آج کے ظالم مسلمان
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف
اس کائنات کا خالق عظیم عادل ومنصف ہے ، وہ اپنے عدل وانصاف سے دنیا والوں کی نگرانی کر رہا ہے بلکہ کائنات کی ساری مخلوقات کے ساتھ انصاف کرتا ہے اور کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا مگر انسان ہے کہ ایک دوسرے پر ظلم کرکے دنیا کا ماحول مکدد بنا دیا ہے ۔ آج کل کی صورت حال ایسی ہے کہ شریف انسانوں ، نیک دل مسلمانوں اور عدل وانصاف کرنےوالے آدمیوں کا یہاں جینا دشوار ہوگیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
المؤمنُ غرٌّ كريمٌ ، والفاجرٌ خِبٌّ لئيمٌ(صحيح أبي داود:4790)
ترجمہ: مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر فسادی اور کمینہ ہوتا ہے۔
آج اکثر مسلمان اس حدیث کے مخالف اور ظلم وعدوان کی راہ اختیار کرتے نظر آتے ہیں ۔ اللہ نے ظلم کو اپنے لئے اور اپنی مخلوق کے لئے حرام ٹھہرایا ہے۔ حدیث قدسی میں ذکر ہے :
يا عِبَادِي إنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ علَى نَفْسِي، وَجَعَلْتُهُ بيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فلا تَظَالَمُوا(صحيح مسلم:2577)
ترجمہ: اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا اور تم پر بھی حرام کیا، تو تم مت ظلم کرو آپس میں ایک دوسرے پر۔
اللہ نے اپنے اوپر ظلم حرام کرلیا اور اپنی ذات سےبھی ظلم کی یکسر نفی کردی ، فرمان باری تعالی ہے :
إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۖ(النساء:40)
ترجمہ: اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ہے۔
ظلم کہتے ہیں کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹاکر دوسری جگہ رکھنا ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی کو اس کا حق نہ دینا ،ناحق طریقے سے کسی کا حق مارنا ،بغیر قصور کے کسی پر زیادتی کرنا، معاملات میں ناحق طرفداری کرناوغیرہ ظلم کہلائے گا۔ یہ ظلم اس قدر بھیانک جرم ہے کہ اسے قیامت کی تاریکی سے موسوم کیا گیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
اتَّقُوا الظُّلْمَ، فإنَّ الظُّلْمَ ظُلُماتٌ يَومَ القِيامَةِ(صحيح مسلم:2578)
ترجمہ: تم ظلم سے بچو کیونکہ یہ قیامت کی تاریکیوں سے ہے یعنی ظالم کو قیامت کے دن بوجہ تاریکی اور اندھیرے کے راہ نہ ملے گی۔
میں اس مضمون میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آج دنیا ظلموں سے بھر گئی ہے اور ظلم کا انجام تباہی وہربادی ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ اللہ کی طرف سے قسم قسم کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان تو اللہ پر ایمان لانے والے ہیں پھر وہ کیوں پریشان حال ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آج کے اکثر مسلمان ظالم ہیں اور وہ اپنے کرتوت کی وجہ سے اللہ کے عذاب میں مبتلا ہیں ۔ جواب کچھ حیران کرنے والا ہے مگر حقیقت برمبنی ہے۔ اس جواب کو اچھے سے سمجھنے کے لئے ظلم کی تعریف ذہن میں رکھتے ہوئے اس کی اقسام کو جاننا ہوگا۔
قرآن نے ظلم کو مختلف طریقے سے بیان کیا ہے اور متعدد قسم کی نافرمانیوں کو ظلم قرار دیا ہے، ان سب کا ذکر طویل ہوجائے گا ۔ اختصار کے ساتھ ہم تمام قسم کے ظلموں کو تین اصناف میں بیان کرسکتے ہیں ۔
(1) ظلم کی پہلی قسم اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے ۔ اللہ اس کائنات کا تن تنہا خالق ومالک ہے ، وہ محض اپنی عبادت کے لئے انس وجن کو پیدا کیا ہے اس وجہ سے جو رب کی بندگی چھوڑ کر غیراللہ کی بندگی کرے یااس کی بندگی میں غیراللہ کو شامل کرےوہ اللہ کی نظر میں ظالم ہی نہیں بہت ہی بڑا ظالم ہےکیونکہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا بھاری ظلم ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان:13)
ترجمہ: اور جبکہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچو! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے ۔
ظلم کی اس قسم کو دنیا کے مسلمانوں میں تلاش کریں تو معلوم ہوگا کہ اکثر مسلمان ظالم ہیں ۔ گاؤں گاؤں شہر شہر درگاہوں اور مزاروں پر غیراللہ کے لئے سجدے ہورہے ہیں ، اللہ کو چھوڑکر غیراللہ سے مدد طلب کی جارہی ہے اور جن کو خود اللہ نے پیدا کیا ہےان محتاج وکمزور بندوں کو مشکل کشا/غوث/داتااور غریب نواز سمجھا جارہاہے۔ رب العالمین نے سچ فرمایا ہے کہ اللہ پر ایمان لانے والے اکثر مشرک ہیں ۔ فرمان الہی ہے :
وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ (يوسف:106)
ترجمہ: ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔
قرآن کی یہ آیت صاف صاف بتلارہی ہے کہ کلمہ پڑھنے والے بھی شرک میں مبتلا ہیں بلکہ ایسے لوگوں کی دنیا میں کثرت ہے ۔ جب اس درجے کے مسلمانوں کی اکثریت ہوگی پھر کیسے نہ ابتلاء وآزمائش میں ہوں گے؟
(2) ظلم کی دوسری قسم بھی حقوق اللہ سے متعلق ہے اور یہاں پراس سے مراد اللہ کی وہ معصیت ہے جو شرک کے علاوہ ہو۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ ہمیں اللہ نے آنکھ سے جائز چیز دیکھنے کا حکم دیا، کان سے اچھی بات سننے کا حکم دیا مگر ہم اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے آنکھوں سے گندی تصویر دیکھتے ہیں اورکانوں سے گانا سنتے ہیں تو یہ اپنی آنکھوں اور کانوں پر ظلم کرنا ہوا ، اسی کو اپنے نفس پر ظلم کرنابھی کہا جاتا ہےیعنی جب بھی انسان اللہ کی معصیت ونافرمانی کا کوئی کام کرتا ہے تو وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرتا ہے۔ اس بات کو اللہ تعالی نے قرآن مقدس میں کئی جگہ بیان کیا ہے ،پہلے وہ آیت دیکھیں جس میں اللہ بیان کرتا ہے کہ انسان اپنے نفس پر خود ہی ظلم کرتا ہے، اللہ فرماتا ہے :
إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَٰكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ(یونس:44)
ترجمہ: یہ یقینی بات ہے کہ اللہ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔
اور اب وہ آیت دیکھیں جس میں اللہ بتلا رہا ہے کہ اللہ کی نافرمانی اور اس کے حدود سے تجاوز کرنا اپنے نفسوں پر ظلم کرنا ہے ۔ فرمان رب العالمین ہے :
وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ(الطلاق:44)
ترجمہ: جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقینا اپنی جانوں پر ظلم کیا۔
ظلم کی اس قسم کو مسلمانوں میں تلاش کرتے ہیں تو گھر گھر اور اکثرمسلمانوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
ان دونوں قسموں کے ظلم کا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالی توبہ کے ذریعہ شرک اور اپنے حق میں ہونے والی تمام معصیت کو معاف فرمادیتا ہے لیکن شرک پر کسی کا خاتمہ ہوجائے تو پھراللہ کے دربارسے اس ظلم کی معافی نہیں ملتی ہے ، ہمیشہ ہمیش کے لئے اس ظلم کے بدلے جہنم میں جانا پڑے گا تاہم شرک کے علاوہ گناہ کو اللہ چاہے تو معاف کرے اور چاہے تو سزا دے ۔ اللہ فرماتا ہے :
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا(النساء:48)
ترجمہ: یقینا اللہ تعالی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا۔
(3) ظلم کی تیسری قسم حقوق العباد سے متعلق ہے یعنی ایک آدمی کسی دوسرے آدمی پر کسی قسم کا ظلم کرے مثلا لوگوں ک اناحق خون کرنا، باطل طریقے سے کسی کا حق مارنا، کسی کا سامان چھین لینا یا چوری کرلینا، بلاوجہ کسی کوگالی دیدینا، معصوم آدمی پر بہتان لگانا، لوگوں کا دل دکھانا، کسی کی غیبت اور چغلی کرنا، کمزوروں کو پریشان کرنا، حق کے داعیوں کے لئے مشکلات پیدا کرنا اور مظلوم کے خلاف ظالم کی مدد کرنا وغیرہ ۔
ظلم کی تینوں اقسام میں یہ وہ بھیانک جرم ہے جس کو اللہ معاف نہیں کرتا اور نہ ہی نماز وروزہ اور حج وعمرہ جیسی نیکی سے تلافی ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ کا فرمان ہے :
مَن كَانَتْ له مَظْلَمَةٌ لأخِيهِ مِن عِرْضِهِ أَوْ شيءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ منه اليَومَ، قَبْلَ أَنْ لا يَكونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، إنْ كانَ له عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ منه بقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وإنْ لَمْ تَكُنْ له حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِن سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عليه(صحيح البخاري:2449)
ترجمہ: اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ (سے ظلم کیا ہو) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے (مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔
اس معنی کی ایک مفصل روایت صحیح مسلم میں یوں وارد ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
أَتَدْرُونَ ما المُفْلِسُ؟ قالوا: المُفْلِسُ فِينا مَن لا دِرْهَمَ له ولا مَتاعَ، فقالَ: إنَّ المُفْلِسَ مِن أُمَّتي يَأْتي يَومَ القِيامَةِ بصَلاةٍ، وصِيامٍ، وزَكاةٍ، ويَأْتي قدْ شَتَمَ هذا، وقَذَفَ هذا، وأَكَلَ مالَ هذا، وسَفَكَ دَمَ هذا، وضَرَبَ هذا، فيُعْطَى هذا مِن حَسَناتِهِ، وهذا مِن حَسَناتِهِ، فإنْ فَنِيَتْ حَسَناتُهُ قَبْلَ أنْ يُقْضَى ما عليه أُخِذَ مِن خَطاياهُمْ فَطُرِحَتْ عليه، ثُمَّ طُرِحَ في النَّارِ.(صحيح مسلم:2581)
ترجمہ:تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: مفلس ہم میں وہ ہے جس کے پاس روپیہ اور اسباب نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مفلس میری امت میں قیامت کے دن وہ ہو گا جو نماز لائے گا، روزہ اور زکوٰۃ لیکن اس نے دنیا میں ایک کو گالی دی ہو گی، دوسرے پربدکاری کی تہمت لگائی ہو گی، تیسرے کا مال کھا لیا ہو گا، چوتھے کا خون کیا ہو گا، پانچویں کو مارا ہو گا، پھر ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا) اس کی نیکیا ں مل جائیں گی اور جو اس کی نیکیاں اس کے گناہ ادا ہونے سے پہلےختم ہو جائیں گی تو ان لوگوں کی برائیاں اس پر ڈالی جائیں گی آخر وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
ظلم کی اس قسم کو مسلمان میں تلاش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے گھر گھر ظالم ہے ، ہرکوئی دوسرے کے لئے ظالم ہے اور افسوسناک صورت حال تو یہ ہے کہ تقلیدی مسالک میں بٹے مسلمان ایک دوسرے پر ظلم کی انتہا کرچکے ہیں ۔اندھی تقلید اور گروہی عصبیت میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ دین کے سچے داعیوں اور معصوم علماء کو دہشت گرد قرار دے کر کافروں کے ہاتھوں میں تھما رہے ہیں تاکہ اہل کفر انہیں قتل کردے یا جیل کی سلاخوں میں بند کرکےانہیں دعوت دین سے روک دے ۔ العیاذ باللہ
اے کاش! خود کو مسلمان کہنے والے اس حدیث کو عمل میں لائے ہوتے تو آج ہم کافروں سے مغلوب نہ ہوتے اور یوں زمانے میں ذلیل وخوار نہ ہوتے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تَحاسَدُوا، ولا تَناجَشُوا، ولا تَباغَضُوا، ولا تَدابَرُوا، ولا يَبِعْ بَعْضُكُمْ علَى بَيْعِ بَعْضٍ، وكُونُوا عِبادَ اللهِ إخْوانًا المُسْلِمُ أخُو المُسْلِمِ، لا يَظْلِمُهُ ولا يَخْذُلُهُ، ولا يَحْقِرُهُ التَّقْوَى هاهُنا ويُشِيرُ إلى صَدْرِهِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ بحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أنْ يَحْقِرَ أخاهُ المُسْلِمَ، كُلُّ المُسْلِمِ علَى المُسْلِمِ حَرامٌ، دَمُهُ، ومالُهُ، وعِرْضُهُ.(صحيح مسلم:2564)
ترجمہ:مت حسد کرو، مت دھوکے بازی کرو، مت بغض رکھو، مت دشمنی کرو، کوئی تم میں سے دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے اور ہو جاؤ اللہ کے بندو بھائی بھائی۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے، نہ اس کو ذلیل کرے، نہ اس کو حقیر جانے، تقویٰ اور پرہیزگاری یہاں ہے۔اور اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین بار (یعنی ظاہر میں عمدہ اعمال کر نے سے آدمی متقی نہیں ہوتا جب تک سینہ اس کا صاف نہ ہو),کافی ہے آدمی کو یہ برائی کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، مسلمان کی سب چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں اس کا خون، مال، عزت اور آبرو۔
آج ایک مسلمان خود دوسرے مسلمان کے لئے مصیبت بنا ہوا ہے اورایک گروہ دوسروں کے خون کا پیاساہے، یہ سب کچھ دشمنان اسلام کو معلوم ہیں اوروہ خوب خوب فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ کیا ہوگیا آج کے مسلمانوں کو کہ وہ اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کی بجائے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے ہیں اور اللہ کےدشمنوں کی مدد کررہے ہیں ۔ اللہ نےہمیں اپنے بھائیوں کے جھگڑے ختم کرنےاور ان کی اصلاح کرنے کا حکم دیا جبکہ ہم اس کے برخلاف آپس میں مسلمانوں کو لڑانے میں لگے ہیں اوراپنے بھائیوں کو مٹانے پر تلے ہیں۔کیا ظالم مسلمان اس آیت کی تلاوت نہیں کرتے۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الحجرات:10)
ترجمہ: بے شک سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔
ظالم لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کے کرتوت سے غافل ہے ، ہرگز نہیں بلکہ وہ ظالموں کے عملوں سے بخوبی واقف ہے، بس تھوڑی مہلت دیتا ہے اور جب تباہی کا وقت آجاتا ہے تو پھر کوئی بچانے والا نہیں ہوتا۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ (ابراھیم:42)
ترجمہ: ظالموں کے اعمال سے اللہ کو غافل نہ سمجھ وہ تو انہیں اس دن تک مہلت دئے ہوئے ہے جس دن آنکھیں پھٹی پھٹی رہ جائیں گی ۔
اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إنَّ اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظّالِمِ حتَّى إذا أخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ(صحيح البخاري:4686)
اللہ تعالیٰ ظالم کو چند روز دنیا میں مہلت دیتا رہتا ہے لیکن جب پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا۔
قرآن ظالموں کی بے شمار داستانیں ہم سے بیان کرتا ہے، بڑے بڑے ظالم دنیا سے نیست ونابود کئے گئے، کہیں ان کا اتہ پتہ اور نام ونشان نہیں ملتا۔
نہ گورسکندر نہ ہے قبردارا – مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
کیا نمرود اور کیا فرعون ؟ اللہ نے بستیوں کی بستی ہلاک کردیا ، اللہ کا فرمان ہے :
وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ (الانبیاء:11)
ترجمہ:اور بہت سے بستیاں ہم نے تباہ کردیں جو ظالم تھیں اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوم کو پیدا کردیا۔
ظلم کی ہولناکی دیکھیں کہ مظلوم کی آہ وبکا اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور پھر مظلوم فاسق وفاجر ہو حتی کہ کافر ہو تب بھی اس کی بددعا ظالم کے خلاف اللہ قبول کرلیتا ہے ۔ اس سے متعلق تین قسم کی احادیث وارد ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
اتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ، فإنَّهَا ليسَ بيْنَهَا وبيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ. ( صحيح البخاري:2448)
ترجمہ:مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان پردہ نہیں ہوتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
دعوةُ المظلومِ مُستجابةٌ ، وإن كان فاجرًا ففُجورُه على نفسِه(صحيح الترغيب:2229)
ترجمہ: مظلوم کی دعا قبول کرلی جاتی ہے ، اگر وہ فاجر ہوگا تو اس کی برائی اسی کے نفس پر ہوگی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمان ہے :
اتَّقوا دعوةَ المظلومِ ، و إن كان كافرًا ، فإنه ليس دونها حجابٌ(صحيح الجامع:119)
ترجمہ: مظلوم کی بددعا سے بچو اگرچہ کافر ہو کیونکہ اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
ظلم کا سب سے بھیانک انجام یہ ہے کہ ظالموں کو آخرت میں سزا ملنی ہی ملنی ہے ، دنیا میں بھی یقینی طور پر اورہرحال میں اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوتا ہے ،
ما من ذنبٌ أجدرُ أن يُعجِّلَ اللهُ لصاحبِه العقوبةَ في الدنيا مع ما يدَّخِرُ له في الآخرةِ من البغيِ وقطيعةِ الرحمِ(صحيح ابن ماجه:3413)
ترجمہ: ظلم اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا مرتکب زیادہ لائق ہے کہ اس کو اللہ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے لئے بھی اسے باقی رکھا جائے ۔
آخر میں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ بلاشبہ ہم سب اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں ، اس گناہ کو اللہ معاف کرسکتا ہے مگر جو گناہ موجب جہنم ہے اس سے تو ہرحال میں بچنا ہوگا۔ آئیے اپنا محاسبہ کرتے ہیں کہ ہم نے کس کس کے حق میں ظلم کیا ہے، اولاد، رشتے دار، پڑوسی، علماء ، ان سب سے اپنےجرم کی تلافی کروالیں اور آئندہ مسلمانوں کے حق میں ظلم کرنے سے بچیں حتی کہ کسی کافر یا کسی جانور پر بھی ظلم نہ کریں اورمیری بات کا یقین کریں کہ اگر مسلم اپنی زندگی سے ظلم ختم کرلیں اور آپس میں ایمان والے بھائی بن جائیں تو دشمن پر پھر سے غالب آجائیں گے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران:139)
ترجمہ:اور تم سستی نہ کرو اور نہ غمگین ہو ، تم ہی غالب رہوگے اگر تم ایمان والا رہو۔
اور ایک آخری بات آپ سب سے ادباً و احتراماً عرض کرنا ہے کہ مظلوم مسلمان جو جیلوں اور کافروں کے نشانے پر ہیں ان کی مدد کریں خواہ وہ کسی طبقہ اور مسلک سے ہوں اور مسلمانوں میں جو ظالم ہیں ان کو ظلم سے روکیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا، قالوا: يا رَسُولَ اللَّهِ، هذا نَنْصُرُهُ مَظْلُومًا، فَكيفَ نَنْصُرُهُ ظَالِمًا؟ قالَ: تَأْخُذُ فَوْقَ يَدَيْهِ.(صحيح البخاري:2444)
ترجمہ: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (یہی اس کی مدد ہے)۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں