قرآن و حدیث میں وضو کا حکم صرف نماز کیلئے ہے


قرآن و حدیث میں وضو کا حکم صرف نماز کیلئے ہے


قرآن میں وضو کا حکم اور طریقہ بیان کرنے سے قبل اللہ نے یہ واضح کردیا ہے کہ جب تم #نماز_کیلئے (کسی اور کام کے لئے نہیں) کھڑے ہو تب وضو کرلیا کرو۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِذَا قُمْتُـمْ اِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِـرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ(المائدہ:6)

اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنے منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لو اور اپنے سروں پر مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھو لو۔

وضو کے قرآنی حکم کی نبوی تصدیق

أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيَّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ الْخَلَاءِ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ طَعَامٌ فَقَالُوا أَلَا نَأْتِيكَ بِوَضُوءٍ فَقَالَ إِنَّمَا أُمِرْتُ بِالْوُضُوءِ إِذَا قُمْتُ إِلَى الصَّلَاةِ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول  ﷺ  بیت الخلا سے باہر تشریف لائے اور آپ کو کھانا پیش کیا گیا ۔ صحابہ نے پوچھا کہ ہم آپ کے لیے وضو کا پانی نہ لائیں؟  آپ نے فرمایا ’’مجھے وضو کا حکم صرف اس وقت ہے جب میں نماز کے لئے اٹھوں‘‘ (نسائی: 132)

طواف کعبہ مثل نماز ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  الطَّوَافُ حَوْلَ الْبَيْتِ مِثْلُ الصَّلَاةِ إِلَّا أَنَّكُمْ تَتَكَلَّمُونَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَتَكَلَّمَنَّ إِلَّا بِخَيْرٍ   . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ لَا يَتَكَلَّمَ الرَّجُلُ فِي الطَّوَافِ إِلَّا لِحَاجَةٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَذْكُرُ اللَّهَ تَعَالَى، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مِنَ الْعِلْمِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیت اللہ کے گرد طواف نماز کے مثل ہے۔ البتہ اس میں تم بول سکتے ہو۔ (جب کہ نماز میں تم بول نہیں سکتے)  تو جو اس میں بولے وہ زبان سے بھلی بات ہی نکالے“۔ (ترمذی:960)۔

#وضاحت: چونکہ طواف کعبہ مثل نماز ہے اور نماز کیلئے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے وضو کا حکم دیا ہے، اس لئے طواف کعبہ کیلئے بھی وضو فرض ہے۔ جبکہ صفا و مروا کی سعی سمیت کسی بھی دیگر ارکان عمرہ و حج کیلئے وضو فرض نہیں ہے۔

حائضہ کا مسجد جانا جائز ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ ثابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ لِي عَائِشَةُ:‏‏‏‏ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    نَاوِلِينِي الْخُمْرَةَ مِنَ الْمَسْجِدِ    قَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِّي حَائِضٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏  إِنَّ حَيْضَتَكِ لَيْسَتْ فِي يَدِكِ  . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْلَمُ بَيْنَهُمُ اخْتِلَافًا فِي ذَلِكَ بِأَنْ لَا بَأْسَ أَنْ تَتَنَاوَلَ الْحَائِضُ شَيْئًا مِنَ الْمَسْجِدِ

 حضرت عائشہ مروی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”مسجد سے مجھے جائے نماز اٹھا کر دو“۔ میں نے عرض کیا: میں تو حائضہ ہوں، آپ نے فرمایا: ”تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے“۔ (ترمذی:134)

تلاوت قرآن بلا وضو جائز ہے

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَانَ فِي قَوْمٍ وَهُمْ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ فَذَهَبَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ رَجَعَ وَهُوَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَلَسْتَ عَلَی وُضُوئٍ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ مَنْ أَفْتَاکَ بِهَذَا أَمُسَيْلِمَةُ (موطائ امام مالک:جلد نمبر 1:باب: کلام اللہ بے وضو پڑھنے کی اجازت)

محمد بن سيرین سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں بیٹھے اور لوگ قرآن پڑھ رہے تھے۔ پس گئے حاجت کو اور پھر آکر قرآن پڑھنے لگے۔ ایک شخص نے کہا آپ کلام اللہ پڑھتے ہیں بغیر وضو کے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تجھ سے کس نے کہا کہ یہ منع ہے۔ کیا مسیلمہ نے کہا؟ 

وضاحت: مسیلمہ کذاب وہ شخص ہے جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔

حضرت سلمان فارسی کا خیال کہ قرآن چھونے کیلئے وضو ضروری ہے

مسند حاکم  میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا ایک مکالمہ موجود ہے کہ آپ ایک سفر میں تھے۔ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تو واپسی پر پانی نہ ہونے کی وجہ سے وضو نہ فرمایا۔ ساتھی کہنے لگے کہ کاش آپ وضو کرلیتے تو ہم قرآن سے متعلق آپ سے کچھ سوال کرسکتے۔ آپ نے فرمایا کہ سوال کرو۔ میں نے کون سا قرآن کو چھونا ہے۔ پھر یہ آیت مبارکہ پڑھی۔ لایمسہ الا المطھرون۔

٣٧٨٢ - أخْبَرَنا أبُو زَكَرِيّا العَنْبَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلامِ، ثنا إسْحاقُ، أنْبَأ جَرِيرٌ، عَنِ الأعْمَشِ، عَنْ إبْراهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قالَ: كُنّا مَعَ سَلْمانَ  فانْطَلَقَ إلى حاجَةٍ فَتَوارى عَنّا، ثُمَّ خَرَجَ إلَيْنا ولَيْسَ بَيْنَنا وبَيْنَهُ ماءٌ قالَ: فَقُلْنا لَهُ: يا أبا عَبْدِ اللَّهِ، لَوْ تَوَضَّأْتَ فَسَألْناكَ عَنْ أشْياءَ مِنَ القُرْآنِ. قالَ: فَقالَ: «سَلُوا، فَإنِّي لَسْتُ أمَسُّهُ». فَقالَ: " إنَّما يَمَسُّهُ المُطَهَّرُونَ، ثُمَّ تَلا ﴿إنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ لا يَمَسُّهُ إلّا المُطَهَّرُونَ﴾ [الواقعة ٧٨] «هَذا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ ولَمْ يُخَرِّجاهُ» [التعليق- من تلخيص الذهبي] ٣٧٨٢ - على شرط البخاري ومسلم۔

وضاحت: یہ حضرت سلمان فارسی رض کا اپنا ذاتی خیال ہے۔ کیونکہ اس واقعہ میں قرآن چھونے کیلئے وضو کی شرط کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کیا گیا ہے۔


مؤطا امام مالک کی حدیث کہ قرآن کو طاہر کے سوا کوئی نہ چھوئے

(*) باب لا يمس القرآن إلا طاهر ما جاء في الطهر من قراءة القرآن

٢٣٤ - حَدَّثَنا أبُو مُصْعَبٍ، قالَ: حَدَّثَنا مالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أبِي بَكْرِ بن محمد بن عمرو بْنِ حَزْمٍ، أنَّ فِي الكِتابِ الَّذِي كَتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ: أنْ لا يَمَسَّ القُرْآنَ إلّا طاهِرٌ

 نبی کریم ﷺ نے حضرت عمرو بن حزم کو خط لکھا اس میں یہ بھی تحریر فرمایا کہ "قرآن کو طاہر کے سوا کوئی بھی نہ چھوئے"۔

وضاحت: اس حدیث میں قرآن چھونے کیلئے "با وضو ہونے" کی شرط نہیں بلکہ "طاہر" ہونے کی شرط لگائی گئی ہے۔ دیگر احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ مومن ہر حال میں (حتی کہ جنبی حالت میں بھی) "طاہر" ہی ہوتا ہے۔ جبکہ غیر طاہر یعنی نجس و ناپاک تو مشرک ہوتا ہے۔


قرآن چھونے کیلئے وضو کی عدم فرضیت کے دلائل 


۔1۔ قرآن کو چھونے کے لئے اگر وضو فرض ہوتا تو اس فرضیت کا وضو کے ذکر کے ساتھ واضح ثبوت قرآن و سنت میں اسی طرح موجود ہوتا جیسا کہ نماز (اور طواف کعبہ) کیلئے موجود ہے(المائدہ۔6، نسائی:132 اور ترمذی: 960)۔ ایسے کسی واضح حکم کی عدم موجودگی ہی بلا وضو قرآن کو چھونا جائز قرار پاتا ہے۔ 

۔2۔ دور رسالت ﷺ بلکہ ادوار شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم تک میں "مصحف قرآن" کتابی شکل میں موجود ہی نہ تھا کہ اسے چھوننے کیلئے وضو کا حکم دیا جاتا۔ ہمارے پاس موجود کتابی قرآن پہلی مرتبہ دور عثمانی رضی اللہ عنہ میں مدون مصحف ہی کا عکس ہے۔ مصحف عثمانی چمڑے پر لکھا ہوا قرآن مجید کا وہ نسخہ ہے۔ جسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں تیار کروایا تھا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسی نسخہ پر تلاوت کیا کرتے تھے۔ یہ نسخہ تاشقند، ازبکستان کے میوزیم میں آج بھی موجود ہے۔ یہ نسخہ خط کوفی میں لکھا گیا تھا۔ جب حضرت عثمان غنی کو شہید کیا گیا تو آپ اس وقت اسی نسخہ سے قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے۔ چنانچہ آپ کے خون مبارک کے نشانات ابھی بھی اس نسخہ پر موجود ہیں (مآخذ: وکی پیڈیا)

مشرک نجس اور مومن طاہر

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـذَا. (التوبه، 9 : 28)

’’اے ایمان والو ! مشرک نرے نجس ہیں، تو اس سال (سن 9 ھ) کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں‘‘۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَهُ وَهُوَ جُنُبٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَانْبَجَسْتُ أَيْ فَانْخَنَسْتُ فَاغْتَسَلْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جِئْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏    أَيْنَ كُنْتَ أَوْ أَيْنَ ذَهَبْتَ ؟   ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا قَالَ:‏‏‏‏    إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ   . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى قَوْلِهِ فَانْخَنَسْتُ يَعْنِي:‏‏‏‏ تَنَحَّيْتُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مُصَافَحَةِ الْجُنُبِ وَلَمْ يَرَوْا بِعَرَقِ الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ بَأْسًا

(ترمذی:121): ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ان سے ملے اور وہ جنبی تھے، وہ کہتے ہیں: تو میں آنکھ بچا کر نکل گیا اور جا کر میں نے غسل کیا پھر خدمت میں آیا تو آپ نے پوچھا: تم کہاں چلے گئے تھے۔ میں نے عرض کیا: میں جنبی تھا۔ آپ نے فرمایا: مسلمان کبھی نجس نہیں (بلکہ طاہر) ہوتا ہے۔


۔3۔ سورۃ الواقعۃ:اِنَّهٝ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْـمٌ (77)فِىْ كِتَابٍ مَّكْـنُـوْنٍ (78)لَّا يَمَسُّهٝٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (79)۔ بے شک یہ قرآن بڑی شان والا ہے۔ یہ ایک پوشیدہ کتاب (لوح محفوظ) میں لکھا ہوا ہے۔ جسے طاہروں کے سوا کوئی اور نہیں چھوتا۔ بالعموم سورہ واقعہ کی آیت۔79 سے قرآن چھونے کے لئے وضو کی فرضیت مراد لی جاتی ہے جو مندرجہ ذیل وجوہات کی وجہ سے درست نہیں:

۔(الف)۔ اس آیت میں وضو کا لفظ ہی موجود نہیں ہے۔ جبکہ نماز کیلئے وضو کی فرضیت کے قرآنی حکم میں وضو کا مکمل طریقہ اور حدیث میں وضو کا لفظ موجود ہے۔

۔(ب)۔ اس آیت میں لفظ مطھرون (واحد طاہر) آیا ہے۔ اور احادیث سے ثابت ہے کہ فی نفسہ مومن نجس نہیں بلکہ طاہر ہوتا ہے، خواہ جنبی ہی کیوں نہ ہو۔ طاہر فرشتوں کو بھی کہتے ہیں۔ طاہر بمعنی "باوضو مسلمان" کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔

۔(ج)۔ سورت واقعہ ایک مکی سورت ہے جبکہ وضو مدینہ میں فرض ہوا۔ سورت مائدہ ایک مدنی سورت ہے، جس میں آیت وضو نازل ہوئی۔

۔4۔ جب وضو فرض ہوا تو حدیث میں لفظ وضو کے ذکر کے ساتھ واضح طور پر بتلا دیا گیا کہ (الف) مجھے صرف نماز کیلئے وضو کا حکم دیا گیا ہے (ب) اور طواف کعبہ بھی مثل نماز ہی ہے (ج) کسی تیسرے کام یا عبادت کیلئے وضو کی وضاحت کے ساتھ کوئی حکم سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ 

۔5۔ قرآن "سینہ گزٹ" کے ذریعہ نازل ہوا تھا۔ قرآن سب سے پہلے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سینے سے حضرت محمد ﷺ کے سینے میں منتقل ہوا اور پھر آپ ﷺ کے ذریعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سینوں کو منتقل ہوا۔ حفاظ کرام کا یہی سلسلہ تب سے اب تک جاری ہے۔ تسلسل سے جاری یہ عمل ہمیں بتلاتا ہے کہ قرآن کے الفاظ و معنی اہم ترین ہیں۔ اس کا لکھا ہوا مصحف کی شکل میں مرتب ہونا "ثانوی درجہ" رکھتا ہے۔ یعنی قرآن اس لئے نازل ہوا کہ (الف) اسے تا قیامت پڑھا جاتا رہے۔خواہ منہ زبانی پڑھا جائے یا لکھا ہوا دیکھ کر پڑھا جائے۔ پڑھنا اہم ہے، طریقہ نہیں۔(ب) اسے پڑھ کر سمجھا جائے (ج) اور اس پر عمل کیا جائے۔ 

قرآن اس لئے نازل نہیں ہوا کہ مس مصحف قرآن کے لئے شارع سے ہٹ کر از خود پروٹوکول بنادیا جائے کہ پہلے لازمی وضو کرو۔ اس کے لئے غلاف بنادیا جائے کہ بلا وضو بلکہ بلا غسل حائضہ طالبات اور خواتین مدرسین غلاف /کپڑے کی مدد سے تو قرآن چھو سکیں، مگر کپڑے کے بغیر نہیں۔ 

سوچنے کی بات یہ ہے کہ قرآن کے بنیادی مقصد یعنی تلاوت تو بلا وضو بلکہ بلا غسل بھی جائز ہو اور قرآن چھونے کیلئے وضو فرض ہو جبکہ "قرآن چھونا" سرے سے کوئی بنیادی مقصد یا ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ تلاوت قرآن زبانی بھی کی جاسکتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بیشتر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زبانی ہی تلاوت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے مصحف قرآن کے چھونے نہ چھونے کو کبھی دینی مسئلہ نہیں بنایا تھا۔

(واللہ اعلم بالصواب) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں