سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 223
غزوہ وادی القریٰ:
رسول اللہ ﷺ خیبر سے فارغ ہوئے تو وادی القریٰ تشریف لے گئے، وہاں بھی یہود کی ایک جماعت تھی اور ان کے ساتھ عرب کی ایک جماعت بھی شامل ہوگئی تھی، جب مسلمان وہاں اترے تو یہود نے تیروں سے استقبال کیا، وہ پہلے سے صف بندی کیے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ کا ایک غلام مارا گیا، لوگوں نے کہا: اس کے لیے جنت مبارک ہو، نبی ﷺ نے فرمایا: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے جنگ خیبر میں مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے جو چادر چرائی تھی وہ آگ بن کر اس پر بھڑک رہی ہے، لوگوں نے نبی ﷺ کا یہ ارشاد سنا تو ایک آدمی ایک تسمہ یا دو تسمہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی ﷺ نے فرمایا: یہ ایک تسمہ یا دوتسمہ آگ کا ہے۔ ( صحیح بخاری ۲/۶۰۸)
اس کے بعد نبی ﷺ نے جنگ کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ترتیب اور صف بندی کی، پورے لشکر کا عَلَم حضرت سعد بن عُبادہؓ کے حوالے کیا، ایک پرچم حُبابؓ بن مُنذر کو دیا اور تیسرا پر چم عُبادہ بن بِشر کو دیا، اس کے بعد آپ ﷺ نے یہود کو اسلام کی دعوت دی، انہوں نے قبول نہ کیا اور ان کا ایک آدمی میدانِ جنگ میں اترا، ادھر سے حضرت زبیر بن عوامؓ نمودار ہوئے اور اس کا کام تمام کردیا، پھر دوسرا آدمی نکلا، حضرت زبیرؓ نے اسے بھی قتل کردیا، اس کے بعد ایک اور آدمی میدان میں آیا، اس کے مقابلے کے لیے حضرت علیؓ نکلے اور اسے قتل کردیا، اس طرح رفتہ رفتہ ان کے گیارہ آدمی مارے گئے، جب ایک آدمی مارا جاتا تو نبی ﷺ باقی یہودیوں کو اسلام کی دعوت دیتے۔
اس دن جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھاتے اور پھر پلٹ کر یہود کے بالمقابل چلے جاتے اور انہیں اسلام، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دیتے، اس طرح لڑتے لڑتے شام ہوگئی، دوسرے دن صبح آپ ﷺ پھر تشریف لے گئے، لیکن ابھی سورج نیزہ برابر بھی بلند نہ ہوا ہوگا کہ ان کے ہاتھ میں جو کچھ تھا اسے آپ ﷺ کے حوالے کردیا، یعنی آپ نے بزورِ قوت فتح حاصل کی اور اللہ نے ان کے اموال آپ ﷺ کو غنیمت میں دیے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بہت سارا ساز وسامان ہاتھ آیا۔
رسول اللہ ﷺ نے وادیٔ القریٰ میں چار روز قیام فرمایا اور جو مالِ غنیمت ہاتھ آیا، اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تقسیم فرما دیا، البتہ زمین اور کھجور کے باغات کو یہود کے ہاتھ میں رہنے دیا اوراس کے متعلق ان سے بھی (اہلِ خیبر جیسا) معاملہ طے کر لیا۔ ( زاد المعاد ۲/۱۴۶ ، ۱۴۷)
تَیْمَاء:
تیماء کے یہودیوں کو جب خیبر، فدک اور وادی القری کے باشندوں کے سپر انداز ہونے کی اطلاع ملی تو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی محاذ آرائی کا مظاہر کرنے کے بجائے از خود آدمی بھیج کر صلح کی پیش کش کی، رسول اللہ ﷺ نے ان کی پیشکش قبول فرمالی اور یہ یہود اپنے اموال کے اندر مقیم رہے، اس کے متعلق آپ نے ایک نوشتہ بھی تحریر فرمادیا جو یہ تھا:
''یہ تحریر ہے محمد رسول اللہ کی طرف سے بنو عادیا کے لیے، ان کے لیے ذمہ ہے اور ان پر جزیہ ہے، ان پر نہ زیادتی ہوگی نہ انہیں جلاوطن کیا جائے گا، رات معاون ہوگی اور دن پختگی بخش ( یعنی یہ معاہدہ دائمی ہوگا ) اور یہ تحریر خالد بن سعید نے لکھی۔'' (زاد المعاد ۲/۱۴۷، ابن سعد ۲/۲۷۹ )
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مدینہ واپسی کی راہ لی، خیبر کے معرکوں کی تفصیلات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کی واپسی یا تو ( ۷ھ کے ) صفر کے اخیر میں ہوئی تھی یا پھر ربیع الاول کے مہینے میں۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں