سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 231


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 231

غزوۂ فتح مکہ - سبب:

امام ابنِ قیمؒ لکھتے ہیں کہ یہ وہ فتح اعظم ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے دین کو، اپنے رسول کو، اپنے لشکر کو اور اپنے امانت دار گروہ کو عزت بخشی اور اپنے شہر کو اور اپنے گھر کو، دنیا والوں کے لیے ذریعۂ ہدایت بنایا ہے۔ کفار ومشرکین کے ہاتھوں سے چھٹکارا دلایا، اس فتح سے آسمان والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، اس کی عزت کی طنابیں جوزاء کے شانوں پر تن گئیں اور اس کی وجہ سے لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئے اور روئے زمین کا چہرہ روشنی اور چمک دمک سے جگمگا اٹھا۔ ( زاد المعاد ۲/۱۶۰)

صلح حدیبیہ کے ذکر میں ہم یہ بات بتاچکے ہیں کہ اس معاہدے کی ایک دفعہ یہ تھی کہ جو کوئی محمد ﷺ کے عہد و پیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکتا ہے اور جو کوئی قریش کے عہد و پیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکتا ہے اور جو قبیلہ جس فریق کے ساتھ شامل ہوگا اس فریق کا ایک حصہ سمجھا جائے گا، لہٰذا ایسا کوئی قبیلہ اگر کسی حملے یا زیادتی کا شکار ہوگا تو یہ خود اس فریق پر حملہ اور زیادتی تصور کی جائے گی۔

اس دفعہ کے تحت بنو خُزاعہ رسول اللہ ﷺ کے عہد وپیمان میں داخل ہوگئے اور بنو بکر قریش کے عہد وپیمان میں، اس طرح دونوں قبیلے ایک دوسرے سے مامون اور بے خطر ہوگئے، لیکن چونکہ ان دونوں قبیلوں میں دورِ جاہلیت سے عداوت اور کشاکش چلی آرہی تھی، اس لیے جب اسلام کی آمد آمد ہوئی اور صلح حدیبیہ ہوگئی اور دونوں فریق ایک دوسرے سے مطمئن ہوگئے تو بنو بکر نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر چاہا کہ بنو خزاعہ سے پرانا بدلہ چکا لیں۔

چنانچہ نوفل بن معاویہ دیلی نے بنو بکر کی ایک جماعت ساتھ لے کر شعبان ۸ ھ میں بنو خزاعہ پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا، اس وقت بنو خزاعہ وتیر نامی ایک چشمے پر خیمہ زن تھے، ان کے متعدد افراد مارے گئے، کچھ جھڑپ اور لڑائی بھی ہوئی، ادھر قریش نے اس حملے میں ہتھیاروں سے بنو بکر کی مدد کی، بلکہ ان کے کچھ آدمی بھی رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر لڑائی میں شریک ہوئے، بہرحال! حملہ آوروں نے بنوخزاعہ کو کھدیڑ کر حرم تک پہنچادیا، حرم پہنچ کر بنو بکر نے کہا: اے نوفل! اب تو ہم حرم میں داخل ہوگئے، تمہارا الٰہ! ۔۔۔ تمہارا الٰہ! ۔۔۔ اس کے جواب میں نوفل نے ایک بڑی بات کہی، بولا: بنو بکر! آج کوئی الٰہ نہیں، اپنا بدلہ چکا لو، میری عمر کی قسم! تم لوگ حرم میں چوری کرتے ہو تو کیا حرم میں اپنا بدلہ نہیں لے سکتے۔؟

ادھر بنو خزاعہ نے مکہ پہنچ کر بُدَیْل بن وَرْقَاء خُزاعی اور اپنے ایک آزاد کردہ غلام رافع کے گھروں میں پناہ لی اور عَمرو بن سالم خزاعی نے وہاں سے نکل کر فوراً مدینہ کا رُخ کیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچ کر سامنے کھڑا ہوگیا، اس وقت آپ مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان تشریف فرما تھے، عمرو بن سالم نے کہا:

یـارب إنـي نـاشـد محمـــدا حلفـنا وحلف أبـیـہ ألا تـلـدا
قـد کـنـتم ولــداً وکنا والــدا ثمۃ أسـلمنــا ولـم ننزع یـــدا
فـانصر ہداک اللہ نـصـراً أیدا وادع عبــاد اللہ یأتوا مــــددا
فـیـہم رسول اللہ قد تجــردا أبیض مثل البدر یسمو صعـدا
إن سیـم خـسـفا وجہہ تربـدا في فیلـق کالبحر یجری مزبدا
إن قریشاً أخلفـوک الموعــدا ونقضــوا میثـاقک المؤکـــدا
وجعلوا لی فـی کـداء رصـدا وزعـموا أن لست أدعوا أحدا
وہــــــم أذل وأقـل عـــددا ہــم بیتونــا بالوتیر ہجـــدا
وقـتـلـونـــا رکعــــاً وسجـــــــدا

"اے پروردگار! میں محمد ﷺ سے ان کے عہد اور ان کے والد کے قدیم عہد (اشارہ اس عہد کی طرف ہے جو بنو خزاعہ اور بنو ہاشم کے درمیان عبدالمطلب کے زمانے سے چلا آرہا تھا، اس کا ذکر ابتداء کتاب میں کیا جاچکا ہے۔) کی دہائی دے رہا ہوں۔ آپ لوگ اولاد تھے اور ہم جننے والے۔ ( اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ عبد مناف کی ماں، یعنی قصی کی بیوی حبی بنو خزاعہ سے تھیں۔ اس لیے پورا خاندانِ نبوت بنو خزاعہ کی اولاد ٹھہرا) پھر ہم نے تابعداری اختیار کی اور کبھی دست کش نہ ہوئے۔ اللہ آپ کو ہدایت دے۔ آپ پُر زور مدد کیجیے اور اللہ کے بندوں کو پکاریے، وہ مدد کو آئیں گے، جن میں اللہ کے رسول ہوں گے ہتھیار پوش اور چڑھے ہوئے چودھویں کے چاند کی طرح گورے اور خوبصورت۔ اگر ان پر ظلم اور ان کی توہین کی جائے تو چہرہ تمتما اٹھتا ہے۔ آپ ایک ایسے لشکرِ جرار کے اندر تشریف لائیں گے جو جھاگ بھرے سمندر کی طرح تلاطم خیز ہوگا۔ یقینا قریش نے آپ کے عہد کی خلاف ورزی کی ہے اور آپ کا پُختہ پیمان توڑ دیا ہے۔ انہوں نے میرے لیے کداء میں گھات لگائی اور یہ سمجھا کہ میں کسی کو (مدد کے لیے ) نہ پکاروں گا۔ حالانکہ وہ بڑے ذلیل اور تعداد میں قلیل ہیں۔ انہوں نے وتیر پر رات میں حملہ کیا اور ہمیں رکوع وسجود کی حالت میں قتل کیا۔'' (یعنی ہم مسلمان تھے اور ہمیں قتل کیا گیا۔) ''

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عَمرو بن سالم! تیری مدد کی گئی، اس کے بعد آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا دکھائی پڑا، آپ نے فرمایا: یہ بادل بنو کعب کی مدد کی بشارت سے دمک رہا ہے۔

اس کے بعد بُدَیْل بن ورقاء خُزاعی کی سرکردگی میں بنو خزاعہ کی ایک جماعت مدینہ آئی اور رسول اللہ ﷺ کو بتلایا کہ کون سے لوگ مارے گئے اور کس طرح قریش نے بنو بکر کی پشتیبانی کی، اس کے بعد یہ لوگ مکہ واپس چلے گئے۔

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں