سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 232


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 232

تجدیدِ صلح حدیبیہ کے لئے ابو سفیان مدینہ میں:

قریش اور ان کے حلیفوں نے جو کچھ کیا تھا وہ کھلی ہوئی بدعہدی اور صریح پیمان شکنی تھی، جس کی کوئی وجہ جواز نہ تھی، اسی لیے خود قریش کو بھی اپنی بدعہدی کا بہت جلد احساس ہوگیا اور انہوں نے اس کے انجام کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مجلس مشاورت منعقد کی، جس میں طے کیا کہ وہ اپنے سپہ سالار ابو سفیان کو اپنا نمائندہ بناکر تجدیدِ صلح کے لیے مدینہ روانہ کریں۔

ادھر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتایا کہ قریش اپنی اس عہد شکنی کے بعد اب کیا کرنے والے ہیں، چنانچہ آپ نے فرمایا کہ: ''گویا میں ابو سفیان کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ عہد کو پھر سے پختہ کرنے اور مدتِ صلح کو بڑھانے کے لیے آگیا ہے۔ ''

ادھر ابو سفیان طے شدہ قرارداد کے مطابق روانہ ہوکر عُسفان پہنچا تو بُدَیل بن ورقاء سے ملاقات ہوئی، بُدیل مدینہ سے واپس آرہا تھا، ابو سفیان سمجھ گیا کہ یہ نبی ﷺ کے پاس سے ہوکر آرہا ہے، پوچھا: بُدیل! کہاں سے آرہے ہو؟ بُدیل نے کہا: میں خزاعہ کے ہمراہ اس ساحل اور وادی میں گیا ہوا تھا، پوچھا: کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں گئے تھے؟ بُدیل نے کہا: نہیں۔

مگر جب بدیل مکہ کی جانب روانہ ہوگیا تو ابو سفیان نے کہا: اگر وہ مدینہ گیا تھا تو وہاں (اپنے اونٹ کو ) گٹھلی کا چارہ کھلایا ہوگا، اس لیے ابو سفیان اس جگہ گیا جہاں بُدیل نے اپنے اونٹ بٹھایا تھا اور اس کی مینگنی لے کر توڑی تو اس میں کھجور کی گٹھلی نظر آئی، ابو سفیان نے کہا: میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بُدیل، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تھا۔

بہرحال! ابو سفیان مدینہ پہنچا اور اپنی صاحبزادی ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ کے گھر گیا، جب رسول اللہ ﷺ کے بستر پر بیٹھنا چاہا تو انہوں نے بستر لپیٹ دیا، ابو سفیان نے کہا: بیٹی! کیا تم نے اس بستر کو میرے لائق نہیں سمجھا یا مجھے اس بستر کے لائق نہیں سمجھا؟ انہوں نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ کا بستر ہے اور آپ ناپاک مشرک آدمی ہیں، ابو سفیان کہنے لگا: اللہ کی قسم! میرے بعد تمہیں شر پہنچ گیا ہے۔

پھر ابو سفیان وہاں سے نکل کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور آپ سے گفتگو کی، آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا، اس کے بعد ابو بکرؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کریں، انہوں نے کہا: میں ایسا نہیں کرسکتا۔

اس کے بعد وہ عمر بن خطابؓ کے پاس گیا اور ان سے بات کی، انہوں نے کہا: بھلا میں تم لوگوں کے لیے رسول اللہ ﷺ سے سفارش کروں گا، اللہ کی قسم! اگر مجھے لکڑی کے ٹکڑے کے سوا کچھ دستیاب نہ ہو تو میں اسی کے ذریعے تم لوگوں سے جہاد کروں گا، اس کے بعد وہ حضرت علی بن ابی طالبؓ کے پاس پہنچا، وہاں حضرت فاطمہ ؓ بھی تھیں اور حضرت حسنؓ بھی تھے، جو ابھی چھوٹے سے بچے تھے اور سامنے پھدک پھدک کر چل رہے تھے، ابوسفیان نے کہا: اے علی! میرے ساتھ تمہارا سب سے گہرا نسبی تعلق ہے، میں ایک ضرورت سے آیا ہوں، ایسا نہ ہو کہ جس طرح میں نامراد آیا، اسی طرح نامراد واپس جاؤں، تم میرے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کردو، حضرت علیؓ نے کہا: ابو سفیان! تجھ پر افسوس، رسول اللہ ﷺ نے ایک بات کا عزم کرلیا ہے، ہم اس بارے میں آپ سے کوئی بات نہیں کرسکتے، اس کے بعد وہ حضرت فاطمہؓ کی طرف متوجہ ہوا اور بولا: کیا آپ ایسا کرسکتی ہیں کہ اپنے اس بیٹے کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کے درمیان پناہ دینے کا اعلان کرکے ہمیشہ کے لیے عرب کا سردار ہوجائے؟ حضرت فاطمہ ؓ نے کہا: واللہ! میرا یہ بیٹا اس درجہ کو نہیں پہنچا ہے کہ لوگوں کے درمیان پناہ دینے کا اعلان کرسکے اور رسول اللہ ﷺ کے ہوتے ہوئے کوئی پناہ دے بھی نہیں سکتا۔

ان کوششوں اور ناکامیوں کے بعد ابو سفیان کی آنکھوں کے سامنے دنیا تاریک ہوگئی، اس نے حضرت علی بن ابی طالبؓ سے سخت گھبراہٹ، کشمکش اور مایوسی ونا امیدی کی حالت میں کہا کہ ابو الحسن! میں دیکھتا ہوں کہ معاملات سنگین ہوگئے ہیں، لہٰذا مجھے کوئی راستہ بتاؤ، حضرت علیؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تمہارے لیے کوئی کار آمد چیز نہیں جانتا، البتہ تم بنو کنانہ کے سردار ہو، لہٰذا کھڑے ہوکر لوگوں کے درمیان امان کا اعلان کردو، اس کے بعد اپنی سرزمین میں واپس چلے جاؤ، ابو سفیان نے کہا: کیا تمہارا خیال ہے کہ یہ میرے لیے کچھ کار آمد ہوگا؟ حضرت علیؓ نے کہا: نہیں اللہ کی قسم! میں اسے کار آمد تو نہیں سمجھتا، لیکن اس کے علاوہ کوئی صورت بھی سمجھ میں نہیں آتی، اس کے بعد ابو سفیان نے مسجد میں کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ لوگو! میں لوگوں کے درمیان امان کا اعلان کررہا ہوں، پھر اپنے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ چلا گیا۔

قریش کے پاس پہنچا تو وہ پوچھنے لگے پیچھے کا کیا حال ہے؟ ابو سفیان نے کہا: میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، بات کی تو واللہ! انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر ابو قحافہ کے بیٹے کے پاس گیا تو اس کے اندر کوئی بھلائی نہیں پائی، اس کے بعد عمر بن خطابؓ کے پاس گیا تو اسے سب سے کٹر دشمن پایا، پھر علیؓ کے پاس گیا تو اسے سب سے نرم پایا، اس نے مجھے ایک رائے دی اور میں نے اس پر عمل بھی کیا، لیکن پتہ نہیں وہ کار آمد بھی ہے یا نہیں؟ لوگوں نے پوچھا: وہ کیا رائے تھی؟ ابو سفیان نے کہا: وہ رائے یہ تھی کہ میں لوگوں کے درمیان امان کا اعلان کردوں اور میں نے ایسا ہی کیا۔

قریش نے کہا: تو کیا محمد نے اسے نافذ قرار دیا؟ ابو سفیان نے کہا: نہیں۔ لوگوں نے کہا: تیری تباہی ہو، اس شخص (علی) نے تیرے ساتھ محض کھلواڑ کیا، ابو سفیان نے کہا: اللہ کی قسم! اس کے علاوہ کوئی صورت نہ بن سکی۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں