سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 217
خیبر کے نصف ثانی کی فتح:
نطاۃ اور شق کا علاقہ فتح ہوچکا تو رسول اللہ ﷺ نے کتیبہ، وطیح اور سلالم کے علاقے کا رُخ کیا، سلالم بنو نضیر کے ایک مشہور یہودی ابو الحقیق کا قلعہ تھا، ادھر نطاۃ اور شق کے علاقے سے شکست کھا کر بھاگنے والے سارے یہودی بھی یہیں پہنچے تھے اور نہایت ٹھوس قلعہ بندی کرلی تھی۔
اہل مغازی کے درمیان اختلاف ہے کہ یہاں کے تینوں قلعوں میں سے کسی قلعے پر جنگ ہوئی یا نہیں؟ ابن اسحاق کے بیان میں یہ صراحت ہے کہ قلعہ قموص کو فتح کرنے کے لیے جنگ لڑی گئی، بلکہ اس کے سیاق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قلعہ محض جنگ کے ذریعے فتح کیا گیا اور یہودیوں کی طرف سے خود سپردگی کے لیے یہاں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ ( ابن ہشام ۲/۳۳۱، ۳۳۶ ،۳۳۷)
لیکن واقدی نے دوٹوک لفظوں میں صراحت کی ہے کہ اس علاقے کے تینوں قلعے بات چیت کے ذریعے مسلمانوں کے حوالے کیے گئے، ممکن ہے قلعہ قموص کی حوالگی کے لیے کسی قدر جنگ کے بعد گفت وشنید ہوئی ہو، البتہ باقی دونوں قلعے کسی جنگ کے بغیر مسلمانوں کے حوالے کیے گئے۔
جب رسول اللہ ﷺ اس علاقے کتیبہ میں تشریف لائے تو وہاں کے باشندوں کا سختی سے محاصرہ کیا، یہ محاصرہ چودہ روز جاری رہا، یہود اپنے قلعوں سے نکل ہی نہیں رہے تھے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے قصد فرمایا کہ منجنیق نصب فرمائیں، جب یہود کو تباہی کا یقین ہوگیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے صلح کے لیے سلسلۂ جنبانی کی۔
صلح کی بات چیت :
پہلے ابن ابی الحقیق نے رسول اللہ ﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ کیا میں آپ ﷺ کے پاس آکر بات چیت کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اور جب یہ جواب ملا تو اس نے آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوکر اس شرط پر صلح کرلی کہ قلعے میں جو فوج ہے اس کی جان بخشی کردی جائے گی اور ان کے بال بچے انہیں کے پاس رہیں گے۔ (یعنی انہیں لونڈی اور غلام نہیں بنایا جائے گا ) بلکہ وہ اپنے بال بچوں کو لے کر خیبر کی سر زمین سے نکل جائیں گے اور اپنے اموال، باغات، زمینیں، سونے، چاندی، گھوڑے، زرہیں، رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردیں گے، صرف وہ کپڑا لے جائیں گے جو انسان کی پشت پر ہوگا۔ (لیکن سنن ابو داؤد میں یہ صراحت ہے کہ آپ نے اس شرط پر معاہدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے یہود کو اجازت ہوگی کہ خیبر سے جلاوطن ہوتے ہوئے اپنی سواریوں پر جتنا مال لاد سکیں لے جائیں۔) (دیکھئے : ابو داؤد باب ما جاء فی حکم ارض خیبر ۲/۷۶)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اور اگر تم لوگوں نے مجھ سے کچھ چھپایا تو پھر اللہ اور اس کے رسول بری الذمہ ہوں گے، یہود نے یہ شرط منظور کرلی اور مصالحت ہوگئی۔ ( زاد المعاد ۲/۱۳۶) اس مصالحت کے بعد تینوں قلعے مسلمانوں کے حوالے کردیے گئے اور اس طرح خیبر کی فتح مکمل ہوگئی۔
کنانہ بن ابی الحقیق کو محمد بن مسلمہؓ کے حوالے کیا گیا اور انہوں نے محمود بن مسلمہ کے بدلے اس کی گردن ماردی (محمود سایہ حاصل کر نے کے لیے قلعہ ناعم کی دیوار کے نیچے بیٹھے تھے کہ اس شخص نے ان پر چکی کا پاٹ گراکر انہیں قتل کردیا تھا )، حیی بن اخطب کی صاحبزادی صفیہ یہاں کے قیدیوں میں شامل تھیں۔
==================>> جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں