سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 284


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 284

حجۃ الوداع: ۸ / ذی الحجہ:

 ۸  ذی الحجہ ۱۰ ہجری بروزاتوار یوم ترویہ کو سب نے مقام ابطح میں احرام باندھا اور تلبیہ کہتے ہوئے مکہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہوئے ، منیٰ میں ظہر ، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں، ۹ ذی الحجہ کو حضور ﷺ نے عرفہ کی رات منیٰ میں بسر فرمائی، نماز فجر وہیں ادا کی، سورج نکلا تو عرفات روانہ ہوئے۔

قریش کا معمول تھا کہ بجائے عرفات کے معشر حرام ( جو مزدلفہ میں واقع تھا) ٹھہرتے کیونکہ وہ حدود حرم میں واقع تھا، انہوں نے خیال کیا کہ آپﷺ بھی وہیں ٹھہریں گے؛ لیکن آپﷺ نے میدان عرفات میں مقام نمرہ پر نصب شدہ کمبل کے خیمہ میں قیام فرمایا، زوال کے بعد اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہو کر عرفہ کے مقام بطن وادی میں تشریف لائے اور بعد حمد و ثناء خطبہ ارشاد فرمایا :

"لوگو! میری بات غور سے سنو ، میرا خیال ہے کہ اس سال کے بعد اس جگہ پر تم سے نہ مل سکوں اور نہ شاید اس سال کے بعد آئندہ حج کر سکوں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب لوگ آدمؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ مٹی سے پیدا کئے گئے تھے، زمانہ جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے روندی گئی ہیں، زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف ہیں، میں اس سلسلہ میں سب سے پہلے اپنے ہی خاندان کا ایک خون جو کہ ربیعہ بن الحارث کے بیٹے کا ہے معاف کرتا ہوں، دورِ جاہلیت کا ہر سود معاف ہے اور اپنے عم محترم عباس بن عبدالمطلب کا سود معاف کرتا ہوں، ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں، تمہار ے غلام ! جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ،
 لوگو : تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں اور اسی طرح تم پر تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں، ( آج تک عورتیں ایک جائیداد منقولہ تھیں جو قمار بازی اور داؤں پر چڑھا دی جا سکتی تھیں، آج پہلا دن ہے کہ یہ گروہ مظلوم، یہ صنف نازک ، یہ جوہر نازک قدر دانی کا تاج پہنتا ہے ) تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کو تمہارے بستر پر نہ بیٹھنے دیں جسے تم پسند نہ کرتے ہو اور ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ کھلی بے حیائی کا کوئی کام نہ کریں لیکن اگر وہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ اجازت دی ہے کہ ان کے سونے کی جگہ اپنے سے الگ کر دو، ( اگر اس سے بھی باز نہ آئیں تو ) پھر تمہیں اجازت ہے کہ انہیں ایسی ہلکی مار مارو جس سے بدن پر نشان نہ پڑیں اور اگر وہ اپنی نازیبا حرکتوں سے باز آجائیں تو حسب دستور ان کا کھانا اور کپڑا تمہارے ذمہ ہے ،
خبر دار ! کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیرکسی کو کچھ دے ، عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے ہمیشہ پابند رہو کیوں کہ وہ تمہاری زیر نگرانی ہیں اور اس حیثیت سے نہیں کہ اپنے معاملات خود چلا سکیں ، عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو، تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات کے ذریعہ ان کو اپنے لئے جائز اور حلا ل کیا ہے۔"

"لوگو ! اللہ تعالیٰ نے میراث کا قانون نافد کر کے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے ، اس لئے اب کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت جائز و نافذ نہیں، لڑکا اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا ہو، زنا کار کے لئے پتھر ہے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ، قرض ادا کیا جانا چاہئے ، عاریت واپس ہونی چاہئے ، عطیہ کا بدلہ دیا جانا چاہئے ، ضامن تاوان کا ذمہ دار ہوگا ،(سیرت طیبہ ) خبر دار: جرم کرنے والا خود اپنے جرم کا ذمہ دار ہے ، باپ کے جرم کا ذمہ دار بیٹا نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ نہیں۔"

"خبر دار! میر ے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، جس شخص کے پاس کسی کی امانت ہو اس پر لازم ہے کہ وہ امانت والے کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے لوٹا دے، اگر کوئی نکٹا اور سیاہ فام حبشی غلام بھی تمہارا امیر بنا دیا جائے اور وہ کتاب اللہ ( قرآن مجید) کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو تم پر اس کی اطاعت لازم ہے۔"

"اے لوگو! مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ تم سے پہلے بہت سی قومیں مذہب میں غلو کے سبب برباد ہو گئیں، اے لوگو! اب شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ اس سرزمین پر اس کی پرستش کی جائے گی، لیکن طہارت کے سوا دوسرے معاملات میں اپنے پست افعال کے ذریعہ اس کی فرمانبرداری کی گئی تو وہ اس پر بھی راضی رہے گا، تم اپنے دین کو اس کے شر سے بچا کر رکھنا۔"

"خبر دار! اپنے رب کی عبادت کرتے رہو، پنچ وقتہ نمازوں کی پابندی کرو، رمضان کے روزے رکھو، اپنے اموال کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرتے رہو، اپنے رب کے گھر ( بیت اللہ) کا طواف کرو، اپنے امراء کے حکم کی پیروی کرو، اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔"

"اے لوگو! نسی کفر کی زیادتی کا سبب ہے، اس کے ذریعہ کفار گمراہ ہوتے ہیں، وہ ایک سال حرام مہینوں کو حلال کرلیتے اور دوسرے سال انہی کو حرام قرار دے لیتے تھے تا کہ اس طرح حرام مہینوں کی گنتی پوری کریں لیکن اب زمانہ اپنی اس ابتدائی حالت پر لوٹ آیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا، اللہ کے نزدیک سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین مہینے مسلسل ہیں( ذی قعدہ ، ذی الحجہ، محرم )اور ایک ماہ رجب ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان واقع ہے۔"

خطبہ ختم ہوا ، آپﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ اذان دیں، اقامت کے بعد دو رکعت نماز ظہر ادا فرمائی، قرأت آہستہ پڑھی حالانکہ وہ جمعہ کا دن تھا، مسافر ہونے کی وجہ سے جمعہ نہیں پڑھا ، دوسری اقامت پر عصر بھی قصر کر کے پڑھی، یہ جمع " تقدیم " کہلاتی ہے۔

پھر آپﷺ نے "اے معاشر المسلمین" کہہ کر فرمایا کہ:

"تین باتیں سینہ کو پاک رکھتی ہیں ، ایک اعمال میں اخلاص ، دوسرے مسلمان بھائیوں کی خیر خواہی اور تیسری بات جماعت المسلمین کا اتحاد" ، کچھ لوگ لبیک اور کچھ اللہ اکبر کہتے رہے، عرفہ کا دن تکبیراور تلبیہ پر ختم ہوا۔ (سیرت احمد مجتبیٰ).

آنحضرت ﷺ نے فرمایا :

"لوگو ! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے لہٰذا حج کرو ، کسی نے پوچھا، کیا ہر سال حج کریں؟ آپﷺ نے خاموشی اختیار کی، اس شخص نے تین بار یہی سوال دُہرایا، کچھ دیر توقف کر کے فرمایا : اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہو جاتا اور تم ادا نہ کر پاتے، میں جب تمہیں چھوڑے رکھوں تو تم بھی مجھے چھوڑ دیا کرو ، تم سے پہلے والے اسی لئے ہلاک ہو گئے کہ انھوں نے انبیاء سے بہ کثرت سوال کئے اور پھر ان سے اختلاف کیا، ایک شخص نے پوچھا … مَحرم کونسے کپڑے پہنے ، فرمایا : محرم قمیص پہنے نہ عمامہ باندھے، ٹوپی پہنے نہ موزے ، جوتیاں میسر نہ ہوں تو موزے کاٹ کر ٹخنوں کے نیچے کر لے، تہہ بند نہ ہو تو پائجامہ پہن سکتا ہے، زعفران یا ورس سے رنگا کر کپڑا نہ پہنے، قبیلہ جہینیہ کی ایک عورت نے پوچھا … میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن فوت ہو گئی، کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ فرمایا : ہاں ، اگر اس پرقرض ہوتا تو کیا تم ادا نہ کرتیں؟ اللہ اپنے حق کی ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔"

حضرت میمونہؓ اور اُم الفضل ؓ نے دودھ کا ایک پیالہ بھیجا ، آپﷺ نے اونٹ پر بیٹھے بیٹھے پی لیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ روزے سے نہیں ہیں، فرمایا : میں نے یہاں وقوف کیا ہے لیکن عرفات سارا جائے وقوف ہے سوائے بطن عرفہ کے، عرفات میں ایک شخص اونٹ سے گرا اور اونٹ نے کچل کر ہلاک کر دیا، آپﷺ نے فرمایا: اسے بیری کے پتوں میں ابلے پانی سے غسل دو، احرام ہی کا کفن دو ، نہ خوشبو لگاؤ نہ سر ڈھانپو ، بے شک اللہ اس کو قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھائے گا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 284 حجۃ الوداع: ۸ / ذی الحجہ:   ۸    ذی الحجہ ۱۰ ہجری بروزاتوار یوم ترویہ کو سب نے مقام ابطح میں...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 283


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 283

طواف و سعی:

آنحضرت ﷺ نے وضو فرما کر احرام کی چادر کو بغل سے نکالا، حجر اسود کو بوسہ دیا، طواف شروع کیا تو تین چکر دوڑ کے ساتھ اور چار چکر معمولی رفتار کے ساتھ مکمل فرمائے ، ہر چکر میں حجر اسود کا استلام (بوسہ دینا ) کیا اور رکن یمانی کوچھوا ، حجر اسود کے استلام کے سلسلہ میں یہ روایت ہے کہ جب آپﷺ حجر اسود کے سامنے آئے تو محجن ( ایک عصا جس کا سر ٹیڑھا تھا ) سے اشارہ فرمائے اور محجن کے سر کو بوسہ دئیے، کبھی ہاتھ سے چھو کر ہاتھ کو بوسہ دیتے ، کبھی لبِ مبارک کو سنگ اسود پر رکھ کر بوسہ دیتے ، اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ بیماری کی وجہ سے طواف نہ کرسکتی تھیں ، فرمایا تم سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے طواف کرو، جب آپﷺ مقام ابراہیم پر تشریف لائے تو سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۵ پڑھی:

(ترجمہ) " مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ " ( سورۂ بقرہ : ۱۲۵ )

مقام ابراہیم پر آپﷺ نے دو رکعت نماز ادا فرمائی ، پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ احد کی تلاوت فرمائی، نماز کے بعد حجر اسود کو بوسہ دیا ، کوہ صفا کی جانب واقع دروازہ باب بنی مخزوم سے باہر تشریف لے گئے اور سورۂ بقرہ کی آیت ۱۵۸ تلاوت فرمائی۔

(ترجمہ ) " بے شک صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں" ( سورۂ بقرہ : ۱۵۸ )

ارشاد فرمایا:

ہم طواف اسی پہاڑ ی سے شروع کرتے ہیں ، صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر بیت اللہ کی طرف رخ کیا اور اللہ تعالیٰ کی توحید و کبریائی بیان فرمائی، پھر دعا مانگی اور یہ عمل تین بار دُہرایا ، صفا سے مروہ کی طرف سعی شروع کی ، ابن سعد کا بیان ہے کہ آپﷺ نے سواری پر سعی کی لیکن قسطلانی نے لکھا ہے کہ آپﷺ نے پہلے پیدل سعی فرمائی اور جب ہجوم بڑھ گیا تو اونٹنی پر سوار ہوگئے ، مروہ کی پہاڑیوں پر پہنچ کر وہی عمل کیا جو صفا پر کیا تھا، ساتویں چکر پر مروہ پر پہنچ کر آپﷺ نے فرمایا :

جس شخص کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو اب وہ احرام کھول دے ، حضرت سراقہؓ بن جعشم نے کھڑے ہوکر عرض کیا ، یہ( حج تمتع ) ہمیشہ کے لئے ہے یا اسی سال کے لئے ، آپﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کرتے ہوئے دو مرتبہ فرمایا ، قیامت تک کے لئے، عمرہ ایام حج میں داخل ہوگیا، حج تمتع کرنے والوں میں جن کو قربانی کا جانور میسر نہ ہو ان کے لئے ہدایت فرمائی کہ وہ ایام حج میں تین روزے رکھیں اور باقی سات روزے اپنے گھر وں کو جا کر رکھیں ، ایام جاہلیت میں حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا ، ذی الحجہ کے مہینہ میں عمرہ کرنے کا حکم دیا تو بہت لوگوں کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی۔

سعی ختم ہونے کے بعد مروہ سے اتر کر آپﷺ نے مکہ کے باہر چار دن یعنی اتوار ، پیر ، منگل اور چہارشنبہ قیام فرمایا، اسی دوران نماز یں قصرکر کے ادا فرمائیں۔
زمانہ قدیم سے حج کے موسم میں مکہ کے قریب عکاظ ، مجنّہ اور ذرالمجاز میں بازار لگا کرتے تھے اور خوب تجارت ہوتی تھی، صحابہ ؓ کرام نے ان دنوں تجارت کو گناہ سمجھا تو اللہ تعالیٰ نے اس غلط فہمی کو دور فرمایا اور سورۂ بقرہ کی آیت ۱۹۸ نازل ہوئی :

( ترجمہ) "اگر موسم حج میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو ( یعنی تجارت) تو تم پر کوئی گناہ نہیں"

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 283 طواف و سعی: آنحضرت ﷺ نے وضو فرما کر احرام کی چادر کو بغل سے نکالا، حجر اسود کو بوسہ دیا، طوا...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 282


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 282

مکہ میں داخلہ:

پیدل لوگوں کی سہولت کی خاطر یہ سفر (۹) دن میں طے ہوا ، حضورﷺ کی اونٹنی پر ایک بوسیدہ پالان جس کے نیچے چادر تھی جس کی قیمت چار درہم سے زیادہ نہ تھی، حضورﷺ کا اور حضرت ابو بکرؓ کا سامان ایک ہی اونٹ پر تھا جو حضرت ابو بکرؓ کے غلام کے پاس تھا، مقام عرج پر غلام نے کہا کہ اونٹ گم ہوگیا، یہ سن کر حضرت ابو بکر ؓ اسے مارنے لگے تو حضور ﷺ نے مسکرا کر فرمایا: اس محرم کو دیکھو یہ کیا کر رہا ہے ؟

اونٹ کے گم ہونے کی اطلاع قبیلہ بنی اسلم کے لوگوں کو ملی تو چھوارے اور روغن لائے ، آپﷺ نے حضرت ابو بکرؓ کو یاد کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طیب غذا فراہم کردی ہے، سب نے سیر ہوکر کھایا ، حضرت صفوانؓ بن معطل جو اس قافلہ کے مقدمہ پر مامور تھے حاضر ہوئے اور پوچھا : کیا آپﷺ کی کوئی چیز گم ہوگئی ہے ؟ فرمایا: ہاں یہ سامان والا اونٹ ، عرض کیا کہ وہ مل گیا ہے ، حضرت ابو بکرؓ نے جاکر دیکھا تو تمام سامان موجود تھا بجز ایک پیالے کے، غلام نے کہا کہ وہ میرے پاس ہے۔

ابطح کے مقام پر حضور ﷺ نے چمڑے کے سُرخ خیمہ میں آرام فرمایا ، حضرت بلالؓ نے ایک نیزہ بطور سترہ گاڑ دیا، حضور ﷺ خیمہ سے بر آمد ہوئے، آپﷺ نے سرخ لباس زیب تن کر رکھا تھا، تہہ بند اونچا تھا اور پنڈلیاں نظر آرہی تھیں پہلے ظہر اور عصر کی قصر نماز پڑھائی اور وہاں سے روانہ ہوئے، مکہ کے قریب ذی طویٰ میں زاہر کے چشموں کے پاس گھاٹیوں میں رات کو آرام فرمایا، دوسرے روز یعنی ۴ ذی الحجہ کو فجر کی نماز کے بعد غُسل فرمایا اور ثنیتہ الصلبا کی بلند گھاٹی سے جسے کدا اور حجون بھی کہتے ہیں دن کے وقت مکہ میں داخل ہوکر باب بنی شیبہ پر پہنچے ، فتح مکہ کے روز بھی آپﷺ اس راستہ سے داخل ہوئے تھے، بنی عبدالمطلب کے بچے استقبال کے لئے دوڑتے ہوئے آئے تو آپﷺ نے ایک بچے کو اونٹ کے آگے اور ایک بچہ کو اونٹ کے پیچھے بٹھا لیا ، جب آپﷺ کی نظر کعبۃ اللہ پر پڑی تو دونوں ہاتھ بلند کر کے فرمایا:

" اے اللہ ! اس گھر کی تشریف و تعظیم ، تکریم و ہییت میں اضافہ فرما، جو شخص اس گھر کو شرف و عظمت دے اور اس کا حج و عمرہ کرے تو اس تشریف ، تکریم و تعظیم اور نیکی میں اضافہ فرما "

اس کے بعد اعلان کیا گیا کہ جس شخص نے عمرہ کا احرام باندھا ہو اور ہدی (قربانی کا جانور) نہ لایا ہو اسے چاہیے کہ عمرہ کر کے احرام کھول دے اور جس کے ساتھ  ہدی ہو وہ جانور کے ذبح ہونے تک احرام نہ کھولے ، جس نے صرف حج کا احرام باندھا ہو وہ اس کو عمرہ میں تبدیل کرے ، قربانی کے سلسلہ میں حکم ہوا کہ اونٹ اور گائے میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔

اس موقع پر حضور اکرم ﷺ نے عمرہ کا طریقہ بیان فرمایا کہ پہلے کعبہ کا طواف کریں ، پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کریں ، جن لوگوں کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں ہے وہ بال منڈوائیں یا کتر وائیں اور احرام کھول دیں ، اب ان پر احرام کی پابندی نہ ہوگی ، ۸ ذی الحجہ یوم ترویہ کو حج تمتع کا احرام باندھیں ، جن کے ساتھ  ہدی (قربانی کا جانور ) ہے وہ احرام نہ کھولیں ، ان پر پابندیاں رہیں گی۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 282 مکہ میں داخلہ: پیدل لوگوں کی سہولت کی خاطر یہ سفر (۹) دن میں طے ہوا ، حضورﷺ کی اونٹنی پر ا...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 281


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 281

مدینہ سے روانگی:

ابن سعد نے لکھا کہ ۲۵ ذیقعدہ بروز شنبہ آپﷺ روانہ ہوئے، حافظ ابن حجر نے اس کی بہت عمدہ تحقیق کی ہے۔ اور بعض روایات میں جو یہ آیا ہے کہ ذیقعدہ کے پانچ دن باقی تھے، تب آپ روانہ ہوئے اس کی تصحیح بھی کی ہے۔ دیکھئے فتح الباری ۸/۱۰۴

تمام ازواج مطہرات ساتھ تھیں، مدینہ میں حضرت ابو دجانہؓ ساعدی کو اور بروایت دیگر حضرت سباؓع بن عرفطہ غفاری کو نائب مقرر فرمایا، بالو ں میں کنگھی کی۔ تیل لگایا۔ تہبند پہنا، چادر اوڑھی، قربانی کے جانوروں کو قَلادَہ پہنایا۔ اور ظہر کے بعد کوچ فرمایا۔ اور عصر سے پہلے ذو الحلیفہ پہنچ گئے۔ وہاں عصر کی نماز دو رکعت پڑھی۔ اور رات بھر خیمہ زن رہے۔ صبح ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : رات میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والے نے آکر کہا : اس مبارک وادی میں نماز پڑھو۔ اور کہو: حج میں عمرہ ہے۔ ( اسے بخاری نے حضرت عمرؓ سے روایت کیا ہے۔ ۱/۲۰۷)۔

پھر ظہر کی نماز سے پہلے آپ ﷺ نے اِحْرام کے لیے غسل فرمایا۔ اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے آپﷺ کے جسمِ اطہر اور سرَ مبارک میں اپنے ہاتھ سے ذَرِیْرَہ اور مُشک آمیز خوشبو لگائی۔ خوشبو کی چمک آپﷺ کی مانگ اور داڑھی میں دکھائی پڑتی تھی۔ مگر آپﷺ نے یہ خوشبو دھوئی نہیں۔ بلکہ برقرار رکھی، پھر اپنا تہبند پہنا، چادر اوڑھی اور دو رکعت ظہر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھتے ہوئے صدائے لَبَّیک بلند کی۔ پھر باہر تشریف لائے۔ قَصْوَاء اُونٹنی پر سوار ہوئے۔ اور دوبارہ صدائے لبیک بلند کی۔ اس کے بعد اُونٹنی پر سوار کھلے میدان میں تشریف لے گئے تو وہاں بھی لبَّیک پُکارا۔

صحیح بخاری کی روایت ہے کہ احرام باندھنے کے بعد حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ قربانی کا جانور ساتھ لائے ہیں وہ حج اور عمرہ دونوں کی نیت کر لیں اور احرام اس وقت تک نہ کھولیں جب تک یہ دونوں کام انجام نہ دیں، مسعودی نے اونٹوں کی تعداد (۶۰) لکھی ہے، قربانی کے جانور حضرت ناجیہ ؓ بن جندب کے حوالے کئے گئے۔

ازواج مطہرات میں (۹) بیویاں اور صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہؓ ساتھ تھیں، اثنائے سفر میں حضرت ابو بکرؓ کی زوجہ اسماءؓ بنت عمیس کے ہاں ذو الحلیفہ میں لڑکا تولد ہوا جس کا نام محمد بن ابو بکر رکھا گیا، مکہ سے ۶ تا ۱۲ میل کے دوران مقام سرف پر پہنچے تو حضرت عائشہؓ حائضہ تھیں ، انھوں نے روتے ہوئے حضور ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اب میں عمرہ کرسکوں گی یا نہیں ، آپﷺ نے فرمایا یہ تو آدم ؑ کی تمام بیٹیوں پر لازم ہے اس لئے وہ سارے کا م کرو جو ہر حاجی کرتا ہے بجز طواف کے، سر کھول کر بالوں میں کنگھی کرو اور عمرہ کو رہنے دو ، حج کی نیت سے احرام باندھ لو ، جب حج سے فارغ ہو چکیں تو حضرت عائشہؓ کو ان کے بھائی عبدالرحمن کے ساتھ تنعیم ( مکہ کی میقات ) پر عمرہ کا احرام باندھنے بھیجا، حضور ﷺ نے فرمایا ، یہ عمرہ اس کے بدلہ میں ہے جو تم نے حیض کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔

حضور ﷺ نے مکہ جانے کے لئے وہ راستہ اختیار فرمایا جس میں شجرہ نام کا مقام آتا ہے، مسجد شجرہ میں آپﷺ نے نماز ادا فرمائی، فتح مکہ کے سفر میں آپﷺ نے جن جن مقامات پر نمازیں ادا فرمائی تھیں وہاں مساجد تعمیر کر لی گئی تھیں، آپﷺ نے وہاں نمازیں پڑھیں، اس موقع پر چاروں طرف آدمی ہی آدمی دکھائی دے رہے تھے۔

حضرت عقبہؓ بن عامر کی بہن نے پیدل حج کی نذر مانی تھی، انھوں نے آپﷺ سے پوچھا تو فرمایا: پیدل بھی چلو اور سوار بھی ہو جاؤ، ایک بوڑھے شخص نے بھی پیدل حج کی نذر مانی تھی اور وہ اپنے دو بیٹوں کے درمیان سہارے سے چل رہا تھا، جب حضور ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا: اس سے کہو کہ سوار ہوجائے، اللہ تعالیٰ اس کی مشقت سے بے نیاز ہے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 281 مدینہ سے روانگی: ابن سعد نے لکھا کہ ۲۵ ذیقعدہ بروز شنبہ آپﷺ روانہ ہوئے، حافظ ابن حجر نے اس ک...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 280


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 280

حجة الوداع:

دعوت وتبلیغ کا کام پورا ہوگیا۔ اور اللہ کی الوہیت کے اثبات، اس کے ماسوا کی الوہیت کی نفی اور محمد رسول اللہﷺ کی رسالت کی بنیاد پر ایک نئے معاشرے کی تعمیر وتشکیل عمل میں آگئی۔ اب گویا غیبی ہاتف آپ کے قلب وشعور کو یہ احساس دلارہا تھا کہ دنیا میں آپﷺ کے قیام کا زمانہ اختتام کے قریب ہے ، چنانچہ آپﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو ۱۰ ھ میں یمن کا گورنر بنا کر روانہ فرمایا تو رخصت کرتے ہوئے منجملہ اور باتوں کے فرمایا : اے معاذ! غالباً تم مجھ سے میرے اس سال کے بعد نہ مل سکو گے۔ بلکہ غالباً میری اس مسجد اور میری اس قبر کے پاس سے گزرو گے۔ اور حضرت معاذؓ یہ سن کر رسول اللہﷺ کی جدائی کے غم سے رونے لگے۔

درحقیقت اللہ چاہتا تھا کہ اپنے پیغمبرﷺ کو اس دعوت کے ثمرات دکھلا دے جس کی راہ میں آپﷺ نے بیس برس سے زیادہ عرصہ تک طرح طرح کی مشکلات اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔ اور اس کی صورت یہ ہو کہ آپﷺ حج کے موقع پر اطرافِ مکہ میں قبائلِ عرب کے افراد و نمائندگان کے ساتھ جمع ہوں۔ پھر وہ آپﷺ سے دین کے احکام وشرائع حاصل کریں۔ اور آپﷺ ان سے یہ شہادت لیں کہ آپﷺ نے امانت ادا کردی۔ پیغام ِ رب کی تبلیغ فرمادی۔ اور امّت کی خیر خواہی کا حق ادا فرما دیا۔

اس مَشیّتِ ایزدی کے مطابق نبیﷺ نے جب اس تاریخی حجِ مبرور کے لیے اپنے ارادے کا اعلان فرمایا۔ تو مسلمانانِ عرب جوق درجوق پہنچنا شروع ہوگئے۔ ہر ایک کی آرزو تھی کہ وہ رسول اللہﷺ کے نقشِ پا کو اپنے لیے نشانِ راہ بنائے۔ اور آپﷺ کی اقتداء کرے۔ یہ بات صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے۔ دیکھئے باب حجۃ النبیﷺ ۱/۳۹۴۔

تاریخ نے اس یاد گار حج کو چار ناموں سے موسوم کیا ہے ، حجۃ البلاغ ، حجۃ الاسلام ، حجۃ الوداع، اور حجۃ الاتمام و الکمال ، اسے حجتہ الوداع کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ حضور ﷺنے صاف صاف فرما دیا تھا:

" مجھ سے مناسک حج سیکھ لو ، میں آئندہ سال شاید حج نہ کرسکوں''

دوسری وجہ یہ ہے کہ آپﷺ لوگوں سے رخصت ہوگئے یا انہیں رخصت کر دیا ، اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے کوئی حج نہیں کیا اور (۹۱) دن بعد سفر آخرت فرمایا، حجتہ البلاغ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس خطاب میں قولاً اور مناسک میں فعلاً شریعت عوام الناس تک پہنچا دی گئی اور انھوں نے بہ یک زبان اس کی شہادت دی، اس حج کو حجتہ الاسلام اس لئے کہا گیا کہ اسلام کے تمام دائمی قوانین کی تشریح فرما دی، حج فرض ہونے کے بعد یہ آپﷺ کا پہلا اور آخری حج تھا ، حجتہ الاتمام والکمال اس لئے کہا گیا کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے تکمیل دین کی آیت نازل فرمائی، حضرت عبدا للہؓ بن عباس اسے حجتہ الوداع کی بہ نسبت حجتہ الاسلام کہنا زیادہ پسند کرتے تھے۔

آپﷺ کے ارادۂ حج کی اطلاع پر بے شمار لوگ مدینہ میں جمع ہوگئے ، بعض مقامات پر چیچک کی وباء نے لوگوں کو شرکت سے محروم رکھا، کچھ قبائل کے لوگ راستہ میں شامل ہوگئے اور یمن کے لوگوں نے مکہ آکر شمولیت اختیار کرلی، حجتہ الوداع میں شرکاء کی تعداد کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں یعنی (۹۰) ہزار ‘ ایک لاکھ چودہ ہزار اور ایک لاکھ چوبیس ہزار، زرقانی نے ایک لاکھ تیس ہزار لکھی ہے؛ لیکن عام طور پر ایک لاکھ چودہ ہزار کہا جاتا ہے ۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 280 حجة الوداع: دعوت وتبلیغ کا کام پورا ہوگیا۔ اور اللہ کی الوہیت کے اثبات، اس کے ماسوا کی الوہی...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 279


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 279

دعوت کی کامیابی اور اس کے اثرات:

اب ہم رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام کے تذکرہ تک پہنچ رہے ہیں۔ لیکن اس تذکرہ کے لیے رہوار قلم کو آگے بڑھانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ذرا ٹھہر کر آپﷺ کے اس جلیل الشان عمل پر ایک اجمالی نظر ڈالیں، جو آپ کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ اور جس کی بناء پر آپﷺ کو تمام نبیوں اور پیغمبروں میں یہ امتیازی مقام حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سر پر اوّلین وآخرین کی سیادت کا تاج رکھ دیا۔ آپﷺ سے کہا گیا کہ:

يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ﴿١﴾ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٢﴾ (۷۳: ۱،۲)

''اے چادر پوش ! رات میں کھڑا ہو مگر تھوڑ ا''

اور

يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ‌ ﴿١﴾ قُمْ فَأَنذِرْ‌ ﴿٢﴾ (۷۴: ۱، ۲)

''اے کمبل پوش ! اٹھ اور لوگوں کو سنگین انجام سے ڈرا دے۔''

پھر کیا تھا؟ آپﷺ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور اپنے کاندھے پر اس روئے زمین کی سب سے بڑی امانت کا بارِ گراں اٹھائے مسلسل کھڑے رہے۔ یعنی ساری انسانیت کا بوجھ ، سارے عقیدے کا بوجھ ، اورمختلف میدان میں جنگ وجہاد اور تگ وتاز کا بوجھ۔

آپؑ نے اس انسانی ضمیر کے میدان میں جنگ وجہاد اورتگ وتاز کا بوجھ اٹھایا جو جاہلیت کے اوہام و تصورات کے اندر غرق تھا۔ جسے زمین اور اس کی گونا گوں کشش کے بار نے بوجھل کر رکھا تھا۔ جو شہوات کی بیڑیوں اور پھندوں میں جکڑا ہوا تھا۔ اور جب اس ضمیر کو اپنے بعض صحابہ کی صورت میں جاہلیت اور حیات ِ ارضی کے تہہ در تہہ بوجھ سے آزاد کر لیا تو ایک دوسرے میدان میں ایک دوسرا معرکہ، بلکہ معرکوں پر معرکے شروع کردیے۔ یعنی دعوت ِ الٰہی کے وہ دشمن جو دعوت اور اس پر ایمان لانے والوں کے خلاف ٹوٹے پڑ رہے تھے ، اور اس پاکیزہ پودے کو پنپنے ، مٹی کے اندر جڑ پکڑنے ، فضا میں شاخیں لہرانے ، اور پھلنے پھولنے سے پہلے اس کی نمود گاہ ہی میں مار ڈالنا چاہتے تھے۔ ان دشمنانِ دعوت کے ساتھ آپ نے پیہم معرکہ آرائیاں شروع کیں۔ اور ابھی آپﷺ جزیرۃ العرب کے معرکوں سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ رُوم نے اس نئی امّت کو دبوچنے کے لیے اس کی سرحدوں پر تیاریاں شروع کردیں۔

پھر ان تمام کارروائیوں کے دوران ابھی پہلا معرکہ ... یعنی ضمیر کا معرکہ ... ختم نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ یہ دائمی معرکہ ہے۔ اس میں شیطان سے مقابلہ ہے۔ اور وہ انسانی ضمیر کی گہرائیوں میں گھس کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ اور ایک لحظہ کے لیے ڈھیلا نہیں پڑتا۔ محمدﷺ دعوت الی اللہ کے کام میں جمے ہوئے تھے۔ اور متفرق میدان کے پیہم معرکوں میں مصروف تھے۔ دنیا آپﷺ کے قدموں پر ڈھیر تھی۔ مگر آپﷺ تنگی وترشی سے گزر بسر کررہے تھے۔ اہلِ ایمان آپﷺ کے گرداگرد امن وراحت کا سایہ پھیلا رہے تھے۔ مگر آپﷺ جہد ومشقت اپنائے ہوئے تھے۔ مسلسل اور کڑی محنت سے سابقہ تھا۔ مگر ان سب پر آپﷺ نے صبر جمیل اختیار کر رکھا تھا۔ رات میں قیام فرماتے تھے۔ اپنے رب کی عبادت کرتے تھے۔ اس لئے قرآن کی آیات ٹھہر ٹھہر کر قراءت کرتے تھے۔ اور ساری دنیا سے کٹ کر اس کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے، جیساکہ آپﷺ کو حکم دیا گیا تھا۔
(سید قطبؒ فی ظلال القرآن ۲۹/۱۶۸، ۱۶۹)

اس طرح آپﷺ نے مسلسل اور پیہم معرکہ آرائی میں بیس برس سے اوپر گزار دیے۔ اور اس دوران آپﷺ کو کوئی ایک معاملہ دوسرے معاملے سے غافل نہ کرسکا۔ یہاں تک کہ اسلامی دعوت اتنے بڑے پیمانے پر کامیاب ہوئی کہ عقلیں حیران رہ گئیں۔ سارا جزیرۃ العرب آپﷺ کے تابع فرمان ہوگیا۔ اس کے افق سے جاہلیت کا غبار چھٹ گیا۔ بیمار عقلیں تندرست ہوگئیں۔ یہاں تک کہ بتوں کو چھوڑ بلکہ توڑ دیا گیا۔ اور توحید کی آوازوں سے فضا گونجنے لگی۔ اور ایمانِ جدید سے حیات پائے ہوئے صحرا کا شبستانِ وجود اذانوں سے لرز نے لگا۔ اور اس کی پہنائیوں کو اللہ اکبر کی صدائیں چیر نے لگیں۔ قراء، قرآن مجید کی آیتیں تلاوت کرتے اور اللہ کے احکام قائم کرتے ہوئے شمال وجنوب میں پھیل گئے۔

بکھری ہوئی قومیں اور قبیلے ایک ہوگئے۔ انسان ، بندوں کی بندگی سے نکل کر اللہ کی بندگی میں داخل ہوگیا۔ اب نہ کوئی قاہر ہے نہ مقہور ، نہ مالک ہے نہ مملوک ، نہ حاکم ہے نہ محکوم ، نہ ظالم ہے نہ مظلوم ، بلکہ سارے لوگ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور اللہ کے احکام بجالاتے ہیں۔ اللہ نے ان سے جاہلیت کا غرور ونخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کردیا ہے۔ اب عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر ، گورے کو کالے پر ، کالے کو گورے پر کوئی برتری نہیں۔ برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ ورنہ سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے تھے۔

غرض اس دعوت کی بدولت عربی وحدت ، انسانی وحدت ، اور اجتماعی عدل وجود میں آگیا۔ نوعِ انسانی کو دنیاوی مسائل اور اخروی معاملات میں سعادت کی راہ مل گئی۔ بالفاظ دیگر زمانے کی رفتار بدل گئی ، روئے زمین متغیر ہوگیا۔ تاریخ کا دھارا مڑ گیا، اور سوچنے کے انداز بدل گئے۔

اس دعوت سے پہلے دنیا پر جاہلیت کی کار فرمائی تھی۔ اس کا ضمیر متعفن تھا اور روح بدبو کررہی تھی۔ قدریں اور پیمانے مُختل تھے۔ ظلم اور غلامی کا دَور دورہ تھا۔ فَاجرانہ خوش حالی اور تباہ کن محرومی کی موج نے دنیا کو تہ وبالا کر رکھا تھا۔ اس پر کفر وگمراہی کے تاریک اور دبیز پردے پڑے ہوئے تھے۔ حالانکہ آسمانی مذاہب واَدْیان موجود تھے۔ مگر ان میں تحریف نے جگہ پالی تھی۔ اور ضُعف سرایت کر گیا تھا۔ اس کی گرفت ختم ہوچکی تھی اور وہ محض بے جان وبے روح قسم کے جامد رسم ورواج کا مجموعہ بن کر رہ گئے تھے۔

جب اس دعوت نے انسانی زندگی پر اپنا اثر دکھایا تو روحِ انسان کو وہم و خرافات ، بندگی وغلامی ، فساد وتعفن اور گندگی وانار کی سے نجات دلائی۔ اور معاشرہ ٔ انسانی کو ظلم وطغیانی ، پراگندگی وبر بادی ، طبقاتی امتیازات ، حکام کے استبداد اور کاہنوں کے رسوا کن تسلط سے چھٹکارا دلایا۔ اور دنیا کو عفّت ونظافت ، ایجادات وتعمیر ، آزادی وتجدّد ، معرفت ویقین ، وثوق وایمان ، عدالت و کرامت اور عمل کی بنیادوں پر زندگی کی بالید گی ، حیات کی ترقی ، اور حقدار کی حق رسائی کے لیے تعمیر کیا۔ (سید قطب درمقدمہ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین ص ۱۴)

ان تبدیلیوں کی بدولت جزیرۃ العرب نے ایک ایسی بابرکت اٹھان کا مشاہدہ کیا۔ جس کی نظیر انسانی وجود کے کسی دور میں نہیں دیکھی گئی۔ اور اس جزیرے کی تاریخ اپنی عمر کے ان یگانہ ٔ روز گار ایام میں اس طرح جگمگائی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں جگمگائی تھی۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 279 دعوت کی کامیابی اور اس کے اثرات: اب ہم رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام کے تذکرہ تک ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 278


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 278

وفود کی ایمانی حالت:

اس طرح ۹ ھ اور ۱۰ ھ میں پے در پے وفود آئے۔ اہلِ سیر نے یمن ، اَزْد، قَضَاعہ کے بنی سعد ہذیْم ، بنی عامر بن قیس ، بنی اسد ، بہرا ، خولان ، محارب، بنی حارث بن کعب ، غامد ، بنی منتفق ، سلامان ، بنی عبس ، مزینہ، مراد، زبید،کندہ ، ذی مرہ ، غسان ، بنی عیش اور نخع کے وفود کا تذکرہ کیا ہے۔ نخع کا وفد آخری وفد تھا محرم ۱۱ ھ کے وسط میں آیا تھا او ر دوسو آدمیوں پر مشتمل تھا۔ باقی بیشتر وفود کی آمد ۹ ھ اور ۱۰ ھ میں ہوئی تھی۔ صرف بعض وفود ۱۱ ھ تک متاخر ہوئے تھے۔

ان وفود کے پے بہ پے آمد سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت اسلامی دعوت کو کس قدر فروغ اور قبولِ عام حاصل ہوچکا تھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اہلِ عرب مدینہ کو کتنی قدر اور تعظیم کی نگاہ سے دیکھتے تھے حتیٰ کہ اس کے سامنے سپر انداز ہونے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں سمجھتے تھے۔ درحقیقت مدینہ جزیرۃ العرب کا دار الحکومت بن چکا تھا۔ اور کسی کے لیے اس سے صرف نظر ممکن نہ تھا۔

البتہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان سب لوگوں کے دلوں میں دین اسلام اثر کر چکا تھا۔ کیونکہ ان میں ابھی بہت سے ایسے اکھڑ بدو تھے جو محض اپنے سرداروں کی متابعت میں مسلمان ہوگئے تھے ورنہ ان میں قتل وغارت گری کا جو رجحان جڑ پکڑ چکا تھا اس سے وہ پاک صاف نہیں ہوئے تھے۔ اور ابھی اسلامی تعلیمات نے انہیں پورے طور پر مہذب نہیں بنایا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم ، سورۂ توبہ میں ان کے بعض افراد کے اوصاف یوں بیان کیے گئے ہیں :

الْأَعْرَ‌ابُ أَشَدُّ كُفْرً‌ا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ‌ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَ‌سُولِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٩٧﴾ وَمِنَ الْأَعْرَ‌ابِ مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ مَغْرَ‌مًا وَيَتَرَ‌بَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ‌ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَ‌ةُ السَّوْءِ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٩٨﴾ (۹: ۹۷، ۹۸)

''اعراب (بدّو ) کفرونفاق میں زیادہ سخت ہیں۔ اور اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ نازل کیا ہے اس کے حدود کو نہ جانیں اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور بعض اعراب جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں۔ اور تم پر گردشوں کا انتظار کرتے ہیں۔ انہی پر بُری گردش ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔''

جبکہ کچھ دوسرے افراد کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے :

وَمِنَ الْأَعْرَ‌ابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُ‌بَاتٍ عِندَ اللَّـهِ وَصَلَوَاتِ الرَّ‌سُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْ‌بَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّـهُ فِي رَ‌حْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ (۹: ۹۹)

''اور بعض اعراب اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ، اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کی قربت اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ان کے لیے قربت کا ذریعہ ہے۔ عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ بیشک اللہ غفور رحیم ہے۔ ''

جہاں تک مکہ ، مدینہ ، ثقیف ، یمن اور بحرین کے بہت سے شہری باشندوں کا تعلق ہے ، تو ان کے اندر اسلام پختہ تھا۔ اور انہی میں سے کبارصحابہ اور سادات مسلمین ہوئے۔
(محاضرات خضری ۱/۱۴۴)

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 278 وفود کی ایمانی حالت: اس طرح ۹ ھ اور ۱۰ ھ میں پے در پے وفود آئے۔ اہلِ سیر نے یمن ، اَزْد، قَض...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 277


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 277

وفد بنی حنیفہ:

یہ وفد ۹ ھ میں مدینہ آیا۔ اس میں مسیلمہ کذاب سمیت سترہ آدمی تھے۔( فتح الباری ۸/ ۸۷) مسیلمہ کا سلسلہ ٔ نسب یہ ہے ، مسیلمہ بن ثمامہ بن کبیر بن حبیب بن حارث - یہ وفد ایک انصاری صحابی کے مکان پر اترا۔ پھر خدمت نبوی میں حاضر ہوکر حلقۂ بگوش اسلام ہوا۔ البتہ مسیلمہ کذاب کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ تمام روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اکڑ ، تکبر اور امارت کی ہوس کا اظہار کیا۔ اور وفد کے باقی ارکان کے ساتھ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہوا۔ نبیﷺ نے پہلے تو قولاً اور فعلاً اچھے اور شریفانہ برتاؤ کے ذریعہ اس کی دلجوئی کرنی چاہی، لیکن جب دیکھا کہ اس شخص پر اس برتائو کا کوئی مفید اثر نہیں پڑا تو آپﷺ نے اپنی فراست سے معلوم کرلیا کہ اس کے اندر شر ہے۔

اس سے قبل نبیﷺ یہ خواب دیکھ چکے تھے کہ آپﷺ کے پاس روئے زمین کے خزانے لاکر رکھ دیے گئے ہیں۔ اور اس میں سے سونے کے دوکنگن آپ کے ہاتھ میں آپڑے ہیں۔ آپ کو یہ دونوں بہت گراں اور رنجیدہ محسوس ہوئے۔ چنانچہ آپﷺ کو وحی کی گئی کہ ان دونوں کو پھونک دیجیے۔ آپﷺ نے پھونک دیا تو وہ دونوں اڑ گئے۔

اس کی تعبیر آپﷺ نے فرمائی کہ آپﷺ کے بعد دوکذاب (پر لے درجے کے جھوٹے ) نکلیں گے۔ چنانچہ جب مسیلمہ کذاب نے اکڑ اور انکار کا اظہار کیا ۔ وہ کہتا تھا کہ اگر محمد نے کاروبارِ حکومت کو اپنے بعد میرے حوالے کرنا طے کیا ، تو میں ان کی پیروی کروں گا، تو رسول اللہﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی ، اور آپﷺ کے ہمراہ آپ کے خطیب حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ تھے۔ مسیلمہ اپنے ساتھیوں کے درمیان موجود تھا۔ آپ ا س کے سر پر جاکر کھڑے ہوئے اور گفتگو فرمائی۔ اس نے کہا : اگر آپ چاہیں تو ہم حکومت کے معاملے میں آپ کو آزاد چھوڑ دیں۔ لیکن اپنے بعد اس کو ہمارے لیے طے فرمادیں۔ آپﷺ نے (کھجور کی شاخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) فرمایا : اگر تم مجھ سے یہ ٹکڑ ا چاہو گے تو تمہیں یہ بھی نہ دوں گا۔ اور تم اپنے بارے میں اللہ کے مقرر کیے ہوئے فیصلے سے آگے نہیں جاسکتے۔ اور اگر تم نے پیٹھ پھیری تو اللہ تمہیں توڑ کر رکھ دے گا۔ اللہ کی قسم ! میں تجھے وہی شخص سمجھتا ہوں جس کے بارے میں مجھے وہ (خواب) دکھلایا گیا ہے جو دکھلایا گیا ہے۔ اور یہ ثابت بن قیس ہیں جو تمہیں میری طرف سے جواب دیں گے۔ اس کے بعد آپ واپس چلے آئے۔( صحیح بخاری باب وفد بنی حنیفہ اور باب قصۃ الاسود العنسی ۲/۶۲۷، ۶۲۸ اور فتح الباری ۸/۸۷تا۹۳)

بالآخر وہی ہوا جس کا اندازہ رسول اللہﷺ نے اپنی فراست سے کرلیا تھا، یعنی مسیلمہ کذاب یمامہ واپس جاکر پہلے تو اپنے بارے میں غور کرتا رہا۔ پھر دعویٰ کیا کہ اسے رسول اللہﷺ کے ساتھ کارِ نبوت میں شریک کرلیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور سجع گھڑ نے لگا۔ اپنی قوم کے لیے زنا اور شراب حلال کردی۔ اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ کے بارے میں یہ شہادت بھی دیتا رہا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ اس شخص کی وجہ سے ا س کی قوم فتنے میں پڑ کر اس کی پیروکار وہم آواز بن گئی۔ نتیجتاً اس کا معاملہ نہایت سنگین ہوگیا۔ اس کی اتنی قدر ومنزلت ہوئی کہ اسے یمامہ کا رحمان کہا جانے لگا۔ اور اب اس نے رسول اللہﷺ کو ایک خط لکھا کہ مجھے اس کام میں آپ کے ساتھ شریک کردیا گیا ہے۔ آدھی حکومت ہمارے لیے ہے اور آدھی قریش کے لیے۔ رسول اللہﷺ نے جوا ب میں لکھا کہ زمین اللہ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور انجام متقیوں کے لیے ہے۔ (زاد المعاد ۳/۱۳ ، ۳۲)

ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ابن نواحہ اور ابن اثال مسیلمہ کے قاصد بن کر نبیﷺ کے پاس آئے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم دونوں شہادت دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ انہوں نے کہا : ہم شہادت دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا : میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ اگر میں کسی قاصد کو قتل کرتا تو تم دونوں کو قتل کردیتا۔ (مسند احمد مشکوٰۃ ۲/۳۴۷)

مسیلمہ کذاب نے ۱۰ ھ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اور ربیع الاول ۱۲ ھ میں بہ عہد خلافتِ صدیقی یمامہ کے اندر قتل کیا گیا۔ اس کا قاتل حضرت وحشی تھا ، جس نے (بحالتِ کفر) حضرت حمزہؓ کو قتل کیا تھا۔

ایک مدعی نبوت تو یہ تھا۔ جس کا انجام یہ ہوا، ایک دوسرا مدعی نبوت اَسْوَد عنسی تھا۔ جس نے یمن میں فساد برپا کر رکھا تھا۔ اسے نبیﷺ کی وفات سے صرف ایک دن اور ایک رات پہلے حضرت فیروزؓ نے قتل کیا۔ پھر آپ کے پاس اس کے متعلق وحی آئی، اور آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس واقعہ سے باخبر کیا۔ اس کے بعد یمن سے حضرت ابو بکرؓ کے پاس باقاعدہ خبر آئی۔
( فتح الباری ۸/۹۳)

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 277 وفد بنی حنیفہ: یہ وفد ۹ ھ میں مدینہ آیا۔ اس میں مسیلمہ کذاب سمیت سترہ آدمی تھے۔( فتح الباری ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 276


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 276

وفد عامر بن صعصعہ اور وفد تجیب:

اس وفد میں اللہ کا دشمن عامر بن طفیل، حضرت لبید کا اخیافی بھائی اربد بن قیس، خالد بن جعفر اور جبار بن اسلم شامل تھے۔ یہ سب اپنی قوم کے سربرآوردہ اور شیطان تھے۔ عامر بن طفیل وہی شخص ہے جس نے بئر معونہ پر ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کرایا تھا۔ ان لوگو ں نے جب مدینہ آنے کا ارادہ کیا تو عامر اور اربد نے باہم سازش کی کہ نبیﷺ کو دھوکا دے کر اچانک قتل کردیں گے۔ چنانچہ جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو عامر نے نبیﷺ سے گفتگو شروع کی اور اربد گھوم کر آپ کے پیچھے پہنچا، اور ایک بالشت تلوار میان سے باہر نکالی، لیکن اس کے بعد اللہ نے اس کا ہاتھ روک لیا۔ اور وہ تلوار بے نیام نہ کر سکا۔ اور اللہ نے اپنے نبی کو محفوظ رکھا۔ نبیﷺ نے ان دونوں پر بد دعا کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واپسی پر اللہ نے اربد اور اس کے اونٹ پر بجلی گرادی۔ جس سے اربد جل مرا۔ اور ادھر عامر ایک سلولیہ عورت کے ہاں اترا ، اور اسی دوران اس کی گردن میں گلٹی نکل آئی۔ اس کے بعد وہ یہ کہتا ہوا مرگیا کہ آہ ! اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی، اور ایک سلولیہ عورت کے گھر میں موت ؟

صحیح بخاری کی روایت ہے کہ عامر نے نبیﷺ کے پاس آکرکہا : میں آپ کو تین باتوں کا اختیار دیتا ہوں:

(۱)آپ کے لیے وادی کے باشندے ہوں اور میرے لیے آبادی کے
(۲) یا میں آپ کے بعد آپ کا خلیفہ ہوں
(۳)ورنہ میں غطفان کو ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار گھوڑیوں سمیت آپ پر چڑھالاؤں گا۔
اس کے بعد وہ ایک عورت کے گھر میں طاعون کا شکار ہوگیا (جس پر اس نے فرطِ غم سے ) کہا : کیا اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی ؟ اور وہ بھی بنی فلاں کی ایک عورت کے گھر میں؟ میرے پاس میرا گھوڑا لاؤ، پھر وہ سوار ہوا ، اور اپنے گھوڑے ہی پر مر گیا۔

وفد تجیب:

یہ وفد اپنی قوم کے صدقات کو، جو فقراء سے فاضل بچ گئے تھے، لے کر مدینہ آیا۔ وفد میں تیرہ آدمی تھے۔ جوقرآن وسنن پوچھتے اور سیکھتے تھے۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے کچھ باتیں دریافت کیں تو آپ نے وہ باتیں انہیں لکھ دیں۔ وہ زیادہ عرصہ نہیں ٹھہرے۔ جب رسول اللہﷺ نے انہیں تحائف سے نوازا تو انہوں نے اپنے ایک نوجوان کو بھی بھیجا۔ جو ڈیرے پر پیچھے رہ گیا تھا۔ نوجوان نے حاضرِ خدمت ہوکر عرض کی : حضور ! اللہ کی قسم ! مجھے میرے علاقے سے اس کے سوا کوئی چیز نہیں لائی ہے کہ آپ اللہ عزوجل سے میر ے لیے یہ دعا فرمادیں کہ وہ مجھے اپنی بخشش ورحمت سے نوازے اور میری مالداری میرے دل میں رکھ دے۔ آپ نے اس کے لیے یہ دعا فرمائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص سب سے زیادہ قناعت پسند ہوگیا۔ اور جب ارتداد کی لہر چلی تو صرف یہی نہیں کہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہا بلکہ اپنی قوم کو وعظ ونصیحت کی تو وہ بھی اسلام پر ثابت قدم رہی پھر اہل وفد نے حجۃ الوداع ۱۰ ھ میں نبیﷺ سے دوبارہ ملاقات کی۔

(جن وفود کا ذکر کیا گیا یا جن کی طرف اشارہ کیا گیا ان کی تفصیل کے لیے دیکھئے : صحیح بخاری ۱/۱۳، ۲/۶۲۶ تا ۶۳۰ ابن ہشام ۲/۵۰۱ تا ۵۰۳ ، ۵۱۰ تا ۵۱۴ ، ۵۳۷تا ۵۴۲، ۵۶۰ تا ۵۶۱ زاد المعاد ۳/۲۶تا ۶۰ ، فتح الباری ۸/۸۳تا ۱۰۳۔ )

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 276 وفد عامر بن صعصعہ اور وفد تجیب: اس وفد میں اللہ کا دشمن عامر بن طفیل، حضرت لبید کا اخیافی ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 275


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 275

وفدِ نجران:

نَجْران۔ مکہ سے یمن کی جانب سات مرحلے پر ایک بڑا علاقہ تھا جو ۷۳ بستیوں پر مشتمل تھا۔ تیز رفتار سوار ایک دن میں پورا علاقہ طے کر سکتا تھا۔ اس علاقہ میں ایک لاکھ مردان جنگی تھے، جو سب کے سب عیسائی مذہب کے پیرو کار تھے) فتح الباری ۸/۹۴)

نجران کا وفد ۹ ھ میں آیا۔ یہ ساٹھ افراد پر مشتمل تھا۔ ۲۴ آدمی اشراف سے تھے۔ جن میں سے تین آدمیوں کو اہل نجران کی سربراہی و سرکردگی حاصل تھی۔ ایک عاقب جس کے ذمہ امارت و حکومت کا کام تھا۔ اور اس کا نام عبد المسیح تھا۔ دوسرا سید جو ثقافی اور سیاسی امور کا نگراں تھا۔ اور اس کا نام ایہم یا شرحبیل تھا۔ تیسرا اسقف ( لاٹ پادری) جو دینی سربراہ اور روحانی پیشوا تھا۔ اس کا نام ابو حارثہ بن علقمہ تھا۔

وفد نے مدینہ پہنچ کر نبیﷺ سے ملاقات کی، پھر آپ نے ان سے کچھ سوالات کیے، اور انہوں نے آپ سے کچھ سوالات کیے۔ اس کے بعد آپﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ اور قرآن حکیم کی آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ اور دریافت کیا کہ آپ مسیح علیہ السلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ اس کے جواب میں رسول اللہﷺ نے اس روز دن بھر توقف کیا۔ یہاں تک کہ آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں :

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَ‌ابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿٥٩﴾ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِ‌ينَ ﴿٦٠﴾ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾ (۳: ۵۹، ۶۰ ، ۶۱ )

''بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے اسے مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے کہا ہوجا تو وہ ہوگیا۔ حق تیرے رب کی طرف سے ہے، پس شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔ پھر تمہارے پاس علم آجانے کے بعد کوئی تم سے اس (عیسیٰ) کے بارے میں حجت کرے تو اس سے کہہ دو کہ آؤ ہم بلائیں اپنے اپنے بیٹوں کو اور اپنی اپنی عورتوں کو اور خود اپنے آپ کو پھر مباہلہ کریں (اللہ سے گِڑ گڑا کر دعاکریں ) پس اللہ کی لعنت ٹھہرائیں جھوٹوں پر۔''

صبح ہوئی تو رسول اللہﷺ نے انہی آیات کریمہ کی روشنی میں انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اپنے قول سے آگاہ کیا۔ اور اس کے بعد دن بھر انہیں غور وفکر کے لیے آزاد چھوڑ دیا لیکن انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ پھر اگلی صبح ہوئی - درآنحالیکہ وفد کے ارکان حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں آپ کی بات تسلیم کرنے اور اسلام لانے سے انکار کر چکے تھے تو رسول اللہﷺ نے انہیں مباہلے کی دعوت دی۔ اور حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما سمیت ایک چادر میں لپٹے ہوئے تشریف لائے۔ پیچھے پیچھے حضرت فاطمہ ؓ چل رہی تھیں۔ جب وفد نے دیکھا کہ آپ واقعی بالکل تیار ہیں تو تنہائی میں جاکر مشورہ کیا۔ عاقب اور سید دونوں نے ایک دوسرے سے کہا : دیکھو مباہلہ نہ کرنا۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ نبی ہے ، اور ہم نے اس سے ملاعنت کرلی تو ہم اور ہمارے پیچھے ہماری اولاد ہرگز کامیاب نہ ہوگی۔ روئے زمین پر ہمارا ایک بال اور ناخن بھی تباہی سے نہ بچ سکے گا۔ آخر کی رائے یہ ٹھہری کہ رسول اللہﷺ ہی کو اپنے بارے میں حکم بنایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ کا جو مطالبہ ہو ہم اسے ماننے کو تیار ہیں۔ اس پیش کش پر رسول اللہﷺ نے ان سے جزیہ لینا منظور کیا۔ اور دو ہزار جوڑے کپڑوں پر مصالحت فرمائی۔ ایک ہزار ماہ رجب میں اور ایک ہزار ماہ صفر میں۔ اور طے کیا کہ ہر جوڑے کے ساتھ ایک اوقیہ ( ایک سو باون گرام چاندی ) بھی ادا کرنی ہوگی۔ اس کے عوض آپ نے انہیں اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ عطا فرمایا۔ اور دین کے بارے میں مکمل آزادی مرحمت فرمائی۔ اس سلسلے میں آپ نے انہیں ایک باقاعدہ نوشتہ لکھ دیا۔ ان لوگوں نے آپ سے گزارش کی، آپ ان کے ہاں ایک امین ( امانت دار ) آدمی روانہ فرمائیں۔ اس پر آپ نے صلح کا مال وصول کرنے کے لیے اس امت کے امین حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کو روانہ فرمایا۔

اس کے بعد ان کے اندر اسلام پھیلنا شروع ہوا۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ سید اور عاقب پلٹنے کے بعد مسلمان ہوگئے۔ پھر نبیﷺ نے ان سے صدقات اور جزیے لانے کے لیے حضرت علیؓ کو روانہ فرمایا اور معلوم ہے کہ صدقہ مسلمانوں ہی سے لیا جاتا ہے۔ فتح الباری ۸/ ۹۴،۹۵ زادا لمعاد ۳/۳۸ تا ۴۱۔ وفد نجران کی تفصیلات میں روایا ت کے اندر خاصا اضطراب ہے اور اسی وجہ سے بعض محققین کا رجحان ہے کہ نجران کا وفد دوبار مدینے آیا۔ لیکن ہمارے نزدیک وہی بات راجح ہے جسے ہم نے اُوپر مختصراً بیان کیا ہے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 275 وفدِ نجران: نَجْران ۔ مکہ سے یمن کی جانب سات مرحلے پر ایک بڑا علاقہ تھا جو ۷۳ بستیوں پر مشتم...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 274


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 274

وفدِ ثقیف کی آمد:

یہ وفد رمضان ۹ھ میں تبوک سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد حاضر ہوا۔ اس قبیلے میں اسلام پھیلنے کی صورت یہ ہوئی کہ رسول اللہﷺ ذی قعدہ ۸ ھ میں جب غزوہ ٔطائف سے واپس ہوئے تو آپ کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اس قبیلے کے سردار عُروہ بن مسعود نے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ پھر اپنے قبیلہ میں واپس جاکر لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ وہ چونکہ اپنی قوم کا سردار تھا، اور صرف یہی نہیں کہ اس کی بات مانی جاتی تھی، بلکہ اسے اس قبیلے کے لوگ اپنی لڑکیوں اور عورتوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتے تھے، اس لیے اس کا خیال تھا کہ لوگ اس کی اطاعت کریں گے۔ لیکن جب اس نے اسلام کی دعوت دی تو اس کی توقع کے بالکل برخلاف لوگوں نے اس پر ہرطرف سے تیروں کی بوچھاڑ کردی اور اسے جان سے مار ڈالا۔ پھر اسے قتل کرنے کے بعد چند مہینے تو یوں ہی مقیم رہے۔ لیکن اس کے بعد انہیں احساس ہوا کہ گرد وپیش کا علاقہ جو مسلمان ہوچکا ہے، اس سے ہم مقابلہ کی تاب نہیں رکھتے۔ لہٰذا انہوں نے باہم مشورہ کرکے طے کیا کہ ایک آدمی کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجیں۔ اور اس کے لیے عَبْدِ یالَیْل بن عَمرو سے بات چیت کی، مگر وہ آمادہ نہ ہوا۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں اس کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا جائے جو عروہ بن مسعود کے ساتھ کیا جاچکا ہے۔ اس لیے اس نے کہا : میں یہ کام اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک میرے ساتھ مزید کچھ آدمی نہ بھیجو۔ لوگوں نے اس کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ حلیفوں میں سے دوآدمی اور بنی مالک میں سے تین آدمی لگا دیے۔ اس طرح کل چھ آدمیوں کا وفد تیار ہوگیا۔ اسی وفد میں حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی بھی تھے جو سب سے زیادہ کم عمر تھے۔

جب یہ لوگ خدمت نبویﷺ میں پہنچے تو آپ نے ان کے لیے مسجد کے ایک گوشے میں ایک قُبہّ لگوایا تاکہ یہ قرآن سن سکیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ سکیں۔ پھر یہ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آتے جاتے رہے اور آپﷺ انہیں اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ آخر ان کے سردار نے سوال کیا کہ آپ اپنے اور ثقیف کے درمیان ایک معاہدہ ٔ صلح لکھ دیں جس میں زنا کاری ، شراب نوشی اور سود خوری کی اجازت ہو۔ ان کے معبود '' لات '' کو برقرار رہنے دیا جائے۔ انہیں نماز سے معاف رکھا جائے اور ان کے بُت خود ان کے ہاتھوں سے نہ تڑوائے جائیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ان میں سے کوئی بھی بات منظور نہ کی۔ لہٰذا انہوں نے تنہائی میں مشورہ کیا مگر انہیں رسول اللہﷺ کے سامنے سپر ڈالنے کے سوا کوئی تدبیر نظر نہ آئی۔ آخر انہوں نے یہی کیا اور اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے حوالے کرتے ہوئے اسلام قبول کرلیا۔ البتہ یہ شرط لگائی کہ ''لات'' کو ڈھانے کا انتظام رسول اللہﷺ خود فرمادیں۔ ثقیف اسے اپنے ہاتھوں سے ہرگز نہ ڈھائیں گے۔ آپﷺ نے یہ شرط منظور کرلی اور ایک نوشتہ لکھ دیا۔ اور عثمان بن ابی العاص ثقفی کو ان کا امیر بنادیا کیونکہ وہی اسلام کو سمجھنے اور دین وقرآن کی تعلیم حاصل کرنے میں سب سے زیادہ پیش پیش اور حریص تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وفد کے ارکان ہر روز صبح خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوتے تھے، لیکن عثمانؓ بن ابی العاص کو اپنے ڈیرے پر چھوڑ دیتے تھے۔ اس لیے جب وفد واپس آکر دوپہر میں قیلولہ کرتا تو حضرت عثمانؓ بن ابی العاص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر قرآن پڑھتے اور دین کی باتیں دریافت کرتے اور جب آپﷺ کو استراحت فرماتے ہوئے پاتے تو اسی مقصد کے لیے حضرت ابو بکرؓ کی خدمت میں چلے جاتے۔ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کی گورنری بابرکت ثابت ہوئی۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد جب خلافت صدیقی میں ارتداد کی لہر چلی اور ثقیف نے بھی مرتد ہونے کا ارادہ کیا تو انہیں حضرت عثمان بن ابی العاصؓ نے مخاطب کر کے کہا :''ثقیف کے لوگو! تم سب سے اخیر میں اسلام لائے ہو۔ اس لیے سب سے پہلے مرتد نہ ہوؤ۔''یہ سن کر لوگ ارتداد سے رک گئے اور اسلام پر ثابت قدم رہے۔

بہرحال وفد نے اپنی قوم میں واپس آکر اصل حقیقت کوچھپائے رکھا اور قوم کے سامنے لڑائی اور مار دھاڑ کا ہوّا کھڑا کیا اور حزن وغم کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام قبول کرلیں اور زنا، شراب اور سُود چھوڑ دیں۔ ورنہ سخت لڑائی کی جائے گی۔ یہ سن کرپہلے تو ثقیف پر نخوتِ جاہلیہ غالب آئی اور وہ دوتین روز تک لڑائی ہی کی بات سوچتے رہے ، لیکن پھر اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور انہوں نے وفد سے گزارش کی کہ وہ پھر رسول اللہﷺ کے پاس واپس جائے اور آپﷺ کے مطالبات تسلیم کرلے۔ اس مرحلے پر پہنچ کر وفد نے اصل حقیقت ظاہر کی اور جن باتوں پر مصالحت ہوچکی تھی ان کا اظہار کیا۔ ثقیف نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔

ادھر رسول اللہﷺ نے لات کو ڈھانے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں چند صحابہؓ کی ایک ذرا سی نفری روانہ فرمائی۔ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ نے کھڑے ہوکر گرز اُٹھایا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: واللہ ! میں ذرا آپ لوگوں کو ثقیف پر ہنساؤں گا۔ اس کے بعد لات پر گرزمار کر خود ہی گرپڑے اور ایڑیاں پٹکنے لگے۔

یہ بناوٹی منظر دیکھ کر اہلِ طائف پر ہول طاری ہوگیا۔ کہنے لگے : اللہ مغیرہ کو ہلا ک کرے ، اسے دیوی نے مار ڈالا۔ اتنے میں حضرت مغیرہؓ اچھل کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا : اللہ تمہارا بُرا کرے۔ یہ تو پتھر اور مٹی کا تماشا ہے۔ پھر انہوں نے دروازے پر ضرب لگائی اور اسے توڑ دیا۔ اس کے بعد سب سے اونچی دیوار پر چڑھے اور ان کے ساتھ کچھ اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی چڑھے۔ پھر اسے ڈھاتے ڈھاتے زمین کے برابر کردیا حتیٰ کہ اس کی بنیاد بھی کھود ڈالی اور اس کا زیور اور لباس نکال لیا۔ یہ دیکھ کر ثقیف دم بخورد رہ گئے۔ حضرت خالدؓ زیور اور لباس لے کر اپنی ٹیم کے ساتھ واپس ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے سب کچھ اسی دن تقسیم فرمادیا اور نبی کی نصرت اور دین کے اعزاز پر اللہ کی حمد کی۔
( زاد المعاد ۳/۲۶، ۲۷، ۲۸، ابن ہشام ۲/۵۳۷ تا ۵۴۲)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 274 وفدِ ثقیف کی آمد: یہ وفد رمضان ۹ھ میں تبوک سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد حاضر ہوا۔ اس قبیلے ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 273


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 273

کعب بن زبیر بن ابی سلمہ کی آمد:

یہ شخص ایک شاعر خانوادے کا چشم وچراغ تھا اور خود بھی عرب کا عظیم ترین شاعر تھا۔ یہ کافر تھا، اور نبیﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا۔ امام حاکم کے بقول یہ بھی ان مجرموں کی فہرست میں شامل تھا جن کے متعلق فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا گیا تھا کہ اگروہ خانہ کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے پائے جائیں تو بھی ان کی گردن مار دی جائے۔ لیکن یہ شخص بچ نکلا۔ ادھر رسول اللہﷺ غزوہ طائف ( ۸ ھ ) سے واپس ہوئے تو کعب کے پاس اس کے بھائی بجیر بن زہیرنے لکھا کہ رسول اللہﷺ نے مکہ کے کئی ان افراد کو قتل کرادیا ہے جو آپﷺ کی ہجو کرتے اور آپﷺ کو ایذائیں پہنچاتے تھے۔

قریش کے بچے کچے شعراء میں سے جس کی جدھر سینگ سمائی ہے نکل بھاگا ہے۔ لہٰذا اگرتمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو رسول اللہﷺ کے پاس اُڑکر آجاؤ، کیونکہ کوئی بھی شخص توبہ کرکے آپ کے پاس آجائے تو آپﷺ اسے قتل نہیں کرتے۔ اور اگر یہ بات منظور نہیں تو پھر جہاں نجات مل سکے نکل بھاگو۔ اس کے بعد دونوں بھائیوں میں مزید خط وکتابت ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں کعب بن زہیر کو زمین تنگ محسوس ہونے لگی۔ اور اسے اپنی جان کے لالے پڑتے نظر آئے۔ اس لیے آخرکار وہ مدینہ آگیا اور جُہینہ کے ایک آدمی کے ہاں مہمان ہوا۔ پھر اسی کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوا تو جُہینی نے اشارہ کیا اور وہ اُٹھ کر رسول اللہﷺ کے پاس جا بیٹھا اور اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ رسول اللہﷺ اسے پہچانتے نہ تھے۔ اس نے کہا :

اے اللہ کے رسول ! کعب بن زہیر توبہ کرکے مسلمان ہوگیا ہے۔ اور آپ سے امن کا خواستگار بن کر آیا ہے تو کیا اگر میں اسے آپ کی خدمت میں حاضر کردوں تو آپﷺ اس کی ان چیزوں کو قبول فرما لیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا : ہاں ! اس نے کہا : میں ہی کعب بن زہیر ہوں۔ یہ سن کر ایک انصاری صحابی اس پر جھپٹ پڑے اور اس کی گردن مارنے کی اجازت چاہی۔ آپﷺ نے فرمایا : چھوڑ دو ، یہ شخص تائب ہوکر اور پچھلی باتوں سے دستکش ہوکر آیا ہے۔
اس کے بعد اسی موقع پر کعب بن زہیر نے اپنا مشہور قصیدہ آپﷺ کو پڑھ کر سنایا۔ جس کی ابتدا یوں ہے :

بانت سعاد فقلبی الیوم متبول
متیم إثرہا، لم یفد ، مکبول

''سعاد دور ہوگئی تو میرا دل بے قرارہے۔ اس کے پیچھے وارفتہ اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے ا س کا فدیہ نہیں دیا گیا۔ ''

اس قصیدے میں کعب نے رسول اللہﷺ سے معذرت کرتے ہوئے اور آپﷺ کی مدح کرتے ہوئے آگے یوں کہا ہے :

نـبـئت أن رسـول اللہ أوعــدنــی والـعـفــو عـند رسول اللہ مأمول
مـہـلا ہداک الذی أعطاک نافلۃ الـ ـقـرآن فـیـہا مـواعیـظ وتفصیــل
لا تأخذن بأقوال الـــوشـاۃ ولــم أذنـب ولـو کـثـرت فـي الأقاویل
لـقــد أقـوم مقامـاً لـــو یقـوم بـہ أرای وأسمـع مـا لـو یسـمع الفیل
لـظـل یـرعـــد إلا أن یـکون لـــہ مـن الـرسول بـإذن اللہ تـنـویــل
حتی وضعت یمینی ما أنــازعـــہ فـی کـف ذی نـقـمات قیلہ القیـل
فـلہـو أخـوف عـنـدی إذ أکلمــہ وقیل: إنـک منســـوب ومسئــول
من ضیغم بضراء الأرض مخـدرۃ فـی بطــن عـثـر غیــل دونـہ غیل
إن الرســول لنـور یستضــاء بـــہ مـہنــد من سیـوف اللہ مسـلـول

''مجھے بتایا گیا ہے کہ اللہ کے رسول نے مجھے دھمکی دی ہے۔ حالانکہ اللہ کے رسول سے درگزر کی توقع ہے۔ آپ ٹھہریں چغل خوروں کی بات نہ لیں - وہ ذات آپ کی رہنمائی کرے جس نے آپ کو نصائح اور تفصیل سے پُر قرآن کا تحفہ دیا ہے- اگر چہ میر ے بارے میں باتیں بہت کہی گئی ہیں ، لیکن میں نے جُرم نہیں کیا ہے۔ میں ایسی جگہ کھڑا ہوں اور وہ باتیں دیکھ اور سن رہا ہوں کہ اگر ہاتھی بھی وہاں کھڑا ہو اور ان باتوں کو سنے اور دیکھے تو تھراتا رہ جائے۔ سوائے اس صورت کے کہ اس پر اللہ کے اذن سے رسول کی نوازش ہو۔ حتی کہ میں نے اپنا ہاتھ کسی نزاع کے بغیر اس ہستی ٔمحترم کے ہاتھ میں رکھ دیا جسے انتقام پر پوری قدرت ہے ، اور جس کی بات بات ہے۔ جب میں اس سے بات کرتا ہوں - درانحالیکہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ تمہاری طرف (فلاں فلاں باتیں ) منسوب ہیں۔ اور تم سے باز پرس کی جائے گی - تو وہ میرے نزدیک اس شیر سے بھی زیادہ خوفناک ہوتے ہیں جس کا کچھار کسی ہلاکت خیزوادی کے بطن میں واقع کسی ایسی سخت زمین میں ہو جس سے پہلے بھی ہلاکت ہی ہو۔ یقینا رسول ایک نور ہیں جن سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ کی تلوار وں میں سے ایک سونتی ہوئی تلوار ہیں۔''

اس کے بعد کعب بن زہیر نے مہاجرین قریش کی تعریف کی۔ کیونکہ کعب کی آمد پر ان کے کسی آدمی نے خیر کے سوا کوئی بات اور حرکت نہیں کی تھی۔ لیکن ان کی مدح کے دوران انصار پر طنز کی، کیونکہ ان کے ایک آدمی نے ان کی گردن مارنے کی اجازت چاہی تھی۔ چنانچہ کہا :

یمشون مشی الجمال الزہر یعصمہم
ضـــرب إذا عـرد السود التنابیل

''وہ (قریش ) خوبصورت، مٹکے اونٹ کی چال چلتے ہیں۔ اور شمشیر زنی ان کی حفاظت کرتی ہے۔ جب کہ ناٹے کھوٹے، کالے کلوٹے لوگ راستہ چھوڑ کر بھاگتے ہیں۔ ''

لیکن جب وہ مسلمان ہوگیا۔ اور اس کے اسلام میں عمدگی آگئی تو اس نے ایک قصیدہ انصار کی مدح میں کہا اور ان کی شان میں اس سے جو غلطی ہوگئی تھی اس کی تلافی کی۔ چنانچہ اس قصیدے میں کہا :

من سرہ کــرم الحیاۃ فلا یـزل في مـقـنب من صالحی الأنصار
ورثـوا المکارم کابراً عن کابر إن الخیــار ہــم بنو الأخیــــار

''جسے کریمانہ زندگی پسند ہو وہ ہمیشہ صالح انصار کے کسی دستے میں رہے۔ انہوں نے خوبیاں باپ داد ا سے ورثہ میں پائی ہے۔ درحقیقت اچھے لوگ وہی ہیں جو اچھوں کی اولاد ہوں۔ ''

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 273 کعب بن زبیر بن ابی سلمہ کی آمد: یہ شخص ایک شاعر خانوادے کا چشم وچراغ تھا اور خود بھی عرب کا ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 272


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 272

مختلف وفود کی آمد:

اہل مغازی نے جن وفود کا تذکرہ کیا ہے ان کی تعداد ستر سے زیادہ ہے لیکن یہاں نہ تو ان کے اِستقصاء کی گنجائش ہے اور نہ ان کے تفصیلی بیان میں کوئی بڑا فائدہ ہی مضمر ہے۔ اس لیے ہم صرف انہی وفود کا ذکر کررہے ہیں جو تاریخی حیثیت سے اہمیت و ندرت کے حامل ہیں۔

قارئین کرام کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اگر چہ عام قبائل کے وفود فتح مکہ کے بعد خدمت نبویﷺ میں حاضر ہونا شروع ہوئے تھے۔ لیکن بعض بعض قبائل ایسے بھی تھے جن کے وفود فتح مکہ سے پہلے ہی مدینہ آچکے تھے۔ یہاں ہم ان کا ذکر بھی کررہے ہیں۔

۱۔ وفد عبد القیس:

اس قبیلے کا وفد دوبار خدمت نبویﷺ میں حاضر ہوا تھا۔ پہلی بار ۵ ھ میں یا اس سے بھی پہلے۔ اور دوسری بار عام الوفود ۹ ھ میں۔ پہلی بار اس کی آمد کی وجہ یہ ہوئی کہ اس قبیلے کا ایک شخص منقذ بن حبان سامان تجارت لے کر مدینہ آیا جایا کرتا تھا۔ وہ جب نبیﷺ کی ہجرت کے بعد پہلی بار مدینہ آیا اور اسے اسلام کا علم ہوا تو وہ مسلمان ہوگیا۔ اور نبیﷺ کا ایک خط لےکر اپنی قوم کے پاس گیا۔ ان لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ اور ان کے ۱۳ یا ۱۴ آدمیوں کا ایک وفد حرمت والے مہینے میں خدمتِ نبوی میں حاضر ہوا۔ اسی دفعہ اس وفد نے نبیﷺ سے ایمان اور مشروبات کے متعلق سوال کیا تھا۔ اس وفد کا سربراہ الاشج العصری تھا۔ جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جنہیں اللہ پسند کرتا ہے: (۱) دوراندیشی اور (۲)بُردباری۔
دوسری باراس قبیلے کا وفد جیساکہ بتایا گیا وفود والے سال میں آیا تھا۔ اس وقت ان کی تعداد چالیس تھی اور ان میں علاء بن جارود عبدی تھا ، جو نصرانی تھا ، لیکن مسلمان ہو گیا اور اس کا اسلام بہت خوب رہا۔ ( شرح صحیح مسلم للنووی۱/۳۳، فتح الباری ۸/۸۵، ۸۶)

2۔ وفد دَوس:

یہ وفد ۷ ھ کے اوائل میں مدینہ آیا۔ اس وقت رسول اللہﷺ خیبر میں تھے۔ آپ پچھلے اوراق میں پڑھ چکے ہیں کہ اس قبیلے کے سربراہ حضرت طُفیل بن عَمرو دوسیؓ اس وقت حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے تھے، جب رسول اللہﷺ مکہ میں تھے۔ پھر انہوں نے اپنی قوم میں واپس جاکر اسلام کی دعوت وتبلیغ کا کام مسلسل کیا لیکن ان کی قوم برابر ٹالتی اور تاخیر کرتی رہی۔ یہاں تک کہ حضرت طفیل ان کی طرف سے مایوس ہوگئے۔ پھر انہوں نے خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ آپ قبیلہ دوس پر بد دعا کردیجیے۔ لیکن آپ نے فرمایا : اے اللہ ! دوس کو ہدایت دے۔ اور آپ کی اس دعا کے بعد اس قبیلے کے لوگ مسلمان ہوگئے۔ اور حضرت طفیل نے اپنی قوم کے ستر یا اسی گھرانوں کی جمعیت لے کر ۷ ھ کے اوائل میں اس وقت مدینہ ہجرت کی جب نبیﷺ خیبر میں تشریف فرماتھے۔ اس کے بعد حضرت طفیل نے آگے بڑھ کر خیبر میں آپ کا ساتھ پکڑ لیا۔

3۔ فروہ بن عَمْرو جذامی کا پیغام رساں:

حضرت فَرْوَہ ، رومی سپاہ کے اندر ایک عربی کمانڈر تھے۔ انہیں رُومیوں نے اپنے حدود سے متصل عرب علاقوں کا گورنر بنا رکھا تھا۔ ان کا مرکز معان (جنوبی اُردن ) تھا اور عملداری گرد وپیش کے علاقے میں تھی۔ انہوں نے جنگ مُوتہ ( ۸ ھ ) میں مسلمانوں کی معرکہ آرائی ، شجاعت اور جنگی پختگی دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔ اور ایک قاصد بھیج کر رسول اللہﷺ کو اپنے مسلمان ہونے کی اطلاع دی۔ تحفہ میں ایک سفید خچر بھی بھجوایا۔ رومیوں کو ان کے مسلمان ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے پہلے تو انہیں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا۔ پھر اختیار دیا کہ یا تو مرتد ہوجائیں یاموت کے لیے تیار رہیں۔ انہوں نے ارتداد پر موت کو ترجیح دی۔ چنانچہ انہیں فلسطین میں عفراء نامی ایک چشمے پر سولی دے کر ان کی گردن مار دی گئی۔( زادالمعاد ۳/۴۵)

5۔ وفد طَی:

اس وفد کے ساتھ عرب کے مشہور شہسوار زید الخیل بھی تھے۔ ان لوگوں نے جب نبیﷺ سے گفتگو کی اور آپ نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اور بہت اچھے مسلمان ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت زید کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے عرب کے جس کسی آدمی کی خوبی بیان کی گئی اور پھر وہ میرے پاس آیا تو میں نے اسے اس کی شہرت سے کچھ کمتر ہی پایا، مگر اس کے برعکس زید الخیل کی شہرت ان کی خوبیوں کو نہیں پہنچ سکی۔ اور آپ نے ان کا نام زید الخیر رکھ دیا۔

6۔ وفد عذرہ:

یہ وفد صفر ۹ ھ میں مدینہ آیا۔ بارہ آدمیوں پر مشتمل تھا۔ اس میں حمزہ بن نعمان بھی تھے۔ جب وفد سے پوچھا گیا کہ آپ کون لوگ ہیں ؟ تو ان کے نمائندے نے کہا : ہم بنوعذرہ ہیں۔ قُصّیِ کے اَخْیافی بھائی۔ ہم نے ہی قصی کی تائید کی تھی۔ اور خزاعہ اور بنوبکر کو مکہ سے نکالا تھا۔ (یہاں) ہمارے رشتے اور قرابت داریاں ہیں۔ اس پر نبیﷺ نے خوش آمدید کہا۔ اور ملک شام کے فتح کیے جانے کی بشارت دی۔ نیز انہیں کاہنہ عورتوں سے سوال کرنے سے منع کیا۔ اور ان ذبیحوں سے روکا جنہیں یہ لوگ (حالت شرک میں ) ذبح کیا کرتے تھے۔ اس وفد نے اسلام قبول کیا اور چند روز ٹھہر کر واپس گیا۔

7۔ وفد بلی:

یہ ربیع الاول ۹ ھ میں آیا۔ اور حلقۂ بگوش اسلام ہو کر تین روز مقیم رہا۔ دوران قیام وفد کے رئیس ابوالضبیب نے دریافت کیا کہ کیا ضیافت میں بھی اجر ہے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہاں ! کسی مالدار یا فقیر کے ساتھ جو بھی اچھا سلوک کروگے وہ صدقہ ہے۔ اس نے پوچھا: مدت ضیافت کتنی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: تین دن۔ اس نے پوچھا : کسی لاپتہ شخص کی گمشدہ بھیڑ مل جائے تو کیا حکم ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ تمہارے لیے ہے۔ یا تمہارے بھائی کے لیے ہے۔ یا پھر بھیڑیے کے لیے ہے۔ اس کے بعد اس نے گمشدہ اونٹ کے متعلق سوال کیا۔ آپﷺ نے فرمایا : تمہیں اس سے کیا واسطہ؟ اسے چھوڑ دو ، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پاجائے۔

8۔ شاہانِ یمن کا خط:

تبوک سے نبیﷺ کی واپسی کے بعد شاہانِ حِمیر یعنی حارث بن عبد کلال ، نعیم بن عبدکلال اور رعین ، ہمدان اور معافر کے سربراہ نعمان بن قیل کا خط آیا۔ ان کا نامہ بر مالک بن مُرّہ رہادی تھا۔ ان بادشاہوں نے اپنے اسلام لانے اور شرک واہلِ شرک سے علیحدگی اختیار کرنے کی اطلاع دے کر اسے بھیجا تھا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے پاس ایک جوابی خط لکھ کر واضح فرمایا کہ اہلِ ایمان کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ آپ نے اس خط میں معاہدین کے لیے اللہ کا ذمہ اور اس کے رسول کا ذمہ بھی دیا تھا ، بشرطیکہ وہ مقررہ جزیہ اداکریں۔ اس کے علاوہ آپﷺ نے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یمن روانہ فرمایا اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو ان کا امیر مقرر فرمایا۔

9۔ وفد ِ ہمدان: 

یہ وفد ۹ ھ میں تبوک سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد حاضرِ خدمت ہوا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے لیے ایک تحریر لکھ کر ، جو کچھ انہوں نے مانگا تھا عطا فرمادیا اور مالک بن نمطؓ کو ان کا امیر مقرر کیا، ان کی قوم کے جو لوگ مسلمان ہوچکے تھے ان کا گورنر بنایا اور باقی لوگوں کے پاس اسلام کی دعوت دینے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کو بھیج دیا۔ وہ چھ مہینے مقیم رہ کر دعوت دیتے رہے لیکن لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ پھر آپﷺ نے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو بھیجا اور حکم دیا کہ وہ خالدؓ کو واپس بھیج دیں۔ حضرت علیؓ نے قبیلہ ٔ ہمدان کے پاس جاکر رسول اللہﷺ کا خط سنایا اور اسلام کی دعوت دی تو سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺ کو ان کے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کی بشارت بھیجی۔ آپ نے خط پڑھا تو سجدے میں گرگئے۔ پھر سر اٹھاکر فرمایا؛ ہمدان پر سلام ، ہمدان پر سلام۔

۱۱۔ وفد بنی فَزَارہ:

یہ وفد ۹ ھ میں تبوک سے نبیﷺ کی واپسی کے بعد آیا۔ اس میں دس سے کچھ زیادہ افراد تھے۔ اور سب کے سب اسلام لاچکے تھے۔ ان لوگوں نے اپنے علاقے کی قحط سالی کی شکایت کی، رسول اللہﷺ منبرپر تشریف لے گئے۔ اور دونوں ہاتھ اٹھاکر بارش کی دعا کی۔ آپ نے فرمایا : اے اللہ ! اپنے ملک اور اپنے چوپایوں کو سیراب کر ، اپنی رحمت پھیلا ، اپنے مردہ شہر کو زندہ کر۔ اے اللہ ! ہم پر ایسی بارش برسا جو ہماری فریاد رسی کردے ، راحت پہنچادے ، خوشگوار ہو ، پھیلی ہوئی ہمہ گیر ہو ، جلد آئے ، دیر نہ کرے ، نفع بخش ہو ، نقصان رساں نہ ہو ، اے اللہ ! رحمت کی بارش ، عذاب کی بارش نہیں۔ اور نہ ڈھانے والی ، نہ غرق کرنے والی اور نہ مٹانے والی بارش۔ اے اللہ ! ہمیں بارش سے سیراب کر ، اور دشمنوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔( زاد المعاد ۳/۴۸)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 272 مختلف وفود کی آمد: اہل مغازی نے جن وفود کا تذکرہ کیا ہے ان کی تعداد ستر سے زیادہ ہے لیکن یہا...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 271


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 271

اللہ کے دین میں فوج در فوج داخلہ:

جیسا کہ ہم نے عرض کیا غزوۂ فتح مکہ ایک فیصلہ کن معرکہ تھا جس نے بُت پرستی کا کام تمام کردیا۔ اور سارے عرب کے لیے حق وباطل کی پہچان ثابت ہوا۔ اس کی وجہ سے ان کے شبہات جاتے رہے۔ اسی لیے اس کے بعد انہوں نے بڑی تیز رفتاری سے اسلام قبول کیا۔

حضرت عَمرو بن سَلمہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک چشمے پر (آباد ) تھے، جو لوگوں کی گزرگاہ تھا۔ ہمارے ہاں سے قافلہ گزرتے رہتے تھے۔ اور ہم ان سے پوچھتے رہتے تھے کہ لوگوں کا کیا حال ہے ؟ یہ آدمی ... یعنی نبی ﷺ ... کا کیا حال ہے ؟ اور کیسا ہے ؟ لوگ کہتے : وہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے اسے پیغمبر بنایا ہے۔ اس کے پاس وحی بھیجی ہے۔ اللہ نے یہ اور یہ وحی کی ہے۔ میں یہ بات یاد کرلیتا تھا۔ گویا وہ میرے سینے میں چپک جاتی تھیں۔

اور عرب حلقۂ بگوش اسلام ہونے کے لیے فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے۔ کہتے تھے : اسے اور اس کی قوم کو (پنجہ آزمائی کے لیے ) چھوڑ دو۔ اگر وہ اپنی قوم پر غالب آگیا تو سچا نبی ہے۔ چنانچہ جب فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا تو ہر قوم نے اپنے اسلام کے ساتھ (مدینہ کی جانب ) پیش رفت کی اور میرے والد بھی میری قوم کے اسلام کے ساتھ تشریف لے گئے۔ اور جب (خدمت ِ نبویﷺ سے ) واپس آئے تو فرمایا : میں تمہارے پاس اللہ کی قسم ایک نبیٔ برحق کے پاس سے آرہا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فلاں نماز فلاں وقت پڑھو اور فلاں نماز فلاں وقت پڑھو۔ اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک آدمی اذان کہے، اور جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ امامت کرے۔( صحیح بخاری ۲/۶۱۵، ۶۱۶)

اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ فتح مکہ کا واقعہ حالات کو تبدیل کرنے میں، اسلام کو قوت بخشنے میں، اہلِ عرب کا موقف متعین کرانے میں اور اسلام کے سامنے انہیں سپر انداز کرنے میں کتنے گہرے اور دور رس اثرات رکھتا تھا۔ یہ کیفیت غزوہ تبوک کے بعد پختہ سے پختہ تر ہوگئی۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان دوبرسوں - ۹ ھ اور ۱۰ ھ - میں مدینہ آنے والے وفود کا تانتا بندھا ہواتھا اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہورہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ اسلامی لشکر جو فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار سپاہ پر مشتمل تھا اس کی تعداد غزوۂ تبوک میں (جبکہ ابھی فتح مکہ پر پورا ایک سال بھی نہیں گزرا تھا ) اتنی بڑھ گئی کہ وہ تیس ہزار فوجیوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں تبدیل ہوگیا۔ پھر ہم حجۃ الوداع میں دیکھتے ہیں کہ ایک لاکھ ۲۴ ہزار یا ایک لاکھ چوالیس ہزار اہلِ اسلام کا سیلاب امنڈ پڑا ہے، جو رسول اللہ ﷺ کے گرداگرد اس طرح لبیک پکارتا، تکبیر کہتا اور حمد وتسبیح کے نغمے گنگناتا ہے کہ آفاق گونج اٹھتے ہیں۔ اور وادی وکوہسار نغمۂ توحید سے معمور ہو جاتے ہیں۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 271 اللہ کے دین میں فوج در فوج داخلہ: جیسا کہ ہم نے عرض کیا غزوۂ فتح مکہ ایک فیصلہ کن معرکہ تھ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 270


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 270

جنگی قوانین اور اصول و ضوابط:

کہتے ہیں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے لیکن اسلام اس نظریہ کی نفی کرتا ہے، ہم اسی تناظر میں اسلام کو پرکھیں گے کہ جنگ جس میں تشدد اور دہشت کا عنصر شامل ہوتا ہے اسلام کی اس بارے کیا تعلیمات ہیں، جب جنگ جیسے موضوع پر ہم اسلام کی تعلیمات سمجھ لیں گے تو عام حالات میں اسلام کا پیغام سمجھنا مشکل نہیں ہو گا، چند دن پہلے ایک ملحد کی پوسٹ دیکھی جس میں اس نے اسلام پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی روبوٹ میں قرآن و حدیث فیڈ کر دیں تو روبوٹ کا رد عمل کیا ہو گا، آئے دیکھیں قرآن و حدیث پر عمل کرنے سے کیسا انسان بنتا ہے۔؟

رسول اللہﷺ نے جنگ کے لیے شریفانہ ضوابط بھی مقرر فرمائے اور اپنے فوجیوں اور کمانڈروں پر ان کی پابندی لازمی قرار دیتے ہوئے کسی حال میں ان سے باہر جانے کی اجازت نہ دی۔ قتال کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی جو ہدایات ہیں، وہ انسانی تاریخ میں منفرد اہمیت کی حامل ہیں، جہاد کے خلاف جو مہم جوئی چلائی جا رہی ہے اور اسے جس طرح دہشت گردی کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے، وہ سراسر بدنیتی اور تعصب پر مبنی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قتال و جہاد کے لیے جو ہدایات دیں، ان کی تفصیلات یوں ہیں :

1. غیر اہل قتال کو نقصان پہنچانے سے منع کیا، نبی کریم ﷺ نے اہل قتال اور غیر اہل قتال کا فرق واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ غیر اہل قتال کو نقصان نہ پہنچایا جائے، عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں، گوشہ نشینوں، زاہدوں اور مندروں کے مجاوروں اور پجاریوں وغیرہ کو قتل نہ کیا جائے۔

2. رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم مجاہدین کو رخصت کرتے ہوئے فرماتے "کسی بوڑھے، بچے، نابالغ لڑکے اور عورت کو قتل نہ کرو، اموال غنیمت میں چوری نہ کرو، جنگ میں جو کچھ ہاتھ آ جائے سب ایک جگہ جمع کر دو، نیکی اور احسان کرو کیونکہ اللہ تعالٰی احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے" ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد )

3. ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی غزوے میں ایک مقتول عورت دیکھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا ۔(صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر)

اسلام نے جنگ کے بارے میں بھی کچھ آداب و حقوق مقرر کیے ہیں، ان کی تفصیلات یوں ہیں :

1. " غفلت میں حملہ کرنے کی ممانعت "

عرب عموماً شب خون مارتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عادت کو بند کر دیا اور صبح سے پہلے حملہ کرنے کی ممانعت کی، حضرت انس رضی اللہ عنہ غزوہ خیبر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کسی قوم کے پاس رات کو پہنچ جاتے تو صبح ہونے سے پہلے اس پر حملہ نہیں کرتے تھے ۔(صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر )

2. "دشمن کو آگ میں جلانے کی ممانعت "

حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :آگ کا عذاب دینا سوائے آگ کے پیدا کرنے کے اور کسی کو سزاوار نہیں ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد)

3. " باندھ کر قتل کرنے کی ممانعت "

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ نے قتل صبر (باندھ کر مارنے) سے منع فرمایا ہے ۔(صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر)

4. " لوٹ مار کی ممانعت "

ایک دفعہ سفر جہاد میں اہل لشکر نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کر کھانا چاہا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو علم ہوا تو آپ نے دیگچیاں الٹ دینے کا حکم دیا اور فرمایا : لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد)

5. "تباہ کاری کی ممانعت"

افواج کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا، کھیتوں کو تباہ کرنا، بستیوں میں قتل عام اور آتش زنی کرنا، اسلامی نقطہ نگاہ سے ناجائز ہے
ارشاد باری تعالٰی ہے :

واذا تولی سعی فی الارض لیفسد فیھا ویھلک الحرث والنسل واللہ لا یحب الفساد

اور جب وہ پلٹتا ہے تو زمین میں دور دھوپ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد پھیلائے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کرے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ۔(البقرۃ، 205 )

اسلام نے صرف خصوصی حالات میں ضرورت کے تحت درختوں کو کاٹنے اور جانوروں کو زبح کرنے کی اجازت دی ہے، یعنی جب ان امور میں کوئی مصلحت ہو۔

6. "مثلہ کی ممانعت "

دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا اور ان کے اعضاء کی قطع و برید کرنے سے بھی اسلام نے سختی سے منع کیا، حضرت عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوٹ مار اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔(صحیح بخاری، کتاب المظالم )
مجاہدین کی روانگی سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : بدعہدی نہ کرو، غنیمت میں خیانت نہ کرو اور مثلہ نہ کرو (صحیح مسلم، کتاب الجھاد)

7. "قتل اسیر کی ممانعت "

فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شہر میں داخل ہونے سے پہلے اعلان فرمایا : کسی زخمی پر حملہ نہ کیا جائے، کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے وہ امان میں ہے "۔ (فتوح البلدان للبلازری)

8. "قتل سفیر کی ممانعت "

سفیروں اور قاصدوں کے قتل سے بھی نبی الرحمت والامن صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ۔مسیلمہ کذاب کی طرف سے دو آدمی (قاصد) گستاخانہ پیغام لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم! اگر قاصدوں کو قتل کرنا ممنوع نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد )

9. "بدعہدی کی ممانعت "

عہد توڑنے اور معاہدین (ذمیوں) پر دست درازی کرنے کی مذمت میں بے شمار احادیث آئی ہیں، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جو کسی معاہد (ذمی) کو قتل کرے گا، اس کو جنت کی خوشبو تک نصیب نہ ہو گی ۔(صحیح بخاری، کتاب الجزیۃ والموادعۃ)

10. "بدنظمی اور انتشار کی ممانعت "

عرب لوگ دور جاہلیت میں جب جنگ کے لیے نکلتے تو بدنظمی کا شکار ہوتے، راستوں کو تنگ کرتے اور آبادیوں کو پریشان کرتے، ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کی شکایت پہنچی کہ مجاہدین میں بدنظمی پھیلی ہوئی ہے، منزل کو تنگ کر رکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا : جو کوئی منزل کو تنگ کرے گا یا راہ گیروں کو لوٹے گا تو اس کا جہاد نہیں ہے ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد)

11. وحشیانہ افعال کے خلاف عام ہدایت

دور جاہلیت کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب جہاد کے لیے مجاہدین کو روانہ کرتے تو فرماتے : اللہ کی راہ میں اللہ کے نام کے ساتھ جہاد کرو، ہر اس شخص سے جو اللہ کا منکر ہو، جہاد کرو اور مال میں خیانت نہ کرو، بدعہدی نہ کرو، مثلہ نہ کرو اور بچوں کو قتل نہ کرو ۔(صحیح مسلم، کتاب الجھاد)

خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف فوجیں روانہ کیں تو ان کو دس ہدایتیں دی تھی۔

1:کسی عورت کو قتل نہ کرنا
2:بچے کو قتل نہ کرنا
3:بوڑھے کو قتل نہ کرنا
4:کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا
5:آبادی کو ویران نہ کرنا
6:بکری اور اونٹ کو زخمی نہ کرنا، مگر یہ کہ انہیں کھانا ہو
7:شہد کی مکھیوں کو نہ جلانا
8:اور نہ ان کو بھگانا
9:امانت میں خیانت نہ کرنا
10:بزدلی نہ دکھانا

ان احکام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے جنگ و جہاد کو ان تمام وحشیانہ افعال سے پاک کردیا جو اس عہد میں جنگ کا ایک غیر منفک جزو بنے ہوئے تھے، وحشیانہ افعال اور یہ سب کچھ آئین جنگ کے خلاف قرار دیا گیا اور جنگ صرف ایسی چیز رہ گئی جس میں شریف اور بہادر آدمی دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچا کر اس کے شر کو دفع کرنے کی کوشش کرے، اس اصلاحی تعلیم نے دو سال کی قلیل مدت میں جو عظیم الشان نتائج پیدا کیے، ان کا بہترین نتیجہ فتح مکہ ہے جس کے باعث لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اور ہر طرف امن و امان کا ماحول پیدا ہوا ۔

یہ اور اس طرح کے دوسرے بلند پایہ قواعد وضوابط تھے جن کی بدولت جنگ کا عمل جاہلیت کی گندگیوں سے پاک وصاف ہو کر مقدس جہاد میں تبدیل ہوگیا۔( اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: زاد المعاد ۲/۶۴، ۶۸۔)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 270 جنگی قوانین اور اصول و ضوابط: کہتے ہیں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے لیکن اسلام اس نظریہ...