سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط نمبر: 7


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط نمبر: 7


واقعہ اصحاب الفیل 

قریش اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبہ کو بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے، لہذا حضرت عبدالمطلب نے انہیں کہا کہ سب اپنے بال بچوں اور مال مویشی لےکر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو۔

پھر وہ قریش کے چند سرداروں کے ساتھ حرم کعبہ پہنچے اور اللہ کے حضور اپنی کمزوری کا اظہار کرکے دعائیں مانگیں کہ وہ اپنے گھر کی خود حفاظت فرمائے، مؤرخین نے حضرت عبدالمطلب کے جو دعائیہ اشعار نقل کیے وہ یہ ہیں:

لہی! بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے، تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما! کل ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر پر غالب نہ آنے پائے، صلیب کی آل کے مقابلے پر آج اپنی آل کی مدد فرما!

اے میرے رب! تیرے سوا میں ان کے مقابلے میں کسی سے امید نہیں رکھتا، اے میرے رب! ان سے اپنے حرم کی حفاظت فرما.."

یہ دعائیں مانگ کر حضرت عبدالمطلب بھی سرداران قریش کے ساتھ باقی اہل مکہ کے پاس پہاڑوں میں چلے گئے ۔۔۔

ابرھہ کا مکہ پر حملہ کا حکم:

دوسرے روز ابرھہ نے مکہ پر حملہ کا حکم دیا اور وہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا، مگر حیرت انگیز طور پر اس کا خاص ہاتھی "محمود" مکہ کی طرف چلنے کی بجائے یکایک وہیں بیٹھ گیا اور بےپناہ کوشش کے باوجود بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا، مگر جب اس کا منہ شام کی طرف کیا گیا تو اٹھ کر چلنے لگا اور یمن کی طرف رخ ہوا تو ادھر بھی دوڑنے لگا، مگر مکہ کی طرف اسے چلانے کی کوشش کی جاتی تو ایک انچ ادھر نہ بڑھتا، نتیجتاً باقی ہاتھیوں سمیت سارا لشکر بھی اپنی جگہ انتظار میں رکا ہوا تھا ۔۔۔

اور جب ابابیل نے لشکر ابرھہ پر سنگریزے گرانا شروع کردیا۔

ابھی وہ اسی چکر میں پھنسے تھے کہ اللہ کے قہر نے ان کو آ لیا اور اللہ کے حکم سے ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ ان پر نازل ہوگئے، ہر ابابیل کے چونچ اور دونوں پنجوں میں سنگریزے دبے ہوئے تھے، ابرھہ اور اس کے لشکر کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، ابابیلوں نے عین ان کے اوپر آ کر وہ سنگ ریزے گرانا شروع کردیے ۔۔۔

وہ سنگ ریزے، سنگ ریزے کہاں تھے، وہ تو اللہ کا عذاب تھے، جس پر جہاں گرتے، بجائے صرف زخمی کرنے کے کسی چھوٹے بم کی سی تباہی مچا دیتے، اللہ کے گھر پر حملہ کرنے کی جرآت کرنے والوں کے لیے کہیں کوئی جائے پناہ نہ تھی ۔۔۔

تھوڑی ہی دیر میں ابرھہ اپنے 60 ہزار کے لشکر اور 13 ہاتھیوں سمیت سنگریزوں کی اس بارش میں اپنے انجام کو پہنچا اور یوں پہنچا کہ جیسے کھایا ہوا بھوسہ ہو، ہر طرف انسانی لاشیں چیتھڑوں کے روپ میں پڑیں تھیں ۔۔۔

یہ واقعہ 571 عیسوی میں محرم کے مہینہ میں مزدلفہ اور منی' کے درمیان وادی محصب کے قریب محسر کے مقام پر پیش آیا، جس سال یہ واقعہ پیش آیا اہل عرب اسے عام الفیل کہتے ہیں، جبکہ اسی سال اس واقعہ کے 50 دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک ہوئی ۔۔۔

======> جاری ہے ۔۔۔

مرتب کردہ: الہدی انٹر نیشنل
سیرت النبی.. مولانا شبلی نعمانی..
تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ)..
سیرت ابن ھشام..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں