سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کے عظیم اخلاق وکردار



سیرت النبی ﷺ

آپ ﷺ کے عظیم اخلاق وکردار:


عام طور پر دنیا کے دوسرے معلّمینِ اخلاق کے ساتھ یہ المیہ رہا ہے کہ وہ جن اخلاقی اصولوں کی تبلیغ کرتے ہیں اور جن ملکوتی صفات کو جذب کرنے پر زور دیتے ہیں، خود ان کی اپنی زندگی میں ان تعلیمات کا اثر بہت کم ہوتا ہے، مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں آپ کو کہیں بھی یہ نقص نظر نہیں آئے گا، جو شخص سیرت و کردار پاک کی جتنی زیادہ گہرائی میں جائے گا وہ اسی قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند اخلاق اور پاکیزہ کردار کا مدح سرا نظر آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سب سے بڑا اصول یہ تھا کہ نیکی کا کوئی کام اور ثواب کا کوئی عمل ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اس پر عمل کرتے تھے، آپ جب کسی بات کا حکم دیتے تو پہلے آپ اس کو کرنے والے ہوتے۔

حضرت انس بن مالک رضي الله تعالىٰ عنه رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی صحابی اور وفادار خادم تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا اور آپ کی سیرتِ مبارکہ کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کیا تھا، ان کا بیان ہے کہ میں نے پورے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا اور میرے کسی کام پر یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔؟ بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ محاسن اخلاق کے حامل تھے۔

حضرت انس رضي الله تعالىٰ عنه سے زیادہ قریب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار اور اخلاق واعمال کے مشاہدے کا موقع ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالىٰ عنها کو میسر آیا تھا، کیوں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقۂ حیات تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ظاہری اور خانگی معمولات و عادات سے واقف تھیں۔

ایک مرتبہ چند صحابی رضي الله تعالىٰ عنه حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالىٰ عنها کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے امّ المومنین! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور معمولات بیان فرمائیے! تو عائشہ صدیقہ نے جواب دیا کہ کیا تم لوگوں نے قرآن نہیں پڑھا؟

کان خُلُق رسول القرآن
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا۔“ (ابوداؤد شریف)

یعنی قرآنی تعلیمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار میں رچی اور بسی ہوئی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ذرا بھی منحرف نہ تھے، خود قرآن کریم میں آپ کے بلند اخلاق و کردار کی شہادت دی گئی ہے کہ:

بیشک آپ ﷺ اخلاق کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں“ (سورہ القلم آیت:۴)

رشتہ داروں میں حضرت علی رضي الله تعالىٰ عنه جو بچپن سے جوانی تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے تھے، وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طبیعت کے نرم اور اخلاق کے نیک تھے، طبیعت میں مہربانی تھی، سخت مزاج نہ تھے، کسی کی دل شکنی نہ کرتے تھے، بلکہ دلوں پر مرہم رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رؤف ورحیم تھے۔ (شمائل ترمذی)

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دنیائے بشریت کے لئے اسوۂ حسنہ اور الٰہی فیوض و ہدایات و احکام کا ایسا مفید وگہرا چشمہ ہے جو کبھی خشک ہونے والا نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نور خداوندی کا ایسا مرکز ہے جہاں تاریکی کا گزر نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پاکیزہ زندگی کے تمام پہلوؤں کی مثالیں اور نمونے موجود ہیں، امن وآشتی کی جھلکیاں ہوں تو صلح ومصالحت کی بھی، دفاعی حکمت عملی کی بھی اور معتدل حالات میں پرسکون کیفیات کی بھی، اپنوں کے واسطہ کی بھی اور بے گانوں سے تعلقات کی بھی، معاشرت و معاملات کی بھی اور ریاضت و عبادات کی بھی، عفوو کرم کی بھی اور جود وسخا کی بھی، تبلیغ و تقریر کی بھی اور زجر وتحدید کی بھی، ان جھلکیوں میں جاں نثاروں کے حلقے بھی ہیں اور سازشوں کے نرغے بھی، امیدیں بھی ہیں اور اندیشے بھی، گویا انسانی زندگی کے گوشوں پر محیط ایک ایسی کامل اور جامع حیات طیبہ ہے جو رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لئے رہبر و رہنما ہے۔

تحریر : مولانا شیر محمد امینی


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی ﷺ آپ ﷺ کے عظیم اخلاق وکردار: عام طور پر دنیا کے دوسرے معلّمینِ اخلاق کے ساتھ یہ المیہ رہا ہے کہ وہ جن اخلاقی اصولوں کی تبلی...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کے مکارمِ اخلاق ۔ حدیثِ قدسی




سیرت النی ﷺ

آپ ﷺ کے مکارمِ اخلاق ۔ حدیثِ قدسی:


حضرت عطاء ؓ سے ایک ایسی حدیث مروی ہے جس میں آپ ﷺ کے تقریباً تمام اخلاق کریمہ کو بیان کیا گیا ہے اور اس میں آپ ﷺ کے کچھ ایسے اعلیٰ اخلاق کا ذکر ہے، جو قرآن کریم میں بھی مذکور ہیں، چنانچہ حدیث قدسی میں ہے:

۱: یاأیّھا النبیّ اِنّا أرسلنٰک شاھداً و مبشرا ً وّنذیراً وّحرز اً اللأمّییّن:

ترجمہ:

اے نبیﷺ! بے شک ہم نے آپ کو گواہ بنا کر بھیجا ہے ماننے والوں کو بشارت دینے والا اورنہ ماننے والے کو عذاب سے ڈرانے والا اور امّیوں کے پناہ دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔

۲: انت عبدی ورسولی:
آپ میرے خاص بندے اور رسول ہیں۔

۳: سمّیتک المتوکّل:
میں نے آپ کا نام متوکل رکھ دیا، کیونکہ آپ مجھ پر توکل کرتے ہیں۔

۴: لیس بفظ وّ لا غلیظ:
نہ آپ درشت خو ہیں اور نہ سخت دل ہیں۔

۵: ولا سخّاب فی الأسواق:
نہ بازاروں میں شور وشغب کرنے والے ہیں۔

۶: ولایدفع السیّئۃ با لسیّئۃ
برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہیں دیتے۔

۷: ولٰکن یّعفو ویغفر
بلکہ معاف فرماتے اور درگزر کرتے ہیں۔
گویا آپ ﷺ قرآنی حکم (اِدفع بالّتی ھی أحسن ) کہ برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ دیا کرو کا عملی نمونہ ہیں۔

۸: ولا یقبضہ اللہ حتّی ٰ یقیم بہ الملّۃ العوجاء
اللہ آپ کو اس وقت تک موت نہیں دے گا جب تک گمراہ قوم کو آپ کے ذریعے سیدھے راستے پر نہ لے آئے، 
یعنی جب تک یہ لو گ کلمہ لا اِلہ اِلاّ اللہ محمد رسول اللہ پڑھ کر سیدھے مسلمان نہ ہو جائیں ۔

۹: ویفتح بہ أعیناً عمیا:
آپ کو اس وقت تک وفا ت نہیں دے گا جب تک کافروں کی اندھی آنکھوں کو بینا نہ کر دے۔

۱۰: واٰذاناً صماً وقلوبا ً غُلفاً:
اور بہرے کان اور پردے پڑے ہوئے دلوں کو کھول نہ دے۔

اور بعض روایات میں مزید درج ذیل صفات بیان ہوئی ہیں:

۱۱: اُسدِّدُہ بکل ّ جمیل:
ہر اچھی خصلت سے آپ کی درستی کرتا رہوں گا۔

۱۲:واَھبُ لہ کلَّ خلق کریم:
ہر اچھی خصلت آپ کو عطا کرتا رہوں گا۔

۱۳:واَجعلُ السّکینۃ َ لباسہ وشعارہ:
میں اطمینان کو آپ کا لباس اور شعار ( بدن پر جیسے کپڑے چمٹے ہوتے ہیں ) بنا دوں گا ۔

۴:والتقویٰ ضمیرہ:
پرہیز گاری کو آپ کا ضمیر یعنی دل بنا دوں گا ۔

۱۵: والحکمۃ معقولہ:
حکمت کو آپ کی سوچی سمجھی بات بنا دوں گا۔

۱۶: والصدق والوفاء َطبیعتہ:
سچائی اور وفاداری کو آپ کی طبیعت بنا دوں گا۔

۱۷: والعفوَ والمعروفَ خُلقہ:
معافی اور نیکی کو آپ کی عادت بنا دوں گا۔

۱۸: والعدلَ سیرتہ والحق َ شریعتہ والھدیٰ اِمامہ والاِسلام ملّتہ:
انصاف کو آپ کی سیرت، حق کو آپ کی شریعت، ہدایت کو آپ کا امام اور دین اسلام کو آپ کی ملّت کا درجہ دوں گا۔

۱۹: اَحمد اِ سمہ:
آپ کا نام نامی (لقب) احمد ہے ۔

۲۰: اُھدی بہ بعد الضلالۃ:
آپ ہی کے ذریعے میں لوگوں کو گمراہی کے بعد سیدھا راستہ دکھاؤں گا ۔

۲۱: واُعلمُ بہ بعد الجھالۃ:
جہالت کے بعد آپ ہی کےذریعے میں لوگوں کو علم وعرفان عطا کروں گا۔

۲۲: واَرفعُ بہ الخُمالۃ َ:
آپ ہی کے ذریعے میں مخلوق کو پستی سے نکال کر بام عروج تک پہنچاؤں گا۔

۲۳: واُسمیٰ بہ بعد النّکرۃ:
آپ کی بدولت اپنی مخلوق کو حق سے جاہل ہونے کے بعد بلندی عطا کروں گا۔

۲۴: واُکثرُ بہ بعد القلّۃ:
آپ کی ہدایت کی بدولت آپ کے متبعین کی کم تعداد کو بڑھا دوں گا۔

۲۵: واُغنیَ بہ بعد العیلۃ:
لوگوں کو فقر وفاقہ میں مبتلا ہونے کے بعد آپ کے ذریعے ان کی حالت کو غنا میں تبدیل کر دوں گا۔

۲۶: واُلّف بہ بین قلوب مختلفۃ وّاَھواء مشتّتۃ واُمم متفرقۃ:
اختلاف رکھنے والے دلوں، پراگندہ خواہشات اور متفرق قوموں میں، میں آپ ہی کے ذریعے الفت پیدا کروں گا۔

۲۷: واَجعلُ اُمّتہ خیراً اُمۃ اُخرجت للنّاس:
میں آپ کی امت کو بہترین امت قرار دوں گا جو انسانوں کی ہدایت کے لیے پیدا کی گئی ہے۔

وصلّی اللہ علیہ وسلم وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اَ جمعین۔

(مدارج النبوہ بحوالہ أسوہ رسول اکرم، ڈاکٹر عبد الحییّ عارفی ، ص ۴۹ تا ۵۱)

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النی ﷺ آپ ﷺ کے مکارمِ اخلاق ۔ حدیثِ قدسی: حضرت عطاء ؓ سے ایک ایسی حدیث مروی ہے جس میں آپ ﷺ کے تقریباً تمام اخلاق کریمہ کو بیان ک...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کا مقامِ عبدیت




سیرت النبیﷺ


آپ ﷺ کا مقامِ عبدیت


حضرت فضل ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ کو بخار چڑھ رہا ہے، اور سر مبارک پر پٹی باندھ رکھی ہے، حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا: میرا ہاتھ پکڑ لو، میں نے ہاتھ پکڑا، حضور ﷺ مسجد تشریف لے گئے اور منبر پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو آواز دے دو اور سب کو جمع کرو، میں نے لوگوں کو جمع کیا، حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی اور اس کے بعد یہ مضمون ارشاد فرمایا:

" میرا تم لوگوں کے پاس سے چلے جانے کا وقت قریب آ گیا ہے، اس لئے جس کی کمر پہ میں نے مارا ہو میری کمر حاضر ہے وہ اپنا بدلہ لے سکتا ہے اور جس کی آبرو پر میں نے حملہ کیا ہو وہ بھی اپنا بدلہ لے سکتا ہے، جس کا کوئی مالی مطالبہ مجھ پر ہے تو وہ بھی اپنا مطالبہ سامنے لائے، کوئی شخص یہ شک نہ کرے کہ اس کے بدلہ لینے سے میرے دل میں بغض پیدا ہو گا، کیونکہ بغض رکھنا نہ میری طبیعت میں ہے اور نہ ہی میرے لئے موزوں ہے، خوب سمجھ لو! مجھے وہ شخص بہت زیادہ محبوب ہے جو اپنا حق مجھ سے وصول کرے یا معاف کر دے، کہ میں بشاشت قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے جاؤں اور میں اس اعلان کو ایک دفعہ کہہ دینے پر اکتفاء نہیں کرتا، دوبارہ بھی اعلان کروں گا، چنانچہ آپ ﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے اور ظہر کی نماز ادا فرمائی، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور وہی اعلان دوبارہ کیا اور بغض سے متعلق مضمون دوبارہ ارشاد فرمایا اور یہ فرمایا کہ جس کے ذمے کوئی حق ہےتو وہ بھی ادا کرے اور دنیا کی رسوائی کا خیال نہ کرے، کیونکہ دنیا کی رسوائی آخرت کی رسوائی سے بہت کم ہے۔

ایک صاحب کھڑے ہو ئے اور عرض کیا کہ میرے تین درہم آپ کے ذمے ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا: میں نہ کسی مطالبہ کرنے والے کی تکذیب کرتا ہوں اور نہ اس کو قسم دیتا ہوں، لیکن پوچھنا چاہتا ہوں یہ تین درہم کیسے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: ایک مرتبہ آپ کے پا س ایک سائل آیا تھا تو آ پ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اس کو تین درہم دے دو، حضور ﷺ نے حضرت فضل ؓ سے فرمایا اس کو تین درہم دے دو، اس کے بعد ایک اور شخص کھڑا ہوا، اس نے کہا: میرے ذمے بیت المال کے تین درہم ہیں، میں نے خیانت سے لے لئے تھے، حضور ﷺ نے اس سے پوچھا: خیانت کیوں کی تھی؟ عرض کیا میں اس وقت بہت محتاج تھا، حضور ﷺ نے حضرت فضل سے فرمایا اس سے لے لو، اس کے بعد حضور ﷺ نے اعلان فرمایا جس کسی کو اپنی کسی حالت کا اندیشہ ہو وہ بھی دعا کرا لے، ایک صاحب اٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جھوٹا ہوں منافق ہوں اور بہت سونے کا مریض ہوں، حضور ﷺ نے دعا فرمائی، یا اللہ اس کو سچائی عطا فرما، ایمان کامل عطا فرما اور نیند کی زیادتی کے مرض سے اس کو چھٹکارا عطا فرما، اس کے بعد ایک اور شخص کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جھوٹا ہوں منافق ہوں، کوئی گناہ ایسا نہیں جو میں نے نہ کیا ہو، حضرت عمر ؓ نےاس کو تنبیہ فرمائی کہ اپنے گنا ہوں کو پھیلاتے ہو، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا عمر! چپ رہو دنیا کی رسوائی آخرت کی رسوائی سے کم ہے، اس کے بعد حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، یا اللہ اس کو سچائی اور کامل ایمان نصیب فرما اور اس کے احوال کو بہتر فرما۔ ایک اور صاحب کھڑے ہوئے اور کہا: یا رسول اللہ! میں بہت بزدل ہوں اور سونے کا مریض ہوں، حضور ﷺ نے اس کے لئے بھی دعا فرمائی، حضرت فضل کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم دیکھتے تھے اس شخص سے زیادہ بہادر کوئی نہیں تھا۔

پھر حضور ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے مکان پر تشریف لائے اور اسی طرح عورتوں کے مجمع میں بھی اعلان فرمایا اور جو جو ارشادات مردوں کے مجمع میں فرمائے تھے یہاں بھی اسی طرح ان کا اعادہ فرمایا، ایک صحابیہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی زبان سے عاجز ہوں، حضور ﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی، پھر حضور ﷺ نے اعلان فرمایا: جس کسی کو اپنی کسی حالت کا اندیشہ ہو وہ بھی دعا کرا لے، چنانچہ لوگوں نے اپنے متعلق مختلف دعائیں کرائیں۔ ( خصائل نبوی ، بحوالہ أسوۂ ر سول أکرم: ص۷۷)



*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبیﷺ آپ ﷺ کا مقامِ عبدیت حضرت فضل ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ کو بخار چڑھ رہا ہے، ا...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کا رحم اور رقت قلبی




آپ ﷺ کا رحم اور رقت قلبی:

آپ ﷺ کی رقتِ قلبی:

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی ایک نواسی قریب الوفات تھیں، حضور ﷺ نے اس کو گود میں اٹھالیا اور اپنے سامنے رکھ لیا اور اسی حالت میں اس کی روح پرواز کر گئی، ام ایمن (جو حضور ﷺ کی ایک کنیز تھی) چلاّ کر رونے لگی، حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نبی کے سامنے بھی رونے شروع کر دیا؟ ( چونکہ آپ کے آنسو بھی ٹپک رہے تھے ) انہوں نے عرض کیا حضور بھی تو رو رہے ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ رونا ممنوع نہیں ہے، یہ اللہ کی رحمت ہے، پھر فرمایا کہ مؤمن ہر حال میں خیر ہی میں رہتا ہے، حتٰی کہ خود اس کی روح نکال لی جاتی ہے اور وہ اللہ تعالٰی کی حمد کرتا ہے۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص: ۷۳)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ نے عثمان بن مظعون ؓ کی پیشانی کو ان کی وفات کے بعد بوسہ دیا، اس وقت آپ ﷺ کے آنسو ٹپک رہے تھے۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص: ۷۳)

حضرت عبد اللہ بن شخیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضو ر ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسی ہنڈیا کی آواز ہوتی ہے۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص:۷۴)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک مرتبہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید کی تلاوت سناؤ، میں نے عرض کیا کہ حضور (ﷺ) قرآن آپ پر ہی نازل ہوا ہے اور آپ ہی کو سناؤں، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرا دل چاہتا ہے کہ کسی دوسرے سے سنوں، میں نے امتثال امر میں پڑھنا شروع کیا اور جب سورہ نساء کی اس آیت پر پہنچا:

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (سورۃ النساء41 : رکوع : ۶ پارہ : ۵)

ترجمہ:

'' سو اس وقت کیا حال ہو گا جبکہ ہر ہر امت میں سے ایک ایک گواہ کو حاضر کریں گے اور آپ کو ان لوگوں پر ( جو آپ سے سابق ہیں ) گواہی دینے کے لئے حاضر کیا جائے گا۔''

عبد اللہ ؓ فرماتے ہیں: میں نے حضور ﷺ کے پرنور چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو آپ ﷺ کی دونوں آنکھیں بہہ رہی تھی۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص ۷۴)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ اپنی صاحبزادی ( ام کلثوم ) کی قبر پہ تشریف فرما تھے اور آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص ۷۴)

آپ ﷺ کا رحم وترحّم:

ایک دفعہ ایک صحابی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے ہاتھ میں کسی پرندے کے بچے تھے اور وہ آوازیں نکال رہے تھے، حضور ﷺ نے پوچھا یہ بچے کیسے ہیں؟ صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں ایک جھاڑی کے پاس سے گزرا تو ان کی آوازیں آرہی تھیں، میں نے ان کو نکال لیا، ان کی ماں نے دیکھا تو بے تاب ہو کر میرے سرپہ چکر کاٹنے لگی، حضور ﷺ نے فرمایا: فوراً جاؤ اور ان بچوں کو وہیں رکھ آؤ جہاں سے اٹھائے تھے۔( مشکوۃ : بحوالہ أبو داؤد باب الرحمۃ والشفقہ علی الخلق : )

ایک دفعہ حضور ﷺ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اونٹ بھوک سے بلبلا رہا تھا، آپﷺ نے شفقت سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور اس کے مالک کو بلا کر فرمایا : اس جانور کے بارے میں تم خدا سے نہیں ڈرتے ؟ (أبو داؤد باب الرحمۃ والشفقہ علی الخلق)

ایک دفعہ حضرت أبو مسعود انصاری ؓ اپنے غلام کو پیٹ رہے تھے، اتفاق سے رسول اکرم ﷺ اس موقع پر تشریف لائے، آپ ﷺ نے رنجیدہ ہو کر فرمایا: " أبو مسعود! اس غلام پر تمہیں جس قدر اختیار ہے اللہ تعالیٰ کو تم پر اس سے زیادہ اختیار ہے۔" حضرت أبو مسعود ؓ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک سن کر تھرّا اٹھے اور عرض کیا: " یا رسول اللہ! میں اس غلام کو اللہ کی راہ میں آزاد کرتا ہوں۔ " حضور ﷺ نے فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرتے تو دوزخ کی آگ تمہیں چھو لیتی۔ ( أبو داؤد :۴/۵۰۴ ،کتا ب الأدب ، باب حق المملوک،ح:۵۱۶۱ )



*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

آپ ﷺ کا رحم اور رقت قلبی: آپ ﷺ کی رقتِ قلبی: حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی ایک نواسی قریب الوفات تھیں، حضور ﷺ نے اس کو ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کا زہد وتقویٰ




آپ ﷺ کا زہد وتقویٰ:

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالٰی سے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں دنیا سے اٹھا اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما۔ ( جامع الترمذی)

ایک صحابی سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کے اہل مجلس ایک مرتبہ دولت مندی اور دنیاوی خوش حالی کا کچھ تذکرہ کرنے لگے۔ ( یہ چیز اچھی ہے یا بری اور دین اور آخرت کے لئے مضر ہے یا مفید ) تو آپ ﷺ نے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ سے ڈرے (اور اس کے حکام کی پابندی کرے ) تو اس کے لئے مالداری میں کوئی مضائقہ نہیں اور کوئی حرج نہیں اور صحت مندی صاحب تقویٰ کے لئے دولت مندی سے بھی بہتر ہے اور خوش دلی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہے۔ ( جس پر شکر واجب ہے )۔ (معارف الحدیث)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عروہؓ سے فرمایا: میرے بھانجے! ہم ( اہل بیت اس طرح گزارا کرتے تھے ) کہ کبھی کبھی لگاتار تین تین چاند دیکھ لیتے تھے ( یعنی کامل دو مہینے گزر جاتے تھے ) اور حضور ﷺ کے گھروں میں چولہا نہ جلتا تھا (عروہؓ کہتے ہیں ) میں نے عرض کیا پھر آپ کو کونسی چیز زندہ رکھتی تھی؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا بس کھجور کے دانے اور پانی، البتہ حضور ﷺ کے بعض انصاری پڑوسی تھے، ان کے ہاں دودھ دینے والے جانور تھے وہ آپ ﷺ کے لئے دودھ بطور ہدیہ بھیج دیا کرتے تھے، اس میں سے آپ ﷺ ہمیں بھی دیتے تھے۔ (متفق علیہ: بخاری )

عبد اللہ بن شخیر سے روایت ہے کہ آپ ﷺ برابر مغموم رہتے تھے، کسی وقت آپ کو چین نہیں آتا تھا ( یہ کیفیت فکر آخرت کی وجہ سے تھی ) اور دن میں ستّر یا سوبار استغفار فرماتے تھے، یہ یا تو امت کی تعلیم کے لئے تھا یا خود امت کے لئے مغفرت طلب کرنا مقصود تھا، یا پھر اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ دریائے قرب وعرفان میں مستغرق رہتے تھے اور آناً فاناً اس میں ترقی ہوتی رہتی تھی۔ (نشر الطیب؛ اشرف علی تھانوی ص ۶۷ : مکتبہ لدھیانوی )

آپ نے زہد و قناعت کی تعلیم دی تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ فتوحات کی وجہ سے جزیہ، زکوٰۃ، عشر اور صدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے، مگر آپ کے گھر میں وہی فقر و فاقہ تھا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رحلت فرما گئے مگر آپ کو دو وقت بھی سیر ہو کر کھانا نصیب نہ ہوا، آپ کی رہائش ایک کمرہ تھی جس کی دیوار کچی اور چھت کھجور کے پتوں اور اونٹ کے بالوں سے بنی تھی، آپ کا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جو بدنِ مبار ک پر کپڑا ہوتا تھا، اس کے سوا کوئی اور کپڑا ہی نہیں تھا جو تہہ کیا جاتا۔


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

آپ ﷺ کا زہد وتقویٰ: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالٰی سے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کی نرمی وشفقت، ایثار وتحمل




آپ ﷺ کی نرمی وشفقت، ایثار وتحمل:

آپ ﷺ کی نرمی وشفقت:

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بڑے خوش اخلاق تھے، ایک روز مجھے کسی ضرورت کے لئے بھیجا، میں نےکہا خدا کی قسم نہیں جاؤں گا اور میرے دل میں تھا کہ جو حکم رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے اس کے لئے ضرور جاؤں گا۔ (حضرت انس ؓ اس وقت بچے تھے اور حضور ﷺ کی خدمت میں ہی رہا کرتے تھے) پھر میں نکلا اور میرا گزر کچھ بچوں پر ہوا جو بازار میں کھیل رہے تھے، ( میں وہاں رکا ہوا تھا) اتنے میں رسول اللہ ﷺ نے اچانک میرے سر کے بال پیچھے سے پکڑے، جب میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو حضور ﷺ کو ہنستا ہوا پایا، حضور ﷺ نے فرمایا: انس تم وہاں گئے تھے جہاں میں نے تم کو بھیجا تھا؟ میں نےکہا: جاؤں گا یارسول اللہ! ( مشکوۃ : بحوالہ أسوہ رسول اکرم : ص:۶۸)

حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ میں نے حضور ﷺ کی خدمت اس وقت سے کی ہے جب میں آٹھ برس کا تھا، میں نے آپ ﷺ کی خدمت دس برس تک کی، آپ نے کبھی بھی مجھے کسی بات پر ملامت نہیں کیا، اگر اہل بیت میں سے کسی نے ملامت کیا بھی تو آپ ﷺنے فرمایا اس کو چھوڑ دو اگر تقدیر میں کوئی بات ہوتی ہے تو وہ ہوکر رہتی ہے۔ ( مشکوۃ: بحوالہ أسوۂ رسول اکرم : ص: ۶۸)

آپ ﷺ کا ایثار و تحمل:

ایک روایت میں ہے کہ زید بن شعنہ پہلے یہودی تھے، ایک مرتبہ کہنے لگے کہ نبوت کی نشانیوں میں سے کوئی ایسی نہیں رہی جس کو میں نے حضور ﷺ میں نہ دیکھ لیا ہو، سوائے دو علامات کے جس کے تجربے کی ابھی تک نوبت نہیں آئی تھی، ایک یہ کہ آپ ﷺ کا حلم آپ ﷺ کے غصے پر غا لب ہوگا، دوسرا یہ کہ آپ ﷺ کے ساتھ کوئی جتنا بھی جہالت کا برتاؤ کرے گا آپﷺ کا تحمل اسی قدر زیادہ ہو گا، میں ان دونوں کے امتحان کا موقع تلاش کرتا رہا اور آمد ورفت بڑھاتا رہا، ایک دن آپ ﷺ حجرے سے باہر تشریف لائے، حضرت علی ؓ آپ کے ساتھ تھے، ایک بدوی شخص آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میری قوم مسلمان ہوچکی ہے اور میں نے ان سے مسلمان ہو جانے کے بعد رزق کی فراوانی کا وعدہ کیا تھا، جبکہ ابھی قحط کی حا لت ہے، مجھے ڈر ہے کہیں وہ اسلام سے نہ پھر جائیں اگر ان کی کچھ اعانت کردی جائے؟ حضور ﷺ نے غالباً حضرت علی ؓ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، انہوں نے عرض کیا حضور ﷺ اس وقت تو کچھ موجود نہیں، زید (جو اس وقت تک یہودی تھے اس منظر کو دیکھ رہے تھے) کہنے لگے: محمد (ﷺ) اگر آپ فلاں شخص کے باغ کی اتنی کھجوریں وقت معّین پر مجھے دے دیں تو میں پیشگی قیمت ادا کر دیتا ہوں اور وقت معیّن پر کھجور لے لوں گا، حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا، البتہ اگر باغ کی تعیین نہ کرو تو میں معاملہ کر سکتا ہوں، میں نے اسے قبول کرلیا اور اس کے بدلے کھجوروں کی قیمت اسّی مثقال سونا دے دیا، آپ ﷺ نے وہ سونا اس بدوی کے حوالے کر دیا اور اس سے کہا کہ انصاف کی رعایت رکھنا اور اس سے ان کی ضرورت پوری کرنا۔

زید کہتے ہیں جب کھجوروں کی ادائیگی میں دو تین دن باقی رہ گئے تھے، حضور ﷺ صحابہ کرام ؓ کی جماعت کے ساتھ جن میں حضرت ابو بکرؓ، عمر ؓ، عثمانؓ بھی تھے، کسی جنازے کی نماز سے فارغ ہوکر ایک دیوار کے قریب تشریف فرما تھے، میں آیا اور آپ کے کرتے اور پلّو کو پکڑ کر نہایت ترش روئی سے کہا: اے محمد! آپ میرا قرض ادا نہیں کرتے، خدا کی قسم میں تم سب اولاد عبد المطلب کو اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ بڑے نا دہندہ ہو، حضرت عمر ؓ نے غصہ سے مجھے گھُورا اور کہا: اے خدا کے دشمن! یہ کیا بک رہا ہے؟ خدا کی قسم اگر مجھے حضور ﷺ کا ڈر نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا، لیکن حضور ﷺ نہایت سکون سے مجھے دیکھ رہے تھے اور تبسّم کے لہجے میں حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ عمر! میں اور یہ ایک اور چیز کے زیادہ محتاج تھے، وہ یہ کہ مجھے حق ادا کرنے میں خوبی برتنے کو کہتے اور اس کو مطالبہ کرنے میں بہتر طریقے کی نصیحت کرتے، جاؤ اس کو لے جاؤ اور اس کا حق ادا کر دو اور جو تم نے اسے ڈانٹا ہے اس کے بدلے میں اس کو بیس صاع ( تقریباًٍ دو من کھجوریں ) زیادہ دینا، حضرت عمر مجھے لے گئے اور پورا مطالبہ اور بیس صاع کھجوریں زیادہ دیں، میں نے پوچھا کہ یہ بیس صاع کیسے؟ حضرت عمر ؓ نے کہا حضور ﷺ کا یہی حکم ہے، زید نے کہا عمر! تم مجھے پہچانتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ میں زید بن شعنہ ہوں، انہوں نے کہا جو یہود کا بڑا علامہ ہے؟ میں نے کہا ہاں وہی ہوں، انہوں نے کہا اتنا بڑا آدمی ہو کر حضور ﷺ سے تم نے یہ کیسا سلوک کیا؟ میں نے کہا علامات نبوت میں سے دو علامتیں ایسی رہ گئی تھیں جن کے تجربے کا مجھے موقع نہیں ملا تھا، ایک یہ کہ آپ ﷺ کا حلم آپ کے غصے پر غالب ہو گا اور دوسری یہ کہ ان کے ساتھ جہالت کا برتاؤ ان کے حلم کو بڑھائے گا، اب ان دونوں کا بھی امتحان کرلیا اور اب میں آپ کو اپنے اسلام کا گواہ بناتا ہوں اور میرا آدھا مال امت محمدیہ پر صدقہ ہے، اس کے بعد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام لے آئے، اس کے بعد بہت سے غزاوات میں شریک ہوئے اور غزوۂ تبوک میں شہید ہوئے۔
( جمیع الفوائد ، خصائل نبوی :بحوالہ أسوۂ رسول اکرم : ص: ۷۰)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں حضور ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا اور حضور ﷺ کی گردن مبارک میں سخت کناروں والی نجرانی چادر تھی، ایک اعرابی آیا اور اس چادر کو پکڑ کر حضور ﷺ کو کھینچنے لگا اور چادر کو سختی سے لپیٹنے لگا، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں میں نے حضور ﷺ کی گردن مبارک کی طرف دیکھا تو آپﷺ کی گردن اس سخت چادر کی وجہ سے چھیل گئی تھی، اس کے بعد اس اعرابی نے کہا: اے محمد! ( ﷺ) اللہ کے اس مال میں سے جو آپ کے پاس ہے، اس میں سے مجھے دیجئے، حضور ﷺ نے اس کی طرف دیکھ کر تبسّم فرمایا اور مجھے اس کو دینے کا حکم دیا۔ (مدارج النبوۃ : بحوالہ اسوۂ رسول اکرم : ص:۷۱)

ایک دفعہ مکہ میں قحط پڑا ۔۔۔ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے پر مجبور ہوئے، ابو سفیان جو ان دنوں حضور ﷺ کے سخت ترین دشمن تھے، آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا: " محمد (ﷺ) تم لوگوں کو صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہو، تمہاری قوم ہلاک ہورہی ہے اپنے خدا سے دعا کیوں نہیں کرتے؟" اگرچہ قریش کی ایذا رسانیاں اور شرارتیں حد سے تجاوز کر چکی تھیں، لیکن ابو سفیان کی بات سن کر حضور ﷺ نے فوراً دعا کے لئے دست مبارک اٹھا ئے، اللہ تعالٰی نے اس قدر بارش نازل فرمائی کہ جل تھل ہو گیا اور قحط دور ہو گیا۔ ( صحیح بخاری: تفسیر سور ۂ دخان: بحوالہ أسوہ رسول اکرم :ص:۷۱)


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

آپ ﷺ کی نرمی وشفقت، ایثار وتحمل: آپ ﷺ کی نرمی وشفقت: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بڑے خوش اخلاق تھے، ایک روز مجھے کسی ضر...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کی امانت، دیانت اور تواضع




آپ ﷺ کی امانت، دیانت اور تواضع:

آپ ﷺ کی دیانت وامانت:

حضور ﷺ نے دعوتِ حق کا آغاز فرمایا تو ساری قوم آپ ﷺ کی دشمن بن گئی اور آپ ﷺ کو ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، لیکن اس حالت میں بھی کوئی مشرک ایسا نہ تھا جو آپ ﷺ کی امانت و دیانت پر شک کرتا ہو، بلکہ یہ لوگ اپنا روپیہ پیسہ آپ ﷺ کے پاس ہی امانت رکھتے تھے اور مکہ میں کسی دوسرے کو آپ ﷺ سے بڑھ کر امین نہیں سمجھتے تھے، ہجرت کے موقع پر حضرت علیؓ کو پیچھے چھوڑ نے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں کی امانتیں واپس کر کے مدینہ آئیں۔ ( شمائل ترمذی: بحوالہ أسوہ رسول أکرم : ص ۶۵)

آپ ﷺ کی تواضع:

حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا :

مسلمانو! میری حد سے زیادہ تعریف نہ کرو، جس طرح عیسائیوں نے ابن مریم کی تعریف کی ہے، کیونکہ میں خدا کا بندہ ہوں، بس تم میری نسبت اتنا ہی کہہ سکتے ہو کہ محمد ( ﷺ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ (مدارج النبوۃ : بحوالہ أسوہ رسول أکرم : ص:۶۵)

حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ عصا پر ٹیک لگا ئے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم آپ ﷺ کے لئے کھڑے ہو گئے، آپﷺ نے فرمایا:

جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، اس طرح تم کھڑے نہ ہوا کرو اور فرمایا میں خدا کا بندہ ہوں اسی طرح کھاتا ہوں جس طرح بندے کھاتے ہیں اور اسی طرح بیٹھتا ہوں جس طرح بندے بیٹھتے ہیں، آپ ﷺ کا یہ فرمانا آپ ﷺ کی برد باری اور متواضعانہ عادتِ کریمہ کی وجہ سے تھا۔ ( مدارج النبوۃ: بحوالہ أسوہ رسول أکرم : ص۶۶)

ایک حدیث میں ہے کہ ایک سفر میں چند صحابہ ؓ نے ایک بکری ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور اس کا کام آپس میں تقسیم کر لیا، کسی نے بکری ذبح کرنا اپنے ذمہ لیا اور کسی نے کھال نکالنا، حضور ﷺ نے فرمایا کہ پکانے کے لیے لکڑی اکٹھی کرنا میرے ذمے ہے، صحابہ ؓ نے عرض کیا حضور ﷺ یہ کام بھی ہم خود کریں گے، آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ تم لوگ یہ کام بخوشی کرلو گے، لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ میں مجمع میں ممتاز نظر آؤں اور اللہ تعالیٰ بھی اس کو ناپسند فرماتے ہیں۔ ( خصائل نبوی: بحوالہ أسوۂ رسول أکرم :ص: ۶۶)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے: وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے ساتھ بازار گیا اور حضور ﷺ نے ایک سرابیل (پاجامہ ) چار درہم میں خریدا اور وزن کرنے والے سے آپ نے فرمایا: قیمت میں مال خوب خوب کھینچ کر تولو (یعنی وزن میں کم یا برابر نہ لو، بلکہ زیادہ لو) وہ شخص حیرت سے بولا: میں نے کبھی بھی کسی کو قیمت کی ادائیگی میں ایسا کہتے ہوئے نہیں سنا، اس پر حضرت أبو ہریرہ ؓ نے کہا: افسوس ہے تجھ پر کہ تو نے اپنے نبی کو نہیں پہچانا، پھر وہ شخص ترازو چھوڑ کر کھڑا ہو گیا اور حضور اکرم ﷺ کے دست مبارک کو بوسہ دینے لگا، آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک کھینچ لیا اور فرمایا کہ یہ عجمیوں کا دستور وطریقہ ہے کہ وہ بادشاہوں اور سربراہوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، میں تو تم ہی میں سے ایک شخص ہوں، ( یہ آپ ﷺ نے از راہ تواضع فرمایا جیسا کہ آپ کی عادت کریمہ تھی) اس کے بعد آپ نے سرابیل کو خود اٹھایا، حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ آگے بڑھ کر سرابیل آپ ﷺ کے ہاتھ سے لےلوں، مگر آپ ﷺ نے فرمایا کہ سامان کے مالک ہی کا حق ہے کہ وہ اپنا سامان خود اٹھائے سوائے اس شخص کے جو کمزور ہو اور خود نہ اٹھا سکے تو اپنے بھائی کی مدد کرنی چاہیے۔ (مدارج النبوۃ : بحوالہ أسوہ رسول اکرم : ص ۶۷ )

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ایک پرانے پالان پر حج کیا اور اس پر ایک کپڑا پڑا ہوا تھا جو چار درہم کا بھی نہ ہو گا اور حضور ﷺ یہ دعا مانگ رہے تھے: یا اللہ اس حج کو ایسا حج فرما جس میں ریا اور شہرت نہ ہو۔ (شمائل ترمذی: بحوالہ اسوہ رسول اکرم : ص۶۷)

جب مکہ فتح ہوا اور آپ ﷺ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ اس میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے اللہ کے حضور میں عاجزی اور تواضع سے سر کو اس قدر جھکادیا قریب تھا کہ آپ کا سر مبارک اس لکڑی کے اگلے حصہ کو لگ جائے۔ (کتاب الشفاء، قاضی عیاض: بحوالہ اسوہ رسول اکرم: ۶۷)

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہؓ کے نزدیک حضور ﷺ سے زیا دہ اس دنیا میں کوئی شخص محبوب نہیں تھا، اس کے باوجود پھر بھی صحابہ کرام ؓ حضور ﷺ کو دیکھ کر اس لئے کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ حضور ﷺ کو یہ بات پسند نہ تھی۔ ( شمائل ترمذی: بحوالہ اسوہ رسول اکرم : ص ۶۷)

ایک مرتبہ نجاشی بادشاہِ حبشہ کے کچھ ایلچی آئے، تو حضور ﷺ ان کی خاطر مدارات کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ان کی خدمت کا ہمیں موقع دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا: انہوں نے ہمارے صحابہ کی بڑی خدمت وتکریم کی ہے، میں پسند کرتا ہوں کہ ان کا بدلہ ادا کروں۔ ( مدارج النبوۃُ: بحوالہ أسوۂ رسول اکرم : ص : ۶۷)



ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ۔

آپ ﷺ کی امانت، دیانت اور تواضع: آپ ﷺ کی دیانت وامانت: حضور ﷺ نے دعوتِ حق کا آغاز فرمایا تو ساری قوم آپ ﷺ کی دشمن بن گئی اور آپ ﷺ ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کی قناعت، توکل اور انکساری




آپ ﷺ کی قناعت، توکل اور انکساری:

آپ ﷺ کی قناعت وتوکل:

حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضوراقدس ﷺ دوسرے دن کے لئے کسی چیز کا ذخیرہ کر کے نہیں رکھتے تھے۔ ( شمائل ترمذی)۔

یعنی جو چیز ہوتی کھلا پلا کر ختم فر ما دیتے اس خیال سے کہ کل پھر ضرورت ہو گی، اس کو محفوظ کرکے نہیں رکھتے تھے، یہ آپ ﷺ کا انتہائی درجہ کا توکل تھا کہ جس مالک نے آج دیا ہے وہ کل بھی عطا کرے گا، آپ ﷺ کا یہ عمل اپنی ذات کے لئے تھا ورنہ ازواج مطہرات کو ان کا نفقہ دے دیا جاتا تھا، وہ جس طرح چاہیں تصرف میں لا سکتی تھیں، مگر وہ بھی تو حضور ﷺ کی ازواج تھیں، کہاں جمع کر کے رکھ سکتی تھیں۔

ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس دو گونین درہموں کی نذرانہ کے طور پر پیش کی گئی جن میں ایک لاکھ درہم سے زیادہ تھے تو حضرت عائشہؓ نے ایک طباق منگوایا اور بھر بھر کر تقسیم فرمادیا اور خود روزہ سے تھیں، افطار ی زیتون کے تیل اور ایک روٹی سے کی، باندی نے عرض کیا ایک درہم کا آج اگر گوشت منگالیتیں تو ہم بھی اس سے افطار کرلیتے، ارشاد فرمایا کہ ابھی طعن کرنے سے کیا فائدہ اس وقت یاد دلا دیتی تو میں منگوا لیتی۔ (خصائل نبوی :بحوالہ اسوہ رسول اکرم : ۶۴)

حضور ﷺ نے فرمایا: ''مجھے یہ با ت پسند نہیں کہ میرے لئے اُحد پہاڑ سونا بن جائے اور پھر رات کو اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس رہے، سوائے اس دینار کے جس کو کسی مطالبہ ( قرض) کے لئے پاس رکھ لوں، چنانچہ آپ ﷺ اسی کمال سخاوت کی وجہ سے مقروض رہتے تھے یہا ں تک کہ جب آپ ﷺ کا وصال ہوا تو آپ کی زرہ اہل وعیال کے اخراجات کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔ ( نشر الطیب: اشرف علی تھانوی ص: ۱۳۷)

آپ ﷺ کی انکسار طبعی:

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ عادت کے اعتبار سے سخت گو نہ تھے اور نہ ہی بتکلف سخت گو بنتے تھے اور نہ بازاروں میں خلاف وقار باتیں کرنے والے تھے اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے اور غایت حیا کی وجہ سے آپ ﷺ کی نگاہ کسی کے چہرے پر نہیں ٹھہرتی تھی اور اگر کسی نامناسب بات کا ذکر کرنا ہی پڑتا تھا تو کنایہ میں وہ بات فرماتے۔

حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ سب سے بڑھ کر کشادہ دل تھے، بات کے سچے تھے، طبیعت کے نرم تھے، معاشرت میں نہایت کریم تھے اور جو شخص آپ کی دعوت کرتا آپ ﷺ اس کی دعوت قبول فرما لیتے اور ہدیہ بھی قبول فرما لیتے اگرچہ (وہ ہدیہ یا دعوت) گائے یا بکری کا پایہ ہی ہوتا اور ہدیہ کا بدلہ بھی دیتے تھے اور دعوت غلام کرے یا آزاد، لونڈی کرے یا کوئی غریب آدمی، سب کی قبول فرماتے تھے اور مدینہ کی آبادی کے کونے پر بھی اگر کوئی مریض ہوتا تو اس کی بھی عیادت فرماتے، معذرت کرنے والے کا عذر قبول فرماتے، اپنے اصحاب سے مصافحہ کی ابتداء فرماتے اور کبھی اپنے اصحاب میں پاؤں پھیلائے ہوئے نہیں دیکھے گئے جس کی وجہ سے اوروں کے لئے جگہ تنگ ہو جائے اور جو آپ کے پاس آتا اس کی خاطر تواضع کرتے، اور بعض اوقات اپنا کپڑا اس کے بیٹھنے کے لئے بچھا دیتے اور گدہ تکیہ خود چھوڑ کر اس کو دے دیتے اور کسی شخص کی بات درمیان میں نہ کاٹتے اور تبسم فرمانے میں اور خوش مزاجی میں سب سے بڑھ کر تھے، ہاں اگر نزول وحی یا وعظ وخطبہ کی حالت ہوتی تو اس وقت آپ ﷺ کا تبسم اور خوش مزاجی ظاہر نہ ہوتی تھی، کیونکہ ان حالتوں میں آپ ﷺ کو ایک جوش ہوتا تھا۔ ( نشر الطیب : حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ " ص: ۱۴۷ ،مکتبہ لدھیانوی)۔


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

آپ ﷺ کی قناعت، توکل اور انکساری: آپ ﷺ کی قناعت وتوکل: حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضوراقدس ﷺ دوسرے دن کے لئے کسی چیز کا ذخیرہ کر کے ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی سخاوت




رسول اللہ ﷺ کی سخاوت:

حضرت ابن عبّاس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اول تو تمام لو گوں سے زیادہ سخی تھے ( کوئی بھی آپ ﷺ کی سخاوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا کہ خود فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عطا کرنے میں بادشاہوں سے بھی زیادہ عطا کرنے والےتھے۔

ایک دفعہ نہایت سخت احتیاج کی حالت میں ایک عورت نے چادر پیش کی اور آپ ﷺ نے اسے پہن لیا، اسی وقت ایک شخص نے مانگ لی، آپ ﷺ نے اسی وقت مرحمت فرما دی۔ آپ ﷺ قرض لے کر ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا فرماتے اور قرض خواہ کے انتہائی تقاضے کے وقت کہیں سے اگر کچھ آ گیا اور قرض ادا کرنے کے بعد کچھ بچ گیا تو جب تک وہ تقسیم نہ فرما لیتے گھر تشریف نہ لے جاتے تھے اور بالخصوص رمضان میں آپ ﷺ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی، ( یعنی گیارہ مہینوں میں جتنی سخاوت فرماتے اس سے کہیں زیاد ہ رمضان المبارک میں فرماتے تھے) اور اس مہینہ میں جب بھی حضرت جبریل ؑ تشریف لاتے اور آپ ﷺ کو کلام اللہ سناتے، اس وقت آپ ﷺ بھلائی اور نفع رسانی میں تیز بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے۔ ( خصائل نبوی بحوالہ اسوہ رسول اکرم: ص:۶۲)

ترمذی کی حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ کے پاس کہیں سے نوے ہزار درہم آئے، آپ ﷺ نے ایک چادر پر ڈلوا دیئے اور وہیں بیٹھے بیٹھے تقسیم فرمائے، ختم ہونے کے بعد ایک سائل آیا تو حضور ﷺ نے اس کو فرمایا: آپ کسی سے میرے نام کا قرض لے لو، جب میرے پاس ہو گا تو واپس کردوں گا۔

حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ ﷺ سے کچھ مانگا گیا ہو اور آپ ﷺ نے فرمایا ہو کہ میں نہیں دیتا، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کل کے لئے کوئی چیز سنبھال کر نہیں رکھتے تھے، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے، خاص کر رمضان میں تو بہت ہی سخی ہو جاتے تھے۔ ( صحیح بخاری باب بد ء الوحی)

ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے فرمایا: " اے أبو ذر! مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے پاس اُحد جتنا سونا ہو اور تیسرے دن تک اس میں سے ایک اشرفی بھی باقی رہے، سوائے اس کے جو ادائے قرض کے لئے ہو، تو اے أبوذر! میں دونوں ہاتھوں سے اس مال کو اللہ کی مخلوق میں تقسیم کر کے اٹھوں گا "۔ ( صحیح بخاری کتا ب الاستقراض : ص ۳۲۱ )

ایک دن رسول خدا ﷺ کے پاس چار اشرفیاں تھیں، دو تو آپ نےخرچ کر دیں اور دو بچ گئی ان کی وجہ سے پوری رات آپ ﷺ کو نیند نہیں آئی، ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا معمولی بات ہے، صبح خرچ کر دیجئے گا، حضور ﷺ نے فرمایا: " اے حمیرا! کیا معلوم کہ میں صبح تک زندہ رہوں یا نہیں۔ " (مشکوۃ بحوالہ اسوہ رسول اکرم : ص: ۶۳ )


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

رسول اللہ ﷺ کی سخاوت: حضرت ابن عبّاس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اول تو تمام لو گوں سے زیادہ سخی تھے ( کوئی بھی آپ ﷺ کی سخاوت کا مقا...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کے چند متفرق ذوقیات




آپ ﷺ کے چند متفرق ذوقیات:

کسی سے چیز لیتے تو سیدھے ہاتھ سے لیتے اور کوئی چیز دیتے تو سیدھے ہاتھ سے دیتے، خطوط لکھواتے تو سب سے پہلے بسم اللہ لکھواتے، پھر مُرسل کا نام اور اس کے پیچھے مرسل الیہ کا نام ہوتا، اس کے بعد اصل مضمون لکھواتے، خاتمہ پر مہر لگواتے۔

حضور ﷺ اوہام پرستی سے پاک تھے اور شگون نہ لیتے تھے، البتہ اشخاص اور مقامات کے اچھے نام پسند آتے، برے نام پسند نہ کرتے، سفر میں اقامت کے لئے ایسا ہی مقام انتخاب کرتے جس کے نام میں خوشی یا برکت یا کامیابی کا مفہوم ہوتا، اسی طرح جس شخص کے نام میں لڑائی جھگڑے یا نقصان کے معنی شامل ہوتے اسے کام نہ سونپتے، ایسے آدمیوں کونا مزد کرتے جن کے ناموں میں خوشی یا کامیابی کا مفہوم پایا جائے، بہت سے ناموں کو تبدیل بھی فرمایا۔

سواریوں میں گھوڑا بہت پسند تھا، فرماتے: گھوڑے کے عیال میں قیامت تک کے لئے خیروبرکت ہے، گھوڑے کی آنکھ، منہ، ناک کو اہتمام سے اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے۔ شور، ہنگامہ اور ہڑبونگ اچھی نہ لگتی، ہرکام میں سکون و وقار اور نظم وترتیب چاہتے، نماز تک کے بارے میں کہا کہ بھاگم بھاگ نہ آؤ" علیک بالسکینتہ" (تمہارے لئے سکون ووقار لازم ہے)، یوم عرفہ کو ہجوم تھا، بڑا شور وہنگامہ تھا، لوگوں کو اپنے تازیانہ سے اشارہ کرتے ہوئے نظم وسکون کا حکم دیا اورفرمایا:
" فان البر لیس بالایضاع" (جلدی مچانے کا نام نیکی نہیں) (نقوش لاہور، رسول نمبر)

کدو:

حضور اکرم ﷺ کو سبزیوں میں کدو بہت پسند تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ آپ ﷺ کو ایک دعوت میں جو کی روٹی اور کدو گوشت کا شوربہ پیش کیا گیا، میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ پیالے کے کناروں سے کدو تلاش فرما کر تناول فرما رہے تھے، میں اس روز کے بعد ہمیشہ کدو کو پسند کرنے لگا۔

جو کی روٹی:

سرور کونین حضرت محمد ﷺ جو کی روٹی کو بہت پسند فرماتے تھے۔ حضور ﷺ نے اپنی ساری زندگی میں کبھی بھی میدہ کی روٹی تناول نہیں فرمائی، ابو داﺅد میں حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے جو کی روٹی کا ٹکڑا لیا اور اس پر کھجور رکھی اور فرمایا کہ یہ اس کا سالن ہے اور تناول فرما لیا۔

روغن زیتون:

تاجدار انبیاء ﷺ نے روغن زیتون کو بڑا پسند فرمایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زیتون کا تیل کھاﺅ اور مالش میں استعمال کرو، اس لئے کہ وہ مبارک درخت سے پیدا ہوتا ہے۔

سرکہ:

ہمارے پیارے نبی ﷺ کو سرکہ بھی بہت پسند تھا، آپ ﷺ نے نہ صرف سرکہ کو تناول فرمایا بلکہ اس کی تعریف بھی فرمائی۔ حدیث میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سرکہ بھی کیسا بہترین سالن ہے۔


آپ ﷺ کے چند متفرق ذوقیات: کسی سے چیز لیتے تو سیدھے ہاتھ سے لیتے اور کوئی چیز دیتے تو سیدھے ہاتھ سے دیتے، خطوط لکھواتے تو سب سے پہلے ...