سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ میل جول کی زندگی




میل جول کی زندگی:

آپ ﷺ کا معمول تھا کہ راستہ میں ملنے والوں سے سلام کہتے اورسلام کہنے میں پہل کرتے، کسی کو پیغام بھجواتے تو ساتھ سلام ضرور کہلواتے، کسی کو سلام پہنچایا جاتا تو بھیجنے والے کو بھی اور لانے والے کو بھی جدا جدا سلام کہتے۔ ایک بار لڑکوں کی ٹولی کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا، عورتوں کی جماعت کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا، گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور گھر سے نکلتے ہوئے گھر کے لوگوں کو بھی سلام کہتے، احباب سے معانقہ بھی فرماتے اور مصافحہ بھی، مصافحہ سے ہاتھ اس وقت تک نہ کھینچتے جب تک دوسرا خود ہی اپنا ہاتھ الگ نہ کرتا، مجلس میں جاتے تو اس امر کو ناپسند کرتے کہ صحابہ تعظیم کے لئے کھڑے ہوں، مجلس کے کنارے ہی بیٹھ جاتے، کندھوں پر سے پھاند کر بیچ میں گھسنے سے احتراز فرماتے، فرمایا: " اجلس کما یجلس العبد" (اسی طرح اٹھتا بیٹھتا ہوں جس طرح خدا کا بندہ اٹھتا بیٹھتا ہے۔) (روایت عائشہؓ)

اپنے زانو ساتھیوں سے بڑھا کر نہ بیٹھتے، کوئی آتا تو اعزاز کے لئے اپنی چادر بچھاتے، آنے والا جب تک خود نہ اٹھتا آپ مجلس سے الگ نہ ہوتے، کسی کی ملاقات کو جاتے تو دروازہ کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوکر اطلاع دینے اور اجازت لینے کے لئے تین مرتبہ سلام کہتے، جواب نہ ملتا تو بغیر کسی احساس تکدر کے واپس آجاتے، رات کو کسی سے ملنے جاتے تو اتنی آواز میں سلام کہتے کہ اگر وہ جاگتا ہو تو سن لے اور سورہا ہو تو نیند میں خلل نہ آئے۔

بدسلوکی کا بدلہ برے سلوک سے نہ دیتے، بلکہ عفو ودرگزر سے کام لیتے، بیماروں کی عیادت کو پابندی سے جاتے، سرہانے بیٹھ کر پوچھتے، کیف تجدک (تمہاری طبیعت کیسی ہے؟) جس کسی شخص کی وفات ہوجاتی تو تشریف لے جاتے، میت کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار فرماتے، صبر کی نصیحت کرتے اور چلانے اور آہ وبکا کرنے سے روکتے، تجہیز وتکفین میں جلدی کراتے، جنازہ اٹھتا تو ساتھ ساتھ چلتے، تلقین فرماتے کہ میت کے گھر والوں کے لئے لوگ پکواکر بھجوائیں۔

کوئی مسافر سفر سے واپس آتا اور حاضری دیتا تو اسے معانقہ کرتے، بعض اوقات پیشانی چوم لیتے، کسی کو سفر کے لئے رخصت فرماتے تو کہتے کہ بھائی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا، بچوں سے بہت دلچسپی تھی، بچوں کے سرپر ہاتھ پھیرتے، پیار کرتے، دعا فرماتے، ننھے بچے لائے جاتے تو ان کو گود میں لیتے، ان کو بہلانے کے لئے عجیب کلمے فرماتے۔

بوڑھوں کا احترام فرماتے، فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ صدیق اپنے ضعیف العمر والد کو (جو بینائی سے بھی محروم ہوچکے تھے) بیعت اسلام کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں لائے، فرمایا: انہیں کیوں تکلیف دی میں خود ان کے پاس چلا جاتا۔

مروت کی انتہاء یہ تھی کہ مدینہ کی ایک عورت جس کی عقل میں کچھ فتور تھا آتی ہے اور کہتی ہے کہ مجھے کچھ کہنا ہے، آپ ﷺ اسے فرماتے ہیں کہ تم چلو، کسی کوچہ میں انتظار کرو، میں ابھی آتا ہوں، چنانچہ اس کی بات جاکر سنی اور اس کا کام کرکے دیا، میل جول کی زندگی میں آپ کے حسن کردار کی تصویر حضرت انسؓ نے خوب کھینچی ہے، وہ فرماتے ہیں:

" میں دس برس تک حضور ﷺ کی خدمت میں رہا اور آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہ کہی، کوئی کام جیسا بھی کیا نہیں کہا کہ یہ کیوں کیا اور کوئی کام نہ کیا تو نہیں کہا کہ کیوں نہیں کیا، یہی معاملہ آپ کے خادموں اور کنیزوں کے ساتھ رہا، آپ ﷺ نے ان میں سے کسی کو نہیں مارا



*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں