قریش کا وفد ابوطالب کے سامنے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شروع سے جناب ابو طالب کی حمایت وحفاظت حاصل تھی، وہ مکہ کے ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے جو اپنی ذاتی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے اتنے باعظمت تھے کہ کوئی شخص بڑی مشکل سے ان کے عہد توڑنے اور ان کے خانوادے پر ہاتھ ڈالنے کی جسارت کرسکتا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے دن بدن بڑھتے اثرات نے قریش کو سخت پریشانی اور کشمکش سے دوچار کر رکھا تھا، یہ صورت حال تقاضا کررہی تھی کہ کسی ناپسندیدہ دائرے میں پڑے بغیر اس مشکل سے نکلنے کے لیے سنجیدگی سے غور کریں، بالآخر انہیں یہ راستہ سمجھ میں آیا کہ سب سے بڑے ذمہ دار جناب ابو طالب سے بات چیت کریں۔
اشراف قریش میں سے چند آدمی جن میں عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ (بنی عبدالشمس)، ابوالبختری بن ہشام (بنی اسد)، ولید بن مغیرہ (بنی مخزوم)، عاص بن وائل سہم (بنی سہم)، نبیہّ بن حجاج اور ابو سفیان بن حرب (بنی امیہ) شامل تھے، ابو طالب کے پاس گئے اور بولے: "ابو طالب! آپ کے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہا ہے، ہمارے دین کی عیب چینی کی ہے، ہماری عقلوں کو حماقت زدہ کہا ہے اور ہمارے باپ دادا کو گمراہ قرار دیا ہے، لہٰذا یا تو آپ انہیں اس سے روک دیں یا ہمارے اور ان کے درمیان سے ہٹ جائیں، کیونکہ آپ بھی ہماری طرح ان سے مختلف دین پر ہیں، ہم ان کے معاملے میں آپ کے لیے بھی کافی رہیں گے۔"
اس کے جواب میں جناب ابوطالب نے نرم بات کہی اور انھیں نرمی سے سمجھا کر رخصت کردیا، چنانچہ وہ واپس چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سابقہ طریقہ پر رواں دواں رہتے ہوئے اللہ کا دین پھیلانے اور اس کی تبلیغ کرنے میں مصروف رہے۔
لیکن جب قریش نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی تبلیغ سے باز نہیں آرہے ہیں تو انہوں نے سرداران قریش پر مشتمل دوسرا وفد حضرت ابو طالب کے پاس بھیجا، اس وفد نے ابو طالب سے کہا: "ہم نے اس سے قبل ایک وفد آپ کے پاس بھیجا تھا، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، ہم نے آپ کا پاس و لحاظ رکھا ہے، مگر ہم اپنے بزرگوں کی توہین اور اپنے دیوتاؤں کی بےعزتی کو برداشت نہیں کرسکتے، اب ہمارا مطالبہ ہے کہ یا تو آپ اپنے بھتیجے کو تبلیغ سے روک دیں یا پھر درمیان سے ہٹ جائیں تاکہ دونوں میں سے کسی ایک کا تصفیہ ہو جائے۔"
جب حضرت ابو طالب نے دیکھا کہ مخالفت بڑھتی جارہی ہے اور اب قریش مزید تحمّل نہیں کرسکتے اور میں تنہا قریش کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختصر لفظوں میں کہا: "اے میرے بھتیجے! اپنی اور میری جان پر رحم کرو اور میرے اوپر اتنا بار نہ ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں۔"
ظاہری طور پر تو حضرت ابو طالب ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حمایتی اور پشت پناہ تھے اور جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ ان کے پائے ثبات میں بھی لغزش آرہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آبدیدہ ہو کر فرمایا:
"چچا جان! اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں، تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہ آؤں گا، (حتی کہ) اللہ اس کام کو پورا کرے گا یا میں خود اس پر نثار ہوجاؤں گا۔"
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پُر اثر جواب نے ابو طالب کو سخت متاثر کیا اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: "بھتیجے! جاؤ جو چاہو کہو، اللہ کی قسم! میں تمہیں کبھی بھی کسی بھی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا۔" پھر یہ اشعار کہے:
''واللہ! وہ لوگ تمہارے پاس اپنی جمعیت سمیت بھی ہرگز نہیں پہنچ سکتے، یہاں تک کہ میں مٹی میں دفن کردیا جاؤں، تم اپنی بات کھلم کھلا کہو، تم پر کوئی قدغن نہیں، تم خوش ہوجاؤ اور تمہاری آنکھیں اس سے ٹھنڈی ہو جائیں۔"
قریش کی ابو طالب کو ایک آفر:
پچھلی دھمکی کے باوجود جب قریش نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کام کیے جارہے ہیں تو ان کی سمجھ میں آگیا کہ ابو طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ نہیں سکتے، بلکہ اس بارے میں قریش سے جدا ہونے اور ان کی عداوت مول لینے کو تیار ہیں، چنانچہ وہ لوگ ولید بن مغیرہ کے لڑکے عُمَارَہ کو ہمراہ لے کر ابوطالب کے پاس پہنچے اور ان سے یوں عرض کیا: "اے ابو طالب! یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے، آپ اسے لے لیں، اس کی دیت اور نصرت کے آپ حق دار ہوں گے، آپ اسے اپنا لڑکا بنالیں، یہ آپ کا ہوگا اور آپ اپنے اس بھتیجے کو ہمارے حوالے کردیں جس نے آپ کے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کی ہے، آپ کی قوم کا شیرازہ منتشر کر رکھا ہے اور ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار بتلایا ہے، ہم اسے قتل کریں گے، بس یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔"
ابو طالب نے کہا: "اللہ کی قسم! کتنا بُرا سودا ہے جو تم لوگ مجھ سے کر رہے ہو، تم اپنا بیٹا مجھے دیتے ہو کہ میں اسے کھلاؤں پلاؤں، پالوں پوسوں اور میرا بیٹا مجھ سے طلب کرتے ہو کہ اسے قتل کردو، اللہ کی قسم! یہ نہیں ہوسکتا۔"
اس پر نوفَل بن عبد مناف کا پوتا مُطْعِم بن عَدِی بولا: "اللہ کی قسم، اے ابوطالب! تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے اور جو صورت تمہیں ناگوار ہے اس سے بچنے کی کوشش کی ہے، لیکن دیکھتا ہوں کہ تم ان کی کسی بات کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔"
جواب میں ابوطالب نے کہا: "واللہ! تم لوگوں نے مجھ سے انصاف کی بات نہیں کی ہے، بلکہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر میرے مخالف لوگوں کی مدد پر تُلے بیٹھے ہو تو ٹھیک ہے، جو چاہو کرو!"
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں