سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 240
مسجد الحرام میں نبی کریم ﷺ کا داخلہ اور تطہیرِ کعبہ:
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اُٹھے اور آگے پیچھے اور گرد وپیش موجود انصار ومہاجرین کے جَلو میں مسجد حرام کے اندر تشریف لائے، آگے بڑھ کرحجرِ اسود کو چوما اور اس کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا۔
حضرت عبدﷲ ؓ بن مسعود کی روایت ہے کہ فتح مکّہ کے دن جب آپ ﷺ مکّہ میں داخل ہوئے تو بیت ﷲ میں چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے، آپ ﷺ نے قصویٰ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف فرمایا، آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ ﷺ ہر ایک بت کو ٹھوکر لگاتے جاتے تھے اور یہ پڑھتے جاتے تھے:
جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا۔(بنی اسرائیل:۸۱)
ترجمہ: " حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے والی شے ہے"
تمام مکہ نعرۂ تکبیر کی آوازوں سے گونج رہاتھا، بتوں کے پیٹ کی طرف اشارہ ہوتا تو اوندھے منہ گرتے اور منہ کی طرف چھڑی ہوتی تو پیٹھ کے بل گر جاتے تھے، ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ اشارہ کے بجائے بتوں کی آنکھوں میں چھڑی ڈال کر گھماتے، سب سے بڑا بت " ہبل " کعبہ کے سامنے تھا، اسے توڑا گیا، اس وقت حضرت زبیرؓ بن عوام نے ابو سفیان سے پوچھا! اسی پر تم ناز کرکے اُحد کے دن اَحَل ہُبل ( ہُبل اعلیٰ ہے ) کا نعرہ لگا رہے تھے، ابو سفیان نے کہا: یہ کہہ کر اب میری سرزنش نہ کرو، اساف نامی بت کوہ صفا پر نصب تھا اور نائلہ کوہ مروہ پر، ان دونوں کو بھی مسمار کیا گیا۔
اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے مقام ابراہیم پر دوگانہ طواف ادا فرمایا، پھر مسجد حرام کے ایک کنارہ پر تشریف فرما ہوئے اور حضرت بلالؓ سے اشارہ فرمایا کہ عثمانؓ بن طلحہ سے کہو کہ کلید کعبہ لائے، چابی ان کی والدہ سلامہ بنت سعد کے پاس تھی، انہوں نے دینے سے انکار کیا، فرمایا: اگر کلید کعبہ نہ ملی تو تلوار کمر کے آر پار ہو جائے گی، حضرت عثمانؓ بن طلحہ چابی لے کر حاضر ہوئے اور کعبہ کا دروازہ کھولا، دوسری روایت ہے کہ چابی لے کر اپنے دست مبارک سے کعبہ کا قفل کھولا، اس موقع پر حضرت عباسؓ نے عرض کیا: حجاج کو زمزم سے پانی پلانے کی خدمت میرے پاس ہے، اس لئے کلید کعبہ مجھے عطا فرمائیے، ارشاد فرمایا: آج ایفائے عہد کا دن ہے، پھر حضرت عثمانؓ بن طلحہ کو طلب فرمایا اور ارشاد ہوا: اے عثمان! یہ چابی قیامت تک تم سے کوئی نہ لے سکے گا سوائے ظالم کے اور یہ ہمیشہ تمہارے خاندان میں رہے گی، تمہیں یاد ہوگا کہ میں نے تم سے کہا تھا کہ ایک دن یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا اسے دوں گا، عرض کیا: یا رسول اللہ! بے شک مجھے وہ دن یاد ہے، چنانچہ یہ چابی تاعمر ان کے پاس رہی، وہ لا ولد تھے اس لئے بوقت وفات اپنے بھائی کے سپرد کی جن کا نام شیبہ تھا اور یہ خاندان بنوشیبہ کہلاتا تھا، آج تک یہ چابی ان کی اولاد کے پاس ہے ۔
کعبہ کے اندر بھی بت تھے، دیواروں پر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمعٰیل ؑ کی تصاویر بنی ہوئی تھیں، ان کے ہاتھوں میں فال نکالنے کے تیر تھے، ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کفار کو غارت کرے، انہیں بھی معلوم ہے کہ ان دونوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں نکالی، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ بن طلحہ کو انہیں دھونے کا حکم دیا، دوسری روایت یہ ہے کہ اسامہؓ سے چاہ زمزم سے پانی منگواکر خود اپنے دست مبارک سے انہیں دھویا، حضور اکرم ﷺ کے ساتھ کعبہ میں حضرت بلالؓ اور حضرت اسامہؓ داخل ہوئے، دروازہ بند کر دیا گیا، حضرت عثمانؓ بن طلحہ اور حضرت عبداللہؓ بن عباس باہر دربانی کرنے لگے، کعبہ کے اندر لکڑی کا کبوتر تھا، حضوراکرم ﷺ نے اسے توڑ دیا، پھر کعبہ کے کونوں میں تکبیر کہی، دعا مانگی اور دو رکعت نماز ادا فرمائی، بوقت نماز آپ ﷺ کی داہنی جانب دو ستون، بائیں جانب ایک اور پیچھے تین ستون تھے، دروازہ پشت مبارک پر تھا، سامنے کی دیوار اور آپ ﷺ کے درمیان تقریباً تین ہاتھ کا فاصلہ تھا، کافی دیر آپ ﷺ اندر رہے اور پھر باہر تشریف لائے، یہاں بھی نماز پڑھی اور فرمایا: " یہ قبلہ ہے۔'' کعبہ سے باہر آنے کے بعد آپ ﷺ حجر اسود کے پاس گئے اور اسے بوسہ دیا، بڑی دیر تک بیت اللہ کی چوکھٹ پکڑے رہے، حضرت خالدؓ بن ولید نے لوگوں کو قریب آنے سے روکے رکھا ۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں