معرکۂ مُوتہ:
مُوتہ (میم کو پیش اور واو ساکن ) اردن میں بَلْقَاء کے قریب ایک آبادی کا نام ہے، جہاں سے بیت المقدس دو مرحلے پر واقع ہے، زیر بحث معرکہ یہیں پیش آیا تھا۔
یہ سب سے بڑا خونریز معرکہ تھا جو مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں پیش آیا اور یہی معرکہ عیسائی ممالک کی فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوا، اس کا زمانۂ وقوع جمادی الاولیٰ ۸ھ مطابق اگست یا ستمبر ۶۲۹ء ہے۔
معرکہ کا سبب:
اس معرکے کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حارث بن عُمیر اَزْدِیؓ کو اپنا خط دے کر حاکم بُصریٰ کے پاس روانہ کیا تو انہیں قیصر روم کے گورنر شرحبیل بن عمرو غسانی نے جو بلقاء پر مامور تھا، گرفتار کرلیا اور مضبوطی کے ساتھ باندھ کر ان کی گردن ماردی۔
یاد رہے کہ سفیروں اور قاصدوں کا قتل نہایت بدترین جرم تھا جو اعلانِ جنگ کے برابر بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سمجھا جاتا تھا، اس لیے جب رسول اللہ ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع دی گئی تو آپ ﷺ پر یہ بات سخت گراں گزری اور آپ ﷺ نے اس علاقہ پر فوج کشی کے لیے تین ہزار کا لشکر تیار کیا۔ ( زاد المعاد ۲/۱۵۵، فتح الباری ۷/۵۱۱) اور یہ سب سے بڑا اسلامی لشکر تھا جو اس سے پہلے جنگ احزاب کے علاوہ کسی اور جنگ میں فراہم نہ ہوسکا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس لشکر کا سپہ سالار حضرت زید بن حارثہؓ کو مقرر کیا اور فرمایا کہ اگر زید قتل کردیے جائیں تو جعفر اور جعفر قتل کردیے جائیں تو عبد اللہ بن رواحہ سپہ لار ہوں گے۔ ( صحیح بخاری باب غزوۂ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱)
آپ ﷺ نے لشکر کے لیے سفید پرچم باندھا اور اسے حضرت زید بن حارثہؓ کے حوالے کیا، لشکر کو آپ ﷺ نے یہ وصیت بھی فرمائی کہ جس مقام پر حضرت حارث بن عمیرؓ قتل کیے گئے تھے، وہاں پہنچ کر اس مقام کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دیں، اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو بہتر، ورنہ اللہ سے مدد مانگیں اور لڑائی کریں۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نام سے، اللہ کی راہ میں، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے غزوہ کرو اور دیکھو بد عہدی نہ کرنا، خیانت نہ کرنا، کسی بچے اور عورت اور فنا کے قریب بڈھے کو اور گرجے میں رہنے والے تارک الدنیا کو قتل نہ کرنا، کھجور اور کوئی درخت نہ کاٹنا اور کسی عمارت کو منہدم نہ کرنا۔
(مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۳۲۷) یہ حدیث واقعہ کے بغیر صحیح مسلم ، سنن ابی داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ وغیرہ میں مختلف الفاظ سے مروی ہے۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں