سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 236
اسلامی لشکر مکہ کی جانب:
اسی صبح، یعنی بروز منگل ۱۷/رمضان ۸ ھ کی صبح - رسول اللہ ﷺ مرالظہران سے مکہ روانہ ہوئے اور حضرت عباس کو حکم دیا کہ ابو سفیان کو وادی کی تنگنائے پر پہاڑ کے ناکے کے پاس روک رکھیں، تاکہ وہاں سے گزرنے والی الٰہی فوجوں کو ابو سفیان دیکھ سکے، حضرت عباس نے ایسا ہی کیا، ادھر قبائل اپنے اپنے پھریرے لیے گزر رہے تھے، جب وہاں سے کوئی قبیلہ گزرتا تو ابو سفیان پوچھتا کہ عباس! یہ کون لوگ ہیں؟ جواب میں حضرت عباس بطورِ مثال کہتے کہ بنو سلیم ہیں تو ابوسفیان کہتا کہ مجھے سلیم سے کیا واسطہ؟ پھر کوئی قبیلہ گزرتا تو ابو سفیان پوچھتا کہ اے عباس! یہ کون لوگ ہیں؟ وہ کہتے: مُزَیْنَہ ہیں۔ ابو سفیان کہتا: مجھے مزینہ سے کیا مطلب؟ یہاں تک کہ سارے قبیلے ایک ایک کرکے گزر گئے، جب بھی کوئی قبیلہ گزرتا تو ابو سفیان حضرت عباس سے اس کی بابت ضرور دریافت کرتا اور جب وہ اسے بتاتے تو وہ کہتا کہ مجھے بنی فلاں سے کیا واسطہ ؟
یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سبز دستے کے جلو میں تشریف لائے، آپ مہاجرین وانصار کے درمیان فروکش تھے، یہاں انسانوں کے بجائے صرف لوہے کی باڑھ دکھائی پڑ رہی تھی، ابو سفیان نے کہا: سبحان اللہ! اے عباس! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ انصار ومہاجرین کے جلو میں رسول اللہ ﷺ تشریف فرما ہیں، ابو سفیان نے کہا: بھلا ان سے محاذآرائی کی طاقت کسے ہے؟ اس کے بعد اس نے مزید کہا کہ ابو الفضل! تمہارے بھتیجے کی بادشاہت تو واللہ بڑی زبردست ہوگئی، حضرت عباسؓ نے کہا: ابو سفیان! یہ نبوت ہے، ابو سفیان نے کہا: ہاں! اب تو یہی کہا جائے گا۔
اس موقع پر ایک واقعہ اور پیش آیا، انصار کا پھریرا حضرت سعد بن عبادہؓ کے پاس تھا، وہ ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو بولے:
الیوم یوم الملحمۃ، الیوم تستحل الحرمۃ
''آج خونریزی اور مار دھاڑ کا دن ہے، آج حرمت حلال کرلی جائے گی۔''
آج اللہ نے قریش کی ذلت مقدر کردی ہے، اس کے بعد جب وہاں سے رسول اللہ ﷺ گزرے تو ابو سفیان نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! آپ نے وہ بات نہیں سنی جو سعد نے کہی ہے؟ آپ نے فرمایا: سعد نے کیا کہا ہے؟ ابو سفیان نے کہا: یہ اور یہ بات کہی ہے، یہ سن کر حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں سعد قریش کے اندر مار دھاڑ نہ مچا دیں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: نہیں بلکہ آج کا دن وہ دن ہے جس میں کعبہ کی تعظیم کی جائے گی، آج کا دن وہ دن ہے جس میں اللہ قریش کو عزت بخشے گا، اس کے بعد آپ نے حضرت سعد کے پاس آدمی بھیج کر جھنڈا ان سے لے لیا اور ان کے صاحبزادے قیس کے حوالے کردیا، گویا جھنڈا حضرت سعد کے ہاتھ سے نہیں نکلا۔
=================>> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں