*دوسری ہجرت حبشہ:*
پہلی ہجرت حبشہ سے واپس ہونے کے بعد مسلمانوں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی کی پناہ میں تھا، اس کے باوجود کفّار قریش نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا، کیونکہ قریش کو ان کے ساتھ نجاشی کے حسن وسلوک کی جو خبر ملی تھی اس پر وہ نہایت چیں بہ جبیں تھے، یہ حال دیکھ کر اوائل 6 نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو دوبارہ حبشہ کو ہجرت کرنے کی اجازت دی۔
دوسری ہجرت پہلی ہجرت کے بالمقابل اپنے دامن میں زیادہ مشکلات لیے ہوئے تھی، کیونکہ اب کی بار قریش پہلے سے ہی چوکنا تھے اور ایسی کسی کوشش کو ناکام بنانے کا تہیہ کیے ہوئے تھے، کفار مکہ نے مسلمانوں کو ہجرت کرنے سے روکنے کی مقدور بھر کوشش کی، لیکن اس کے باوجود بھی 83 مرد اور 18 عورتیں حبشہ پہنچ گئے۔
پہلی مرتبہ ہجرت کرنے والے صحابہ میں سے بعض اس دوسرے قافلہ میں بھی شریک ہو گئے، دوسری بار بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مع زوجہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُبوسلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ مع زوجہ، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہجرت کی۔ ان کے علاوہ عبیداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ مع زوجہ، حضرت اُم حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہا بھی مہاجرین میں شامل تھے، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یہ دونوں خواتین یعنی حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت میں داخل ہوئیں۔
دیگر مہاجرین میں ابو جہل کے سوتیلے بھائی حضرت عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ، رئیس مکہ عتبہ کے صاحبزادے حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ، حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی حضرت جعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ اور حضرت خالد بن حزام ابن خویلد رضی اللہ عنہ (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے) قابل ذکر ہیں، حضرت خالد بن حزام رضی اللہ عنہ کی وفات حبشہ جاتے ہوئے راستہ میں سانپ کاٹنے سے ہوئی، حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا تھیں، جن کے بطن سے حبشہ میں تین فرزند پیدا ہوئے۔
حبشہ جاتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جعفر کو نجاشی کے نام ایک تعارفی خط دیا تھا، جسے ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اپنی تصنیف "رسول اکرم کی سیاسی زندگی" میں طبری، ابن القیم اور قسطلانی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
*تعارفی خط:*
"بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے نجاشی اصحمہ بادشاہ حبشہ کے نام:
میں اس خدا کی تعریف تمہیں لکھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو بادشاہ مقدس، سلامتی والا، امان دہندہ اور سلامت رکھنے والا ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ مریم کے بیٹے عیسیٰ روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں، جن کو پاک اور برائی سے محفوظ مریم بتول کی طرف ڈالا گیا تو وہ خداکی روح اور پھونک سے حاملہ ہوئیں، جیسا کہ خدا نے حضرت آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا۔
میں تجھے خدا وحدہٗ لا شریک کی طرف بلاتا ہوں اور یہ کہ تو میری اتباع کرے اور مجھ پر نازل شدہ چیز پر ایمان لائے، کیونکہ میں خدا کا رسول ہوں اور میں تجھے اور تیرے لشکروں کو خدائے عزو جل کی طرف بلاتا ہوں۔
میں نے پیام پہنچا دیا اور بہی خواہی کی ہے، اب تم میری بہی خواہانہ نصیحت کو قبول کرو اور میں نے تمہارے پاس اپنے چچا زاد بھائی جعفر کو بھیجا ہے، جس کے ہمراہ چند مسلمان بھی ہیں، جب وہ تیرے پاس آئیں تو ان کی مہمان داری کر اور تکبّر چھوڑ دے، سلام اُس پر جو ہدایت پر چلے"
ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق اس تعارفی خط کے واقف کارانہ انداز سے گمان ہوتا ہے کہ شاید نبوت سے قبل بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود حبشہ بہ سلسلہ تجارت تشریف لے گئے ہوں (دیگر مکی تاجروں کے ساتھ)، اس لئے پہلی بار مسلمانوں کے حبشہ ہجرت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ "حبشہ میں ایک ایسے بادشاہ کی حکومت ہے جس کے ملک میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا" واقف کارانہ انداز بتلاتا ہے۔
حبشہ کا پایہ تخت اس زمانے میں "اکسوم" تھا، بعد میں "عدیس ابابا" پایہ تخت بنا، اس وقت کے نجاشی حکمران کا نام اصمحہ تھا، یہ فرمانروا اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھا۔
*مہاجرینِ حبشہ کے خلاف قریش کی سازش:*
حبشہ کی ہجرت کرنے والے دوسرے قافلہ میں ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد شامل تھا، اس لئے مکہ کے ہر گھر میں کہرام مچ گیا، مسلمان حبشہ میں چین سے رہنے لگے، یہ خبر سن کر قریش مکہ بہت مضطرب ہوئے، یہ مسئلہ دارالندوہ میں پیش ہوا اور بعد غور وخوض طے کیا گیا کہ ایک سفارت نجاشی کے پاس بھیجی جائے، چنانچہ عمرو بن العاص (بعد میں فاتح مصر) اور عبداللہ بن ابی ربیعہ ( ابو جہل کا ماں جایا بھائی) کو جو گہری سوجھ بوجھ کے مالک تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، بہت سے تحفے دے کر حبشہ روانہ کیا گیا۔
انہوں نے حبشہ جا کر سب سے پہلے نجاشی کے امرأ اور مذہبی پیشواؤں (بطریقوں) سے ملاقات کی اور ان سے نجاشی کے دربار میں اپنے معروضہ کی تائید کرنے کی درخواست کی، جب بطریقوں نے اس بات سے اتفاق کرلیا کہ وہ نجاشی کو مسلمانوں کے نکال دینے کا مشورہ دیں گے تو یہ دونوں نجاشی کے حضور حاضر ہوئے اور تحفے پیش کرکے اپنا مُدّعا عرض کیا۔
"اے بادشاہ! آپ کے ملک میں ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان بھاگ آئے ہیں، انہوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے، لیکن آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں، بلکہ یہ ایک نیا دین ایجاد کیا ہے جسے نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ، ہمیں آپ کی خدمت میں انہی کی بابت ان کے والدین، چچائوں اور کنبے قبیلے کے عمائدین نے بھیجا ہے، مقصد یہ ہے کہ آپ انہیں ان کے پاس واپس بھیج دیں، کیونکہ وہ لوگ ان پر سب سے اونچی نگاہ رکھتے ہیں اور ان کی خامی اور عتاب کے اسباب کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔"
جب یہ دونوں اپنا مدعا عرض کر چکے تو بطریقوں نے کہا: "بادشاہ سلامت! یہ دونوں ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں، آپ ان جوانوں کو ان دونوں کے حوالے کردیں، یہ دونوں انہیں ان کی قوم اور ان کے ملک میں واپس پہنچادیں گے۔"
لیکن نجاشی نے سوچا کہ اس قضیے کو گہرائی سے کھنگالنا اور اس کے تمام پہلوﺅں کو سننا ضروری ہے، چنانچہ اس نے مسلمانوں کو بلا بھیجا۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں