سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کے عظیم اخلاق وکردار



سیرت النبی ﷺ

آپ ﷺ کے عظیم اخلاق وکردار:


عام طور پر دنیا کے دوسرے معلّمینِ اخلاق کے ساتھ یہ المیہ رہا ہے کہ وہ جن اخلاقی اصولوں کی تبلیغ کرتے ہیں اور جن ملکوتی صفات کو جذب کرنے پر زور دیتے ہیں، خود ان کی اپنی زندگی میں ان تعلیمات کا اثر بہت کم ہوتا ہے، مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں آپ کو کہیں بھی یہ نقص نظر نہیں آئے گا، جو شخص سیرت و کردار پاک کی جتنی زیادہ گہرائی میں جائے گا وہ اسی قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند اخلاق اور پاکیزہ کردار کا مدح سرا نظر آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سب سے بڑا اصول یہ تھا کہ نیکی کا کوئی کام اور ثواب کا کوئی عمل ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اس پر عمل کرتے تھے، آپ جب کسی بات کا حکم دیتے تو پہلے آپ اس کو کرنے والے ہوتے۔

حضرت انس بن مالک رضي الله تعالىٰ عنه رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی صحابی اور وفادار خادم تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا اور آپ کی سیرتِ مبارکہ کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کیا تھا، ان کا بیان ہے کہ میں نے پورے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا اور میرے کسی کام پر یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔؟ بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ محاسن اخلاق کے حامل تھے۔

حضرت انس رضي الله تعالىٰ عنه سے زیادہ قریب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار اور اخلاق واعمال کے مشاہدے کا موقع ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالىٰ عنها کو میسر آیا تھا، کیوں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقۂ حیات تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ظاہری اور خانگی معمولات و عادات سے واقف تھیں۔

ایک مرتبہ چند صحابی رضي الله تعالىٰ عنه حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالىٰ عنها کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے امّ المومنین! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور معمولات بیان فرمائیے! تو عائشہ صدیقہ نے جواب دیا کہ کیا تم لوگوں نے قرآن نہیں پڑھا؟

کان خُلُق رسول القرآن
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا۔“ (ابوداؤد شریف)

یعنی قرآنی تعلیمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار میں رچی اور بسی ہوئی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ذرا بھی منحرف نہ تھے، خود قرآن کریم میں آپ کے بلند اخلاق و کردار کی شہادت دی گئی ہے کہ:

بیشک آپ ﷺ اخلاق کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں“ (سورہ القلم آیت:۴)

رشتہ داروں میں حضرت علی رضي الله تعالىٰ عنه جو بچپن سے جوانی تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے تھے، وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طبیعت کے نرم اور اخلاق کے نیک تھے، طبیعت میں مہربانی تھی، سخت مزاج نہ تھے، کسی کی دل شکنی نہ کرتے تھے، بلکہ دلوں پر مرہم رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رؤف ورحیم تھے۔ (شمائل ترمذی)

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دنیائے بشریت کے لئے اسوۂ حسنہ اور الٰہی فیوض و ہدایات و احکام کا ایسا مفید وگہرا چشمہ ہے جو کبھی خشک ہونے والا نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نور خداوندی کا ایسا مرکز ہے جہاں تاریکی کا گزر نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پاکیزہ زندگی کے تمام پہلوؤں کی مثالیں اور نمونے موجود ہیں، امن وآشتی کی جھلکیاں ہوں تو صلح ومصالحت کی بھی، دفاعی حکمت عملی کی بھی اور معتدل حالات میں پرسکون کیفیات کی بھی، اپنوں کے واسطہ کی بھی اور بے گانوں سے تعلقات کی بھی، معاشرت و معاملات کی بھی اور ریاضت و عبادات کی بھی، عفوو کرم کی بھی اور جود وسخا کی بھی، تبلیغ و تقریر کی بھی اور زجر وتحدید کی بھی، ان جھلکیوں میں جاں نثاروں کے حلقے بھی ہیں اور سازشوں کے نرغے بھی، امیدیں بھی ہیں اور اندیشے بھی، گویا انسانی زندگی کے گوشوں پر محیط ایک ایسی کامل اور جامع حیات طیبہ ہے جو رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لئے رہبر و رہنما ہے۔

تحریر : مولانا شیر محمد امینی


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی ﷺ آپ ﷺ کے عظیم اخلاق وکردار: عام طور پر دنیا کے دوسرے معلّمینِ اخلاق کے ساتھ یہ المیہ رہا ہے کہ وہ جن اخلاقی اصولوں کی تبلی...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کے مکارمِ اخلاق ۔ حدیثِ قدسی




سیرت النی ﷺ

آپ ﷺ کے مکارمِ اخلاق ۔ حدیثِ قدسی:


حضرت عطاء ؓ سے ایک ایسی حدیث مروی ہے جس میں آپ ﷺ کے تقریباً تمام اخلاق کریمہ کو بیان کیا گیا ہے اور اس میں آپ ﷺ کے کچھ ایسے اعلیٰ اخلاق کا ذکر ہے، جو قرآن کریم میں بھی مذکور ہیں، چنانچہ حدیث قدسی میں ہے:

۱: یاأیّھا النبیّ اِنّا أرسلنٰک شاھداً و مبشرا ً وّنذیراً وّحرز اً اللأمّییّن:

ترجمہ:

اے نبیﷺ! بے شک ہم نے آپ کو گواہ بنا کر بھیجا ہے ماننے والوں کو بشارت دینے والا اورنہ ماننے والے کو عذاب سے ڈرانے والا اور امّیوں کے پناہ دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔

۲: انت عبدی ورسولی:
آپ میرے خاص بندے اور رسول ہیں۔

۳: سمّیتک المتوکّل:
میں نے آپ کا نام متوکل رکھ دیا، کیونکہ آپ مجھ پر توکل کرتے ہیں۔

۴: لیس بفظ وّ لا غلیظ:
نہ آپ درشت خو ہیں اور نہ سخت دل ہیں۔

۵: ولا سخّاب فی الأسواق:
نہ بازاروں میں شور وشغب کرنے والے ہیں۔

۶: ولایدفع السیّئۃ با لسیّئۃ
برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہیں دیتے۔

۷: ولٰکن یّعفو ویغفر
بلکہ معاف فرماتے اور درگزر کرتے ہیں۔
گویا آپ ﷺ قرآنی حکم (اِدفع بالّتی ھی أحسن ) کہ برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ دیا کرو کا عملی نمونہ ہیں۔

۸: ولا یقبضہ اللہ حتّی ٰ یقیم بہ الملّۃ العوجاء
اللہ آپ کو اس وقت تک موت نہیں دے گا جب تک گمراہ قوم کو آپ کے ذریعے سیدھے راستے پر نہ لے آئے، 
یعنی جب تک یہ لو گ کلمہ لا اِلہ اِلاّ اللہ محمد رسول اللہ پڑھ کر سیدھے مسلمان نہ ہو جائیں ۔

۹: ویفتح بہ أعیناً عمیا:
آپ کو اس وقت تک وفا ت نہیں دے گا جب تک کافروں کی اندھی آنکھوں کو بینا نہ کر دے۔

۱۰: واٰذاناً صماً وقلوبا ً غُلفاً:
اور بہرے کان اور پردے پڑے ہوئے دلوں کو کھول نہ دے۔

اور بعض روایات میں مزید درج ذیل صفات بیان ہوئی ہیں:

۱۱: اُسدِّدُہ بکل ّ جمیل:
ہر اچھی خصلت سے آپ کی درستی کرتا رہوں گا۔

۱۲:واَھبُ لہ کلَّ خلق کریم:
ہر اچھی خصلت آپ کو عطا کرتا رہوں گا۔

۱۳:واَجعلُ السّکینۃ َ لباسہ وشعارہ:
میں اطمینان کو آپ کا لباس اور شعار ( بدن پر جیسے کپڑے چمٹے ہوتے ہیں ) بنا دوں گا ۔

۴:والتقویٰ ضمیرہ:
پرہیز گاری کو آپ کا ضمیر یعنی دل بنا دوں گا ۔

۱۵: والحکمۃ معقولہ:
حکمت کو آپ کی سوچی سمجھی بات بنا دوں گا۔

۱۶: والصدق والوفاء َطبیعتہ:
سچائی اور وفاداری کو آپ کی طبیعت بنا دوں گا۔

۱۷: والعفوَ والمعروفَ خُلقہ:
معافی اور نیکی کو آپ کی عادت بنا دوں گا۔

۱۸: والعدلَ سیرتہ والحق َ شریعتہ والھدیٰ اِمامہ والاِسلام ملّتہ:
انصاف کو آپ کی سیرت، حق کو آپ کی شریعت، ہدایت کو آپ کا امام اور دین اسلام کو آپ کی ملّت کا درجہ دوں گا۔

۱۹: اَحمد اِ سمہ:
آپ کا نام نامی (لقب) احمد ہے ۔

۲۰: اُھدی بہ بعد الضلالۃ:
آپ ہی کے ذریعے میں لوگوں کو گمراہی کے بعد سیدھا راستہ دکھاؤں گا ۔

۲۱: واُعلمُ بہ بعد الجھالۃ:
جہالت کے بعد آپ ہی کےذریعے میں لوگوں کو علم وعرفان عطا کروں گا۔

۲۲: واَرفعُ بہ الخُمالۃ َ:
آپ ہی کے ذریعے میں مخلوق کو پستی سے نکال کر بام عروج تک پہنچاؤں گا۔

۲۳: واُسمیٰ بہ بعد النّکرۃ:
آپ کی بدولت اپنی مخلوق کو حق سے جاہل ہونے کے بعد بلندی عطا کروں گا۔

۲۴: واُکثرُ بہ بعد القلّۃ:
آپ کی ہدایت کی بدولت آپ کے متبعین کی کم تعداد کو بڑھا دوں گا۔

۲۵: واُغنیَ بہ بعد العیلۃ:
لوگوں کو فقر وفاقہ میں مبتلا ہونے کے بعد آپ کے ذریعے ان کی حالت کو غنا میں تبدیل کر دوں گا۔

۲۶: واُلّف بہ بین قلوب مختلفۃ وّاَھواء مشتّتۃ واُمم متفرقۃ:
اختلاف رکھنے والے دلوں، پراگندہ خواہشات اور متفرق قوموں میں، میں آپ ہی کے ذریعے الفت پیدا کروں گا۔

۲۷: واَجعلُ اُمّتہ خیراً اُمۃ اُخرجت للنّاس:
میں آپ کی امت کو بہترین امت قرار دوں گا جو انسانوں کی ہدایت کے لیے پیدا کی گئی ہے۔

وصلّی اللہ علیہ وسلم وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اَ جمعین۔

(مدارج النبوہ بحوالہ أسوہ رسول اکرم، ڈاکٹر عبد الحییّ عارفی ، ص ۴۹ تا ۵۱)

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النی ﷺ آپ ﷺ کے مکارمِ اخلاق ۔ حدیثِ قدسی: حضرت عطاء ؓ سے ایک ایسی حدیث مروی ہے جس میں آپ ﷺ کے تقریباً تمام اخلاق کریمہ کو بیان ک...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کا مقامِ عبدیت




سیرت النبیﷺ


آپ ﷺ کا مقامِ عبدیت


حضرت فضل ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ کو بخار چڑھ رہا ہے، اور سر مبارک پر پٹی باندھ رکھی ہے، حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا: میرا ہاتھ پکڑ لو، میں نے ہاتھ پکڑا، حضور ﷺ مسجد تشریف لے گئے اور منبر پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو آواز دے دو اور سب کو جمع کرو، میں نے لوگوں کو جمع کیا، حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی اور اس کے بعد یہ مضمون ارشاد فرمایا:

" میرا تم لوگوں کے پاس سے چلے جانے کا وقت قریب آ گیا ہے، اس لئے جس کی کمر پہ میں نے مارا ہو میری کمر حاضر ہے وہ اپنا بدلہ لے سکتا ہے اور جس کی آبرو پر میں نے حملہ کیا ہو وہ بھی اپنا بدلہ لے سکتا ہے، جس کا کوئی مالی مطالبہ مجھ پر ہے تو وہ بھی اپنا مطالبہ سامنے لائے، کوئی شخص یہ شک نہ کرے کہ اس کے بدلہ لینے سے میرے دل میں بغض پیدا ہو گا، کیونکہ بغض رکھنا نہ میری طبیعت میں ہے اور نہ ہی میرے لئے موزوں ہے، خوب سمجھ لو! مجھے وہ شخص بہت زیادہ محبوب ہے جو اپنا حق مجھ سے وصول کرے یا معاف کر دے، کہ میں بشاشت قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے جاؤں اور میں اس اعلان کو ایک دفعہ کہہ دینے پر اکتفاء نہیں کرتا، دوبارہ بھی اعلان کروں گا، چنانچہ آپ ﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے اور ظہر کی نماز ادا فرمائی، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور وہی اعلان دوبارہ کیا اور بغض سے متعلق مضمون دوبارہ ارشاد فرمایا اور یہ فرمایا کہ جس کے ذمے کوئی حق ہےتو وہ بھی ادا کرے اور دنیا کی رسوائی کا خیال نہ کرے، کیونکہ دنیا کی رسوائی آخرت کی رسوائی سے بہت کم ہے۔

ایک صاحب کھڑے ہو ئے اور عرض کیا کہ میرے تین درہم آپ کے ذمے ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا: میں نہ کسی مطالبہ کرنے والے کی تکذیب کرتا ہوں اور نہ اس کو قسم دیتا ہوں، لیکن پوچھنا چاہتا ہوں یہ تین درہم کیسے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: ایک مرتبہ آپ کے پا س ایک سائل آیا تھا تو آ پ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اس کو تین درہم دے دو، حضور ﷺ نے حضرت فضل ؓ سے فرمایا اس کو تین درہم دے دو، اس کے بعد ایک اور شخص کھڑا ہوا، اس نے کہا: میرے ذمے بیت المال کے تین درہم ہیں، میں نے خیانت سے لے لئے تھے، حضور ﷺ نے اس سے پوچھا: خیانت کیوں کی تھی؟ عرض کیا میں اس وقت بہت محتاج تھا، حضور ﷺ نے حضرت فضل سے فرمایا اس سے لے لو، اس کے بعد حضور ﷺ نے اعلان فرمایا جس کسی کو اپنی کسی حالت کا اندیشہ ہو وہ بھی دعا کرا لے، ایک صاحب اٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جھوٹا ہوں منافق ہوں اور بہت سونے کا مریض ہوں، حضور ﷺ نے دعا فرمائی، یا اللہ اس کو سچائی عطا فرما، ایمان کامل عطا فرما اور نیند کی زیادتی کے مرض سے اس کو چھٹکارا عطا فرما، اس کے بعد ایک اور شخص کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جھوٹا ہوں منافق ہوں، کوئی گناہ ایسا نہیں جو میں نے نہ کیا ہو، حضرت عمر ؓ نےاس کو تنبیہ فرمائی کہ اپنے گنا ہوں کو پھیلاتے ہو، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا عمر! چپ رہو دنیا کی رسوائی آخرت کی رسوائی سے کم ہے، اس کے بعد حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، یا اللہ اس کو سچائی اور کامل ایمان نصیب فرما اور اس کے احوال کو بہتر فرما۔ ایک اور صاحب کھڑے ہوئے اور کہا: یا رسول اللہ! میں بہت بزدل ہوں اور سونے کا مریض ہوں، حضور ﷺ نے اس کے لئے بھی دعا فرمائی، حضرت فضل کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم دیکھتے تھے اس شخص سے زیادہ بہادر کوئی نہیں تھا۔

پھر حضور ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے مکان پر تشریف لائے اور اسی طرح عورتوں کے مجمع میں بھی اعلان فرمایا اور جو جو ارشادات مردوں کے مجمع میں فرمائے تھے یہاں بھی اسی طرح ان کا اعادہ فرمایا، ایک صحابیہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی زبان سے عاجز ہوں، حضور ﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی، پھر حضور ﷺ نے اعلان فرمایا: جس کسی کو اپنی کسی حالت کا اندیشہ ہو وہ بھی دعا کرا لے، چنانچہ لوگوں نے اپنے متعلق مختلف دعائیں کرائیں۔ ( خصائل نبوی ، بحوالہ أسوۂ ر سول أکرم: ص۷۷)



*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبیﷺ آپ ﷺ کا مقامِ عبدیت حضرت فضل ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ کو بخار چڑھ رہا ہے، ا...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کا رحم اور رقت قلبی




آپ ﷺ کا رحم اور رقت قلبی:

آپ ﷺ کی رقتِ قلبی:

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی ایک نواسی قریب الوفات تھیں، حضور ﷺ نے اس کو گود میں اٹھالیا اور اپنے سامنے رکھ لیا اور اسی حالت میں اس کی روح پرواز کر گئی، ام ایمن (جو حضور ﷺ کی ایک کنیز تھی) چلاّ کر رونے لگی، حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نبی کے سامنے بھی رونے شروع کر دیا؟ ( چونکہ آپ کے آنسو بھی ٹپک رہے تھے ) انہوں نے عرض کیا حضور بھی تو رو رہے ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ رونا ممنوع نہیں ہے، یہ اللہ کی رحمت ہے، پھر فرمایا کہ مؤمن ہر حال میں خیر ہی میں رہتا ہے، حتٰی کہ خود اس کی روح نکال لی جاتی ہے اور وہ اللہ تعالٰی کی حمد کرتا ہے۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص: ۷۳)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ نے عثمان بن مظعون ؓ کی پیشانی کو ان کی وفات کے بعد بوسہ دیا، اس وقت آپ ﷺ کے آنسو ٹپک رہے تھے۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص: ۷۳)

حضرت عبد اللہ بن شخیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضو ر ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسی ہنڈیا کی آواز ہوتی ہے۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص:۷۴)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک مرتبہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید کی تلاوت سناؤ، میں نے عرض کیا کہ حضور (ﷺ) قرآن آپ پر ہی نازل ہوا ہے اور آپ ہی کو سناؤں، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرا دل چاہتا ہے کہ کسی دوسرے سے سنوں، میں نے امتثال امر میں پڑھنا شروع کیا اور جب سورہ نساء کی اس آیت پر پہنچا:

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (سورۃ النساء41 : رکوع : ۶ پارہ : ۵)

ترجمہ:

'' سو اس وقت کیا حال ہو گا جبکہ ہر ہر امت میں سے ایک ایک گواہ کو حاضر کریں گے اور آپ کو ان لوگوں پر ( جو آپ سے سابق ہیں ) گواہی دینے کے لئے حاضر کیا جائے گا۔''

عبد اللہ ؓ فرماتے ہیں: میں نے حضور ﷺ کے پرنور چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو آپ ﷺ کی دونوں آنکھیں بہہ رہی تھی۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص ۷۴)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ اپنی صاحبزادی ( ام کلثوم ) کی قبر پہ تشریف فرما تھے اور آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص ۷۴)

آپ ﷺ کا رحم وترحّم:

ایک دفعہ ایک صحابی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے ہاتھ میں کسی پرندے کے بچے تھے اور وہ آوازیں نکال رہے تھے، حضور ﷺ نے پوچھا یہ بچے کیسے ہیں؟ صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں ایک جھاڑی کے پاس سے گزرا تو ان کی آوازیں آرہی تھیں، میں نے ان کو نکال لیا، ان کی ماں نے دیکھا تو بے تاب ہو کر میرے سرپہ چکر کاٹنے لگی، حضور ﷺ نے فرمایا: فوراً جاؤ اور ان بچوں کو وہیں رکھ آؤ جہاں سے اٹھائے تھے۔( مشکوۃ : بحوالہ أبو داؤد باب الرحمۃ والشفقہ علی الخلق : )

ایک دفعہ حضور ﷺ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اونٹ بھوک سے بلبلا رہا تھا، آپﷺ نے شفقت سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور اس کے مالک کو بلا کر فرمایا : اس جانور کے بارے میں تم خدا سے نہیں ڈرتے ؟ (أبو داؤد باب الرحمۃ والشفقہ علی الخلق)

ایک دفعہ حضرت أبو مسعود انصاری ؓ اپنے غلام کو پیٹ رہے تھے، اتفاق سے رسول اکرم ﷺ اس موقع پر تشریف لائے، آپ ﷺ نے رنجیدہ ہو کر فرمایا: " أبو مسعود! اس غلام پر تمہیں جس قدر اختیار ہے اللہ تعالیٰ کو تم پر اس سے زیادہ اختیار ہے۔" حضرت أبو مسعود ؓ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک سن کر تھرّا اٹھے اور عرض کیا: " یا رسول اللہ! میں اس غلام کو اللہ کی راہ میں آزاد کرتا ہوں۔ " حضور ﷺ نے فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرتے تو دوزخ کی آگ تمہیں چھو لیتی۔ ( أبو داؤد :۴/۵۰۴ ،کتا ب الأدب ، باب حق المملوک،ح:۵۱۶۱ )



*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

آپ ﷺ کا رحم اور رقت قلبی: آپ ﷺ کی رقتِ قلبی: حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی ایک نواسی قریب الوفات تھیں، حضور ﷺ نے اس کو ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کا زہد وتقویٰ




آپ ﷺ کا زہد وتقویٰ:

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالٰی سے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں دنیا سے اٹھا اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما۔ ( جامع الترمذی)

ایک صحابی سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کے اہل مجلس ایک مرتبہ دولت مندی اور دنیاوی خوش حالی کا کچھ تذکرہ کرنے لگے۔ ( یہ چیز اچھی ہے یا بری اور دین اور آخرت کے لئے مضر ہے یا مفید ) تو آپ ﷺ نے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ سے ڈرے (اور اس کے حکام کی پابندی کرے ) تو اس کے لئے مالداری میں کوئی مضائقہ نہیں اور کوئی حرج نہیں اور صحت مندی صاحب تقویٰ کے لئے دولت مندی سے بھی بہتر ہے اور خوش دلی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہے۔ ( جس پر شکر واجب ہے )۔ (معارف الحدیث)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عروہؓ سے فرمایا: میرے بھانجے! ہم ( اہل بیت اس طرح گزارا کرتے تھے ) کہ کبھی کبھی لگاتار تین تین چاند دیکھ لیتے تھے ( یعنی کامل دو مہینے گزر جاتے تھے ) اور حضور ﷺ کے گھروں میں چولہا نہ جلتا تھا (عروہؓ کہتے ہیں ) میں نے عرض کیا پھر آپ کو کونسی چیز زندہ رکھتی تھی؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا بس کھجور کے دانے اور پانی، البتہ حضور ﷺ کے بعض انصاری پڑوسی تھے، ان کے ہاں دودھ دینے والے جانور تھے وہ آپ ﷺ کے لئے دودھ بطور ہدیہ بھیج دیا کرتے تھے، اس میں سے آپ ﷺ ہمیں بھی دیتے تھے۔ (متفق علیہ: بخاری )

عبد اللہ بن شخیر سے روایت ہے کہ آپ ﷺ برابر مغموم رہتے تھے، کسی وقت آپ کو چین نہیں آتا تھا ( یہ کیفیت فکر آخرت کی وجہ سے تھی ) اور دن میں ستّر یا سوبار استغفار فرماتے تھے، یہ یا تو امت کی تعلیم کے لئے تھا یا خود امت کے لئے مغفرت طلب کرنا مقصود تھا، یا پھر اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ دریائے قرب وعرفان میں مستغرق رہتے تھے اور آناً فاناً اس میں ترقی ہوتی رہتی تھی۔ (نشر الطیب؛ اشرف علی تھانوی ص ۶۷ : مکتبہ لدھیانوی )

آپ نے زہد و قناعت کی تعلیم دی تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ فتوحات کی وجہ سے جزیہ، زکوٰۃ، عشر اور صدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے، مگر آپ کے گھر میں وہی فقر و فاقہ تھا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رحلت فرما گئے مگر آپ کو دو وقت بھی سیر ہو کر کھانا نصیب نہ ہوا، آپ کی رہائش ایک کمرہ تھی جس کی دیوار کچی اور چھت کھجور کے پتوں اور اونٹ کے بالوں سے بنی تھی، آپ کا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جو بدنِ مبار ک پر کپڑا ہوتا تھا، اس کے سوا کوئی اور کپڑا ہی نہیں تھا جو تہہ کیا جاتا۔


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

آپ ﷺ کا زہد وتقویٰ: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالٰی سے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کی نرمی وشفقت، ایثار وتحمل




آپ ﷺ کی نرمی وشفقت، ایثار وتحمل:

آپ ﷺ کی نرمی وشفقت:

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بڑے خوش اخلاق تھے، ایک روز مجھے کسی ضرورت کے لئے بھیجا، میں نےکہا خدا کی قسم نہیں جاؤں گا اور میرے دل میں تھا کہ جو حکم رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے اس کے لئے ضرور جاؤں گا۔ (حضرت انس ؓ اس وقت بچے تھے اور حضور ﷺ کی خدمت میں ہی رہا کرتے تھے) پھر میں نکلا اور میرا گزر کچھ بچوں پر ہوا جو بازار میں کھیل رہے تھے، ( میں وہاں رکا ہوا تھا) اتنے میں رسول اللہ ﷺ نے اچانک میرے سر کے بال پیچھے سے پکڑے، جب میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو حضور ﷺ کو ہنستا ہوا پایا، حضور ﷺ نے فرمایا: انس تم وہاں گئے تھے جہاں میں نے تم کو بھیجا تھا؟ میں نےکہا: جاؤں گا یارسول اللہ! ( مشکوۃ : بحوالہ أسوہ رسول اکرم : ص:۶۸)

حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ میں نے حضور ﷺ کی خدمت اس وقت سے کی ہے جب میں آٹھ برس کا تھا، میں نے آپ ﷺ کی خدمت دس برس تک کی، آپ نے کبھی بھی مجھے کسی بات پر ملامت نہیں کیا، اگر اہل بیت میں سے کسی نے ملامت کیا بھی تو آپ ﷺنے فرمایا اس کو چھوڑ دو اگر تقدیر میں کوئی بات ہوتی ہے تو وہ ہوکر رہتی ہے۔ ( مشکوۃ: بحوالہ أسوۂ رسول اکرم : ص: ۶۸)

آپ ﷺ کا ایثار و تحمل:

ایک روایت میں ہے کہ زید بن شعنہ پہلے یہودی تھے، ایک مرتبہ کہنے لگے کہ نبوت کی نشانیوں میں سے کوئی ایسی نہیں رہی جس کو میں نے حضور ﷺ میں نہ دیکھ لیا ہو، سوائے دو علامات کے جس کے تجربے کی ابھی تک نوبت نہیں آئی تھی، ایک یہ کہ آپ ﷺ کا حلم آپ ﷺ کے غصے پر غا لب ہوگا، دوسرا یہ کہ آپ ﷺ کے ساتھ کوئی جتنا بھی جہالت کا برتاؤ کرے گا آپﷺ کا تحمل اسی قدر زیادہ ہو گا، میں ان دونوں کے امتحان کا موقع تلاش کرتا رہا اور آمد ورفت بڑھاتا رہا، ایک دن آپ ﷺ حجرے سے باہر تشریف لائے، حضرت علی ؓ آپ کے ساتھ تھے، ایک بدوی شخص آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میری قوم مسلمان ہوچکی ہے اور میں نے ان سے مسلمان ہو جانے کے بعد رزق کی فراوانی کا وعدہ کیا تھا، جبکہ ابھی قحط کی حا لت ہے، مجھے ڈر ہے کہیں وہ اسلام سے نہ پھر جائیں اگر ان کی کچھ اعانت کردی جائے؟ حضور ﷺ نے غالباً حضرت علی ؓ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، انہوں نے عرض کیا حضور ﷺ اس وقت تو کچھ موجود نہیں، زید (جو اس وقت تک یہودی تھے اس منظر کو دیکھ رہے تھے) کہنے لگے: محمد (ﷺ) اگر آپ فلاں شخص کے باغ کی اتنی کھجوریں وقت معّین پر مجھے دے دیں تو میں پیشگی قیمت ادا کر دیتا ہوں اور وقت معیّن پر کھجور لے لوں گا، حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا، البتہ اگر باغ کی تعیین نہ کرو تو میں معاملہ کر سکتا ہوں، میں نے اسے قبول کرلیا اور اس کے بدلے کھجوروں کی قیمت اسّی مثقال سونا دے دیا، آپ ﷺ نے وہ سونا اس بدوی کے حوالے کر دیا اور اس سے کہا کہ انصاف کی رعایت رکھنا اور اس سے ان کی ضرورت پوری کرنا۔

زید کہتے ہیں جب کھجوروں کی ادائیگی میں دو تین دن باقی رہ گئے تھے، حضور ﷺ صحابہ کرام ؓ کی جماعت کے ساتھ جن میں حضرت ابو بکرؓ، عمر ؓ، عثمانؓ بھی تھے، کسی جنازے کی نماز سے فارغ ہوکر ایک دیوار کے قریب تشریف فرما تھے، میں آیا اور آپ کے کرتے اور پلّو کو پکڑ کر نہایت ترش روئی سے کہا: اے محمد! آپ میرا قرض ادا نہیں کرتے، خدا کی قسم میں تم سب اولاد عبد المطلب کو اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ بڑے نا دہندہ ہو، حضرت عمر ؓ نے غصہ سے مجھے گھُورا اور کہا: اے خدا کے دشمن! یہ کیا بک رہا ہے؟ خدا کی قسم اگر مجھے حضور ﷺ کا ڈر نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا، لیکن حضور ﷺ نہایت سکون سے مجھے دیکھ رہے تھے اور تبسّم کے لہجے میں حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ عمر! میں اور یہ ایک اور چیز کے زیادہ محتاج تھے، وہ یہ کہ مجھے حق ادا کرنے میں خوبی برتنے کو کہتے اور اس کو مطالبہ کرنے میں بہتر طریقے کی نصیحت کرتے، جاؤ اس کو لے جاؤ اور اس کا حق ادا کر دو اور جو تم نے اسے ڈانٹا ہے اس کے بدلے میں اس کو بیس صاع ( تقریباًٍ دو من کھجوریں ) زیادہ دینا، حضرت عمر مجھے لے گئے اور پورا مطالبہ اور بیس صاع کھجوریں زیادہ دیں، میں نے پوچھا کہ یہ بیس صاع کیسے؟ حضرت عمر ؓ نے کہا حضور ﷺ کا یہی حکم ہے، زید نے کہا عمر! تم مجھے پہچانتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ میں زید بن شعنہ ہوں، انہوں نے کہا جو یہود کا بڑا علامہ ہے؟ میں نے کہا ہاں وہی ہوں، انہوں نے کہا اتنا بڑا آدمی ہو کر حضور ﷺ سے تم نے یہ کیسا سلوک کیا؟ میں نے کہا علامات نبوت میں سے دو علامتیں ایسی رہ گئی تھیں جن کے تجربے کا مجھے موقع نہیں ملا تھا، ایک یہ کہ آپ ﷺ کا حلم آپ کے غصے پر غالب ہو گا اور دوسری یہ کہ ان کے ساتھ جہالت کا برتاؤ ان کے حلم کو بڑھائے گا، اب ان دونوں کا بھی امتحان کرلیا اور اب میں آپ کو اپنے اسلام کا گواہ بناتا ہوں اور میرا آدھا مال امت محمدیہ پر صدقہ ہے، اس کے بعد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام لے آئے، اس کے بعد بہت سے غزاوات میں شریک ہوئے اور غزوۂ تبوک میں شہید ہوئے۔
( جمیع الفوائد ، خصائل نبوی :بحوالہ أسوۂ رسول اکرم : ص: ۷۰)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں حضور ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا اور حضور ﷺ کی گردن مبارک میں سخت کناروں والی نجرانی چادر تھی، ایک اعرابی آیا اور اس چادر کو پکڑ کر حضور ﷺ کو کھینچنے لگا اور چادر کو سختی سے لپیٹنے لگا، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں میں نے حضور ﷺ کی گردن مبارک کی طرف دیکھا تو آپﷺ کی گردن اس سخت چادر کی وجہ سے چھیل گئی تھی، اس کے بعد اس اعرابی نے کہا: اے محمد! ( ﷺ) اللہ کے اس مال میں سے جو آپ کے پاس ہے، اس میں سے مجھے دیجئے، حضور ﷺ نے اس کی طرف دیکھ کر تبسّم فرمایا اور مجھے اس کو دینے کا حکم دیا۔ (مدارج النبوۃ : بحوالہ اسوۂ رسول اکرم : ص:۷۱)

ایک دفعہ مکہ میں قحط پڑا ۔۔۔ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے پر مجبور ہوئے، ابو سفیان جو ان دنوں حضور ﷺ کے سخت ترین دشمن تھے، آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا: " محمد (ﷺ) تم لوگوں کو صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہو، تمہاری قوم ہلاک ہورہی ہے اپنے خدا سے دعا کیوں نہیں کرتے؟" اگرچہ قریش کی ایذا رسانیاں اور شرارتیں حد سے تجاوز کر چکی تھیں، لیکن ابو سفیان کی بات سن کر حضور ﷺ نے فوراً دعا کے لئے دست مبارک اٹھا ئے، اللہ تعالٰی نے اس قدر بارش نازل فرمائی کہ جل تھل ہو گیا اور قحط دور ہو گیا۔ ( صحیح بخاری: تفسیر سور ۂ دخان: بحوالہ أسوہ رسول اکرم :ص:۷۱)


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

آپ ﷺ کی نرمی وشفقت، ایثار وتحمل: آپ ﷺ کی نرمی وشفقت: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بڑے خوش اخلاق تھے، ایک روز مجھے کسی ضر...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کی امانت، دیانت اور تواضع




آپ ﷺ کی امانت، دیانت اور تواضع:

آپ ﷺ کی دیانت وامانت:

حضور ﷺ نے دعوتِ حق کا آغاز فرمایا تو ساری قوم آپ ﷺ کی دشمن بن گئی اور آپ ﷺ کو ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، لیکن اس حالت میں بھی کوئی مشرک ایسا نہ تھا جو آپ ﷺ کی امانت و دیانت پر شک کرتا ہو، بلکہ یہ لوگ اپنا روپیہ پیسہ آپ ﷺ کے پاس ہی امانت رکھتے تھے اور مکہ میں کسی دوسرے کو آپ ﷺ سے بڑھ کر امین نہیں سمجھتے تھے، ہجرت کے موقع پر حضرت علیؓ کو پیچھے چھوڑ نے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں کی امانتیں واپس کر کے مدینہ آئیں۔ ( شمائل ترمذی: بحوالہ أسوہ رسول أکرم : ص ۶۵)

آپ ﷺ کی تواضع:

حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا :

مسلمانو! میری حد سے زیادہ تعریف نہ کرو، جس طرح عیسائیوں نے ابن مریم کی تعریف کی ہے، کیونکہ میں خدا کا بندہ ہوں، بس تم میری نسبت اتنا ہی کہہ سکتے ہو کہ محمد ( ﷺ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ (مدارج النبوۃ : بحوالہ أسوہ رسول أکرم : ص:۶۵)

حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ عصا پر ٹیک لگا ئے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم آپ ﷺ کے لئے کھڑے ہو گئے، آپﷺ نے فرمایا:

جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، اس طرح تم کھڑے نہ ہوا کرو اور فرمایا میں خدا کا بندہ ہوں اسی طرح کھاتا ہوں جس طرح بندے کھاتے ہیں اور اسی طرح بیٹھتا ہوں جس طرح بندے بیٹھتے ہیں، آپ ﷺ کا یہ فرمانا آپ ﷺ کی برد باری اور متواضعانہ عادتِ کریمہ کی وجہ سے تھا۔ ( مدارج النبوۃ: بحوالہ أسوہ رسول أکرم : ص۶۶)

ایک حدیث میں ہے کہ ایک سفر میں چند صحابہ ؓ نے ایک بکری ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور اس کا کام آپس میں تقسیم کر لیا، کسی نے بکری ذبح کرنا اپنے ذمہ لیا اور کسی نے کھال نکالنا، حضور ﷺ نے فرمایا کہ پکانے کے لیے لکڑی اکٹھی کرنا میرے ذمے ہے، صحابہ ؓ نے عرض کیا حضور ﷺ یہ کام بھی ہم خود کریں گے، آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ تم لوگ یہ کام بخوشی کرلو گے، لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ میں مجمع میں ممتاز نظر آؤں اور اللہ تعالیٰ بھی اس کو ناپسند فرماتے ہیں۔ ( خصائل نبوی: بحوالہ أسوۂ رسول أکرم :ص: ۶۶)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے: وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے ساتھ بازار گیا اور حضور ﷺ نے ایک سرابیل (پاجامہ ) چار درہم میں خریدا اور وزن کرنے والے سے آپ نے فرمایا: قیمت میں مال خوب خوب کھینچ کر تولو (یعنی وزن میں کم یا برابر نہ لو، بلکہ زیادہ لو) وہ شخص حیرت سے بولا: میں نے کبھی بھی کسی کو قیمت کی ادائیگی میں ایسا کہتے ہوئے نہیں سنا، اس پر حضرت أبو ہریرہ ؓ نے کہا: افسوس ہے تجھ پر کہ تو نے اپنے نبی کو نہیں پہچانا، پھر وہ شخص ترازو چھوڑ کر کھڑا ہو گیا اور حضور اکرم ﷺ کے دست مبارک کو بوسہ دینے لگا، آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک کھینچ لیا اور فرمایا کہ یہ عجمیوں کا دستور وطریقہ ہے کہ وہ بادشاہوں اور سربراہوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، میں تو تم ہی میں سے ایک شخص ہوں، ( یہ آپ ﷺ نے از راہ تواضع فرمایا جیسا کہ آپ کی عادت کریمہ تھی) اس کے بعد آپ نے سرابیل کو خود اٹھایا، حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ آگے بڑھ کر سرابیل آپ ﷺ کے ہاتھ سے لےلوں، مگر آپ ﷺ نے فرمایا کہ سامان کے مالک ہی کا حق ہے کہ وہ اپنا سامان خود اٹھائے سوائے اس شخص کے جو کمزور ہو اور خود نہ اٹھا سکے تو اپنے بھائی کی مدد کرنی چاہیے۔ (مدارج النبوۃ : بحوالہ أسوہ رسول اکرم : ص ۶۷ )

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ایک پرانے پالان پر حج کیا اور اس پر ایک کپڑا پڑا ہوا تھا جو چار درہم کا بھی نہ ہو گا اور حضور ﷺ یہ دعا مانگ رہے تھے: یا اللہ اس حج کو ایسا حج فرما جس میں ریا اور شہرت نہ ہو۔ (شمائل ترمذی: بحوالہ اسوہ رسول اکرم : ص۶۷)

جب مکہ فتح ہوا اور آپ ﷺ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ اس میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے اللہ کے حضور میں عاجزی اور تواضع سے سر کو اس قدر جھکادیا قریب تھا کہ آپ کا سر مبارک اس لکڑی کے اگلے حصہ کو لگ جائے۔ (کتاب الشفاء، قاضی عیاض: بحوالہ اسوہ رسول اکرم: ۶۷)

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہؓ کے نزدیک حضور ﷺ سے زیا دہ اس دنیا میں کوئی شخص محبوب نہیں تھا، اس کے باوجود پھر بھی صحابہ کرام ؓ حضور ﷺ کو دیکھ کر اس لئے کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ حضور ﷺ کو یہ بات پسند نہ تھی۔ ( شمائل ترمذی: بحوالہ اسوہ رسول اکرم : ص ۶۷)

ایک مرتبہ نجاشی بادشاہِ حبشہ کے کچھ ایلچی آئے، تو حضور ﷺ ان کی خاطر مدارات کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ان کی خدمت کا ہمیں موقع دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا: انہوں نے ہمارے صحابہ کی بڑی خدمت وتکریم کی ہے، میں پسند کرتا ہوں کہ ان کا بدلہ ادا کروں۔ ( مدارج النبوۃُ: بحوالہ أسوۂ رسول اکرم : ص : ۶۷)



ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ۔

آپ ﷺ کی امانت، دیانت اور تواضع: آپ ﷺ کی دیانت وامانت: حضور ﷺ نے دعوتِ حق کا آغاز فرمایا تو ساری قوم آپ ﷺ کی دشمن بن گئی اور آپ ﷺ ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کی قناعت، توکل اور انکساری




آپ ﷺ کی قناعت، توکل اور انکساری:

آپ ﷺ کی قناعت وتوکل:

حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضوراقدس ﷺ دوسرے دن کے لئے کسی چیز کا ذخیرہ کر کے نہیں رکھتے تھے۔ ( شمائل ترمذی)۔

یعنی جو چیز ہوتی کھلا پلا کر ختم فر ما دیتے اس خیال سے کہ کل پھر ضرورت ہو گی، اس کو محفوظ کرکے نہیں رکھتے تھے، یہ آپ ﷺ کا انتہائی درجہ کا توکل تھا کہ جس مالک نے آج دیا ہے وہ کل بھی عطا کرے گا، آپ ﷺ کا یہ عمل اپنی ذات کے لئے تھا ورنہ ازواج مطہرات کو ان کا نفقہ دے دیا جاتا تھا، وہ جس طرح چاہیں تصرف میں لا سکتی تھیں، مگر وہ بھی تو حضور ﷺ کی ازواج تھیں، کہاں جمع کر کے رکھ سکتی تھیں۔

ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس دو گونین درہموں کی نذرانہ کے طور پر پیش کی گئی جن میں ایک لاکھ درہم سے زیادہ تھے تو حضرت عائشہؓ نے ایک طباق منگوایا اور بھر بھر کر تقسیم فرمادیا اور خود روزہ سے تھیں، افطار ی زیتون کے تیل اور ایک روٹی سے کی، باندی نے عرض کیا ایک درہم کا آج اگر گوشت منگالیتیں تو ہم بھی اس سے افطار کرلیتے، ارشاد فرمایا کہ ابھی طعن کرنے سے کیا فائدہ اس وقت یاد دلا دیتی تو میں منگوا لیتی۔ (خصائل نبوی :بحوالہ اسوہ رسول اکرم : ۶۴)

حضور ﷺ نے فرمایا: ''مجھے یہ با ت پسند نہیں کہ میرے لئے اُحد پہاڑ سونا بن جائے اور پھر رات کو اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس رہے، سوائے اس دینار کے جس کو کسی مطالبہ ( قرض) کے لئے پاس رکھ لوں، چنانچہ آپ ﷺ اسی کمال سخاوت کی وجہ سے مقروض رہتے تھے یہا ں تک کہ جب آپ ﷺ کا وصال ہوا تو آپ کی زرہ اہل وعیال کے اخراجات کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔ ( نشر الطیب: اشرف علی تھانوی ص: ۱۳۷)

آپ ﷺ کی انکسار طبعی:

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ عادت کے اعتبار سے سخت گو نہ تھے اور نہ ہی بتکلف سخت گو بنتے تھے اور نہ بازاروں میں خلاف وقار باتیں کرنے والے تھے اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے اور غایت حیا کی وجہ سے آپ ﷺ کی نگاہ کسی کے چہرے پر نہیں ٹھہرتی تھی اور اگر کسی نامناسب بات کا ذکر کرنا ہی پڑتا تھا تو کنایہ میں وہ بات فرماتے۔

حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ سب سے بڑھ کر کشادہ دل تھے، بات کے سچے تھے، طبیعت کے نرم تھے، معاشرت میں نہایت کریم تھے اور جو شخص آپ کی دعوت کرتا آپ ﷺ اس کی دعوت قبول فرما لیتے اور ہدیہ بھی قبول فرما لیتے اگرچہ (وہ ہدیہ یا دعوت) گائے یا بکری کا پایہ ہی ہوتا اور ہدیہ کا بدلہ بھی دیتے تھے اور دعوت غلام کرے یا آزاد، لونڈی کرے یا کوئی غریب آدمی، سب کی قبول فرماتے تھے اور مدینہ کی آبادی کے کونے پر بھی اگر کوئی مریض ہوتا تو اس کی بھی عیادت فرماتے، معذرت کرنے والے کا عذر قبول فرماتے، اپنے اصحاب سے مصافحہ کی ابتداء فرماتے اور کبھی اپنے اصحاب میں پاؤں پھیلائے ہوئے نہیں دیکھے گئے جس کی وجہ سے اوروں کے لئے جگہ تنگ ہو جائے اور جو آپ کے پاس آتا اس کی خاطر تواضع کرتے، اور بعض اوقات اپنا کپڑا اس کے بیٹھنے کے لئے بچھا دیتے اور گدہ تکیہ خود چھوڑ کر اس کو دے دیتے اور کسی شخص کی بات درمیان میں نہ کاٹتے اور تبسم فرمانے میں اور خوش مزاجی میں سب سے بڑھ کر تھے، ہاں اگر نزول وحی یا وعظ وخطبہ کی حالت ہوتی تو اس وقت آپ ﷺ کا تبسم اور خوش مزاجی ظاہر نہ ہوتی تھی، کیونکہ ان حالتوں میں آپ ﷺ کو ایک جوش ہوتا تھا۔ ( نشر الطیب : حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ " ص: ۱۴۷ ،مکتبہ لدھیانوی)۔


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

آپ ﷺ کی قناعت، توکل اور انکساری: آپ ﷺ کی قناعت وتوکل: حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضوراقدس ﷺ دوسرے دن کے لئے کسی چیز کا ذخیرہ کر کے ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی سخاوت




رسول اللہ ﷺ کی سخاوت:

حضرت ابن عبّاس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اول تو تمام لو گوں سے زیادہ سخی تھے ( کوئی بھی آپ ﷺ کی سخاوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا کہ خود فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عطا کرنے میں بادشاہوں سے بھی زیادہ عطا کرنے والےتھے۔

ایک دفعہ نہایت سخت احتیاج کی حالت میں ایک عورت نے چادر پیش کی اور آپ ﷺ نے اسے پہن لیا، اسی وقت ایک شخص نے مانگ لی، آپ ﷺ نے اسی وقت مرحمت فرما دی۔ آپ ﷺ قرض لے کر ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا فرماتے اور قرض خواہ کے انتہائی تقاضے کے وقت کہیں سے اگر کچھ آ گیا اور قرض ادا کرنے کے بعد کچھ بچ گیا تو جب تک وہ تقسیم نہ فرما لیتے گھر تشریف نہ لے جاتے تھے اور بالخصوص رمضان میں آپ ﷺ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی، ( یعنی گیارہ مہینوں میں جتنی سخاوت فرماتے اس سے کہیں زیاد ہ رمضان المبارک میں فرماتے تھے) اور اس مہینہ میں جب بھی حضرت جبریل ؑ تشریف لاتے اور آپ ﷺ کو کلام اللہ سناتے، اس وقت آپ ﷺ بھلائی اور نفع رسانی میں تیز بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے۔ ( خصائل نبوی بحوالہ اسوہ رسول اکرم: ص:۶۲)

ترمذی کی حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ کے پاس کہیں سے نوے ہزار درہم آئے، آپ ﷺ نے ایک چادر پر ڈلوا دیئے اور وہیں بیٹھے بیٹھے تقسیم فرمائے، ختم ہونے کے بعد ایک سائل آیا تو حضور ﷺ نے اس کو فرمایا: آپ کسی سے میرے نام کا قرض لے لو، جب میرے پاس ہو گا تو واپس کردوں گا۔

حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ ﷺ سے کچھ مانگا گیا ہو اور آپ ﷺ نے فرمایا ہو کہ میں نہیں دیتا، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کل کے لئے کوئی چیز سنبھال کر نہیں رکھتے تھے، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے، خاص کر رمضان میں تو بہت ہی سخی ہو جاتے تھے۔ ( صحیح بخاری باب بد ء الوحی)

ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے فرمایا: " اے أبو ذر! مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے پاس اُحد جتنا سونا ہو اور تیسرے دن تک اس میں سے ایک اشرفی بھی باقی رہے، سوائے اس کے جو ادائے قرض کے لئے ہو، تو اے أبوذر! میں دونوں ہاتھوں سے اس مال کو اللہ کی مخلوق میں تقسیم کر کے اٹھوں گا "۔ ( صحیح بخاری کتا ب الاستقراض : ص ۳۲۱ )

ایک دن رسول خدا ﷺ کے پاس چار اشرفیاں تھیں، دو تو آپ نےخرچ کر دیں اور دو بچ گئی ان کی وجہ سے پوری رات آپ ﷺ کو نیند نہیں آئی، ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا معمولی بات ہے، صبح خرچ کر دیجئے گا، حضور ﷺ نے فرمایا: " اے حمیرا! کیا معلوم کہ میں صبح تک زندہ رہوں یا نہیں۔ " (مشکوۃ بحوالہ اسوہ رسول اکرم : ص: ۶۳ )


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

رسول اللہ ﷺ کی سخاوت: حضرت ابن عبّاس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اول تو تمام لو گوں سے زیادہ سخی تھے ( کوئی بھی آپ ﷺ کی سخاوت کا مقا...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کے چند متفرق ذوقیات




آپ ﷺ کے چند متفرق ذوقیات:

کسی سے چیز لیتے تو سیدھے ہاتھ سے لیتے اور کوئی چیز دیتے تو سیدھے ہاتھ سے دیتے، خطوط لکھواتے تو سب سے پہلے بسم اللہ لکھواتے، پھر مُرسل کا نام اور اس کے پیچھے مرسل الیہ کا نام ہوتا، اس کے بعد اصل مضمون لکھواتے، خاتمہ پر مہر لگواتے۔

حضور ﷺ اوہام پرستی سے پاک تھے اور شگون نہ لیتے تھے، البتہ اشخاص اور مقامات کے اچھے نام پسند آتے، برے نام پسند نہ کرتے، سفر میں اقامت کے لئے ایسا ہی مقام انتخاب کرتے جس کے نام میں خوشی یا برکت یا کامیابی کا مفہوم ہوتا، اسی طرح جس شخص کے نام میں لڑائی جھگڑے یا نقصان کے معنی شامل ہوتے اسے کام نہ سونپتے، ایسے آدمیوں کونا مزد کرتے جن کے ناموں میں خوشی یا کامیابی کا مفہوم پایا جائے، بہت سے ناموں کو تبدیل بھی فرمایا۔

سواریوں میں گھوڑا بہت پسند تھا، فرماتے: گھوڑے کے عیال میں قیامت تک کے لئے خیروبرکت ہے، گھوڑے کی آنکھ، منہ، ناک کو اہتمام سے اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے۔ شور، ہنگامہ اور ہڑبونگ اچھی نہ لگتی، ہرکام میں سکون و وقار اور نظم وترتیب چاہتے، نماز تک کے بارے میں کہا کہ بھاگم بھاگ نہ آؤ" علیک بالسکینتہ" (تمہارے لئے سکون ووقار لازم ہے)، یوم عرفہ کو ہجوم تھا، بڑا شور وہنگامہ تھا، لوگوں کو اپنے تازیانہ سے اشارہ کرتے ہوئے نظم وسکون کا حکم دیا اورفرمایا:
" فان البر لیس بالایضاع" (جلدی مچانے کا نام نیکی نہیں) (نقوش لاہور، رسول نمبر)

کدو:

حضور اکرم ﷺ کو سبزیوں میں کدو بہت پسند تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ آپ ﷺ کو ایک دعوت میں جو کی روٹی اور کدو گوشت کا شوربہ پیش کیا گیا، میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ پیالے کے کناروں سے کدو تلاش فرما کر تناول فرما رہے تھے، میں اس روز کے بعد ہمیشہ کدو کو پسند کرنے لگا۔

جو کی روٹی:

سرور کونین حضرت محمد ﷺ جو کی روٹی کو بہت پسند فرماتے تھے۔ حضور ﷺ نے اپنی ساری زندگی میں کبھی بھی میدہ کی روٹی تناول نہیں فرمائی، ابو داﺅد میں حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے جو کی روٹی کا ٹکڑا لیا اور اس پر کھجور رکھی اور فرمایا کہ یہ اس کا سالن ہے اور تناول فرما لیا۔

روغن زیتون:

تاجدار انبیاء ﷺ نے روغن زیتون کو بڑا پسند فرمایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زیتون کا تیل کھاﺅ اور مالش میں استعمال کرو، اس لئے کہ وہ مبارک درخت سے پیدا ہوتا ہے۔

سرکہ:

ہمارے پیارے نبی ﷺ کو سرکہ بھی بہت پسند تھا، آپ ﷺ نے نہ صرف سرکہ کو تناول فرمایا بلکہ اس کی تعریف بھی فرمائی۔ حدیث میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سرکہ بھی کیسا بہترین سالن ہے۔


آپ ﷺ کے چند متفرق ذوقیات: کسی سے چیز لیتے تو سیدھے ہاتھ سے لیتے اور کوئی چیز دیتے تو سیدھے ہاتھ سے دیتے، خطوط لکھواتے تو سب سے پہلے ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ کھانا، پینا اور نشست وبرخاست




کھانا، پینا اور نشست وبرخاست:

کھانے پینے کا ذوق بہت نفیس تھا، گوشت سے خاص رغبت تھی، زیادہ ترجیح دست، گردن اور پیٹھ کے گوشت کو دیتے، نیز پہلو کی ہڈی پسند تھی، ثرید (گوشت کے شوربہ میں روٹی کے ٹکڑے بھگو کر یہ مخصوص عربی کھانا تیار کیا جاتا تھا) تناول فرمانا مرغوب تھا، پسندیدہ چیزوں میں شہد، سرکہ، خربوزہ، ککڑی، لوکی، کھچڑی، مکھن وغیرہ اشیاء شامل تھیں، دودھ کے ساتھ کھجور (بہترین مکمل غذا بنتی ہے) کا استعمال بھی اچھا لگتا اور مکھن لگا کے کھجور کھانا بھی ذوق میں شامل تھا، کھرچن (تہ دیگی) سے بھی انس تھا، ککڑی نمک لگا کر اور خربوزہ شکر لگا کر بھی کھاتے، مریضوں کی پرہیزی غذا کے طور پر حریرا کو اچھا سمجھتے اور تجویز بھی فرماتے، میٹھا پکوان بھی مرغوب خاص تھا، اکثر جو کے ستو بھی استعمال فرماتے۔

ایک مرتبہ بادام کے ستو پیش کئے گئے تو یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ امراء کی غذا ہے، گھر میں شوربہ پکتا تو کہتے کہ ہمسایہ کے لئے ذرا زیادہ بنایا جائے، پینے کی چیزوں میں نمبر ایک میٹھا پانی تھا اور بطور خاص دو روز کی مسافت سے منگوایا جاتا، دودھ، پانی ملا دودھ (جسے کچی لسی کہا جاتا ہے) اور شہد کا شربت بھی رغبت سے نوش فرماتے، غیر نشہ دار نبیذ بھی قرین ذوق تھی، افراد کا الگ الگ بیٹھ کر کھانا ناپسند تھا، اکٹھے ہوکر کھانے کی تلقین فرمائی، سونے چاندی کے برتنوں کو بالکل حرام فرما دیا تھا، کانچ، مٹی، تانبہ اور لکڑی کے برتنوں کو استعمال میں لاتے رہے، دستر خوان پر ہاتھ دھونے کے بعد جوتا اتار کر بیٹھتے، سیدھے ہاتھ سے کھانا لیتے اور اپنے سامنے کی طرف سے لیتے، برتن کے وسط میں ہاتھ نہ ڈالتے، ٹیک لگا کر کھانا پینا بھی خلاف معمول تھا، دو زانو یا اکڑوں بیٹھتے، ہرلقمہ لینے پر بسم اللہ پڑھتے، ناپسندیدہ کھانا بغیر عیب نکالے خاموشی سے چھوڑ دیتے، زیادہ گرم کھانا نہ کھاتے، کھانا ہمیشہ تین انگلیوں سے لیتے اور ان کو لتھڑنے نہ دیتے، دعوت ضرور قبول فرماتے اور اگر اتفاقاً کوئی دوسرا آدمی (بات چیت کرتے ہوئے یا کسی اور سبب سے) ساتھ ہوتا تو اسے لیتے جاتے، مگر صاحب خانہ سے اس کے لئے اجازت لیتے، مہمان کو کھانا کھلاتے تو بار بار اصرار سے کہتے کہ اچھی طرح بے تکلفی سے کھاؤ، کھانے کی مجلس سے بہ تقاضائے مروت سب سے آخر میں اٹھتے، دوسرے لوگ اگر پہلے فارغ ہوجاتے تو ان کے ساتھ آپ ﷺ بھی اٹھ جاتے، فارغ ہوکر ہاتھ ضرور دھوتے، دعا کرتے جس میں خدا کی نعمتوں کےلئے ادائے شکر کے کلمات ہوتے، نیز طلب رزق فرماتے اور صاحب خانہ کے لئے برکت چاہتے۔

کھانے کی کوئی چیز آتی تو حاضر دوستوں کو باصرار شریک کرتے اور غیر حاضر دوستوں کا حصہ رکھ دیتے، پانی غٹ غٹ کی آواز نکالے بغیر پیتے اور بالعموم تین بار پیالہ منہ سے الگ کرکے سانس لیتے اور ہر بار آغاز" بسم اللہ" اور اختتام " الحمد للہ والشکرللہ" پر کرتے، عام طریقہ بیٹھ کر پانی پینے کا تھا، پینے کی چیز مجلس میں آتی تو بالعموم داہنی جانب سے دور چلاتے اور جہاں ایک دور ختم ہوتا دوسرا وہیں سے شروع کرتے، بڑی عمر کے لوگوں کو ترجیح دیتے مگر داہنے ہاتھ والوں کے مقررہ استحقاق کی بناء پر ان سے اجازت لےکر ہی ترتیب توڑتے، کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک مارنا یا ان کو سونگھنا نا پسندتھا، کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھانکنے کا حکم دیا ہے، کوئی نیا کھانا سامنے آتا تو کھانے سے پہلے اس کا نام معلوم فرماتے، زہر خورانی کے واقعہ کے بعد معمول ہوگیا تھا کہ اگر کوئی اجنبی شخص کھانا کھلاتا تو پہلے ایک آدھ لقمہ خود اسے کھلاتے۔

نشست وبرخاست:

کبھی اُکڑوں بیٹھتے، کبھی دونوں ہاتھ زانوؤں کے گرد حلقہ زن کرلیتے، کبھی ہاتھوں کے بجائے کپڑا (چادر وغیرہ) لپیٹ لیتے، بیٹھے ہوئے ٹیک لگاتے تو بالعموم الٹے ہاتھ پر، فکر یا سوچ کے وقت بیٹھے ہوئے زمین کو لکڑی سے کریدتے، سونے کے لئے سیدھی کروٹ سوتے اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر داہنا رخسار پر رکھ دیتے، کبھی چت بھی لیٹتے اور پاؤں پر پاؤں بھی رکھ لیتے، مگر ستر کا اہتمام رکھتے، پیٹ کے بل اور اوندھا لیٹنا سخت ناپسند تھا اور اس سے منع فرماتے تھے، ایسے تاریک گھر میں سونا پسند نہ تھا جس میں چراغ نہ جلایا گیا ہو، کھلی چھت پر جس کے پردے کی دیوار نہ ہو سونا اچھا نہ سمجھتے، وضو کرکے سونے کی عادت تھی اور سوتے وقت مختلف دعائیں پڑھنے کے علاوہ آخری تین سورتیں (سورۂ اخلاص اور معوذتین) پڑھ کر بدن پر دم کرلیتے، سوتے ہوئے ہلکی آواز سے خراٹے لیتے، رات میں قضائے حاجت کے لئے اٹھتے تو فارغ ہونے کے بعد ہاتھ منہ ضرور دھوتے، سونے کے لئے ایک تہ بند علیحدہ تھا، کرتا اتار کر ٹانگ دیتے۔



*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کھانا، پینا اور نشست وبرخاست: کھانے پینے کا ذوق بہت نفیس تھا، گوشت سے خاص رغبت تھی، زیادہ ترجیح دست، گردن اور پیٹھ کے گوشت کو دیتے، ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ میل جول کی زندگی




میل جول کی زندگی:

آپ ﷺ کا معمول تھا کہ راستہ میں ملنے والوں سے سلام کہتے اورسلام کہنے میں پہل کرتے، کسی کو پیغام بھجواتے تو ساتھ سلام ضرور کہلواتے، کسی کو سلام پہنچایا جاتا تو بھیجنے والے کو بھی اور لانے والے کو بھی جدا جدا سلام کہتے۔ ایک بار لڑکوں کی ٹولی کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا، عورتوں کی جماعت کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا، گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور گھر سے نکلتے ہوئے گھر کے لوگوں کو بھی سلام کہتے، احباب سے معانقہ بھی فرماتے اور مصافحہ بھی، مصافحہ سے ہاتھ اس وقت تک نہ کھینچتے جب تک دوسرا خود ہی اپنا ہاتھ الگ نہ کرتا، مجلس میں جاتے تو اس امر کو ناپسند کرتے کہ صحابہ تعظیم کے لئے کھڑے ہوں، مجلس کے کنارے ہی بیٹھ جاتے، کندھوں پر سے پھاند کر بیچ میں گھسنے سے احتراز فرماتے، فرمایا: " اجلس کما یجلس العبد" (اسی طرح اٹھتا بیٹھتا ہوں جس طرح خدا کا بندہ اٹھتا بیٹھتا ہے۔) (روایت عائشہؓ)

اپنے زانو ساتھیوں سے بڑھا کر نہ بیٹھتے، کوئی آتا تو اعزاز کے لئے اپنی چادر بچھاتے، آنے والا جب تک خود نہ اٹھتا آپ مجلس سے الگ نہ ہوتے، کسی کی ملاقات کو جاتے تو دروازہ کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوکر اطلاع دینے اور اجازت لینے کے لئے تین مرتبہ سلام کہتے، جواب نہ ملتا تو بغیر کسی احساس تکدر کے واپس آجاتے، رات کو کسی سے ملنے جاتے تو اتنی آواز میں سلام کہتے کہ اگر وہ جاگتا ہو تو سن لے اور سورہا ہو تو نیند میں خلل نہ آئے۔

بدسلوکی کا بدلہ برے سلوک سے نہ دیتے، بلکہ عفو ودرگزر سے کام لیتے، بیماروں کی عیادت کو پابندی سے جاتے، سرہانے بیٹھ کر پوچھتے، کیف تجدک (تمہاری طبیعت کیسی ہے؟) جس کسی شخص کی وفات ہوجاتی تو تشریف لے جاتے، میت کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار فرماتے، صبر کی نصیحت کرتے اور چلانے اور آہ وبکا کرنے سے روکتے، تجہیز وتکفین میں جلدی کراتے، جنازہ اٹھتا تو ساتھ ساتھ چلتے، تلقین فرماتے کہ میت کے گھر والوں کے لئے لوگ پکواکر بھجوائیں۔

کوئی مسافر سفر سے واپس آتا اور حاضری دیتا تو اسے معانقہ کرتے، بعض اوقات پیشانی چوم لیتے، کسی کو سفر کے لئے رخصت فرماتے تو کہتے کہ بھائی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا، بچوں سے بہت دلچسپی تھی، بچوں کے سرپر ہاتھ پھیرتے، پیار کرتے، دعا فرماتے، ننھے بچے لائے جاتے تو ان کو گود میں لیتے، ان کو بہلانے کے لئے عجیب کلمے فرماتے۔

بوڑھوں کا احترام فرماتے، فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ صدیق اپنے ضعیف العمر والد کو (جو بینائی سے بھی محروم ہوچکے تھے) بیعت اسلام کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں لائے، فرمایا: انہیں کیوں تکلیف دی میں خود ان کے پاس چلا جاتا۔

مروت کی انتہاء یہ تھی کہ مدینہ کی ایک عورت جس کی عقل میں کچھ فتور تھا آتی ہے اور کہتی ہے کہ مجھے کچھ کہنا ہے، آپ ﷺ اسے فرماتے ہیں کہ تم چلو، کسی کوچہ میں انتظار کرو، میں ابھی آتا ہوں، چنانچہ اس کی بات جاکر سنی اور اس کا کام کرکے دیا، میل جول کی زندگی میں آپ کے حسن کردار کی تصویر حضرت انسؓ نے خوب کھینچی ہے، وہ فرماتے ہیں:

" میں دس برس تک حضور ﷺ کی خدمت میں رہا اور آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہ کہی، کوئی کام جیسا بھی کیا نہیں کہا کہ یہ کیوں کیا اور کوئی کام نہ کیا تو نہیں کہا کہ کیوں نہیں کیا، یہی معاملہ آپ کے خادموں اور کنیزوں کے ساتھ رہا، آپ ﷺ نے ان میں سے کسی کو نہیں مارا



*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

میل جول کی زندگی: آپ ﷺ کا معمول تھا کہ راستہ میں ملنے والوں سے سلام کہتے اورسلام کہنے میں پہل کرتے، کسی کو پیغام بھجواتے تو ساتھ سلا...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ آپ ﷺ کا بولنا اور چلنا




آپ ﷺ کا بولنا اور چلنا:

حضورﷺ کی چال عظمت، وقار، شرافت اور احساس ذمہ داری کی ترجمان تھی، چلتے تو مضبوطی سے قدم جما کر چلتے، ڈھیلے ڈھالے طریقے سے قدم گھسیٹ کر نہیں، بدن سمٹا ہوا رہتا، دائیں بائیں دیکھے بغیر چلتے، قوت سے آگے کو قدم اٹھاتے، قامت میں آگے کی طرف قدرے جھکاؤ ہوتا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اونچائی سے نیچے کو اتررہے ہیں، ہند بن ابی ہالہ کے الفاظ میں گویا زمین آپ کی رفتار کے ساتھ ساتھ لپٹتی جارہی ہے، رفتار تیز ہوتی، قدم کھلے کھلے رہتے، آپ معمولی رفتار سے چلتے مگر بقول حضرت ابوہریرہؓ ہم مشکل سے ساتھ دے پاتے، حضورﷺ کی رفتار یہ پیغام بھی دیتی جاتی تھی کہ " زمین میں گھمنڈ کی چال نہ چلو" (سورہ لقمان)

آپ ﷺ کا طرزِ تکلم:

حضور ﷺ کی امتیازی شان یہ تھی کہ آپ" جوامع الکلم" تھے خود فرمایا کہ" اعطیت بجوامع الکلم" جوامع الکلم حضور ﷺ کے وہ مختصر ترین کلمے ہیں جو معنوی لحاظ سے بڑی وسعت رکھتے ہیں، کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معانی پیش کرنے میں سرورعالم ﷺ اپنی مثال آپ تھے اور اسے خصوصی عطیات رب میں شمار کیا۔
چند مثالیں درج ذیل ہیں:

۱۔" المرءمع من احب"
آدمی کا حشر اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہو۔

۲۔" اسلم تسلم"
تم اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤگے۔

۳۔" انما الاعمال بالنیات"
اعمال نیتوں پر منحصر ہیں۔

۴۔" لیس للعامل من عملہ الامانواہ"
کسی عمل کرنے والے کو اپنے عمل میں بجز اس کے کچھ نہیں ملتا ہے جو کچھ کہ اس نے نیت کی ہے۔

۵۔" الولد للفراش وللعاھر الحجر"
بیٹا اس کا جس کے بستر پر (گھر میں) ولادت پائے اور زانی کیلئے پتھر۔


ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ

آپ ﷺ کا بولنا اور چلنا: حضورﷺ کی چال عظمت، وقار، شرافت اور احساس ذمہ داری کی ترجمان تھی، چلتے تو مضبوطی سے قدم جما کر چلتے، ڈھیلے ڈھ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ وضع قطع اور لباس مبارک





وضع قطع اور لباس مبارک:

آنحضرتﷺ پشمینہ پہنتے تھے اور پہننے کی چیزوں میں قطعاً تکلف نہیں فرماتے تھے اورجس وقت نیا کپڑا استعمال فرماتے:
" اللھم لک الحمد کما البستہ واسلک خیرہ وخیر ماوضع لہ" پڑھتے تھے، آپﷺ سفید لباس بےحد پسند فرماتے، سوت اورکتان کا لباس بھی کبھی کبھی پہن لیتےتھے، جبہ، قمیص، قبا، ازار، عمامہ، ٹوپی، چادر، حلہ، موزہ یہ سب آپ نے پہنے ہیں، سبز رنگ کی یمنی چادر آپ کو بے حد پسند تھی جو برد یمانی کے نام سے مشہور تھی، ایک چادر سے دو کونے اپنے شانوں کے درمیان باندھ کر نماز ادا فرماتے تھے اور دستار مبارک کا ایک سرا جس کو شملہ کہتے ہیں دونوں شانوں کے درمیان چھوڑ کر فرق مبارک پر عمامہ باندھتے تھے، ٹوپی بھی پہنا کرتے تھے اوراسے عمامہ کے نیچے پہننے کی تاکید کرتے تھے۔

وضع قطع اور آرائش:

حضور ﷺ اپنے بال بہت سلیقہ سے رکھتے، ان میں کثرت سے تیل کا استعمال فرماتے، کنگھا کرتے، مانگ نکالتے، لبوں کے زائد بال تراشنے کا اہتمام تھا، داڑھی کو بھی طول وعرض میں قینچی سے ہموار کرتے، اس معاملہ میں رفقاء کو تربیت دیتے۔ مثلا: ایک صحابی کو پراگندہ مو دیکھا تو گرفت فرمائی، ایک صحابی کی داڑھی کے زائد بال بہ نفس نفیس تراشتے، فرمایا کہ جو شخص سر یاداڑھی کے بال رکھتا ہو اسے چاہیے کہ ان کو سلیقہ اورشائستگی سے رکھے، سفر اورحضر میں ہمیشہ سات چیزیں ساتھ رہتیں اور بستر کے قریب:

۱۔ تیل کی شیشی
۲۔ کنگھا (ہاتھی دانت کا بھی)
۳۔ سرمہ دانی (سیاہ رنگ کی)
۴۔ قینچی
۵۔ مسواک
۶۔ آئینہ
۷۔ لکڑی کی ایک پتلی کھپچی۔

سرمہ رات کو سوتے ہوئے (تاکہ زیادہ نمایاں نہ ہو) تین تین سلائی آنکھوں میں لگاتے، آخر رات میں حاجات سے فارغ ہوکر وضو کرتے، لباس طلب کرتے اور خوشبولگاتے، ریجان کی خوشبو پسند تھی، مہندی کے پھول بھی بھینی خوشبو کی وجہ سے مرغوب تھے، مشک اور عود کی خوشبو سب سے بڑھ کر پسندیدہ رہی، گھر میں خوشبو دار دھونی لیا کرتے، ایک عطر دان تھا جس میں بہترین خوشبو موجود رہتی اور استعمال میں آتی، مشہور بات یہ ہے کہ آپ جس کوچہ سے گزر جاتے تھے دیر تک اس میں مہک رہتی تھی، خوشبو ہدیہ کی جاتی تو ضرور قبول فرماتے اورکوئی اگر خوشبو کا ہدیہ لینے میں تامل کرتا تو ناپسند فرماتے، اسلامی ثقافت کے مخصوص ذوق کے تحت آپ نے مردوں کیلئے ایسی خوشبو پسند فرمائی تھی جس کا رنگ مخفی رہے اورمہک پھیلے اور عورتوں کیلئے وہ جس کا رنگ نمایاں ہو، مہک مخفی رہے۔


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

وضع قطع اور لباس مبارک: آنحضرتﷺ پشمینہ پہنتے تھے اور پہننے کی چیزوں میں قطعاً تکلف نہیں فرماتے تھے اورجس وقت نیا کپڑا استعمال فرما...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ شمائلِ نبویﷺ اور متعلقات




شمائلِ نبویﷺ اور متعلقات:

سیرت نبوی کے اس سلسلے میں ہم حضور ﷺ کی زندگی کے صرف اہم واقعات کا ہی تذکرہ کرسکے ہیں، سیرت کا وہ حصہ جو تعلیمات سیرت پر مشتمل ہے جس کا تذکرہ مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے چھ جلدوں میں کیا ہے اس کو پیش کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہوسکا، اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ اس کو کتابوں سے ٹائپ کرنے کے لیے افرادی قوت اور وسائل کا نا ہونا تھی، ہمارے قارئین اس حصے کو سیرت کی بڑی کتابوں سے ملاحظہ فرما سکتے ہیں، ہماری پھر بھی کوشش ہے کہ کم از کم حضور ﷺ کی عادات/ شمائل کا کچھ نا کچھ تذکرہ ضرور پیش کردیں۔

ایک جامع لفظی تصویر:

یوں تو حضورﷺ کے متعدد رفقاء نے حضورﷺ کی شخصیت کے مرقعے لفظوں میں پیش کئے ہیں؛ لیکن اُم معبد نے جو تصویر مرتب کی ہے اس کا جواب نہیں، وادیٔ ہجرت کا سفر طے کرتے ہوئے مسافر حق جب اپنی منزل اول (غارثور) سے چلے تو پہلے ہی روز قوم خزاعہ کی اس نیک نہاد بڑھیا کا خیمہ راہ میں پڑا، حضور ﷺ اورآپ کے ہمرا ہی پیاسے تھے، فیضان خاص تھا کہ مریل سی بھوکی بکری نے اس لمحہ وافر مقدار میں دودھ دیا، حضورﷺ نے بھی پیا، ہمراہیوں نے بھی اور کچھ بچ رہا، اُم معبد کے شوہر نے گھر آکر دودھ دیکھا تو اچنبھے سے پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا؟ اُم معبد نے سارا حال بیان کیا، وہ پوچھنے لگا کہ اس قریشی کا نقشہ تو بیان کرو، یہ وہی تو نہیں جس کی تمنا ہے، اس پر ام معبد نے حسین ترین الفاظ میں تصویر کھینچی،اُم معبد کو نہ تو کوئی تعارف تھا نہ کسی طرح کا تعصب، بلکہ جو کچھ دیکھا من وعن کہہ دیا، اصل عربی میں دیکھنے کی چیز ہے، اس کا جو ترجمہ مولف" رحمۃ للعالمین" نے کیا ہے وہ حسب ذیل ہے:

" پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، نہ پیٹ باہر کو نکلا ہوا، نہ سر کے بال گرے ہوئے، زیبا، صاحب جمال، آنکھیں سیاہ فراغ، بال لمبے اور گھنے، آواز میں بھاری پن، بلند گردن، روشن مرومک، سرمگیں چشم، باریک وپیوستہ ابرو، سیاہ گھنگھریالے بال، خاموش وقار کے ساتھ، گویا دل بستگی لئے ہوئے، دور سے دیکھنے میں زیبندہ ودلفریب، قریب سے نہایت شیریں وکمال حسین، شیریں کلام، واضح الفاظ، کلام کمی وبیشی الفاظ سے مبرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی، زیبند ہ نہال کی تازہ شاخ، زیبندہ منظر والا قد، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گردوپیش رہتے ہیں، جب وہ کچھ کہتا ہے تو چپ چاپ سنتے ہیں، جب حکم دیتا ہے توتعمیل کے لئے جھپٹتے ہیں، مخدوم ،مطاع، نہ کوتاہ سخن نہ فضول گو۔"


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

شمائلِ نبویﷺ اور متعلقات: سیرت نبوی کے اس سلسلے میں ہم حضور ﷺ کی زندگی کے صرف اہم واقعات کا ہی تذکرہ کرسکے ہیں، سیرت کا وہ حصہ جو ت...

مسئلہِ تین طلاق



مسئلہِ تین طلاق

(مرتبہ: یوسف ثانی، مدیر: پیغام قرآن و حدیث)


 دین اسلام میں شوہر اپنی بیوی کو "تین مرتبہ" طلاق دینے کا شرعی حق رکھتا ہے۔ اس "تین مرتبہ" طلاق کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے۔


ا۔ پہلا نکاح کرنا ۔۔۔ پھر پہلی مرتبہ طلاق دینا

۲۔ پہلی طلاق کی عدت (یعنی تین حیض) کے اندر "رجوع" کرنا یا بعد از عدت دوسرا نکاح کرنا ۔۔۔ پھر دوسری مرتبہ طلاق دینا۔

۳۔ دوسری طلاق کی عدت کے اندر رجوع کرنا یا بعد از عدت تیسرا نکاح کرنا ۔۔۔ پھر تیسری مرتبہ طلاق دینا 


تین مرتبہ طلاق کے لئے، تین مرتبہ نکاح (یا متبادل رجوع) کرنا لازمی ہے۔


 اس "تیسری مرتبہ طلاق" کے بعد اب نہ تو مرد "رجوع" کرسکتا ہے اور نہ ہی چوتھی مرتبہ اسی سے نکاح کرسکتا ہے۔ اب عورت تیسری مرتبہ طلاق کی عدت گزار کر کسی اور مرد سے شادی کرسکتی ہے۔ اب اگر یہ دوسرا شوہر خدا نخواستہ انتقال کرجائے یا یہ بھی طلاق دے دے (طلاق لینے کی نیت سے نکاح کرنا حرام ہے۔حدیث) تب اس طلاق کی عدت گزار کر اپنے پہلے والے شوہر سے بھی چوتھا نکاح کرسکتی ہے۔ اسے اسلامی اصطلاح میں "حلالہ" کہتے ہیں۔


فقہ حنفی میں ایک ہی وقت میں ایک ساتھ تین طلاق دینے کو تین مرتبہ طلاق نافذ کردیا جاتا ہے، جو سنت کے سراسر خلاف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ایسا نہیں ہوا کرتا تھا۔ دو احادیث پیش ہیں، جن کی رو سے ایک ساتھ دی گئی  مبینہ "تین طلاق"، ایک طلاق ہی شمار ہوتی ہے۔ اہل حدیث علمائے کرام اسی کے مطابق فتوی دیتے ہیں۔ 


حدیث۔1: ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم، دور حضرت ابوبکر صدیق اور دور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پہلے دو برسوں تک (ایک ساتھ دی گئی) تین طلاقیں ایک طلاق ہوتی تھی۔ (مسلم)


حدیث۔2: حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت ابوصہباء رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  کے پاس آئے اور کہا: اے ابن عباس! کیا آپ جانتے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  کے دور مبارک میں‘ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے ابتدائی دور میں‘ ایک طلاق سمجھی جاتی تھیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔(نسائی۔3435)


طلاق کے بعد (یعنی طلاق کی عدت کی مدت گزرنے کے بعد) سابقہ شوہر سے نکاح ثانی کی اجازت بلکہ ترغیب خود اللہ تبارک تعالٰی نے ان الفاظ میں دی ہے:


 اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو، پھر ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو (سابقہ) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔ اگر دستور کے موافق آپس میں رضا مندی ہو جائے۔ (البقرۃ۔ ۲۹۹)


اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے جملہ معاملات قرآن و سنت کے مطابق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

ا================ا


ایک ساتھ تین طلاق دینے کے ایک طلاق ہونے کی عقلی دلیل یہ ہے:


طلاق کوئی چیز جیسے گیند وغیرہ نہیں ہے کہ ایک ساتھ تین یا زائد بھی دے دی جائے۔ یہ ایک عمل یعنی فعل کا نام ہے جیسے باؤلنگ ایک فعل ہے۔ باؤلنگ جیسا کوئی بھی عمل باری باری ہی سر انجام دیا جاسکتا ہے۔ یعنی پہلی مرتبہ باؤلنگ کی۔ پھر دوسری مرتبہ باؤلنگ کی پھر تیسری مرتبہ باؤلنگ  کی وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح پہلی مرتبہ طلاق دی، پھر دوسری مرتبہ طلاق دی، پھر تیسری مرتبہ طلاق دی۔ 


یا جیسے دن بھر میں "پانچ مرتبہ" نماز ادا کرنا فرض ہے۔ اب اگر کوئی نمازی نماز فجر کے وقت ہی ایک ساتھ ظہر، عصر، مغرب، عشاء کی فرض رکعتیں بھی ادا کرلے، تب بھی "پانچوں وقت کی نمازیں" ادا نہیں ہوں گی۔ بلکہ یہ "ایک ہی نماز" یعنی فجر کی پہلی نماز ہی ادا ہوگی۔ اضافی پڑھی گئی رکعتوں کا کوئی شمار نہیں ہوگا۔


ویسے بھی یہ تو کامن سینس کی بات ہے کہ طلاق منکوحہ کو دی جاتی ہے، کسی غیر منکوحہ یا مطلقہ کو نہیں دی جاسکتی۔ چنانچہ جب پہلی مرتبہ بیوی کو طلاق دی گئی تو وہ منکوحہ سے مطلقہ بن گئی اور عدت میں بیٹھ گئی۔ اب اس عدت والی مطلقہ سے رجوع کرکے اسے واپس بیوی (منکوحہ) تو بنایا جاسکتا ہے، لیکن اس مطلقہ (غیر بیوی) کو مزید طلاق کیسے دی جاسکتی ہے؟ شوہر اپنی منکوحہ کو تین مرتبہ طلاق (تین طلاقیں ایک ساتھ) نہیں دے سکتا ہے۔ ترتیب صرف یہی ہوسکتی ہے۔


1۔ نکاح ۔ طلاق ؛

 2۔نکاح (یا رجوع)۔ طلاق

 3۔ نکاح (یا رجوع) ۔ طلاق۔


نوٹ: پچھلے دنوں بھائی کا ایک دوست اپنی بیوی کو "ایک ساتھ تین طلاق" دے کر پچھتاتا رہا تھا۔ پھر ہم نے اسے سمجھایا کہ دوبارہ نکاح کرسکتے ہو۔ دونوں طرف کی فیملیز مصر تھیں کہ اب تو حلالہ کے بغیر نکاح ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر ہم نے دارالعلوم جامعہ ابوبکر، گلشن اقبال (جہاں کے بہت سے اساتذہ مدینہ اسلامک یونیورسٹی کے فاضل ہیں) سے باقاعدہ فتوی لے کر دیا۔ تب ان کی فیملیز مطمئن ہوئیں۔ اور دونوں کا نکاح ثانی ہوگیا الحمدللہ۔ یوں ایک گھر مستقل ٹوٹنے سے اور بچے رلنے سے بچ گئے۔ ثم الحمدللہ


(مرتبہ: یوسف ثانی، مدیر: پیغام قرآن و حدیث)


 نوٹ ثانی:


آج کل طلاق کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ غصہ ختم ہوجائے تو پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔ پھر کم علمی کے سبب یا تو ایک گھر ٹوٹ جاتا ہے، بچے رل جاتے ہیں یا پھر بعض مولویوں کے کہنے پر "حرام حلالہ" کے ذریعہ عورت پر ظلم کرواتے ہیں۔ ہمارے ایک جاننے والی فیملی میں ایسا ہی ایک تازہ ترین طلاق کا واقعہ پیش آیا تو ہم نے دونوں گھرانوں کو اوپر والا مراسلہ بھیج دیا اس امید پر کہ انہیں عقل آجائے اور دو گھرانے اور دو معصوم بچے رلنے سے بچ جائیں۔ یہ مراسلہ اپنے پاس محفوظ رکھ لیجئے۔ خدانخواستہ کسی جاننے والی فیملی میں ایسا کوئی سانحہ ہوجائے تو اس سے ان کی علمی مدد کی جاسکتی ہے۔

السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ

مسئلہِ تین طلاق (مرتبہ: یوسف ثانی، مدیر: پیغام قرآن و حدیث)  دین اسلام میں شوہر اپنی بیوی کو " تین مرتبہ " طلاق دینے کا شرعی حق رک...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 302



سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 302

جانشینی کا اختلاف اور تجہیز وتکفین:

حضور اکرم ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی سقیفۂ بنو ساعدہ میں انصار جمع ہوئے اور حضورﷺ کی جانشینی اور خلافت پر بحث شروع ہوگئی، حضرت سعد ؓ بن عبادہ صدر نشین تھے، اُدھر حضرت فاطمہؓ کے گھر میں حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ بن عوام اور حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ آپس میں مشورہ کر رہے تھے، مہاجرین کی بڑی تعداد حضرت ابو بکرؓ کے پاس جمع تھی، جن میں گروہ انصار سے بنو عبدالاشہل کو لے کر حضرت اسیدؓ بن حضیر شامل ہو گئے، اطلاع ملی کہ سقیفہ بنو ساعدہ میں جمع انصار حضرت سعد ؓ بن عبادہ کی بیعت پر مائل ہیں کیونکہ غزوات میں انصار کا علم اکثر ان ہی کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔

یہ اطلاع جب حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کو ہوئی تو اس خوف سے کہ کچھ نے اپنی مرضی سے کوئی خلیفہ منتخب کرلیا اور باقیوں نے اپنا تو ملت میں افتراق نہ پیدا ہو جائے، دونوں حضرات ابو عبیدہؓ بن الجراح کو لے کر سقیفہ بنو ساعدہ روانہ ہوئے، راستہ میں دو انصاری حضرت عدیم ؓ بن ساعدہ اور حضرت معن ؓ بن عدی ملے، انھوں نے بتایا کہ انصار ایک معاملہ میں متفق ہو چکے ہیں، تم ان کے پاس نہ جاؤ بلکہ اپنے معاملات خود طے کر لو، حضرت ابو بکرؓ نے کہا نہیں ہم ان سے ضرور ملیں گے، حضرت سعدؓ بن عبادہ بیمار تھے اور چادر اوڑھے سب کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے، ان کے خطیب نے حمدو ثنا کے بعد کہا کہ ہم اللہ کے انصار اور اسلام کا لشکر ہیں، مہاجرین ایک جماعت بن کر ہمارے پاس آئے، اب ان کا ارادہ ہماری جڑیں کاٹ کر امارت غصب کرنے کا ہے۔

حضرت عمرؓ اس کا جواب دینے کے لئے اٹھنے والے تھے کہ حضرت ابو بکرؓ نے روک دیا، خود کھڑے ہوئے اور حمد و ثنا ء وصلوٰۃ کے بعد پہلے مہاجرین کے فضائل اور اسلام کے لئے ان کی غیر معمولی قربانیاں اور حضور اکرم ﷺ سے قرابت کا ذکر کیا، اس کے بعد فرمایا، اے انصار ! تم اپنے متعلق جو کچھ کہتے ہو بے شک تم ان فضائل کے حامل ہو، آنحضرت ﷺ سے تمہارا تعلق بھی بہت گہرا ہے، لیکن عرب اس معاملہ میں سوائے قریش کے کسی اور کی اطاعت قبول نہیں کریں گے، انصار نے کہا کہ اچھا ہم میں سے ایک امیر ہو اور تم میں سے ایک، حضرت ابو بکرؓ نے کہا، نہیں بلکہ ہم میں سے امیر ہوں اور تم میں سے وزیر ہو، اس کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا، ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرلو، شور و غل بڑھنے لگا۔

حضرت خبابؓ بن منذر نے اعتراض کیا تو حضرت عمرؓ نے بڑھ کر حضرت ابو بکرؓ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ ہم میں آپ سب سے بہترین ہیں، ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں، حضرت ابو عبیدہؓ نے اس کی تائید کی اور انصار میں سے حضرت بشیرؓ بن سعد کو سب سے پہلے بیعت کا شرف حاصل ہوا، پھر تمام مہاجرین و انصار نے بیعت کی، انتشار و تفریق کا یہ نازک مرحلہ حضرت ابو بکرؓ کے حسنِ تدبر سے سلجھ گیا، اس سے فراغت پا کر لوگ حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہوگئے۔

اپنی تجہیز و تکفین کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے ایک ماہ قبل ہی واضح احکامات دے دیے تھے، منگل کے روز آپﷺ کو کپڑے اتارے بغیر غسل دیا گیا۔ غسل دینے والے حضرات یہ تھے۔ حضرت عباسؓ، حضرت علیؓ، حضرت عباس کے دو صاحبزادگان فضل اور قثمؓ، رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام شقران، حضرت اسامہؓ بن زیدؓ اور اوس بن خولی رضی اللہ عنہم ۔ حضرت عباس، فضل اور قثم آپﷺ کی کروٹ بدل رہے تھے۔ حضرت اسامہ اور شقران رضی اللہ عنہما پانی بہا رہے تھے۔ حضرت علیؓ غسل دے رہے تھے اور حضرت اوسؓ نے آپﷺ کو اپنے سینے سے ٹیک رکھا تھا۔
( ابن ماجہ ۱/۵۲۱)

آپ ﷺ کو پانی اور بیر کی پتی سے تین غسل دیا گیا۔ اور قباء میں واقع سعد بن خیثمہ کے غرس نامی کنویں سے غسل دیا گیا۔ آپ ﷺ اس کا پانی پیا کرتے تھے۔( تفصیل طبقات ابن سعد ۲/۲۷۷،۲۸۱ میں ملاحظہ ہو۔)

اس کے بعد آپ ﷺ کو تین سفید یمنی چادروں میں کفنا یا گیا۔ ان میں کرتا اور پگڑی نہ تھی۔ بس آپ ﷺ کو چادروں ہی میں لپیٹ دیا گیا تھا۔ ( صحیح بخاری ۱/۱۶۹ جنائز باب الثیاب البیض للکفن ، فتح الباری ۳/۱۶۲،۱۶۷ ،۱۶۸حدیث نمبر ۱۲۶۴، ۱۲۷۱،۱۲۷۲،۱۲۷۳، ۱۲۷۳، ۱۳۸۷، صحیح مسلم : جنائز ، باب کفن المیت ۱/۳۰۶ حدیث نمبر ۴۵)

آپ ﷺ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں بھی صحابہ کرام کی رائیں مختلف تھیں، لیکن حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی نبی بھی نہیں اٹھایا گیا مگر اس کی تدفین وہیں ہوئی جہاں اٹھایا گیا۔ اس فیصلے کے بعد حضرت ابو طلحہؓ نے آپﷺ کا وہ بستر اٹھایا جس پر آپﷺ کی وفات ہوئی تھی۔ اور اسی کے نیچے قبر کھودی۔ مدینہ میں قبر کھود نے میں دو افراد ماہر تھے، ایک حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح جو مکی طرز پر شق (سیدھی قبر ) کھودتے تھے، دوسرے حضرت ابو طلحہؓ زید بن سہل انصاری جو اہل مدینہ کی طرز کی قبر (بغلی قبر ) کھود تے تھے، مشورہ میں طے ہوا کہ ان میں سے جو پہلے آئے وہ یہ کام انجام دے، حضرت عباسؓ نے دو آدمی روانہ کئے، حضرت ابو طلحہؓ پہلے آئے اور انہیں لحد تیار کرنے کا شرف حاصل ہوا، قبر میں (۹) کچی اینٹیں بچھائی گئیں، یہ بھی لکھا ہے کہ کچی اینٹوں سے لحد کو بند کیا گیا، قبر لحد والی (بغلی) کھودی گئی تھی۔

اس کے بعد باری باری دس دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حجرہ شریف میں داخل ہوکر نماز جنازہ پڑھی۔ کوئی امام نہ تھا۔ سب سے پہلے آپ ﷺ کے خانوادہ ( بنو ہاشم ) نے نماز جنازہ پڑھی۔ پھر مہاجرین نے، پھر انصار نے، پھر مردوں کے بعد عورتوں نے، اور ان کے بعد بچوں نے۔ ( مؤطا امام مالک ، کتاب الجنائز ، باب ماجاء فی دفن المیت ۱/۲۳۱ طبقات ابن سعد ۲/۲۸۸ - ۲۹۲)

نماز جنازہ پڑھنے میں منگل کا پورا دن گزر گیا اور چہار شنبہ (بدھ) کی رات آگئی۔ رات میں آپ ﷺ کے جسدِ پاک کو سپردِ خاک کیا گیا۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ہمیں رسول اللہﷺ کی تدفین کا علم نہ ہوا، یہاں تک کہ ہم نے بدھ کی رات کے درمیانی اوقات میں (اور ایک روایت کے مطابق، آخر رات میں) پھاؤڑوں کی آواز سنی۔ ( مسند احمد ۶/۶۲، ۲۷۴)

(واقعہ وفات کی تفصیل کے لیے دیکھئے صحیح بخاری باب مرض النبیﷺ اور اس کے بعد کے چند ابواب مع فتح الباری، نیز صحیح مسلم، مشکوٰۃ المصابیح، باب وفاۃ النبیﷺ ، ابن ہشام ۲/۶۴۹ تا ۶۶۵۔ تلقیح فہوم اہل الاثر ص ۳۸، ۳۹۔ رحمۃ للعالمین ۱/۲۷۷ تا ۲۸۶۔ اوقات کی تعیین بالعموم رحمۃ للعالمین سے لی گئی ہے)

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 302 جانشینی کا اختلاف اور تجہیز وتکفین : حضور اکرم ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی سقیفۂ بنو ساعدہ میں انصار جم...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 301



سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 301

حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کی کیفیت:

وفات کی خبر سن کر حضرت عمرؓ کے ہوش جاتے رہے۔ انہوں نے کھڑے ہوکر کہنا شروع کیا : کچھ منافقین سمجھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی وفات ہوگئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی وفات نہیں ہوئی، بلکہ آپ ﷺ اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ جس طرح موسیٰ بن عمران علیہ السلام تشریف لے گئے تھے۔ اور اپنی قوم سے چالیس رات غائب رہ کر ان کے پاس پھر واپس آگئے تھے حالانکہ واپسی سے پہلے کہا جارہا تھا کہ وہ انتقال کرچکے ہیں۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ بھی ضرور پلٹ کر آئیں گے اور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالیں گے جو سمجھتے ہیں کہ آپ ﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے۔ ( ابن ہشام ۲/۶۵۵)

ادھر حضرت ابو بکرؓ سنح میں واقع اپنے مکان سے گھوڑے پر سوار ہو کر تشریف لائے۔ اور اُتر کر مسجد نبوی میں داخل ہوئے۔ پھر لوگوں سے کوئی بات کیے بغیر سیدھے حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے، اور رسول اللہ ﷺ کا قصد فرمایا، آپ ﷺ کا جسدِ مُبارک دھار دار یمنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ حضرت ابو بکرؓ نے رُخ انور سے چادر ہٹائی اور اسے چوما اور روئے، پھر فرمایا : میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، اللہ آپ ﷺ پر دو موت جمع نہیں کرے گا۔ جو موت آپ ﷺ پر لکھ دی گئی تھی وہ آپ ﷺ کو آچکی۔

اس کے بعد حضرت ابو بکرؓ باہر تشریف لائے۔ اس وقت بھی حضرت عمرؓ لوگوں سے بات کررہے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ نے ان سے کہا : عمر ! بیٹھ جاؤ۔ حضرت عمرؓ نے بیٹھنے سے انکار کردیا۔ ادھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عمرؓ کو چھوڑ کر حضرت ابو بکرؓ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:

أما بعد : من کان منکم یعبد محمداًﷺ فإن محمداً قد مات ومن کان منکم یعبد اللہ فإن اللہ حي لایموت قال اللّٰہ: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَ‌سُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّ‌سُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ‌ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِ‌ينَ (۳: ۱۴۴)

''اما بعد ! تم میں سے جو شخص محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو (وہ جان لے ) کہ محمد ﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے۔ اور تم میں سے جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ کبھی نہیں مرے گا، اللہ کا ارشاد ہے۔ محمد(ﷺ ) نہیں ہیں مگر رسول ہی۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں تو کیا اگر وہ (محمدﷺ) مرجائیں یا ان کی موت واقع ہو جائے یا وہ قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ اپنی ایڑ کے بل پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو شخص اپنی ایڑ کے بل پلٹ جائے تو (یاد رکھے کہ ) وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو جزادے گا۔''

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو اب تک فرطِ غم سے حیران وششدر تھے، انہیں حضرت ابو بکرؓ کا یہ خطا ب سن کر یقین آگیا کہ رسول اللہﷺ واقعی رحلت فرما چکے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ واللہ ! ایسا لگتا تھا گویا لوگوں نے جانا ہی نہ تھا کہ اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابو بکرؓ نے اس کی تلاوت کی تو سارے لوگوں نے ان سے یہ آیت اخذ کی۔ اور اب جس کسی انسان کو میں سنتا تو وہ اسی کو تلاوت کررہا ہوتا۔

حضرت سعیدؓ بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا : واللہ ! میں نے جوں ہی ابو بکرؓ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا خاک آلود ہوکر رہ گیا۔ (یا میری پیٹھ ٹوٹ کر رہ گئی ) حتیٰ کہ میرے پاؤں مجھے اٹھا ہی نہیں رہے تھے اور حتیٰ کہ ابو بکرؓ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سن کر میں زمین کی طرف لڑھک گیا۔ کیونکہ میں جان گیا کہ واقعی نبی ﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے۔
( صحیح بخاری ۲/۶۴۰، ۶۴۱)

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 301 حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کی کیفیت : وفات کی خبر سن کر حضرت عمرؓ کے ہوش جاتے رہے۔ انہوں نے کھڑے ہوکر کہن...