سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 220


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 220

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اور ملحدین کا اعتراض:

اعتراض:
ایک خاتون جس كے باپ، بھائی اور شوہر كو جنگ میں محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] كے لشكر كے ہاتھوں قتل كردیا گیا ہو، اسی دن كے آخری حصے میں وہ اپنے آپ كو ان سب كے قاتل كے ساتھ پائے تو اس كے دل پر كیا گزرتی ہوگی؟ اس سے میرا اشارہ صفیہ بنت حیی [رضی اللہ عنہا] كی طرف ہے! كوئی ہستی جو ربوبیت كی مالك ہو، كبھی اس كا حكم نہیں دے سكتی، میرا تو یہی خیال ہے كہ یہ قصہ پوری طرح من گھڑت ہے، میری طرح آپ بھی كچھ غور كریں!

جواب:

تمام تعریف اللہ كے لئے ہے۔
چند حقائق جو ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا كے قصے سے متعلق ہیں، پیش خدمت ہیں:

صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے قید کیے جانے سے بے انتہا فائدہ حاصل کیا، یہی کیا کم ہے کہ آپ دولتِ ایمان سے بہریاب ہوئیں اور اس غلامی کے ذریعے اللہ نے آپ کو کفر سے نجات عطا فرمائی، اسلام کے بعد آپ کے شرف وفضیلت کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوگی کہ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجیت سے مشرف ہوکر پوری امت مسلمہ کی ماں قرار پائیں، مزید برآں اللہ نے آپ کے حق میں ایسے فضائل جمع فرما دئیے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دیگر ازواج مطہرات کو بھی حاصل نہیں تھے اور وہ یہ کہ آپ ایک نبی کی نسل سے تھیں، ایک نبی آپ کے چچا لگتے تھے، اور ایک نبی آپ کے شوہر۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صفیہ رضی اللہ عنہا تک یہ بات پہنچی کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے بارے ‘یہودی کی بیٹی’ کی بھپتی کسی!! اس پر آپ رو پڑیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور انہیں روتے ہوئے پایا تو استفسار فرمایا کہ کیوں رو رہی ہو؟ تو عرض گزار ہوئیں کہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے مجھے یہودی کی بیٹی کہا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمانے لگے کہ تم تو ایک نبی کی بیٹی ہو [یعنی نبی کی نسل سے ہو]، ایک نبی تمہارے چچا لگتے ہیں، اور ایک نبی کی زوجیت میں ہو تو وہ کس بات پر تم پر فخر جتاتی ہے؟
پھر فرمایا: حفصہ! اللہ سے ڈرو!

{ ترمذی ( 3894) نے اسے روایت کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے. }

لہذا صفیہ رضی اللہ عنہا ہارون بن عمران علیہ السلام کی نسل سے تھیں، اس لحاظ سے موسیٰ بن عمران علیہ السلام آپ کے چچا ہوئے، اور آپ ایسے نبی کی زوجیت میں آئیں جو سب سے افضل انسان ہیں، محمد بن عبداللہ علیہ الصلاة والسلام۔

یہ کہنا کہ جس دن صفیہ رضی اللہ عنہا کے باپ وغیرہ کو قتل کیا گیا، اسی رات کو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آپ كے بستر پر تھیں، سراسر بہتان ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت تک ہمبستری نہیں کی جب تک ان کی عدت پوری نہیں ہوگئی۔

حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر تشریف لائے، پھر جب اللہ نے آپ کو قلعے پر فتح عطا فرمائی تو آپ کے سامنے صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا کی خوبصورتی کا ذکر کیا گیا، جن کا شوہر قتل کر دیا گیا تھا جبکہ وہ ابھی نئی نئی دلہن تھیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے لئے منتخب فرما لیا، پھر آپ انہیں لے کر روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب آپ سد الروحاء کے مقام پر پہنچے تو صفیہ حلال ہوگئیں، لہذا تب آپ نے ان كے ساتھ خلوت اختیار فرمائی۔

{ بخاری نے اسے روایت کیا ہے (2120)}

ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: “حلال ہوئیں” یعنی حیض سے پاک ہوئیں.

{ “فتح الباری” ( 7 / 480 ) }

[واضح رہے کہ عدت کی تحدید شریعت نے حیض کے ذریعے کی ہے]

مسلم( 1365 ) کے یہاں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (جس میں ہے کہ) پھر آپ نے انہیں (یعنی صفیہ رضی اللہ عنہا کو) ام سُلیم کے حوالے کردیا، تاکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے انہیں تیار کریں، ان کا بناؤ سنگھار کریں اور اس لیے کہ وہ(صفیہ) ان (ام سُلَیم) کے گھر اپنی عدت گزاریں۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: جہاں تک بات ہے عدت گزارنے کی تو اس سے مراد استبراء رحم ہے [یعنی ایک حیض آنے تک انتظار کر کے اس بات کا تحقیق کرنا کہ حاملہ تو نہیں] اس لئے کہ وہ جنگ میں قید کی گئی تھیں جن کا استبراء واجب تھا، اس استبراء کی مدت میں آپ نے ان کو ام سلیم کے گھر رکھا، پھر جب استبراء مکمل ہوگیا تو ام سلیم نے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کیا یعنی بناؤ سنگھار کر کے انہیں دلہن بنایا، گودنے اور نقلی بال جوڑنے جیسے جو ممنوع امور کے علاوہ جو زینت کے جائز طریقے ہیں ان سے۔ { “شرح مسلم” ( 9 / 222 ).}

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے صحبت نہیں کی جب تک کہ انہوں نے اپنے اسلام کا اعلان نہیں کردیا اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کرنے كے بعد ان سے نکاح كیا، تب جاكر ہی ان کے ساتھ شب باشی فرمائی اور یہ اسلام اور یہ نكاح سب ظاہر ہے كہ شریعت كے عین مطابق یعنی برضا ورغبت ہوا، لہذا جس وقت آپ نے ان سے جماع كیا اس وقت وہ نہ تو یہودی تھیں نہ ہی کوئی باندی، بلكہ وہ آپ كی بیوی تھیں، جنہیں آپ نے مہر دیا تھا اور ان كی آزادی ہی ان كا مہر تھی، كیونكہ آزادی مال كے عوض ہوتی ہے، لہذا یہ ایك باقاعدہ مالی انتفاع ہے اور یہی نہیں، بلكہ ان كی شادی كے ولیمے کا بھی اہتمام کیا تھا۔

ابراهيم بن جعفر اپنے والد سے روایت كرتے ہیں، وہ كہتے ہیں: جب صفیہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئیں تو آپ نے ان سے كہا: ''تمہارے والد برابر میرے سخت ترین یہودی دشمنوں میں سے رہے، یہاں تک كہ اللہ نے انہیں ہلاک كردیا۔''

عرض گزار ہوئیں كہ اے اللہ كے رسول! اللہ اپنی كتاب میں فرماتا ہے ( ولا تزر وازرة وزر أخرى ) [الأنعام/ 164] ''كوئی بوجھ اٹھانے والا كسی دوسرے كا بوجھ نہیں اٹھائے گا''۔ یعنی جس نے کیا ہے وہی بھرے گا بھی، نہ کہ کوئی اور، پھر اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا: ''فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے، اگر تم اسلام قبول كرلو تو میں تمہیں اپنے پاس ہی روک لوں گا اور اگر تم یہودیت پر برقرار رہنا چاہو تو ایسا ہے كہ میں تمہیں آزاد كیے دیتا ہوں، تم اپنی قوم كے پاس چلی جاؤ''۔ عرض كی کہ اے اللہ کے رسول! میں تو آپ کے دعوت دینے کے پہلے ہی سے اسلام کی مشتاق تھی اور دل سے آپ کی تصدیق کرچکی تھی، جب میں آپ کے گھر آئی ہوں تب بھی مجھے یہودیت میں کوئی رغبت نہیں تھی اور اب تو نہ ان میں کوئی میرا باپ ہے نہ بھائی، آپ نے مجھے کفر واسلام کے درمیان اختیار دیا ہے تو (میرا فیصلہ یہ ہے کہ ) اللہ اور اس کے رسول مجھے آزادی اور اپنی قوم میں لوٹنے سے زیادہ عزیز ہیں۔ راوی کہتے ہیں : چنانچہ اللہ کے رسول نے انہیں اپنے لئے ہی روک لیا۔ (” الطبقات الكبرى ” ( 8 / 123 ) )

یہ روایت اور اس میں مذكور یہ فراخ دلانہ پیشكش اور صفیہ رضی اللہ عنہا كا جواب مخالفین كے اعتراضات كے محل كو زمیں بوس كردینے كے لئے كافی ہے، اس سے صاف ظاہر ہے كہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنی خوشی سے اسلام قبول كیا تھا اور برضا ورغبت آپ كے پاس رہنے كے لئے آمادگی ظاہر كی تھی، حالانكہ اس وقت تک آپ نے ان پر یہ ظاہر نہیں فرمایا تھا كہ آپ انہیں آزاد فرماكر باقاعدہ ام المؤمنین بنا دیں گے، پھر بھی صفیہ رضی اللہ عنہا نے آزادی اور اپنی قوم پر رسول اللہ كی غلامی كو ترجیح دی۔

اسی طرح انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر تشریف لائے۔ ''درمیان كا حصہ اوپر مذكور ہے'' پھر آپ انہیں رخصت کرا کر لائے اور ان کے ساتھ شب زفاف منائی، اس کے بعد آپ نے ایک چھوٹے ‘نطع’ (دسترخوان) میں ‘حیس’ تیار کیا، پھر فرمایا کہ اپنے آس پاس والوں کو اطلاع دے دو تو یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا، پھر ہم اس کے بعد مدینہ کے لیے روانہ ہوئے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صفیہ رضی اللہ عنہا کے لیے اپنے آگے ایک عبا کو اونٹ کے کوہان کے گرد لپیٹ کر نشست گاہ بنا رہے ہیں، پھر (كیا دیكھتا ہوں كہ) آپ اونٹ كے پاس بیٹھ رہے ہیں اور اپنا گھٹنا پیش كردیتے ہیں، اور صفیہ رضی اللہ عنہا زانوئے مبارک پر پیر ركھ كر سوار ہوجاتی ہیں!!!

{ بخاری نے اسے روایت کیا ہے (2120)}

''فبنی بھا'' [يہ الفاظ اصل حدیث میں آئے ہیں]: یعنی ان كے پاس گئے، ‘بناء’ كا مطلب بیوی كے ساتھ خلوت میں ہونا، یا بیوی سے پہلی ملاقات کرنا ہوتا ہے [اسی كا ترجمہ شب زفاف منانے یا خلوت میں ہونے سے كیا گیا ہے]، “حیس”: كھجور، پنیر اور گھی کا مركب ہوتا ہے، یا یہ بھی كہا گیا ہے كہ كھجور اور ستو، یا كھجور اور گھی ملا كر بنتا ہے۔

“نطع”: دباغت دی گئی کھالوں کو ایک ساتھ جوڑ کر بچھا دیا جاتا ہے اسے نطع کہتے ہیں. “اپنے آس پاس والوں کو اطلاع دے دو”: یعنی انہیں بتادو کہ وہ شادی کے ولیمے میں آجائیں. “یحوی”: [يہ لفظ اصل حدیث میں آیا ہے ] اونٹ کے کوہان کے گرد کپڑا لپیٹتے ہیں پھر اس پر سوار ہوتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم كو اور اسلام كو صفیہ رضی اللہ عنہا كے باپ كی جانب سے جو كچھ (تكلیف یا نقصان) پہنچا تھا، آپ نے صفیہ رضی اللہ عنہا كو اس سے باخبر كردیا تھا، پھر آپ لگاتار انہیں اس كی خبر دیتے رہے، اور معذرت بھی كرتے رہے، یہاں تک كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے خلاف جو كچھ (غم وغصہ) ان كے دل میں تھا وه جاتا رہا، لہذا ایسا ہرگز نہیں تھا جیسا كہ كچھ بد طینت اور مفاد پرست جھوٹے لوگ اس واقعے كو بنا كر پیش كرتے ہیں كہ آپ نے ان كے ساتھ اس حال میں زندگی گزاری كہ وہ آپ سے ناراض تھیں، یا بغض ركھتی تھیں!! بلكہ ان كے اسلام لانے، ان سے شادی كرنے اور جو (غم وغصہ) ان كے دل میں تھا اس كے زائل ہونے كے بعد ہی آپ نے ان كو رفیقۂ حیات بنایا، حتی كہ آپ مسلمانوں کی ماں كے درجے اور مقام كی مستحق ہوئیں!!

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے نزدیک مبغوض ترین انسانوں میں سے تھے، اس لیے کہ انہوں نے میرے شوہر، باپ اور بھائی کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، لیکن آپ لگاتار مجھ سے اس سلسلے میں معذرت کرتے رہے اور کہتے رہے: ''تمہارا باپ عربوں کو میرے خلاف ورغلا کر مجھ پر چڑھا لایا۔ (اشارہ ہے غزوہ احزاب کی طرف) اور یہ کیا اور یہ کیا'' یہاں تک کہ وہ (بغض) میرے دل سے دور ہو گیا۔

{ اس کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے . (11/607) اور البانی نے اس کو حسن قرار دیا ہے۔}

صفیہ (رضی اللہ عنہا ) نے پہلے سے ہی ایک خواب بھی دیکھ رکھا تھا، جس کی تعبیر ان کے یہودی شوہر نے یہ بیان کی تھی کہ ان کی شادی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونے والی ہے۔

چنانچہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کی آنکهوں پر ایک ہرا (چوٹ كا) نشان دیکھا، آپ نے ان سے پوچھا: صفیہ! یہ ہرا نیل کیسا ہے؟

انہوں نے کہا: میں ابن ابی حقیق کی گود میں سر رکھ کر سو رہی تھی، اسی دوران میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے ایک چاند میری گود میں آ کر گر گیا ہے، جب یہ خواب میں نے اس کو بتایا تو اس نے مجھے تهپڑ مار دیا اور بولا: تو یثرب (مدینے) کے بادشاہ کے خواب دیکھ رہی ہے۔

{ اس کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے . (11/607) اور البانی نے اس کو حسن قرار دیا ہے۔ }

یہ ہے صفیہ رضی اللہ عنہا کے واقعے کی توضیح اور تفصیل! اللہ کرے کہ یہ موافقین کے لیے نفع بخش اور مخالفین کے لیے باعث ہدایت ہو!

واللہ اعلم.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں