سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 235
ابو سفیان دربارِ نبوت میں:
مر الظہران میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد حضرت عباسؓ رسول اللہ ﷺ کے سفید خچر پر سوار ہوکر نکلے، ان کا مقصد یہ تھا کہ کوئی لکڑہارا یا کوئی بھی آدمی مل جائے تو اس سے قریش کے پاس خبر بھیج دیں، تاکہ وہ مکے میں رسول اللہ ﷺ کے داخل ہونے سے پہلے آپ کے پاس حاضر ہوکر امان طلب کرلیں۔
ادھر اللہ تعالیٰ نے قریش پر ساری خبروں کی رسائی روک دی تھی، اس لیے انہیں حالات کا کچھ علم نہ تھا، البتہ وہ خوف اور اندیشے سے دوچار تھے اور ابو سفیان باہر جا جاکر خبروں کا پتہ لگاتا رہتا تھا، چنانچہ اس وقت بھی وہ اور حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء خبروں کا پتہ لگانے کی غرض سے نکلے ہوئے تھے۔
حضرت عباسؓ کا بیان ہے کہ واللہ! میں رسول اللہ ﷺ کے خچر پر سوار جا رہا تھا کہ مجھے ابو سفیان اور بدیل بن ورقاء کی گفتگو سنائی پڑی، وہ باہم ردوقدح کررہے تھے، ابو سفیان کہہ رہا تھا کہ اللہ کی قسم! میں نے آج رات جیسی آگ اور ایسا لشکر تو کبھی دیکھا ہی نہیں اور جواب میں بدیل کہہ رہا تھا: یہ اللہ کی قسم! بنو خزاعہ ہیں، جنگ نے انہیں نوچ کر رکھ دیا ہے اور اس پر ابو سفیان کہہ رہا تھا: خزاعہ اس سے کہیں کمتر اور ذلیل ہیں کہ یہ ان کی آگ اور ان کا لشکر ہو۔
حضر ت عباس کہتے ہیں کہ میں نے اس کی آواز پہچان لی اور کہا: ابو حنظلہ؟ اس نے بھی میری آواز پہچان لی اور بولا: ابو الفضل؟ میں نے کہا: ہاں! اس نے کہا: کیا بات ہے؟ میرے ماں باپ تجھ پر قربان، میں نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ ہیں لوگوں سمیت۔ ہائے قریش کی تباہی۔ واللہ!
اس نے کہا: اب کیا حیلہ ہے؟ میرے ماں باپ تم پر قربان۔ میں نے کہا: واللہ! اگر وہ تمہیں پاگئے تو تمہاری گردن مار دیں گے، لہٰذا اس خچر پر پیچھے بیٹھ جاؤ! میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لے چلتا ہوں اور تمہارے لیے امان طلب کیے دیتا ہوں، اس کے بعد ابو سفیان میرے پیچھے بیٹھ گیا اور اس کے دونوں ساتھی واپس چلے گئے۔
حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ میں ابو سفیان کو لےکر چلا، جب کسی الاؤ کے پاس سے گزرتا تو لوگ کہتے: کون ہے؟ مگر جب دیکھتے کہ رسول اللہ ﷺ کا خچر ہے اور میں اس پر سوار ہوں تو کہتے کہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ہیں اور آپ کے خچر پر ہیں، یہاں تک کہ عمر بن خطابؓ کے الاؤ کے پاس سے گزرا، انہوں نے کہا: کون ہے؟ اور اٹھ کر میری طرف آئے، جب پیچھے ابو سفیان کو دیکھا تو کہنے لگے: ابو سفیان؟ اللہ کا دشمن؟ اللہ کی حمد ہے کہ اس نے بغیر عہد وپیمان کے تجھے (ہمارے) قابو میں کردیا، اس کے بعد وہ نکل کر رسول اللہ ﷺ کی طرف دوڑے اور میں نے بھی خچر کو ایڑ لگائی، میں آگے بڑھ گیا اور خچر سے کود کر رسول اللہ ﷺ کے پاس جا گھسا، اتنے میں عمر بن خطاب بھی گھس آئے اور بولے کہ اے اللہ کے رسول! یہ ابو سفیان ہے، مجھے اجازت دیجیے میں اس کی گردن ماردوں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اسے پناہ دے دی ہے، پھر میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھ کر آپ کا سر پکڑ لیا اور کہا: اللہ کی قسم! آج رات میرے سوا کوئی اور آپ سے سرگوشی نہ کرے گا، جب ابو سفیان کے بارے میں حضرت عمرؓ نے بار بار کہا تو میں نے کہا: عمر! ٹھہرجاؤ۔ اللہ کی قسم! اگر یہ بنی عدی بن کعب کا آدمی ہوتا تو تم ایسی بات نہ کہتے۔ عمرؓ نے کہا: عباس! ٹھہر جاؤ۔ اللہ کی قسم! تمہارا اسلام لانا میرے نزدیک خطّاب کے اسلام لانے سے'' اگر وہ اسلام لاتے'' زیادہ پسندیدہ ہے اور اس کی وجہ میرے لیے صرف یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک تمہارا اسلام لانا خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عباس! اسے (یعنی ابوسفیان کو ) اپنے ڈیرے میں لے جاؤ، صبح میرے پاس لے آنا، اس حکم کے مطابق میں اسے ڈیرے میں لے گیا اور صبح خدمتِ نبوی ﷺ میں حاضر کیا، آپ ﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: ابو سفیان! تجھ پر افسوس ہے، کیا اب بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، عرض کیا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، آپ ﷺ کتنے حلیم اور کریم ہیں، کوئی اور الہٰ ہوتا تو آج ہمارے کام نہ آتا، یہ اقرار ابو سفیان کے لا اِلہٰ الا اللہ کی منزل پر فائز ہونے کی دلیل ہے، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں اب بھی یقین نہیں آیا کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ عرض کیا: بے شک آپ ﷺ برد بار، شریف النفس اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں، رہ گئی نبوت تو ابھی اس میں ذرا تردد ہے، حضرت عباسؓ بولے: اے ابو سفیان! کیا غضب کر رہے ہو؟ اس سے پہلے کہ عمرؓ تیری گردن مارنے آئیں، شہادت حق اور رسالت کی گواہی دے دے، یہ گھڑی سعادت کی تھی، چنانچہ ابو سفیان نے کلمۂ طیبہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا، اس وقت ان کا ایمان متزلزل تھا، لیکن مؤرخین لکھتے ہیں کہ با لآخر وہ سچے مسلمان بن گئے۔
حضرت عباس نے کہا: اے اللہ کے رسول! ابوسفیان اعزاز پسند ہے، لہٰذا اسے کوئی اعزاز دے دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ جو ابو سفیان کے گھر میں گھس جائے اسے امان ہے اور جو اپنا دروازہ اندر سے بند کرلے اسے امان ہے اور جو مسجدِ حرام میں داخل ہوجائے اسے امان ہے۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں