سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 45


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 45 

خفیہ دعوت کے تین سال: 


سورۂ مدثر کی گزشتہ آیات نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھے، آپ کی قوم چونکہ جفاکار تھی، بت پرستی اور درگاہ پرستی اس کا دین تھا، باپ دادا کی روش اس کی دلیل تھی، غرور وتکبر اور حمیت وانکار اس کا اخلاق تھا،  اس کے علاوہ وہ جزیرۃ العرب میں دینی پیشوائی کے صدر نشین تھے، اس کے اصل مرکز پر قابض اور اس کے وجود کے نگہبان تھے، اس لیے اس کیفیت کے پیش نظر حکمت کا تقاضا تھا کہ پہلے پہل دعوت وتبلیغ کا کام پس پردہ انجام دیا جائے، تاکہ اہل مکہ کے سامنے اچانک ایک ہیجان خیز صورت حال نہ آجائے۔

بعثت کے بعد تین سال تک خفیہ دعوت کا سلسلہ جاری رہا،  پہلی وحی کے نزول کے بعد اگرچہ کہ دعوت و تبلیغ کا اعلانیہ حکم نہیں آیا تھا، پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو چپکے چپکے بُت پرستی سے منع کرتے اور سمجھاتے رہے کہ اللہ ایک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے، ابتدا میں ایمان لانے والوں کو مومن یا مسلم کے بجائے مُصدّق کہتے تھے یعنی وہ جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی تصدیق کرتے تھے۔ دعوت کیا تھی؟ 

۱.. توحید یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔

۲.. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، ان کی رسالت کی گواہی دینا۔

۳.. جو لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر ایمان لائیں، وہ دوسروں کو شرک کی تاریکی سے نکالیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب فرض نبوت ادا کرنا چاہا تو سخت مشکلیں پیش نظر تھیں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرض اسی قدر ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح صرف تبلیغ دعوت پر اکتفا فرمائیں یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکل جائیں تو مشکل نہ تھی، لیکن خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کام خود سلامت رہ کر عرب اور نہ صرف عرب بلکہ تمام عالم کو فروغِ اسلام سے منور کردیناتھا، اس لئے نہایت تدبیر اور تدریج سے کام لینا پڑا۔

سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ یہ پُرخطر راز پہلے کس کے سامنے پیش کیا جائے، اس کے لئے صرف وہ لوگ انتخاب کئے جا سکتے تھے جو فیض یاب صحبت رہ چکے تھے، جن کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و عادات اور حرکات و سکنات کا تجربہ ہو چکا تھا، جو پچھلے تجربوں کی بنأ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدق دعویٰ کا قطعی فیصلہ کر سکتے تھے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرم محترم تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عم زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش تربیت میں پلے تھے، زید رضی اللہ عنہ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگری دوست ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے جو برسوں سے فیض یاب خدمت تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے انہیں دعوت دی، یہ سب کے سب سنتے ہی ایمان لے آئے۔

اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام کی تبلیغ میں سرگرم ہوگئے، وہ بڑے ہردلعزیز، نرم خُو،  پسندیدہ خصال کے حامل، بااخلاق اور دریا دل تھے، ان کے پاس ان کی مروت، دور اندیشی، تجارت اور حسن صحبت کی وجہ سے لوگوں کی آمد ورفت لگی رہتی تھی، چنانچہ انہوں نے اپنے پاس آنے والوں اور اٹھنے بیٹھنے والوں میں سے جس کو قابلِ اعتماد پایا اسے اب اسلام کی دعوت دینی شروع کردی، ان کی کوشش سے حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہم مسلمان ہوئے، یہ بزرگ اسلام کا ہر اوَل دستہ تھے۔

ان کے بعد امینِ امت حضرت ابوعبیدہ عامر بن جراح، ابوسلمہ بن عبد الاسد مخزومی، ان کی بیوی ام سلمہ، حضرت عباس بن عبد المطلب کی بیوی أم الفضل لبابہ الکبریٰ بنت حارث ہلالیہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت اسماء، ارقم بن ابی الارقم مخزومی، عثمان بن مظعون اور ان کے دونوں بھائی قدامہ اور عبداللہ اور عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبدمناف، سعید بن زید عدوی اور ان کی بیوی یعنی حضرت عمر کی بہن فاطمہ بنت خطاب عدویہ اور خباب بن اَرت تمیمی، جعفر بن ابی طالب اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس، خالد بن سعید بن عاص اموی، ان کی بیوی امینہ بنت خلف اور ان کے بھائی عمرو بن سعید بن عاص، حاطب بن حارث جحمی، ان کی بیوی فاطمہ بنت مجلل اور ان کے بھائی خطاب بن حارث اور ان کی بیوی فکیہہ بنت یسار اور ان کے ایک اور بھائی معمر بن حارث، مطلب بن ازہر زہری اور ان کی بیوی رملہ بنت ابی عوف اور نعیم بن عبد اللہ بن نحام عدوی رضی اللہ عنہم مسلمان ہوئے، یہ سب قبیلہ قریش کے مختلف خاندانوں اور شاخوں سے تعلق رکھتے تھے۔

قریش کے باہر سے جو لوگ پہلے پہل اسلام لائے ان میں سر فہرست یہ ہیں: أم ایمن برکۃ حبشیہ، ابو ذر غفاری، عبداللہ بن مسعود ہذلی، مسعود بن ربیعہ قاری، عبد اللہ بن جحش اسدی، ان کے بھائی احمد بن جحش، بلال بن رباح حبشی، صہیب بن سنان رومی، عمار بن یاسر عنسی، ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہم۔

خفیہ تین سالہ تبلیغ کے دوران جن لوگوں نے اپنے اسلام کو ظاہر کیا، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت بلال بن رباح، حضرت خباب بن ارت، حضرت یاسر بن عامر، حضرت عمار بن یاسر، حضرت صہیب بن سنان اور حضرت سمیّہ بنت سلم رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔

یہ سب سابقین اولین کے لقب سے معروف ہیں، تلاش وجستجو سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ اسلام کی طرف سبقت کرنے کے وصف سے موصوف کیے گئے ہیں، ان کی تعداد مردوں اور عورتوں کو ملا کر ایک سو تیس تک پہنچ جاتی ہے، لیکن یہ بات پورے تیقن کے ساتھ نہیں معلوم ہوسکی کہ یہ سب کھلی دعوت وتبلیغ سے پہلے اسلام لائے یا بعض لوگ اس سے متاخر بھی ہوئے تھے۔

اس تین سالہ دور میں نماز بھی مسلمان کسی گھاٹی میں چھپ کر ادا کرتے، ان ہی ایام میں ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک درّہ میں نماز پڑھ رہے تھے،  اتفاقاً ابو طالب وہاں آئے اور نماز ختم ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یہ کیا دین ہے اور یہ کیسی عبادت ہے؟ اس وقت تک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے والدین پر اپنے اسلام قبول کرنے کا ذکر نہیں کیا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کہ یہی اللہ کا دین ہے اور اسی کی طرف بلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول بنایا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چچا ابو طالب کو اس دین کو قبول کرنے کی دعوت دی، لیکن انہوں نے کہا کہ وہ اپنا آبائی دین نہیں چھوڑ سکتے، حضرت ابوطالب نے یہ بھی کہا کہ جب تک وہ زندہ ہیں، انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اپنے فرزند حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دینے کی تلقین کی۔

دعوت و تبلیغ کا سلسلہ خفیہ طور پر جاری رہا، تقریباً ڈھائی سال کا عرصہ گزرا تھا کہ ایک دن کچھ مسلمان جن میں حضرت عمار بن یاسر، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت خباب بن ارت اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہم شامل تھے، مکہ سے کچھ دور ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ کچھ کافر وہاں پہنچے اور ان سب کو نماز پڑھتے دیکھ کر مذاق اُڑانے لگے، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ انیس (۱۹) سالہ نوجوان تھے جنھوں نے کافروں کے مذاق سے تنگ آ کر سامنے پڑے اونٹ کے ڈھانچے کی ایک ہڈی اٹھائی اور بنی تیم کے عبداللہ بن خطل کے سر پر اپنی پوری طاقت سے دے مارا جو کہ سب سے آگے تھا، اس کے ساتھ ہی اس کافر کا خاتمہ ہو گیا، یہ اسلام کی حمایت میں پہلی ضرب تھی، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بعد کو فاتح ایران بنے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں