سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 241
رسول اللہ ﷺ کا قریش سے خطاب:
حضور اکرم ﷺ ابھی بیت اللہ کے اندر ہی تھے کہ مسجد حرام میں لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے اور مسجد کھچا کھچ بھر گئی، وہ سب اپنی قسمتوں کا فیصلہ سننے کے لئے منتظر تھے کہ اتنے میں حضور اکرم ﷺ کعبہ کے دروازہ سے باہر تشریف لائے اور کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا:
" اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندہ کی مدد کی اور دشمنوں کے تمام جتھوں کو تنہا شکست دی، سنو اور آگاہ ہو جاؤ! بجز کلید برداری کعبہ اور سقایت حجاج ( حاجیوں کو پانی پلانا ) ہر موروثی استحقاق، ہر دعویٰ خون و مال دونوں میرے ان دونوں قدموں تلے ہیں"
اے قریش کے لوگو! آج اللہ تعالیٰ نے تمہارے جاہلانہ گھمنڈ، غرور اور نسب کے تفاخر کو خاک میں ملا دیا ہے، سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہوئے تھے، پھر سورۂ حجرات کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
(ترجمہ ) " اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قوموں اور قبائل میں بانٹ دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ وہی محبوب ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو، بے شک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے"
( سورۂ حجرات : ۱۳ )
اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے مسجد حرام میں جمع ہونے والے افراد سے پوچھا:
اے گروہ قریش! تمہیں کچھ معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟ سب نے جواب دیا: آپ ﷺ شریف النفس بھائی اور شریف النفس بھائی کے فرزند ہیں، آپ ﷺ سے خیر ہی کی توقع ہے۔
حاضرین میں ظالم، سفاک وقاتل بھی تھے اور حضور ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف دینے والے بھی تھے جو راستہ میں کانٹے بچھایا کرتے، بیت اللہ میں عبادت سے روکنے والے، بے بس مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والے، شعب ابو طالب میں دانہ پانی بند کرنے والے، دوسروں کو لڑائی پر اکسا کر مدینہ پر حملہ کرنے والے غرض کہ ہر طرح کے بد خواہ اور ظالم موجود تھے جو آج بہ حیثیت مجرم سر جھکائے حضور ﷺ کے سامنے کھڑے تھے اور انہیں توقع تھی کہ ان کے مظالم کا جواب ان کا قتل ہی ہوگا، لیکن ہمت کر کے انہوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ سے خیر ہی کی توقع ہے، یہ جواب سن کر رحمۃ للعالمین ﷺ نے فرمایا:
" آج تم سب کے سب آزاد ہو، تم سے کوئی باز پرس نہیں، اللہ تعالیٰ بھی تم کو معاف فرمائے، وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے، آئندہ کے لئے نہ کوئی قول وقرار، نہ حال کے لئے کوئی شرط، نہ ماضی کا کوئی مواخذہ "
اس عفو عام سے سولہ بد قسمت مستثنیٰ تھے جن کے جرائم حضور اکرم ﷺ کی نظر میں نا قابل معافی تھے، ان کی دین اسلام کے خلاف مسلسل مجرمانہ سر گرمیوں کے پیش نظر انہیں قابل گردن زدنی قرار دیا گیا، انہیں عفو عام سے مستثنیٰ قرار دے کر ان کا خون مباح کردیا گیا۔
ارشاد نبوی ہوا کہ انہیں جہاں کہیں ملیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، چاہے وہ غلاف کعبہ ہی سے لپٹے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
مختلف صحابہؓ کی سفارش پر ان میں سے کچھ مردوں اور تین عورتوں کی جان بخشی ہو گئی، کچھ کو قتل کیا گیا، وہ یہ ہیں:
1۔ عبدالعزیٰ بن اخطل۔
مشہور دشمن اسلام، یہ پہلے مسلمان ہوگیا تھا، اس کو حضور ﷺ نے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا، اس کے ساتھ ایک انصاری صحابی اور ایک رُومی غلام تھا، راستہ میں رُومی غلام کو اس نے قتل کرڈالا اور مرتد ہوکر مکّہ بھاگ گیا تھا، فتح مکّہ کے موقع پر معافی کے خیال سے کعبہ کا پردہ پکڑ لیا تھا، لیکن اس کو وہاں بھی پناہ نہ ملی، سعد ؓبن حریث مخزومی اور ابو بردہ اسلمی ؓ نے اس کو قتل کردیا۔
2۔ قرنتی یا اُم سعد۔
ہجو گو مغنیہ ابن اخطل کی لونڈیاں، بعض مؤرخوں نے دونوں لونڈیاں لکھی ہیں، ان کے نام ارنب اور اُم سعد تھے، یہ دونوں قتل کی گئیں۔
3۔ مقیس بن صابہ۔
مشہور دشمن اسلام، مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوگیا تھا، غزوۂ خندق کے موقع پر آیا اور ایک انصاری کو قتل کرکے بھاگ گیاتھا، اس کو حضرت نمیلہؓ بن عبدﷲ لیثی نے قتل کیا۔
4۔ حُویرث بن نضیل بن وہب۔
مشہور دشمن اسلام جو ہجرت سے قبل حضور ﷺ کو بہت ایذائیں دیتا تھا، حضرت علیؓ نے اسے قتل کیا۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں