سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط 38


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 38 

حجر اسود کا تنازعہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حاکم مقرر ہونا:


آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر کا پینتیسواں (35) سال تھا کہ قریش نے نئے سرے سے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی۔ وجہ یہ تھی کہ کعبہ صرف قد سے کچھ اونچی چہار دیواری کی شکل میں تھا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانے ہی سے اس کی بلندی ۹ ہاتھ تھی اور اس پر چھت نہ تھی، اس کی تعمیر پر ایک طویل زمانہ گزر چکا تھا، عمارت خستگی کا شکار ہوچکی تھی اور دیواریں پھٹ گئی تھیں، ادھر اسی سال ایک زور دار سیلاب آیا، جس کے بہاؤ کا رخ خانہ کعبہ کی طرف تھا، اس کے نتیجے میں خانہ کعبہ کسی بھی لمحے ڈھے سکتا تھا، اس لیے قریش مجبور ہوگئے کہ اس کا مرتبہ و مقام برقرار رکھنے کے لیے اسے ازسرِ نو تعمیر کریں۔

ان ہی ایام میں ایک رومی جہاز طوفان میں گھِر کر شعیبہ (جدّہ کا قدیم نام) کی بندرگاہ سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، یہ اطلاع قریش کو ملی تو انہوں نے جہاز کے تختے کعبہ کی تعمیر کے لیے خرید لئے، طوفان میں بچنے والوں میں "باقوم" نامی ایک مصری معمار بھی تھا، اس نے تعمیر کے لئے اپنی خدمات پیش کیں، مکہ میں بھی ایک بڑھئی تھا جس سے کام لیا جا سکتا تھا، اس مرحلے پر قریش نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال رقم ہی استعمال کریں گے، اس میں فحاشی کرنے والیوں کی اُجرت، سود کی دولت اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

سہولت کی خاطر انہوں نے تعمیر کا کام تمام خاندانوں میں تقسیم کیا، دروازہ والی دیوار کی تعمیر بنی عبد مناف اور بنی زہرہ کے ذمہ ہوئی، حجر اسود اور رکن یمانی کی درمیانی دیوار کی تعمیر بنی مخزوم و تیم کے سپرد ہوئی اور پچھلی دیوار اٹھانے کا کام بنی سہم اور بنی حمج کے ذمہ ہوا، بنی عبدالدار، بنی اسد اور بنی عدی نے مل کر حطیم والا رخ بنانے کی ذمہ داری لی۔

نئی تعمیر کے لیے پرانی عمارت کو ڈھانا ضروری تھا، لیکن پُرانی عمارت کو گرانے سے لوگ ڈر رہے تھے، اس لئے کہ کچھ ہی عرصہ قبل یمن کا بادشاہ "ابرہہ" ہاتھیوں کو لے کر کعبہ کو ڈھانے کی نیت سے آیا تھا تو اس کا برا انجام ہوا تھا، جسے دیکھنے والے لوگ موجود تھے، بالآخر "ولید بن مغیرہ مخزومی" نے ابتداء کی اور کدال لے کر یہ کہا: "اے اللہ! ہم خیر ہی کا ارادہ کرتے ہیں۔" اس کے بعد دو کونوں کے اطراف کو کچھ ڈھا دیا، جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی آفت نہیں ٹوٹی تو باقی لوگوں نے بھی دوسرے دن ڈھانا شروع کیا اور جب قواعد ابراہیم تک ڈھا چکے تو تعمیر کا آغاز کیا۔

جب دیواریں حجر اسود نصب کرنے کے مقام تک اونچی ہوئیں تو قبائل میں سخت جھگڑا پیدا ہوا جو چار پانچ روز تک جاری رہا، ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ اعزاز اس کو حاصل ہو، نوبت یہا ں تک پہنچی کہ تلواریں کھنچ گئیں، عرب میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص جان دینے کی قسم کھاتا تھا تو پیالہ میں خون بھر کر ان میں انگلیاں ڈبولیتا تھا، اس موقع پر بھی بعض دعویداروں نے یہ رسم ادا کی، اس جھگڑے کی وجہ سے چار دن تک کام رُکا رہا، پانچویں دن قریش کے سب زیادہ معمر شخص "ابو امیہ بن مغیرہ" نے مشورہ دیا کہ کل صبح کو جو شخص سب سے پہلے باب بنی شیبہ سے حرم میں داخل ہو، وہی ثالث قرار دے دیا جائے، سب نے یہ رائے تسلیم کی۔

دوسرے دن تمام قبائل کے سردار موقع پر پہنچے، اللہ کی مشیت کہ اس کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، لوگوں نے آپ کو دیکھا تو چیخ پڑے کہ "ھذا الأمین رضیناہ ھذا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ یہ امین ہیں، ہم ان پر راضی ہیں یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔''

ذرا سوچیں اور غور کریں کہ جس عزت اور شرف کو ہر قبیلہ حاصل کرنا چاہتا تھا اور خون سے بھرے ہوئے پیالے میں انگلیاں ڈال ڈال کر مرنے مارنے پر شدید وغلیظ قسمیں کھا چکے تھے، اُس عزت وشرف کے معاملہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کرنے میں سب مطمئن ہیں۔

یہ معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کندھے سے ردائے مبارک اتاری اور اپنے دستِ مبارک سے حجر اسود اس کے اندر رکھا، پھر فرمایا کہ تمام قبائل اپنی چار بڑی جماعتوں میں سے ایک ایک نمائندہ چُن لیں، پہلی بڑی جماعت نے عتبہ بن ربیعہ، دوسری نے ابوزمعہ، تیسری نے ابوحذیفہ بن مغیرہ اور چوتھی جماعت نے قیس بن عدی کو اپنا نمائندہ منتخب کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان چاروں سے کہا کہ چادر کا ایک ایک کونہ تھام لیں اور اٹھا کر دیوار تک لے چلیں جہاں اسے نصب کرنا ہے، جب چادر موقع کے برابر آگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجر اسود کو اٹھا کر نصب کردیا۔

یہ گویا اشارہ تھا کہ کعبہ کی عمارت کا آخری تکمیلی پتھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے ہاتھوں سے نصب ہوگا، تمام بوڑھے اور تجربہ کار سردارانِ قریش آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذہانت، قوتِ فیصلہ اور منصف مزاجی کو دیکھ حیران رہ گئے اور سب نے بالاتفاق احسنت ومرحبا کی صدائیں بلند کیں۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں