سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 226
عمرہَ قضاء:
امام حاکم کہتے ہیں: یہ خبرتواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ جب ذی قعدہ کا چاند ہو گیا تو نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اپنے عمرہ کی قضاء کے طور پر عمرہ کریں اور کوئی بھی آدمی جو حدیبیہ میں حاضرتھا پیچھے نہ رہے، چنانچہ (اس مدت میں ) جو لوگ شہید ہوچکے تھے، انہیں چھوڑ کر بقیہ سب ہی لوگ روانہ ہوئے اور اہلِ حدیبیہ کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی عمرہ کرنے کے لیے ہمراہ نکلے، اس طرح تعداد دو ہزار ہوگئی، عورتیں اور بچے ان کے علاوہ تھے۔ ( فتح الباری ۷/۷۰۰)
رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر ابو رھم غفاریؓ کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا، ساٹھ اونٹ ساتھ لیے اور ناجیہ بن جندب اسلمی کو ان کی دیکھ بھال کا کام سونپا، ذو الحلیفہ سے عمرہ کا احرام باندھا اور لبیک کی صدا لگائی، آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی لبیک پکارا اور قریش کی جانب سے بد عہدی کے اندیشے کے سبب ہتھیار اور جنگجو افراد کے ساتھ مستعد ہو کر نکلے، جب وادی یَاجِجْ پہنچے تو سارے ہتھیار، یعنی ڈھال، سپر ، نیزے سب رکھ دیے اور ان کی حفاظت کے لیے اوس بن خولی انصاریؓ کی ماتحتی میں دو سو آدمی وہیں چھوڑ دیے اور سوار کا ہتھیار اور میان میں رکھی ہوئی تلواریں لے کر مکہ میں داخل ہوئے۔ ( ایضا مع زاد المعاد ۲/۱۵۱)
رسول اللہ ﷺ مکہ میں داخلے کے وقت اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار تھے، مسلمانوں نے تلواریں حمائل کر رکھی تھیں اور رسول اللہ ﷺ کو گھیرے میں لیے ہوئے لبیک پکار رہے تھے۔
مشرکین مسلمانوں کا تماشہ دیکھنے کے لیے (گھروں سے ) نکل کر کعبہ کے شمال میں واقع جبل قعیقعان پر (جا بیٹھے تھے ) انہوں نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے پاس ایک ایسی جماعت آرہی ہے جسے یثرب کے بخار نے توڑ ڈالا ہے، اس لیے نبی ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ پہلے تین چکر دوڑ کر لگائیں، البتہ رکن یمانی اور حجرِ اسود کے درمیان صرف چلتے ہوئے گزریں، کُل (ساتوں ) چکر دوڑ کر لگانے کا حکم محض اس لیے نہیں دیا کہ رحمت وشفقت مقصود تھی، اس حکم کا منشاء یہ تھا کہ مشرکین آپ کی قوت کا مشاہدہ کرلیں۔ ( صحیح بخاری ۱/۲۱۸ ، ۲/۶۱۰ ، ۶۱۱ ، صحیح مسلم ۱/۴۱۲)
اس کے علاوہ آپ نے صحابہ کرام کو اضطباع کا بھی حکم دیا، اضطباع کا مطلب یہ ہے کہ دایاں کندھا کھلا رکھیں (اور چادر داہنی بغل کے نیچے سے گزار کر آگے پیچھے دونوں جانب سے ) اس کا دوسرا کنارہ بائیں کندھے پر ڈال لیں۔
رسول اللہ ﷺ مکے میں اس پہاڑ ی گھاٹی کے راستے سے داخل ہوئے جو حجون پر نکلتی ہے، مشرکین نے آپ ﷺ کو دیکھنے کے لیے لائن لگا رکھی تھی، آپ ﷺ مسلسل لبیک کہہ رہے تھے، یہاں تک کہ (حرم پہنچ کر ) اپنی چھڑی سے حجر اسود کو چھویا، پھر طواف کیا، مسلمانوں نے بھی طواف کیا، اس وقت حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ تلوار حمائل کیے رسول اللہ ﷺ کے آگے آگے چل رہے تھے اور رجز کے یہ اشعار پڑھ رہے تھے:
خـلوا بنی الکفار عن سبـیلـہ خلـوا فکل الخیر فی رسولہ
قد أنزل الرحمـن فـي تـنزیلـہ فی صحف تتلی علی رسولہ
یـا رب إنـي مـؤمــن بـقیـلـہ إني رأیت الحـق فی قبولـــہ
بــان خیـر القتـل فی سبیلــہ الیوم نضـربکــم علی تنزیلہ
ضرباً یزیـل الہـام عن مقیلـہ ویذہــل الخلیـل عن خلیلہ
''کفّار کے پوتو! ان کا راستہ چھوڑ دو، راستہ چھوڑ دو کہ ساری بھلائی اس کے پیغمبر ہی میں ہے،
رحمان نے اپنی تنزیل میں اتارا ہے، یعنی ایسے صحیفوں میں جن کی تلاوت اس کے پیغمبر پر کی جاتی ہے،
اے پروردگار! میں ان کی باتوں پر ایمان رکھتا ہوں اور اسے قبول کرنے ہی کو حق جانتا ہوں
کہ بہترین قتل وہ ہے جو اللہ کی راہ میں ہو۔ آج ہم اس کی تنزیل کے مطابق تمہیں ایسی مار مار یں گے
کہ کھوپڑی اپنی جگہ سے جھٹک جائے گی اور دوست کو دوست سے بے خبر کردے گی۔''
رحمان نے اپنی تنزیل میں اتارا ہے، یعنی ایسے صحیفوں میں جن کی تلاوت اس کے پیغمبر پر کی جاتی ہے،
اے پروردگار! میں ان کی باتوں پر ایمان رکھتا ہوں اور اسے قبول کرنے ہی کو حق جانتا ہوں
کہ بہترین قتل وہ ہے جو اللہ کی راہ میں ہو۔ آج ہم اس کی تنزیل کے مطابق تمہیں ایسی مار مار یں گے
کہ کھوپڑی اپنی جگہ سے جھٹک جائے گی اور دوست کو دوست سے بے خبر کردے گی۔''
(روایات کے اندر ان اشعار اور ان کی ترتیب میں بڑا اضطراب ہے۔ ہم نے متفرق اشعار کو یکجا کردیا ہے۔)
حضرت انسؓ کی روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے کہا: اے ابن رواحہ! تم رسول اللہ ﷺ کے سامنے اور اللہ کے حرم میں شعر کہہ رہے ہو؟ نبی ﷺ نے فرمایا: اے عمر! انہیں رہنے دو، کیونکہ یہ ان کے اندر تیر کی مار سے بھی زیادہ تیز ہے۔ ( جامع ترمذی ، ابواب الاستیذان والادب ، باب ماجاء فی انشاد الشعر ۲/۱۰۷)
رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں نے تین چکر دوڑ کر لگائے، مشرکین نے دیکھا تو کہنے لگے: یہ لوگ جن کے متعلق ہم سمجھ رہے تھے کہ بخار نے انہیں توڑ دیا ہے، یہ تو ایسے اور ایسے لوگوں سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔ ( صحیح مسلم ۱/۴۱۲)
طواف سے فارغ ہوکر آپ ﷺ نے صَفا ومَرَوہ کی سعی کی، اس وقت آ پ ﷺ کی ہدی یعنی قربانی کے جانور مَرَوہ کے پاس کھڑے تھے، آپ ﷺ نے سعی سے فارغ ہوکر فرمایا: یہ قربان گاہ ہے اور مکے کی ساری گلیاں قربان گاہ ہیں، اس کے بعد مَرَوہ ہی کے پاس جانوروں کو قربان کردیا، پھر وہیں سر منڈایا، مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا، اس کے بعد کچھ لوگوں کو یَاجِجْ بھیج دیا گیا کہ وہ ہتھیاروں کی حفاظت کریں اور جو لوگ حفاظت پر مامور تھے، وہ آکر اپنا عمرہ ادا کرلیں۔
رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں تین روز قیام فرمایا تھا، چوتھے دن صبح ہوئی تو مشرکین نے حضرت علیؓ کے پاس آکر کہا: اپنے صاحب سے کہو کہ ہمارے یہاں سے روانہ ہوجائیں، کیونکہ مدت گزر چکی ہے، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ مکہ سے نکل آئے اور مقام سرف میں اتر کر قیام فرمایا۔
اس عمرہ کا نام عمرۂ قضاء یا تو اس لیے پڑا کہ یہ عمرۂ حدیبیہ کی قضا کے طور پر تھا یا اس لیے کہ یہ حدیبیہ میں طے کردہ صلح کے مطابق کیا گیا تھا۔ (اور اس طرح مصالحت کو عربی میں قضا اور مقاضاۃ کہتے ہیں ) اس دوسری وجہ کو محققین نے راجح قرار دیا ہے، نیز اس عمرہ کو چار نام سے یاد کیا جاتا ہے: عمرۂ قضا، عمرۂ قضیہ، عمرۂ قصاص اور عمرۂ صلح۔ ( زاد المعاد ۲/۱۷۲ ، فتح الباری ۷/۵۰۰)
=================>>> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں