پہلے جا چکا ہے، اس سریے کا عَلَم سفید تھا اور علمبردار حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ تھے۔

4.. غزوہ ابواء یا ودان صفر 2ھ بمطابق اگست 623ء:

ودان (و پر زبر، د پر تشدید) مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام کا نام ہے، یہ رابغ سے مدینہ جاتے ہوئے 29 میل کے فاصلے پر پڑتا ہے، ابواء ودان کے قریب ہی ایک دوسرے مقام کا نام ہے، اس مہم میں 70 مہاجرین کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہ نفسِ نفیس تشریف لے گئے تھے اور مدینے میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا تھا، مہم کا مقصد قریش کے ایک قافلے کی راہ روکنا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَدَّان تک پہنچے، لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا۔

اسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنوضمرہ کے سردار عمرو بن مخشی الضمری سے حلیفانہ معاہدہ کیا، معاہدے کی عبارت یہ تھی :

''یہ بنو ضمرہ کے لیے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحریر ہے، یہ لوگ اپنے جان اور مال کے بارے میں مامون رہیں گے اور جو ان پر یورش کرے گا، اس کے خلاف ان کی مدد کی جائے گی، اِلاّ کہ یہ خود اللہ کے دین کے خلاف جنگ کریں، (یہ معاہدہ اس وقت تک کے لیے ہے ) جب تک سمندر سِوار ( پانی کی تہہ میں اگنے والی ایک گھاس) کو تر کرے (یعنی ہمیشہ کے لیے ہے ) اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مدد کے لیے انہیں آواز دیں گے تو انہیں آنا ہو گا۔'' (المواہب اللدنیہ ۱/۷۵ شرح زرقانی)

یہ پہلی فوجی مہم تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذاتِ خود تشریف لے گئے تھے اور پندرہ دن مدینے سے باہر گزار کر واپس آئے، اس مہم کے پرچم کا رنگ سفید تھا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ علمبردار تھے۔

5.. غزوہ ٔبواط ربیع الاول 2ھ ستمبر 623ء:

بواط (ب پر پیش) اور رضویٰ کوہستان جہینہ کے سلسلے کے دو پہاڑ ہیں جو درحقیقت ایک ہی پہاڑ کی دو شاخیں ہیں، یہ مکہ سے شام جانے والی شاہراہ کے متصل ہے اور مدینہ سے 48 میل کے فاصلے پر ہے، اس مہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 200 صحابہ کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے، مقصود قریش کا ایک قافلہ تھا جس میں امیہ بن خلف سمیت قریش کے ایک سو آدمی اور ڈھائی ہزار اونٹ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رضویٰ کے اطراف میں مقام بُواط تک تشریف لے گئے، لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا۔

اس غزوہ کے دوران حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو مدینے کا امیر بنایا گیا تھا، پرچم سفید تھا، علمبردار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔


==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 115 سرایا اور غزوات: اہل سیر کی اصطلاح میں " غزوہ " اس فوجی مہم کو کہتے ہیں جس میں نبی کریم...