سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 242
مکہ میں خون ریزی کی حرمت کا اعلان اور بیعت:
فتح کے روز تمام مسلمان حضور اکرم ﷺ کے ساتھ عشاء سے فجر تک خانہ کعبہ میں تکبیر وتسبیح اور طواف کعبہ میں مصروف رہے، دوسرے دن حضور ﷺ نے پھر اہل مکہ کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں نو مسلموں کی بڑی تعداد شامل تھی، حضور ﷺ کی خدمت میں یہ اطلاع پہنچائی گئی کہ بنو خزاعہ نے انتقامی کارروائی کے طور پر بنی لیث کے ایک آدمی کوقتل کر دیا ہے، یہ سنتے ہی آپ ﷺ قصویٰ پر سوار ہوئے اور حمدو ثناء کے بعد ارشاد فرمایا :
" اب ہجرت نہیں رہی لیکن جہاد باقی ہے، ہجرت کی نیت باقی رہے گی، جب تم کو جہاد کے لئے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہو، بے شک اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو اس دن سے حرمت دی ہے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ قیامت تک کے لئے حرم ہے، بے شک اللہ نے مکہ سے ہاتھی والوں کو روک دیا تھا، لیکن اللہ نے اپنے رسول اور مسلمانوں کو اہل مکہ پر تسلط دے دیا، خبر دار ہو جاؤ، نہ مجھ سے پہلے کبھی کسی کے لئے یہاں خونریزی حلال ہوئی اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہو گی، خبر دار ہو جاؤ! میرے لئے بھی کچھ دیر کے لئے حلال ہوئی تھی، اب وہ بدستور قیامت تک کے لئے حرام ہے، نہ یہاں کا کانٹا توڑا جائے، نہ درخت کاٹا جائے، نہ شکار بھگایا جائے، نہ یہاں کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے، البتہ اس کا اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے، جس شخص کا کوئی عزیز قتل ہو جائے اُسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے ، خواہ وہ بدلہ لے لے یا خوں بہا لے لے، حضرت عباسؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اذخر گھاس کے کاٹنے کو مستثنیٰ فرمادیجئے، کیونکہ وہ ہمارے گھروں، لوہاروں اور قبروں کے کام آتی ہے، یہ سن کر حضور اکرم ﷺ خاموش ہوگئے، کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آپ ﷺ کی زبان سے نکلا: " مگر اذخر مگر اذخر "
جب آپ ﷺ کا خطاب ختم ہوا تو یمن کا ایک شخص ابو شاہ آگے بڑھا اور درخواست کی کہ یا رسول اللہ! یہ خطبہ مجھے لکھوا دیجئے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ خطبہ لکھ کر دے دو۔
فتح کے دوسرے روز حضوراکرم ﷺ نے خطاب میں حمد و ثناء کے بعد فرمایا :
" یقیناً مکہ کو اللہ نے حرمت دی ہے نہ کہ ان انسانوں نے، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُس کے لئے حلال نہیں کہ یہاں خون ریزی کرے یا یہاں کا درخت کاٹے، اگر کوئی شخص اللہ کے رسول کے قتال کی بنیاد پر ( یہاں قتال کرنا ) جائز سمجھے تو اس سے کہو کہ یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دے دی تھی، اب پھر اس کی حرمت بدستور اسی طرح لوٹ آئی جس طرح ( میرے قتال سے پہلے) تھی، حاضر کو چاہئیے کہ غائب کو یہ حدیث پہنچا دے"
بنو اسد کے لوگوں نے عرض کیا کہ مکہ والوں سے بیعت لی جائے، حضور اکرم ﷺ نے قرن مستقبلہ کے قریب تشریف فرما ہو کر ان سے اسلام کی بیعت لی، جب لوگوں کا ہجوم بڑھ گیا تو کوہ صفا پر ان سے بیعت لی، اس وقت حضرت عمرؓ بن خطاب بائیں جانب کھڑے ہو کر ہر شخص سے بیعت کے الفاظ سن رہے تھے ۔
مردوں سے بیعت لینے کے بعد عورتوں سے بیعت لینے کی باری آئی تو اُن سے اقرار اسلام کے بعد ایک پانی سے بھرے برتن میں حضور اکرم ﷺ اپنا دست مبارک ڈبو کر نکال لیتے، پھر خواتین اس میں اپنا ہاتھ ڈالتیں، عورتوں کے ہجوم میں حضرت ابو سفیان ؓ کی بیوی ہند نقاب پہن کر آئی، اس لئے کہ اس کو اپنے سابقہ کرتوت کی بناء پر اپنی جان جانے کا ڈر تھا اور اس کے قتل کو مباح قرار دے دیا گیا تھا، جب وہ قریب آئی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عہد کرو کہ اللہ کے سوا کسی کو شریک نہ بناؤ گی، عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ میرے پچھلے اعمال پر مؤاخذہ تو نہیں فرمائیں گے؟ فرمایا: ان اعمال پر توبہ کرو اللہ معاف کرنے والا ہے، پھر اس نے نقاب الٹ کر کہا کہ میں ہند ہوں، آپﷺ نے فرمایا: تو مسلمان ہو گئی بہت اچھا ہوا، عرض کیا کہ میں آپ ﷺ کے دست مبارک میں ہاتھ دے کر بیعت کرنا چاہتی ہوں، فرمایا: میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے ایک بکری کا بچہ ہدیہ میں بھیجا، اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو حکم دیا کہ بقیہ عورتوں سے بیعت لیں، بیعت کے الفاظ یہ تھے:
" اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک نہ بناؤگی، اپنی اولاد کو قتل نہ کروگی، چوری اور زنا نہ کرو گی"
مکہ سے بتوں کو پاک کرنے کے بعد گرد و نواح میں جتنے بت تھے وہ سب گرا دیئے گئے اور اعلان کر دیا گیا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص اپنے گھر میں بت نہ رکھے ۔
مکہ ۲۰ رمضان المبارک کو فتح ہوا، اس کے بعد حضور ﷺ پندرہ دن اور وہاں رہے، حضرت عبداللہ ؓ بن عباس کی روایت ہے کہ (۱۹) روز رہے، جتنے دن رہے قصر نماز پڑھتے رہے، روزوں کی بھی قضاء فرمائی، آپ ﷺ کے قیام سے انصار کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ اب شاید آپ ﷺ مکّہ ہی میں رہیں گے اور مدینہ واپس نہ جائیں گے۔
(تاریخ اسلام- اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)
==================>> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں