سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 228
اسلامی لشکر کی پیش رفت:
اسلامی لشکر شمال کی طرف بڑھتا ہوا معان پہنچا، یہ مقام شمالی حجاز سے متصل شامی (اردنی) علاقے میں واقع ہے، یہاں لشکر نے پڑاؤ ڈالا اور یہیں جاسوسوں نے اطلاع پہنچائی کہ ہرقل قیصرِ روم بلقاء کے علاقے میں مآب کے مقام پر ایک لاکھ رومیوں کا لشکر لے کر خیمہ زن ہے اور اس کے جھنڈے تلے لخم وجذام، بلقین وبہرا اور بلی (قبائلِ عرب ) کے مزید ایک لاکھ افراد بھی جمع ہوگئے ہیں۔
مسلمانوں کے حساب میں سرے سے یہ بات تھی ہی نہیں کہ انہیں کسی ایسے لشکر جرار سے سابقہ پیش آئے گا جس سے وہ اس دور دراز سر زمین میں ایک دم اچانک دوچار ہوگئے تھے، اب ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ آیا تین ہزار کا ذرا سا لشکر دو لاکھ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے ٹکرا جائے یا کیا کرے ؟
مسلمان حیران تھے اور اسی حیرانی میں معان کے اندر دو راتیں غور اور مشورہ کرتے ہوئے گزار دیں، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو لکھ کر دشمن کی تعداد کی اطلاع دیں، اس کے بعد یا تو آپ کی طرف سے مزید کمک ملے گی، یا اور کوئی حکم ملے گا اور اس کی تعمیل کی جائے گی،
لیکن حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور یہ کہہ کر لوگوں کو گرما دیا کہ:
لوگو! اللہ کی قسم! جس چیز سے آپ کترا رہے ہیں یہ وہی تو شہادت ہے جس کی طلب میں آپ نکلے ہیں، یاد رہے دشمن سے ہماری لڑائی تعداد، قوت اور کثرت کے بل پر نہیں ہے، بلکہ ہم محض اس دین کے بل پر لڑتے ہیں جس سے اللہ نے ہمیں مشرف کیا ہے، اس لیے چلیے آگے بڑھئے! ہمیں دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی حاصل ہوکر رہے گی، یا تو ہم غالب آئیں گے یا شہادت سے سرفراز ہوں گے۔
بالآخر حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی پیش کی ہوئی بات طے پاگئی، غرض اسلامی لشکر نے معان میں دو راتیں گزارنے کے بعد دشمن کی جانب پیش قدمی کی اور بلقاء کی ایک بستی میں جس کا نام ''مَشَارِف'' تھا، ہرقل کی فوجوں سے اس کا سامنا ہوا، اس کے بعد دشمن مزید قریب آگیا اور مسلمان ''موتہ'' کی جانب سمٹ کر خیمہ زن ہو گئے، پھر لشکر کی جنگی ترتیب قائم کی گئی، مَیْمَنہ پر قطبہ بن قتادہ عذری مقرر کیے گئے اور مَیْسَرہ پر عبادہ بن مالک انصاریؓ ۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں