سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 239
حضور ﷺ مکہ میں:
قریش سے کسی بڑی لڑائی کی نوبت نہیں آئی اور حضور ﷺ ۲۰ رمضان کو فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے۔ ارشاد فرمایا:
"جو اللہ کی شہادت دے کر مسلمان ہوجائے اسے امان ہے، جو صحنِ کعبہ میں پناہ لے اسے امان ہے، جو ہتھیار پھینک دے اسے امان ہے، جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اسے امان ہے، بجز سولہ افراد کے جو امان سے محروم ہیں، حضرت عباسؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ابو سفیان اپنی قوم کے سردار ہیں ان کے لئے بھی کوئی ایسی خصوصیت ہو جو اعزاز و اکرام کا باعث ہو، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے اسے امان ہے اور جو شخص حکیم بن حزام کے مکان میں پناہ لے اسے بھی امان ہے، ابو سفیان کا مکان مکہ کی چوٹی پر اور حکیم بن حزام کا نشیب میں تھا۔
حضور اکرم ﷺ نے ممکنہ تدابیر اختیار فرمائیں کہ معاملات بغیر جنگ کے طے ہو جائیں اور خونریزی نہ ہو، دراصل حضور ﷺ یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی ہیبت سرداران قریش کے دلوں پر بیٹھ جائے اور وہ اہل مکہ کو سمجھائیں کہ خون خرابے کے بغیر ہتھیار ڈال دیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کسی بڑی جنگ کی نوبت نہیں آئی۔
کفار کے ایک گروہ نے جس میں سفیان بن اُمیہ، سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابو جہل تھے، حضرت خالدؓ بن ولید کی فوج پر تیر برسائے اور معمولی جھڑپ ہوئی، نتیجہ یہ ہواکہ قریش کے چوبیس آدمی اور ہذیل کے چار آدمی قتل ہوئے اور مسلمانوں میں سے تین حضرات یعنی حضرت کرز بن جابری فہری، حضرت جیش بن اشعراء اور حضرت سلمہ بن الیلا نے شہادت پائی، حضرت خالدؓ نے مجبور ہوکر حملہ کیا، یہ لوگ تیرہ لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے، اشرار کے بھاگ جانے کے بعد مسلمان خاموشی کے ساتھ مکہ کی آبادی میں سے گزرنے لگے، مشرک عورتیں بال کھولے راستوں پر کھڑی مجاہدوں کے گھوڑوں کے منہ پر اپنی اوڑھنیاں مارنے لگیں، حضور اکرم ﷺ نے جب یہ منظر دیکھا تو بے اختیار مسکرا کر حضرت ابو بکرؓ صدیق سے فرمایا:
حسّان نے کیا کہا تھا؟ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت حسّان ؓبن ثابت کا یہ شعر پڑھا جس کا مطلب ہے: " عنقریب ہمارے گھوڑے دوڑتے چلے آتے ہوں گے اور عورتیں ان کو اوڑھنیوں سے مار رہی ہوں گی"
==================>> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں