سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط:237


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط:237

ابو سفیان کی مکہ واپسی:

حضرت ابو سفیانؓ اور حضرت حکیم ؓبن حزام کے مکانوں کو دارالامن بنانے کا فیصلہ بے وجہ نہیں کیا گیا تھا، مکی دور میں ایک مرتبہ مشرکین نے آنحضرت ﷺ کو بہت ستایا تھا، حضرت ابو سفیانؓ حضور ﷺ کو ان سے بچاکر اپنے گھر لےگئے اور پناہ دی تھی، یہ اسی احسان کا بدلہ تھا جو حضور ﷺ نے دیا اور حضرت ابو سفیانؓ کے گھر کو مامن قرار دیا، ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد حضرت زینب ؓ (حضور ﷺ کی صاحبزادی) زوجہ حضرت ابو العاصؓ مکہ سے تشریف لے جا رہی تھیں کہ راستہ میں ہباربن اسود نے آپ کے اونٹ کو روک لیا اور کجاوے کی رسی کو کاٹ دیا جس کی وجہ سے اونٹ گر گیا اور حضرت زینبؓ کا حمل ساقط ہوگیا، اس وقت بھی ابو سفیانؓ نے ان کی مدد کی اور حضرت زینبؓ کو اپنے گھر لے گئے اور ان کی تیمارداری کی اور جب وہ اس قابل ہوگئیں کہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں تو انہیں مدینہ روانہ کردیا، ان کے اس احسان کا بدلہ حضور ﷺ نے بہتر طریقہ سے چُکایا۔

اسی طرح حضرت حکیمؓ بن حزام نے بھی شعب ابو طالب کی محصوری کے زمانہ میں جبکہ ابو طالب مع آل بنی ہاشم کے پناہ گزیں تھے اُن سے نہایت ہمدردانہ سلوک کیا تھا، وہ اکثر رات کے وقت اونٹوں پر غلہ لاد کر شعب میں ہانک دیا کرتے تھے، اس کے علاوہ غزوۂ بدر کے موقع پر سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ کو لڑائی سے باز رہنے پر حضرت حکیمؓ بن حزام نے راضی کرلیا تھا، حضرت حکیمؓ بن حزام، اُم المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بھتیجے تھے اور ان کا مکان حضرت خدیجہؓ کا آبائی مکان تھا، ان کے ان احسانات کا بدلہ حضور ﷺ نے بہتر طریقہ میں عطا کیا اور ان کے گھر کو دار الامن قرار دیا۔

جب رسول اللہ ﷺ ابو سفیان کے پاس سے گزرچکے تو حضرت عباسؓ نے اس سے کہا: اب دوڑ کر اپنی قوم کے پاس جاؤ، ابو سفیان تیزی سے مکہ پہنچا اور نہایت بلندآواز سے پکارا: قریش کے لوگو! یہ محمد ﷺ ہیں، تمہارے پاس اتنا لشکر لےکر آئے ہیں کہ مقابلے کی تاب نہیں، لہٰذا جو ابو سفیان کے گھر گھس جائے اسے امان ہے، یہ سن کر اس کی بیوی ہند بنت عتبہ اٹھی اور اس کی مونچھ پکڑ کر بولی: مار ڈالو اس چرب دار، کڑے گوشت والے مشک کو۔ بُرا ہو ایسے (لینڈ والے ) پیشتر و خبر رساں کا، ابو سفیان نے کہا: تمہاری بربادی ہو، دیکھو تمہاری جانوں کے بارے میں یہ عورت تمہیں دھوکا میں نہ ڈال دے، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسا لشکر لےکر آئے ہیں جس سے مقابلے کی تاب نہیں، اس لیے جو ابو سفیان کے گھر میں گھس جائے اسے امان ہے، لوگوں نے کہا: اللہ تجھے مارے، تیرا گھر ہمارے کتنے آدمیوں کے کام آسکتا ہے؟ ابو سفیان نے کہا: اور جو اپنا دروازہ اندر سے بند کرلے، اسے بھی امان ہے اور جو مسجد حرام میں داخل ہوجائے اسے بھی امان ہے، یہ سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں اور مسجد حرام کی طرف بھاگے۔

البتہ اپنے کچھ اوباشوں کو لگادیا اور کہا کہ انہیں ہم آگے کیے دیتے ہیں، اگر قریش کو کچھ کامیابی ہوئی تو ہم ان کے ساتھ ہورہیں گے اور اگر ان پر ضرب لگی تو ہم سے جو کچھ مطالبہ کیا جائے گا منظور کرلیں گے، قریش کے یہ احمق اوباش مسلمانوں سے لڑنے کے لیے عِکْرَمَہ بن ابی جہل، صفوان بن اُمیہ اور سُہَیْل بن عَمرو کی کمان میں خندمہ کے اندر جمع ہوئے، ان میں بنو بکر کا ایک آدمی حماس بن قیس بھی تھا، جو اس سے پہلے ہتھیار ٹھیک ٹھاک کرتا رہتا تھا، جس پر اس کی بیوی نے (ایک روز ) کہا: یہ کاہے کی تیاری ہے جو میں دیکھ رہی ہوں؟ اس نے کہا: محمد ﷺ اور اس کے ساتھیوں سے مقابلے کی تیاری ہے، اس پر بیوی نے کہا: اللہ کی قسم! محمد ﷺ اور اس کے ساتھیوں کے مقابل کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی، اس نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے امید ہے کہ میں ان کے بعض ساتھیوں کو تمہارا خادم بناؤں گا، اس کے بعد وہ کہنے لگا:

إن یقبلوا الیوم فما لي علـۃ ہــذا سـلاح کامـل وألــۃ
وذو غـراریـن سـریع السلـــۃ

''اگر وہ آج مد مقابل آگئے تو میرے لیے کوئی عذر نہ ہوگا، یہ مکمل ہتھیار، دراز انی والا نیزہ اور جھٹ سونتی جانے والی دو دھاری تلوار ہے ''

خندمہ کی لڑائی میں یہ شخص بھی آیا ہوا تھا۔

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں