سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 219
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی:
ہم بتا چکے ہیں کہ جب حضرت صفیہؓ کا شوہر کنانہ بن ابی الحقیق اپنی بد عہدی کے سبب قتل کردیا گیا تو حضرت صفیہؓ قیدی عورتوں میں شامل کرلی گئیں، جب خیبر کے تمام قیدی جمع کیے گئےتو دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لونڈی کی درخواست کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتخاب کرنے کی اجازت دے دی، انہوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو منتخب کیا، لیکن ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں آکرعرض کی کہ آپ نے رئیسۂ بنونضیر وقریظہ کو دحیہ کو دے دیا، وہ توصرف آپ کے لیے سزاوار ہے، مقصود یہ تھا کہ رئیسۂ عرب کے ساتھ عام عورتوں کا سا برتاؤ ٹھیک نہیں، چنانچہ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو آپ نے دوسری لونڈی عنایت فرمائی اور صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کرکے خود نکاح کرلیا۔
(بخاری، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَايُذْكَرُ فِي الْفَخِذِ۔ صحیح مسلم:۱/۵۴۶)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو باپ اور ماں دونوں کی جانب سے سیادت حاصل تھی، باپ کا نام حیی بن اخطب تھا، جو قبیلۂ بنونضیر کا سردار تھا اور ہارون علیہ السلام کی نسل میں شمار ہوتا تھا، ماں جس کا نام ضرد تھا، سموال رئیسِ قریظہ کی بیٹی تھی اور یہ دونوں خاندان (قریظہ اور نضیر) بنواسرائیل کے اُن تمام قبائل سے ممتاز سمجھے جاتے تھے، جنہوں نے زمانۂ دراز سے عرب کے شمالی حصوں میں سکونت اختیار کرلی تھی، اس لیے حضور ﷺ نے انہیں اعزاز دیا، آپ ﷺ نے پہلے حضرت صفیہ پر اسلام پیش کیا، انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے انہیں آزاد کرکے ان سے شادی کرلی اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا، مدینہ واپسی میں سدِّ صہباء پہنچ کر وہ (حیض سے پاک) حلال ہوگئیں، اس کے بعد ام سُلیم ؓ نے انہیں آپ ﷺ کے لیے آراستہ کیا اور رات میں آپ ﷺ کے پاس رخصت کردیا، آپ نے دولہے کی حیثیت سے ان کے ہمراہ صبح کی اور کھجور، گھی اور ستو سان کر ولیمہ کھلایا اور راستہ میں تین روز شبہائے عروسی کے طور پر ان کے پاس قیام فرمایا۔
( صحیح بخاری ۱/۵۴، ۲/۶۰۴ ، ۶۰۶ زادا لمعاد ۲/۱۳۷)
اس موقع پر آپ ﷺ نے ان کے چہرے پر ہرا نشان دیکھا، دریافت فرمایا: یہ کیا ہے؟ کہنے لگیں: یا رسول اللہ! آپ ﷺ کے خیبر آنے سے پہلے میں نے خواب دیکھا تھا کہ چاند اپنی جگہ سے ٹوٹ کر میری آغوش میں آگرا ہے، واللہ! مجھے آپ ﷺ کے معاملے کا کوئی تصور بھی نہ تھا، لیکن میں نے یہ خواب اپنے شوہر سے بیان کیا تو اس نے میرے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا: یہ بادشاہ جو مدینہ میں ہے تم اس کی آرزو کررہی ہو۔
( ایضاً زاد المعاد ۲/۱۳۷۔ ابن ہشام ۲/۳۳۶)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے مشہور واقعات میں حج کا سفر ہے، جو انہوں نے سنہ ۱۰ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ایامِ محاصرہ میں جو سنہ۳۵ھ میں ہوا تھا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اُن کی بے حد مدد کی تھی، جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر ضروریاتِ زندگی مسدود کردی گئیں اور اُن کے مکان پر پہرہ بٹھا دیا گیا تو وہ خود خچر پر سوار ہوکر ان کے مکان کی طرف چلیں، غلام ساتھ تھا، اشترکی نظر پڑی تو انہوں نے آکر خچر کو مارنا شروع کیا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھ کو ذلیل ہونے کی ضرورت نہیں، میں واپس جاتی ہوں، تم خچر کو چھوڑ دو، گھر واپس آئیں تو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو اس خدمت پر مامور کیا کہ وہ اُن کے مکان سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس کھانا اور پانی لے جاتے تھے۔ (اصابہ:۱/۱۲۷، بحوالہ ابن سعد)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے چند حدیثیں مروی ہیں، جن کو امام زین العابدین رضی اللہ عنہ، اسحاق بن عبداللہ بن حارث، مسلم بن صفوان، کنانہ اور یزید بن معتب، صہیرہ بنت جیفر وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
دیگر ازواج کی طرح حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی اپنے زمانہ میں علم کا مرکز تھیں، چنانچہ جب صہیر بنت جیفر حج کرکے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس مدینہ آئیں تو کوفہ کی بہت سی عورتیں مسائل دریافت کرنے کی غرض سے بیٹھی ہوئی تھیں، صہیرہ کا بھی یہی مقصد تھا، اس لیے انہوں نے کوفہ کی عورتوں سے سوال کرائے، ایک فتویٰ نیند کے متعلق تھا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے سنا تو بولیں: اہلِ عراق اِس مسئلہ کو اکثر پوچھتے ہیں۔ (مسند:۳/۳۳۷)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک کنیز تھی، جوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر ان کی شکایت کیا کرتی تھی، چنانچہ ایک دن کہا کہ ان میں یہودیت کا اثر آج تک باقی ہے، وہ یوم السبت کو اچھا سمجھتی ہیں اور یہودیوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہیں، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تصدیق کے لیے ایک شخص کو بھیجا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یوم السبت کو اچھا سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اس کے بدلے میں خدا نے ہم کو جمعہ کا دن عنایت فرمایا ہے، البتہ میں یہود کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہوں، وہ میرے خویش اور اقارب ہیں، اس کے بعد لونڈی کو بلاکر پوچھا کہ تونے میری شکایت کی تھی؟ بولی، ہاں! مجھ کوشیطان نے بہکا دیا تھا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا خاموش ہوگئیں اور اس کوآزاد کردیا۔ (اصابہ:۸/۱۲۷۔ زرقانی:۳/۲۹۶، بحوالہ ابن سعد)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت تھی، چنانچہ جب آپ علیل ہوئے تو نہایت حسرت سے بولیں: کاش! آپ کی بیماری مجھ کو ہوجاتی، ازواج نے ان کی طرف دیکھنا شروع کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سچ کہہ رہی ہیں، یعنی اس میں تصنع کا شائبہ نہیں ہے۔ (زرقانی:۱۳/۲۹۶)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ کسی بات پر کبیدہ خاطر ہوگئے، یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں اور اُن سے کہا کہ میں آپ کو آج کی اپنی باری، جو میرے نزدیک سب سے محبوب چیز ہے، دیتی ہوں، آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کردیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہاری باری کا دن نہیں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے، اس کے بعد واقعہ بیان کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے راضی ہوگئے۔ (مسند:۶/۱۴۵)
ایک بار آپ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے، دیکھا کہ رو رہی ہیں، آپ نے رونے کا سبب پوچھا، انہوں نے کہا کہ عائشہ اور زینب کہتی ہیں کہ ہم تمام ازواج میں افضل ہیں، ہم آپ کی زوجہ ہونے کے ساتھ آپ کی چچازاد بہن بھی ہیں، آپ نے فرمایا: تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ہارون میرے باپ، موسیٰ میرے چچا اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے شوہر ہیں، اس لیے تم لوگ کیونکر مجھ سے افضل ہوسکتی ہو۔ (صحیح ترمذی:۶۳۹)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سیرچشم اور فیاض واقع ہوئی تھیں، چنانچہ جب وہ اُم المؤمنین بن کرمدینہ میں آئیں توحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ازواجِ مطہرات کو اپنی سونے کی بالیاں تقسیم کیں۔ (زرقانی:۳/۲۹۶)
کھانا نہایت عمدہ پکاتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تحفہ بھیجا کرتی تھیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انہوں نے پیالہ میں جوکھانا بھیجا تھا، اس کا ذکر بخاری اور نسائی وغیرہ میں آیا ہے۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے رمضان سنہ۵۰ھ میں وفات پائی اور جنۃ البقیع میں دفن ہوئیں اس وقت ان کی عمر۶۷/ سال کی تھی، (زرقانی:۳/۲۹۶)
==================>> جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں