سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 67


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 67 

بائیکاٹ کا صحیفہ چاک کیا جاتا ہے۔


قریش نے بنی ہاشم کا مقاطعہ غیر معیّنہ مدت کے لئے کیا تھا، لیکن وہ تین سال سے زیادہ برقرار نہ رہ سکا، محرم 10 نبوت میں صحیفہ چاک کیے جانے اور اس ظالمانہ عہدو پیمان کو ختم کیے جانے کا واقعہ پیش آیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ شروع ہی سے قریش کے کچھ لوگ اگر اس عہد و پیمان سے راضی تھے تو کچھ ناراض بھی تھے اور انہی ناراض لوگوں نے اس صحیفے کو چاک کرنے کی تگ و دو کی۔

اس کا اصل محرک قبیلہ بنو عامر بن لوئی کا "ہشام بن عمرو" نامی ایک شخص تھا، یہ رات کی تاریکی میں چپکے چپکے شعب ابی طالب کے اندر غلہ بھیج کر بنو ہاشم کی مدد بھی کیا کرتا تھا، یہ "زہیر بن ابی امیہ مخزومی" کے پاس پہنچا (زہیر کی ماں عاتکہ حضرت عبدالمطلب کی صاحبزادی یعنی حضرت ابو طالب کی بہن تھیں) اور اس سے کہا: "کیوں زہیر! کیا تم کو یہ پسند ہے کہ تم کھاؤ پیو، آزادی سے پھرو اور تمہارے ننھیالی رشتہ دار ہر راحت سے محروم رہیں اور انہیں کھانے کو کچھ نہ مل سکے؟"

زہیر نے کہا: "افسوس! میں تن تنہا کیا کر سکتا ہوں؟ ہاں! اگر میرے ساتھ کوئی اور آدمی ہوتا تو میں اس صحیفے کو پھاڑنے کے لیے یقیناً اٹھ پڑتا۔"

ہشام نے کہا: "اچھا  تو ایک آدمی اور موجود ہے
پوچھا: "کون ہے؟
ہشام نے کہا: "میں ہوں
زہیر نے کہا: "اچھا تو اب تیسرا آدمی تلاش کرو۔"

اس پر ہشام "مُطعم بن عدی" کے پاس گیا اور بنو ہاشم اور بنو مطلب سے جو کہ عبدمناف کی اولاد تھے، مطعم کے قریبی نسبی تعلق کا ذکر کرکے اسے ملامت کی کہ اس نے اس ظلم پر قریش کی ہم نوائی کیونکر کی؟ یاد رہے کہ مطعم بھی عبدمناف ہی کی نسل سے تھا، مطعم نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔

اس کے بعد ہشام بن عمرو "ابو البختری بن ہشام" کے پاس گیا اور اس سے بھی اسی طرح کی گفتگو کی، جیسی زہیر اور مطعم سے کی تھی، اس نے کہا: "بھلا کوئی اس کی تائید بھی کرنے والا ہے؟" ہشام نے کہا: "ہاں! زہیر بن ابی امیہ، مطعم بن عدی اور میں۔" یہ سن کر ابو البختری نے بھی ساتھ دینے کی حامی بھرلی۔

اس کے بعد ہشام "زمعہ بن اسود بن مطلب بن اسد" کے پاس گیا اور اس سے گفتگو کرتے ہوئے بنو ہاشم کی قرابت اور ان کے حقوق یاد دلائے، اس نے کہا: "بھلا جس کام کے لیے مجھے بلا رہے ہو اس سے کوئی اور بھی متفق ہے؟" ہشام نے اثبات میں جواب دیا اور سب کے نام بتلائے، اس کے بعد ان لوگوں نے حجون کے پاس جمع ہو کر آپس میں یہ عہد وپیمان کیا کہ صحیفہ چاک کرنا ہے، زہیر نے کہا: "میں ابتدا کروں گا، یعنی سب سے پہلے میں ہی زبان کھولوں گا۔"

صبح ہوئی تو سب لوگ حسب معمول اپنی اپنی محفلوں میں پہنچے، زہیر بھی ایک جوڑا زیب تن کیے ہوئے پہنچا، پہلے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر بولا: "مکے والو! کیا ہم کھانا کھائیں، کپڑے پہنیں اور بنو ہاشم تباہ وبرباد ہوں، نہ ان کے ہاتھ کچھ بیچا جائے، نہ ان سے کچھ خریدا جائے، اللہ کی قسم! میں بیٹھ نہیں سکتا، یہاں تک کہ اس ظالمانہ اور قرابت شکن صحیفے کو چاک کردیا جائے۔"

ابو جہل جو مسجد حرام کے ایک گوشے میں موجود تھا، بولا: "تم غلط کہتے ہو، اللہ کی قسم! اسے پھاڑا نہیں جاسکتا۔"

اس پر زمعہ بن اسود نے کہا: "واللہ! تم زیادہ غلط کہتے ہو، جب یہ صحیفہ لکھا گیا تھا، تب بھی ہم اس سے راضی نہ تھے۔"

اس پر ابو البختری نے گرہ لگائی: "زمعہ ٹھیک کہہ رہا ہے، اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے، اس سے نہ ہم راضی ہیں، نہ اسے ماننے کو تیار ہیں۔"

اس کے بعد مطعم بن عدی نے کہا: "تم دونوں ٹھیک کہتے ہو اور جو اس کے خلاف کہتا ہے، غلط کہتا ہے، ہم اس صحیفہ سے اور اس میں جو کچھ لکھا ہوا ہے، اس سے اللہ کے حضور براءت کا اظہار کرتے ہیں۔" پھر ہشام بن عمرو نے بھی اسی طرح کی بات کہی۔

یہ ماجرا دیکھ کر ابوجہل نے کہا: "ہونہہ! یہ بات رات میں طے کی گئی ہے اور اس کا مشورہ یہاں کے بجائے کہیں اور کیا گیا ہے۔"

ان لوگوں میں یہ بحث و تکرار ہو رہی تھی کہ حضرت ابو طالب حرم میں آئے اور کہا: "میرے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے کہا ہے کہ اس عہد نامہ کی ساری تحریر سوائے لفظ اللہ کے دیمک چاٹ گئی ہے، خدا کی قسم! اس نے کبھی جھوٹ نہیں کہا، اس لئے تم اس معاہدہ کو منگوا کر دیکھو، یہ صحیح ہے تو اسے چاک کردو اور اگر غلط ہو تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہارے حوالے کرنے کو تیار ہوں۔"

سب نے حضرت ابو طالب کی بات سے اتفاق کیا اور عہد نامہ منگوا کر کھولا گیا تو کفار قریش نے حیرت سے دیکھا کہ اس میں سوائے "باسمک اللّھم" کے ساری تحریر دیمک کھا گئی تھی، مطعم بن عدی نے عہد نامہ کو چاک کردیا، اس کے بعد وہ پانچوں سردار ہتھیار باندھ کر بنو ہاشم کے پاس گئے اور بنو ہاشم کو شعب سے نکال کر اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لئے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بقیہ تمام حضرات شعب ابی طالب سے نکل آئے اور مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی ایک
عظیم الشان نشانی دیکھی، لیکن ان کا رویہ وہی رہا جس کا ذکر اس آیت میں ہے: 

''اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو رخ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو چلتا پھرتا جادو ہے۔

چنانچہ مشرکین نے اس نشانی سے بھی رخ پھیر لیا اور اپنے کفر کی راہ میں چند قدم اور آگے بڑھ گئے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 67   بائیکاٹ کا صحیفہ چاک کیا جاتا ہے۔ قریش نے بنی ہاشم کا مقاطعہ غیر معیّنہ مدت کے لئے کیا تھا، ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 66


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 66 

معجزۂ شق القمر 


شق القمر ایک ایسا معجزہ تھا جس کی گواہی خود قران کریم میں دی گئی ہے اور صحیح احادیث سے اس عظیم الشان معجزے کا ثبوت ملتا ہے، اس پر ایمان رکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔

شعب ابی طالب میں محصوری کے دن اسی طرح گزر رہے تھے، مقاطعہ کا دوسرا سال تھا اور حج کے دن تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض صحابہ کے ساتھ مِنیٰ میں تھے، آسمان پر بدر کامل تھا، ایسے میں کفّار نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو اس چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھائیے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اس مطالبہ کو پورا کرنے کی دعا فرمائی اور چاند کی طرف انگلی سے اشارہ کیا تو چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے،  ایک کوہ حرا کے اوپر اور دوسرا اس کے دامن میں تھا، جب سب لوگوں نے صاف طور پر یہ معجزہ دیکھ لیا تو یہ دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "جس وقت چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ منیٰ کے میدان میں موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "لوگو! گواہ رہنا" اور چاند کا ایک ٹکڑا دوسرے سے الگ ہو کر پہاڑ کی طرف چلا گیا تھا۔" (صحیح بخاری، حدیث: 3869)

چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا یہ معجزہ بہت صاف تھا، قریش نے اسے بڑی وضاحت سے کافی دیر تک دیکھا اور آنکھ مل مل کر اور صاف کر کرکے دیکھا اور ششدر رہ گئے، لیکن پھر بھی ایمان نہیں لائے بلکہ کہا کہ "یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور حقیقت یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔" اس پر بحث و مباحثہ بھی کیا، کہنے والوں نے کہا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم پر جادو کیا ہے تو وہ سارے لوگوں پر تو جادو نہیں کر سکتے، باہر والوں کو آنے دو، دیکھو کیا خبر لے کر آتے ہیں، بعد میں کچھ لوگ سفر سے واپس آئے اور تصدیق کی کہ ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن پھر بھی کفار ایمان نہیں لائے اور اپنی ڈگر پر چلتے رہے،  صحابہ کرام میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت حُذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ اس کے عینی شاہد ہیں۔

قرآن مجید میں سورۂ قمر کی ابتدائی آیات میں شق القمر کا ذکر ہے: 

"قیامت قریب آپہنچی اور چاند شق ہوگیا اور اگر کافر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے۔'' (سورہ قمر: 1,2) 

اس عظیم الشان معجزے پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اس کا مشاہدہ پوری دنیا میں ہونا چاہیے تھا اور تاریخ کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ہونا چاہیے تھا، حالانکہ اس معجزے کے وقت کا اندازہ کیا جائے تو چاند کا پوری دنیا میں دیکھا جانا ناممکنات میں سے تھا،  کیونکہ اس وقت چاند صرف عرب اور اس کے مشرقی ممالک میں نکلا ہوا تھا، پھر اس معجزے کا وقت بھی طویل نہیں تھا اور اس سے روایت کے مطابق کوئی دھماکہ یا تیز روشنی کا اخراج بھی نہیں ہوا اور نا ہی اس کے اثرات زمین پر کسی قسم کے پڑے، ظاہر ہے کہ یہ ایک متوقع معجزہ نہیں تھا کہ تمام دنیا کی نظریں چاند پر ہوتیں، اسی لئے یہ معجزہ صرف انہی لوگوں نے دیکھا جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم ہندوستان کی مشہور مستند "تاریخ فرشتہ" ( مصنف محمد قاسم فرشتہ.. ۱۰۱۵ ہجری) میں اس کا ذکر موجود ہے، جو انہوں نے بحوالہ کتاب "تحفۃ المجاہدین" میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت عرب سے قدم گاہ حضرت آدم علیہ السلام کی زیارت کے لئے سراندیپ (سری لنکا) کو آتے ہوئے ساحلِ مالا بار (ہند) پر اتری، ان بزرگوں نے وہاں کے راجہ "چرآمن پیرومل" سے ملاقات کی اور معجزۂ شق القمر کا ذکر کیا، راجہ نے اپنے منجموں کو پرانے رجسٹرات کی جانچ پڑتال کا حکم دیا، چنانچہ منجموں نے بتلایا کہ فلاں تاریخ کو چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور پھر مل گیا، اس تحقیق کے بعد راجہ نے اسلام قبول کرلیا، ہندوستان کے بعض شہروں میں اس کی تاریخ محفوظ کی گئی اور ایک عمارت تعمیر کرکے اس کی تاریخ "شب انشقاق قمر" کے نام سے مقرر کی گئی۔

اس ضمن میں ایک دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب ناسا کے خلانوردوں نے چاند کی ایک تصویر شایع کی جو چاند کی سطح پر ایک فالٹ لائن کو ظاہر کررہی ہے، جس کے بارے میں یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے کہ یہ شاید لاوا کے بہنے سے لاکھوں سال پہلے بنی ہے، یہ صرف ایک نظریہ ہے اور اس کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ کسی وقت میں لاکھوں سال قبل چاند زمین یا مریخ کا حصّہ رہا ہوگا اور کسی فلکیاتی حادثہ کی وجہ سے ٹوٹ کر زمین کے قریب آگیا ہوگا، اس نظریہ کا صحیح یا غلط ہونا چاند کی سطح پر انسانی موجودگی اور مزید سائنسی تجربات سے مشروط ہے، اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ چاند کبھی بھی زمین یا مریخ کا حصّہ نہیں رہا تو اس فالٹ لائن کی اہمیت اس معجزے کے حوالے سے نہایت اہم رخ اختیار کر لے گی۔

شق قمر کی یہ نشانی شاید اس بات کی بھی تمہید رہی ہو کہ آئندہ اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آئے تو ذہن اس کے امکان کو قبول کرسکیں۔ واللہ اعلم۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 66  معجزۂ شق القمر  شق القمر ایک ایسا معجزہ تھا جس کی گواہی خود قران کریم میں دی گئی ہے اور صحیح...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 65


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 65 

تین سال شعب ابی طالب میں: 


قریش مکہ کے سماجی مقاطعہ کے بعد حضرت ابوطالب مجبور ہو کر بنو ہاشم اور بنی مطلّب کی حفاظت کی خاطر پہلی محرم 7 نبوی کی شب کو تمام خاندان بنی ہاشم کے ساتھ (بجز ابولہب کے) کوہ ابو قبیس میں واقع گھاٹی "شعب ابی طالب" میں پناہ گزیں ہو گئے، گھاٹی کو عربی میں شعب کہتے ہیں، کوہ ابو قبیس میں کئی گھاٹیاں تھیں، جیسے شعب المطلب، شعب بنی ہاشم، شعب بنی اسد، شعب بنی عامر، شعب بنی کنانہ وغیرہ، یہ شعب بنی ہاشم کی موروثی ملکیت تھی، اس وقت بنی ہاشم کے سردار ابو طالب تھے، اس لئے یہ گھاٹی ان ہی کے نام سے شعب ابی طالب کہلانے لگی، آج کل شعب ابی طالب مکہ کے بازار "سوق اللیل" کے مقابل ایک بستی ہے جو اطراف کی تین گھاٹیوں کے درمیان ہے، اسے محلۂ ہاشمی بھے کہتے ہیں، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، مولد علی رضی اللہ عنہ اور دارِ خدیجہ رضی اللہ عنہا اس شعب میں واقع ہیں، اسے شعب علی رضی اللہ عنہ یا شعب بنی ہاشم کہا جاتا ہے۔

اس محصوری کے زمانے میں تمام محصورین مصائب و آلام کا شکار تھے، کھانے پینے کی چیزوں کا ذخیرہ چند مہینوں میں ختم ہو گیا، قریش مکہ کے بائیکاٹ کے نتیجے میں غلّے اور سامان خورد ونوش کی آمد بند ہوگئی، کیونکہ مکے میں جو غلہ یا فروختنی سامان آتا تھا اسے مشرکین لپک کر خرید لیتے تھے، اس لئے فقر و فاقہ کی نوبت آگئی، ان کے پاس بمشکل ہی کوئی چیز پہنچ پاتی تھی وہ بھی پس پردہ، بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں اور عورتوں کی آوازیں جب گھاٹی کے باہر سنائی دیتیں تو قریش سن سن کر خوش ہوتے تھے۔

حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی خاطر تمام محصورین یہ تکالیف برداشت کر رہے تھے، احادیث میں جو صحابہ کی زبان سے مذکور ہے کہ ہم طلح کی پتیاں کھا کھا کر بسر کرتے تھے،  یہ اسی زمانہ کا واقعہ ہے: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رات کو اونٹ کا سوکھا ہوا چمڑا ہاتھ آگیا، میں نے اس کو پانی سے دھویا، پھر آگ پر بھونا اور پانی میں ملا کر کھایا، اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جو نازو نعم میں پلی بڑھی تھیں، لیکن ہرطرح کی مصیبت اور فقر و فاقہ برداشت کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غم گساری کی اور مسلم خواتین کے لئے ایک بہترین مثال چھوڑ گیئں۔

محصورین صرف ایام حج میں ہی شعب سے باہر نکل سکتے تھے اور اس وقت بھی قریش یہ کرتے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو زائد قیمت پر خرید لیتے تاکہ محصورین کو کچھ نہ مل سکے، جس کا منشاء صرف ان کا عرصۂ حیات تنگ کرنا تھا، بعض رحم دل انسانوں کو محصورین کی اس حالت پر ترس بھی آتا تو وہ چوری چھپے کچھ غلہ پہنچانے کی کوشش کرتے، لیکن کڑی نگرانی کے باعث انھیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، ایک روز حکیم بن حزام نے (جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) راتوں میں چھپ چھپاتے ہوئے اپنے غلام کے ذریعہ کچھ گیہوں بھیجے تو راستہ میں ابو جہل نے دیکھا اور چھین لینا چاہا، اتفاق سے ابوالبختری بن ہشام وہاں آگیا اور اس نے بیچ بچاؤ کیا، وہ اگرچہ کافر تھا، لیکن اس کو بھی رحم آیا اور کہا کہ ایک شخص اپنی پھوپھی کو کھانے کے لئے کچھ غلہ بھیجتا ہے تو کیوں روکتا ہے؟ لیکن ابوجہل نے سرکشی دکھائی تو ابوالبختری نے قریب میں پڑی اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اس پر دے ماری اور خوب زدو کوب کیا، یہ منظر شعب سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ دیکھ رہے تھے۔

عبد مناف کا ایک رشتہ دار ہشام بن عمرو بن حارث تھا جو بہت شریف اور نیک طینت انسان تھا،  محصورین کی حالت پر رحم کھا کر رات میں اونٹ پر اجناس لاد کر شعب میں ہانک دیتا، بنی ہاشم سامان اتار کر اونٹ کو باہر بھیج دیتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے داماد ابوالعاص بن ربیع (رضی اللہ عنہ۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) جن کا تعلق بنی اُمیہ سے تھا، وہ بھی اکثر راتوں میں کھجور اور گیہوں شعب میں بھجوا دیتے۔

ادھر محصوری کے دوران حضرت ابو طالب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں برابر خطرہ لگا رہتا تھا، حضرت ابو طالب اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ جب لوگ اپنے بستروں پر سونے کے لئے دراز ہوجاتے تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک بستر پر لیٹنے کے لئے کہتے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل و غارت کا ارادہ رکھنے والا دیکھ لے کہ آپ یہاں سو رہے ہیں، جب لوگ نیند میں مدہوش ہوجاتے تو حضرت ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ بدل دیتے، یعنی اپنے بیٹوں، بھائیوں یا بھتیجوں میں سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر سلا دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے کہ آپ اس کے بستر پر چلے جائیں۔

اس محصوری کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے مسلمان حج کے ایام میں باہر نکلتے تھے اور حج کے لیے آنے والوں سے مل کر انہیں
اسلام کی دعوت دیتے تھے، اس موقع پر ابو لہب کی جو حرکت ہوا کرتی تھی اس کا ذکر پچھلی اقساط میں آچکا ہے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 65  تین سال شعب ابی طالب میں:  قریش مکہ کے سماجی مقاطعہ کے بعد حضرت ابوطالب مجبور ہو کر بنو ہاشم ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 64


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 64 

ظلم و ستم کا بیان۔ مکمل بائیکاٹ: 



کفّار قریش دیکھ رہے تھے کہ ان کی مزاحمت کے باوجود اسلام پھیلتا ہی جاتا ہے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے لوگ ایمان لا چکے ہیں، نجاشی نے مسلمانوں کو پناہ دی اور وہاں سے ان کے سفراء بے نیل و مرام واپس آئے، اس سے قریش کا رویّہ دن بہ دن سخت سے سخت تر ہوتا جاتا تھا، معاندانہ سرگرمیاں اور سازشیں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھیں، اس سے بنی ہاشم (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان) کے سردار کس طرح اپنی آنکھیں بند کر سکتے تھے، انہوں نے بنی ہاشم اور بنی مطلّب کو جمع کیا، عصبیتِ قبیلہ کی بناء پر سب ایک ہو گئے بجز ابو لہب کے۔

یہ کوئی دینی مسئلہ نہیں، بلکہ قبیلہ کی حمایت کا سوال تھا، سرداران قریش نے حضرت ابو طالب کے پاس جاکر یہ دھمکی دی کہ آپ اپنے بھتیجے کو ایسی باتوں سے روکیں یا ہم سے برسر پیکار ہوجائیں، یہاں تک کہ ایک فریق فنا ہوجائے، اس کے بعد حضرت ابو طالب نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا کر کہا کہ اے بھتیجے! آپ مجھ پر اور اپنی ذات پر رحم کھائیے اور ناقابل برداشت بوجھ مجھ پر نہ ڈالئے، یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اے چچا جان! والله! اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ پر مہتاب بھی رکھ دیں تو میں اپنی دعوت سے باز نہ آؤں گا۔"

جب حضرت ابو طالب نے یہ متحدہ محاذ دیکھا تو انہوں نے یہ طے کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت و حمایت کی بات بنو ہاشم کے سامنے رکھیں اور ان کو بھی اس کی دعوت دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت و حمایت کا عہد ان سے لیں، حضرت ابو طالب کی دعوت پر بجز دشمن اسلام ابو لہب کے بنو ہاشم کا ایک ایک فرد جمع ہوگیا، جب بنو ہاشم کے سامنے ابو طالب نے قریش کی معاندانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کی شدت کی روداد کو رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور حمایت کا مسئلہ ان کے سامنے رکھا اور اپنے عہد و عزیمت کا ان کے سامنے اظہار کیا اور ان کو بھی اس کی دعوت دی تو سبھوں نے ابو طالب کی دعوت پر لبیک کہا اور عہد کیا کہ ہم ہر حال میں آپ کے ساتھ رہیں گے۔

حضرت ابوطالب اپنے نوجوانوں کے اس فیصلہ سے بہت مسرور ہوئے اور انتہائی مسرت میں پرجوش الفاظ میں خاندانی مفاخرت اور ہاشمی شجاعت اور ہمیشہ ظلم کی مدافعت میں سینہ سپر رہنے کی روایات پر اشعار کہے اور قصائد لکھ کر بنو ہاشم کو ان کی عظمت کا احساس دلایا، یہ اشعار کعبہ میں بلند آواز میں پڑھے گئے، اس پُرزور قصیدہ نے قبائلی وقار کی خاطر منتشر قوتوں کو یکجا کردیا اور حضرت ابو طالب کی کوششوں سے بنی ہاشم، بنی مطلّب اور بنی عبد مناف کی عصبیت جاگ اٹھی اور تینوں گھرانے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کے لئے متحد ہوگئے۔

جب مشرکین نے یہ دیکھا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب ہر قیمت پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور بچاؤ کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں تو بالآخر وادی مُحصَّب میں خیف بنی کنانہ کے اندر جمع ہو کر انہوں نے بنی ہاشم سے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور اس مقاطعہ کا تحریری عہد نامہ مختصر الفاظ میں چمڑہ پر لکھوایا گیا۔

دانشوران کفر نے بعد مشورہ قبیلہ بنی ہاشم کے سماجی و معاشی مقاطعہ کی تجویز منظور کی، اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق اسی گھرانہ سے تھا اور دوسرے یہ کہ بہ حیثیت سربراہ قبیلہ حضرت ابوطالب نے ان کی بار بار کی درخواست کو ٹھکرا دیا تھا، انہوں نے خیال کیا کہ اگر بنی ہاشم کو یوں بے بس کر دیا جائے تو خود بخود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حوالے کردیں گے، اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اک عہد نامہ مرتب ہوا جو بنی ہاشم، بنی مطلّب اور بنی عبد مناف کے خلاف تھا۔

یہ مقاطعہ کسی خاص مدت کے لئے نہیں تھا بلکہ غیر معینہ مدت کے لئے تھا جب تک محصورین خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حوالے نہ کردیں، مقاطعہ کی اہم شرائط حسب ذیل ہیں: 

①: ذریعہ معاش تباہ کرنے کے لئے کوئی بھی ان کے ساتھ لین دین اور خرید و فروخت نہ کرے گا۔
②: بنی ہاشم سے صلہ رحمی باقی نہ رکھنے کے لئے کوئی بھی ان کی لڑکیوں سے نکاح نہیں کرے گا اورنہ اپنی بیٹی انہیں دے گا۔
③: انہیں اپنی صحبت میں بھی نہیں بیٹھنے دیا جائے گا، تاکہ کوئی شخص ان کی باتوں سے متاثر نہ ہو۔
④: ان سے قطع تعلق کرنے کے لئے کوئی بھی ان سے بات چیت نہیں کرے گا۔
⑤: انہیں بھوکے رکھنے کے لئے خوراک فراہم نہیں کی جائے گی اور ان کا کوئی حمایتی انہیں خوراک نہیں پہنچائے گا۔
⑥: سب لوگوں سے روابط ختم کرنے کے لئے انھیں بازاروں میں گھومنے پھرنے نہیں دیا جائے گا۔

مشرکین نے اس بائیکاٹ کی دستاویز کے طور پر ایک صحیفہ لکھا، جس میں اس بات کا عہد وپیمان کیا گیا تھا کہ وہ بنی ہاشم کی طرف سے کبھی بھی کسی صلح کی پیش کش قبول نہ کریں گے نہ ان کے ساتھ کسی طرح کی مروت برتیں گے جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے مشرکین کے حوالے نہ کردیں۔

بہر حال یہ عہد وپیمان طے پا گیا اور صحیفہ خانہ کعبہ کے اندر لٹکا دیا گیا، اس کے نتیجے میں ابولہب کے سوا بنی ہاشم اور بنی مطلب کے سارے افراد خواہ مسلمان رہے ہوں یا کافر، سمٹ سمٹا کر "شِعَبِ ابی طالب" میں محبوس ہوگئے، یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتویں سال محرم کی چاند رات کا واقعہ ہے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 64  ظلم و ستم کا بیان۔ مکمل بائیکاٹ:  کفّار قریش دیکھ رہے تھے کہ ان کی مزاحمت کے باوجود اسلام پ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 63


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 63 

مشرکین کی سنجیدہ غور وفکر اور پھر یہود سے رابطہ:


مذکورہ بات چیت، اتنی ترغیبات، سودے بازیوں اور دست برداریوں میں ناکامی کے بعد مشرکین کے سامنے راستے تاریک ہوگئے تھے، وہ حیران تھے کہ اب کیا کریں؟ چنانچہ ان کے ایک شیطان "نضر بن حارث" نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا: 

"قریش کے لوگو! واللہ! تم پر ایسی افتاد آن پڑی ہے کہ تم لوگ اب تک اس کا کوئی توڑ نہیں لا سکے،  محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں جوان تھے تو تمہارے سب سے پسندیدہ آدمی تھے، سب سے زیادہ سچے اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھے، اب جبکہ ان کی کنپٹیوں پر سفیدی دکھائی پڑنے کو ہے (یعنی ادھیڑ ہوچلے ہیں) اور وہ تمہارے پاس کچھ باتیں لے کر آئے ہیں، تم کہتے ہو کہ وہ جادوگر ہیں، نہیں! واللہ! وہ جادوگر نہیں، ہم نے جادوگر دیکھے ہیں، ان کی چھاڑ پھونک اور گرہ بندی بھی دیکھی ہے اور تم لوگ کہتے ہو وہ کاہن ہیں، نہیں! واللہ! وہ کاہن بھی نہیں، ہم نے کاہن بھی دیکھے ہیں، ان کی الٹی سیدھی حرکتیں بھی دیکھی ہیں اور ان کی فقرہ بندیاں بھی سنی ہیں، تم لوگ کہتے ہو وہ شاعر ہیں، نہیں! واللہ! وہ شاعر بھی نہیں، ہم نے شعر بھی دیکھا ہے اور اس کے سارے اصناف،  ہجز، رجز وغیرہ سنے ہیں، تم لوگ کہتے ہو وہ پاگل ہیں، نہیں! واللہ! وہ پاگل بھی نہیں، ہم نے پاگل پن بھی دیکھا ہے، ان کے یہاں نہ اس طرح کی گھٹن ہے نہ ویسی بہکی بہکی باتیں اور نہ ان کے جیسی الٹی سیدھی حرکتیں۔ قریش کے لوگو! سوچو! واللہ! تم پر زبردست افتاد آن پڑی ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر چیلنج کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری ترغیبات پر لات مار دی ہے اور ہر معاملے میں بالکل کھرے اور ٹھوس ثابت ہوئے ہیں، جبکہ سچائی، پاکدامنی اور مکارم اخلاق سے پہلے ہی سے بہرہ ور چلے آرہے ہیں تو ان کا یہ شبہ زیادہ قوی ہوگیا کہ آپ واقعی رسول برحق ہیں، لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہود سے رابطہ قائم کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ذرا اچھی طرح اطمینان حاصل کرلیا جائے، چنانچہ جب نضر بن حارث نے مذکورہ نصیحت کی تو قریش نے خود اسی کو مکلف کیا کہ وہ ایک یا چند آدمیوں کو ہمراہ لے کر یہود مدینہ کے پاس جائے اور ان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملے کی تحقیق کرے۔

چنانچہ وہ مدینہ آیا تو علماء یہود نے کہا کہ اس سے تین باتوں کا سوال کرو، اگر وہ بتادے تو نبی مرسل ہے، ورنہ سخن ساز۔

①: اس سے پوچھو کہ پچھلے دور میں کچھ نوجوان گزرے ہیں، ان کا کیا واقعہ ہے؟ کیونکہ ان کا بڑا عجیب واقعہ ہے۔

②: اور اس سے پوچھو کہ ایک آدمی نے زمین کے مشرق و مغرب کے چکر لگائے، اس کی کیا خبر ہے؟

③: اور اس سے پوچھو کہ روح کیا ہے؟

اس کے بعد نضر بن حارث مکہ آیا تو اس نے کہا کہ میں تمہارے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک فیصلہ کن بات لے کر آیا ہوں، اس کے ساتھ ہی اس نے یہود کی کہی ہوئی بات بتائی،  چنانچہ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان تینوں باتوں کا سوال کیا، چند دن بعد ''سورۂ کہف '' نازل ہوئی جس میں ان جوانوں کا اور اس چکر لگانے والے آدمی کا واقعہ بیان کیا گیا تھا جو ان اصحاب کہف میں سے تھے اور وہ آدمی ذوالقرنین تھا، روح کے متعلق جواب سورۂ اسراء میں نازل ہوا۔

اس سے قریش پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے اور برحق پیغمبر ہیں،  لیکن پھر بھی ان ظالموں نے کفر وانکار ہی کا راستہ اختیار کیا۔

مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا جس انداز سے مقابلہ کیا تھا، یہ اس کا ایک مختصر سا خاکہ ہے، انہوں نے یہ سارے اقدامات پہلو بہ پہلو کیے تھے، وہ ایک ڈھنگ سے دوسرے ڈھنگ اور ایک طرز عمل سے دوسرے طرز عمل کی طرف منتقل ہوتے رہتے تھے، سختی سے نرمی کی طرف اور نرمی سے سختی کی طرف، جدال سے سودے بازی کی طرف اور سودے بازی سے جدال کی طرف، دھمکی سے ترغیب کی طرف اور ترغیب سے دھمکی کی طرف، کبھی بھڑکتے کبھی نرم پڑ جاتے، کبھی جھگڑے اور کبھی چکنی چکنی باتیں کرنے لگتے، کبھی مرنے مارنے پر اتر آتے اور کبھی خود اپنے دین سے دست بردار ہونے لگتے، کبھی گرجتے برستے اور کبھی عیش دنیا کی پیشکش کرتے، نہ انہیں کسی پہلو قرار تھا، نہ کنارہ کشی ہی گورا تھی اور ان سب کا مقصود یہ تھا کہ اسلامی دعوت ناکام ہوجائے اور کفر کا پراگندہ شیرازہ پھر سے جڑ جائے۔

لیکن ان ساری کوششوں اور سارے حیلوں کے بعد بھی وہ ناکام ہی رہے اور ان کے سامنے صرف ایک ہی چارۂ کار رہ گیا اور یہ تھا تلوار، مگر ظاہر ہے تلوار سے اختلاف میں اور شدت ہی آتی، بلکہ باہم کشت وخون کا ایسا سلسلہ چل پڑتا جو پوری قوم کو لے ڈوبتا، اس لیے مشرکین حیران تھے کہ وہ کیا کریں۔؟ 


==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 63  مشرکین کی سنجیدہ غور وفکر اور پھر یہود سے رابطہ: مذکورہ بات چیت، اتنی ترغیبات، سودے بازیوں او...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 62


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 62 

قریش کی سودے بازیاں اور دست برداریاں: 


جب قریش ترغیب و تحریص اور دھمکی و وعید سے ملی جلی اپنی گفتگو میں ناکام ہوگئے اور ابوجہل کو اپنی رعونت اور ارادۂ قتل میں منہ کی کھانی پڑی تو قریش میں ایک پائیدار حل تک پہنچنے کی رغبت بیدار ہوئی تاکہ جس ''مشکل'' میں وہ پڑ گئے تھے اس سے نکل سکیں۔

ادھر انہیں یہ یقین بھی نہیں تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقعی باطل پر ہیں، بلکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے وہ لوگ ڈگمگا دینے والے شک میں تھے، لہٰذا انہوں نے مناسب سمجھا کہ دین کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سودے بازی کی جائے، اسلام اور جاہلیت دونوں بیچ راستے میں ایک دوسرے سے مل جائیں اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر اپنی کچھ باتیں مشرکین چھوڑ دیں اور بعض باتوں کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چھوڑنے کے لیے کہا جائے، ان کا خیال تھا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت بر حق ہے تو اس طرح وہ بھی اس حق کو پالیں گے۔

ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانۂ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ اسود بن مطلب بن اسد بن عبدالعزیٰ، ولید بن مغیرہ، امیہ بن خلف اور عاص بن وائل سہمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آگئے، یہ سب اپنی قوم کے بڑے لوگ تھے، بولے: "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئیے! جسے آپ پوجتے ہیں اسے ہم بھی پوجیں اور جسے ہم پوجتے ہیں اسے آپ بھی پوجیں، اسی طرح ہم اور آپ اس کام میں مشترک ہوجائیں، اب اگر آپ کا معبود ہمارے معبود سے بہتر ہے تو ہم اس سے اپنا حصہ حاصل کرچکے ہوں گے اور اگر ہمارا معبود آپ کے معبود سے بہتر ہوا تو آپ اس سے اپنا حصہ حاصل کرچکے ہوں گے۔"

اس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ نازل فرمائی، جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ جسے تم لوگ پوجتے ہو اسے میں نہیں پوج سکتا۔

ابن جریر وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: "آپ ایک سال ہمارے معبودوں کی پوجا کریں اور ہم ایک سال آپ کے معبود کی پوجا کریں۔" اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: 

قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّـهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ O ﴿٦٤﴾ (۳۹: ۶۴) 

"آپ کہہ دیں کہ اے نادانو! کیا تم مجھے غیر اللہ کی عبادت کے لیے کہتے ہو۔" ( تفسیر ابن جریر طبری) 

اللہ تعالیٰ نے اس قطعی اور فیصلہ کن جواب سے اس مضحکہ خیز گفت وشنید کی جڑ کاٹ دی، لیکن پھر بھی قریش پورے طور سے مایوس نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے دین سے مزید دست برداری پر آمادگی ظاہر کی، البتہ یہ شرط لگائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جو تعلیمات لے کر آئے ہیں اس میں کچھ تبدیلی کریں، چنانچہ انہوں نے کہا: "اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اسی میں تبدیلی کردو۔"

اللہ نے اس کا جو جواب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتلایا اس کے ذریعہ یہ راستہ بھی کاٹ دیا۔ چنانچہ فرمایا: 

قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ O ﴿١٥﴾ (۱۰: ۱۵) 

"آپ کہہ دیں مجھے اس کا اختیار نہیں کہ میں اس میں خود اپنی طرف سے تبدیلی کروں، میں تو محض اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی وحی میری طرف کی جاتی ہے، میں نے اگر اپنے رب کی نافرمانی کی تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔" 


==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 62  قریش کی سودے بازیاں اور دست برداریاں:  جب قریش ترغیب و تحریص اور دھمکی و وعید سے ملی جلی اپنی...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 61


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 61 

رسول ﷺ سے رؤسائے قریش کی بات چیت: 


ان دونوں بطلِ جلیل یعنی حضرت حمزہ بن عبد المطلب اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے مسلمان ہوجانے کے بعد ظلم وطغیان کے بادل چھٹنا شروع ہوگئے اور مسلمانوں کو جور وستم کا تختۂ مشق بنانے کے لیے مشرکین پر جو بدمستی چھائی تھی، اس کی جگہ سوجھ بوجھ نے لینی شروع کی، چنانچہ دانشوران کفر نے "دارالندوہ" میں تمام سرداروں کو جمع کرکے مشورہ کیا جس میں طے ہوا کہ سب مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے راست گفتگو کریں، اس کے بعد ایک دن سورج ڈوبنے کے بعد کعبہ کی پشت پر جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا بھیجا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیر کی توقع لیے ہوئے جلدی سے تشریف لائے، جب ان کے درمیان بیٹھ چکے تو انہوں نے ویسی ہی باتیں کہیں جیسی عتبہ نے کہی تھیں اور وہی پیشکش کی جو عتبہ نے کی تھی، شاید ان کا خیال رہا ہو کہ ممکن ہے تنہا عتبہ کے پیشکش کرنے سے آپ کو پورا اطمینان نہ ہوا ہو، اس لیے جب سارے رؤساء مل کر اس پیشکش کو دہرائیں گے تو اطمینان ہوجائے گا اور آپ اسے قبول کر لیں گے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

"میرے ساتھ وہ بات نہیں جو آپ لوگ کہہ رہے ہیں، میں آپ لوگوں کے پاس جو کچھ لے کر آیا ہوں وہ اس لیے نہیں لے کر آیا ہوں کہ مجھے آپ کا مال مطلوب ہے یا آپ کے اندر شرف مطلوب ہے یا آپ پر حکمرانی مطلوب ہے، نہیں بلکہ مجھے اللہ نے آپ کے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، مجھ پر اپنی کتاب اتاری ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو خوشخبری دوں اور ڈراؤں، لہٰذا میں نے آپ لوگوں تک اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور آپ لوگوں کو نصیحت کردی، اب اگر آپ لوگ میری لائی ہوئی بات قبول کرتے ہیں تو یہ دنیا اور آخرت میں آپ کا نصیب ہے اور اگر رد کرتے ہیں تو میں اللہ کے امر کا انتظار کروں گا، یہاں تک کہ وہ میرے اور آپ کے درمیان فیصلہ فرمادے۔"

اس جواب کے بعد انہوں نے ایک دوسرا پہلو بدلا، کہنے لگے: "آپ اپنے رب سے سوال کریں کہ وہ ہمارے پاس سے ان پہاڑوں کو ہٹا کر کھلا ہوا میدان بنادے اور اس میں ندیاں جاری کردے اور ہمارے مُردوں بالخصوص قصی بن کلاب کو زندہ کر لائے، اگر وہ آپ کی تصدیق کردیں تو ہم بھی ایمان لے آئیں گے۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس بات کا بھی وہی جواب دیا، اس کے بعد انہوں نے ایک تیسرا پہلو بدلا، کہنے لگے: "آپ اپنے رب سے سوال کریں کہ وہ ایک فرشتہ بھیج دے جو آپ کی تصدیق کرے اور جس سے ہم آپ کے بارے میں مراجعہ بھی کرسکیں اور یہ بھی سوال کریں کہ آپ کے لیے باغات ہوں، خزانے ہوں اور سونے چاندی کے محل ہوں۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کا بھی وہی جواب دیا۔

اس کے بعد انہوں نے ایک چوتھا پہلو بدلا، کہنے لگے: "اچھا تو آپ ہم پر عذاب ہی لادیجیے اور آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی گرادیجیے جیسا کہ آپ کہتے ہیں اور دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، "اس کا اختیار اللہ کو ہے، وہ چاہے تو ایسا کر سکتا ہے۔"
انہوں نے کہا: "کیا آپ کے رب کو معلوم نہ تھا کہ ہم آپ کے ساتھ بیٹھیں گے، آپ سے سوال وجواب کریں گے اور آپ سے مطالبے کریں گے کہ وہ سکھا دیتا کہ آپ ہمیں کیا جواب دیں گے اور اگر ہم نے آپ کی بات نہ مانی تو وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا؟" پھر اخیر میں انہوں نے سخت دھمکی دی اور کہنے لگے: "سن لو! جوکچھ کر چکے ہو اس کے بعد ہم تمہیں یوں ہی نہیں چھوڑیں گے، بلکہ یا تو تمہیں مٹادیں گے یا خود مٹ جائیں گے۔"

یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ گئے اور اپنے گھر واپس آگئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غم وافسوس تھا کہ جو توقع آپ نے باندھ رکھی وہ پوری نہ ہوئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کے پاس سے اٹھ کر واپس تشریف لے گئے تو ابوجہل نے انہیں مخاطب کر کے پورے غرور وتکبر کے ساتھ کہا: "برادران قریش! آپ دیکھ رہے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے دین کی عیب چینی، ہمارے آباء واجداد کی بدگوئی، ہماری عقلوں کی تخفیف اور ہمارے معبودوں کی تذلیل سے باز نہیں آتا، اس لیے میں اللہ سے عہد کررہا ہوں کہ ایک بہت بھاری اور بمشکل اٹھنے والا پتھر لے کر بیٹھوں گا اور جب وہ سجدہ کرے گا تو اس پتھر سے اس کا سر کچل دوں گا، اب اس کے بعد چاہے آپ لوگ مجھ کو بے یارومددگار چھوڑ دیں، چاہے میری حفاظت کریں اور بنوعبد مناف بھی اس کے بعد جو جی چاہے کریں۔"

لوگوں نے کہا: "نہیں واللہ! ہم تمہیں کبھی کسی معاملے میں بے یارو مدد گار نہیں چھوڑ سکتے، تم جو کرنا چاہو کر گزرو۔" چنانچہ صبح ہوئی تو ابوجہل ویسا ہی ایک پتھر لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں بیٹھ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسب دستور تشریف لائے اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے، قریش بھی اپنی اپنی مجلسوں میں آچکے تھے اور ابو جہل کی کاروائی دیکھنے کے منتظر تھے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں تشریف لے گئے تو ابوجہل نے پتھر اٹھایا، پھر آپ کی جانب بڑھا، لیکن جب قریب پہنچا تو شکست خوردہ حالت میں واپس بھاگا، اس کا رنگ فق تھا اور اس قدر مرعوب تھا کہ اس کے دونوں ہاتھ پتھر پر چپک کر رہ گئے تھے، وہ بمشکل ہاتھ سے پتھر پھینک سکا، ادھر قریش کے کچھ لوگ اٹھ کر اس کے پاس آئے اور کہنے لگے: "ابوالحکم! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟"

اس نے کہا: "میں نے رات جو بات کہی تھی وہی کرنے جارہا تھا، لیکن جب اس کے قریب پہنچا تو ایک اونٹ آڑے آگیا، واللہ! میں نے کبھی کسی اونٹ کی ویسی کھوپڑی، ویسی گردن اور ویسے دانت دیکھے ہی نہیں، وہ مجھے کھا جانا چاہتا تھا۔"

ابن اسحاق کہتے ہیں: مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "یہ جبریل علیہ السلام تھے، اگر ابوجہل قریب آتا تو اسے ادھر پکڑتے۔"


==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 61  رسول ﷺ سے رؤسائے قریش کی بات چیت:  ان دونوں بطلِ جلیل یعنی حضرت حمزہ بن عبد المطلب اور ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 60


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 60 

حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو اسلام پردے سے باہر آیا: 


حضرت عمر رضی الله عنہ کی زور آوری کا حال یہ تھا کہ کوئی ان سے مقابلے کی جرأت نہ کرتا تھا،  اس لیے ان کے مسلمان ہوجانے سے مشرکین میں کہرام مچ گیا اور انہیں بڑی ذلت ورسوائی محسوس ہوئی، دوسری طرف ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بڑی عزت وقوت، شرف واعزاز اور مسرت وشادمانی حاصل ہوئی۔

ابن اسحاق نے اپنی سند سے حضرت عمر رضی الله عنہ کا بیان روایت کیا ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں نے سوچا کہ مکہ کا کون شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا اور سخت ترین دشمن ہے، پھر میں نے جی ہی جی میں کہا: ''یہ ابو جہل ہے۔'' اس کے بعد میں نے اس کے گھر جاکر اس کا دروازہ کھٹکھٹایا، وہ باہر آیا، دیکھ کر بولا: "أھلًا وسھلًا (خوش آمدید،خوش آمدید) کیسے آنا ہوا۔؟"

میں نے کہا: "تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاچکا ہوں اور جو کچھ وہ لے کر آئے ہیں، اس کی تصدیق کرچکا ہوں۔

حضرت عمر رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ (یہ سنتے ہی ) اس نے میرے رخ پر دروازہ بند کر لیا اور بولا:  "اللہ تیرا برا کرے اور جو کچھ تو لے کر آیا ہے، اس کا بھی برا کرے۔"

امام ابن جوزی نے حضرت عمر رضی الله عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ جب کوئی شخص مسلمان ہو جاتا تو لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے، اسے زدوکوب کرتے اور وہ بھی انہیں مارتا، اس لیے جب میں مسلمان ہوا تو اپنے ماموں عاص بن ہاشم کے پاس گیا اور اسے خبر دی، وہ گھر کے اندر گھس گیا، پھر قریش کے ایک بڑے آدمی کے پاس گیا (شاید ابوجہل کی طرف اشارہ ہے) اور اسے خبر دی، وہ بھی گھر کے اندر گھس گیا۔

ابن ہشام اور ابن جوزی کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر رضی الله عنہ مسلمان ہوئے تو جمیل بن معمر جمحی کے پاس گئے، یہ شخص کسی بات کا ڈھول پیٹنے میں پورے قریش کے اندر سب سے زیادہ ممتاز تھا، حضرت عمر نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں، اس نے سنتے ہی نہایت بلند آواز سے چیخ کر کہا کہ "خطاب کا بیٹا بے دین ہو گیا ہے۔"

حضرت عمر رضی الله عنہ اس کے پیچھے ہی تھے، بولے: "یہ جھوٹ کہتا ہے، میں مسلمان ہوگیا ہوں۔" بہر حال لوگ حضرت عمر رضی الله عنہ پر ٹوٹ پڑے اور مار پیٹ شروع ہوگئی، لوگ حضرت عمر رضی الله عنہ کو مار رہے تھے اور حضرت عمر رضی الله عنہ لوگوں کو مار رہے تھے، یہاں تک کہ سورج سر پر آگیا اور حضرت عمر رضی الله عنہ تھک کر بیٹھ گئے، لوگ سر پر سوار تھے، حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا: "جو بن پڑے کرلو، اللہ کی قسم! اگر ہم لوگ تین سو کی تعداد میں ہوتے تو پھر مکہ میں یا تو تم ہی رہتے یا ہم ہی رہتے۔"

حضرت عمر رضی الله عنہ کے اسلام لانے پر یہ کیفیت تو مشرکین کی ہوئی تھی، باقی رہے مسلمان تو ان کے احوال کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مجاہد نے ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عمر بن الخطاب رضی الله عنہ سے دریافت کیا کہ کس وجہ سے آپ کا لقب فاروق پڑا تو انہوں نے کہا: "مجھ سے تین دن پہلے حضرت حمزہ رضی الله عنہ مسلمان ہوئے۔" پھر حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرکے اخیر میں کہا کہ "پھر جب میں مسلمان ہوا تو میں نے کہا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا ہم حق پر نہیں ہیں، خواہ زندہ رہیں، خواہ مریں۔؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "کیوں نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم لوگ حق پر ہو، خواہ زندہ رہو، خواہ موت سے دوچار ہو۔"

حضرت عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ تب میں نے کہا: "پھر چُھپنا کیسا؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! ہم ضرور باہر نکلیں گے۔"

چنانچہ ہم دوصفوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمراہ لے کر باہر آئے، ایک صف میں حمزہ رضی الله عنہ تھے اور ایک میں، میں تھا، ہمارے چلنے سے چکی کے آٹے کی طرح ہلکا ہلکا غبار اڑ رہا تھا، یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہوگئے، حضرت عمر رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ قریش نے مجھے اور حمزہ رضی الله عنہ کو دیکھا تو ان کے دلوں پر ایسی چوٹ لگی کہ اب تک نہ لگی تھی،  اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا لقب "فاروق" رکھ دیا۔"

حضرت صہیب بن سنان رومی رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ مسلمان ہوئے تو اسلام پردے سے باہر آیا، اس کی علانیہ دعوت دی گئی، ہم حلقے لگا کر بیت اللہ کے گرد بیٹھے، بیت اللہ کا طواف کیا اور جس نے ہم پر سختی کی، اس سے انتقام لیا اور اس کے بعض مظالم کا جواب دیا۔

حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ کا ارشاد ہے کہ ہم خانۂ کعبہ کے پاس نماز پڑھنے پر قادر نہ تھے،  یہاں تک کہ حضرت عمر نے اسلام قبول کیا، جب سے حضرت عمر رضی الله عنہ نے اسلام قبول کیا،  تب سے ہم برابر طاقتور اور باعزت رہے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 60  حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو اسلام پردے سے باہر آیا:  حضرت عمر رضی الله عنہ کی زور آوری ک...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 59

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 59 

حضرت عمر ؓ کا قبول اسلام (حصہ دوم)

ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف فرما تھے.. آپ پر وحی نازل ہورہی تھی.. وحی نازل ہوچکی تو حضرت عمر رضی الله عنہ کے پاس تشریف لائے.. بیٹھک میں ان سے ملاقات ہوئی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کپڑے اور تلوار کا پرتلا سمیٹ کر پکڑا اور سختی سے جھٹکتے ہوئے فرمایا.. "عمر ! کیا تم اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک اللہ تعالیٰ تم پر بھی ویسی ہی ذلت ورسوائی اور عبرتناک سزا نازل نہ فرمادے جیسی ولید بن مغیرہ پر نازل ہو چکی ہے..؟"

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرجلال آواز نے ان کو کپکپا دیا.. نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ عرض کیا.. "ایمان لانے کے لئے.." اور فوراً کلمہ شہادت پڑھ لیا.. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے اختیار اللہ اکبر پکار اٹھے اور ساتھ ہی تمام صحابہ نے مل کر اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں..

یہی روایت تھوڑے سے تغیر کے ساتھ دارقطنی , ابویعلیٰ , حاکم اور بیہقی میں حضرت انس سے مروی ہے..

ان روایتوں کے علاوہ مسند ابن حنبل میں ایک روایت خود حضرت عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے جو گو ایک تابعی کی زبان سے مروی ہے تاہم اس باب میں سب سے زیادہ محفوظ ہے.. حضرت عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھیڑنے نکلا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑھ کر مسجد حرام میں داخل ہوگئے اور نماز شروع کردی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۂ الحاقہ تلاوت فرمائی.. میں کھڑا سنتا رہا اور قرآن کے نظم واسلوب سے حیرت میں تھا.. دل میں کہا.. "جیسا قریش کہا کرتے ہیں خدا کی قسم ! یہ شاعر ہے.." ابھی یہ خیال آیا ہی تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی..

اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ O وَّمَا ہُوَبِقَوْلِ شَاعِرٍ O قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ O
"یہ ایک بزرگ قاصد کا کلام ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں.. تم بہت کم ایمان رکھتے ہو.."

میں نے کہا.. "یہ تو کاہن ہے.. میرے دل کی بات جان گیا ہے.." اس کے بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی..

وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ O قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ O تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ O
"یہ کاہن کا کلام بھی نہیں.. تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو.. یہ تو جہانوں کے پروردگار کی طرف سے اترا ہے.."

آپ نے یہ سورۃ آخر تک تلاوت فرمائی اور اس کو سن کر اسلام میرے دل میں پوری طرح گھر کرگیا.. (مسند ابن حنبل , ج۱ : ۱۷)

اس کے علاوہ صحیح بخاری میں خود حضرت عمر رضی الله عنہ کی زبانی یہ روایت ہے کہ بعثت سے کچھ پہلے یا اس کے بعد ہی وہ ایک بت خانہ میں سوتے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک بت پر ایک قربانی چڑھائی گئی اور اس کے اندر سے آواز آئی.. "اے جلیج ! ایک فصیح البیان کہتا ہے O لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللہ O اس آواز کا سننا تھا کہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے لیکن میں کھڑا رہا کہ دیکھوں اس کے بعد کیا ہوتا ہے کہ پھر وہی آواز آئی.. اس واقعہ پر تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ لوگوں میں چرچا ہوا کہ یہ نبی ہیں..

اس روایت میں اس کا بیان نہیں ہے کہ اس آواز کا حضرت عمر رضی الله عنہ پر کیا اثر ہوا..

پہلی عام روایت بھی اگر صحیح مان لی جائے تو شاید واقعہ کی ترتیب یہ ہوگی کہ اس ندائے غیب پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے لبیک نہیں کہا اور اس کا کوئی تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی بشارت سے وہ نہ پیدا کرسکے کہ اس میں ان کی رسالت اور نبوت کا کوئی ذکر نہ تھا.. تاہم چونکہ توحید کا ذکر تھا اس لئے ادھر میلان ہوا ہوگا لیکن چونکہ ان کو قرآن سننے کا موقع نہیں ملا , اس لئے اس توحید کی دعوت کی حقیقت نہ معلوم ہوسکی.. 

اس کے بعد جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورۃ الحاقہ جس میں قیامت اور حشر ونشر کا نہایت موثر بیان ہے , نماز میں پڑھتے سنی تو ان کے دل پر ایک خاص اثر ہوا جیسا کہ اس فقرے سے ظاہر ہوتا ہے.. "وقع الاسلام فی قلبی کل موقع O یعنی اسلام میرے دل میں پوری طرح بیٹھ گیا" تاہم چونکہ وہ طبعاً مستقل مزاج اور پختہ کار تھے اس لئے انہوں نے اسلام کا اعلان نہیں کیا بلکہ اس اثر کو شاید وہ روکتے رہے لیکن اس کے بعد جب ان کی بہن کا واقعہ پیش آیا اور سورۂ طہٰ پر نظر پڑی جس میں توحید کی نہایت مؤثر دعوت ہے تو دل پر قابو نہ رہا اور بے اختیار کلمہ توحید پکار اٹھے اور در اقدس پر حاضری کی درخواست کی..

اور اگر وہ پہلی روایت صحیح تسلیم نہ کی جائے تو واقعہ کی سادہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس ندائے غیب نے ان کے دل میں توحید کا خیال پیدا کیا لیکن چونکہ تین برس دعوت محدود اور مخفی رہی تھی اس لئے ان کو اس کا حال نہ معلوم ہوسکا اور مخالفت کی شدت کے باعث کبھی خود بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جانے اور قرآن سننے کا موقع نہ ملا.. پھر جب رفتہ رفتہ اسلام کی حقیقت کی مختلف آوازیں ان کے کانوں میں پڑتی گئیں تو ان کی شدت کم ہوتی گئی.. بالآخر وہ دن آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے ان کو سورۃ الحاقہ سننے کا موقع ملا اور وہ لبیک کہتے ہوئے اسلام کے آستانہ پر حاضر ہوگئے..

===============>جاری ہے..

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
صدقہ جاریہ کے طور پر آگے شیئر کر دیں

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 59  حضرت عمر ؓ کا قبول اسلام (حصہ دوم) ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف فرما تھے.. آ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 58


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 58 

حضرت عمر ؓ کا قبول اسلام (حصہ اول): 

حضرت عمر رضی الله عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ 6 نبوی کا ہے، وہ حضرت حمزہ رضی الله عنہ کے صرف تین دن بعد مسلمان ہوئے تھے، قریش کے سربر آوردہ اشخاص میں ابوجہل اور حضرت عمر رضی الله عنہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی میں سب سے زیادہ سرگرم تھے، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی دونوں کے لئے اسلام کی دعا فرمائی۔

اللھم اعز الاسلام باحدالرجلین اما ابن ہشام واماعمر بن الخطاب
"اے اللہ! اسلام کو ابو جہل یا عمر بن الخطاب (رضی الله عنہ) سے معزز کر۔"
(جامع ترمذی، مناقب عمر)

اسی طرح طبرانی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 

اَللھُمَّ اَعِزَّ الاِسلاَمِ بِاَحَبِّ الَّرجُلَینِ اِلَیکَ بعمر بن الخطاب اَو بِاَبِی جہل بن ہشام
"اے اللہ! عمر بن الخطاب (رضی الله عنہ) اور ابوجہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے سے اسلام کو قوّت پہنچا۔"

مگر یہ دولت تو قسّام ازل نے حضرت عمر رضی الله عنہ کی قسمت میں لکھ دی تھی، ابوجہل کے حصہ میں کیونکر آتی؟ اس دعائے مستجاب کا اثر یہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد اسلام کا یہ سب سے بڑا دشمن، اس کا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا جاں نثار بن گیا، یعنی حضرت عمر رضی الله عنہ کا دامن دولت ایمان سے بھر گیا۔

ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ"

تاریخ و سیر کی کتابوں میں حضرت عمر کی تفصیلاتِ اسلام میں اختلاف ہے۔ ایک مشہور واقعہ جس کو عام طور پر ارباب سیر لکھتے ہیں، یہ ہے: 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت حضرت عمر رضی الله عنہ کی عمر ستائیس سال تھی، حضرت عمر رضی الله عنہ اپنی تند مزاجی اور سخت خوئی کے لیے مشہور تھے، مسلمانوں نے طویل عرصے تک ان کے ہاتھوں طرح طرح کی سختیاں جھیلی تھیں۔

حضرت عمر رضی الله عنہ کی بہن فاطمہ رضی الله عنہا کا نکاح حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ سے ہوا تھا جو اسلام قبول کر چکے تھے، حضرت فاطمہ رضی الله عنہا بھی اسلام قبول کر چکی تھیں، لیکن حضرت عمر رضی الله عنہ ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے، قبیلہ کے جو لوگ اسلام لا چکے تھے، حضرت عمر رضی الله عنہ ان کے دشمن ہو گئے، لبینہ رضی الله عنہا ان کے خاندان کی کنیز تھی جس نے اسلام قبول کرلیا تھا، اس کو بے تحاشہ مارتے، مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ "دم لے لوں تو پھر ماروں گا"۔ لبینہ رضی الله عنہا کے علاوہ اور جس جس پر قابو چلتا اس کو خوب مارتے تھے، لیکن ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے دل بر داشتہ نہ کرسکے، آخر مجبور ہو کر (نعوذ باللہ) خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا اور تلوار حمائل کرکے سیدھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان کی طرف چلے۔

راستہ میں بنی زہرہ کے نعیم بن عبداللہ النّحام رضی الله عنہ سے ملاقات ہوئی، پوچھا "کدھر کا ارادہ ہے؟" جواب دیا کہ "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں" انہوں نے کہا: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرکے بنو ہاشم اور بنو زہرہ سے کیسے بچ سکو گے؟"
حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا: "معلوم ہوتا ہے تم بھی اپنا پچھلا دین چھوڑ کر بے دین ہو چکے ہو"
نعیم بن عبداللہ رضی الله عنہ نے کہا: "عمر! ایک عجیب بات نہ بتا دوں؟ تمہاری بہن اور بہنوئی بھی تمہارا دین چھوڑ کر "بے دین" ہوچکے ہیں، پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔"
یہ سن کے غصے سے بے قابو ہوگئے اور سیدھے بہن بہنوئی کا رخ کیا، وہاں انہیں حضرت خباب بن ارت رضی الله عنہ سورۂ طہٰ پر مشتمل ایک صحیفہ پڑھا رہے تھے اور قرآن پڑھانے کے لیے وہاں آنا جانا حضرت خباب رضی الله عنہ کا معمول تھا، بات یہ تھی کہ جب کوئی محتاج شخص مسلمان ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے کسی آسودہ حال صحابی کے سپرد کر دیتے تاکہ اس کی ضروریات کی کفالت کرے، اُم انمار کے غلام حضرت خبّاب بن ارت رضی الله عنہ ایمان لائے تو انہیں حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کے سپرد کیا گیا، یہ دونوں حضرت خبّاب بن ارت رضی الله عنہ ہی سے قرآن سیکھ رہے تھے۔

جب حضرت خباب رضی الله عنہ نے حضرت عمر رضی الله عنہ کی آہٹ سنی تو گھر کے اندر چھپ گئے، ادھر حضرت عمر رضی الله عنہ کی بہن فاطمہ رضی الله عنہا نے صحیفہ چھپا دیا، لیکن حضرت عمر رضی الله عنہ گھر کے قریب پہنچ کر حضرت خباب رضی الله عنہ کی قراءت سن چکے تھے،  چنانچہ پوچھا، "یہ کیسی دھیمی دھیمی آواز تھی جو تم لوگوں کے پاس میں نے سنی تھی؟"

انہوں نے کہا: "کچھ بھی نہیں، بس ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے۔" حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا: "غالباً تم دونوں بے دین ہوچکے ہو۔"

بہنوئی نے کہا: "اچھا عمر! یہ بتاؤ اگر حق تمہارے دین کے بجائے کسی اور دین میں ہو تو؟"
حضرت عمر رضی الله عنہ کا اتنا سننا تھا کہ اپنے بہنوئی پر چڑھ بیٹھے اور انہیں بری طرح کچل دیا،  ان کی بہن نے لپک کر انہیں اپنے شوہر سے الگ کیا تو بہن کو ایسا چانٹا مارا کہ چہرہ خون آلود ہوگیا۔

بہن نے جوش غضب میں کہا: "عمر! اگر تیرے دین کے بجائے دوسرا ہی دین برحق ہو تو؟ ''أشھد أن لا الٰہ الا اللہ وأشھد أنَّ محمدًا رسول اللہ '' میں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور میں شہادت دیتی ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔"

یہ سن کر حضرت عمر رضی الله عنہ پر مایوسی کے بادل چھا گئے اور انہیں اپنی بہن کے چہرے پر خون دیکھ کر شرم و ندامت بھی محسوس ہوئی، کہنے لگے: "اچھا یہ کتاب جو تمہارے پاس ہے ذرا مجھے بھی پڑھنے کو دو۔"

بہن نے کہا: "تم ناپاک ہو، اس کتاب کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں، اٹھو غسل کرو۔" حضرت عمر رضی الله عنہ نے اٹھ کر غسل کیا، پھر کتاب لی اور پڑھی، کہنے لگے: "یہ تو بڑے پاکیزہ نام ہیں" اس کے بعد سے (۲۰: ۱۴) تک قراءت کی، کہنے لگے: "یہ تو بڑا عمدہ اور بڑا محترم کلام ہے، مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پتہ بتاؤ۔"

حضرت خباب رضی الله عنہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے یہ فقرے سن کر اندر سے باہر آگئے، کہنے لگے: "عمر! خوش ہو جاؤ، مجھے امید ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعرات کی رات تمہارے متعلق جو دعا کی تھی (کہ اے اللہ! عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام کے ذریعے اسلام کو قوت پہنچا) یہ وہی ہے اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ صفا کے پاس حضرت ارقم کے مکان میں تشریف فرما ہیں۔"

یہ سن کر حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنی تلوار حمائل کی اور اس گھر کے پاس آکر دروازے پر دستک دی، ایک آدمی نے اٹھ کر دروازے کی دراز سے جھانکا تو دیکھا کہ عمر تلوار حمائل کیے موجود ہیں، لپک کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی اور سارے لوگ سمٹ کر یکجا ہوگئے۔

حضرت حمزہ رضی الله عنہ نے پوچھا: "کیا بات ہے؟"
لوگوں نے کہا: "عمر ہیں۔"

حضرت حمزہ رضی الله عنہ نے کہا: "بس! عمر ہے، دروازہ کھول دو، اگر وہ خیر کی نیت سے آیا ہے تو بہتر ہے اور اگر کوئی برا ارادہ لے کر آیا ہے تو اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔"

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 58  حضرت عمر ؓ کا قبول اسلام (حصہ اول):  حضرت عمر رضی الله عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ 6 نبوی کا ہے،...

خطبہ جمعہ مسجد الحرام: بلیک میلنگ کی قباحتیں.. بمطابق 04 اکتوبر 2019


خطبہ جمعہ مسجد الحرام 
موضوع:  بلیک میلنگ کی قباحتیں
بتاریخ: 5 صفر 1441 بمطابق 04 اکتوبر 2019
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم
ترجمہ: فرہاد احمد سالم

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم حفظہ اللہ تعالی نے مسجد حرام میں 5 صفر 1441 کا خطبہ " بلیک میلنگ کی قباحتیں " کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ: بلیک میلنگ ایک جارحانہ کام ہے جس کے پیچھے غیر قانونی اور ذاتی خواہشات کو پانے کا حد سے زیادہ گھمنڈ ہوتا ہے ، یہ دھوکے کا ایک تیز ہتھیار ہے جسے بزدل اور کمزور لوگ اپنا اخلاقی اور مادی شکار کرنے کے لیے اٹھاتے ہیں۔ ۔ بلیک میلنگ برا اخلاق اور گھٹیا کام ہے ،جو کہ بد طینت نفس اور سفاک دلی کی دلیل ہے ۔ بلیک میلر لوگوں کو ان کے معاملات کو ظاہر کر دینے کی دھمکی دیتا ہے ، جس کی وجہ سے آدمی اس کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے اور چار و ناچار اس کے مطالبات پورے کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بلیک میلر ایک مغرور شخص ہوتا ہے جو اپنے شکار کے نقصانات کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے ۔ بلیک میلر میں انسانیت نہیں ہوتی، بلکہ وہ انسانی جسم میں سرکش شیطان ہوتا ہے۔ ہمارے موجودہ دور میں سب سے زیادہ بلیک میلنگ اخلاق اور آبرو کے معاملے میں ہوتی ہے۔ بلیک میلنگ کے معاملات میں نوٹ کیا گیا ہے کہ عموماً نوجوان لڑکے نوجوان لڑکیوں کو بلیک میل کرتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان لڑکوں میں جوشِ جوانی ہوتا ہے اور لڑکیوں میں جذبات ، اس سلسلے میں دونوں فریق اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہو سکتے، بہرحال یہ ایک اخلاقی جرم ہے ۔ بلیک میلنگ کا مقابلہ کسی خاص فرد کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ تو پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔



تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں ، جو گناہوں کو بخشنے والا ، توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا اور صاحب قوت ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں نیز اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے اعضا ء کو درست کیا، اس کا تخمینہ لگایا اور اس کو راستہ دکھایا۔ اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور اسی کے ہاتھ میں ساری بھلائیاں ہیں، نیز اسی کی طرف تمام معاملات لوٹائے جاتے ہیں ، اسی کے لیے دنیا و آخرت کی تعریفیں ہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، آپ ﷺ متقین کے امام اور جہانوں کے سردار ہیں۔ اللہ نے آپ کو ہدایت اور کھلی نشانیاں دے کر مبعوث فرمایا ، آپ ﷺ تا قیامت سارے جہانوں کے لیے رحمت اور نمونہ ہیں ۔

اللہ تعالی آپ ﷺ پر ، آپ کی پاکیزہ آل ، مومنوں کی مائیں آپ کی بیویاں ، نیز آپ کے روشن بابرکت صحابہ ، اور اچھے طریقے سے قیامت تک ان کی پیروی کرنے والوں پر درود اور کثرت سے سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد!

اللہ کے بندو! میرے اور آپ کے لیے ،خلوت و جلوت، اقوال و افعال ، اور غضب و رضا مندی میں اللہ جل جلالہ کے تقوی اور اس کی خشیت کی وصیت کی گئی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} [المائدة: 35]
 اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف قرب تلاش کرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

اللہ کے بندو!
 مجموعی طور پر لوگ اس وقت تک الفت ، باہمی محبت ، آپس میں رحم و کرم ، اور خوشحالی میں ہوتے ہیں ، جب تک کہ ان پر سخت فحش زبانیں ، اور تکلیف دینے والے ہاتھ مسلط نہیں ہو جاتے۔ اس لیے کہ زبان اور ہاتھ دو ایسے کدال ہیں، جو معاشرے کی سیسہ پلائی ہوئی عمارت کو ڈھانے اور ان میں دراڑیں ڈالنے کے ذمہ دار ہیں ۔

جس قدر معاشرے کی دیوار پر ان دو کدالوں کی مار ہو گی تو اسی قدر اس معاشرے میں نفسیاتی اور عملی استحکام ہو گا ۔ اسی لیے ہمارے نبی ﷺ نے عمومی طور پر لوگوں اور خاص طور پر ہر فرد کے لئے زبان اور ہاتھ کے اثرات کو بیان کیا ، اور بتایا کہ ہاتھ اور زبان والوں کے لیے اسلام اور ایمان کا یہ وصف کیا معنی رکھتا ہے۔

چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا :
( الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ) 
مسلمان (کامل ) وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور مومن (کامل ) وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ سمجھیں'۔ ( اسے احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل صحیحین میں ہے۔)

اللہ کے بندو !
یہ بات جان لینی چاہیے کہ ہاتھ اور زبان کے ذریعے سب سے بری چیز جو لوگوں میں واقع ہوتی ہے وہ مکروہ کام اور برا تنازعہ ہے ، یہ دونوں چیزیں سیاہ دل میں قرار پکڑتی ہیں ۔ چنانچہ ان برائیوں میں مبتلا شخص دوسروں کی کمزوری کو بلیک میلنگ اور استحصالی کے ذریعے اپنی سیڑھی بناتا ہے ، تاکہ اس پر چڑھ کر اپنے قبیح مقاصد اور برے اہداف حاصل کر سکے۔

اللہ کے بندو!
 بلیک میلنگ وہ تیز ہتھیار ہے جسے بزدل اور کمزور لوگ اپنا اخلاقی اور مادی شکار کرنے کے لیے اٹھاتے ہیں۔ یہ دھوکے کا ہتھیار ہے نہ کہ مدافعت کا ، کیونکہ اسے کبھی بھی بہادر ، طاقتور ، اور درست لوگوں کے ہتھیاروں میں شمار نہیں کیا گیا۔

اللہ کے بندو!
 بلیک میلنگ (استحصالی ) ایک جارحانہ کام ہے، جس کے پیچھے غیر قانونی اور ذاتی خواہشات کو پانے کا حد سے زیادہ گھمنڈ ہوتا ہے۔ چنانچہ بلیک میلر کی معاملات کو ظاہر کر دینے کی دھمکیوں کے آگے آدمی بے بس ہو جاتا ہے اور چار و ناچار اس کے مطالبات کے آگے جکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ آدمی یہ گوارا نہیں کرتا کہ لوگوں کے سامنے اس کا راز کھلے ، اس لئے بادل نا خواستہ اس کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جاتا ہے، تاکہ اس خبیث انسان سے خود کو بچا سکے، جو جانتا ہے کہ اسے اپنے گھوڑے کی لگام کہاں سے کھینچنی ہیں ۔

اللہ کی قسم، یہ منحوس دباؤ ہے جس سے ہمارے رسول ﷺ نے بھی پناہ مانگی ہے ،آپ ﷺ فرماتے تھے:
 «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ وَالحَزَنِ، وَالعَجْزِ وَالكَسَلِ، وَالبُخْلِ وَالجُبْنِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ»
 "اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم اور پریشانی سے، عاجزی اور کاہلی سے، بخل اور بزدلی سے، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے دباؤ سے۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)

بلیک میلنگ برا اخلاق اور گھٹیا کام ہے ،جو کہ بد طینت نفس اور سفاک دلی کی دلیل ہے ۔ یہ ایک ایسی خصلت ہے جو کہ سختی ، انتقام، اور استحصال سے بھری ہے، بلاشبہ یہ جھوٹا غلبہ اور جھوٹی فتح ہے۔

بلیک میلنگ ایک ایسی خصلت ہے، کہ جس کا نہ کوئی دین ہے اور نہ کوئی مذہب، چنانچہ بلیک میلر کسی کمزوری میں نہ قرابت کا خیال کرتا ہے اور نہ عہد و پیمان کا۔

اللہ کے بندو ! 
بلیک میلنگ ایک وسیع میدان ہے جس میں مختلف طرح کے لوگ شامل ہوتے ہیں، لیکن کم ظرفی ، شدت ، دشمنی، خود پسندی، اور دوسروں کے شانوں پر چڑھنے میں یہ سب مشترک ہوتے ہیں۔

بلیک میلنگ صرف عداوت اور مخاصمت سے ہی خاص نہیں، بلکہ عین ممکن ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ، بہن اپنے بھائی کے ساتھ، اور دوست اپنے دوست کے ساتھ اس میں ملوث ہو ۔اس لئے کہ جب نفس خبیث ہو جاتا ہے تو اس کو کوئی لگام نہیں ہوتی ، اور پھر اس کے سامنے دوست دشمن برابر ہو جاتے ہیں۔ مگر جس پر اللہ تعالی رحم کرے ،جنہوں نے آپﷺ کی بات سنی، اسے سمجھا اور جو سنا اس پر عمل بھی کیا۔

(عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ فَنَادَى بِصَوْتٍ رَفِيعٍ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُفْضِ الْإِيمَانُ إِلَى قَلْبِهِ لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ وَلَا تُعَيِّرُوهُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ)
 عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے ، بلند آواز سے پکارا اور فرمایا:' اے ان لوگوں کی جماعت جو زبانی اسلام لائے ہیں مگر ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچا ہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتا ہے ، اسے رسوا و ذلیل کر دیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو 

اللہ کے بندو! 
ہمارے موجودہ دور میں سب سے زیادہ بلیک میلنگ اخلاق اور آبرو کے معاملے میں ہوتی ہے۔ یہ سنگین دروازہ ہے، ممکن ہے کہ بلیک میلر اس سے داخل ہو اور اس کا شکار اس کے آگے گھٹنے ٹیک دے۔ بالخصوص سوشل میڈیا کے جدید دور میں کہ جس میں مکاری، پھنساؤ اور دھوکہ عام ہے، اور لوگوں کی عزت و آبرو اس طرح پامال کی جاتی ہے، جیسے پاگل بھیڑیے اور چور لوگوں کی دیواروں پر بے خوف پھرتے ہیں۔

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عزت اور آبرو کا شمار ضروریات خمسہ میں ہوتا ہے، جن کی حفاظت پر تمام مذاہب کا اتفاق ہے، اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بلیک میلر اس ضرورت کی خلاف ورزی کرنے والا، اور معاشرے کے اخلاقی امن کو ختم کرنے والا ہوتا ہے۔

پس بلیک میلر ڈکیت، چور اور حملہ آور فاجر ہوتا ہے ۔ابن قیم ؒ اس اور اس جیسوں کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ خواہش نفس اس کا امام ، شہوت اس کا قائد ، جہالت اس کی رہنما اور غفلت اس کی سواری ہوتی ہے، نیز وہ اپنے دنیاوی اغراض کے حصول میں غرق ، خواہش نفس کے نشے اور دنیا کی محبت میں مست رہتا ہے، اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتا ہے۔

اللہ کے بندو !
 یہ بلیک میلر کی تصویر ہے ،وہ ایک مغرور شخص ہوتا ہے جو اپنے شکار کے نقصانات کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے ۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس وہ اچھی عادات نہیں ہیں کہ جس سے وہ بلیک میلنگ کے بغیر، قانونی طریقے سے اپنی ضروریات پوری اور خواہشات کی تکمیل کر سکے۔ چنانچہ وہ بھوکے بھیڑیے کی شکل میں بدل جاتا ہے اور پھر بلیک میلنگ کے دانت اور انانیت کے پنجے نکال کر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ بلیک میلر میں انسانیت نہیں ہوتی، بلکہ وہ انسانی جسم میں سرکش شیطان ہوتا ہے۔

اللہ کے بندو!
 بلیک میلنگ متعدی فعل ہے، جو دوسرے جرائم تک لے جاتا ہے، یہ بسا اوقات مال چھیننے سے شروع ہوتا ہے اور جسمانی اذیت پر ختم ہوتا ہے، اسی لیے یہ ایک کھارے پانی کی طرح ہوتا ہے کہ جب بھی پیاسا اسے پیتا ہے اس کی پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے۔

بلیک میلر صرف ایک دفعہ پر ہی اکتفا نہیں کرتا، اور اس کا شکار یہ سوچ کر گھٹنے ٹیک دیتا ہے کہ یہ بلیک میلنگ آخری دفعہ ہے، لیکن اچانک وہ دیکھتا ہے کہ وہ تو بلیک میلنگ کے ایک زاویے سے نکل کر دوسرے سے باندھ دیا گیا ہے۔ اور بلیک میلر اسی حساب سے بلیک میلنگ میں بڑھتا چلا جاتا ہے، وہ ابتدا میں اونچے مطالبات نہیں رکھتا ، یہاں تک کہ جرائم میں اندر تک گھس جاتا ہے، اور پھر شکار کو پوری طرح زخمی کر دیتا ہے۔

بلیک میلنگ کے معاملات میں کثرت اور تنوع کے باوجود نوٹ کیا جاتا ہے کہ عموماً نوجوان لڑکے نوجوان لڑکیوں کو بلیک میل کرتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان لڑکوں میں جوش جوانی ہوتا ہے اور لڑکیوں میں جذبات۔ اور بھلا جذبات کب جوانی کا مقابلہ کر سکتے ہیں ، بلکہ یوں سمجھیے کہ قیدی قید کرنے والے کی بیڑیوں کو کیسے کھول سکتا ہے، جبکہ وہ جذباتی وعدوں اور دھوکے کے میدانوں میں داخل ہو چکا ہو۔

اگرچہ نوجوان لڑکے مجرم اور بڑی غلطی پر ہیں، لیکن ان کا یہ جرم نوجوان لڑکیوں کو ان کی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں کرتا، کہ جب ایک لڑکی اپنے اعتماد اور عزت کو ایک ایسے شخص کے سامنے پھینکتی ہے کہ جس کے اخلاق ، دین اور امانت کو وہ جانتی ہی نہیں ۔ اور پھر ایسا کیوں نہ ہو ، کہ اسی نے تو حقیقت سے ہٹ کر ظاہر سے دھوکا کھایا اور دل کے فریب پر بھروسہ کر بیٹھی ۔

اس میں تو کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اس نے اپنی قبر آپ ہی کھودی ہے۔ اور جو اپنے گھر کا دروازے مضبوطی سے بند نہیں کرتا تو یقیناً وہ اسے چوروں کے نشانے پر چھوڑ دیتا ہے۔

بلیک میلر کو بلیک میلنگ پر ابھارنے والی چیز شکار کو حقیر اور کمزور سمجھنا ہی ہے ،اگر ایسا نہ ہو تو وہ کبھی اپنا گمشدہ مال نہ پاسکے ۔ بلیک میلر کے دل میں اتری ہوئی برائی کی دلیل کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ لوگوں کے بھیدوں اور مخصوص معاملات کا سودا کرتا ہے ۔ اس لیے کہ آدمی جب برا ہوتا ہے تو وہ دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے اور پھر ان کی حرمتوں کی پرواہ بھی نہیں کرتا۔

جیسے کہ نبی مصطفی  ﷺ نے فرمایا : 
«بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ»
 "کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے، ہر مسلمان پر (دوسرے) مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہیں۔" ۔(اسے مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔)

بلیک میلنگ اپنے تمام مفہوم میں ایذا رسانی سے باہر نہیں ہے، عقل مندوں نے جب بھی اس کی چھان بین کی تو اس کو تکلیف کے دائرہ سے باہر نہیں پایا۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے:
 {وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا} [الأحزاب: 58] 
اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو ان کے کسی قصور کے بغیر دکھ پہنچاتے ہیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بار اٹھا لیا۔

جان لیجئے ! بہت سے فکر مند لوگوں نے بلیک میلنگ کے بارے میں بہت سی گفتگو کی ہے ، بعض نے تو بہت گہری اور بعض نے طویل، ان میں سے کچھ نے اس کو مشکل سے تعبیر کیا ہے اور بعض نے ظاہری رجحان سے۔ یہ جو کچھ بھی ہو بہرحال یہ ایک اخلاقی جرم ہے ، اور مسلم معاشرے کے عقلمند لوگوں پر واجب ہے کہ اس کا نوٹس لیں ۔ ان کو یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ دوا تب ہی فائدہ دے گی کہ جب بیماری اور اس کے اسباب کی صحیح تشخیص ہو گی ۔ اسی طرح یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ بلیک میلنگ کا مقابلہ کسی خاص فرد کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ تو پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے ، چنانچہ ہر آدمی کو اپنی ذمہ داری کے بقدر اس کا مقابلہ کرنا ہو گا ۔ پس خاندان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں شامل لوگوں کو آگاہ کریں، اسی طرح مدارس، تعلیم یافتہ لوگ اور امن و امان کے ذمہ داروں کی بھی ذمی داری ہے۔

بلیک میلنگ کا علاج امنیت ، اخلاقی اور تربیتی ہر سطح پر کرنا ہو گا ،ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تکمیل کے لئے ضروری ہے ، اور صرف امنیت ، اخلاقی اور تربیتی گوشہ ہی کافی نہیں ، رہی امنیت کے اعلاج کی بات ہے تو وہ واقع ہونے کے بعد کا اعلاج ہے ، اور جہاں تک اخلاقی اور تربیتی اعلاج کی بات ہے تو وہ واقع ہونے سے پہلے کا علاج ہے ۔اس لئے اگر اسے ختم نہ کیا جا سکے تو کم سے کم اسے روکنا تو ضروری ہے ، نیز تمام عقلمندوں کا اس بات پر اکتفا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے ۔

میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں ، اپنے لئے اور آپ سب اور تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہوں ، آپ بھی اسی سے توبہ کریں ، بےشک وہ بہت معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔

خطبہ جمعہ مسجد الحرام  موضوع:  بلیک میلنگ کی قباحتیں بتاریخ: 5 صفر 1441 بمطابق 04 اکتوبر 2019 امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعو...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط:57


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط:57 

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام:

جب مشرکین اپنی چال میں کامیاب نہ ہوسکے اور مہاجرینِ حبشہ کو واپس لانے کی کوشش میں منہ کی کھانی پڑی تو آپے سے باہر ہوگئے اور لگتا تھا کہ غیظ وغضب سے پھٹ پڑیں گے، چنانچہ ان کی درندگی اور بڑھ گئی، جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو اب مکہ میں جو مسلمان بچے کھچے رہ گئے تھے وہ بہت ہی تھوڑے تھے اور پھر صاحب شرف وعزت بھی تھے یا کسی بڑے شخص کی پناہ میں تھے، اس کے ساتھ ہی وہ اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے بھی تھے اور حتی الامکان سرکشوں اور ظالموں کی نگاہوں سے دور رہتے تھے، مگر اس احتیاط اور بچاؤ کے باوجود بھی وہ ظلم وجور اور ایذاء رسانی سے مکمل طور پر محفوظ نہ رہ سکے۔

مکہ کی فضا ظلم وجور کے ان سیاہ بادلوں سے گھمبیر تھی کہ اچانک ایک بجلی چمکی اور مقہوروں کا راستہ روشن ہوگیا، یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے، ان کے اسلام لانے کا واقعہ 6 نبوی کے اخیر کا ہے اور اغلب یہ ہے کہ وہ ماہ ذی الحجہ میں مسلمان ہوئے تھے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خاص محبت تھی، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو تین سال بڑے تھے اور ساتھ کے کھیلے تھے، دونوں نے ثویبہ رضی اللہ عنہا کا دودھ پیا تھا اور اس رشتہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دودھ شریک بھائی تھے، وہ ابھی تک اسلام قبول نہیں کئے تھے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔

ان کا مذاقِ طبیعت شکار اور سپاہ گری تھا، ان کا معمول تھا کہ منہ اندھیرے تیر کمان لے کر نکل جاتے اور دن بھر کے شکار کے بعد شام میں واپس ہوتے تو پہلے حرم میں جاتے اور طواف کے بعد قریش کے سرداروں کے پاس جاتے جو صحنِ حرم میں بیٹھا کرتے تھے، اس طرح سب سے ان کی دوستی تھی اور سب ان کی قدر کرتے تھے۔

ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفا کی پہاڑی پر سے گزر رہے تھے کہ ابوجہل کا سامنا ہوا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ازلی دشمن تھا، اس نے آپ کو تنہا دیکھ کر گالیاں دیں اور سخت بدکلامی کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اور کچھ بھی نہ کہا، لیکن اس کے بعد اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر ایک پتھر دے مارا، جس سے ایسی چوٹ آئی کہ خون بہہ نکلا، پھر وہ خانہ کعبہ کے پاس قریش کی مجلس میں جا بیٹھا۔

دور سے "عبداللہ بن جدعان" کی آزاد کردہ کنیز کوہ صفاء پر واقع اپنے مکان سے یہ سب دیکھ رہی تھی، جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شکار سے واپس ہوئے تو اس کنیز نے سارا ماجرا سنایا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غصے سے بھڑک اٹھے۔

یہ قریش کے سب سے طاقتور اور مضبوط جوان تھے، ماجرا سن کر کہیں ایک لمحہ رکے بغیر دوڑتے ہوئے اور مشتعل ہو کر ابوجہل کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ وہ مسجد حرام میں بنی مخزوم کے حلقہ میں بیٹھا ہے، سیدھے وہیں پہنچے اور کہا: "تو میرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے؟ (تیری اتنی جرات ؟.. لو) میں بھی اسی کے دین پر ہوں، (اب مجھے بھی گالی دے کر دکھاؤ)، اس کے بعد کمان اس کے سر پر اس زور کی ماری کہ اس کے سر پر زخم آگیا۔

اس پر ابوجہل کے قبیلے بنو مخزوم اور حضرت حمزہ کے قبیلے بنو ہاشم کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اٹھے، لیکن ابوجہل نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کردیا کہ ابوعمارہ کو جانے دو، میں نے واقعی اس کے بھتیجے کو بہت بُری گالی دی تھی۔

ابتدا میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام محض اس حمیت کے طور پر تھا کہ ان کے عزیز کی توہین کیوں کی گئی؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت میں انہوں نے اسلام کا اظہار تو کردیا، لیکن گھر پر آئے تو متردد تھے کہ آبائی دین کو دفعتاً کیوں کر چھوڑ دوں؟ تمام دن کی غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ دین حق یہی ہے، اس کے بعد حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں "دارِ ارقم" میں حاضر ہوئے اور کہا: "برادر زادے! خوش ہو جاؤ کہ میں نے ابوجہل سے آپ کا بدلہ لے لیا ہے۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 
"چچا! میں تو اس وقت خوش ہوتا جب آپ دینِ اسلام قبول کر لیتے۔" 

یہ سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھ لیا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد قریش نے سمجھ لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قوت کے ساتھ حفاظت و حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ستانا چھوڑ دیا۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے غزوۂ بدر میں عتبہ کو قتل کیا، 3 ہجری میں غزوۂ اُحد میں شہید ہوئے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدالشہدأ کا خطاب دیا، اسداللہ ان کا لقب تھا۔

دارِ ارقم: 

کعبہ کے مقابل کوہِ صفا پر واقع حضرت ارقم بن ابی الارقم مخزومی رضی اللہ عنہ کے مکان کو اسلام کے پہلے مرکز کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی، یہ مکان سرکشوں کی نگاہوں اور ان کی مجلسوں سے دور کوہ صفا کے دامن میں الگ تھلگ واقع تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس مقصد کے لیے منتخب فرمایا کہ یہاں مسلمانوں کے ساتھ خفیہ طور پر جمع ہوں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں اطمینان سے بیٹھ کر مسلمانوں پر اللہ کی آیات تلاوت فرماتے، ان کا تزکیہ کرتے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتے، مسلمان بھی امن وسلامتی کے ساتھ اپنی عبادت اور اپنے دینی اعمال انجام دیتے اور اللہ کی نازل کی ہوئی وحی سیکھتے، جو آدمی اسلام لانا چاہتا، یہاں آکر خاموشی سے مسلمان ہوجاتا اور ظلم وانتقام پر اترے ہوئے سرکشوں کو اس کی خبر نہ ہوتی،  روزانہ کوئی نہ کوئی شخص آتا اور اسلام قبول کرتا، اس طرح ایمان لانے والوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے 38 ہو گئی۔

دارِ ارقم میں ایمان لانے والے 39 ویں صحابی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے، یہیں پر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے صرف تین دن بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی آ کر اسلام قبول کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ چالیسویں صحابی تھے، ان کے قبول اسلام کا واقعہ تفصیل کے ساتھ اگلی قسط میں بیان کیا جائے گا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط:57  حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام: جب مشرکین اپنی چال میں کامیاب نہ ہوسکے اور مہاجرینِ حبشہ ک...